Friday, August 31, 2018

چوڑی دار شلوار پہننے کا حکم


چوڑی دار شلوار پہننے کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

چوڑی دار شلوار وہ چست پاجامہ کہلاتی ہے جس کی مہریاں لمبی ہونے کےسبب ٹخنوں پر کپڑے میں سلوٹیں پڑیں یا خود ڈالی جائیں ۔ ایسی چوڑی دار شلوار جہاں مرد حضرات استعمال کرتے ہیں وہیں مسلم خواتین بھی استعمال کرتی ہیں یعنی دونوں جنسوں میں مستعمل ہے تاہم صنف نازک میں خاصا مقبول ہے۔ اسلام نے مسلمانوں (مردوعورت) کو کوئی مخصوص لباس کا حکم نہیں دیا ہے مگر لباس کے شرعی حدود وقیود بیان کئے ہیں ۔
اسلامی لباس کی ایک قید یہ ہے کہ وہ ستر کو پوری طرح چھپانے والا ہو ۔ مرد کا ستر ناف کے نیچے سے گھٹنے تک ہے اور عورت کا ستربالوں سمیت مکمل جسم ہے۔
دوسری قید یہ ہے کہ لباس اتنا باریک نہ ہوکہ اعضائے ستر جھلکتے ہوں ، اسی طرح تیسری قید یہ ہےکہ لباس اتنا تنگ نہ ہو جس سے چھپانے والے حصوں کے خدوخال نمایاں ہوں۔ ان کے علاوہ عورت کو مرد کا لباس ، مرد کو عورت کا لباس پہننا منع ہے، لباسوں میں کفار کی مشابہت اور شہرت کا لباس بھی منع ہے۔ ان کے علاوہ بھی لباس کے مزید آداب واحکام ہیں لیکن یہاں ہمارا مقصود چوڑی دار شلوار پہننے کا حکم جاننا ہے اس لئے مزید تفصیل سے گریز کیا جارہاہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا(صحيح مسلم:2128)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو لباس پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔
اس حدیث میں "کاسیات عاریات " کا لفظ کئی معانی کو شامل ہے ۔
ایک معنی تو یہ ہے کہ عورت لباس تو لگاتی ہے مگر چھوٹا جس سے اس کا ستر پوری طرح نہیں چھپ پاتا ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ عورت کا لباس اتنا باریک ہوتا ہے کہ نظر اس لباس کے اندر جسم کے رنگ اور اس کی چمڑی کو دیکھ لیتی ہے ۔
تیسرا معنی جو یہاں ہمارا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ عورت اس قدر تنگ اور چست لباس لگاتی ہے کہ فتنے کی جگہیں یعنی مقامات ستروحجاب ظاہر ونمایاں ہوتے ہیں ۔
گویا ایسا کوئی لباس جو گرچہ جسم عورت کو ڈھک دے مگر چست ہو اس کا پہننا جائز نہیں ہے چاہے شلوار ہو یا قمیص۔ عورتوں کی طرح مردوں کے لئے بھی چست پاجامہ جس سے آگے اور پیچھے کا ستر اپنے خدوخال کے ساتھ  نمایاں کرتاہوجائز نہیں ہے ۔
چوڑی دار شلوار کی طرح چست جنس یاچست پاجامہ یا چست کوئی بھی کپڑا عورت اور مرد کے ستر کو واضح/نمایاں کرے جائز نہیں ہے ۔ ہاں عورت کے لئے اپنے گھر میں تنہائی میں یا اپنے شوہر کے سامنے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اسی طرح اگر چوڑی دار شلوار، ڈھیلا ڈھالاقمیص یا اوپر کے لباس سے بالکل ڈھکا ہوا ہو اس طور پر کہ شلوار کے ساتھ مکمل طور پر ستر ڈھکاہوا ہو تو پھر فتنہ کا سبب زائل کی وجہ سےاس کے پہننے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس صورت میں شلوار اوپر والے بڑےساتر لباس کے اندر ڈھک جائے گا ۔ مگر آج کل صورت حال ناگفتہ بہ ہے بالخصوص عورتوں کی ، کہ ان کا لباس باریک ، تنگ، جاذب نظر، چھوٹا ، عریاں، مردوں کے مشابہ، کفار نما وغیرہ قسم قسم کے ہیں ۔ یہ سب مغربی تہذیب ، فلم بینی ، فیشن پرستی ، دین سے دوری ،کفار سے میل جول اور ان کی نقالی کے برے اثرات ونتائج ہیں ۔ مسلمان عورتوں کو اللہ کا خوف کھانا چاہئے اور اس کے دین میں حجاب کا جو شرعی اصول موجود ہے اس کے تئیں اپنا لباس منتخب کرنا چاہئے۔
مکمل تحریر >>

