Monday, March 18, 2019

حدیث :میری سنت اور خلفاء کی سنت کولازم پکڑو –مفہوم وتقاضے


حدیث :میری سنت اور خلفاء کی سنت  کولازم پکڑو –مفہوم وتقاضے

مقبول احمد سلفی
دفترتعاونی برائے دعو ت وارشاد -طائف

دین اسلام اسی وقت مکمل ہوچکا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے، اسلام کی تکمیل کے بعد اس میں ایک بات بھی اپنی جانب سے داخل کرنا نئے امور میں سے ہے جن کے متعلق نبی نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے اور ہر قسم کی بدعت موجب جہنم ہے ۔جب  آپ کے بعد دین میں کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا، نئی بات پیدا کرنااور کسی قسم کی نئی فکر گھڑنا سراسر گمراہی ہے تو پھر ہدایت یافتہ خلفائے راشدین  اور تمام صحابہ کرام اس معاملے میں کس قدر محتاط ہوں گے ؟ ۔ ان کے متعلق جو کچھ اختلافات دیکھنے کو ملتے ہیں وہ نصوص کی فہم میں اختلاف اور اجتہاد کا نتیجہ ہے۔ آئیے  ایک مشہور حدیث کا صحیح معنی ومفہوم جانتے ہیں  جس کو سمجھنے میں بہت سے لوگوں نے یا تو خطا کی ہے یا جان بوجھ کر عوام میں غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے ۔
حدیث اور اس کا ترجمہ :
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، ثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ ، قَالَ : صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا ، قَالَ : " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي ، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " .
ترجمہ: عرباض بن ساریہ سے روایت ہے، انھوں نے یہ بیان کیا کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ایک نہایت موثر خطبہ دیا جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور دل کانپ اٹھے۔ مجمع میں سے کچھ اصحاب نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول :یہ تو ایک وداعی خطبہ معلوم ہوتا ہے تو ہمیں کچھ وصیت کیجیے۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے صاحب امر کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تمھارا صاحب امر کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے، وہ اب اور تب میں بڑا فرق محسوس کریں گے تو تم میری سنت کی اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا، اس کو مضبوطی سے تھامنا اور دانت سے پکڑنا اور دین میں جو نئی باتیں گھسائی جائیں، ان سے خبردار رہنا، کیونکہ ہر ایسی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
تخریج : سنن الترمذي: 2676، سنن أبي داود:4607، صحيح ابن حبان:5، ابن ماجہ :43،44،مسند احمد :16692، 16694، مشکوٰۃ المصابیح 165 ، مستدرک علی الصحیحین:334، سنن دارمی وغیرہ
حکم : جب حدیث بخاری ومسلم کے علاوہ کی کتاب سے ہو تو اس کا حکم جاننا ضروری ہوتاہے کیونکہ صحیحین کے علاوہ تمام کتب حدیث میں صحیح کے ساتھ ضعیف احادیث بھی ہیں ۔ عرباض بن ساریہ کی مذکورہ حدیث کی سند میں کوئی علت نہیں ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح ترمذی ، صحیح ابوداؤد،صحیح ابن ماجہ ، سلسلہ صحیحہ وغیرہ میں، شیخ الاسلام نے مجموع الفتاوی میں ، ابن الملقن نے البدرالمنیرمیں،ابن حبان نے اپنی صحیح میں،حافظ ابن حجرنے موافقۃ الخبرالخبرمیں،ابن عبدالبرنے جامع بیان العلم میں، شعیب ارناووط نےابوداود ، مسند احمد،صحیح ابن حبان اور ریاض الصالحین وغیرہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے۔ بعض محدثین نے اسے حسن بھی کہا ہے بہرحال یہ حدیث قابل حجت ہے ۔
حدیث کی شرح :اس میں تین الفاظ وضاحت طلب ہیں، پہلے ان کی وضاحت کردیتا ہوں  تاکہ حدیث کا صحیح مفہوم سامنے آسکے ۔
(1)سنت: سنت کا لغوی معنی’راستہ‘یا ’طریقہ‘ہے ۔
محدثین کے نزدیک سنت اور حدیث قریباً مترادف ہیں ۔سنت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال،تقریرات اورپیدائشی و اکتسابی اوصاف کا نام ہے ۔جبکہ ان چاروں چیزوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت حدیث کہلاتی ہے ۔گویا سنت صرف محمد ﷺکےطریقہ حیات کانام ہے۔
(2)بدعت : لغوی طور پر بدعت کا معنیٰ ہےکسی چیز کا ایسے طریقے سے ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہوجبکہ اصطلاحاً بدعت کہتے ہیں شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑ لینا جس کی قرآن و سنت میں کوئی دلیل نہ ہو۔
سنت کا حکم اسی حدیث میں ہے ۔۔۔۔علیکم بسنتی  یعنی نبی کی سنت کو ہر حال میں لازم پکڑنا ہےخواہ اختلاف کا زمانہ ہو یا امن وسکون کا۔
بدعت کا بھی حکم اسی حدیث سے مل جاتا ہے :وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ یعنی دین میں نئی بات ایجاد کرنا بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانےوالی ہے ۔
(3)خلافت : اس حدیث میں خلفائے راشدین سے مراد حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں جن کا زمانہ خلافت تیس سالوں کو محیط ہے جیساکہ صحیح حدیث میں مذکور ہےنبی ﷺکافرمان ہے: خلافةُ النبوةِ ثلاثونَ سنةً، ثم يؤتي اللهُ الملكَ، أو ملكَه، من يشاءُ(صحيح أبي داود:4646) حسن صحيح
ترجمہ: نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا(اپنی ) حکومت دے گا۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح ابوداؤد میں حسن صحیح قرار دیا ہے ۔ راوی حدیث سفینہ ابوعبدالرحمن مولی رسول اللہ ﷺتیس سال کی خلافت اس طرح بیان کرتےہیں۔ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کےدوسال،عمرفاروق رضی اللہ عنہ کےدس سال،عثمان رضی اللہ عنہ کےبارہ سال اورعلی رضی اللہ عنہ کےچھ سال ہیں۔
حدیث کا مفہوم : اللہ کا تقوی اختیار کرنے کے ساتھ اس حدیث میں اختلاف وانتشار اور گمراہی سے بچنے کا علاج بتلایاگیا ہے وہ یہ ہے ہرحال میں حاکم کی اطاعت کی جائے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے ،اسی طرح اللہ کی زمین پر اس کے دین کو قائم کرنے والے  خلفاء راشدین یعنی خلفاء اربعہ حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت علی اور حضرت عثمان کی سنت کو تھاماجائے کیونکہ یہ لوگ سنت رسول اللہ ﷺ پر ہی چلنے والے تھے اور دین میں نئی باتوں کو ایجاد سے بچیں کیونکہ ہرنئی چیز بدعت یعنی گمراہی ہے اورہر گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کی الگ سنت ہے اور خلفاء اربعہ کی الگ سنت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں ایک ہی سنت کا نام ہے جو سنت نبی ﷺ کی ہے وہی سنت خلفاء کی بھی ہے انہوں سے دین میں اپنے تئیں کوئی سنت ایجاد نہیں کی جو بعض امور خلفاءکی طرف سے نئے قسم کے ملتے ہیں وہ ان کے اجتہادات ہیں ۔ خلفاء اربعہ کا بہت اونچامقام ہے ، اللہ تعالی نے ان چاروں کو عشرہ مبشرہ میں سے بنایاہے مگر پھربھی انسان ہیں ، بحیثیت انسان خلیفہ سے یا کسی بھی صحابی سے غلطی کا امکان ہے ۔ ان بعض غلطیوں کی وجہ سے ان کے مقام ورتبہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جیساکہ نبی ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: ما ضرَّ عثمانَ ما عَمِلَ بعدَ اليومِ مرَّتينِ(صحيح الترمذي:3701-حسن)
