Sunday, February 23, 2020

آج کی روشنی ، کل کا اندھیرا



آج کی روشنی ، کل کا اندھیرا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گرچہ آج کا زمانہ بہت ہی ترقی کرچکا ہے مگر اصلیت گم اور فریبی پہلواجاگرہوتاجارہا ہے ، کل اندھیرا تھا تو اس قدر فریب نہیں تھا جس قدر آج روشنی میں فریب دیا جارہاہے ۔ ربڑ سے چاول ، شکر سے شہد اور کیمیکل سے جعلی دودھ تیار ہوتا دیکھ کرکون اس زمانے کی ترقی کا قائل نہیں ہوگا ؟ مگر کیا انسانیت کے حق میں ایسی ترقی مفید ہے یا مضر ایک سوال پیدا ہوتا ہے ؟ ترقی یافتہ دور کے ایسے چاول، شہد اور دودھ کھانے پینے سے صحت برقرار رہ سکتی ہے یا بگڑ ے گی اپنے آپ میں ایک سوال ہے ؟ چہروں پر جھریاں ، آنکھوں پر موٹی پلکیں اوربوسیدہ کپڑے پہننے والے پرانے خیالات کے بزرگ آج بھی جدت پسند طبیعت سے یہی کہتے ہیں ۔
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پہ تھے ۔ روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
ایک صدی پیچھے پلٹ کر بزرگ کے پرانے خیالات تولتے ہیں تو واقعی ہم دیکھتے ہیں کہ باغوں میں آم کم پھلتے تھے مگر ان میں قدرتی مٹھاس ہوتی، چاول وگیہوں کی پیداوار کم تھی مگر صحت مند غذا تھی ، چراغوں کی شعائیں مدھم تھیں مگر آج کی طرح لوٹ ومار نہیں تھی، آدمی کم تھے مگر ہاتھوں سے فولادی کام کیا کرتے تھے جوآج مصنوعی آلات کررہے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ بزرگ کی باتوں میں ہمیں صداقت نظر آئی اور ہم بھی زبان حال سےکہنے لگے کہ اے کاش آج بستیاں جلانے والی روشنی نہیں ہوتی ، صحت بگاڑنے والی مصنوعی غذا نہ ہوتی ، پھلوں کے مصنوعی ذائقے نہ ہوتے،قتل وخون مچانےوالی ترقی نہ ہوتی بلکہ وہی پرانی سی دیواریں، مدھم دئے ، صحت مند غذا ئیں اور باہم تعاون کرنے والے فرد ومعاشرہ ہوتے۔
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ)
مکمل تحریر >>

Wednesday, February 5, 2020

عدت میں نکاح کا حکم


عدت میں نکاح کا حکم

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ)

