Tuesday, January 31, 2017

علمائے اہل حدیث پاکستان کی خدمات قابل تحسین

علمائے اہل حدیث پاکستان کی خدمات قابل تحسین

تحریر: مقبول احمد سلفی (طائف اسلامک دعوۃ سنٹر)
دین اسلام بالکل صاف شفاف ہے ، اس کی تعلیمات روشن، اس کے احکام واضح ، اس کے اصول ونظریات صاف ستھرے اور اس کی بنیاد وعقائد ٹھوس ومضبوط دلائل پر استوار ہیں مگر سدا سےاسلام دشمن طاقتین اسے مشکوک کرنے کی کوشش میں لگی رہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ غیر تو غیر ہے ان سے کیا امید وفا ہو اپنوں نے اسلام کا چولا پہن کر اسلام اور مسلمانوں کو جس قدر لوٹا بیان کئے جانے کے قابل نہیں ہے ۔ خود پہ اہل سنت کا لیبل لگانے والے صوفیوں نے کوئی ایسی بدعت نہیں چھوڑی جسے اسلام میں نہ رواج دیا ہو بلکہ شرک تک کا دروازہ کھول دیا اور ڈھٹائی سے شرک وبدعت کی راہ پر گامزن ہیں ، بزعم خویش انہیں اپنے ہرشرک اور ہربدعت پہ اسلام سے دلیل مل جاتی ہے جس سے اپنی عوام کو بہلائے پھسلائے ہوئے ہیں اور اپنی سنی(دل و دماغ سے سن) جماعت میں حصار باندھے ہوئے ہیں کہ اپنی جماعت کے ماسوا دیگر جماعتوں سے سلام ونکاح جائز نہیں ہے ۔ اللہ کا فضل ہے ایسے حصار سے ہی لوگ نکل نکل کر بڑی تعداد میں صحیح اسلام اور صحیح منہج کی طرف آرہے ہیں ۔ مجھے سعودی عرب میں سالوں کام کرتے اس کا بیحد تجربہ ہوا۔
مجھے جس قدر غیروں کی ناشائستہ حرکتوں پہ جتنا افسوس نہیں ہے  اس سے زیادہ کہیں اپنے کہلائے جانے والے ان زبانی کلمہ گو کی حرکتوں اور اسلام کے نام پر بازی گری پر تعجب وافسوس ہے۔یہ لوگ نبی ﷺ کے عہد کی تمدنی ومعاشرتی چیزوں پر عمل کرکے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ اصل سنت کی پیروی کرنے والے ہم ہیں جبکہ ہرزمانے میں تمدن وحضارت بدلتی رہتی ہے ۔ مثلا نبی ﷺ کے زمانے میں مٹی کے برتن میں پانی پیا جاتا تھا آج اگر کوئی مٹی کے برتن میں پانی پئے اور کہے کہ صرف ہم ہی اس سنت کو زندہ کررہے ہیں باقی لوگ نہیں تو یہ کج فہمی ہے ، کوئی عمامہ لگاکر کہے ہم ہی اصل سنت کی پیروی کرنے والے ہیں جیسے کہ الیاس عطار قادری اور ان کاہمنوا ٹوکہ یہ کرشمہ رہاہے ۔ یہ اس وقت کی تہذیب وثقافت تھی جسے اس وقت کے مسلمان وکافر سب استعمال کرتے تھے۔ اسلام کی اصل دین جو توحید و عبادت اور تخلیق انسانی کا مقصد ہے یعنی عبادت صرف اللہ کی جائے ، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کیا جائے اور عبادت کا طریقہ صرف محمد ﷺ کا ہی اختیار کیا جائے اس میں یہ لوگ باکل صفر ہیں ۔ اللہ کی عبادت میں غیراللہ کو شریک کرتے ہیں ۔ مزار کو سجدہ، غیراللہ سے امداد، دعا میں اموات کا وسیلہ ، غیراللہ کے لئے نذرونیازوغیرہ شرک اکبر کے مرتکب ہیں اور سنت کی جگہ بدعات وخرافات انجام دیناان کی امتیازی شان وپہچان ہے۔  
جیسے مجھے ہندوستان کے علمائے اہل حدیث کی خدمات پہ فخر ہے ویسے ہی پاکستان کے علمائے اہل حدیث کی خدمات پہ بھی بڑا ناز ہے جنہوں نے صوفیت وشیعیت اور رافضیت وخارجیت کے سدباب میں نمایاں کردار ادا کیا اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں منہج اہل حدیث کا تعارف کروایا۔ اس وقت بھی پنجاب، لاہور، فیصل آباد اور ملتان وغیرہ میں دعوتی سرگرمیاں عام ہیں ۔ ان صوبوں اور دیگر اضلاع کی باوقار شخصیات مثلا شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ،شیخ قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ ، شیخ حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ ، شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ ، شیخ الحدیث محدث عصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ، پروفیسر سیدطالب الرحمن حفظہ اللہ ، شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ ، پروفیسرسینیٹر ساجد میر حفظہ اللہ ، ڈاکٹرحافظ عبدالکریم حفظہ اللہ ، شیخ حافظ محمدعمر صدیق حفظہ اللہ ، شیخ مبشراحمد ربانی حفظہ اللہ، شیخ عبدالسلام بن محمد بھٹوی حفظہ اللہ ،حافظ سعید حفطہ اللہ  وغیرہ بہت سےجلیل القدر اسمائے گرامی ہیں ،اللہ تعالی ان سے زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت لے ۔ میں شیخ عبدالمالک مجاہد حفظہ اللہ کا بھی بہت ہی قدردان ہوں کہ انہوں نے سلفی کتب کی اشاعت کرکے پوری دنیا میں سلفی منہج کو عام کرنے کی قابل قدر کوشش کی ، ان مطبوعات سے فیضیاب ہونے والوں کا ثمرہ آپ کو بھی سدا ملتا رہے گا ۔ ان شاء اللہ
