Sunday, January 26, 2020

تم جسے ناپسند کرتے ہو ممکن ہے کہ اس میں خیر کا پہلو ہو



تم جسے ناپسند کرتے ہو ممکن ہے کہ اس میں خیر کا پہلو ہو

مقبول احمد سلفی
اسلامک سنٹر طائف

برسرِاقتدار بے جے پی حکومت میں تعلیم، صحت، روزگار اور معیشت و تجارت دن بدن تنزلی کا شکار ہیں ، ایسے میں میڈیا بطور خاص عوام کی زبان بند کرنا مشکل ہی نہیں محال تھا، گوکہ میڈیا کے اکثر حصوں پر اجارہ داری بھی اسی حکومت کی ہے مگر آج سوشل میڈیا کا دور ہے کچھ اچھے ٹیلی-ویژن اینکروں کے ساتھ یوٹیوبر کی کثرت ہے جو بھاجپائی پہنچ سے باہر ہیں.
حکومت نے عوام اور میڈیا کی توجہ ملک کے بحران سے ہٹا کر ایسے قانون و ایکٹ کی طرف کرانی چاہی جس میں کئی سال تک عوام اور میڈیا مشغول رہیں گے اور معاشی، تجارتی ، تعلیمی اور صحت و روزگار کی تنزلی کی طرف دھیان نہیں جائے گا مگر وار الٹا پڑ گیا.
گوکہ ان بحرانوں کے ناحیے سے ابھی بھی میڈیا میں چرچا نہیں ہے مگر عوام اور میڈیا کو موجودہ مہلک حکومت کے خلاف زبان کھولنے کا سب کو بہترین موقع مل گیا. ذرا تصور کریں کہ طلاق پر پابندی لگنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کا مظاہرہ نہیں ہوا، بابری مسجد کی بازیابی کے لئے سیکڑوں سال پیش کی گئی قربانی کا کوئی ثمرہ برآمد نہیں ہوا، کم از مجرمانہ کام کرنے والوں کو عدالت سزا بھی مقرر کردیتی تو مسلمانوں کا کلیجہ کچھ ٹھنڈا ہو جاتا مگر وہ بھی نہ ہوسکا اور مسلمان ایک حرف بھی نہ بول سکے، اس سے ہند میں مسلمانوں کی بے بسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.
ابھی حکومت جو کالے قوانین لوگوں پرجبرا تھوپنے کی کوشش کر رہی تھی وہ پھندا بن کر اسی کے گلے میں اٹک گئے ہیں، واپس لینے میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی ناک کٹنے کا سوال ہے اس لئے وہ خود سے رجوع نہیں کر سکتے اس لئے امت شاہ بار بار کہتا ہے کہ سی اے اے کسی صورت میں واپس نہیں ہوگا، اس بات سے حکومت کی سراسیمگی اور شرمندگی صاف ظاہر ہے، ہمیں واپسی کی امید اگر ہے تو عدالت سے ہی ہے.
گویا ابھی جہاں مسلمانوں کو کالے قانون اور ظلم کے خلاف کھڑا ہونے میں ہمت ملی وہیں دیگر تمام اقوام و ملل کو حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے اور اس حکومت کے سیاہ ترین چہرے اور گزشتہ تمام کالے کارنامے ایکسپوز کرنے کا سنہری موقع دستیاب ہوا ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرہ:216)
ترجمہ :تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو ، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو ، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ، تم محض بے خبر ہو ۔
اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعا بھی کریں کہ وہ ہمارے ساتھ ظلم کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دے اور مسلمانوں کو ہندوستان میں امن وراحت کے ساتھ رہنے کا ماحول سازگار بنائے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, January 21, 2020

ہندوستانی مسلمانوں کی مصیبت کاسرحدپار سے مذاق اڑانا


ہندوستانی مسلمانوں کی مصیبت کاسرحدپار سے مذاق اڑانا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف ، سعودی عرب

