Friday, May 30, 2014

حلالہ کرنے اور کرانے کی سزا


حلالہ کرنے اور کرانے کی سزا  : موت

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے،دونوںپرلعنت فرمائی ہے: لعن اﷲ المحل والمحلَّل لہ (جامع ترمذی:۱۱۱۹(

دوسری روایت میں حلالہ کرنے والے کو التیس المستعار (کرائے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۳۶(


حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کا فتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:کنّا نعد ھٰذا سفاحًا علی عھد رسول اﷲ ﷺ (تفسیر ابن کثیر :زیرآیت فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد... الآیۃ(
''
ہم رسول اللہ1 کے زمانے میں حلالے کی نیت سے کئے گئے نکاح کو 'زنا' سمجھتے تھے۔''

حضرت عمررضی اللہ کا فتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حلالہ کو زنا سمجھتے ہوئے حلالہ کرنے اور کرانے والے کو قابل رجم (سنگسار) سمجھتے تھے ۔

(1) امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211) نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسْدِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 265]۔
'حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔''

(2) امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، نا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَا أَجِدُ مُحِلًّا وَلَا مُحَلَّلًا لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُ»[سنن سعيد بن منصور: 2/ 75]۔
اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کرانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں رجم کردوں گا [ یعنی زنا کی حد قائم کردوں گا.
(3) امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا أُوتِيَ بِمُحَلِّلٍ وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 292]۔
'حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔''

کلام آخر :
۔۔۔۔۔۔
جب اسلام میں مروّجہ حلالے کی یہ حیثیت ہے کہ یہ لعنتی فعل ہے، اس کو صحابہ عہد ِرسالت میں زنا میں شمار کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے اس کو زنا سمجھتے ہوئے اس پر رجم کی سزا دینے کا اِظہار فرمایا، تو علمائے کرام سے لیکر حکومت ِوقت تک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کا سختی سے سدباب کرے بلکہ ایسے مفتیوں کے لیے بھی جو اس کے جواز کا فتویٰ اور ترغیب دیتے ہیں، سزا تجویز کرے۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, May 28, 2014

کتاب وسنت پر عمل کرنا واجب ہے

کتاب وسنت پر عمل  کرنا واجب ہے

س۱:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو کیوں نازل فرمایا؟
ج۱:- تاکہ اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- اتَّبِعُوْا مَا أُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ ۔ (اعراف:۳)
لوگو! جو کچھ تمہارے رب کی طر ف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو۔ ودلیل :
حدیث نبوی:- اقرأوٴا القراٰن واعملوا بہ ولا تأکلوا بہ۔ (صحیح ،احمد)
قرآن پڑھواور اس پر عمل کرو ،اور اسے ذریعہ معاش نہ بناوٴ۔


س۲:- لوگوں کے لیے قرآن نے سب سے اہم کون سی چیز کو بیان کیا ہے ؟
ج۲:- قرآن کی بیان کروہ سب سے اہم چیز خالقِ کائنات کی معرفت ہے ،(جو نعمتوں سے نوازتا ہے ،تن تنہا عبادت کا مستحق ہے) نیز ان مشرکین کی تردید ہے ،جو اپنے اولیاء کے بت بناکر انہیں پکارتے تھے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنَّمَا اَدْعُوا رَبِّی وَلَا اُشْرِکُ بِہ أَحَدًا ۔ (جن:۲۰)
اے نبی: کہو کہ ”میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا“۔