میرے ہردلعزیزساتھی اور دعوتی میدان میں متعاون خاص شیخ افتخاراحمدسلفی ابھی پاکستان کے دورے پر ہیں ، انہوں نے مجھ سے تفصیل سے پاکستان کے علمائے اہل حدیث کی حالیہ سرگرمیوں اور خدمات کا ذکر کیا ۔ کئی صوبے جات اور اضلاع کا انہوں نے دعوتی دورہ کیا۔ الحمد للہ موصوف دعوت سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور علمائے اہل حدیث کے بہت ہی قدرداں اور بیحد ثناخواں ہیں ۔ میں جو سوشل میڈیا پرکچھ دعوتی کام کررہاہوں یہ دراصل صوفی ٹولہ کی کرم فرمائی ہے ، جب میں نے لوگوں میں خاص طور سے فیس بوک اور واٹس ایپ پر صوفیت ، رضاخوانیت، مریدیت، قبوریت،بریلویت اور شرک وبدعت پھیلتے دیکھا اور سیدھے سادے لوگوں کو کشمکش کا شکار ہوتے دیکھا بلکہ کتنوں کو گھڑی ہوئی اور خودساختہ روایات وخرافات پہ یقین کرتے دیکھا تو اس وجہ سے مجھے اندر سے احساس ہوا کہ اپنی بساط بھر سوشل میڈیا پہ لوگوں کی رہنمائی کرنی چاہئے ، کم ازکم اپنے حلقہ میں جو لوگ ہیں ان کی رہنمائی تو ہوسکے گی ۔ اسی احساس کے تناظر میں کچھ لکھتا رہاہوں اور ان شاء اللہ وقت نکال کر کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں گا ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت سوشل میڈیا سے جڑی ہے یہاں ایک تحریر یا تقریر لاکھوں اور کڑوروں میں پھیل جاتی ہے ۔ اگر میری ان کاوشوں سے کسی کا کچھ بھلا ہورہا ہے تو یہ اللہ کی توفیق ومہربانی ہے اور اس کے بعد مخلص احباب جماعت کی میرے لئے پرخلوص دعائیں ہیں۔ برادرم شیخ افتخار احمد سلفی نے مجھ تک بہت سے علماء ومشائخ کے سلام پہنچائے ، اللہ تعالی ان سارے پیکرخلوص علماء کو دین ودنیا کی ہربھلائی نصیب کرے ۔ بطورخاص شیخ عبیدالرحمن محمدی مدنی صاحب، شیخ ثناء اللہ مدنی صاحب، محترم عبدالرحمن صاحب، ڈاکٹرعتیق الرحمن صاحب، شیخ الحدیث محمد امین صاحب، محترم عمر اثری صاحب، شیخ نصیراحمد عثمانی صاحب ،شیخ اشرف سلفی صاحب، شیخ علم الدین صاحب، مولانا یوسف پسروری صاحب، شیخ ابراہیم محمدی صاحب،شیخ عبدالعزیز مدنی صاحب، ڈاکٹر عبیدالرحمن صاحب ،قاری عامر صاحب، قاری محمد رفیق صاحب، شیخ الحدیث محمدایوب مدنی صاحب جامعہ محمدیہ اور فیصل آباد کے دیگر احباب کا بیحد مشکوروممنون ہوں اور اللہ عزوجل سے آپ تمام لوگوں کے لئے صحت وسلامتی اور آخرت میں جنت الفردوس میں ایک جگہ جمع ہونے کی دعا کرتاہوں ۔
میں سعودی عرب کے تاریخی شہر وادی طائف میں بحیثیت داعی و مبلغ دعوتی فریضہ انجام دے رہاہوں ، یہاں پاکستانی کمیونیٹی کی اکثریت ہے ان  لوگوں کی رہنمائی میں جہاں یہاں کے دعوتی مراکز کا ہاتھ ہے وہیں گاہے بگاہے عمرہ اور سعودی عرب آنے والے پاکستان کےمعروف و مشہور علماء و خطباء کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ میرے علم کی حد تک قاری عبدالرحیم کلیم صاحب، قاری خالد مجاہد صاحب، شیر پنجاب مولانا منظور صاحب، مولانا یوسف پسروری صاحب ، شاعر اسلام مولانا منظور صاحب، مفتی کفایت اللہ شاکرصاحب،عبدالرحمن شاہین صاحب،شاعراسلام عبدالوہاب صدیقی صاحب،قاری محمد حنیف ربانی صاحب، جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب،طارق محمود یزدانی صاحب، ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب ، عبدالغفار آف ڈسکہ صاحب،حافظ سلمان اعظم صاحب وغیرہ تشریف لاچکے ہیں اور اپنے علم سے طائف کی سرزمین کو فیضیاب کرچکے ہیں۔ ایک سال پہلے میں نے حافظ ابتسام الہی ظہیرصاحب کو خطبہ جمعہ کی دعوت دی تھی ان کے خطبہ میں لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔اسی طرح دوسالوں سے شیخ توصیف الرحمن راشدی کو اپنے دعوتی مرکز کے پلیٹ فارم سے سالانہ کانفرنس میں بلاتا رہاہوں ، حسن اتفاق گزشتہ سال کانفرنس کے موقع سے شیخ طیب الرحمن زیدی صاحب سعودی عرب میں موجود تھے انہیں بھی شریک ہونے کا موقع مل گیا ، توحید کے موضوع پہ آپ کے ایمان افروز اور ولولہ انگیز خطاب نے سامعین کو مسحور کردیا۔ ابھی جلد ہی کراچی سے انڈورائیڈاپلیکیش (اسلام 360) کے ذمہ دار زاہد حسین چھیپا  صاحب کو بلایا تھا ۔ ان کی اس بہترین کارکردگی  پرجو طلباء، علماء  اور عوام سبھی کے لئے مفید ہے تہ دل سے  مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
پاکستان کے سلفی نوجوان بھی دعوتی ، علمی اور جماعتی سرگرمیوں میں پیش پیش ہیں ، عوامی اٹیج سے لیکر سوشل میڈیا اور عرب جامعات و دعوتی مراکز تک یہ نوجوان علمی بحت ومناظرے  اور دعوت اہل حدیث میں سرگرداں وکوشاں ہیں ۔ اردو مجلس فورم ، محدث فورم اور اس کے دیگر ویب یعنی محدث فتوی، محدث لائبریر، محدث میگزین ، حدیث پروجیکٹ قابل تحسین علمی کارنامہ ہے جہاں سے دنیا کے کونے سے  اردو جاننے والے حضرات ان فورمز اور ویبس سے مستفید ہورہے ہیں ۔ ان کے ذمہ داران اور منتظمین کے لئے دنیا وآخرت میں خیروبھلائی کے لئے اللہ سے دعا گوہوں ۔
مکمل تحریر >>