Thursday, August 30, 2018

نومولود کو دعا دینے کا مسنون طریقہ


نومولود کو دعا دینے کا مسنون طریقہ

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

اولاد اللہ کی طرف سے بڑی نعمت ہے، اس نعمت پرخوش ہونا فطری امر ہے اوراللہ رب العالمین کا شکریہ بجالانا نعمت کا تقاضہ ہے ۔ صاحب اولاد کی خوشی میں دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی شریک ہونا چاہئے اور اس کے بچے کی صحت وعافیت اور خیروبرکت کے لئے دعا کرنی چاہئےاس لئے تو نبیﷺصحابہ کے یہاں بچوں کی پیدائش پر دعائیں دیتے ہیں  ۔ دعا کا باب وسیع ہے جس قدر مناسب ہو نومولود کے حق میں خیروبرکت کی دعا کی جائے لیکن یاد رہے نومولود کے لئے دعا دینے میں سنت کا دامن تھاما جائے ۔ نبی ﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی بچہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو آپ اس کے لئے دعائے برکت کرتے ۔ اس سلسلے میں چند احادیث آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ نومولود کو دعا دینے کے لئے مسنون طریقہ معلوم ہوسکے ۔
پہلی حدیث :
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَيْتُ المَدِينَةَ فَنَزَلْتُ قُبَاءً، فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ «أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَنَّكَهُ بِالتَّمْرَةِ، ثُمَّ دَعَا لَهُ فَبَرَّكَ عَلَيْهِ» وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الإِسْلاَمِ، فَفَرِحُوا بِهِ فَرَحًا شَدِيدًا، لِأَنَّهُمْ قِيلَ لَهُمْ: إِنَّ اليَهُودَ قَدْ سَحَرَتْكُمْ فَلاَ يُولَدُ لَكُمْ(صحيح البخاري:5512)
ترجمہ: سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن زبیر کی امید سے تھیں انہوں نے ہا کہ جب میں وہاں سے ہجرت کے لیے نکلی تو ولادت کا وقت قریب تھا۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر میں نے قباء میں رہائش اختیار کی۔ پھر قباء میں ہی عبداللہ بن زبیر پیدا ہوا۔ میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسے آپ کی گود میں رکھ دیا۔ آپ نے کھجور طلب فرمائی اسے چبایا اور بچے کے منہ میں لعاب مبارک ڈال دیا، چنانچہ پہلی چیز جو بچے کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ ﷺ کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپ نے اسے کھجور سے گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ یہ سب سے پہلا بچہ تھا جو (ہجرت کے بعد) دور اسلام میں پیدا ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سے بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے ہاں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ یہودیوں نے تم پر جادو کردیا ہے لہذا تمہارے ہاں اب کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔
ہجرت کے بعد دور اسلام میں پیدا ہونے والا پہلا بچہ عبداللہ بن زبیر کی پیدائش پر نبی ﷺ نے ان کے لئے برکت کی دعا کی ۔
دوسری حدیث :
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «وُلِدَ لِي غُلاَمٌ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِيمَ، فَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ، وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ، وَدَفَعَهُ إِلَيَّ»، وَكَانَ أَكْبَرَ وَلَدِ أَبِي مُوسَى(صحيح البخاري:5510)
ترجمہ: سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرے یہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو چبا کر اس کی گھٹی دی نیز اس کے لیے خیر وبرکت کی دعا فرمائی پھر وہ مجھے دے دیا یہ سیدنا ابو موسیٰ ؓ کے سب سے بڑے لڑکے تھے.
تیسری حدیث :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيَدْعُو لَهُمْ بِالْبَرَكَةِ.(صحيح أبي داود:5127)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چھوٹے بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے ۔
اولاد کے لئے برکت کی دعائیں :
ان تینوں احادیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نومولود کے لئے برکت کی دعا کرتے تھے ، اکثر احادیث میں اسی طرح برکت کی دعا کرنا مذکور ہے ۔ مسند بزار (ح:7310) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی برکت کی ایک خصوصی دعا بھی مجھے ملی ۔ آپ ﷺ نےبچہ کی پیدائش پر انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور یہ دعا کہو:
بَارَكَ اللَّهُ لَكِ فِيهِ، وَجَعَلَهُ بَرًّا تَقِيًّا.
علامہ ہیثمی نے اس حدیث پر حکم لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں سوائے احمد بن منصور الرمادی کے اور وہ ثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد: 9/264)
لہذا ہم یہ دعا بھی کرسکتے ہیں اور اس کے علاوہ ماثورہ دعاؤں میں سے برکت کی ہر وہ دعا بھی کرسکتے ہیں جو اولاد کو شامل ہو مثلا
*اللهم أكثِرْ مالَه، وولدَه، وبارِكْ له فيما أعطَيتَه(صحيح البخاري:6344)
ترجمہ: اے اللہ !اس کے مال اور اس کی اولاد میں اضافہ کردے اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔
* اللهمَّ ! بارِكْ لهم في ما رزقتَهم واغفرْ لهم وارحمْهم(صحيح مسلم:2042)
ترجمہ: اے اللہ !تونے انھیں جو رزق دیا ہے اس میں ان کے لیے برکت ڈال دے اور ان کے گناہ بخش دے اور ان پر رحم فرما۔
اولاد کے لئے دعا کا اثر :
صالح اولاد کےحصول کے لئے اللہ سے دعا کرنی چاہئے ، اولاد نصیب ہوجائے تو پھر اس کی خیر وبرکت کے لئے مزید دعا کرنی چاہئے کیونکہ دعا کا اثر ہوتا ہے ۔ جس طرح ایک انسان اپنی اولاد کے لئے دعا کرے اسی طرح دوسرے مسلمان کی اولاد کے لئےبھی  دعا کرے ، یہاں بچے کی موت پر صبر اور دعا کی تاثیرسے متعلق ایک عبرت آموز واقعہ بیان کرنا مفید ہوگا ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔انھوں نے فرمایا:
اشتكى ابنٌ لأبي طلحةَ ، قال : فمات وأبو طلحةَ خارجٌ ، فلمَّا رَأَتِ امرأتُهُ أنَّهُ قد ماتَ ، هَيَّأَتْ شيئًا ، ونَحَّتْهُ في جانبِ البيتِ ، فلمَّا جاءَ أبو طلحةَ قال : كيف الغلامُ ؟ قالت : قد هَدَأَتْ نَفْسُهُ ، وأرجو أن يكونَ قد استراحَ . وظَنَّ أبو طلحةَ أنَّها صادقةٌ . قال : فبَاتَ ، فلمَّا أصبحَ اغتسلَ ، فلمَّا أراد أن يخرجَ أَعْلَمَتْهُ أنَّهُ قد ماتَ ، فصلَّى مع النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، ثم أَخْبَرَ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بما كان منها ، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : لعلَّ اللهَ أن يُبَارِكَ لكما في ليلتكما . قال سفيانٌ : فقال رجلٌ من الأنصارِ : فرأيتُ لهما تسعةَ أولادٍ ، كلُّهم قد قرأَ القرآنَ .(صحيح البخاري:1301)
