Monday, March 14, 2016

جلسوں اور کانفرنسوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ



جلسوں اور کانفرنسوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ
==================
مقبول احمد سلفی /داعی و مبلغ دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف(مسرہ) سعودی عرب

آج کل دینی پروگرام جس میں لکچر،اجتماع، جلسے،سیمنار،دروس اور کانفرس بڑے شدت مد سے دیکھنے کو ملتے ہیں، ان پروگراموں سے عوام میں کچھ منفی اثرات کے ساتھ  دوررس نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہاں میں بڑے جلسے اور کانفرس جو ملکی یا بڑے پیمانے پہ ہواکرتے ہیں ان کے متعلق بات کرنا چاہتاہوں اور اپنے ناقص نظرئیے سے ان کا ایک سرسری مطالعہ حوالہ قارئین کرنا چاہتاہوں۔
پہلے اس بات کو ذہن میں ڈالتاچلوں کہ یہ دین کی تبلیغ رسانی کے لئے دینی اجتماع ، جلسے،دروس ، سیمناراور کانفرس منعقد کرنا جائز ہونے کے ساتھ وقت کےاہم ترین وسائل ابلاغ میں سے ہیں۔جاہل قسم کے کچھ لوگوں نے حلوہ خوری،فاتحہ خوانی،قرآن خوانی اور عرس ومیلےکے لئے دینی اجتماع سےاپنے من گھرنت ومصنوعی اعمال پہ دلیل پکڑی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ  جیسے یہ دینی پروگرام نوایجاد ہوتے ہوئے جائزہے  ویسے ہمارے یہ اعمال بھی۔ ان کی خدمت میں دولفظوں میں عرض ہے کہ دینی پروگرام ہم بغرض ثواب نہیں منقعد کرتے بلکہ انہیں ہم ذرائع ابلاغ سمجھتے ہوئے  دین کی تبلیغ کرتے ہیں جن کی نظیر تعلیمات مصطفوی میں دیکھی جاسکتی ہے مگر ان حلوہ خوروں کے خودساختہ عملوں کا ثبوت تو درکنار  دلائل کی رو سے بدعت کے درجے میں شمار ہوتے ہیں۔
جلسوں اور کانفرنسوں کے تعلق سے عوام میں ایک یہ بات بھی پھیلی ہوئی ہے کہ بڑے جلسے اور کانفرس کافی خرچیلے ہواکرتے ہیں جو قوم و ملت کابہت بڑا مالی خسارہ ہے ۔ ان پیسوں کو اگر تعلیمی،سماجی اور معاشرتی فلاح وبہبود میں صرف کیا جائے تو ان جلسوں اور کانفرنسوں سے بہتر ہے۔ دراصل اسی  بات نے مجھے خامہ فرسائی پہ مجبور کیا۔
اس وقت بین الاقوامی یا بڑے پیمانے پہ جو جلسے اور کانفرس منقعد ہورہے ہیں، ان میں کچھ خامیاں ضرور ہیں مگر بے فائدہ ہیں کہنا مبالغہ آرائی ہے ۔اگر بعض امور کا ازالہ کرلیاجائے تو جلسوں اور کانفرنسوں کے فوائد ہی فوائد نظر آئیں گے اور لوگوں کو حرف گیری کا موقع کم میسر ہوگا۔
(1) ان پروگراموں پہ خرچےواقعی زیادہ ہوتے ہیں تاہم بیجا اخراجات سے تو بچا جاسکتاہے۔نیزان خرچوں کے عوض اس قدر مفاد حاصل کرنے کے لئےانتظامیہ وعملاء(بشمول مقررین وخطباء)کو عمل میں اولاً اخلاص پیدا کرنا ہوگا،ثانیاً اچھے نتائج کےحصول کے لئے ویسے ہی کوشش کرنی ہوگی جیسے کسان اپنے کھیت میں اناج کی فراوانی کے لئے اپنائیت سے محنت کرتاہے۔