س۳:- تلاوت قرآن کی غرض وغایت کیا ہے؟
ج۳:- ہم قرآن کی تلاوت اس لیے کرتے ہیں تاکہ اسے سمجھیں ،اس میں غور وفکر کریں ،اور اس پر عمل کریں ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- کِتَٰبٌ أَنْزَلْنَٰہُ مُبَٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا ءَ ایَٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الأَلْبَٰبِ ۔ (سورةص:۲۹)
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں حضرت علی رضی الله عنہ سے مرفوعا وموقوفا ضعیف سند سے مروی ہے لیکن معنی صحیح ہے اور وہ درج ذیل فرمان نبوی ہے ۔
ألا انہا ستکون فتن قلت وما المخرج منھا؟ قال کتاب الله ، فیہ نبأما قبلکم وخبر بعدکم وحکم ما بینکم ھو الفصل لیس بالہزل ، وھوالذی من ترکہ من جبار قصمہ الله ومن ابتغی الھدی بغیرہ أضلہ الله ، فھو حبل الله المتین وھوالذکر الحکیم وھوالصراط الستقیم وھوالذی لاتزیغ بہ الأھواء ولا تلبس بہ الألسن ، ولا یشبع منہ العلماء ، ولا یخلق عن کثرة الرد ولا تنقضی عجائبہ وھوالذی لم ینتہ الجن اذ سمعتہ أن قالوا : اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)
(
آپ نے فرمایا ) خبردار! آگے چل کر بہت سے فتنے کھڑے ہونگے میں نے کہا ،ان سے ذریعہ نجات کیا ہوگا ،آپ نے فرمایا ،الله کی کتاب اس میں متقدمین ومتاخرین کی خبریں ہیں ،تمہارے معاملات کے فیصلے ہیں،وہ فیصلہ کن ہے ،خلاف حقیقت نہیں ،جس جابر وظالم نے اسے چھوڑا ،اسے الله نے برباد کردیا ،جس نے غیر قرآن سے ہدایت چاہی ،اسے الله تعالیٰ نے گمراہ کردیا،وہ الله کی مضبوط رسی ہے ،حکمتوں سے پرنصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے ،اسی کے ذریعہ خواہشات بہکتیں نہیں ،زبانیں بآسانی اسے پڑھ لیتی ہیں ،علماء اس سے بیزا ر نہیں ہوتے ،باربار دہرانے سے پرانی نہیں ہوتی ،اس کے عجائبات نہیں ختم ہونگے ‘وہی ہے جسے سن کرجنات یہ کہنے سے باز نہیں رہے اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)“ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے ،جس نے قرآن کی روشنی میں کوئی بات کہی ،سچ کہا ،جس نے اس کے ذریعہ فیصلہ کیا ،انصاف کیا جس نے اس پر عمل کیا مستحق اجر ہوا جس نے اس کی جانب دعوت دی ،صراط مستقیم کو پالیا۔

س۴:- قرآن مجید زندوں کے لیے ہے یا مُردوں کے لیے ؟
ج۴:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو مُردوں کے بجائے زندوں کے لیے نازل فرمایا ہے تاکہ اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں ،اس لیے کہ مُردوں کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں وہ اسے پڑھ نہیں سکتے ،نہ عمل کرسکتے ہیں اور اگر ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ،تو اس کا ثواب بھی نہیں ملے گا ،ہاں اگر پڑھنے والا مُردے کا لڑکا ہو تو دوسری بات ہے ،اس لیے کہ لڑکا باپ کی کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
لِّیَنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَ یَحِقَّ القَوْلُ عَلَی الکَٰفِرِیْنَ ۔ (یٰسٓ)
تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پرحجت قائم ہوجائے َ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَأَنَّ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَیٰ ۔ (نجم :۳۹)
اور یہ کہ انسان کیلئے کچھ نہیں ہے ،مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی ہے امام شافعی رحمہ الله نے اس آیات سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ مردوں کو قرآن خوانی کا ثواب نہیں ملے گا ، اس لیے کہ وہ نہ تو ان کا عمل ہے اور نہ ہی ان کی کمائی۔ دلیل:
حدیث نبوی:- اِذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ ۔
جب انسان مرجاتاہے تو تین چیزوں کو چھوڑ کر اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ۔صدقہ جاریہ یا نفع بخش علم یا نیک لڑکا جو باپ کیلئے دعاء کرے۔ (مسلم)
رہی میت کیلئے دعاء اور صدقہ کرنے کی بات، تو ان کا ثواب میّت کو پہونچے گا،جیسا کہ صاحب شریعت نے آیات واحادیث کے ذریعہ اس کی صراحت کردی ہے۔

س۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنے کی کیا حیثیت ہے ؟
ج۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا ۔ (حشر:۷)
اور جو چیز رسول تمہیں دے دیں اُسے لے لو ، اور جس چیز سے روک دیں اُس سے رک جاوٴ۔
حدیث نبوی:- علیکم بسنّتی وسنّة الخلفاء الراشدین المہدین تمسکوا بھا ۔ (احمد)
میرے طریقے کو لازم پکڑلو ،اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریق کار کو مضبوطی سے تھام لو ،(بشرطیکہ سنت نبوی کے خلاف نہ ہو

س:- کیا قرآن کریم کو کافی سمجھتے ہوئے حدیث پاک کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے ؟
ج:- ہرگز نہیں، اس لیے کہ حدیث نبوی قرآن کریم کی شارح ہے۔
فرمان الٰہی:- وَأَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔ (سورة النحل)
اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا گیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جاوٴ،جوان کے لیے اتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ خود بھی غوروفکر کریں۔
حدیث نبوی:- ألا وانّی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ۔ (صحیح ابوداوٴد)
خبردار! مجھے قرآن دیا گیا ہے ،ا ور اس کے ساتھ اس جیسی اور چیز بھی (حدیث پاک)۔

س۷:- کیا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے اقوال پر کسی قول کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔
ج۷:- ہرگز نہیں!
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّہَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللهِ وَرَسُولہِ ۔ (حجرات:۱)
ایمان والو! الله اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔
جب الله کی نافرمانی ہورہی ہو تو کسی دوسرے کی بات نہ مانی جائے عبدالله ا بن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے:
أخشی أن تنزل علیکم حجارة من السماء أقول لکم قال رسول الله ﷺ وتقولون قال أبوبکر وعمر۔
مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم پر پتھروں کی بارش نہ ہوجائے ،کیونکہ میں تمہیں احادیث نبوی کا حوالہ دیتاہوں ،اور تم ابوبکر وعمر رضی الله عنہم کی باتیں پیش کرتے ہو۔ (دارمی)

س۸:- زندگی میں کتاب وسنت کو فیصل بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ج۸:- کتاب وسنت کو فیصل بنانا واجب ہے ۔
فرمان الٰہی:- فَلَا وَرَبِّکَ لَایُوٴمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِیٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا ۔ (النساء)
(
اے محمد) تمہارے رب کی قسم ،یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے ،جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔
حدیث نبوی:- وما لم تحکم أئمتھم بکتاب الله ویتخیروا مما أنزل الله الا جعل الله بأسھم بینھم ۔(ابن ماجة،حسن)
حُکام کاکتاب الله کے مطابق فیصلہ نہ کرنا ، اور الله کے نازل کردہ قوانین میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنا باہمی اختلاف ونزاع کا باعث ہے ۔

س۹:- باہمی اختلاف ونزاع کاکیاحل ہے ؟
ج۹:- ان حالات میں قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔
فرمان الٰہی:- فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیٴٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الآَخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلًا ۔ (نساء:۵۹)
اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے الله اور رسول کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے۔اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
حدیث نبوی:- ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب الله وسنة رسولہ۔ (رواہ مالک وصححہ البانی فی الجامع الصحیح)۔
میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں جن پر عمل کرتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ،وہ الله کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہیں

س۱۰:- جو اپنے لیے شرعی امر ونواہی کو لازم نہ سمجھے اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۱۰:- ایسا سمجھنے والا کافر ومرتد اور خارج ازاسلام ہوگا۔ اس لیے کہ بندگی صرف الله کے لیے ہے ۔شہادتین کے اقرار کا یہ مفہوم فی الواقع پایا ہی نہیں جاسکتا ہے ،جب تک کہ الله کی ہمہ جہتی عبادت نہ کی جائے ،اس عباد ت میں بنیادی عقائد ،مراسم عبادت ،زندگی کے ہر معاملے میں شریعت الٰہیہ کو حَکَم ماننا اورمنہج الٰہی کی تطبیق وغیرہ سب کی سب داخل ہے ۔شریعت الٰہیہ کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کوحلت وحرمت کا معیار بنانا ،شرک ہے ،جو کسی صورت میں عبادت سے متعلق شرک سے مختلف نہیں۔ (دوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدہ “سے ماخوذ)

س۱۱:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہونا چاہئے ؟
ج۱۱:- محبت کا معیار ان کی اطاعت اور ان کے احکامات کی پیروی ہے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ (آل عمران)
اے نبی! لوگوں سے کہہ دو کہ اگرتم حقیقت میں الله سے محبت رکھتے ہو تومیری پیروی اختیار کرو ،الله تم سے محبت کرے گااورتمہاری خطاوٴں سے درگذر فرمائے گا ،وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔
حدیث نبوی:- لا یوٴمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۔ (بخاری ومسلم)
اس وقت تک کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔جب تک میں اسے اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔

س۱۲:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے کیا شرائط ہیں؟
ج۱۲:- ان کی محبت کے بہت سارے شرائط ہیں،جیسے:
۱۔ محبوب کی پسندیدہ چیزوں سے موافقت ۔
۲۔ اس کی ناپسندیدہ چیزوں کا انکار۔
۳۔ اس کے محبوبوں سے محبت ،اس کے دشمنوں سے بغض رکھنا۔
۴۔ اس کے دوستوں سے دوستی ، اس کے دشمنوں سے دشمنی۔
۵۔ اس کا تعاون کرنا ، اس کے طریق کار پر عمل پیرا ہونا۔
جو بھی ان امور کا پابند نہ ہوگا ،وہ اپنی محبت کے دعوے میں جھوٹا ہوگا اس پر شاعر کا یہ شعر صادق آئے گا #
لو حبک صادقًا لأطعتہ         ............ انّ المحب لمن یحب مطیع
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم محبوب کی اطاعت کرتے اس لیے کہ محبت کرنے والا محبوب کا مطیع ہوتا ہے

س۱۳:- خشوع وخضوع پر مشتمل محبت کس کے لیے ہونی چاہئے؟
ج۱۳:- ایسی محبت صرف الله کے لیے ہونی چاہئے۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَنْدَادًا یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔ (بقرہ:۱۶۵)
کچھ لوگ ایسے ہیں جو الله کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اورمدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں،جیسی الله کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے ۔حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر الله کومحبوب رکھتے ہیں۔

جمیل زینو کی کتاب سے ماخوذ
مکمل تحریر >>

Friday, May 23, 2014

قرآن كريم كى تلاوت کےبعض أہم آداب

قرآن كريم كى تلاوت کےبعض أہم آداب
(من آداب تلاوة القرآن )
قرآن مجید، انسان کے لئے اللہ تعالی کی ایک خاص نعمت ہے، جس میں موعظت و ہدایت، تفصیل و تکثیر انعامات الٰہی، تقرب ربانی اور کرامات کا دریا موجزن ہے، یہ ہر طرح انسان کے لئے باعث رحمت، باعث برکت، باعث مغفرت اور ہدایت کاملہ ہے،اللہ کی خوشنودی و رضامندی برائیوں سے بچاؤ، اچھائیوں کی راہ، آلام و مصائب سے چھٹکارا، دکھ تکلیف، رنج و کلفت سے بچاؤ کا طریقہ، امن و سکینت کا سبب اور رشد وہدایت نیز انسانی فلاح و بہبود کا منبع ہے۔
انسان کو صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات بنانے کے لئے اللہ نے خیر و شفاء کا یہ منبع سب نبیوں کے سردار اور رسولوں کے امام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا اور اس عظیم کتاب کے تھامنے والوں کو سب امتوں سے افضل اور پڑھنے والوں کو سب انسانوں سے بہتر قرار دیا ہے۔
قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے ، پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی سے ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے، صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے اس کے حضور حاضر ہو جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے، اچھی طرح مسواک کرکے، وضو کرکے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ روبیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنارہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہے،(اگر معنی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔) نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، جن آیات اللہ کی تقدیس و تحمید ہے وہاں سبحان اللہ کہے -
اس کتاب کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:

( ۱ ) اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر ، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا منزل من اللہ ، منز ل
        برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا، اس میں درج احکامات پر عمل کرنااور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور
       اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی بہتری کیلئے کوشش کرنا (دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات
       بنالینا)۔

 ( ۲ ) اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے ’’مرفوعۃ مطہرۃ‘‘کے الفاظ بیان
       کئے ہیں یعنی بلند و پاک ،سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے

( ۳ ) اس کو ناپاک ہاتھ نہ لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہوکر ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ میں یہی حکم ہے، نیز رسول اللہﷺ
          کی حدیث مبارکہ بھی ہے ’’لایمس القرآن الا طاہر‘‘ کہ ہرگز قرآن کو بے وضو نہ چھوا جائے، یہ وہ حکم نبوی ﷺ ہے جو
         حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔(مؤطا کتاب القرآن)

( ۴ ) جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور اس سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر
       کوئی غلطی ہوتو کوئی سننے والا درست کردے۔ امام بخاری نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا
        ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور
       لوچدار لہجے میں بلند آواز سے سورہ فتح پڑھ رہے تھے(کتاب التفسیر،بخاری)

( ۵  ) قرآن پاک خوش الحانی اورخوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: حسنوا القرآن باصواتکم فان
        الصوت الحسن یزید القرآن حسنا۔ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ
         کردیتی ہے

( ۶ ) قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لاتحرک
       بہ لسانک لتعجل بہ۔ کہ قرآن پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ (القیامہ)

( ۷ ) ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ورتل القرآن ترتیلا۔(مزمل) کہ قرآن کو ٹھہر
       ٹھہر کر پڑھنا چاہئے
       حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں : یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم
       الدین(شمائل ترمذی) کہ رسول اللہ ﷺہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے، کہ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر

       الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔ یعنی ہر آیت پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔

مکمل تحریر >>

سیرت نبوی پر سوال وجواب

سيرة النبى ﷺ
س : نبى كى ولادت كب ہوئى ؟
ج : 9۹ ربيع الأول  عام الفيل   بروزسوموار مطابق  ۲۰ يا۲۲ اپريل ۵۷۱ ء
س : آپ كا نام محمد اور أحمد كس نے ركھا ؟
ج : دادا عبد المطلب نے محمد اور والدہ نے أحمد ركها
س : آپ كے والد و والدة كا نام كيا تها ؟
ج : والد كا نام عبد الله اور والدة كا آمنہ تها
س :آپ كے والد كا انتقال كب ہوا تها ؟                             ج : آپ كى ولادت سے  قبل
س : آپ كى والدہ كے علاوہ كن كن عورتو نے آپ كو دودھ پلايا ؟       ج : ابو لہب كى لونڈى ثويبہ اور   دائى حليمہ
س :آپ كے والدہ كا انتقال كب اور كہا ہوا ؟
ج : جب نبى كى عمر تقرياب چھ سال كى ہوئى تو آپ كى والدہ آپ كے نا نہال سے لوٹتے وقت مكہ ومدينہ كے درميان مقام أبواء ميں
     وفات پا گئيں       
س :آپ كے دادا كا انتقال كب ہوا ؟            ج : جب نبى كى عمر ۸ سال دو مہينہ دس دن ہوئى تو دادا كا انتقال ہوا
س :آپ نے سب سے پہلے كب اور كس عورت سے شادى كى ؟
ج : پچيس سال كى عمر ميں حضرت خديجہ سے شادى كہ اور حضرت خديجہ كى عمر ۴۰سال تهى
س : حضرت خديجہ سے آپ كى كل كتنى اولاد ہوئى؟               ج : دو بيٹے اور چار بيٹيا ں
س :  دونوںبيٹوں كا نام كيا تها؟             ج : قاسم ، عبد الله  ( عبد الله كا لقب طيب و طاہر بهى تها )
س : بيٹيوں كا نام كيا تها ؟                    ج : زينب ، رقيہ ، ام كلثوم اور فاطمہ
س :آپ كے بيٹے ابراهيم  كس بيوى سے پيدا ہوئے ؟        ج : ماريہ قبطيہ
س : آپ كے بيٹوں كا انتقال كب ہوا ؟                    ج : سبھى بيٹے بچپن ميں انتقال كر گئے  كسى  كو اسلام كا زمانہ نہيں ملا
س : بيٹيو ںكى وفات كب ہوئى ؟
ج :  حضرت فاطمہ كے علاوہ سب بيٹياں نبى كى زندگى ميں وفات پا گئيں
س : حضرت فاطمہ كا انتقال كب ہوا ؟           ج : آپ كى وفات كے چھ ماہ  بعد
س (   )  : نبى ﷺ كى كل كتنى بيوياں تھيں؟                                                          ج : ۱۱
س (   )  :  نبى ﷺ كى بيويوں كے نام كيا ہيں ؟
           ج : خديجہ ،سودة ،عائشہ ، حفصہ ،زينب بنت خزيمہ ، ام سلمہ ، زينب بنت جحش ، جويريہ ،ام حبيبہ ،صفيہ ،ميمونہ،
س (   )  : نبى ﷺ كى دونوں لونڈيوں كے نام كيا ہيں ؟                             ج: ماريہ قبطيہ ، ريحانہ
س (   )  : خانہ كعبہ كى دوبارہ تعمير كے وقت نبى ﷺ كى عمر كتنى تهى ؟       ج : ۳۵ سال
س (   ) : نبى بنائے جانے سے پہلے آپ ﷺ  سال كے كس مہينہ ميں غار حرا ءميں جاكر عبادت كرتے تهے ؟   ج: رمضان
س (   ) : نبى كس غار ميں بيٹھ كر اللہ كى عبادت كرتے تهے ؟                                         ج: غار حراء
س (   ) :كتنے سال تك آپ نے غار حراء ميں عبادت كى ؟                                            ج: تين سال
س  (   ) :غار حراء كس پہاڑ پر واقع ہے ؟                                                          ج:جبل نور
 س  (   ) :غار حراء خانہ كعبہ سے كتنے ميل كے فاصلہ پر واقع ہے ؟                                     ج: دو ميل
س   (   ) : نبى بنائے جانے سے پہلے آپ  كتنے مہينہ تك سچے خواب ديكهاكرتے تهے ؟                   ج : چھ مہينہ
بعثت سے ہجرت تك