میں ایک سنجیدہ مزاج آدمی ہوں جو ہزار مخالف تبصروں پر بھی خموش رہنے میں ہی آج کے سوشل میڈیائی دور میں عافیت سمجھتا ہوں کیونکہ یہاں اکثرتنقیدبے جاوجارحانہ ہوتی ہے اور فائدہ کی بجائے نقصان پہنچتا ہے۔آپ بھی خموشی سے مثبت کام کرتے جائیں اورلایعنی تبصرہ نگاری میں وقت ضائع کرنے سے پرہیز کریں ۔
جب سے ہندوستان میں برسرے اقتدار جماعت نے سی اے اے نامی ایکٹ پاس کیا ہے تب سے اکثر ہندوستانی باشندوں( بشمول ہندوسکھ وغیرہ)میں بے چینی کی لہر پیدا ہوگئی ہے اور بے چین ہونا معقول بھی ہے ، پورے بھارت میں اس نظام کو نافذ کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ سب کو اپنی اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی ، جو اپنی شہریت ثابت نہ کرسکے وہ مشکوک قرار پائے گا خواہ وہ مسلم ہویا ہندو، سزا جو مقرر ہوگی وہ الگ ایک بڑی مشکل ہے ۔ شہریت ثابت کرنے کے لئے پرانے دستاویزوکاعذات کی ضرورت ہے، بڑی مشکل یہ ہے کہ بہت سارے اصلی باشندوں کے پاس کاعذات نہیں مل سکیں گے اور پچاس فیصد سے زیادہ لوگوں کے آباؤ واجداد کے ناموں میں لفظی غلطیاں ملیں گی جس کی وجہ سے یہ لوگ بھی مشکوک قرار پائیں گے اس طرح ہندوستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے گی ۔ قطاروں میں کھڑا ہونا، کاعذات مہیا کرنے میں بھاگ دوڑ کرنا اور رشوت کے نام پر لاکھوں روپئے خرچ کرنا وغیرہ پریشانیاں اپنی جگہ ہیں ۔ آسام میں شہریت کی چھان بین کی مثال سامنے موجود ہے ، ایک معمولی نوٹ بندی سے جانوں کا نقصان اور معاشی بحران جیسی کیفیت بھی سب کو معلوم ہے۔
انہی سب باتوں کی وجہ سے جب سے سی اے اے جیسا دستور مخالف نظام ایوان حکومت سے پاس ہوا ہے تب سے سارے مذاہب کے لوگ بے چیں ہیں،مسلمانوں کی بے چینی دیگرمذاہب سے کہیں زیادہ ہے اس وجہ سے گھروں میں سکون اختیار کرنے والی مسلم خواتین آج سڑکوں پر ٹھنڈی میں ٹھٹھر کر رات گزاررہی ہیں ۔کتنی آنکھوں میں آنسو چھلکتے دیکھا ہوں اور کتنی ماؤں کو روتے بلکتے دیکھا ہوں ، آخر کیوں نہ روئیں ؟ اپنے وجود کا مسئلہ ہے۔
ایک طرف ہندوستانی مسلمانوں کی یہ حالت زار کہ جان کے لالے پڑے ہیں تو دوسری طر ف شروع دن سے سرحدپار سےکچھ ناعاقبت اندیش ہندی مسلمانوں کی بے بسی پہ مستقل طور پر ہرزہ سرائی کرتے نظر آرہے ہیں ۔نہ جانے کیسے کیسے طعنے مولانا آزادرحمہ اللہ کو اور پورے ہندوستانی مسلمانوں کو دئے جارہے ہیں اور ان کا مذاق اڑایا جارہاہے ۔میں ان ناعاقبت اندیشوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا ادنی سے ادنی مسلمان پاکستانی مسلمانوں پر آنے والی مصیبت پر کبھی مذاق نہیں اڑائے گا بلکہ ان کے حق میں دعائے خیرکیا ہے اور کرتا رہے گا۔ ابھی حال ہی میں اہل حدیث کی مسجد شہید کی گئی ہم نے افسوس کا اظہار کیا ، مذاق نہیں اڑایا کہ جناح کے اسلامی ملک میں اللہ کے مقدس گھر کو گرایا جارہاہے ۔ منفی پہلو تو ہرجگہ ملے گی مگر بات ہندوستان اور اسلامی ملک پاکستان کے موازنہ کی کی جائے تو یقینا پاکستان اسلام کے نام پر مات کھاجائے گا ۔ ہندوستان تو غیرمسلم ملک ہے مگر پاکستا ن جیسے اسلامی ملک میں شیعہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے کہ اہل حدیث مدرسہ سے فارغ ہونے والا دہشت گرد ہے تو سوچنے کا مقام ہے ، نصاب تعلیم بدلنے کی بات کرے تو فکر کرنے کی بات ہے ۔ مزیدار بات تو یہ ہے کہ وہ شیعہ خود کواوربریلوی کو دہشت گردی سے بری کررہا ہے ۔ وہاں پر قادیانیوں ، عیسائیوں اور شیعوں کی غلاظتوں کے انبار لگے ہیں،احاطہ شمار میں لانا مشکل ہے ، ایک لفظ میں یہ کہاجائے گاکہ بس نام اسلامی ہے کام سب غیر اسلامی ۔
میں عرض کررہا تھا کہ اگر کسی پاکستانی بھائی پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم اس کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں مگر یہ کیا کہ جب ہم پر مصیبت آئی تو مذاق اڑانے لگے ، گالیاں دینے لگے ، طرح طرح کے الزام دھرنے لگے اور آنسوپوچھنے کی بجائے خوشی کے شادیاں بجانے لگے ۔ لاحول ولاقوۃ
ہندوستان تقسیم ہونا تھا سوہوگیااب آزاد اور جناح کی قبریں کھودنا بند کرو، یہ مردہ لاشیں ہیں انہیں اکھاڑنے سے کچھ نہیں ملے گا۔کچھ کرسکتے ہو تو مظلوم مسلمانوں کی مدد کرو، ان کے حق میں دعائے خیر کرو، ایک مسلمان کے ہونے کے ناطے مولانا آزاد کو برا بھلا مت کہواور شیعہ کے لئے مغفرت کی دعاکرنا بند کرو۔ ہندوستانی بھائیوں کا درد بانٹ نہیں سکتے تو زخم پہ نمک چھڑکنے کا کام بھی نہ کرو، بہت غیور ہو تو اپنے ملک کی ہی اصلاح کرلو۔ جس نظریہ تقسیم پہ نازاں وفرحاں ہواس نظریہ کو ہی پورا کرکے دکھادو، ملک میں اسلام نافذ کرسکو تو کرکے دکھادو، کم ازکم کسی مولوی کو ہی ملک کا حاکم بناکردکھادو ، اپنے ملک کو بت پرستوں اور ان کے بتکدوں سے پاک کرکے دکھادو۔ اللہ ، رسول ، بنات رسول ، ازواج رسول کے بارے میں نازیباباتیں کرنے والوں کی زبان کاٹ کر دکھادو ،کم ازکم زبان بند ہی کرکے دکھادو، کفریہ نشریات پہ پابندی لگاکردکھادو، قادیانیوں اور شیعوں کی گستاخ کتابوں اور تقریروں کو مٹا کر دکھادو، اسلامی ریاست بناکراسے غیرمسلموں سے پاک کرکے دکھادو،زنا کے اڈے اور مجروں کا بازار بند کرکے دکھادو۔کیا کیا بتاؤں ، بس نظریہ تقسیم پورا کرکے دکھادو ۔ یہ نہیں کرسکتے تو جناح کی تقسیم پر اتراتے کیوں ہو؟ جناح کے نظریہ پہ فخر کرتے کیوں ہو؟ کیا ہے جناح کا نظریہ ہے ؟ ہندوستان سے الگ ہوکر پاکستان نامی جگہ میں بس تعداد اکٹھی کرنا جہاں ربوہ جیسے بڑے شہر میں قادیانی کو بساؤ، حکومت کی بڑی بڑی کرسی پرشیعہ کو بٹھاؤ تاکہ بڑی بڑی گستاخیاں کرے ، ہندؤں کو بھی پالو ۔ جب تعداد ہی اکٹھی کرنی تھی تو ہندوستان میں اکٹھا رہنے میں کیا برائی تھی ؟
آخر میں ان تمام احباب سے معذرت کے ساتھ جن کی توقعات کے خلاف میری یہ تحریر ہے ،دراصل کئی دنوں سے کچھ سرحدی احباب کو خوشی مناتے دیکھتا آرہا ہوں،اسی سبب مجھے یہ لکھنا پڑا ۔ میرا اصل مخاطب ہندوستانی مسلمانوں کے غم پہ سرحدپارسے خوشی منانے والاہے مزید اس بات کی تاکید کے ساتھ کہ پاکستان کا مطلب لاالاالا اللہ یعنی کلمہ کو نافذ کرناہے، اس مطلب کو پورا کرسکے تو ہندوستانیوں کے غم پہ تمہاراخوشی منانا اس وقت میرے لئے افسوسناک نہیں ہوگا۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, January 14, 2020