ترجمہ: آج کے بعد جو بھی عثمان کرے ان کو کوئی نقصان لاحق نہیں ہوگا۔ دومرتبہ فرمایا۔
اسے شیخ البانی نے صحیح ترمذی میں حسن کہاہے ۔
خلفاء کی سنت لازم پکڑنے سے متعلق محدثین اور اہل علم کے نظریات:
(1) علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے کہا: خلفاء کی اسی سنت کی اتباع کی جائے گی جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ۔ (السلسلة الضعيفة 1/51-53)
(2)علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے کہا کہ خلفاء راشدین کی سنت سے مراد وہی طریقہ ہے جو نبی کریم ﷺ کے طریقہ سے موافقت رکھتا ہودشمنوں سے جہاد کرنے اورشعائراسلام کو تقویت پہنچانے کے لئے ۔یہ حدیث ہرخلیفہ راشد کے لئے عام ہے اسے شیخین کے ساتھ خاص نہیں کیاجائے گااور قواعد شرعیہ سے یہ بات معلوم ہے کہ کوئی بھی ایسا خلیفہ راشد نہیں ہے جو نبی ﷺ کے طریقہ سے ہٹ کر شریعت جاری کرے ۔ (سبل السلام 1/493)
(3) ابن حزم رحمہ اللہ نے الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں تین باتوں کا احتمال ہے ۔
٭ خلفاء جن باتوں میں اختلاف کریں ساری باتیں سنت سمجھ کرلے لی جائیں اور یہ امر محال ہےکیونکہ کچھ موافق باتیں ہیں تو کچھ ان کے برعکس ۔
٭یا یہ کہ ان مخالف باتوں میں جسے چاہیں اختیار کریں تو یہ ان کی سنت کی اتباع کے منافی ہے ۔
٭ اب ایک ہی راستہ بچا وہ یہ کہ جن میں صحابہ کا اجماع ہے انہیں لے لیا جائے اور خلفاء کا اجماع صحابہ کے اجماع سے الگ چیز نہیں ہے ۔
(4) امام شوکانی رحمہ اللہ نے الفتح الربانی میں کہا ہے کہ سنت ہی طریقہ ہے کہاگیا کہ میرا طریقہ اور خلفاء راشدین کا طریقہ لازم پکڑو۔ان خلفاء کا طریقہ وہی تھاجو نبی ﷺ کا ہے وہ لوگ طریقہ نبوی کے بیحد حریص تھے اور ہرچیز میں سنت پر عمل کرتے ، چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی سنت کی مخالفت سے ہرحال میں بچتے تو بڑے معاملات کا کیا حال ہوگا؟ اور جب ان کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے دلیل نہیں ملتی توبحث وتحقیق، مشورہ اور تدبر کے بعد جو رائے ظاہر ہوتی اس پر عمل کرتے توسنت کی عدم موجودگی میں یہ رائے بھی حجت ہے جیساکہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے ۔ {معاذ بن جبل والی یہ حدیث ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے ۔}
ان چند اقوال علماء سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خلفاء کا طریقہ وہی ہے جو نبی ﷺ کا طریقہ ہے البتہ خلفاء راشدین کی وہ باتیں جن کی سنت سے دلیل نہیں یا جو قرآن وحدیث کے دیگر نصوص سے ٹکراتی ہوں اسے چھوڑدیا جائے گا لیکن جن پر صحابہ کرام کا اجماع ہے وہ ہمارے لئے دلیل وحجت ہے ، اسی طرح صحابہ کے وہ اقوال بھی ہمارے لئے حجت ہیں جو نصوص شرعیہ سے متصادم نہ ہوں ۔
خلفاء کی سنت نبی ﷺہی کی سنت ہے ؟
صحابہ کرام یا خلفاء راشدین کا طریقہ وہی ہے جو نبی ﷺ کا ہے ، صحابہ زندگی کے تمام معاملات کا حل کتاب وسنت میں تلاش کرتے ۔ کسی خلیفہ راشدنے الگ سے کوئی طریقہ ایجاد نہیں کیاہے بلکہ وہ تو ہم سےکئی گنا زیادہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے حریص تھے ۔ اس  حدیث میں موجودسنتی اور سنۃ الخلفاء  کے الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ دھوکہ ہوگیا یا بعض لوگ جان بوجھ کر دھوکہ کھارہے ہیں کہ دونوں الگ الگ سنتیں ہیں  بلکہ سنۃ الخلفاء سے تقلید کی دلیل لی جاتی ہے جبکہ یہ مطلب بالکل غلط ہے ۔
اس حدیث کو قرآن کی ایک آیت سے سمجھیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرة:133)
ترجمہ: کیا تم اس وقت حاضر تھے جب یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا ۔ جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے ۔ تو انہوں نے کہا ہم آپکے الہ , اور آپکے آباء ابراہیم , اسماعیل اور اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے , جو کہ ایک ہی ا لہ ہے اور ہم اسکے لیے فرمانبردار ہونے والے ہیں ۔
یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے باپ کو جواب دیا کہ ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباء ابراہیم ، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے ، تو کیا یعقوب علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ اور اسحاق علیہ السلام کے معبود الگ الگ تھے ؟ نہیں ہرگز نہیں ان سب کا معبود ایک تھا۔ ٹھیک اسی طرح سے خلفاء کی وہی سنت ہے جو نبی ﷺ نے پیش کی ہے ۔
ہوبہو یہی بات سورہ فاتحہ میں کہی گئی ہے" اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ" پہلے صراط مستقیم کہا گیاپھر اسی صراط کو انعمت علیھم سے جوڑا گیا یعنی وہ لوگ  جن پر اللہ کی نعمت نازل ہوئی ۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے :
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : 115)
ترجمہ: اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
اس آیت میں رسول کے طریقہ کو مومنوں کا طریقہ کہا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلفائے راشدین کا طریقہ رسول کا ہی طریقہ ہے کیونکہ تمام مومنوں کو وحی الہی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔
اس بات کو حدیث عرباض بن ساریہ سے بھی بآسانی سمجھ سکتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ دین میں نئی بات پیدا کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ بھلا خلفائے راشدین اپنی طرف سے دین میں نئی بات کیسے گھڑیں گے جبکہ انہیں معلوم ہے کہ مومنوں کو وحی الہی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیروی کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول چھوڑا تھا۔ فرمان الہی ہے:
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (الاعراف:3)
ترجمہ:تم لوگ اس کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو ۔
فرمان نبوی ہے :
ترَكْتُ فيكم أَمرينِ ، لَن تضلُّوا ما تمسَّكتُمْ بِهِما : كتابَ اللَّهِ وسنَّةَ رسولِهِ{أخرجه مالك في الموطأ:2/899)
ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ، تم ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے جب تک ان دونوں کو تھامے رہوگے ، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوۃ کی تخریج میں حسن قرار دیا ہے ۔ {تخريج مشكاة المصابيح:۱۸۴}
خلفائے راشدین ہدایت یافتہ تھے، وہ دین کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے اور اپنے من سے ذرہ برابر بھی نہیں بولتے تھے ۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ابتدائے خلافت میں بعض لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر نے فرمایا:
واللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَن فَرَّقَ بيْنَ الصَّلَاةِ والزَّكَاةِ، فإنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَالِ، واللَّهِ لو مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ علَى مَنْعِهِ{صحيح البخاري:۷۲۸۴}
ترجمہ:واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔
ارتداد کے وقت اگر اپنی سنت جاری کرتے تو حضرت عمر کی طرح نرم گوشہ اختیار کرتے مگر انہوں نے رسول اللہ کی سنت جاری کی ۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ قول سونے سے لکھے جانے کے قابل ہے جس میں حجر اسود کو بوسہ دیتےوقت فرمایا گیا ہے:
«أَمَ وَاللهِ، لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ»(صحيح مسلم:1270)
ترجمہ:ہاں ،اللہ کی قسم!میں اچھی طرح جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے،اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تمھیں بوسہ دیتے تھے تو میں تمھیں(کبھی) بوسہ نہ دیتا۔
خلفاء راشدین اور سنت  رسول کے درمیان اختلاف کا حکم
بلاشبہ خلفائے راشدین کے بعض اجتہادات سنت رسول کے مخالف نظر آتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انہیں مجتہد مانتے ہیں ، ہمارے  لئے شارع صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ گویا معصوم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورخلفاء  مجتہدہیں جو معصوم نہیں ہیں ۔ ان سے خطا کا امکان ہوتا ہے اسی امکان کے سبب بعض معاملات میں اختلاف نظر آتا ہے۔ دین کے معاملے میں جہاں اختلاف نظر آئے وہاں اختلاف کو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی طرف لوٹانا چاہئے ۔ اللہ نے ہمیں ایساہی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ فرمان باری تعالی ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء:59)
ترجمہ:اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے ۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے صاف صاف فرمادیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو ، کتاب وسنت کو نافذ کرنے والے حکام کی بھی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اختلاف کے وقت حاکم وخلیفہ کی بات چھوڑ دی جائے گی ،اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کی جائے گی ۔
اجتہادی اقوال کی شرعی حیثیت :
اوپر ذکر کیا گیا کہ حدیث کہتے ہیں ہر وہ قول ، فعل ،تقریر یا صفت جو نبی ﷺکی طرف منسوب ہو ۔ اگر نسبت صحیح ہوئی تو حدیث صحیح ہوتی ہے ورنہ ضعیف ہوتی ہے۔
اس تعریف میں تقریر کا لفظ آیا ہے اس سے مراد صحابہ کا قول یا فعل جس کا علم نبی ﷺ کو ہوا ہو اور آپ ﷺ نےاس قول یا فعل پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کی ۔ گویا ایسا کوئی عمل صحابی یا قول صحابی جس پر رسول اللہ ﷺ نے خاموشی اختیار کی ہو وہ حدیث ہی کہلاتی ہے اگر اس تقریری حدیث کی سند صحیح ہو تو دین میں حجت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صرف اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔ ان دونوں کے ماسوا دین میں کسی کی بات قابل حجت نہیں ہے تاہم محض وہ اجتہادی مسائل جن میں شریعت خاموش ہواور صحابی کا قول یا فعل صحیح سند سے ثابت  ہورہا ہو تو اسے اختیار کیا جائے گا  بشرطیکہ شریعت کے کسی نص سے نہ ٹکراتا ہو، ان کا اجتہاد بعد والوں کے اجتہاد سے بہتر ہے بلکہ صحابہ کے وہ اقوال جن میں اجتہاد کا دخل نہ ہو تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے ۔
اجتہاد کا دائرہ تو وسیع ہے ، اس کا دروازہ قیامت تک کھلا ہوا ہے ،جدید قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور علمائے امت ان میں اجتہاد کرتے رہیں گے جن کا اجتہاد دلائل سے قوی ہوگا اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہے ۔ ائمہ اربعہ کے اجتہاد کا بھی یہی حکم ہے ۔ ان کے جو اجتہاد کتاب وسنت کے خلاف ہیں انہیں رد کردیں دراصل ان مسائل میں ائمہ کا بھی یہی موقف ہے اور جو مسائل کتاب وسنت سے نہیں ٹکراتے ان میں جس امام کا فتوی دلائل سے قوی معلوم ہو اختیار کرلیا جائے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف ایک امام کے ہی اجتہاد لیں گے ، نہیں ۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تقلید جائز نہیں ہے۔ سارے ائمہ ہمارے اپنے ہیں، ان سب کو اللہ نے دین میں بصیرت وفقاہت عطا فرمائی، استفادہ علم میں کسی ایک کی تخصیص اوردوسرے ائمہ سے صرف نظر کرنا سراسر زیادتی اور دوسرے ائمہ کی فقاہت وبصیرت اور حکمت ودانائی سے چشم پوشی کرناہے ۔ تمام ائمہ کا احترام ، ان کے اجتہادات سے استفادہ بلکہ ان کے علاوہ قیامت تک جو فقیہ ومجتہد پیدا ہوتے رہیں  گےتمام سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
مکمل تحریر >>

Saturday, March 16, 2019

کس کی دعا قبول ہوتی ہے ؟


کس کی دعا قبول ہوتی ہے ؟

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب


دعا مومن کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔مومن ہرآن وہرلمحہ اس سے جڑا رہتا ہے اور زندگی کے تمام مسائل اپنے خالق ومالک کے سامنے بیان کرتا رہتا ہے۔ خالق اپنے بندوں کی پکار سے خوش ہوتا ہے اور ہروہ چیز عطا کرتا ہے جس کے لئے اس کے بندے  نےندا لگائی ہے ۔ آج لوگوں کی اکثریت نےضعیف الاعتقادی اورایما ن میں کمزور ہونے کے باعث دعا کی اہمیت اور اس کی قبولیت سے اپنا اعتماد اٹھا لیا ہے ۔ دعا تو لوگ کرتے ہیں مگر عدم قبولیت کا رونا روتے ہیں ، اپنی دعاؤں پر اعتماد کرنے کے لئے پھرغیراللہ کا وسیلہ لگا تے ہیں ۔ پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ براہ راست اللہ کو پکارنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا مگر مزارات پہ دعا کرکے بڑے خوش ہوتے ہیں ، مردوں کا وسیلہ لگاکر دعاؤں کی قبولیت پہ اعتماد بندھ جاتا ہے ۔
ابتدائے آفرینش سے اللہ کی مخلوق نے ہمیشہ اللہ کو پکارا ہے، انبیاء کی بعثت کا عظیم مقصد ایک رب کو پکارنے کی طرف بلانا ہے ۔ انبیاء نے خود بھی اللہ کو پکارکر اپنی اپنی امت کو اس کی تعلیم دی ۔ قرآن میں کتنے پیغمبروں کا ذکر ہے جو اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہر مومن بلکہ اللہ کا ہرولی جو واقعی اللہ کا ولی ہو انہوں نے ہمیشہ اللہ کو ہی پکارا ۔
دعا خالص عبادت کا نام ہے ، تمام نبیوں کے سردار، تمام انسانوں میں اشرف ، تمام اولیاء میں سب سے مکرم ہم سب کے امام اعظم حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: الدُّعاءَ هوَ العِبادَةُ، ثمَّ قرأَ: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ(صحيح الترمذي:3372)
