Monday, February 25, 2019

پیٹیم کا کیش بیک شرعی نقطہ نظر سے


پیٹیم کا کیش بیک شرعی نقطہ نظر سے

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

انٹرنیٹ کے زمانے میں اکثر تجارت اسی سے جڑ گئی ہیں ، لین دین کا انحصارتو اب سوفیصداس پرہوگیا ہے اور خریدوفروخت کے میدان میں انٹرنیٹ نے کافی سہولیات فراہم کردی ہے ۔ گھر بیٹھے مرضی کا سامان دستیاب ہوجاتا ہے اور آمدورفت کی مشکلات واخراجات بچنے لگے ۔
انٹرنیٹ سے جڑے موبائل کا ایک اپلیکیشن پیٹیم (Paytm) اس وقت بڑی مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ پیٹیم نہ کوئی بنک ہے ، نہ تجارتی کمپنی ہے اور نہ ہی مالیاتی ادارہ ہے، یہ محض ایک اپلیکیشن ہے۔ اس کے بنانے والے نے اس ایپ کو مختلف بنکوں، تجارتی اداروں، آن لائن خریدوفروخت اورلینڈلائن،موبائل ، ریجارچ،بجلی ، ٹکٹ(ٹرین، بس،جہاز)، ٹی وی،سنیما، فیشن،ہوٹل،گیس،دوا،علاج،انٹرٹینمنٹ،گیم،بیمہ، چیریٹی آفس وغیرہ سے مربوط کرکے ان کاموں کو اس ایک ایپ سے کرنا آسان کردیا ہے ۔ حقیقت میں اس ایپ سے ہزاروں قسم کے مالیاتی، تجارتی اور معاملاتی ادارے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، ان میں کتنے غیرشرعی ادارے اور غیرشرعی عوامل موجود ہیں ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ پیٹیم اپنے ایپ سے ٹرانجیکشن کرنے پر کیش بیک یعنی کچھ پیسہ واپس دیتا ہے۔ اس پیسے کا حاصل کرنا یا لیکر استعمال کرنا شرعا کیسا ہے ؟
ہوتا اس طرح ہے کہ کسی  نے اس ایپ کے ذریعہ  کوئی موبائل پچاس روپئے کا ریچارج کیا ، یہ ریچارچ موبائل کمپنی سے ہوا ،موبائل کمپنی سے لین دین پچاس روہئے کا ہوا۔ یہاں پر پیٹیم کی جانب سے تیس روپئے کا کیش بیک ملتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب پیٹیم موبائل کمپنی نہیں ہے تو کیش بیک کیوں اور کہاں سے دیتا ہے ؟
جب اس سوال کی حقیقت جانتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح گوگل کمپنی بلاگ ، ویب سائٹ اور یوٹیوب پہ کمپنیوں کی تشہیر کرکے اس کا کچھ منافع ان سماجی روابط کے استعمال کنندہ کوبھی دیتا ہے اسی طرح کا معاملہ پیٹیم ایپ میں بھی ہے ۔
میں نے اس سے پہلے یوٹیوب پہ ویڈیو اپ لوڈ کرکے اس سے پیسے کمانے کے متعلق نوجوانوں کو آگاہ کیا تھا آج پیٹیم کے متعلق عرض کرنا چاہتاہوں کہ اگر اس ایپ کے محض استعمال سےیعنی اس کے ذریعہ موبائل ریچارج یا کسی قسم کے بل کی ادائیگی پہ کیش بیک ملتا ہے تو اس کے لینے میں رکاوٹ نہیں ہوتی مگر میرے سامنے اس ایپ میں کئی رکاوٹیں ہیں ۔
(1) یہ ایپ بیمہ ، فلم ، انٹرٹینمنٹ اور فیشن وغیرہ کی بھی تشہیر کرتا ہےاوربہت ساری آئن لائن تجارتی اشیاء کی برہنہ تصاویر کے ساتھ اشتہار موجود ہے ۔
(2) ٹرانجیکشن پہ کیش بیک اشتہار پہ تعاون کے عوض ہے اور اوپر ہم نے جانا کہ اشتہار بازی میں کئی ساری شرعی خامیا ں ہیں ۔
(3) اس ایپ میں کئی قسم کی آئن لائن تجارت بھی ہے جس کے متعلق دجل وفریب کا بھی امکان ہےنیز آن لائن خریدوفروخت میں سامان پہ قبضہ کئے بغیر اسے دوسرے کے ہاتھ بیچنا عام ہے جوشرعا ناجائز ہےاور اگراس تجارت میں حرام چیزوں کی تجارت بھی ہو تو اس حرام چیزکی تشہیر میں معاون بننا بھی حرام ہے۔
(4) اس ایپ کو شیئر کرنے پر اس کا کوئی ساتھی موبائل ریچارج کرتا ہے یا بل جمع کرتا ہے تو شیئر کرنے والےسے پچاس روپئے ملنے کا وعدہ ہے ۔ جس نے یہ ایپ شیئر کیا ہے اس کی وجہ سے کوئی اس ایپ سے فلم کا ٹکٹ خریدتا ہے یا بیمہ کرواتا یا اس کا پریمیم جمع کرواتا ہے تو اس گناہ کا ذمہ دار شیئرکرنے والا بھی ہوگا ۔اسی طرح آن لائن تجارت میں کوئی کمپنی فراڈی ہویا قبضہ کرنے سے پہلے سامان بیچنے والی ہوتو انوائٹ کرنے والا بھی گنہگار ہوگا۔ ایپ شیئر کرنے سے عریاں تصاویر کا گناہ بھی اس پہ آئے گا۔
(5) چونکہ اس ایپ میں سیکڑوں پروگرام موجود ہیں جن میں سے چند کا میں نے ذکر کرہی دیا کہ یہ غیرشرعی ہیں مزید اور کتنے غیرشرعی کام اس میں موجود ہیں کون مسلمان اس کی تصدیق کرے گا ؟ جب معاملہ مشکوک ہے تو چند پیسوں کے لئے کیوں اپنا ایمان ضائع کریں ؟
(6) خود ريچارج کرنے پر تیس روپئےجبکہ انوائٹ کرنے پہ پچاس روپئے کیش بیک کے طور پر ملتے ہیں اور ایپ والے نے ہر نئے دوست کے ٹرانجیکشن پہ پچاس روپئے کہہ کر روزانہ ایک ہزار روپئے کمانے کا لالچ دیا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے ہزار روپئے کی فکر میں جس جس کو بھی یہ ایپ بھیجا جائے گا اس ایپ کے اندر موجود غیرشرعی امور کا گناہ بھیجنے والے کے سر بھی جائے گا۔
(7) نٹورک مارکٹنگ کی طرح اس میں بھی بڑا بڑا لالچ دیا گیا ہے ، اوپر ایک لالچ گزرا کہ روزانہ ایک ہزار کمائیں، دوسرا لالچ یہ ہے کہ ہر گھنٹہ دو سو آدمی سوفیصد کیش بیک پاتا ہے اور تیسرا سب سے بڑا لالچ لکھ پتی بننے کا ہے ، وہ یہ ہے کہ ہر ہفتہ ریچارج یا بل کی ادائیگی پر ایک لاکھ کا لکی ڈرا سے نکالا گیا کیش بیک پانے کا موقع ملے گا ۔تیسرا لالچ اس ایپ کا سب سے بڑا جھانسہ ہے۔
(8) اس ایپ میں بڑی تعداد میں آن لائن شاپنگ کی اشیاء نظر آتی ہیں ، ان پہ کئی کئی ہزار کا کیش بیک لکھا ہوا ہے مجھے لگتا ہےکہ سامان پہ بڑی قیمت کا کیش بیک بس دکھاوا ہے ، اصل قیمت میں اضافہ کرکےاس کا نام کیش بیک رکھ دیا گیاہے۔
ان چند باتوں کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اس ایپ سے پیسہ کمانا شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس ایپ میں دھوکہ کا امکان بھی ہے، غیرشرعی تجارت بھی ہے اور حرام کام پہ تعاون بھی ہے ۔اگر صرف ریچارج یا بل کی ادائیگی پہ کیش بیک ہوتا اور کسی قسم کی غیرشرعی چیز کی تشہیر نہ ہوتی تو پھر جواز کی گنجائش تھی مگر ریچارج یا بل کی ادائیگی پہ کیش بیک اصل میں اس ایپ میں موجود مختلف تجارتی اداروں کی تشہیر اور ان سے معاملات کے عوض ہے جن میں غیرشرعی امور بھی پائے گئے ہیں ۔
اس ایپ کی مقبولیت کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کے ذریعہ کمائی کررہے ہیں مجھے ان کے پیسوں سے حسد نہیں ہے تاہم ان کی کمائی کے غلط رخ سے ضرور تکلیف ہےاس بناپر یہ تحریر قلم بند کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ ایسے تمام مسلم بھائیوں کی خدمت میں عاصی بصداحترام یہ پیغام پیش کرتا ہے کہ لین دین کا جو بھی معاملہ کریں ادارے کی اصل آفس سے یا ان کی ذاتی ویب سائٹ سے کریں مثلا موبائل ریچارج کرنا ہو قدم قدم پہ دوکان موجود ہے وہاں سے ریچارج کریں ، بجلی بل ادا کرنا ہے اس کی آفس جائیں یا اس کی ذاتی ویب سے پیمنٹ کریں ، اسی طرح بنک کا کوئی کام کرنا ہے ،اسی بنک سے کام کریں ۔ آن لائن کوئی سامان خریدنا ہو تو براہ راست کمپنی کی ویب سائٹ استعمال کریں اور پہلےاس کےمتعلق اطمینان کرلیں پھر خریداری کریں۔
میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معاملات اپنی جگہ اور کمائی اپنی جگہ ۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔ معاملات کو معاملات ہی رہنے دیں اور ڈھنگ سے معاملات کریں جو محفوظ ترین طریقہ ہو اور کمائی کو ایک الگ ذریعہ رہنے دیں اور حلال طریقے سے محنت ومشقت کے ساتھ روزی کمائیں ۔حلال طریقے سے کمائی گئی  کم روزی میں بھی اللہ  برکت دے گا اور بغیر محنت کی حرام روزی میں  کبھی برکت نہیں ہوتی ۔
اللہ تعالی ہمیں حلال طریقے سے روزی کمانے کی توفیق دے اور اپنے فضل سے ہمیں خوشحال بنادے ۔آمین