ایمیزون پر افلیٹ مارکیٹنگ کی شرعی حیثیت


ایمیزون پر افلیٹ مارکیٹنگ کی شرعی حیثیت

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرمسرہ، طائف

پہلے ایمیزون(Amazon) اورافلیٹ مارکیٹنگ(Affiliate Marketing) دو الفاظ کو سمجھ لیں پھر ان کی شرعی حیثیت بتاؤں گا۔ ایمیزون انٹرنیٹ پر مبنی برقی تجارت ہے جو عالمی سطح پر امریکہ کی سب سے بڑی برقی تجارت ہے ۔ ایمیزون ڈاٹ کام کے ذریعہ آن لائن ہم اپنی خاص مصنوعات بیچ سکتے ہیں یا اس ویب سائٹ پر جن مصنوعات کے اشتہارات ہیں انہیں آن لائن آڈرکر سکتے ہیں یا مختلف ڈیلیوری پہ کیش بیک حاصل کرسکتے ہیں ،کوئی چاہے توبغیرسرمایہ کاری کئے ایمیزون سے مربوط ہوکر مختلف طریقے سے پیسے کماسکتا ہے ۔
افلیٹ مارکیٹنگ میں آج کل نوجوان بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور اس کے ذریعہ گھر بیٹھے پیسہ کمارہے ہیں ۔ افلیٹ مارکیٹنگ کا مطلب یہ ہے کہ ایمیزون یا اس جیسی برقی تجارتی کمپنی میں آن لائن رجسٹرڈ ہوکر اس کمپنی کی مصنوعات کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا۔ مثال کے طورپر ایمیزون ڈاٹ کام پر جاکر پیسہ کمانے کی فہرست میں ایک آبشن آفلیٹ مارکیٹنگ ہے اسے جوائن کریں ، پھر جن پروڈکٹ کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں کمپنی اس کا ویب لنک فراہم کرتی ہے اس لنک کو کاپی کرکے اپنےکسی سوشل نٹورک مثلا واٹس ایپ،یوٹیوب، فیس بک ، بلاگ یا ویب سائٹ پر نشر کریں ، اس لنک سے جو بھی کسٹمر ایمیزون کی مذکورہ پروڈکٹ خریدے گا اس کے منافع کا کچھ حصہ لنک شیئر کرنے والے کو بھی ملے گا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایمیزون سے مربوط ہوکر افلیٹ مارکیٹنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا حلال ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم ایمیزون پہ افلیٹ مارکیٹنگ کرسکتے ہیں تاہم مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
٭ صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہو ں، جوچیزیں اسلام میں حرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔
٭ کمپنی کی طرف سےمصنوعات کی حقیقی مواصفات ، قیمت اور حوالگی واضح طور پر درج ہو۔
٭کمپنی نےمصنوعات کے جن مواصفات کا ذکر کیا ہے سامان کی ڈیلیوری ہونے پر مذکورہ مواصفات ناپید ہونے کی صورت میں مصنوعات واپس کرنے کا اختیار دیا گیا ہو۔
٭ آڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں آڈر کینسل کرنے کا بھی اختیار ہو۔
٭ سامان نہ ملنے یا غبن ہوجانے کی صورت میں مصنوعات کی خرید کے لئےجمع کی گئی رقم واپس ہونے کی ضمانت دی گئی ہو۔
٭ آن لائن تجارت کرنے والےایسے بھی افراد ہیں جن کے یہاں مصنوعات نہیں ہوتیں محض اشتہار بازی ہوتی ہے اور جب کوئی آن لائن سامان آڈر کرتا ہے تو کسی دوسری کمپنی سے سستا سامان خرید کر آگے آڈر کرنے والے شخص کو بیچ دیتا ہے ، اس طریقہ میں کئی شرعی قباحتیں ہیں مثلا ایسی چیز کو فروخت کرنا جو اس کی ملکیت نہیں ہے اور اسی طرح سامان پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی دوسرے کو بیچ دینا،اسلئے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔
٭ایمیزون پر آڈر کرنے کے وقت ہی شاید پیمنٹ کرنا پڑتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم آن لائن خریدوفروخت میں کیش آن ڈیلیوری زیادہ مامون طریقہ ہے تاکہ سامان غبن ہوجائے تو بلاوجہ خسارہ نہیں اٹھانا پڑے گا یامطلوبہ صفات پر مبنی سامان ڈیلیوری نہ ہوتو آسانی سےواپس کرسکےگا ۔
افلیٹ مارکیٹنگ کرنے والوں کو میں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس مارکیٹنگ میں نفع کم اور وقت کا ضیاع بہت زیادہ ہے ، آپ کی اپنی آن لائن تجارت ہے تو اس کی الگ بات ہے لیکن دوسروں کی تجارت کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا دراصل بہت سارے قیمتی اوقات کا خسارہ ہے ۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ یہی اوقات ہارڈورکنگ پر صرف کرکے پیسہ کمایا جائے تو انٹرنیٹ سے کہیں زیادہ منافع حاصل ہوگا۔انٹرنیٹ کے کثرت استعمال نے نوجوان نسل کی ایسی تربیت کی کہ اس کو وقت کے ضیاع کا قطعی احساس نہیں ہے، اسے بس اس بات کی خوشی ہے کہ گھر سے نکلے  بغیر بیٹھے بیٹھے پیسہ آرہا ہے جبکہ یہ پیسہ محنت اور وقت کے بدلے کچھ بھی نہیں ہے ۔
مکمل تحریر >>