(2) جہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے وہاں فسادوبگاڑکا امکان بہت زیادہ ہوتاہے ۔ یہ بگاڑمنتظمین سے لیکرتمام سامعین وشرکاء تک کو شامل ہوسکتاہے ۔عبداللہ بن مبارک ؒ کا کہنا ہے کہ خواص کے بگاڑ سے عوام میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔اس لئے جہاں انتظامیہ کمیٹی ایسے مخلصین پہ منحصرہووہیں جلسے /کانفرس میں شریک ہونے والے تمام شرکاء کو فساد وبگاڑ سے بچانے کے لئے معقول انتظام کیا جائے ۔
(3) ایسے اناؤنسر سے بچاجائے جو بے القاب و تمہید طولانی کے ذریعہ پروگرام کو بے وجہ طول دیتاہو، اسی طرح متعدد شعراء ومغنی ضیاع وقت اور مقصد کی پامالی ہے ۔
(4)لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کے لئے صاحب علم پہ لچھےدارمقرر کو ترجیح دی جاتی ہے ، اس سے دینی اجتماع کا مقصد بھینٹ چڑھ جاتا ہےاور لوگوں کی بھیڑ جمع تو ہوجاتی ہے مگر فائدہ ندارد۔
(5) ان پروگراموں میں بڑی سے بڑی ہستیوں کو دعوت  تودی جانی چاہئے مگر کسی سیاسی یا معاشی مجبوری کے تحت نہیں۔ اگر مقصد دعوت نہیں مجبوری ہے تو اس کا عوام پہ ہی نہیں دعوت پہ بھی بہت برا اثر پڑتاہے ۔
(6) جیسے جنگل میں آگ لگتے ہی سارا جنگل خاکستر ہوجاتا ہے ویسے ہی ان بھیڑ میں جلسے یا کانفرس کی طرف سے کوئی عیب سامنے آجائے تو سوتقریروں پہ بھی پانی پھرجائے گا، اس لئے ہمیں کس قدر محتاط رہنا چاہئے پہلے سے خبر ہو خصوصا جہاں خواتین کا بھی انتظام کیا جائے۔
(7) پروگرام کی کامیابی میں پابندی وقت کا بہت دخل ہے ،جیسے وقت کسی کاانتظار نہیں کرتاویسے ہی پروگرام کےلئے کسی ہستی /فردکا انتظارنہ کیاجائے۔ وقت کی پابندی کامیابی اور عدم پابندی ناکامی و نامرادی ہے ۔
مذکورہ بالا چند منفی امور کو جلسوں اور کانفرسوں سے جدا کردیا جائے تو میراخیال ہے یہ کارنامے اپنی جگہ مکمل تعلیمی کورس ہیں ۔ جیسے لوگ کسی ادارے سے چند مہینوں میں کوئی کورس مکمل کرتا ہے ویسے ہی چند گھنٹوں میں لوگ جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ متعدد علمی  کورس پورا کرلیں گے ۔
اس وقت لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ ان جلسوں/کانفرسوں میں پیسے کا ضیاع،وقت کی پامالی ،اخلاص کا فقدان اورفائدہ عنقا ہوگیا۔ ان پروگرام سے سب سے بڑا فائدہ اجتماعیت کا ہوگا جوکہ اسلام کا مطلوب ومقصود ہے۔ دیگرفوائدمیں مقصدحیات کی معرفت، خوابیدہ شعورکی آمادگی،فکروعمل کاجذبہ،ایمان ویقین کی حرارت،دعوت وتبلیغ کا احساس،اتحاد ویگانگت کا مظہر،دین اسلام کا اعلان، نئی نسل کی تربیت، عوام الناس کی بیداری ،امربالمعروف ونہی عن المنکر کا داعیہ پیداہوناہے ۔ اور لوگوں کی کہاوت جلسوں /کانفرنسوں کا مقصد "آمدند،نششتند،خوردند، رفتند" فرسودہ و بے معنی ہوجائے گی ۔






0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