ترجمہ: دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت پڑھی : «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين»تمہارا رب فرماتا ہے، تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکاریعنی دعا کو قبول کروں گا، جو لوگ مجھ سے مانگنے سے گھمنڈ کرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے۔
آج مسلمانوں کا ایمان کس قدر گیا گزراہے کہ جعلی پیروفقیر اور پاکھنڈی باباؤں کی بات پہ تو شک نہیں ہوتا مگر انہیں نہ اللہ کے کلام پہ اعتماد ہے اور نہ ہی کائنات کی سب سے عظیم ہستی کے فرمان پہ اعتماد ہے ۔ مذکورہ بالاحدیث میں رسول اکرم ﷺ نے بتلایا کہ دعا عبادت ہے اور آپ ﷺ نے دلیل میں قرآن کی آیت پیش کی کہ رب کا فرمان ہے تم صرف مجھے پکارو ، میں تمہاری پکار کا جواب دیتا ہوں ، ہاں اللہ نے مزید فرمایا کہ لوگو! سن لو اگر تم نے مجھے چھوڑ کر غیرکو پکارا تو پھرتمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا وہ بھی ذلت ورسوائی کے ساتھ ۔ الحفظ والاماں۔
باری تعالی نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرۃ:186)
ترجمہ:جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔
اللہ نے اس قدر واضح کرکے بتلادیا کہ ناسمجھوں کو بھی سمجھ آجائے ۔اللہ قریب ہے اور ہمیشہ آدمی قریبی کو ہی پکارتا ہے ، اس طرح کی مثال دےکر اللہ نے اپنے بندوں کو بتلایا کہ مجھے ہی پکارا کرو، مجھے جو بھی پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا ہوں ۔ آگے اللہ نے نشانی بھی ذکر فرمائی ہے کہ جو اپنے حقیقی معبود کو پکارتے ہیں ان کا شعار اپنے رب پرصحیح معنوں میں ایمان لانا اور اپنے خالق کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا ہے ۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ کو پکارتے ہیں وہ نہ رب پر صحیح ایمان لانے والے ہیں اور نہ رب کی اطاعت بجالانے والے ہیں ۔
اللہ ہرجگہ سے اور ہر لمحہ بندوں کی پکار سنتا ہے مگر اس کی شان کریمی اوربندوں پرعظیم مہربانی دیکھیں کہ وہ فریاد سننے ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے: يَتَنَزَّلُ رَبُّنا تَبارَكَ وتَعالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إلى السَّماءِ الدُّنْيا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، يقولُ: مَن يَدْعُونِي فأسْتَجِيبَ له، مَن يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَن يَسْتَغْفِرُنِي فأغْفِرَ له.(صحيح البخاري:6321)
ترجمہ: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ میں اس کی بخشش کروں۔
دعا سے متعلق قرآن وحدیث میں بہت سارے نصوص ہیں جن کے ذکر کا یہ مقام نہیں ہے ، یہاں میرا مقصد ان لوگوں کا ذکر کرنا ہے جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ،مذکورہ باتیں بطور تمہید تھیں تاکہ اگر کسی کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو عدم قبولیت کی وجہ تلاش کرے اوراپنی اصلاح کرلے ۔
تین قسم کے لوگوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی،رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثلاثُ دعَواتٍ مستجاباتٌ دعوةُ المظلومِ ودعوةُ المسافرِ ودعوةُ الوالدِ على ولدِهِ(صحيح الترمذي:3448)
ترجمہ:تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی بد دعا اپنے بیٹے کے حق میں۔
مظلوم پر ظلم کرنے والا اللہ سے بے خوف ہوتا ہے یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت اپنے ذہن سے خالق کا تصور نکال چکا ہوتا ہے ۔ جس کے ذہن میں خالق کا تصور ہو وہ کبھی دوسروں پر ظلم نہیں کرسکتا کیونکہ خالق اس کائنات کا خالق ہی نہیں منصف بھی ہے ، اس کی عدالت میں حق کے ساتھ فیصلے ہوتے ہیں ۔ اگر اس کے یہاں انصاف نہ ہوتا تو فرعون جیسے لوگ کمزوروں کو دنیا میں زندہ نہیں چھوڑ تے ۔ دنیا میں لوگوں کی عدالت محض دھوکہ ہے ، انصاف تو اللہ کی عدالت میں ہے ۔ جب کبھی کوئی کسی پرظلم کرتا ہے اور مظلوم اپنے خالق سے اس ظالم کے خلاف فریاد کرتا ہے تو پھر دنیا میں ظالم کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب عامل بنا کر یمن بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی:
اتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فإنَّهَا ليسَ بيْنَهَا وبيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ.(صحيح البخاري:2448)
ترجمہ: مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
مظلوم کافر بھی ہو تو اس کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے: دعوةُ المظلومِ مُستجابةٌ ، وإن كان فاجرًا ففُجورُه على نفسِه(صحيح الترغيب:2229)
ترجمہ: مظلوم کی دعا قبول کی جاتی ہے، چاہے فاجر ہی کیوں نہ ہو، فجور(کا خمیازہ) اسی کی جان پر ہوگا۔
ظلم وزیادتی دربار الہی میں اس قدرسنگین جرم ہے کہ اس کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی دی جائے گی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما من ذنبٌ أجدرُ أن يُعجِّلَ اللهُ لصاحبِه العقوبةَ في الدنيا مع ما يدَّخِرُ له في الآخرةِ من البغيِ وقطيعةِ الرحمِ(صحيح ابن ماجه:3413)
ترجمہ: ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لئے بھی اسے باقی رکھا جائے ۔
مظلوم کی طرح مسافر کی دعا اور والد کی اپنے اولاد کے حق میں دعا کبھی رد نہیں ہوتی ۔ اس پس منظر میں آپ سے یہ عرض کرنا ہے کہ ظلم کا بدلہ لے لینے سے کوئی مظلوم نہیں رہ جاتا ، سفر میں برائی کرنے سے دعا بے اثر ہوجائے گی اور باپ کا نیک وصالح نہ ہونادعا کی تاثیر چھین لے گا ۔
ان تین لوگوں کے علاوہ حدیث میں صالح اولاد کی دعا کا ذکر ہے جو باپ کے حق میں قبول کی جاتی ہے ۔ ایک روایت مسلم میں ہے جس میں تین چیزوں کے صدقہ جاریہ کا ذکر ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إِذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عنْه عَمَلُهُ إِلَّا مِن ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِن صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو له.(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے ) : ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے ۔
ابن ماجہ کی حسن درجے کی روایت میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں : إنَّ الرَّجلَ لتُرفَعُ درجتُه في الجنةِ فيقولُ : أنَّى هذا ؟ فيقالُ : باستغفارِ ولدِك لكَ(صحيح ابن ماجه:3/214)
ترجمہ: آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا ) اس کو جواب دیا جائے گا کہ تیرے لئے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے ۔
باپ کا اپنے بیٹے پر زندگی بھر کا احسان ہوتا ہے بطور خاص طفولت سے جوانی تک ۔ اولاد کے لئے والدین کی قربانی کا دنیا میں کوئی صلہ ممکن نہیں ہے تاہم ان کی قربانیوں اور احسان وسلوک کے تئیں کثرت سے ان کے لئے دعا واستغفار کرنا چاہئے ۔