Monday, January 30, 2017

عورتوں کی فضیلت سے متعلق چند باتوں کی حقیقت

عورتوں کی فضیلت سے متعلق چند باتوں کی حقیقت
مقبول احمد سلفی  


لوگوںمیں عورتوں کے فضائل سے متعلق کچھ باتیں گردش کر رہی ہیں  اور ان باتوں کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کی جارہی ہے ، یہاں ان باتوں کی حقیقت پر آپ لوگوں کو مطلع کیا جارہا ہے ۔

(1)ایک نیک اعمال عورت ستر اولیاء سے بہتر ہے ۔
(2)ایک بد اعمال عورت ہزار بداعمال مردوں سے بد تر ہے ۔
تحقیق : ان دو باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ایک گھڑی ہوئی روایت اس طرح سے مروی ہے ۔
فجور المرأة الفاجرة كفجور ألف فاجر، وبر المرأة كعمل سبعين صديقًا(كنز العمال:ج16/ص398)
ترجمہ : فاجرہ عورت کا فجور ایک ہزار مردوں کے فجور کے برابر ہے اور عورت کی نیکی ستر صدیق کے عمل کے برابر ہے ۔
اس روایت کو شیخ البانی نے سلسلہ ضعیفہ میں موضوع اور ضعیف الجامع میں ضعیف قرار دیا ہے ۔ (ضعيف الجامع: 3957)
(3) ایک حاملہ عورت کی دورکعت نماز غیر حاملہ کی اسی رکعتوں سے بہتر ہے ۔
تحقیق : حاملہ عورت کو کام کاج میں دشواری ہوتی ہے ،نماز پڑھنے میں بھی اسے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر مذکورہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ ایک حاملہ عورت کی دورکعت نماز غیر حاملہ کی اسی رکعتوں سے بہتر ہے ۔اس لئے اسے نبی ﷺ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ حاملہ عورت کی فضیلت سے متعلق ایک روایت اس طرح کی ملتی ہے :
أَمَا تَرْضَى إحداكن أنها إذا كانت حاملًا من زوجِها ، وهو عنها راضٍ ، أنَّ لها مِثْلَ أَجْرِ الصائمِ القائمِ في سبيلِ اللهِ (رواه الطبراني في المعجم الأوسط: 7/20)
ترجمہ: كيا تم ميں سے كوئى اس پر راضى نہيں كہ اگر وہ اپنى خاوند كى حاملہ ہو اور خاوند اس سے راضى ہو تواسے روزے دار اور اللہ كى راہ ميں قيام كرنے والے كا ثواب حاصل ہو ؟
اسے علامہ البانی نے موضوع قرار دیا ہے ۔ (ضعيف الجامع:1234)
(4)جو عورت اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے اسے اللہ تعالی ایک ایک بوند پر نیکی عطاکرتے ہیں ۔
تحقیق: مذکورہ حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں " ولم يُمَصَّ من ثَدْيِها مَصَّةٌ ، إلا كان لها بكلِّ جُرْعَةٍ وبكلِّ مَصَّةٍ حسنةٌ" یعنی ماں کے سینے سے بچہ  دودھ جو پیتا ہے تو ایک ایک گھونٹ پر نیکی ملتی ہے ۔ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔
(5)جب شوہر پریشان حال گھر آجائے اور اس کی بیوی اسے خوش آمدید کہے اور تسلی دے تو اللہ اس عورت کو نصف جہاد کا ثواب عطا فرماتے ہیں ۔
تحقیق : ایک روایت اس قسم کی وارد ہے ۔
أبلِغي من لقيتِ من النِّساءِ أنَّ طاعةَ الزَّوجِ واعترافًا بحقِّه يعدلُ ذلك - يعني: الجهادَ -، وقليلٌ منكُنَّ مَن يفعلُهُ .
ترجمہ: یہ بات تم عورتوں کو بتادو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کا حق اعتراف کرنا جہاد کے برابر ہے اور تم میں سے بہت کم عورتیں ایسا کرتی ہیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة: 5340)
(6) جو عورت اپنے بچے کے رونے سے رات بھر نہ سوسکے اللہ تعالی اس کو بیس غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر دیتے ہیں ۔
تحقیق : ایک گھڑی ہوئی روایت اس قسم کی ہے ۔ فإن أسهرها ليله كان لها مثل أجر سبعين رقبة يعتقهن في سبيل الله عز وجل۔
ترجمہ: اگر بچہ عورت کو رات بھر جگائے رکھے تواللہ کی راہ میں سترغلام آزاد کرنے کا ثواب اس عورت کو ملے گا۔
ابن حبان نے اسے موضوع کہا ہے ۔(المجروحين:2/34)
(7)جو عورت ذکر کرتے ہوئے جھاڑو دے اللہ تعالی اس کوخانہ کعبہ میں جھاڑو دینے کا ثواب عنایت کرتے ہیں ۔
تحقیق: اسلام میں اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
(8) جو عورت نماز ،روزہ کی پابندی کرے اور پاک دامن رہے اور اپنے شوہر کی تابعداری کرے ،اس کو اختیار ہوگا کہ جس دورازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ۔
تحقیق : یہ بات صحیح ہے ۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن عبد الرحمن بن عوف قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :إِذَا ‏صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ‏شِئْتِ{مسند احمد: 1ص191، الطبرانی الأوسط :8800 ،9/372}‏
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ‏ارشاد فرمایا :جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی ‏حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ‏ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