ترجمہ: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بیٹا بیمارتھا وہ فوت ہو گیا جبکہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ ان کی بیوی نے بچےکو غسل وکفن دے کر اسے گھر کے ایک گوشے میں رکھ دیا۔ جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر تشریف لائے تو پوچھا:لڑکے کا کیا حال ہے؟ان کی بیوی نے جواب دیا:اسے آرام ہے اور مجھے امید ہے کہ اسے سکون میسر ہوا ہے۔حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں(بچہ اب ٹھیک ہے) پھر وہ رات بھر اپنی کے پاس رہے اور صبح کو غسل کر کے باہر جانے لگے تو بیوی نے انھیں بتایا کہ لڑکا تو فوت ہو چکا ہے۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی ﷺ کے ہمرا صبح کی نماز ادا کی پھر رات کے ماجرے کی نبی ﷺ کو خبردی جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ تم دونوں میاں بیوی کو تمھاری اس رات میں برکت دے گا۔" ایک انصاری شخص کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کی نسل) سے نولڑکے دیکھے جو سارے کے سارے حافظ قرآن تھے۔
ایک دوسرا واقعہ معاویہ بن قرۃ رحمہ اللہ کا ہے وہ بیان کرتے ہیں :
لمَّا وُلِدَ لي إِياسٌ دَعَوْتُ نَفَرًا من أصحابِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ؛ فَأَطْعَمْتُهُمْ ، فَدَعَوْا ، فقُلْتُ : إِنَّكُمْ قد دَعَوْتُمْ فَبارَكَ اللهُ لَكُمْ فيما دَعَوْتُمْ ، وإنِّي إنْ أَدْعُو بِدُعَاءٍ فَأَمِّنُوا ، قال : فَدَعَوْتُ لهُ بِدُعَاءٍ كَثِيرٍ في دِينِهِ ، وعَقْلِه وكذا ، قال : فإني لأَتَعَرَّفُ فيهِ دُعَاءَ يومئذٍ(صحيح الأدب المفرد:950)
ترجمہ: میرے یہاں میرا بیٹا ایاس پیدا ہوا تو میں نے نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے چند آدمیوں کی دعوت کی اور انہیں کھانا کھلایا ، پھر انہوں نے دعا مانگی تو میں نے کہا ، بے شک تم نے دعا کی ہے اللہ تعالی تمہاری اس دعا میں برکت دے جو تم نے مانگی ہے اور اب اگر میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ فرماتے ہیں پھر میں نے اس کے لئے اس کے دین اور اس کی عقل وغیرہ کے لئے ڈھیروں دعائیں مانگیں ، فرماتے ہیں بے شک میں اس (بچہ ایاس) میں اس دن کی دعاؤں کا اثر پہچانتا ہوں ۔
قابل توجہ ایک بات عرض کرتا چلوں کہ والد کی دعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے اس لئے اپنی اولاد کو بددعا نہ دے کیونکہ یہ بد دعا بھی قبول ہوسکتی ہے ۔
نومولود کے حق میں اسلاف سے منقول صحیح یا ضعیف دعائیں :
بعض اسلاف سے نومولود کے لئے مختلف دعائیں اور آثاروارد ہیں جن کا درج ذیل سطور میں خلاصہ بیان کیا جاتا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا عمل : کثیر بن عبید بیان کرتے ہیں :
كانت عائشةُ رضي اللهُ عنها إذا وُلِدَ فيهم مولودٌ ( يعني من أهلِها ) لا تسألْ : غلامًا ولا جاريةً ، تقول : خُلِقَ سويًّا ؟ فإذا قيل : نعم ، قالت : الحمدُ لله ربِّ العالمينَ(صحيح الأدب المفرد:951)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں اپنے گھر والوں میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو یہ نہ پوچھتیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی بلکہ پوچھتیں کہ صحیح و سالم پیدا ہوا ؟ اگر کہا جاتا ہاں تو کہتیں : الحمدُ لله ربِّ العالمينَ (ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے)۔
ہمارے معاشرہ میں پیدائش پر سب سے پہلے یہ پوچھا جاتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی ہے اس حدیث میں اس بابت ہمارے لئےبڑی عبرت ہے ۔
حسن بصری ؒ اور ایوب سختیانی سے منقول صحیح دعا:
ایوب سختیانی سے منقول ہے کہ بچے کی پیدائش پر اس طرح اسے مبارکبادی پیش کرتے : "جعله الله مباركا عليك وعلى أمة محمد "
اسے ابن ابی الدنیا نے النفقۃ علی العیال میں (رقم/202) میں ذکر کیا ہے ۔
یہی صیغہ حسن بصری سے بھی منقول ہے ، سری بن یحی بیان کرتے ہیں کہ حسن کی مجلس میں بیٹھنے والے ایک شخص کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو ایک دوسرے شخص نے بچے کی پیدائش پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا :آپ کو یہ فارس ( گھڑ سوار) مبارک ہو۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کو کیا پتہ کہ یہ فارس ہوگا؟ شاید وہ بڑھی ہو یا درزی ہو۔ انہوں پوچھا تو کیسے کہیں تو آپ نے کہایوں کہو:
جَعَلَهُ اللَّهُ مُبَارَكًا عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(الدعاء للطبراني , باب : كَيْفَ التَّهْنِئَةُ بِالْمَوْلُودِ، رقم الحديث: 872)
اس دعا کو بعض اہل علم نے سلف کی جانب سے منقول صحیح دعا قرار دیا ہے جیساکہ شیخ یحی بن علی حجوری یمنی اور شیخ ابوخالد ولید بن ادریس اسکندری وغیرہ
لوگوں میں مشہور ایک  ضعیف دعا :
الاذکار للنووی کے حوالے سے لوگوں میں یہ دعا بہت مشہورو معروف ہے : " بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي الـمَوْهُوبِ لَكَ، وَشَكَرْتَ الوَاهِبَ، وبَلَغَ أشُدَّهُ، وَرُزِقْتَ بِرَّهُ"
ترجمہ: اللہ آپکی اولاد میں برکت دے مضبوط بنائے اور آپکو انکی بھلائی حاصل ہو اور آپ اسکا شکر ادا کریں۔
یہ دعا حسن بصری کی طرف منسوب ہے مگر اس کی سند میں شدید ضعف ہونے کے باعث ضعیف ہے ۔
تاریخ اصبھان کی ایک اور ضعیف روایت :
ابونعیم نے اپنی تاریخ اصبھان کے اندر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سےذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ کے پاس جب کوئی بچہ پیدائش کے بعد لایا جاتا تو کہتے :
"اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ بَارًّا تَقِيًّا رَشِيدًا ، وَأَنْبِتْهُ فِي الإِسْلامِ نَبَاتًا حَسَنًا" (أخبار أصبهان لأبي نعيم, وَهَذَا كِتَابُ صُلْحِ إَصْبَهَانَ, بَابُ الْعَيْنِ: رقم الحديث: 1717)
اس کی سند میں بھی ضعیف راوی ہونے کے سبب یہ روایت بھی حجت کے قابل نہیں ہے ۔
مضمون کا لب لباب :
پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ نبی ﷺ بچہ کی پیدائش پراس کے لئے برکت کی دعا کرتے تھے اس لئے ہم بھی اپنے سماج میں اس سنت کو زندہ کریں جو صرف کتابوں میں نظر آتی ہے اور بغیر تخصیص کے برکت کی ہر وہ مسنون دعا کرسکتے ہیں جو اولاد کے حق میں مفید ہو صرف نظر اس سے کہ لڑکا ہے یا لڑکی ۔کم ازکم "اللھم بارک فیہ" یا "بارک اللہ فیہ" بھی کہہ سکتے ہیں حتی کہ اپنی زبان میں بھی دعا کرسکتے ہیں ۔ مضمون میں جن دعاؤں کا ضعیف ہونا اجاگر کیا گیا ہے انہیں ضعیف مانتے ہوئے کبھی کبھار پڑھ لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی معنوی خرابی نہیں ہے البتہ اسے نومولود کی مبارکبادی کے لئے خاص نہ مانا جائے ۔ نیز ایسے موقع سے اسراف خواہ دعوت کے نام پہ ہو یا تحائف کے نام پہ ، یا غیرشرعی امور مثلا گانے بجانے اوراظہار مسرت میں اہل کفر کی مشابہت اختیار کرنے سے بچا جائے ۔ اسی طرح لڑکے کی پیدائش پہ خوشی منانا اور لڑکی کی پیدائش کو باعث غم سمجھ کر غمگین ہونا یا کسی قسم کی بدفالی لینا کفار کا شیوہ ہے ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, August 29, 2018