ایک حدیث میں غازی، حاجی اور معتمران تین قسم کے آدمیوں کی دعا قبول ہونے کا ذکر ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الغازي في سبيلِ اللَّهِ، والحاجُّ والمعتمِرُ، وفْدُ اللَّهِ، دعاهُم، فأجابوهُ، وسألوهُ، فأعطاهُم(صحيح ابن ماجه:2357)
ترجمہ: اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے غازی اور حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ، اللہ نے انہیں بلایا تو وہ آگئے لہذا اب وہ اللہ سے سوال کریں گے تو اللہ انہیں عطا فرمائے گا۔
اللہ جنہیں غزوہ یا حج وعمرہ کی سعادت بخشے وہ اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرےاور کثرت سے اللہ کو پکارے ، اللہ ان کی مرادیں پوری فرمائے گا۔
اپنے بھائیوں کی پیٹھ پیچھے دعا کرنا بھی قبولیت کا باعث ہے نیز دعا کرنے والے کے حق میں بھی وہ دعا قبول ہوتی ہے ۔ نبی ﷺفرماتے ہیں :
دَعْوَةُ المَرْءِ المُسْلِمِ لأَخِيهِ بظَهْرِ الغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّما دَعَا لأَخِيهِ بخَيْرٍ، قالَ المَلَكُ المُوَكَّلُ بهِ: آمِينَ وَلَكَ بمِثْلٍ(صحيح مسلم:2733)
ترجمہ: مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے : آمین ، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔
اللہ تعالی توبہ کرنے والی کی بھی دعا قبول کرتا ہے بلکہ توبہ کرنے والا اللہ کے نزدیک محبوب وپسندیدہ بندہ ہے ، فرمان الہی ہے :
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (الشوري:25)
ترجمہ: وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو سب جانتا ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ عَبْدًا أصابَ ذَنْبًا - ورُبَّما قالَ أذْنَبَ ذَنْبًا - فقالَ: رَبِّ أذْنَبْتُ - ورُبَّما قالَ: أصَبْتُ - فاغْفِرْ لِي، فقالَ رَبُّهُ: أعَلِمَ عَبْدِي أنَّ له رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ ويَأْخُذُ بهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي(صحيح البخاري:7507)
ترجمہ: ایک بندے نے بہت گناہ کئے اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا ہی گنہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ۔
بلکہ اس حدیث میں ہے کہ بندہ باربار گناہ کرتا ہے اور باربار اللہ سے توبہ کرتا ہے اور اللہ اپنے بندے کو بخش دیتا ہے۔
اللہ کبھی کبھار گنہگار کی بھی دعا قبول کرلیتا ہے حتی کہ شرک کرنے والی کی دعا بھی قبول کرلیتا ہے، یہ اللہ کی مہربانی ہے ۔ ممکن ہے عاصی اپنے گناہوں سے پلٹ جائے، توبہ اور استغفار کرلے ۔ اللہ تعالی مشرکوں کی دعا کے بارے میں ذکر کرتا ہے :
وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا (الاسراء:67)
ترجمہ:اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
اللہ نے تو شیطان کی بھی دعا قبول کی ہے ، فرمان باری تعالی ہے : قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ، قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ (الاعراف:14-15)
ترجمہ:[شیطان نے] کہا: میرے پروردگار!مجھے دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دے دے، [تو اللہ تعالی نے] فرمایا: تجھے مہلت [دے دی]ہے۔
دعا اصل میں مومن ومتقی بندوں کی قبول کی جاتی ہے ، گنہگاروں کی دعا کبھی قبول ہوجائے تو اس کا مطلب نہیں کہ گناہ کا دعا پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ گناہ کا دعا پہ بہت اثر پڑتا ہے اور حرام کمائی کا تو بیحد اثر پڑتا ہے چنانچہ صحیح مسلم میں وارد ہے :
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إلى السَّماءِ، يا رَبِّ، يا رَبِّ، ومَطْعَمُهُ حَرامٌ، ومَشْرَبُهُ حَرامٌ، ومَلْبَسُهُ حَرامٌ، وغُذِيَ بالحَرامِ، فأنَّى يُسْتَجابُ لذلكَ؟(صحيح مسلم:1015)
ترجمہ:پھر آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے ۔ میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی۔
اگر کبھی مزار پہ دعا کرنے سے قبول ہوجائے، اگر کبھی غیراللہ کو پکارنے سے دعا قبول ہوجائے ، اگر کبھی اولیاء کے وسیلے سے دعا قبول ہوجائے تو مسلمان کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس طرح دعا کرنا صحیح ہے یا ایسے دعا کرنے سے جلد قبول ہوتی ہے ۔ ہرگز نہیں ۔اولا :ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ دینے والا صرف اللہ ہے خواہ مانگنے والا کہیں بھی جاکر مانگے ۔ثانیا: اللہ تعالی بندوں کو طرح طرح سے آزماتا ہے اور آزمائش میں مبتلا کرکے گناہ سے پلٹنے اور توبہ کرنے کی مہلت دیتا ہے ۔ کوئی مسلمان یہ عقیدہ رکھے کہ قبر والا بھی دیتا ہے تو پھر ہندؤں کا عقیدہ پتھر سے مانگنا بھی صحیح ہوجائے گا کیونکہ کبھی کبھی اس کی بھی مراد پوری ہوجاتی ہے جبکہ ایک ادنی مسلمان بھی کہے گا کہ پتھر نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے تو پھر یہ بھی عقیدہ رکھیں کہ قبر والا بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے ۔ یہی عقیدہ قرآن ہمیں سکھلاتا ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ (یونس:106)
ترجمہ: اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسے کو مت پکارو جو تجھ کو نہ نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان پہنچا سکے ، پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔
اپنے مومن وموحد بھائیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ سے دعا کرتے رہیں وہ ہر نیک بندے کی دعا قبول کرتا ہے ، دعا کی قبولیت پہ یقین بھی رکھیں ، کیا آپ نے شروع مضمون میں اللہ کا کلام نہیں پڑھا جس میں ذکر ہے کہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکارسنتا ہے بشرطیکہ وہ صحیح معنوں میں اس پر ایمان لانے والا ہو اور اس کے احکام کی تابعداری کرنے والا ہو۔ اللہ کے نزدیک دعا سب سے معزز چیز ہے ،نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ليسَ شيءٌ أَكْرَمَ على اللَّهِ تعالى منَ الدُّعاءِ(صحيح الترمذي:3370)
ترجمہ:اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی دعا کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ،نبی ﷺ فرمان ہے :
إنَّ اللَّهَ حيِىٌّ كريمٌ يستحي إذا رفعَ الرَّجلُ إليْهِ يديْهِ أن يردَّهما صفرًا خائبتينِ(صحيح الترمذي:3556)
ترجمہ:اللہ «حيي كريم» ہے یعنی زندہ و موجود ہے اور شریف ہے اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو خالی اور ناکام و نامراد واپس کر دے۔
ہاں یہ بات جان لینے کی ضرورت ہے کہ دعا کی قبولیت کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں چنانچہ نبی ﷺ کا یہ فرمان ملاحظہ فرمائیں :
ما من مسلمٍ يدعو بدعوةٍ ليس فيها إثمٌ ، ولا قطيعةُ رَحِمٍ ؛ إلا أعطاه بها إحدى ثلاثَ : إما أن يُعجِّلَ له دعوتَه ، وإما أن يدَّخِرَها له في الآخرةِ ، وإما أن يَصرِف عنه من السُّوءِ مثلَها . قالوا : إذًا نُكثِرُ . قال : اللهُ أكثرُ .(صحيح الترغيب:1633)