(9)جو عورت اپنے بچے کی بیماری کی وجہ سے نہ سوسکے اور اپنے بچے کو آرام دینے کی کوشش کرے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہ معاف کردیتے ہیں اور اس کو بارہ سال کی قبول عبادت کا ثواب ملتاہے ۔بچے کی پیدائش کے بعد اس کے لئے ستر سال کی نماز اور روزہ کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔
تحقیق : اوپر چھ نمبر میں یہ بات گزری ہے کہ بچے کی وجہ سے عورت نہ سوکے تو ستر غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ، یہ بات گھڑی ہوئی ہے اسی طرح بچے کی پیدائش پہ ستر سال کی نمازوروزہ کا ثواب ملتا ہے یہ بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ ایک ایسی حدیث مجھے ملی : إنَّ للمرأةِ في حملِها إلى وضعِها ، إلى فصالِها من الأجرِ كالمتشحِّطِ في سبيلِ اللهِ ، فإن هلكت فيما بين ذلك ؛ فلها أجرُ الشهيدِ۔
ترجمہ: عورت کے لئے حمل سے لیکر وضع حمل تک اور دودھ چھڑانے تک اللہ کی راہ میں مورچہ بندی کا ثواب ملتا ہے ، اگر وہ اس سے ہلاک ہوگئی تو شہید کا اجر ملتا ہے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔( السلسلة الضعيفة: 6047)
(10)بچہ رات کوروئے اور ماں بغیر برابھلا کہے اس کو دودھ پلائے تو اس کو ایک سال کی نمازوں اور روزوں کاثواب ملے گا ۔
تحقیق: اس بات کو بھی کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
(11) جب بچے کا دودھ کا وقت پورا ہوجائے توآسمان سے ایک فرشتہ آکر اس عورت کو خوشخبری سناتا ہے کہ اسے عورت اللہ نے تجھ پر جنت واجب کردی ہے ۔
تحقیق: اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
(12)عورت کاخاوند اس سے راضی ہو اور وہ انتقال کرجائے تو جنت اس پر واجب ہوگي ۔
تحقیق : اس معنی کی ایک روایت ہے : أَيُّما امرأةٍ ماتَتْ ، وزوجُها عنها راضٍ ، دخلَتِ الجنَّةَ. (ابن ماجہ)
ترجمہ: علامہ البانی صاحب نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ).ضعيف ابن ماجه: 364(
(13)نیکو کار عورت ستر مردوں سے افضل ہے ۔
تحقیق : یہ وہی بات ہے جو پہلے نمبر میں ہے ، اس معنی کی روایت گھڑی ہوئی ہے ۔
(14)عورت بھی اپنے شوہر کے گھر میں کی نیت سے چیزوں کو قرینے سے رکھے گی تو اللہ تعالی اس پر رحمت کی نظر ڈالے گا اور جو بھی اللہ کا منظور نظر ہوگیا اسے عذاب سے امان مل جائے گی ۔
تحقیق : شیعہ کی کتاب میں یہ بات ہے : ما من امرأة رفعت من بيت زوجها شيئا من موضع إلى موضع تريد به صلاحا إلا نظر الله إليها، و من نظر الله إليه لم يعذبه(عورت اپنے شوہر کے گھر میں چیزوں  کو قرینے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھے  تو اللہ تعالی اس پر رحمت کی نظر ڈالے گا اور جو بھی اللہ کا منظور نظر ہوگیا اسے عذاب سے امان مل جائے گی )۔
یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
(15) شائستہ عورت ہزارناشائستہ مردوں سے بہتر ہے ۔ جو عورت بھی شوہر کی بھلائی کے لئے سات دن کام کرتی ہے اللہ اس پر جہنم کے سات دروازے بند کردیتا ہے اور جنت کے آٹھ دروازے کھول دیتا ہےکہ وہ جس دروازے سے بھی چاہےجنت میں داخل ہوجائے ۔
تحقیق: یہ بات شیعہ کتاب " وسائل الشیعہ" میں پائی جاتی ہے : المرأة الصالحة خير من ألف رجل غير صالح وأيما امرأة خدمت زوجها سبعة أيام أغلق عنها سبعة أبواب النار وفتحت لها ثمانية أبواب الجنة تدخل من أيها شاءت۔ (نیک عورت ہزار غیر نیک مرد سے بہتر ہے اور جو عورت اپنے  شوہر کی سات دن خدمت کرے تو اس کے لئے جہنم کے سات دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جن کے آٹھ دروازے کھل جاتے ہیں جس سے بھی چاہے داخل ہوجائے ) یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
(16)پانی کا ایک گھونٹ بھی مرد کے ہاتھ میں دیتی ہے تووہ ایک سال کی مستحب عبادت جس میں وہ دن میں روزے رکھے اور رات کو نماز ادا کرے اس سے بہتر ہے ۔
تحقیق : یہ بات بھی مذکورہ شیعی کتاب میں اس طرح ہے : ما من إمرأة تسقي زوجها شربة ماء إلا كان خيرا لها من عبادة سنة( جو عورت اپنے شوہر کو پانی کے ایک گھونٹ سے سیراب کرے تواس کے لئے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ) اس بات کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں ۔
(17)عورت اپنے شوہر کے لئے لذیذ غذا تیار کرتی ہے اللہ تعالی جنت میں اس کے لئے قسم قسم کے کھانے تیار کرے گا اور فرمائے گا خوب کھاؤ اور پیو یہ ان زحمتوں کی جزا ہے جو تم نے دنیا کی زندگی میں برداشت کی ہیں ـ
تحقیق : اس بات کی بھی کوئی اصل نہیں ہے ۔
ان سترہ نکات میں صرف ایک ہی بات صحیح حدیث سے ثابت ہے وہ آٹھ نمبر کی ہے ، اس لئے اسی بات کو لوگوں میں پھیلائیں اور بقیہ دوسری باتوں کو کہیں شیئر نہ کریں ۔