Monday, January 13, 2020

سب سےزیادہ طاقتور کون ہے ؟


سب سےزیادہ  طاقتور کون ہے ؟

تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، طائف

انسان بہت ہی کمزور مخلوق ہے ، اپنی پیدائش سے لیکر موت تک ہرپل اورہرلمحہ اپنے خالق کی مہربانی کا محتاج ہے ۔ہاتھ وپیر میں چلنےپھرنے ،اٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کرنے کی طاقت۔ ناک ، کان اور آنکھ میں سونگھنے ، سننے اور دیکھنے کی طاقت –دل ودماغ میں سوچ وفکر کی طاقت –اور جسم میں جان کی طاقت سب ان اعضا کے بنانے والے اللہ کی جانب سے ہے ۔ ایک آدمی اسی وقت زندہ رہ سکتا ہے جب تک اللہ کی مہربانی ہے ، اس کی مہربانی سے محروم ہوتے ہی وہ دنیا سے فنا ہوجائے گا۔ اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ اللہ ایک آدمی پر تئیس گھنٹے مہربان رہا اور چوبیسویں گھنٹے اپنی مہربانی ہٹالیتا ہے، اس کے بعد آدمی چوبیس سکنڈبھی سانس نہیں لے سکتا ۔ اس قدر مجبور وکمزور انسان بھلا طاقتور کیسے ہوسکتا ہے ؟اللہ نے انسانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا(النساء:28)
ترجمہ:اللہ چاہتا ہے کہ تم  پر آسانی کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا(الأنفال:66)
ترجمہ: اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے ۔
سورہ روم میں انسان کی مرحلہ وار کمزوری بتاتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ (الروم:54)
ترجمہ:اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی ، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔
اس آیت میں  اللہ نے بتایا کہ انسان ضعیفی میں پیدا کیا گیا پھر اسے قوت دے کر جوان بنایاگیا اس کے بعد پھر سےاس پر بڑھاپا کا بوجھ ڈال کر ضعیف بنادیا گیا۔ہمارے مشاہدے کی چیزیں ہیں یا یہ کہہ لیں کہ یہ ہمارے حالات ہیں ، آئے دن ہم بیمار ہوتے ہیں ، کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں ، ہمیں آرام ونیند کی ضرورت پڑتی ہے ،ہم سب کوبھوک وپیاس محسوس ہوتی ہے ، سردی وگرمی سےہمیں تکلیف پہنچتی ہے ، مصائب ومشکلات پہ روپڑتے ہیں ، ایک وقت آتا ہے بدن سے روح ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ساری انسانى کمزوریاں ہیں اور جو کمزور ہو طاقت والا کیسے ہوسکتا ہے ؟
یہ بھی امر واقعی ہے کہ کوئی آدمی کسی سے جسمانی اعتبار سے طاقتور ہوتا ہے ، کسی کو مال ، کسی کو اولاد ، کسی کو جاہ ومنصب اور کسی کو حکومت وکرسی کی طاقت ملتی ہے ۔ ایسے میں کچھ لوگ اپنی طاقت کا استعمال دوسروں کو نفع پہنچانے میں کرتے ہیں جبکہ اکثرلوگ قوت وطاقت کا استعمال کمزوروں پر زیادتی میں کرتے ہیں ۔ ظلم وزیادتی کرنے والوں پر طاقت کا نشہ اس قدر حاوی ہوجاتا ہے کہ اسے یہ شعور نہیں ہوتا کہ اس سے بھی بڑا طاقتور ہے ، ایک ایسی قوت ہے جو عظیم الشان کائنات کو حاوی ہے۔اسے یہ احساس نہیں رہ جاتا ہے کہ اس کے پاس موجود قوت خواہ مال ہو، اولادہو، اسلحہ وبارود ہو، عہدہ ومنصب ہو یاحکومت وسطوت ہو سب قادر مطلق اللہ کی طرف سے ہے  اور فانی ہے، وہ جب چاہتا ہے انسان  کو طاقت دیتا ہے اور جب چاہتا اسکی طاقت چھین لیتا ہے ۔ موت انسانی غرور وطاقت کا آخری انجام ہے ، اس سے پہلے نہ جانے کتنی عبرت ونصیحت اور عروج وزوال کی داستانیں ہیں ۔