فرض نماز کے بعد تسبیح (سبحان اللہ ، الحمدللہ اور اللہ اکبر) میں ترتیب کا حکم


فرض نماز کے بعد تسبیح (سبحان اللہ ، الحمدللہ اور اللہ اکبر) میں ترتیب کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

سوال : کیا ہم فرض نماز کے بعد کی تسبیح سبحان اللہ 33 بار، الحمد للہ 33 بار اور اللہ اکبر 33 بار کو اسی ترتیب سے پڑھیں گے یا اس کی ترتیب بدل جانے میں کوئی حرج نہیں ہے ؟
جواب : اکثر روایات میں تسبیح کی ترتیب میں سبحان اللہ پہلے پھر الحمد للہ اور اس کے بعد اللہ اکبر آیا ہے مگر کچھ دوسری روایات میں تقدیم وتاخیر بھی وارد ہے جیساکہ ایک ہی روایت میں پہلے یہی ترتیب ہے پھر ترتیب بدل گئی ہے ، روایت دیکھیں :
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
خصلتان، أو خلتان لا يحافظُ عليهما عبدٌ مسلمٌ إلا دخل الجنةَ، هما يسيرٌ، ومن يعملُ بهما قليلٌ، يسبِّحً في دُبُرِ كلِّ صلاةٍ عشْرًا، ويحمَدَ عشْرًا ، ويكبِّرُ عشْرًا، فذلك خمسون ومائةٌ باللسانِ، وألفٌ وخمسمائةٍ في الميزانِ، ويكبِّرُ أربعًا وثلاثين إذا أخذ مضجعَه ، ويحمَدُ ثلاثًا وثلاثين ، ويسبِّحُ ثلاثًا وثلاثين ، فذلك مائةٌ باللسانِ ، وألفٌ في الميزانِ(صحيح أبي داود:5065)
ترجمہ: دو عمل ایسے ہیں اگر کوئی مسلمان بندہ ان کی پابندی کر لے ، تو جنت میں داخل ہو گا اور وہ بہت آسان ہیں مگر ان پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں ۔ ( ایک یہ ہے کہ ) ہر نماز کے بعد دس بار «سبحان الله» دس بار «الحمد الله» اور دس بار «الله اكبر» کہے تو زبان کی ادائیگی کے اعتبار سے ایک سو پچاس بار ہے ( مجموعی طور پر پانچوں نمازوں کے بعد ) اور ترازو میں ایک ہزار پانچ سو ہوں گے اور جب سونے لگے تو چونتیس بار «الله اكبر» تینتیس بار «الحمد الله» اور تینتیس بار «سبحان الله» کہے ۔ زبانی طور پر تو یہ ایک سو بار ہے مگر میزان میں یہ تسبیحات ایک ہزار ہوں گی ۔
یہ حدیث سونے کے باب میں ہے مگر چونکہ وہی تسبیح ہے اس لئے دلیل پکڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس بات کو مزید ایک دوسری حدیث سے تقویت ملتی ہے ۔
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَرْبَعٌ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ لَا يَضُرُّكَ بِأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ(صحيح مسلم:2137)
ترجمہ: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چارکلمات ہیں:" سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ" اورتم(ذکر کرتے ہوئے) ان میں سے جس کلمے کو پہلے کہو،کوئی حرج نہیں۔
صحیح البخاری ، باب الذکر بعد الصلاۃ کے تحت آئی حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔
قوله : ( وتسبحون وتحمدون وتكبرون ) كذا وقع في أكثر الأحاديث تقديم التسبيح على التحميد وتأخير التكبير ، وفي رواية ابن عجلان تقديم التكبير على التحميد خاصة ، وفيه أيضا قول أبي صالح يقول : الله أكبر وسبحان الله والحمد لله ومثله لأبي داود من حديث أم الحكم ، وله من حديث أبي هريرة تكبر وتحمد وتسبح وكذا في حديث ابن عمر . وهذا الاختلاف دال على أن لا ترتيب فيها ، ويستأنس لذلك بقوله في حديث الباقيات الصالحات لا يضرك بأيهن بدأت لكن يمكن أن يقال : الأولى البداءة بالتسبيح لأنه يتضمن نفي النقائض عن الباري - سبحانه وتعالى - ، ثم التحميد لأنه يتضمن إثبات الكمال له ، إذ لا يلزم من نفي النقائض إثبات الكمال . ثم التكبير إذ لا يلزم من نفي النقائض وإثبات الكمال أن يكون هنا كبير آخر ، ثم يختم بالتهليل الدال على انفراده - سبحانه وتعالى - بجميع ذلك . (فتح الباری شرح صحیح البخاری)
ترجمہ: اللہ کے نبی ﷺ کا قول "وتسبحون وتحمدون وتكبرون " اکثر احادیث میں سبحان اللہ ، الحمدللہ پر مقدم ہے اور آخر میں اللہ اکبر ہے ۔ ابن عجلان کی روایت میں خاص طور سے اللہ اکبر ،الحمدللہ پر مقدم ہے ۔ اس میں ابوصالح کا بھی قول ہے کہتے ہیں : الله أكبر وسبحان الله والحمد لله، اور اسی کے مثل ابوداؤد میں ام الحکم سے مروی ہے ، اور ابوھریرہ کی حدیث میں اللہ اکبر، الحمدللہ اور سبحان اللہ ہے ، اسی طرح ابن عمر کی حدیث میں بھی ہے ۔
یہ اختلاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں ترتیب (ضروری ) نہیں ہے ، اس کی تائید حدیث "الباقیات الصالحات" میں اس قول سے ملتی ہے " لَا يَضُرّك بِأَيِّهِنَّ بَدَأْت" یعنی جس کلمے کو پہلے کہو،کوئی حرج نہیں. لیکن ممکن ہے کہ کہاجائے کہ اولی یہ ہے کہ سبحان اللہ سے شروع کیا جائے کیونکہ اس میں اللہ سبحانہ وتعالی سے تمام نقائص کی نفی کو متضمن ہے ، پھر الحمدللہ کہا جائے کیونکہ یہ اللہ کے تمام کمالات کے اثبات کو شامل ہے تو نقائص کی نفی سے اثبات کمال لازم نہیں آتا، پھر اللہ اکبر کہے تو نقائص کی نفی اور اثبات کمال سے لازم نہیں آتا کہ وہاں کوئی دوسرا بھی بڑا ہے ۔ پھر لاالہ الا اللہ پر ختم کرے جو اللہ سبحانہ وتعالی کی انفرادیت پران سارے امور میں دلیل ہے ۔
اس باب میں حافظ رحمہ اللہ کی بات عمل کرنے کے اعتبار سے بالکل واضح ہے، اب کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا۔  
مکمل تحریر >>