مکمل تحریر >>

عورتوں کی فضیلت سے متعلق چند باتوں کی حقیقت

عورتوں کی فضیلت سے متعلق چند باتوں کی حقیقت
مقبول احمد سلفی  


لوگوںمیں عورتوں کے فضائل سے متعلق کچھ باتیں گردش کر رہی ہیں  اور ان باتوں کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کی جارہی ہے ، یہاں ان باتوں کی حقیقت پر آپ لوگوں کو مطلع کیا جارہا ہے ۔

(1)ایک نیک اعمال عورت ستر اولیاء سے بہتر ہے ۔
(2)ایک بد اعمال عورت ہزار بداعمال مردوں سے بد تر ہے ۔
تحقیق : ان دو باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ایک گھڑی ہوئی روایت اس طرح سے مروی ہے ۔
فجور المرأة الفاجرة كفجور ألف فاجر، وبر المرأة كعمل سبعين صديقًا(كنز العمال:ج16/ص398)
ترجمہ : فاجرہ عورت کا فجور ایک ہزار مردوں کے فجور کے برابر ہے اور عورت کی نیکی ستر صدیق کے عمل کے برابر ہے ۔
اس روایت کو شیخ البانی نے سلسلہ ضعیفہ میں موضوع اور ضعیف الجامع میں ضعیف قرار دیا ہے ۔ (ضعيف الجامع: 3957)
(3) ایک حاملہ عورت کی دورکعت نماز غیر حاملہ کی اسی رکعتوں سے بہتر ہے ۔
تحقیق : حاملہ عورت کو کام کاج میں دشواری ہوتی ہے ،نماز پڑھنے میں بھی اسے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر مذکورہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ ایک حاملہ عورت کی دورکعت نماز غیر حاملہ کی اسی رکعتوں سے بہتر ہے ۔اس لئے اسے نبی ﷺ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ حاملہ عورت کی فضیلت سے متعلق ایک روایت اس طرح کی ملتی ہے :
أَمَا تَرْضَى إحداكن أنها إذا كانت حاملًا من زوجِها ، وهو عنها راضٍ ، أنَّ لها مِثْلَ أَجْرِ الصائمِ القائمِ في سبيلِ اللهِ (رواه الطبراني في المعجم الأوسط: 7/20)
ترجمہ: كيا تم ميں سے كوئى اس پر راضى نہيں كہ اگر وہ اپنى خاوند كى حاملہ ہو اور خاوند اس سے راضى ہو تواسے روزے دار اور اللہ كى راہ ميں قيام كرنے والے كا ثواب حاصل ہو ؟
اسے علامہ البانی نے موضوع قرار دیا ہے ۔ (ضعيف الجامع:1234)
(4)جو عورت اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے اسے اللہ تعالی ایک ایک بوند پر نیکی عطاکرتے ہیں ۔
تحقیق: مذکورہ حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں " ولم يُمَصَّ من ثَدْيِها مَصَّةٌ ، إلا كان لها بكلِّ جُرْعَةٍ وبكلِّ مَصَّةٍ حسنةٌ" یعنی ماں کے سینے سے بچہ  دودھ جو پیتا ہے تو ایک ایک گھونٹ پر نیکی ملتی ہے ۔ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔
(5)جب شوہر پریشان حال گھر آجائے اور اس کی بیوی اسے خوش آمدید کہے اور تسلی دے تو اللہ اس عورت کو نصف جہاد کا ثواب عطا فرماتے ہیں ۔
تحقیق : ایک روایت اس قسم کی وارد ہے ۔
أبلِغي من لقيتِ من النِّساءِ أنَّ طاعةَ الزَّوجِ واعترافًا بحقِّه يعدلُ ذلك - يعني: الجهادَ -، وقليلٌ منكُنَّ مَن يفعلُهُ .
ترجمہ: یہ بات تم عورتوں کو بتادو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کا حق اعتراف کرنا جہاد کے برابر ہے اور تم میں سے بہت کم عورتیں ایسا کرتی ہیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة: 5340)
(6) جو عورت اپنے بچے کے رونے سے رات بھر نہ سوسکے اللہ تعالی اس کو بیس غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر دیتے ہیں ۔
تحقیق : ایک گھڑی ہوئی روایت اس قسم کی ہے ۔ فإن أسهرها ليله كان لها مثل أجر سبعين رقبة يعتقهن في سبيل الله عز وجل۔
ترجمہ: اگر بچہ عورت کو رات بھر جگائے رکھے تواللہ کی راہ میں سترغلام آزاد کرنے کا ثواب اس عورت کو ملے گا۔
ابن حبان نے اسے موضوع کہا ہے ۔(المجروحين:2/34)
(7)جو عورت ذکر کرتے ہوئے جھاڑو دے اللہ تعالی اس کوخانہ کعبہ میں جھاڑو دینے کا ثواب عنایت کرتے ہیں ۔
تحقیق: اسلام میں اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
(8) جو عورت نماز ،روزہ کی پابندی کرے اور پاک دامن رہے اور اپنے شوہر کی تابعداری کرے ،اس کو اختیار ہوگا کہ جس دورازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ۔
تحقیق : یہ بات صحیح ہے ۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن عبد الرحمن بن عوف قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :إِذَا ‏صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ‏شِئْتِ{مسند احمد: 1ص191، الطبرانی الأوسط :8800 ،9/372}‏
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ‏ارشاد فرمایا :جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی ‏حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ‏ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