مکمل تحریر >>

Saturday, February 23, 2019

غصہ اور اس کے اسباب وعلاج


غصہ  اور اس کے اسباب وعلاج 

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

غصہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے ،یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے ،اس وجہ سے ہر شخص کے اندر اس فطرت کا وجود ہے اور مشاہدہ میں بھی آتا ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ غصہ امیروں کی دولت  ہے ، اور فقیر ومسکین کو کبھی غصہ نہیں آتا ۔یہ ہرانسان کی صفت ہے، بچپن سے لیکر بڑھاپے تک اس کا ظہور ہوتا ہے جو اس بات کی ناقابل تردیدعلامت ہے کہ غصہ انسانی فطرت وطبیعت کا جزء لاینفک ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے کلام سے بھی واضح طورپر معلوم ہوتا ہے ۔اللہ تعالی مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران:134)
ترجمہ: جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے درگُزر کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ.(صحیح البخاری:6114)
ترجمہ: پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔
قرآنی آیت اور حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے غصہ انسانی فطرت ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس فطرت کو اسلام نے دباکر اورقابو میں رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوْصِنِي ، قَالَ : لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا ، قَالَ : لَا تَغْضَبْ۔(صحیح البخاری:6116)
ترجمہ: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔
ایک بات واضح ہوگئی کہ غصہ فطرت انسانی ہے تاہم اس پہ قابو نہ رکھنے سے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ میاں بیوی میں جدائی، اولاد ووالدین میں دوری، بہن وبھائی میں اختلاف، فرد ومعاشرہ میں بگاڑ ، دنیا میں ظلم وبربریت اور فتنہ وفساد کی جڑ غصہ ہے ۔ جب تک غصہ دبا ہوتا ہے تب تک فتنہ دبا ہوتا ہے اور جب غصہ بے قابو ہوجاتا ہے تو فتنہ وفساد بھی اپنا منہ کھول لیتا ہے ۔ ایسے موقع سے شیطان کافی فائدہ اٹھاتا ہے ۔ وہ دو فریق میں نفرت وانتقام کی آگ بھڑکاتا ہے اور انسان بلادریغ ایک دوسرے کا خون کر بیٹھتا ہے۔ غصہ کے برے اثرات انسانی جسم وروح پر بھی مرتب ہوتے ہیں ۔ چہرہ دیکھ کر ہم بھانپ سکتے ہیں کہ آدمی غصے میں ہے ، رگیں پھول جانا ، چہرہ سرخ ہوجانااور سانسوں میں تیزی پیدا ہونا غصہ ہونے کی علامت ہے۔
یہ معدے کی شکایت، کولیسٹرول کی زیادتی، آنتوں کی پریشانی، قوت مدافعت کی کمی،فالج کا خطرہ اور دل کے امراض کاسبب ہے ۔ اسی طرح مرض یرقان سے لیکر سر، یادداشت، غوروفکر اور نظام اعصاب تک متاثر کرتا ہے بلکہ موت کا بھی راستہ ہموار کرسکتا ہے۔
جب سماج ومعاشرہ کی تباہی کااصل سبب غصہ ہے تو پھر ہمیں اس کے اسباب معلوم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب سے پہلو تہی اختیار کرکے غصہ پر قابو پایا جا سکے ۔
(1) غصہ بھڑکنے کا ایک اہم سبب تکبر ہے ، جس کے پاس تکبر ہوگا وہ بات بات پر غصہ ہوگا اورلوگوں کو حقیر سمجھتے ہوئے اس پر زیادتی کرے گا ۔ اس لئے اسلام نے تکبر کی مذمت بیان کی ہے اور متکبر شخص پر جنت ممنوع کردیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَن كانَ في قَلْبِهِ مِثْقالُ ذَرَّةٍ مِن كِبْرٍ.(صحیح مسلم:91)
ترجمہ:وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبروغرور ہوگا۔
جسے اپنی آخرت کی فکر ہوگی وہ کبھی تکبر کی نجاست میں ملوث ہوکر جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
(2) بدگوئی ، لفاظی،بلاضرورت طول کلامی ،کٹھ جحتی ، استہزا،سخت کلامی ، ایڑیل پن،غیبت،بدمزاجی، چڑچڑاپن یعنی بداخلاقی کے جتنے اوصاف ہیں ان سے غصہ جنم لیتا ہے اور آپس میں نفرت پیدا ہوتی ہے اس لئے مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ نہایت سیدھا سادا اور شریف النفس ہوتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : المؤمنُ غرٌّ كريمٌ ، والفاجرٌ خِبٌّ لئيمٌ.(صحيح أبي داود:4790)
ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا ہے۔
ہم کم سے کم بات کریں، خود کو اخلاق حسنہ سے مزین کریں اور زبان کی آفتوں سے بچیں کہ یہی بڑی سے بڑی مشکلات لانے والی ہے اسی لئے تو رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَن يَضْمَن لي ما بيْنَ لَحْيَيْهِ وما بيْنَ رِجْلَيْهِ أضْمَن له الجَنَّةَ.(صحيح البخاري:6474)
ترجمہ: جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : من حسنِ إسلامِ المَرءِ تركُه ما لا يعنيه(صحيح الترمذي:2317)
ترجمہ: فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔
ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ میں اخلاق وکردار والا، ضرورت بھر نرمی اور ادب سے بات کرنے والا، زبان کا صحیح استعمال کرنے والا اور حجت کے وقت خاموش ہونے والا ہو وہ غصہ کی آفات سے بچ جائے گا۔
(3) سماج میں کئی طبقے ہیں ، ان میں جاہل ونادان بڑی کثرت سے موجود ہیں ، ان احمقوں کا کام شریف لوگوں کو چھیڑنا اور ان کے جذبات برانگیختہ کرکے فساد برپا کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر ایک شریف انسان کا شعار جاہلوں کی جہالت وبدتمیزی پہ صبروخاموشی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان:63)
ترجمہ: اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔
یہاں سلام کہنے سے مراد ہے جہالت پہ خاموشی اختیار کرنا۔ اسی سورت میں آگے اللہ کا ارشاد ہے :
إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان:72)
ترجمہ: اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ۔
یہاں بھی شرافت سے گزر جانے کا مطلب ہے بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا اور جو بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرلے وہ فتنے سے محفوظ ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :مَن صَمت نَجا(صحيح الترمذي:2501)
ترجمہ: جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالی۔
(4) کبھی ہم انتقام لینے میں حق بجانب ہوتے ہیں کیونکہ ہم پر ظلم کیا گیا ہوتا ہے مگر انتقام مزیدبگاڑ وفساد اور غیض وغضب کا پیش خیمہ ہے اس وجہ سے اسلام نے معاف کرنے والے کو سراہا ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوری: 37)