ضعف وکمزوری کے مقابلہ میں قوت وطاقت ہے اور اللہ ہی سارے جہاں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے ۔ اس کا مشاہدہ اپنی تخلیق کے شروع دن سے اولاد آدم کرتی آرہی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ (محمد:13)
ترجمہ:ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیادہ تھیں جس سے تجھے نکالا گیا ہم نے انہیں ہلاک کر دیا ہے جن کا مددگار کوئی نہ اٹھا ۔
اس آیت میں اللہ نے علی الاطلاق ان طاقتور اقوام کی تباہی کا ذکر کیا جنہوں نے ظلم وکفر کیا جبکہ قرآن میں کئی مقامات پرچند ظالم اقوام اور طاقتور افراد کا بھی ذکر کیا ہے جن کی قوت چکناچور ہوگئی اور وہ خود دنیا کے لئے نشان عبرت بن گئے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (الروم:9)
ترجمہ:کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا ؟ وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے بھی زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیادہ آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالٰی ان پر ظلم کرتا لیکن دراصل وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔
مال ودولت سے مغروروطاقتورحاکم قارون کا ذکرکرتے ہوئے اللہ فرماتاہے:
إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ (القصص:76)
ترجمہ:قارون تھا تو قوم موسیٰ سے لیکن ان پر ظلم کرنے لگا تھا۔ ہم نے اسےاس قدرخزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اترا مت !اللہ تعالٰی اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا ۔
دنیا کے ایسے طاقتورآدمی جس کے خزانے کی چابھیاں کئی کئی طاقتورلوگ بمشکل اٹھاپاتے تھے آخر اس کا انجام کیا ہوا؟ اس کے انجام کے متعلق اللہ نے دوسری جگہ بتلایا کہ قارون سے بھی زیادہ مال اور طاقتوروالے  لوگوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں ، ارشاد ربانی ہے :
أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ (القصص:78)
ترجمہ:کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی ۔
ملکہ سبا بلقیس(جب حالت کفر میں تھی) کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط پہنچتا ہے کہ اسلام قبول کرلو تو اس کے ساتھیوں نے طاقت وجنگ جوئی کا رعب ظاہرکیا اور کہا: قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ (النمل:33)
ترجمہ:ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں ۔
مگراللہ کے رسول سلیمان علیہ السلام کے سامنے بلقیس کا عظیم تخت، اس کے  لشکر اورقوت کام نہ آئے اوراسلام قبول کرنا پڑا اور کہہ اٹھیں"أَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں۔