Tuesday, August 28, 2018

سفرجل سے متعلق وارد احادیث کی حقیقت


سفرجل سے متعلق وارد احادیث کی حقیقت

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

سفرجل (عربی لفظ) سیب کی شکل کا ایک پھل ہے جسے اردو میں بہی، ہندی میں بیل، فارسی میں شُبل، سنسکرت میں وسعت کی دیوی، انگریزی میں Quince کہتے ہیں ۔ اس پھل کے تعلق سےعمومی طور پر لوگوں میں اور خصوصی طورپریونانی اطباء میں مختلف قسم کے فوائد مشہور ہیں جن کا یہاں ذکر کیا جائے گا تاکہ ان کی شرعی حیثیت معلوم ہوسکے ۔ عوام میں ایک بات بہت مشہور ہے کہ حاملہ عورت اگر اس پھل کو کھائے تو خوبصورت بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ آئیے سفرجل سے متعلق احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں ۔
(1) جابر بن عبداللہ کی حدیث :
كُلوا السَّفَرْجَلَ، فإنَّه يجلِّي عنِ الفؤادِ، و يَذهبُ بِطَخَاءِ الصدرِ (أخرجه أبو نعيم في الطب النبوي:794)
ترجمہ: سفرجل کھاؤ کیونکہ وہ دلوں کو جلا بخشتا ہے اورسینے سے بوجھ اتار دیتا ہے۔
حکم:اس کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعيف الجامع؛ 4205)
(2) انس بن مالک کی حدیث :
كُلُوا السَّفَرْجَلَ على الرِّيقِ ؛ فإنه يُذْهِبُ وَغَرَ الصدرِ(أخرجه أبو نعيم في الطب النبوي:793والديلمي في الفردوس:4712)
ترجمہ: نہار منہ بہی کھایا کروکیونکہ یہ سینے کے غلبہ اور اس کی حرارت کو دور کرتا ہے ۔
حکم: اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة: 4099)
مذکورہ صحابی سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں ۔
أكْلُ السّفَرْجَلِ يَذْهَبُ بِطَخاءِ القَلْبِ.
ترجمہ: بہی کھانا دل کے بوجھ کو دور کرتا ہے ۔
حکم : اسے شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ ( السلسلة الضعيفة:7044)
(3) عوف بن مالک الاشجعی کی حدیث :
كُلوا السَّفرجلَ ، فإنَّهُ يُجمُّ الفؤادَ ، ويُشجِّعُ القلبَ ويحسِّنُ الوَلدَ(الجامع الصعير)
ترجمہ: بہی کھایا کرو کیونکہ یہ دل کو ٹھیک ،قلب کو مضبوط اور لڑکے کو حسین بناتا ہے ۔
حکم : اس کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے (ضعيف الجامع:4206)
(4) سعد بن ابی وقاص کی حدیث :
أتاني جبريلُ عليه الصلاةُ والسلامُ بسفرْجلةِ من الجنةِ ؛ فأكلتُها ليلةَ أُسريَ بي، فعلقتْ خديجةُ بفاطمةَ، فكنت إذا اشتقتُ إلى رائحةِ الجنةِ ؛ شممتُ رقبةَ فاطمةَ۔( أخرجه الحاكم :4738)
ترجمہ: میرے پاس جبریل علیہ السلام جنت سے سفرجل(بہی) لیکر آئے ، اسے میں نے اسراء کی رات کھایاتو خدیجہ فاطمہ سے بالکل جڑ گئیں یعنی خدیجہ فاطمہ میں جاگزیں ہوگئیں ، جب بھی مجھے جنت کی خوشبو کی چاہ ہوتی ہو تو فاطمہ کی گردن کو چو م (سونگھ) لیتا۔
حکم : اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے (السلسلة الضعيفة:5027)
(5) طلحہ بن عبیداللہ کی حدیث :
دخَلتُ علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وبيدِهِ سفَرجَلةٌ : فقالَ : دونَكَها يا طَلحةُ فإنَّها تُجِمُّ الفؤادَ(سنن ابن ماجہ : 3369)
ترجمہ: حضرت طلحہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:میں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں سفرجل(بہی کا پھل)تھا ۔آپنے فرمایا:اے طلحہ!یہ لے لو ‘اس سے دل کو راحت(اورقوت) حاصل ہوتی ہے۔
حکم : اس کی سند کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔(ضعيف ابن ماجه:675)
عن طلحة بن عبيد الله قال : دخلت على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ، وفي يده سفرجلة فرماها إلي أو قال : ألقاها إلي ، وقال : " دونكها أبا محمد ، فإنها تجم الفؤاد( المستدرك على الصحيحين:5645)
ترجمہ: حضرت طلحہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:میں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں سفرجل(بہی کا پھل)تھا ،آپ نے اسے میری جانب بڑھایااور فرمایا:اے ابومحمد!یہ لے لو ‘اس سے دل کو راحت(اورقوت) حاصل ہوتی ہے۔
حکم : اس حدیث کو حاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے مگر دوسرے محدثین نے ضعیف کہا ہے جیساکہ اوپر شیخ البانی کا حکم موجود ہے ، اسی طرح ذہبی نے کہا کہ اس کی سند میں عبد الرحمن بن حماد الطلحي ہے جس کے متعلق ابوحاتم نے منکر الحدیث اور ابن حبان وغیرہ نے "لایحتج بہ" اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی کہا ہے ۔(ميزان الاعتدال:2/557)
(6) عبداللہ بن عمر کی حدیث :
أن النبيَّ صلى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أهدي إليه سفرجلاتٌ من الطائفِ فأعطاهن معاويةَ وقال تلقاني بها في الجنةِ.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو طائف کا سفرجل ہدیہ کیا گیا، آپ نے اسے معاویہ کو دیا اور کہا کہ تم اس کے ساتھ مجھے جنت میں ملوگے ۔