ترجمہ: وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا: مانَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِن مالٍ، وما زادَ اللَّهُ عَبْدًا بعَفْوٍ، إلَّا عِزًّا، وما تَواضَعَ أحَدٌ لِلَّهِ إلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ.(صحیح مسلم:2588)
ترجمہ: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔
(5) غصہ کا ایک بھیانک سبب، تشدد پر مبنی حالات سے دورچارہونا یا پرتشدد افلام کا مشاہدہ کرنا یا شدت والے ماحول اور دوستی استوار کرنا ہے۔ ہمیں ایسے شدت پسند ماحول ، شدت پسند دوست اور پرتشدد مناظروافلام  دیکھنے سے باز رہنا چاہئے ورنہ ایسی شدت اور اس کا ردعمل غصہ کی شکل میں ہمارے جسم وروح میں سرایت کرے گا۔
(6) شیطان ہماری رگوں میں گردش کرتا ہے اسے معلوم ہے کہ انسانی طبیعت میں غصہ موجود ہے بس اس میں اشتعال پیدا کرنا ہے اس کے بعد خود ہی شیطانی عمل ظہورپذیر ہوتا ہے ۔ اس بات کو اچھی طرح محسوس کریں اور شیطانی حملے سے بچتے رہیں ۔ اس کےلئے نمازوں کی پابندی، اذکار پہ مداومت اور جلوت وخلوت میں اللہ کا خوف پیدا کرنا ہے ۔
(7) اللہ سے بے خوف ہونا، معصیت پہ اصرار کرنا اور دینی تعلیمات کے حصول اور ان پر عمل کرنے سے گریز کرنا بھی انسانی طبیعت میں غصہ بھڑکانے کا کام کرسکتا ہے۔ آدمی جس قدر متقی ہوگا، گناہوں سے پرہیز کرے گا ، دین کا علم حاصل کرے گا اور اسے عملی جامہ پہنائے گا وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ بندوں کے حقوق بھی عمدگی کے ساتھ ادا کرے گا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔
(8) موجودہ زمانے میں کسی کے خلاف بات کرنا بھی غصہ کا سبب ہے ، حد تو یہ ہے کہ حق گوئی پر بھی غصہ کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں امورمیں حکمت وبصیرت  لازم ہے  یعنی بات کرنے میں سلیقہ اور حکمت چاہئے اور اپنے خلاف حق بات سننے پر بجائے غصہ ہونے کے اسے قبول کرنا چاہئے۔
(9) ذہنی تناؤ اور الجھن کا شکار ہونا بھی غصہ پیدا کرنے کا سبب ہے ۔ آج کے زمانے میں اکثریت ٹینشن کا بوجھ پال رہی ہے ۔ کسی کو دولت  تو کسی کو غربت ، کسی کو تجارت توکسی کو سیاست، کسی کو گھریلو  تو کسی کوسماجی تناؤ نے ٹینشن کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں چہار دانگ عالم میں لوٹ مار،اختلاف وانتشار، قتل وٖغارت گری، فتنہ وفساداور ظلم وتعدی عروج وانتہا کو ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہرے اصول دئے ہیں ،انہیں برتنے والا ہر طرح کی مایوسی، پریشان خیالی اور فکر واضطراب سے بچا رہے گا۔
(10) جہاں عصبیت ہوگی وہاں غصہ بھی اپنی جگہ بنائے گا اور موقع بموقع ظاہر ہوکر بگاڑ پیدا کرتا رہے گا ، آج کے دور میں فساد کی بڑی وجہ عصبیت بھی ہے۔ کہیں پرقومی  عصبیت نے تو کہیں پر قبائلی عصبیت نے تباہی مچا رکھی ہے۔ خاندانی  عصبیت یا  لسانی عصبیت نے بھی صالح سماج کا خون کیا ہے۔مسلمانوں کے درمیان مسلکی عصبیت نے تو اس قوم کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور یہ قوم اپنی طاقت واتحاد کھوکر بھی خوش ہے۔ اسلام نے جسے اپنا بھائی کہا ہے عصبیت میں مسلمان اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور جسے دشمن کہا گیا ہے اسے اپنا دوست بنارہے ہیں ۔اے کاش ہمیں عصبیت سے چھٹکارا مل جائے تو سماج کی بہتری کے ساتھ ساتھ دینی اعتبار سے بھی ہماری ترقی ہوگی۔
غصہ کے وقت فوری تدابیر
اوپر چند اسباب بیان کئے گئے ہیں جو غصہ لانے کا سبب بنتے ہیں اگر ان سے بچا جائے تو غصہ پر انسان قابو پالےگا اور اس کے برے انجام سے زندگی بھر بچتا رہے گا۔ اگر خدانخواستہ غصہ آجائے تو ہمیں فوری طور پر کیا کرنا چاہئے؟
(1) سب سے پہلےشیطان سے  اللہ کی پناہ مانگنا چاہئے کیونکہ وہی اصل محرک ہے جو دل میں وسوسہ ڈال کر طبیعت کے اندرونی حصے سے غصہ کو باہر نکال دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(الأعراف:200)
ترجمہ: اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چو کا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر دے) تو اللہ کی پناہ مانگ یقینا وہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا غَضِبَ الرجلُ فقال أعوذُ باللهِ سَكَنَ غضبُه(صحيح الجامع:695)
ترجمہ: جب آدمی کو غصہ آئے اور اللہ سے پناہ مانگ لے تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔
صحیحین میں دوشخص کے گالی گلوج کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک کا چہرہ غصے میں سرخ ہوجاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں، آپ ﷺ نے اس غصہ ہونے والے شخص کے پاس آکر فرمایا : إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه : أعوذ بالله من الشيطان الرجيم (صحيح البخاري: 3282،صحيح مسلم:2610)
ترجمہ: میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہہ لے تو اس کی یہ کیفیت دور ہوجائے ، وہ کلمہ ہے" اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم " (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں)۔
(2) اس کے بعد فورا زبان پہ خاموشی اختیار کرلینی  چاہئے کیونکہ جس قدر زبان کھولے گا، غلط الفاظ نکلیں گے اور غصہ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ، اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا: إذا غَضِبَ أحدُكم فلْيسكتْ(صحيح الجامع:693)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔
(3) اپنی حالت تبدیل کرلینا چاہئے یعنی کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھے ہوں یا بیٹھنے سے غصہ دور نہ ہو تو لیٹ جائیں۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إذا غضبَ أحدُكم وهو قائمٌ فلْيجلسْ، فإن ذهبَ عنه الغضبُ وإلاَّ فلْيَضْطَجِعْ.(صحيح أبي داود:4782)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوتو چاہئے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ پھرلیٹ جائے ۔
(4) غصہ کے وقت بعض حدیث میں وضو کرنا اور بعض حدیث میں غسل کرنا آیا ہے ان دونوں قسم کی احادیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے،اس لئے غصہ کے وقت وضو یا غسل کرنے کو نبی ﷺ کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا تاہم اہل علم نے لکھا ہے کہ غصہ کے وقت ٹھنڈے پانی کا استعمال مفید ہے، اس لئے غصہ کے وقت پانی پی لیا جائے یا ہاتھ منہ دھل لیا جائے تو بہتر ہی ہوگا۔ 