بہرکیف! قوت وطاقت والے اقوام وافراد کے عروج وزوال اور ان کی تباہیوں کی طویل داستانیں ہیں ، یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ انسان کو بدن یا زمین کی قوت ملتی ہے وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے اور اس وقت تک رہتی ہے جب تک اللہ چاہتا ہے ۔ اللہ ہی قوت وطاقت والا ہے ، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اسے تھکان لاحق نہیں ہوتی، اسے اونگھ نہیں آتی ، اسے کھانے پینے کی حاجت نہیں ،اس میں کوئی نقص وعیب نہیں ، وہ سب سے بلند اور سب سے زیادہ قوت وطاقت والا ہے ۔ 
اللہ کا فرمان ہے : أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (البقرۃ:165)
ترجمہ:تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے۔إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (66)
ترجمہ: یقینا تیرا رب ہی طاقتور اور غالب ہے۔
ایک جگہ یوں ارشاد ہے : إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ(الذاریات:58)
ترجمہ:اللہ تعالی تو خود ہی سب کا روزی رساں ، طاقت والا اور زبردست زورآور ہے۔
ظاہر سی بات ہے جو ہم کو پیدا کرے، جو ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کرے، جوہماری  زندگی اور موت پر قادر ہو اصل طاقت والا تو وہی ہے ، اوپری آیات میں القوی (قوت والا) اور المتین (زبردست قوت والا) کا ذکر ہے ، یہ دونوں اللہ کے اسمائے حسنی ہیں ۔
آج مسلمان کیوں کمزورہے ؟ ایمان لانے کے باجودہرجگہ مسلمان ہی کیوں مظلوم ومقہور ہے ؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے جاننا ہوگا کہ مسلمانوں کی اصل قوت کیا ہے ؟ مسلمان کی قوت اللہ پر کامل ایمان جو شرک سے پاک ہو اور اعمال صالحہ ہے ۔ مومن کی قوت اللہ کا ساتھ ہے اور اللہ کا ساتھ ایمان وعمل کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ روئے زمین کا سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اس گناہ میں مبتلا ہے پھر کیوں نہ مسلمان پریشان ہو؟
اگرمسلمان غیراللہ سےاستغاثہ اور قبروں کو سجدہ کرنا چھوڑکر عقیدہ وایمان درست کرلے اور سچی توبہ کےساتھ اعمال صالحہ کی طرف لوٹ جائے تو اللہ قوت درقوت سے ہمکنار فرمائے گا ، یہ اس کا وعدہ ہے چنانچہ ارشاد باری ہے :
وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ (ھود:52)
ترجمہ: اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے اورتم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو ۔
اللہ نے مدد کرنا اپنے اوپر فرض کرلیاہے ، مطالبہ بس صحیح ایمان کاہے ، اللہ کا فرمان ہے : وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ(الروم:47)
ترجمہ:ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔
اے کاش مسلمان شرک کی خطرناکی کو سمجھیں اور اس سے توبہ کرکے خالص ایمان وصحیح عقیدہ پر کاربند ہوجائیں۔
مکمل تحریر >>