حکم : خلیلی نے کہا کہ حفاظ نے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(الإرشاد:1/271 )
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم دفع إلى معاويةَ بنِ أبي سفيانَ سفرجلةً وقال : الْقني بها في الجنَّةِ . قال : فانصرفتُ فلم أعُدْ إليه۔
ترجمہ: عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے معاویہ بن سفیان کو سفرجل دیا، اور کہا کہ تم اس کے ساتھ مجھ سے جنت میں ملو ، راوی نے کہا کہ میں واپس چلا گیا پھر لوٹ کر آپ کے پاس نہیں آیا۔
حکم: اسے ابن الجوزی نے موضوع کہا ہے ۔(موضوعات ابن الجوزي:2/261)
أنَّ جعفرَ بنَ أبي طالبٍ أهدَى إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سفرجلًا فأعطَى معاويةَ ثلاثَ سفرجلاتٍ وقال : الْقني بهنَّ في الجنَّةِ۔
ترجمہ: : عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جعفر بن ابی طالب نے نبی ﷺ کو سفرجل ہدیہ کیا ، آپ نے اس میں سے تین عدد معاویہ کو دیا اور کہا کہ تم اس کے ساتھ مجھ سے جنت میں ملو ۔
حکم : اسے ابن الجوزی نے موضوع کہا ہے ۔(موضوعات ابن الجوزي:2/260 )
(7) عبداللہ بن عباس کی حدیث :
دخلتُ على النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وبيدِه سفرجَلةٌ فقال لي : دونَكها يا عبَّاسُ فإنَّها تُذكي الفؤادَ( أخرجه ابن حبان في المجروحين:1/277، وابن عدي في الكامل في الضعفاء:4/123)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:میں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں سفرجل(بہی کا پھل)تھا ، آپنے فرمایا:اے عباس!یہ لے لو ‘یہ دلوں کو پاگیزہ کرتا ہے۔
حکم : ابن عدی نے الکامل اور لسان المیزان میں اور ابن القيسراني نے ذخیرہ میں منکر کہا ہے ۔(ذخيرة الحفاظ:3/1328)
جاء جابرُ بنُ عبدِ اللهِ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بسفرجلةٍ قدم بها من الطائفِ فناوله إياها فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إنه يذهبُ بطخاوةِ الصدرِ ويجلو الفؤادَ(أخرجه الطبراني :11/112، 11209)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جابربن عبداللہ نبی ﷺ کے پاس آئے ساتھ میں سفرجل(بہی) تھا جو طائف سے لائے تھے ، پس آ پ نے اسے تناول فرمایا تو نبی ﷺ نے فرمایا: یہ سینے کے بوجھ کو اتارتا ہے اور دل کی بیماری کو دور کرتا ہے۔
حکم : ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند میں علي القرشي ہے جسے میں نہیں پہچانتا ہوں اور بقیہ رجال ثقہ ہیں ۔ ( مجمع الزوائد:5/48)
(8) عبداللہ بن زبیر کی حدیث:
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانت في يدِه سفرجلٌ فجاءَ طلحةُ فقالَ دونَكَها يا أبا محمَّدٍ فإنَّها يُجِمُّ الفؤادَ .(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي:رقم الحديث: 1074)
ترجمہ: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے ہاتھ میں سفرجل(بہی) تھا ، طلحہ آئے تو آپ نے کہا ابومحمد! یہ لے لو ‘اس سے دل کو راحت(اورقوت) حاصل ہوتی ہے۔
حکم: اس حدیث کو ابن الجوزی نے اپنی اس کتاب میں درج کیا ہے جس میں ضعیف احادیث کو ذکر کیا ہے یعنی العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ۔
اوپر آٹھ راویوں سے سفرجل کے متعلق متعدد احادیث بیان کی گئیں ، ساتھ ہی ان کا حکم بھی بتادیا گیا جس سے آسانی کے ساتھ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سفرجل(بہی) کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے لہذا ہم سفرجل کے فوائد بیان کرکے ان کو نبی ﷺ کی طرف منسوب نہ کریں کیونکہ اس سے متعلق ساری احادیث ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث سے دلیل نہیں پکڑی جاتی ہے ۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ طبی تجربات کی روشنی میں سفرجل کے جو فوائد ہمیں معلوم ہوتے ہیں ، ہم ان کا انکار نہیں کرتے ، اور فوائد حاصل ہونے کی وجہ سے اس کا کھانا بھی منع نہیں ہوگا ۔ منع صرف یہ ہے کہ اس کا کوئی فائدہ ذکر کرکے نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا جائے ۔
مزید ایک بات قابل وضاحت ہے کہ شیعوں کی کتاب میں سفرجل کے بڑے فوائد بیان کئے گئے ہیں ، ہم میں سے بعض لوگ ان کی کتابوں کی مشہور باتوں کو اپنے درمیان پھیلاتے ہیں اور اسے حدیث رسول سمجھتے ہیں مثلا سفرجل کھانے سے چالیس مرد کی قوت پیدا ہوتی ہے ، یہ شیعی کتاب مستدرک الوسائل میں موجود ہے مگر ہمارے درمیان اس بات کو کافی شہرت حاصل ہے ۔
یہاں ہم یہ بھی جان گئے ہیں کہ حاملہ عورتوں کا سفرجل کھانا ضعیف حدیث میں مذکور ہے اس لئے ہمیں اس بات کو بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔

مکمل تحریر >>

Tuesday, August 21, 2018

یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے

یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے

مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)

عرفہ کے روزہ سے متعلق پہلے کبھی  اس قدر شدیداختلاف نہیں رہا  جس قدرآج ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں اس نئی ایجاد سے متاثر ہوکر بعض لوگوں نے اختلاف کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ اختلاف بعض لوگوں میں اس قدر شدید ہے کہ ایک دوسرے پر لعن طعن ، گالی گلوج اور زبان درازی تک کی جاتی ہے ۔ ایسا کرنے والے جہال نہیں اکثر علماء کہے جانے والے ہوتے ہیں۔ اس ماحول کو دیکھ کر دل پر چوٹ لگتی ہے کہ لوگوں نے اختلاف کو طعن وتشنیع کا ذریعہ بنا لیا ۔ اسی ماحول سے چوٹ کھاکرمیں نے یوم عرفہ کی حقیقت دلائل کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگوں کو اس  دن اوراس دن کےروزہ کے متعلق غلط فہمی نہ ہو،اس التماس کے ساتھ کہ جسے اس موقف سے اختلاف کرنا ہے وہ ادب واحترام کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے، خالص علمی انداز میں مسئلہ کوواضح کرنے کی کوشش کرے ،مقصد حق تک پہنچنا ہو نہ کہ کسی سے زبردستی اختلاف کرنا ۔
یوم عرفہ کے روزہ والی حدیث:
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
صيامُ يومِ عرفةَ ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ السنةَ التي قبلَه . والسنةَ التي بعده . وصيامُ يومِ عاشوراءَ ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ السنةَ التي قبلَه.(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کاکفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کاروزہ،میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
یہ حدیث صحیح مسلم سمیت سنن اربعہ اور کئی کتب حدیث میں مروی ہے، اس حدیث میں "صیام یوم عرفہ"  کا لفظ آیا ہے اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس دن ہے جب حجاج کرام میدان عرفات میں ہوتے ہیں جبکہ اکثر اہل علم کا ماننا ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے اپنے علاقے کے حساب سے رکھا جائے گا،یہی دوسرا موقف قوی ہے کہ لوگ اپنے اپنے علاقہ کے اعتبار سے نوذوالحجہ کا روزہ رکھیں ۔
یوم عرفہ سے مرادصرف اور صرف ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے:
یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس بات کو مختلف طریقے سے استدلال کرکے بتلاؤں گا ۔
(1)قرآن سے استدلال :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَالْفَجْرِ. وَلَيَالٍ عَشْرٍ. وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ(الفجر:1-3)
ترجمہ: قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی۔
یہاں محل شاہد وتر کا لفظ ہے تفسیر ابن کثیر میں ہے وتر سے مراد عرفے کا دن ہے اوریہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقرعید کا دن ہے ،وہ طاق ہے یہ جفت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اس بابت بہت سارے اقوال ہیں جو تفاسیر میں دیکھے جاسکتے ہیں ، اس بابت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کا ایک قول جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ وہ اس طرح ہے ۔
عن ابنِ عباسٍ أنه قالَ : الوترُ يومُ عرفةَ والشفعُ يومُ الذبحِ(فتح الباري لابن حجر:421/6 )
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وتر سے مراد عرفہ کا دن اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے ۔
برصغیرہندوپاک میں عرفہ کا دن اپنے حساب سے نو ذوالحجہ کا ہوگا تبھی قرآن کے لفظ وتر(طاق) کا صحیح اطلاق ہوگا ورنہ سعودی کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھنے پر ہندوپاک میں عموما آٹھ تاریخ ہوگی اور یہ جفت ہے طاق نہیں ہے اس لئے جن کا مطلع سعودی سے مختلف ہے انہیں  لازمی طور پر یوم عرفہ کے لئے اپنے علاقے کی نویں تاریخ کا اعتبار کرنا ہوگا۔
(2)حدیث سے استدلال :
مذکورہ بالاحدیث میں وارد الفاظ " صیام یوم عرفہ "سے ہی دلیل ملتی ہے کہ اس سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ ذرا غور کریں ، اس حدیث میں آگے کے الفاظ ہیں صیام یوم عاشوراء ، یہاں یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے جیساکہ دوسری حدیث میں بصراحت مذکور ہے ۔ عبداللہ بن عباس ؓ  کہتے ہیں:
أمرَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بِصَومِ عاشوراءُ ، يومُ العاشِرِ(صحيح الترمذي:755)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
جس طرح صیام یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے اسی طرح صیام یوم عرفہ سے ذوالحجہ کی نویں تاریخ مراد ہے ۔ اس بات کو اس حدیث سے تقویت ملتی ہے جس میں نبی ﷺ کے متعلق نویں ذوالحجہ کے روزہ کا احتمال ہے۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
(3)لغوی استدلال :
لغت کی کتابوں میں یوم عرفہ تلاش کریں تو عام طور سے ہرجگہ ذوالحجہ کی نویں تاریخ ملے گی یعنی یوم عرفہ سے مراد اہل لغت کے یہاں بھی ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے بطور مثال دیکھیں : القاموس الفقهي، معجم لغة الفقهاء وغیرہ
(4)عربی گرامر سے استدلال :
یوم عرفہ میں یوم کا لفظ زمان  پراطلاق ہوتا ہے یعنی یہ زمانہ ہے اس لئے یوم عرفہ سے ہرگزہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا بلکہ کوئی زمانہ ہی مراد ہوگا اور وہ ہے ذوالحجہ کی نویں تاریخ ۔
(5)وجہ تسمیہ سے استدلال:
یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ کے متعلق کئی اقوال ملتے ہیں ،ابن قدامہ صیام یوم عرفہ کی حدیث کے تحت یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ سے متعلق لکھتے ہیں :
فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة ، سمي بذلك ، لأن الوقوف بعرفة فيه . وقيل : سمي يوم عرفة ، لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه ، فأصبح يومه يتروى ، هل هذا من الله أو حلم ؟ فسمي يوم التروية ، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم عرفة ، فعرف أنه من الله ، فسمي يوم عرفة(المغني : 4/ 442 )