غصہ روکنے والے اسباب:
غصہ اور نرمی دونوں اوصاف ہر انسانی فطرت میں موجود ہے ، کوئی غصہ زیادہ کرتا ہے اور نرمی کا دامن چھوڑدیتا ہے اور کوئی نرم مزاجی اپناتا ہے اور غصہ کم رکھتا ہے ۔ گویا ایک انسان اپنی فطرت کو بدل نہیں سکتا مگر غصہ کو کم ضرور کرسکتا ہے ۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جب غصہ آجائے تو اس کا فوری علاج کیا ہے ؟ اب یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ غصہ کو ہمیشہ کنٹرول میں کیسے رکھ سکتے ہیں ؟
سب سے پہلے نمبر پہ ان تمام اسباب سے بچنا ہے جو غصہ بھڑکانےاور غصہ میں زیادتی پیدا کرنے والے ہیں ۔ پہلے غصہ دلانے والے اسباب ذکر کئے جاچکے ہیں۔ ان میں تکبر، برے اخلاق، لوگوں کی جہالت ونادانی ،بے صبری،انتقام کا جذبہ، تشدد پہ مبنی فلم بینی،شیطانی عمل،ذہنی تناؤ، عصبیت وغیرہ ہیں ۔
اسی طرح طبیعت میں نرمی پیدا کرنا، عبادت پہ اجتہاد کرنا، کثرت سے روزہ رکھنا، زبان کوذکر الہی سے تر رکھنا، فضول گوئی سے بچنا بلکہ خاموشی کی صفت اختیار کرنا، صدقہ وخیرات کرنا، فقراءومساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، گناہ کبیرہ اورفحش کاموں سے بچناغصہ کم کرنے میں معاون ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشورى:37)
ترجمہ:اور کبیرہ گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں ۔
اس آیت میں کبیرہ گناہوں سے بچنےاور فحش کاموں سے رکنے کا ذکرکرکےاللہ نے مومن کی ایک صفت یہ بھی  بیان کی کہ وہ غصہ کے وقت معاف کردیتے ہیں ۔مزید ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ نے ہمیں غصہ کا انتقام لینے کی طاقت دی ہے مگر معاف کرنے والا اللہ کے نزدیک بہتر انسان ہے ۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے خرچ کرنے والے ، غصہ روکنے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والےکی تعریف کی ہے ۔ فرمان الہی ہے :
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران:134)
ترجمہ:جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے درگُزر کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ غصہ روک سکتے ہیں ،یہ کوئی ایسی صفت نہیں ہے جس پہ بندوں کا اختیار نہ ہو۔اگر غصہ پہ قابو نہیں پایا جاسکتا تو پھر ہرکمزور اپنے سے طاقتورسے بدلہ لے لیتا ، اس طرح دنیا میں کوئی ظلم نہیں کرتا مگر ظالم سے کمزور وں کابدلہ نہ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ کمزور نے اپنے غصہ پہ قابو رکھ لیا تاکہ کہیں وہ ظالم سے مزید ظلم کے شکار نہ ہوجائے ۔قدرت رکھتے ہوئے معاف کردینے والا جنت میں من پسند حور منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
من كظمَ غيظًا وَهوَ يستطيعُ أن ينفذَه دعاهُ اللَّهُ يومَ القيامةِ علَى رءوسِ الخلائقِ حتَّى يخيِّرَه في أيِّ الحورِ شاءَ(صحيح الترمذي:2021)
ترجمہ:جو شخص غصہ ضبط کر لے حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کر لے۔
غصہ اختیاری معاملہ ہے ، کوئی غصے میں کسی کا قتل کردے تو دنیا کی عدالت بھی اس کی سزا معاف نہیں کرے گی اور اللہ کے یہاں سزا تو ہوگی ہی ۔ ایک انسان جب اس حیثیت سے کہ غصہ کا انجام برا ہے ، اس پہ اللہ کے یہاں مواخذہ ہوگا، سوچے گا تو اس کا غصہ نرم ہوگا اور غصے میں بھی معصیت کا کوئی کام کرنے سے بچے گا۔نبی ﷺ نے  غصہ کے وقت حق گوئی کی اللہ سے دعا مانگی ہے ، فرمان رسولﷺ ہے :
أسألُكَ كلمةَ الحقِّ في الرِّضا والغضَبِ(صحيح النسائي:1304)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے خوشی اور غصہ دونوں حالتوں میں کلمہ حق کہنے کی توفیق مانگتا ہوں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں ڈرنے پر یہ کلمات کہنے کو سکھلاتے تھے:
أعوذُ بِكَلماتِ اللَّهِ التَّامَّةِ ، من غَضبِهِ وشرِّ عبادِهِ ، ومن هَمزاتِ الشَّياطينِ وأن يحضُرونِ(صحيح أبي داود:3893)
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلموں کی اس کے غصہ سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور ان کے میرے پاس آنے سے۔
اللہ اوراس کے رسول کا غصہ :
غصہ ہونا اللہ اور اس کے رسول کی بھی صفت ہے ، اس لئے ہرقسم کا غصہ معیوب نہیں ہے بلکہ بعض جگہوں پراعتدال کے ساتھ غصہ امر مستحسن ہے ۔ اللہ تعالی کے غصہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
لَمَّا قَضَى اللَّهُ الخَلْقَ كَتَبَ في كِتابِهِ فَهو عِنْدَهُ فَوْقَ العَرْشِ إنَّ رَحْمَتي غَلَبَتْ غَضَبِي.(صحيح البخاري:3194)
ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں ، جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ۔
اللہ اپنے بندوں پر یونہی ناراض نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے احکام کی نافرمانی ہوتی ہے تو اللہ غصہ ہوتا ہے اور بندوں کو سزا دیتا ہے ، کبھی دنیا میں دیتا ہے اور کبھی آخرت میں دے گا اور کبھی دنیا وآخرت دونوں جگہ سزا دیتا ہے ۔ اللہ کے غصے سے متعلق قرآن کی چند آیات ملاحظہ کریں ۔
اللہ کا فرمان ہے:وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ (البقرۃ:61)
ترجمہ:ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے: وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء:93)
ترجمہ:اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ تعالٰی کا غضب ہے ، اسے اللہ تعالٰی نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ (طہ:81)