ترجمہ:جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔
گویا دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، کبھی فورا قبول کرلی جاتی ہے ، کبھی اس کی قبولیت میں تاخیر ہوسکتی ہے ، کبھی اسے آخرت کے لئے ذخیرہ بنا دی جاتی ہے تو کبھی اس کے بدلے برائی دفع کی جاتی ہے ۔
بہرکیف! دعا عبادت ہے اس لئے عاجزی اوراخلاص کے ساتھ صرف اپنے خالق کو پکاریں، دعا کرتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، براہ راست اسی سے مانگیں، دعا کرتے ہوئےزندہ یا مردہ کسی کا وسیلہ نہ لگائیں بلکہ اللہ کے اسمائے حسنی اور اپنے اعمال صالحہ کا وسیلہ لگائیں ، گناہوں سے بچیں، صحیح طور پر اللہ پر ایمان لائیں ، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پاسداری کریں،توبہ کے ساتھ دعاکریں، حرام کمائی سے بالکل دور رہیں ، لوگوں کا حق نہ ماریں ، نہ ہی کسی پر ناحق ظلم کریں اور دعا میں افضل اوقات کا خیال رکھیں ۔ان باتوں کا پاس ولحاظ ہوگا تو رب العالمین بے شک ہماری دعا قبول فرمائے گا۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, March 12, 2019

ایک مظلومہ مطلقہ کا گھر دوبارہ کیسے بسا ؟


ایک مظلومہ مطلقہ کا گھر دوبارہ کیسے بسا ؟
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوشل میڈیا نے فاصلہ کم دیا، پیغام رسانی نہایت آسان تر کردیا، روابط کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کردیا۔ آج ایک جگہ تنہائی میں بیٹھا شخص دنیا کے کونے کونے تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے ، جس سے چاہے لمحوں میں رابطہ کرسکتا ہے اور اس تک اپنی بات برق جیسی تیز رفتاری کے ساتھ پہنچا سکتا ہے ۔ یہ سوشل میڈیا کی حیرت انگیز قوت وطاقت ہے ۔ اس سے ساری دنیا فائدہ اٹھارہی ہے ، سیاست داں سے لیکر عام آدمی تک اپنے اپنے مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کررہا ہے ۔ یہ کمال ہی تو ہے کہ ایک مظلوم جس کی کوئی سننے والا نہیں تھا، خصوصا مظلوم جب مسکین ولاچار ہو تو اس کی آواز صدا بصحراءثابت ہوتی مگر آج سوشل میڈیا نے مظلوموں کی آواز دور دور تک پہنچائی حتی کہ اب اس کی گونج سیاسی ایوانوں سے لیکر عوامی حلقوں میں سنائی دی  جاتی ہے۔ایک ایسی ہی مظلومہ کی دکھ بھری ایک داستان آپ کو سنانے لگا ہوں جس کا اجڑا گھر بسنے میں تین سال لگ گیا۔ کہانی ہے پاکستان کی ایک دکھیاری سمیرا رحمن کی جس کا نکاح 24/ مئی 2015 کو ہوا اور تقریبا پانچ ماہ بعد عدالت کے ذریعہ شوہر کی طرف سے طلاق کا ایک نوٹس ملا جس پہ 15/10/2015 کی تاریخ مرقوم ہے اور اس میں لکھا ہے کہ آئے دن جھگڑا کی وجہ سے من مقر اس فیصلے پر مجبور ہے کہ اپنی بیوی کو شریعت محمدی کے مطابق طلاق ثلاثہ دیتا ہے ۔
طلاق کے بعد بہت کم لوگ ہوں گے جو پچھتاتے نہ ہوں ، اکثریت افسوس کرتی ہے مگر جس کے یہاں امام متعین کی اندھی تقلید ہو اور کسی نے اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دے دیا ہوں اس کے یہاں پچھتانے اور افسوس کرنے کے علاوہ نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔اسی سبب سماج پر طلاق ثلاثہ کے بھیانک نتائج واثرات مرتب ہیں ، طلاق ثلاثہ کا قہر میں نے اپنے ایک مضمون میں بیان کیا ، اس داستان خونچکاں کو پڑھنے والا میرے بلاگ میں قہر والا مضمون ضرور پڑھے ۔ 
 یہاں پر مجھے ہندوقوم کی قدیم تہذیب ستی یاد آتی ہے جس تہذیب میں مظلوم بیوہ کوشوہر کے آگ میں زبردستی جھونک دی جاتی ہے ، بیوہ تکلیف در تکلیف پر روتی، بلبلاتی، چیختی اورچلاتی ہے اور تہذیب کے علمبردار اس چیخ کو عورت کی رسم اورآگ میں پھینکنے کو دین ومذہب سمجھتے ہیں ۔ ٹھیک اسی کیفیت میں مطلقہ ثلاثہ پہ حلالہ کا جبر ہوتا ہے ، عورت چیختی ہے ، مدد کی گہار لگاتی ہے مگر تقلید کے علمبردار حلالہ کرکے ہی دم لیتے ہیں اور تقلیدپر کسی طرح آنچ نہیں آنےدیتے ہیں بلکہ ایسے  ہی جبر سے تو تقلید کو قوت وحفاظت نصیب ہوتی ہے ۔ واہ رے ستی کے علمبردار اور حلالہ کے ٹھیکیداروچوکیدار۔
میری  اس کہانی میں شوہر کو اپنے کئے پر افسوس ہوتا ہے اوروہ اپنی بیوی کے پاس لوٹ کر آنا چاہتا ہے ۔ بیوی حد درجہ اپنے شوہر سے محبت کرتی ہے اوروہ بھی  پھر سے اپنا گھر بسانا چاہتی ہے ۔شوہر نامدار حنفی علماء سے فتوی پوچھتے رہے ، ان کی طرف سے جواب آتا رہاکہ اب اس بیوی کی طرف لوٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ، ہاں ایک حیلہ اختیار کروحلالہ کا تو پھر واپس بیوی کے پاس جاسکتے ہو۔ واقعی حلالہ ایک حیلہ ہے جس سے عورت کی عزت وناموس تارتار کیا جاتا ہے ۔ غیرت مند مرد اور غیرت مند عورت کبھی اس حیلے سے عزت نیلام نہیں کرتے ۔ انہیں غیرت مندوں میں سے اس کہانی کا مرد اور اس کہانی کی عورت بھی ہے۔شوہراپنے مسلک کے علماء سے فتوی پوچھتے پوچھتے طلاق پہ تین سال کا لمبا عرصہ گزر گیامگر گھر بسنے کا کسی نے راستہ نہیں بتلایا۔
ادھر مظلومہ مطلقہ کی داستان بڑی دلخراش ہے ، اس کے پاس ایک شادی شدہ بہن ہے ، کینسر کی مریض والدہ ہے ، بچپن میں والد فوت ہوگیا، گھر میں نہ بھائی اور نہ کوئی مرد۔ خالو ہیں جو کبھی پریشانی میں دیکھ سن لیتے آجاتے ہیں ۔جب اس عورت کو طلاق ہوئی تو میکے چلی آئی ، اس لڑکی کی ماں نے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کرلی تھی ، جب طلاق کے بعد جوان بیٹی گھر آئی تو اس مرد کو جلن ہونے لگا، اپنی بیوی کو بے عزت کرنے لگااور اسے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ، ماں آخر کار ماں ہوتی ہے وہ جوان بیٹی کو بھلا گھر سے کیسے بھگائے گی اور وہ مظلوم بیٹی ابھی سہارے کے قابل ہے نہ کہ مزید اس پہ ظلم کرنے کے ۔افسوس کہ معاشرے میں طلاق کے بعد عورت گھرکا بوجھ اور سماج کا طنز وتمسخر بن کر رہ جاتی ہے ۔ گھر سے لیکر باہرتک تکلیف دہ باتوں سے مطلقہ کا دل چیرا جاتا ہے ، عورت ہی ہے کہ اس قدر کانٹوں بھرے لمحوں میں بھی صبر کا پہاڑ بن جاتی ہے ،مردوں سے ایسا صبر محال ہے ۔
بہرکیف! لڑکی کی ماں نے اپنے دوسرے شوہر کودوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ میرے ساتھ رہنا ہو تو رہو ورنہ میرے پاس سے چلے جاؤ،میری بیٹی کہیں نہیں جائے گی ، یہیں میرے ساتھ رہے گی۔ شوہر کب اپنی بے عزتی برداشت کر سکتا ہے وہ بھی کمزور صنف یعنی عورت سے ۔ شدید غصے کا اظہار کرتا ہے،آدھی رات میں بیوی کو مارتا ہے اور بیوی ایک غمگسار ماں بن کر دکھیاری بیٹی کے لئے غم غلط کرنے کا سامان مہیا کرتی ہے ۔ بزدل مرد نے بیوی کو مارا، بیٹی کی طرف چھری لیکر دوڑا،اسے بھی مارا، بہت ہی لعن طعن کیا اورسارے رشتے توڑکر گھر سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔قربان جائیں ماں کی ممتا پہ، ایک ماں نے مظلوم بیٹی کا سہارا بننے کے لئے اپنا گھر اجاڑ لیا۔اللہ نے ماں کے دل میں رحم کا جذبہ کس قدر موجزن کیا ہے؟سبحان اللہ  