(9)جو عورت اپنے بچے کی بیماری کی وجہ سے نہ سوسکے اور اپنے بچے کو آرام دینے کی کوشش کرے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہ معاف کردیتے ہیں اور اس کو بارہ سال کی قبول عبادت کا ثواب ملتاہے ۔بچے کی پیدائش کے بعد اس کے لئے ستر سال کی نماز اور روزہ کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔
تحقیق : اوپر چھ نمبر میں یہ بات گزری ہے کہ بچے کی وجہ سے عورت نہ سوکے تو ستر غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ، یہ بات گھڑی ہوئی ہے اسی طرح بچے کی پیدائش پہ ستر سال کی نمازوروزہ کا ثواب ملتا ہے یہ بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ ایک ایسی حدیث مجھے ملی : إنَّ للمرأةِ في حملِها إلى وضعِها ، إلى فصالِها من الأجرِ كالمتشحِّطِ في سبيلِ اللهِ ، فإن هلكت فيما بين ذلك ؛ فلها أجرُ الشهيدِ۔
ترجمہ: عورت کے لئے حمل سے لیکر وضع حمل تک اور دودھ چھڑانے تک اللہ کی راہ میں مورچہ بندی کا ثواب ملتا ہے ، اگر وہ اس سے ہلاک ہوگئی تو شہید کا اجر ملتا ہے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔( السلسلة الضعيفة: 6047)
(10)بچہ رات کوروئے اور ماں بغیر برابھلا کہے اس کو دودھ پلائے تو اس کو ایک سال کی نمازوں اور روزوں کاثواب ملے گا ۔
تحقیق: اس بات کو بھی کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
(11) جب بچے کا دودھ کا وقت پورا ہوجائے توآسمان سے ایک فرشتہ آکر اس عورت کو خوشخبری سناتا ہے کہ اسے عورت اللہ نے تجھ پر جنت واجب کردی ہے ۔
تحقیق: اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
(12)عورت کاخاوند اس سے راضی ہو اور وہ انتقال کرجائے تو جنت اس پر واجب ہوگي ۔
تحقیق : اس معنی کی ایک روایت ہے : أَيُّما امرأةٍ ماتَتْ ، وزوجُها عنها راضٍ ، دخلَتِ الجنَّةَ. (ابن ماجہ)
ترجمہ: علامہ البانی صاحب نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ).ضعيف ابن ماجه: 364(
(13)نیکو کار عورت ستر مردوں سے افضل ہے ۔
تحقیق : یہ وہی بات ہے جو پہلے نمبر میں ہے ، اس معنی کی روایت گھڑی ہوئی ہے ۔
(14)عورت بھی اپنے شوہر کے گھر میں کی نیت سے چیزوں کو قرینے سے رکھے گی تو اللہ تعالی اس پر رحمت کی نظر ڈالے گا اور جو بھی اللہ کا منظور نظر ہوگیا اسے عذاب سے امان مل جائے گی ۔
تحقیق : شیعہ کی کتاب میں یہ بات ہے : ما من امرأة رفعت من بيت زوجها شيئا من موضع إلى موضع تريد به صلاحا إلا نظر الله إليها، و من نظر الله إليه لم يعذبه(عورت اپنے شوہر کے گھر میں چیزوں  کو قرینے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھے  تو اللہ تعالی اس پر رحمت کی نظر ڈالے گا اور جو بھی اللہ کا منظور نظر ہوگیا اسے عذاب سے امان مل جائے گی )۔
یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
(15) شائستہ عورت ہزارناشائستہ مردوں سے بہتر ہے ۔ جو عورت بھی شوہر کی بھلائی کے لئے سات دن کام کرتی ہے اللہ اس پر جہنم کے سات دروازے بند کردیتا ہے اور جنت کے آٹھ دروازے کھول دیتا ہےکہ وہ جس دروازے سے بھی چاہےجنت میں داخل ہوجائے ۔
تحقیق: یہ بات شیعہ کتاب " وسائل الشیعہ" میں پائی جاتی ہے : المرأة الصالحة خير من ألف رجل غير صالح وأيما امرأة خدمت زوجها سبعة أيام أغلق عنها سبعة أبواب النار وفتحت لها ثمانية أبواب الجنة تدخل من أيها شاءت۔ (نیک عورت ہزار غیر نیک مرد سے بہتر ہے اور جو عورت اپنے  شوہر کی سات دن خدمت کرے تو اس کے لئے جہنم کے سات دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جن کے آٹھ دروازے کھل جاتے ہیں جس سے بھی چاہے داخل ہوجائے ) یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
(16)پانی کا ایک گھونٹ بھی مرد کے ہاتھ میں دیتی ہے تووہ ایک سال کی مستحب عبادت جس میں وہ دن میں روزے رکھے اور رات کو نماز ادا کرے اس سے بہتر ہے ۔
تحقیق : یہ بات بھی مذکورہ شیعی کتاب میں اس طرح ہے : ما من إمرأة تسقي زوجها شربة ماء إلا كان خيرا لها من عبادة سنة( جو عورت اپنے شوہر کو پانی کے ایک گھونٹ سے سیراب کرے تواس کے لئے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ) اس بات کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں ۔
(17)عورت اپنے شوہر کے لئے لذیذ غذا تیار کرتی ہے اللہ تعالی جنت میں اس کے لئے قسم قسم کے کھانے تیار کرے گا اور فرمائے گا خوب کھاؤ اور پیو یہ ان زحمتوں کی جزا ہے جو تم نے دنیا کی زندگی میں برداشت کی ہیں ـ
تحقیق : اس بات کی بھی کوئی اصل نہیں ہے ۔
ان سترہ نکات میں صرف ایک ہی بات صحیح حدیث سے ثابت ہے وہ آٹھ نمبر کی ہے ، اس لئے اسی بات کو لوگوں میں پھیلائیں اور بقیہ دوسری باتوں کو کہیں شیئر نہ کریں ۔