ترجمہ:تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ روزی کھاؤ ، اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ یقیناً تباہ ہوا ۔
اس قسم کی کئی آیات ہیں طوالت کی وجہ سے صرف نظر کرتا ہوں ۔ یاد رکھیں ، اللہ کا غصہ دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے ۔ نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
إنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن رِضْوانِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بها دَرَجاتٍ، وإنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن سَخَطِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَهْوِي بها في جَهَنَّمَ.(صحيح البخاري:6478)
ترجمہ:بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی(غصہ) کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
اللہ کے غیظ وغضب سے بچنے کے لئے بندہ اس کی نافرمانی سے بچتا رہے اور صدقہ کا خصوصی الزام کرے کہ یہ اللہ کا غصہ بجھا دیتا ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں : إنَّ الصدقةَ تُطْفِئُ غضبَ الربِّ ، وتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ(الترمذی:667)
ترجمہ: صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔
یہ حدیث سندا ضعیف ہے مگر اس کے پہلے حصے کو شیخ البانی نے کثرت شواہد کی بنیاد پر قوی کہا ہے ۔(تمام المنة:390)
نبی ﷺبھی غصہ ہوتے تھے ، وعظ ونصیحت کے وقت غصہ ہوتے، کسی کو جھگڑتے دیکھتے تو غصہ ہوتے، کسی کے بارے میں غلط سنتے یا کسی کو غلطی کرتے دیکھتے تو غضبناک ہوجاتے ۔اس سلسلے میں احادیث میں بے شمار واقعات موجود ہیں جن سب کا ذکر اس چھوٹے مضمون میں ممکن نہیں ہے ۔تاہم چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کردیتا ہوں ۔
(1)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں داخل ہوئے ، گھر میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا جس پر تصویریں تھیں ، اس کی وجہ سے نبی ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔(صحیح البخاری: 6109)
(2)ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میں فجر کی نماز میں تاخیر کر کے اس لئے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب فجر کی نماز بہت طویل کر دیتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں :"فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قطُّ أشد غضبًا في موعظة منه يومئذ"یعنی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غصہ ہوئے کہ میں نے نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا۔(صحیح البخاری: 6110)
(3)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ریشمی دھاریوں والا ایک جوڑا، حلہ عنایت فرمایا۔ میں اسے پہن کر نکلا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار دیکھے۔ چنانچہ میں نے اس کے ٹکڑے کر کے اپنی عزیز عورتوں میں بانٹ دیئے۔ (صحیح البخاری: 5840)
(4)حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
خرجَ علَينا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ونحنُ نتَنازعُ في القَدرِ فغَضبَ حتَّى احمرَّ وجهُهُ ، حتَّى كأنَّما فُقِئَ في وجنتيهِ الرُّمَّانُ(صحيح الترمذي:2133)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔
ممنوع اور مطلوب غصہ:
ہر وہ غصہ ممنوع ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ناپسند کریں۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت میں غصے والا کوئی بھی کام کرنا ممنوع ہے مثلا کسی پربغیر غلطی کےغصہ ہونا، حق بات بولنے والے پر غصہ ہونا، ناحق پر ہوتے ہوئے بھی غصہ کرنا، انتقام کی آگ میں جلنا،کمزوروں کو دبانے کے لئے غصے کا اظہار کرنا، غصہ کے وقت فیصلہ کرنا، زبردستی دھونس جماکر دوسروں کا حق چھیننا ، طاقت ومال کے زعم میں تکبر کرنا، عہدومناصب کا ناجائز فائدہ اٹھانا، ماتحتوں پر رعب جمانا وغیرہ ۔ بیجا غصہ والا کام تو منع ہے ہی ، معصیت کا کوئی کام بھی اللہ کے غصہ کا سبب ہے ۔ ہم سے مطلوب ہے کہ منکر کے مٹانے میں حد اعتدال میں رہتے ہوئے غصہ کا اظہار کریں جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے بچوں کو ترک نماز پہ مارنے کا حکم دیا ہے، سرکشی پہ بیوی کو ہلکی مارمار نے کا ذکر ہے، برائی دیکھنے پر پہلے ہاٹھ سے مٹانے کا حکم ہوا ہے ، ان سارے کام میں غصہ کا عنصر شامل ہے ۔اس وجہ سے ہمیں حق ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر غصہ کا اظہار کریں اور غصہ بھی اس قدر نہ ہو کہ فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہوجائے اور اظہار غصہ میں مناسب وقت اور حکمت ودانائی بھی ضروری ہے ۔ بات بات پہ غصہ ، بے محل غصہ ، حد اعتدال سے بڑھا ہوا غصہ تباہی کا سبب ہے اس سے بچنا  ضروری ہے ۔ مطلوب غصہ میں معیار یہ فرمان رسول ہے: ما انْتَقَمَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لِنَفْسِهِ في شيءٍ قَطُّ، إلَّا أنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمَ بهَا لِلَّهِ.(صحيح البخاري:6126)
ترجمہ: نبی ﷺ نے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہیں لیا البتہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی حرمت وحد کو توڑتا تو آپ اس سے محض اللہ کی رضامندی کے لئے بدلہ لیتے ۔
مکمل تحریر >>