دوسرے شوہر کے جانے کے بعد ماں نے بیٹی کو سہارا دیا، بیٹی اپنا گھر بسانے کے لئے دن رات اللہ سے دعائیں کرتی رہی،اللہ سے نیک آدمی سے ملاقات کی دعا کرتی جس کے ذریعہ اس کا معاملہ درست ہوجائے ۔ وہ دیر تک ماں پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی اور سماج کے طعنےسے بھی کافی خوف زدہ ہوچلی تھی ، باپ کے چلے جانے کا طعنہ ، ماں کی طرح دوسری شادی کرے گی اس بات کا طعنہ۔ لڑکی کہتی ہے کہ وقت اتنا سنگین تھا اگر والدہ نہ ہوتی تو میری بہن بھی  شایدمیرا سہار انہ بن پاتی۔
وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ تین سال گزرگئے ۔ اتفاق سے لڑکی کی ہمنام سہیلی کے ذریعہ اسے  میرا واٹس ایپ نمبر ملا،اس نے طلاق نامہ بھیجا اور اپنا مسئلہ بیان کیا اور مجھ سے اس کا حل پوچھا ۔ میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ آڈیو میں صرف ایک طلاق واقع ہونے کا ذکر کیا اور بتلایا کہ وہ اپنے سابق شوہر سے نکاح کرکے دوبارہ اس کے پاس جاسکتی ہے ۔میری بات پہ بہت ہی اطمینان ہواجیسےاندھیرے کے مسافرکوشمع مل گئی ہو۔ جب اپنےسابق شوہر سے ملنے کی امید جاگی تو والدہ سے بات کی جس کے دل میں بھی یہ خیال گھر کرگیا تھا کہ میری بیٹی دوبارہ اپنا گھر نہیں بسا سکتی ہے ۔ لڑکی نے اپنی ماں کومیرا آڈیو میسج سنایا تو انہوں نے مجھ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی ، میں نے ایک وقت طے کیا اور اس وقت لڑکی کی ماں نے واٹس ایپ کال پہ مجھ سے رابطہ کیا۔ آواز میں مدد کی آہ سنائی دے رہی تھی ، گوکہ مجبور ماں پنجابی زبان میں اپنی داستان سنارہی تھی اور میں سمجھنے سے قاصر تھا مگر میری باتیں پوری سمجھ رہی تھی، میری باتوں پہ ان کا دل مطمئن ہوگیااور اب ماں کو بھی اپنی بیٹی کا گھر بسنے کی  امید نظرآئی ۔فرط محبت میں بولی بیٹا اگر کچھ لکھ کر دیتے تو کسی کو دکھا سکتی ، میری بات کون مانے گا۔ میں نے بھی اسی وقت اپنے دعوہ سنٹرکے لیٹرہیڈ پہ فتوی تیار کیا اور واٹس ایپ پر بھیج دیا۔اب بچے تھے سابق شوہر جو تین سال سے علمائے احناف کے فتوؤں تلے دبے تھے، اس بوجھ سے اوپر اٹھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔ لڑکی سے ہوئی میری بات اس نے پوری سنی اور فتوی پر بھی غوروخوض کیا۔ اب شوہر نے بھی مجھ سے بات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ایک دن  بعدظہر کی اذان کے وقت مجھ سے رابطہ کیا اس نے سے تین سوالات مجھ سے کئے۔
اس نے کہا کہ میں حنفی ہوں اورتین سال سےاس مسئلے کا حل اپنے علماء سے پوچھ رہاہوں سبھی نے کہا کہ اب اس بیوی کے پاس ہم نہیں جاسکتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ میں نے کہا کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے ان علماء کا حنفی ہونا ، اگر وہ حنفیت سے باہر آکر کتاب وسنت کی روشنی میں فتوی دیں تو پھر ان کا بھی وہی فتوی ہوگا جو میں نے دیا ہے اور آپ پاکستان میں کسی بھی اہل حدیث عالم کے پاس جائیں وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں وہی جواب دیں گے جو میں نے دیا ہے ۔
اس نے دوسرا سوال کیا کہ اگر میں نے اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرلیا تو آخرت میں کوئی پکڑ تو نہیں ہوگی ؟ میں نے کہا کہ اگر قرآن وحدیث پر عمل کرنے سے آخرت میں پکڑ ہوگی تو ان سارے علماء کی پکڑ ہوگی جو ایسا فتوی دیتے ہیں ، خود میری بھی پکڑ ہوگی ۔ اگر آپ کی پکڑ ہوئی تو میں آخرت میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔
تیسری سوال یہ تھا کہ اگر میں ایک مسئلے میں آپ کے مطابق عمل کرتا ہو ں تو کیا حنفیت پر کوئی فرق پڑے گا  یا میرے اوپر کوئی پابندی ہوگی ؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی بات کی طرف بلایا ہے ، اللہ اور اس کے رسول کی بات پر عمل کرنے والا اللہ کے نزدیک بہترین انسان ہے ۔ ہاں آپ کو علمائے احناف یا حنفی عوام کی طرف سے طعنہ سننا پڑ سکتا ہے ، آپ پر ظلم بھی ہوسکتا ہے ۔ آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ جس طرح امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد امام محمد ؒ نے اپنے استاد کے سیکڑوں مسائل کو نہیں مانا ہے اور اپنے استاد کے خلاف فتوی دیا ہے ،میں بھی اسی طرح احناف کی ایک بات پہ مطمئن نہیں ہوں اور اس مسئلے میں قرآن وحدیث کی پیروی کرتا ہوں ۔
اتنی باتیں ہوئیں اور وہ بھی مطمئن ہوتے محسوس ہوئے ۔ یہ ساری باتیں  لڑکی کے خالو کو بھی معلوم ہوئیں ، ان کو بھی اس معاملے میں حل نکلتا نظر آیا۔ آخر کار 11/مارچ 2019 کولڑکی کے خالواس کے شوہر کے ساتھ اس کے گھر جمع ہوئے ، سبھی کا دل اس بات پہ مطمئن ہوچکا ہے کہ یہ ایک طلاق ہوئی ہے ، خالو نے بھی کچھ جگہوں سے بذات خود اس بات کی تصدیق کی بلکہ شوہر نے صاف دل ہوکر کہا کہ مجھے تو اطمینان ہوچکا ہے اسی لئے تمہارے گھر آیا ہوں ۔اس بیٹھک میں طے پاگیا کہ 21/ 22 مارچ کو دوبارہ نکاح ہوجائے گا اور لڑکی اپریل میں اپنا گھر بسانے سسرال چلی جائے گی ۔ ان شاء اللہ
ادھر رات یہ فیصلہ ہوا ، رات بھر لڑکی کے گھر خوشی سے کسی کو نیند نہیں آئی ، لڑکی سویرا ہونے کا انتظار کررہی تھی کہ سب سے پہلے وہ مجھے اس کی خوشخبری سنائے ، صبح جب میں فجر کی نماز کے بعد واٹس ایپ کھولتا ہوں تو اس کی خوشخبری سن کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑتے ہیں ۔ اس نے دعاؤں کے ساتھ بیٹھک کی بہت ساری مزید باتیں بیاں کی ، یہ بھی کہی کہ میرے گھر بسنے کا سب سے پہلا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے اس لئے اپنوں میں سب سے پہلے آپ کو خبر دے رہی ہوں ، اب اس بہن کو خبر دیتی ہوں جس نے آپ کا نمبر دےکر مجھ پر نہ بھولنے والا احسان کیا ہے ۔
  اس طرح اللہ کی توفیق سے ایک مظلومہ مطلقہ کا گھرجو تین برس سے سونا پڑارہا ، اب وہ آباد اوربسنے جارہا ہے ۔الحمد للہ ثم الحمد للہ
اللہ سے دعا ہے کہ بغیرکسی رکاوٹ کے جلد سے جلد اسلامی بہن کا گھر آباد کردے، میاں بیوی میں زندگی بھر محبت قائم رکھے، انہیں دین پر استقامت نصیب فرمائے، گھر کی ساری مشکلات دور فرمائے ، دنیا میں جہاں بھی ایسی مظلوم بہن ہے اس کی غیبی مدد فرمائے ، اس کی والدہ کو صحت وتندرستی دے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے ۔ آمین  

آخر کار اللہ کی توفیق سے طلاق یافتہ بہن کا گھر بس گیا (آخری قسط) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی شمالی طائف (مسرہ)
پہلی قسط میں ذکر کیا گیا تھا کہ 11/ مارچ 2019 کو لڑکی کے گھر میں اس کی شادی کے سلسلے میں بیٹھک ہوئی تھی جس میں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ لڑکی کی شادی واپس اسی لڑکے سے ہوگی ۔ لڑکا اس بیٹھک میں موجود تھا اور شادی کے فیصلے پر راضی تھا بلکہ صراحت کے ساتھ اس سے بیان لیا گیا کہ اگر آپ کے من میں کوئی بات ہو تو ابھی بتلادو ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جب اس مسئلے پہ اطمینان ہوگیا ہے تبھی آج آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوں ۔