ترجمہ: یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن وقوف عرفہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے یوم عرفہ اس لئے نام پڑاکہ ابراہیم علیہ السلام نے ترویہ کی رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دئے جارہے ہیں پس پورے دن غوروفکر کرتے رہے کہ یہ واقعی اللہ کا حکم ہے یا پھر کوئی خواب ہے ؟ اس لئے اس دن کا نام ترویہ پڑا پھر دوسری رات بھی یہی خواب آپ کو دکھایا گیا اور جب عرفہ کی صبح ہوئی تو جان گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے اس کا حکم ہی ہے پس اس وجہ سے یوم عرفہ پڑ گیا۔
اس قول میں شروع میں ہی اصل اور اہم بات بتلادی گئی کہ یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ گویا یوم عرفہ ،وقوف عرفہ یا  خواب کی معرفت کی نسبت پہ اس کانام پڑا تاہم مراد نویں تاریخ ہی ہے ،ٹھیک اسی طرح جیسے یوم النحر قربانی کی نسبت سے موسوم ہے اور مراد دسویں تاریخ ہے۔
(6)عقلی اور منطقی استدلال:
اسلام ایک ہمہ گیر دین رحمت ہے ، اس کے احکام آفاقی ہیں ،اس دین رحمت کے زیر سایہ ہرکسی کو اپنے اپنے علاقہ میں رہ کر بہ آسانی دین پر عمل کرنے کی سہولت ابتداء سے ہی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی کیونکہ یہ فطری نظام ہے ، ہماراخالق ہمارے حالات وکیفیات سے مکمل باخبر ہے اس کے عین مطابق ہمیں دینی تعلیمات کا مکلف بنایا ہے۔اسلام نے کسی کو روزہ اور نماز کی انجام دہی میں مکہ مکرمہ کی تاریخ اور وقت معلوم کرنے کی زحمت نہیں دی ہے ۔آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نبی ﷺ نےلوگوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ، نبی ﷺ کو مسلمانوں کا دور دراز علاقوں میں رہنا بھی معلوم رہا ہوگا پھر بھی اس وقت عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کی تعلیم دینا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جو مسلمان جس طرح اپنے علاقے کے اعتبار سے رمضان ، ایام بیض اور عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقہ کے اعتبار سے یوم عرفہ کا یعنی نو ذوالحجہ کا بھی روزہ رکھیں ۔ وقوف عرفات پہ تمام دنیا والوں کو روزہ رکھنےکا حکم اسلام دیتا تو ساتھ ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع کا نظام بھی دیا ہوتاجبکہ ٹکنالوجی کی آمد سے قبل کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس کی مدد  سے دنیا کے  کونے کونے میں پھیلے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع دی جاسکے۔ آج بھی دنیا کے سارے کونے میں یہ خبر نہیں پہنچ پاتی ہوگی کیونکہ بہت سارے علاقوں میں رابطوں کی سہولت نہیں اور بہت سارے مقامات پر رہنے والوں کو دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی مثلا قید خانہ۔
(7)مناسک حج سے استدلال:
حج کے اعمال بھی تواریخ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ یوم الترویہ یعنی آٹھ ذوالحجہ کو منی میں قیام ، یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کو وقوف عرفات ، یوم النحریعنی دس ذوالحجہ کو رمی، حلق/تقصیر، قربانی، طواف افاٖضہ، سعی جیسے اعمال ، ایام تشریق میں رمی جمرات اور منی میں قیام ۔ یہ سارے حج کے اعمال تاریخ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ کوئی یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کو عرفات میں وقوف کرے تو اس کا وقوف ہوگا ہی نہیں، کوئی یوم عرفہ(نو ذوالحجہ) کو حج کی قربانی کردے یا طواف افاضہ کرلے، حج کی سعی کرلے تو یہ اعمال مقبول نہیں ہوں گے یعنی حج ہی نہیں ہوگا۔ گویا مناسک حج بھی تاریخ سے مربوط ہونے کے سبب لامحالہ ماننا پڑے گا کہ  یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کو ہی کہا جاتا ہے۔
یوم عرفہ اور عرفات میں فرق:
لفظ عرفہ کا بسااوقات استعمال وادی کے لئے ہوتا ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
عرفةُ كلُّها مَوقفٌ ووقفتُ ههنا(صحيح مسلم:1218)
ترجمہ: میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور سارا عرفہ جائے وقوف ہے ۔
لیکن عرفات کا اطلاق صرف وادی پر ہوتا ہے ، قرآن میں عرفات کا لفظ آیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (البقرۃ: 198)
ترجمہ: جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ(صحيح الترمذي:2975)
ترجمہ:حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں : رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، بعَرفاتٍ واقِفًا (مسند أحمد) اس کی سند کو مسند کے محقق احمد شاکر نے صحیح کہا ہے(4/173)
ترجمہ: میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔
غرض جہاں کہیں بھی عرفات کا لفظ آیا ہے ان جگہوں پر کہیں بھی یوم عرفات نہیں آیا ہے کیونکہ عرفات وادی کا نام ہے جبکہ عرفہ کبھی وادی پر بولاجاتا ہے تو کبھی دن پر اور جب عرفہ پر یوم کا لفظ داخل ہوجائے تو صرف اور صرف تاریخ پر اطلاق ہوگا یعنی نویں ذوالحجہ۔ یوم عرفہ کہنے سے وقوف عرفہ یا میدان عرفات کبھی بھی مراد نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یوم کا لفظ دن کے لئے استعمال ہوتا ہےجبکہ وقوف عرفہ عمل اور میدان عرفات وادی ہے۔ اوراگر عرفات پر یوم کا لفظ بھی لگادیا جائے تو پھر بھی وہی دن مراد ہوگا جو یوم عرفہ سے مراد ہے یعنی نو ذوالحجہ۔ جیسے منی کے ساتھ ایام منی کا لفظ ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد ایام تشریق کے تین دن ہیں۔
خلاصہ کلام اور آخری بات :
عرفہ کے دن کے روزے سے متعلق جو اشکالات اور اعتراضات ہیں ان سب کا جواب الگ مضمون میں "عرفہ کا روزہ: ایک تحقیقی جائزہ" کے عنوان سے دیا گیا ہے جو اسی نام سے میرے ذاتی بلاگ،محدث فورم اور اردومجلس فورم  وغیرہ پر تلاش کرسکتے ہیں۔ یہاں اس مضمون میں صرف یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو ذوالحجہ کی نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے لہذا جس ملک میں جب ذوالحجہ کی نو تاریخ ہو اس دن یوم عرفہ کا روزہ رکھیں ۔
مکمل تحریر >>