Friday, February 15, 2019

سلفیت اور سلفی کا تعارف قرآن وحدیث کے آئینے میں


سلفیت اور سلفی کا تعارف قرآن وحدیث کے آئینے میں

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

دین اسلام ایک صاف ستھرا فطری نظام حیات ہے ، اس میں زندگی گزارنے کے تمامتر پاکیزہ اصول موجود ہیں ۔ دراصل اسی دین میں انسانیت نوازی، صلح وآشتی،اتحاد واتفاق، عدل ومساوات، حقوق ومراعات، اخوت ومحبت ، صدق وصفا، امن وراحت اوراطمینان وسکون موجود ہے ، دنیا کے باقی تمام ادیان ومذاہب میں فطرت سے بغاوت اور زندگی کی پاکیزہ اصول وتعلیمات سے بیزاری ہے ۔ دین اسلام کو دوسرے لفظوں میں سلفیت سے بھی موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ یہی اسلام کی مکمل تعبیر ہے۔
سلفیت کوئی نیا فرقہ اور خودساختہ نظام زندگی کا نام نہیں بلکہ قرون مفضلہ کے سلف صالحین کے منہج پر چلنے کا نام ہے ۔سلف صالحین سے مراد صحابہ ، تابعین اور ان کے اتباع یعنی رسول اللہ ﷺ نے جن تین زمانوں کی خیروبھلائی کا ذکر فرمایا ہے ان زمانوں کے نیک وصالح افراد جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے دین کو صحیح سے سمجھا اور اس پر اسی طرح عمل کیا جس طرح آپ نے حکم دیا  ۔جو لوگ ان اسلاف کرام کے منہج پر چلے انہیں سلفی کہا جاتا ہے اور جو اس سے بچھڑ جائے خلف میں اس کا شمار ہوگا۔
جس طرح اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت فرمائی، رسول اللہ ﷺ کے فرمودات کی حفاظت کےاسباب پیدا فرمائے اسی طرح عہد رسول سے لیکر ابتک ایک جماعت کی حفاظت کرتا رہا اور قیامت تک کرتا رہے جس جماعت کا مشن ،نبوی مشن یعنی حق(کتاب اللہ اور سنت رسول ) کا دامن تھامتے ہوئے اسی کی نشر واشاعت کرنا اور باطل کی ترید میں کسی قسم کی مصالحت نہ کرناہے ۔
چونکہ سلفیت اصل اسلام کا نام ہے اور سلفی دنیا والوں پر اصل اسلام کو پیش کرتے ہیں اس وجہ سے منہج سلف پر چلنے والوں کو نہ صرف باطل ادیان کی طرف سے خطرات ومشکلات اور مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ اسلام کا لبادہ اوڑھے مختلف مسالک میں بٹے مسلمانوں سے بھی ہے ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
علامہ اقبال نے نبوی مشن سے متصادم ہردور کے بولہبی جماعت کی طرف اشارہ کرکے حق بیانی سے کام لیا ہے اوراس حقیقت پر ہردور کی تجرباتی ومشاہداتی تاریخ بین ثبوت ہے جسے اس تاریخی سچائی سے انکار سے وہ تعصب کی عینک اتارکراپنے ہی دور کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرلے ۔
جو اسلام کے دشمن ہیں ، وہ تو اسلام دشمنی نبھائیں گے مگر حیرت اسلامی لبادہ اوڑھے اپنے بھائیوں پر ہے جنہوں نے سلفیوں کو بدنام کرنے،انہیں مالی و جسمانی گزند پہنچانے اور کفار کے لئے ان مسلمانوں کے خلاف راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔سلفیوں کو انگریز کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے ، ان کو انتہا پسنداور دہشت گردجماعت کے طور پر غیرمسلموں میں متعارف کیا جاتا ہے۔ نبی کے گستاخ، فضائل صحابہ کے منکر، اولیاء کی شان گھٹانے والا اور ائمہ کرام کا احترام نہ کرنےوالا کہہ کر عام مسلمانوں میں نفرت پیدا کی جاتی ہے ۔قرآن وحدیث کے معانی ومفاہیم بدل بدل کر سلفیوں کو دین میں نیا فرقہ بتلایا جاتا ہے اور ان سلفیوں کی کتابیں پڑھنے ، ان سے تعلقات استوار کرنے حتی کہ معاملات کرنے سے بھی منع کیا جاتا ہے ، وہابی اورغیرمقلد کا طعنہ گالی کے طور پر دیا جاتا ہے ۔ خیر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
سلفیت کیا ہے اوپر واضح کردیا گیا اور اب اس سلفیت کے پیروکار کون ہیں ، ان کی صفات کیا ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ عوام پر حق واضح ہوجائے ،ٹولیوں میں بٹے خواص کو حقیقت کا پتہ ہے مگروہ اپنی عوام پر نہ حق پیش کرتے ہیں اور نہ ہی حق ظاہر ہونے دیتے ۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ سلفیت ہی حق کی دعوت ہے اور اسے صرف اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کا ہی حکم ہوا ہے تو پھر وہ تقلیدی اور فقہی مذاہب سے آزاد ہوکراس سلفی منہج کواختیار کرلیتا ہے ۔
پہلے قرآن سےسلفیوں کے چند اوصاف بیان کرتا ہوں ۔
پہلی صفت :وہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کرنے والے ہیں :
اللہ نے اپنی کتاب میں بیشتر مقامات پہ اپنی اور اپنے رسول کی اتباع کا حکم دیا ہے،اللہ کا فرمان ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(آل عمران:132)
ترجمہ:اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرادری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اللہ کا فرمان ہے : فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(النور:63)
ترجمہ: سنو! جو لوگ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں کوئی دُکھ کی مار نہ پڑے۔
اللہ کا فرمان ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ (الانفال:20)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کاکہنا مانو اور اس سے روگردانی نہ کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔
اللہ کا فرمان ہے:وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ (الحشر:7)
ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ رسول دے ،لے لو اور جس سے روکے رُک جاؤ۔
ان آیات کی روشنی میں وہی مسلمان حق پر ہیں جو اللہ اور اس کی رسول کی اتباع کرتے ہیں ، ان کی اتباع کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع میں سچے اورپکے سلفی ہیں ۔