س  (   ) : آپ كو نبوت كب ملى ؟                                    ج : ۲۱ رمضان ۱۰ اگست  سن ۶۱۰ ء
س (   )   : نبى بنائے  جانےكے وقت نبى ﷺ كى عمر كتنى تھى ؟              ج : ۴۰ سال
س (   ) :كون سا فرشتہ آپ كے پاس وحى لے كر آيا ؟                  ج :حضرت جبرئيل
س (   ) : وحى آنے كے بعد آپ كے اطمينان و سكون كيلئے حضرت خديجہ آپ كو ليكر كہاں گئيں ؟
ج : اپنے چچا زاد بهائى ورقہ بن نوفل كےپاس
 س (   ) :ورقہ بن نوفل كون تهے ؟                ج :  ايك عيسائى عالم تهے
س (   ) : ورقہ بن نوفل نے آپ كو ديكھ كر كيا كہا ؟
   ج:آپ كے پاس بهى وہى فرشتہ آيا جو موسى و عيسى كے پاس آيا  كرتا تها اور آپ كى قوم بهى آپ كو گهر سے نكال دے گى
س 0(   ) : پہلى وحى آنے كے بعد كتنے دنوں تك وحى كا سلسلہ بند رہا  ؟         ج : دس دنوں تك
س  (   ) :  وحى بند رہنے كى حكمت كيا تهى ؟        ج : تاكہ آپ نبوت كى ذمہ دارى اٹھانے كے لئے ذہنى طور پر تيار ہوجائيں
 س  (   ) :دوسرى بار وحى آنے كے وقت كون سى آيتيں آپ پر نازل ہوئيں ؟ ج :سورہ مدثر كى شروع كى آيتيں
س  (   ) : عورتوں ميں سے سب سے پہلے كس نے اسلام قبول كيا ؟   ج: آپ كى بيوى حضرت خديجہ رضى الله عنہا
س (   ) : مردو ںيں سے سب سے پہلے كس نے اسلام قبول كيا ؟     ج:حضرت أبو بكر صديق رضى الله عنہ
س  (   ) : بچو ںيں سے سب سے پہلےكس نے اسلام قبول كيا ؟       ج : حضرت على بن أبى طالب رضى الله عنہ
س  (   ) : غلامو ںيں سے سب سے پہلے كس نے اسلام قبول كيا ؟    ج :حضرت زيد بن حارثہ رضى الله عنہ
س  (   ) : حضرت أبو بكر رضى الله عنہ كى كوشش سے كون لوگ اسلام لائے ؟
         ج : عثمان بن عفان ، زبير بن العوام ، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن أبى وقاص ، طلحہ بن عبيد اللہ
س  (   )   :نبى  نے كتنے سال تك مكہ ميں چهپ كر دعوت كا كام كيا ؟             ج: تين سال
س (   )   : نبى ﷺ نے مكہ ميں كتنے سال تك دعوت كا كام كيا  ؟       ج : ۱۳ سال
س (   )   :حبشہ كى طرف  پہلى دفعہ ہجرت ميں كل كتنے مہاجرين تھے ؟              ج : ۱۶
س (   )   :حبشہ كى طرف  دوسرى دفعہ ہجرت ميں كل كتنے مہاجرين تھے ؟      ج : ۸۳ مرد ۱۸ يا ۱۹ عورتيں        
س (   )  : پہلى بيعت عقبہ كب ہوئى تھى ؟                          ج : ۱۲ نبوى
س (   )  : دوسرى بيعت عقبہ كب ہوئى تھى ؟                       ج: ۱۳نبوى
س (   )  :حضرت عمر كى اس بہن كا نام كيا تها جو ان سے پہلے اسلام لے آئى تهيں ؟                     ج : فاطمہ بنت الخطاب
س (   )   : وہ تنہا  كون سى كنوارى عورت ہيں جن سے الله كے رسول  نے شادى كى  ؟                       ج : حضرت عائشہ
س (   )  :وہ كون سى عورت ہيں جن كو الله تعالى نے حضرت جبرئيل كے ذريعہ سلام بهيجا ؟            ج : خديجہ بنت خويلد
س (   )  :وہ كون سى سورہ ہے جسے جعفر بن أبى طالب نے نجاشى بادشاہ كے سامنے پڑها تها ؟       ج:سورہ مريم
س (   )  : طائف سے لوٹنے كے نبى ﷺ كو پناہ كس نے دى ؟                             ج : مطعم بن عدى
س (   ) :عام الحزن (غم كا سال ) سے كيا مراد ہے ؟            ج : جس سال أبو طالب اور حضرت خديجہ كا انتقال ہوا



مکمل تحریر >>