عورتوں میں ایک برائی پھیلتی نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ عدت کے دوران ہی دوسرے مرد سے شادی کرلیتی ہے جبکہ اللہ تعالی نے عدت گزارنے والیوں کو اپنی عدت مکمل کرنے اور مردوں کو ان کی عدت گزرجانے کے بعد ان سےنکاح کرنے کا حکم دیا ہے ، فرمان الہی ہے :
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَٰكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَن تَقُولُوا قَوْلًا مَّعْرُوفًا ۚ وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ (البقرۃ:235)
ترجمہ: تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارۃً کنایۃً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو ، یا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو اللہ تعالٰی کو علم ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے ، لیکن تم ان سے پوشیدہ وعدے نہ کر لو ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات بولا کرو اور عقد نکاح جب تک کہ عدت ختم نہ ہو جائے پختہ نہ کرو ، جان رکھو کہ اللہ تعالٰی کو تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم ہے ، تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالٰی بخشش اور حلم والا ہے ۔
یہ آیت متوفی عنہا زوجہا کے بارے میں ہے کہ وہ عورت جس کا شوہر وفات پاجائے اس سے کوئی مرد اس وقت تک نکاح نہ کرے جب تک کہ وہ وفات کی عدت پوری نہ کرلے حتی کہ عدت میں نکاح کا پیغام دینا بھی جائز نہیں ہے البتہ اشارہ کنایہ میں نکاح کا اظہار کیا جاسکتا ہے مثلا یہ کہے کہ میں کسی عورت سےشادی کرنا چاہتا ہوں ۔یہی حکم مطلقہ ثلاثہ (جسے تیسری طلاق یعنی طلاق بائن دی گئی ہو) اور خلع والی کاہے ۔ پہلی اور دوسری طلاق کی عدت رجعی ہوتی ہے اس وجہ سے اس عدت میں نہ صراحتا نکاح کا پیغام دینا جائز ہے اور نہ ہی کنایہ میں کیونکہ ممکن ہے شوہر رجوع کرلے۔
اس آیت سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ حالت عدت میں خواہ طلاق ہو یا وفات ہو یا خلع ہو نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں ہے اور شادی کرنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ عدت میں نکاح کی حرمت پر اہل علم کا اتفاق ہے مگر اپنے سماج میں آج کل عورتوں میں عدت کے تئیں لاپرواہی دیکھی جارہی ہے ۔ کچھ عورتیں ایسی دیکھنے کو مل رہی ہیں جو عدت کو کوئی مطلب نہیں دیتی یعنی عدت میں جن باتوں کا خیال کیا جانا چاہئے وہ نہیں کرتیں اور کچھ عورتیں اس قدر بے دین نظر آتی ہیں کہ عدت میں ہی دوسرے مرد سے بیاہ رچا لیتی ہیں ۔
یہاں اسی سوال کا جواب دینا مقصود ہے کہ اگر کوئی عورت دوران عدت نکاح کرلیتی ہے تو اس کا شرعا کیا حکم ہے ؟
ایک طرف نکاح کی صحت کے لئے موانع کا نہ پایا جانا ضروری ہے اور عدت نکاح کے موانع میں سے ہے اور دوسری طرف ہم نے اوپر قرآن کی روشنی میں یہ جانا کہ عدت میں نکاح کا پیغام دینا یا نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، اہل علم نے دوران عدت نکاح کرنے کو حرام قرار دیا ہے ۔ اس وجہ سے عدت میں جو نکاح کیا گیا وہ نکاح باطل ہے ۔
دوران عدت نکاح ہواہی نہیں تو پھر مرد وعورت ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ، ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے گا ، الگ کرنے کے لئے طلاق کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ طلاق تو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے جبکہ یہ دونوں میاں بیوی کے حکم میں نہیں ہیں۔
دونوں میں تفریق کرنے کے بعد عورت سابق شوہر کی بقیہ عدت مکمل کرے پھر چاہے تو ولی کی رضامندی کے ساتھ موجودہ مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور عدت میں نکاح کرنا گناہ ہونے کے سبب اللہ سے سچی توبہ بھی کرے ۔ دوران عدت نکاح کرنے والی عورت سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کافتوی یہ ہے :
قال عمرُ : أيُّما امرأةٍ نُكحت في عدتِها ولم يَدخلْ بها الذي تزوجها فُرِّق بينهما ثم اعتدت بقيةَ عدتِها من زوجِها الأولِ وكان خاطبًا من الخُطَّابِ وإن دخل بها فُرِّق بينهما ثم اعتدتْ بقيةَ عدتِها من زوجِها الأولِ ثم اعتدتْ من الآخرِ ولم ينكحْها أبدا(إرواء الغليل:2125، قال البانی سندہ صحیح)
ترجمہ: حضرت عمر نے کہا کہ جو عورت اپنی عدت میں نکاح کرلے اور اس سے مرد نے ابھی دخول نہیں کیا ہے تو دونوں میں تفریق کردی جائے گی پھر عورت پہلے شوہر کی بقیہ عدت مکمل کرے گی اور چاہے تو دوسرا شوہرپیغام دینے والوں کی طرح پیغام دے سکتا ہے اور اگردوسرے مرد نےدخول کرلیا تو دونوں میں جدائی کردی جائے گی پھر عورت پہلے شوہر کی عدت گزارے گی ، اس کے بعد دوسرے شوہر کی عدت گزارے گی اور یہ دوسرامرد اس عورت سےزندگی میں کبھی نکاح نہیں کرسکتا ہے ۔
حضرت عمر کے فتوی میں دو حالتوں کا ذکر ہے ،ایک یہ ہے کہ عدت میں نکاح کرنے والی عورت کے ساتھ دوسرے مرد نے جماع نہیں کیا ہو تو تفریق کے بعد پہلے شوہر کی بقیہ عدت گزار کر دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے ۔ دوسری حالت یہ ہے کہ اگر دوسرے مرد نے جماع کرلیا تو پھر پہلے شوہر کی عدت کرے گی اس کے بعد دوسرے مرد کی بھی عدت گزارے گی اور دوسرے مرد سے پھر کبھی نکاح نہیں کرسکے گی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ دوران عدت نکاح کرنے والی عورت کو مرد سے الگ کردیا جائے گا اور شوہر اول کی بقیہ عدت گزارکر دوسرے مرد سے نکاح کرنا جائز ہوگا، دوسرے شوہر کی عدت گزارنا ضروری نہیں ہے تاہم حضرت عمر کے فتوی کی روشنی میں احوط یہ ہے کہ دوسری عدت بھی گزاری جائے اگر جماع کا صدور ہوا ہے تو ۔ اور جہاں تک حضرت عمر کی یہ بات کہ دوسرے مرد سے جماع ہوا ہو تو آپس میں پھر نکاح نہیں ہوگا اس سے انہوں نے رجوع کرلیا تھا اس وجہ سے صحیح یہ ہے کہ عدت کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرنا جائز ہے یہی جمہور علماء کا موقف ہے ۔
مکمل تحریر >>