دوسری صفت : محمد ﷺ کو ہی اپناامام اور پیشوا مانتے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:21)
ترجمہ:بے شک تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔
کائنات میں سب سے افضل ہستی محمد ﷺ کی ہے ، سلفی نہ صرف اس کا اعتقاد رکھتے ہیں بلکہ اللہ کے مذکورہ فرمان کے مطابق اپنا امام اعظم بھی محمد ﷺ کو ہی مانتے ہیں اور آپ کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ سلفی کے علاوہ مسلمانوں کے تمام گروہ محمد ﷺ کو چھوڑکر کسی اور کو اپنا اپنا امام مانتے ہیں اور اپنے من مانے امام کی تقلید کو راہ نجات قرار دیتے ہیں۔
تیسری صفت : رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے میں سلف کے منہج پر چلنے والے ہیں ، اللہ کا فرمان ہے :
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبہ:100)
ترجمہ:جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے۔
یہ امتیازی صفت صرف سلفیوں کی ہے کہ وہ اتباع نبی میں صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔
چوتھی صفت: دین حق کی کامل طورپر دعوت دینے والی جماعت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے : وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ (الاعراف:181)
ترجمہ: ہماری مخلوق میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو دین حق کی رہنمائی کرتی ہے اور اسی کے ذریعہ انصاف کرتی ہے۔
اللہ تعالی نے اس آیت کے ذریعہ بتلادیا کہ دین محمدی کی کماحقہ تبلیغ کرنے والی ایک جماعت ہمیشہ قائم رہے گی اور وہ سلفیوں کی جماعت ہے۔مختلف گروہ میں بٹے مسلمانوں کے پاس بھی تبلیغ ہے مگر اپنےاپنے بزرگوں اور اماموں کی ۔دنیا اس بات پر شاہد کہ ممبرومحراب سے لیکر اجتماعا ت وکانفرنس تک سلفی حضرات صرف قال اللہ اور قال الرسول کی دعوت پیش کرتے ہیں ۔
پانچویں صفت : حق پرستوں کی تعداد کم ہوتی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (الانعام:116)
ترجمہ: اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ۔
اس معانی کی کئی آیات ہیں مگر ایک ہی آیت سے ہمیں بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ سیدھے راستے پر چلنے والوں کی کثرت نہیں ہوتی بلکہ قلت ہوتی ہے اسی لئے ہم سلفیوں کی تعداددنیا میں تھوڑی ہے اور رائے وقیاس پر چلنے والوں کی کثرت ہے۔
چھٹی صفت : اختلاف کے وقت کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کرنے والے ہیں ، اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء:59)
ترجمہ:اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے ۔
اللہ نے مومنوں کو اختلاف کے وقت اپنی طرف اور اپنے رسول کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ہے ، جب ہم اس صفت کو مسلمانوں میں تلاش کرتے ہیں تو نہ حنفی میں ملتی ہے ، نہ شافعی میں ، نہ مالکی میں اور نہ ہی حنبلی میں ، اگر کہیں یہ صفت ملتی ہے تو سلفیوں میں ملتی ہے۔
ساتویں صفت : اتفاق واتحاد کی دعوت دینے والے ہیں ، اللہ کا فرمان ہے :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ(آل عمران:103)
ترجمہ: اور تم سب لوگ مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور ٹکڑے ٹکڑے مت ہوجاؤ۔
سلفیوں نے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کی طرف لوگوں کو بلایا ہے اور یہی اتحاد ہے ، جو کتاب وسنت کے علاوہ اقوال رجال اور ملفوظات اکابرین کی دعوت دے وہ سراپا اختلاف اور دین سے دوری ہے بلکہ دین میں فرقہ بندی کرنا ہے اور اللہ نے اس آیت میں فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے ۔
قرآن میں اور بھی بہت سے صفات ہیں جن کا ذکر طوالت کی وجہ سے نہیں کرپارہاہوں ، سمجھنے والوں کے لئے اتنے دلائل کافی ہیں ۔اب احادیث کی روشنی میں چندصفات پہ غور کرتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے تین زمانوں میں خیروبھلائی کی شہادت دی ہے ،اسی سبب ان زمانوں کے نیک لوگوں کو سلف صالحین کہا جاتا ہے ۔فرمان نبوی ہے :خيرُ أمتي القرنُ الذين يلوني . ثم الذين يلونهم . ثم الذين يلونهم . (صحيح مسلم:2532)
ترجمہ: سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے۔
جو لوگ نبی ﷺ کی اتباع سلف صالحین کے منہج کے مطابق کرتے ہیں انہیں سلفی کہا جاتا ہے اور منہج سلف اختیار کرنے کا حکم قرآن سے بھی ہے جیساکہ اوپرقرآنی آیت گزری اورحدیث میں بھی ہے ۔ امت مسلمہ کے تہتر فرقوں میں بٹنے والی حدیث میں نجات پانے والی جماعت کی پہچان رسول اللہ ﷺ نے بتلائی ہے : ما أَنا علَيهِ وأَصحابي(صحيح الترمذي:2641)
یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔
منہج سلف پر چلنے والی جماعت کی ایک عظیم پہچان کا ذکر کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا:
لا تزال طائفةٌ من أمتي قائمةً بأمرِ اللهِ ، لا يضرُّهم من خذلهم أو خالفهم ، حتى يأتي أمرُ اللهِ وهم ظاهرون على الناسِ(صحيح مسلم:1037)
ترجمہ: میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ حق پر قائم رہے گا جو کوئی انہیں نقصان پہنچانا چاہے گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا اور وہ اسی طرح قائم رہے گا ۔
جب بھی سلفیوں پر ستم ڈھائے جاتے ہیں ،ان کی مخالفت کی جاتی ہے، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے ، برے القاب سے پکارا جاتا ہے تو یہی قیمتی فرمان محمدی موحدین کو تسلی دلاتی ہے کہ گھبراؤ نہیں یہ تمہارے ہی شایان شان ہے جس کی بشارت بزبان رسالت دی گئی ہے۔