مکمل تحریر >>

شاتم رسول ملعونہ لڑکی: آشوپریہار کی سزا

شاتم رسول ملعونہ لڑکی: آشوپریہار کی سزا
مقبول احمد سلفی


نبی کریم ﷺ کی شان سب سے نرالی ہے ، اللہ تعالی نے آپ کی عظمت وشان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں ذکر فرمایا: وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ( الشرح : 4)
ترجمہ: اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا ہے ۔
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسا لمحہ نہیں گذرتا جب نبی کریم ﷺ کا ذکر نہ ہوتا ہو، اذان میں ، نماز میں ، مساجد میں ، مدارس میں ، بیانات واجتماعات میں ہر جگہ آپ کا ذکر پاک ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہوکہ اللہ نے آپ کو اتنا بلند مقام دیا کہ آپ سب سے افضل و اشرف ہیں ۔ آپ کی شان میں نازیبا کلمات کہنے والا، آپ کا استہزاء کرنے والا، آپ کی توہین کرنے والا، آپ کو گالی دینے والا، آپ پر طعن کرنے والا اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے والا "شاتم رسول" کہلاتا ہے ۔ شاتم رسول ہرطرح کی لعنت کا مستحق ہے ۔ اللہ کی لعنت ، رسول اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام مسلمانوں کی لعنت ۔
اللہ کا فرمان ہے : مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (الاحزاب:61)
ترجمہ: ان پر پھٹکار(لعنت) برسائی گئی جہاں بھی مل جائیں ،پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں ۔
اس بات پر تمام علماء متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے ۔ قرآن و حدیث کے دلائل سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (الاحزاب:57)
ترجمہ: اور جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ۔
سورہ توبہ کی چودہویں آیت میں اس قسم کے لوگوں کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیاہے ۔ اور عملی طور پر اللہ کے رسول ﷺنے اس قرآنی حکم کو برت کر دکھایا۔ شاتم رسول کعب بن اشرف اور ابورافع کوآپ ﷺنے قتل کا حکم دیا اور وہ قتل کئے گئے ۔ اسلام میں عورت کی بڑی قدرومنزلت ہے یہاں تک کہ جنگ جہاں سبھی کو قتل کیا جانا چاہئے اسلام نے وہاں عورتوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے لیکن شتم رسول ایسا مرحلہ ہے کہ عورت کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والی عورتوں کو بھی قتل کیا گیا ہے ۔ عمیر بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بہن جو مشرکہ تھی اور نبی ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی تلوار سے وار کرکے قتل کردیا، اسی طرح ایک یہودی عورت جو نبی ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہتی تھی کسی صحابی نے اس کا گلا دبا کر مار دیا۔ ایک نابینا آدمی کی ام ولد تھی جو نبی ﷺ کو گالیاں دیا تھی تو انہوں نے برچھے سے قتل کردیا۔ یہ سب واقعات بتلاتے ہیں کہ نبی کی شان میں گستاخی کرنے والا مرد یا گستاخی کرنے والی عورت بطور سزا قتل کئے جائیں گے ۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ شاتم رسول اگر توبہ بھی کرلے یا معافی مانگ لے پھربھی نہیں بخشا جائے گا اسے لازما قتل کیا جائے گا جیسے کوئی چوری کرے یا کسی کو قتل کرے یا زنا کرے ہرحال میں انہیں سزا دی جائے اگرچہ توبہ کرلے ۔ نبی ﷺکی شان میں گستاخی کرنے والی دہلی کی یوگا ماسٹر آشوپریہار کی دوسری ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اس ملعونہ نے معافی طلب کی ہے ۔ سو اس کی معافی ہرگر قابل رحم نہیں ہے ۔ کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ نبی ﷺ نے تو بہت سے گستاخان رسول کو معاف کردیا تھا تو توبہ کرنے یا معافی طلب کرنے سے شاتم رسول کی سزا کیوں معاف نہیں ہوگی ؟
تو علماء نے اس کا دوجواب دیا ہے ۔
پہلا جواب یہ ہے کہ سروع اسلام میں شاتم رسول کی معافی تھی مگر بعد میں وہ حکم منسوخ کردیا گیا۔ ایک دوسرا جواب یہ ہے کہ سب وشتم کا تعلق دو حقوق سے ہے ۔ ایک حق اللہ کا ہے جو اس کی رسالت، اس کی کتاب اور اس کے دین میں قدح سے متعلق ہے ۔ دوسرا حق رسول اللہﷺ کا آپ کی اہانت سے متعلق ہے ۔اگرکوئی شاتم رسول سچے دل سے توبہ کرلے تو ہوسکتا ہے اللہ تعالی اپنا حق اس شاتم سے معاف کردے مگر رسول اللہ ﷺکی اہانت کی کوئی معافی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ وفات پاگئے ہیں ، آپ کی وفات کے بعد کسی کو معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ شاتمہ رسول ملعونہ آشوپرہار قتل کا مستحق ہے ، اس کے معافی طلب کرنے سے ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ یہاں دو باتیں مزید بتانا چاہتا ہوں ۔
(1) پہلی بات یہ ہے کہ جذبات میں آکر ہندو مذہب کے مذہبی رہنماؤں ، ان کے معبودوں یا ان کی مقدس چیزوں کو برا بھلا نہ کہا جائے ، اسلام ہمیں اس کام سے روکتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ( الانعام: 108)
ترجمہ: اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالی کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزرکر اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کریں گے ۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہے کہ ہم مسلمان اسے پکڑ کر اسلامی عدالت میں حاضر کریں اور اسے قتل کردیں ۔ تاہم ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں دستوروآئین موجود ہے اور اس دستور میں فتنہ وفساد برپا کرنے والے، تفرقہ پھیلانے والے اور مذہب کے خلاف بولنے والے یا مذہب میں مداخلت کرنے والے کے لئے کڑی سے کڑی سزا موجود ہے ۔ ہم عزم مصمم کرتے ہیں کہ قانون کا سہارا لیکر ہرحال میں اس ملعونہ کو سزا دلوائیں گے تاکہ کوئی دوسری آشو پریہار پیدا نہ ہوسکے لیکن خبردار اس مجرمہ کی جگہ کسی اور بے گناہ لڑکی یا لڑکے کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے اور نہ ہی کوئی خود سے اس ملعونہ کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ الحمد للہ جگہ جگہ سے ایف آئی آر درج ہورہا ہے اور سارے مسلمانوں میں اس کے خلاف غصہ کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ مجھے امید کہ ہندوستانی حکومت اسے کڑی سے کڑی سزا دے گی ۔ اگر اسے بچانے کی کوشش کی گئی تو اللہ تعالی کا یہ فرمان ہمارے لئے کافی ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (الاحزاب:57)
ترجمہ: اور جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا کرتاہوں کہ اس بے غیرت کو قہر آسمانی سے نیست ونابود کردے اور جو بھی اس کا ساتھ دے اسے بھی اس کے ساتھ مٹی میں ملادے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