اس بیٹھک کے بعد شادی کے چرچے لڑکی کے رشتہ داروں میں ہونے لگے ، دور ونزدیک تک باتیں پھیل گئیں، جو دوبارہ نکاح نہیں چاہتے تھے وہ رشتہ دار ایک دوسرے کو اکسانے لگے اورلڑکی اور اس کی ماں کو بہکانے کا کام کرنے لگے۔ لڑکی کی مامی کا بھائی عامر ان دنوں سعودی عرب سے عمرہ کرکے لوٹا تھا، اس کے کان بھرے گئے ،اس نے لڑکی کو بہکانے کے لئے فون کیا ، بہکانے والی طرح طرح کی باتیں کی مثلا یہ شادی حرام ہے، اس سے جو بچے پیدا ہوں گے وہ حرام کے ہوں گے، تم اپنی آخرت خراب کر رہی ہو، اس سے بہن بھائی اور دوسرے رشتہ داروں کی ناک کٹ جائے گی ۔ قسم قسم کے بہکاوے بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے تم کو کسی سعودی والے نے فتوی دیا ہے ۔ ارے پتہ نہیں وہ عالم ہے یا کوئی شیعہ یا سنی ؟
بہت دیر تک بہکاتا رہا، پھر آخر میں مشورہ دیا کہ ایسا کرو پنڈی چلی جاؤ، وہاں رواتہ میں ایک بڑے مفتی صاحب ہیں ، بڑے پہنچے ہوئے ہیں ، ان کو سعودی کا فتوی بھی دکھانااور وہ جو فتوی مہرلگاکر دیں اس کے مطابق عمل کرنا ۔ اس کے بعد سماج کو تمہارے بارے میں باتیں کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ان باتوں سے لڑکی ذہنی طورپر پریشان ضرور ہوئی مگر اس کے چند جملوں نے عامر کی بولتی بند کردی۔ لڑکی نے کہا تین سالوں جب میں مشکلات میں گھڑی تھی اس وقت تمہیں میری یاد نہیں آئی ، آج جب میں نے اپنی زندگی کا خودفیصلہ کرلیا اور الحمدللہ مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے ، اپنے فیصلے پر اعتماد ہے تب تمہیں میری یاد آئی ۔ میں نے جہاں سے فتوی لیا ہے وہ پاک سرزمین پہ بیٹھے نیک لوگ ہیں، الحمدللہ وہاں دن ورات اللہ کی رحمت برستی ہے ، انہوں نے مجھے قرآن وحدیث کا حوالہ دے کر اس مسئلے کا حل بتلایا ہے ، مجھے ان کے فتوے پہ اعتماد ہے مگرتمہارے مفتی پر نہیں کیونکہ تین سال تمہارے مفتیوں کے چکر کاٹے اور پتہ چلا کہ یہ لوگ ایسے نازک وقت میں محض اپنی ہوس پوری کرتے ہیں۔
پھر لڑکی نے مجھ سے سارا واقعہ بیان کیا، میں نے اسے کہا یقینا ابھی برساتی میڈک کی طرح اپنے اپنے بلوں سے غمگساری کے بڑے بڑے دعویدار نکلیں گے، ان سے اپنا دامن بچانا ہے ۔ کسی سے اس موضوع پہ بات نہیں کرنی ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ کی امی کینسر کی مریض ہیں، ہرتین ماہ پہ ان کے علاج کے لئے پچاس ہزار روپئے چاہئے ، جب کوئی آپ سے طلاق اورشادی پہ بات کرے تو ان سے کہیں میرے پاس طلاق ونکاح کا مسئلہ نہیں ہے ، میرا پاس جو مسئلہ ہے وہ والدہ کے علاج کا ہے ، اگر اس کام میں میری مدد کرسکتے ہیں تو مدد کردیں اور جہاں تک مشورہ کا تعلق ہے تو جب مجھے اس کی ضرورت پڑے گی اور آپ سے پوچھا جائے گا تب ہی مشورہ دیں گے ۔
میں نے پہلے کہا تھا کہ لڑکی کو بہن بھائی نہیں ہے ، یہ میری عدم معلومات تھی ، اس کو بہن بھائی بھی ہیں جو اپنی اپنی زندگی اپنے اپنے طریقے سے علاحدہ بسر کررہے ہیں بلکہ بہن اور بہنوئی نے طلاق کے وقت سے لیکر اب تک سوائے تکلیف وبدنامی کے اور کچھ نہیں دیا۔عامر کو اکسانے والی بھی یہی بہن تھی ۔تین سال کی المناک صورت حال لوگوں سے بیان کئے جانے کے قابل نہیں ہے۔جاتے جاتے سوتیلے باپ نے رہی سہی عزت بھی نیلام کردی تھی۔ گلی گلی لڑکی کی عزت اچھالتے گیا ، طرح طرح کے الزامات لوگوں میں عام کرتے گیا۔ ایسے حالات میں لڑکی نےعدت کے دوران بیمار ماں او ر گھر چلانے کی خاطر نوکری جوائن کرلی، مجبوری میں وہ نوکری بھی چھوڑنی پڑی بلکہ الزام کے خوف سے گھر سے قدم نکالنا دشوار ہوگیا۔ کئی ماہ بعد ایک دن وہ سبزی لینے باہر گئی تو سبزی والے نے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہاری طلاق ہوگئی ہے ۔ اتنا سننا تھا گویا پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ اس طرح گھٹ گھٹ کر جیتی رہی، ہر کوئی سوچ سکتا ہےکہ جس لڑکی کو طلاق ہوجائے ، طلاق کے نام سے اس پہ من مانی الزام تراشی کی جائے،اس حال میں کہ اسے دلاسہ دینے والا نہ باپ ہو اور نہ بھائی بہن ، اس کی کیفیت کیا ہوسکتی ہے؟
دن گزرتے رہے، تین سال گزر گئے، اتفاق سے مجھ سے رابطہ ہوا، سارا مسئلہ واضح کیا، فتوی لکھ کر میں نے بھیجا، شوہر کو فتوی بھیجا گیا ، لڑکی کی ماں کو سمجھایا گیا۔ سب متفق ہوگئے تو ایک دن گھر میں جمع ہوکر لڑکی کی دوبارہ اسی لڑکا سے شادی پہ سب کا اتفا ق ہوگیا۔ اس میٹنگ میں اکیس یا بائیس مارچ کو نکاح کرنے کا اندازہ لگایا گیا تھامگر لڑکے کی مصروفیت اور کچھ دیگر مسائل کی وجہ سے ان دنوں جمع ہونا میسر نہیں ہوا۔ بالآخر 25/ مارچ 2019 بروز سوموارلڑکا ، لڑکی کے خالو اور کئی کچھ افراد جمع ہوئےاور دن کے بارہ بچے عقد ثانی ہوگیا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دوبارہ نکاح اسی مولوی نے پڑھا جس نے پہلا نکاح پڑھا یا تھا، ان کے سامنے میرا فتوی پیش کیا گیا، انہوں نے کہا کہ الحمدللہ یہ فتوی وہاں سے آیا ہے جہا ں کی بات کاٹی ہی نہیں جاسکتی ۔ انہوں نے لڑکا سے بھی مزید تفتیش کی کہ تم نے کورٹ سے کتنی بار طلاق کا نوٹس بھیجا نے تو اس نے کہا کہ میں نے ایک بار نوٹس بھیجا ہے ۔ اس پہ مولوی صاحب نے کہا کہ خواہ مخواہ تم نے تین سال گنوادئے ، پہلے ہی تم دونوں میاں بیوی اکٹھا ہوسکتے تھے۔
اس مولوی کے نکاح پڑھانے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پیچھے باتیں کرنے والوں کو وہ جواب دے سکیں گے یا بہت سے لوگ یہ سوچ کر بھی باتیں نہیں بنائیں گے کہ فلاں مولوی نے نکاح پڑھا یا ہے تو صحیح ہی ہوگا۔
بہرکیف! میں نے اس بہن کی آنکھوں میں آنسو تو نہیں دیکھا مگر آواز میں انتہائی کرب واضطراب محسوس کیا، مجھے لگا اسے میری مدد کی ضرورت ہے، میں نے ہرممکن طور پر اس کے مسئلے کو سلجھانے کے لئے کوشش کی ، اس کام کی وجہ سے مجھے کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑامگرکچھ نقصان کے بدلے کسی کو بڑا فائدہ ہوتا ہو تو مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ اللہ سب کی سنتا اور سب کی مدد کرتا ہے ۔ بہن کی دعا اور کوشش قبول ہوئی اور اس کا گھر آباد ہوگیا۔ اس طرح طلاق ثلاثہ کے نام پہ نہ جانے کتنے گھر برباد ہوں گے ،انہیں بھی اسی طرح آباد کرنے کی ضرورت ہے ۔
اولاد کی خوشی باپ سے کہیں زیادہ ماں کو ہوتی ہے، آخر وہ اپنی کوکھ میں پالتی ہے ، شدت الم کے ساتھ جنم دیتی ہے اور دوسال تک سینے سے چمٹائے خوراک کا انتظام کرتی رہتی ہے۔اس بہن نے لوگوں سے اولاد کی درخواست کی ہے، میں اس کے توسط سے آپ سب سے اس کی سلامتی اور اولاد کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں ۔
مکمل تحریر >>