یہ جماعت اختلاف کے وقت میں سنت کو تھامنے والے اور دین میں ہرقسم کی بدعت وخرافات سے اپنا دامن بچانے والی ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أوصيكم بتقوى اللهِ والسمعِ والطاعةِ وإن عبدًا حبشيًّا، فإنه من يعِشْ منكم بعدي فسيرى اختلافًا كثيرًا، فعليكم بسنتي وسنةِ الخلفاءِ المهديّين الراشدين تمسّكوا بها، وعَضّوا عليها بالنواجذِ، وإياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ(صحيح أبي داود:4607)
ترجمہ: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رہنا اور اپنے حکام کے احکام سننا اور ماننا ، خواہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ۔ بلاشبہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ، چنانچہ ان حالات میں میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا ، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں ، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا ، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا ، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا ، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
چراغ لیکر تلاش کریں اور مسلمانوں کا حال دیکھیں تو اکثر فرقوں میں بدعت کے انواع واقسام پائے جاتے ہیں اور سلفیت ہی ایک ایساخالص محمدی طریقہ ہے جس میں بدعت کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ غرباء کی نشانی بھی سلفیوں میں ہی پائی جاتی ہے ، فرمان نبوی ہے :
بدأَ الإسلامُ غريبًا، وسيعودُ كما بدأَ غريبًا، فطوبى للغرباءِ(صحيح مسلم:145)
ترجمہ: اسلام غربت اور اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب اسی اجنبیت اور غربت کی طرف لوٹ آئے گا ۔ تو غربا ءکے لئے خوشخبری ہے۔
ایک دوسری روایت میں غرباء کی وضاحت بایں الفاظ آئی ہے ،نبی ﷺ فرماتے ہیں :
طوبى للغرباءِ أناسٌ صالِحونَ في أناسٍ سوءٍ كثيرٍ ، مَنْ يَعصيهم أكثرُ ممَّنْ يُطِيعُهُمْ( صحيح الجامع:3921)
ترجمہ: اجنبیوں کے لئے خوشخبری ہو ، یہ کچھ نیک لوگ ہوں گے جن کے اطراف برے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوگی ،ان کی بات کو ٹھکرانے دینے والے قبول کرنے والوں سے بہت زیادہ ہوں گے ۔
اکثریت حق پر ہونے کا دعوی کرنے والوں کے لئے اس میں عبرت ہے ، اکثریت بالکل معیار نہیں ہے بلکہ بہت سارے نصوص سے معلوم ہوگیا کہ حق پرست کم ہوتے ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں ۔ ایک آخری صفت ذکر کرکے اسی پہ اکتفا کروں گا ۔
وَعَن مَالك بن أنس مُرْسَلًا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ « رَوَاهُ مالك فِي الْمُوَطَّأ»
ترجمہ: مالک بن انس ؒ مرسل روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، پس جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ، (یعنی) اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن کہا ہے ۔ (تخريج مشكاة المصابيح للالبانی:184)
رسول اللہ ﷺ نے نجات پانے والی اور ہردور میں موجود رہنےوالی جماعت کی نشانی یہ بتلائی کہ وہ کتاب وسنت کو تھامنے والی ہوگی اور جو جماعت انہیں چھوڑ دے بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔کامل طور پر کتاب وسنت کو تھامنے کی  صفت بھی سوائے سلف اور سلفی کے اور کہیں موجود نہیں ۔
مذکورہ بالا نصوص کتاب وسنت کی روشنی میں معلوم ہوتا کہ یہ  اوصاف سلف صالحین کے ہیں اور سلف کی پیروی کرنے والےبالفاظ دیگر سلف کے یہ اوصاف کامل طورپر محض سلفیوں میں موجود ہیں ، ان کا ایک دوسرامشہور نام  اہل الحدیث بھی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے مگر میرا یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی جماعت دین اسلام کے لئے مخلص ہے ، وہ قرآن وحدیث پر چلنے کا دعوی کرتی ہے اور وہ اپنے دعوی میں سچی اور پکی ہے تو اس جماعت کو بھی سلفی ، اہل الحدیث اورمحمدی کہہ سکتے ہیں مگرکیا آپ کو معلوم ہے کہ اہل تقلیداورخاص مسلک کی تقلیدکرنے والے خود کومحمد ﷺ کی طرف ، صحابہ کی طرف اور محدثین کی طرف نسبت کرکے محمدی، سلفی اور اہل الحدیث کیوں نہیں کہلواتے ؟ کیونکہ وہ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے دور ہیں، بفرض محال وہ دعوی بھی کریں کہ ہم قرآن وحدیث کے ماننے والے ہیں تو وہ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں ۔ سبھی جانتے ہیں کہ دعوی بغیر دلیل کے باطل ہے۔
آخری بات پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہمارے لئے سلفی یا اہل الحدیث کی نسبت ضروری نہیں تھی،اللہ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے یہی نام ہمارے لئے کافی ہے مگر امت مسلمہ میں فرقہ بندی کے سبب تعارف کے طور پر خود کوخوارج، روافض ، قدریہ، مرجیہ ، جبریہ ، جہمیہ اورمعتزلہ وغیرہ سے الگ کرنے کے لئے اس کی اشد ضرورت پڑگئی ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ سلف صالحین کی اقتدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کرنے میں کتاب وسنت کے نصوص (عقیدہ وسلوک ، عبادات ومعاملات)کو جس طرح سلف نے سمجھا ہے اسی طرح سمجھیں گے یعنی دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے سلف ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
مکمل تحریر >>