Sunday, January 29, 2017

حدیث "عزت دار چیز کی عزت کرو" کی تحقیق


حدیث "عزت دار چیز کی عزت کرو" کی تحقیق
====================

ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے اسے سند و متن کے ساتھ پیش کرتا ہوں ۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَسَّاجُ بْنُ عُقْبَةَ بْنِ وَسَّاجٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُوَقَّرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ، فَرَأَى كِسْرَةً مُلْقَاةً، فَأَخَذَهَا فَمَسَحَهَا، ثُمَّ أَكَلَهَا، وَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ أَكْرِمِي كَرِيمًا، فَإِنَّهَا مَا نَفَرَتْ عَنْ قَوْمٍ قَطُّ، فَعَادَتْ إِلَيْهِمْ»
ترجمہ: نبیﷺ گھر تشریف لائے تو(روٹی کا)ایک ٹکڑا(زمین پر)گرا ہوا دیکھا۔آپ نے اسے اٹھایا‘صاف کیا اور کھا لیا۔پھر فرمایا:اے عائشہ !عزت والے(رزق )کا احترام کر ۔یہ جن لوگوں کے پاس سے چلا جاتا ہے ‘دوبارہ ان کے پاس نہیں آتا۔
روایت کا حکم : یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ، اس حدیث میں ولید بن محمد الموقری ضعیف راوی ہے ۔ اسے بہت سے محدثین نے ضعیف کہا ہے ۔ غلاء نے ضعیف کہا ہے ، ابوالعباس قرشی نے علی بن مدینی کے حوالے سے ضعیف لکھا ہے ، بخاری نے ضعفاء میں لکھا ہے کہ اس کی حدیثوں میں منکرات ہیں ، ابوزرعہ رازی نے اپنی کتاب الضعفاء میں اس کا ذکر کیا ہے ، ابوحاتم رازی نے اسے ضعیف الحدیث کہا ہے ، امام نسائی نے منکرالحدیث اور متروک الحدیث کہا ہے ۔ ان کے علاوہ دارقطنی، ابوبکربرقانی ، ابوداؤد سجستانی ، بیہقی اور ترمذی نے ضعیف کہا ہے ۔
اس لئے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر ضعیف ابن ماجہ میں درج کیا ہے ۔(ضعيف ابن ماجه:668)
ابن عدی نے تو اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے (الكامل في الضعفاء: 3/476)
اس روایت کے ضعیف ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کھانے کی عزت نہیں کی جائے گی ، یا بچا ہواکھانا پھینک دیا جائے گا یا جہاں تہاں کھانا گرادیا جائے ، ہاں یہ بات نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنا کہ گری ہوئی گندی چیز صاف کرکے کھالیا غلط ہے کیونکہ حدیث ضعیف ہے ،ہمیں بھی کہیں گری  پڑی  گندی چیز اٹھاکر نہیں کھانی چاہئے لیکن جب ہم دسترخوان پہ کھارہے ہوں اور اس پہ کچھ گرجائے تو اسے اٹھاکے کھالینا چاہئے خواہ اس میں کچھ دھول مٹی ہی لگ جائے)صاف کرکے)،یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے  ۔مسلم شریف کی حدیث دیکھیں :
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ الشَّيْطَانَ يَحْضُرُ أَحَدَكُمْ عِنْدَ كُلِّ شَيْءٍ مِنْ شَأْنِهِ، حَتَّى يَحْضُرَهُ عِنْدَ طَعَامِهِ، فَإِذَا سَقَطَتْ مِنْ أَحَدِكُمْ اللُّقْمَةُ فَلْيُمِطْ مَا كَانَ بِهَا مِنْ أَذًى، ثُمَّ ليَأْكُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، فَإِذَا فَرَغَ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ؛ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ تَكُونُ الْبَرَكَةُ۔(رواه مسلم :2033)
ترجمہ: بلاشبہ شیطان تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کے ہر کام کے وقت حاضر رہتا ہے حتی کہ اس کے کھانے کے وقت بھی اس کے پاس موجود رہتا ہے ، لہذا کھانا کھاتے وقت جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھالے اور اس میں جو گندگی [ مٹی وغیرہ ] لگی ہو اس سے صاف کرکے کھا لے اور اسے شیطان کے لئے نہ چھوڑے ، پھر جب کھانے سے فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے ، اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے ۔
ایک بات مزید یہ یاد رہے کہ گری ہوئی چیز کھانے سے متعلق بہت سے فضائل بیان کئے جاتے ہیں مثلا جو گری ہوئی چیز کھائے اسے بخش دیا جاتا ہے ، یااس کے رزق میں کشادگی ہوتی ہے ، یاوہ فقروبرص سے محفوظ رہتا ہے یا اس کے بچے سے احمق پن ہٹا لیا جاتا ہے وغیرہ یہ سب ضعیف و موضوع ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>