Monday, January 6, 2020

چند شبہات ونظریات ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں


چند شبہات ونظریات ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)
چند دنوں سے ہندوستانی عوام  جس طرح بے چینی کا شکار ہے اس کی نظیر شاید انگریزی دور میں ہی مل پائے گی ، اُس سے پہلے مسلم حکمرانوں نے شاید اسلام کے لئے کچھ کیا ہویا نہ کیا ہومگر یہاں کے تمام طبقات کے لئے عدل وانصاف سے لیکر حقوق ومراعات کی مکمل پاسداری ضرورکی ہے،یہی وجہ ہے کہ تقریبا آٹھ سوسال مسلمانوں کی حکومت رہتے ہوئے بھی ہماری تعداد چودہ  پندرہ پرسینٹ ہےجبکہ بی جے پی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی آر ایس ایس کے ساتھ مل کراپنی تعداد کی بڑھوتری اور مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے منصوبے پر عمل کررہی ہے ۔ہم مسلمانوں کے لئے یہ ایشو فکرمندی کا اتنا باعث نہیں ہے جنتاکہ ہمیں متحد ہونا اور شرک وبدعت سے تائب ہوکر خالص دین حنیف پر جمع ہوناہے۔
اس مضمون کے ذریعہ  مسلمانوں کے  چند نظریات اور شبہات کی حقیقت ٹٹولنا چاہتا ہوں اس وجہ سےہندوستان کے مختلف صورت حال یا موجودہ صورت حال پر ہندؤں کے نظریات سے صرف نظر کرتا ہوں ۔
سب سے پہلے اسلامی نقطہ نظر سے جمہوری ملک میں احتجاج کی شرعی حیثیت پہ مسلمانوں کے درمیاں جوازوعدم جواز پہ اپنی بات رکھنا چاہتا ہوں کہ بلاشبہ مظاہرے حرام ہیں ،اس بات کی وضاحت کے ساتھ کہ جو علماء قرآن وحدیث سے اس کے جواز کی دلیل پیش کرتے ہیں ان کا استدلال غلط ہے۔اب میں خالص سیاسی پس منظر میں بات کررہا ہوں اور سیاست میں مفیدمصلحت ملحوظ رکھ سکتے ہیں ۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے ظالمانہ قانون بھی پاس کیا جاسکتا ہے اس کی روک تھام کے لئے جمہوری دستور میں ہی پرامن مظاہرے کو قانونی جواز حاصل ہے ۔ ملک میں جب سی اے بی لانے کی بات ہوئی تو شروع میں اکثرلوگوں کی رائے تھی کہ یہ ایوان حکومت سے پاس نہیں ہوپائے گی  کیونکہ یہ تمام ہندوستانیوں کے لئے نقصان دہ ہے مگر پھر بھی دونوں ایوانوں سے پاس ہوکرایکٹ کی شکل اختیار کرلی ۔ ہند میں ظلم کےخلاف آواز بلند کرنے کا ایک ذریعہ کورٹ میں مقدمہ درج کرنا بھی ہے مگر موجودہ کورٹ ، وکیل ،پولیس، رپورٹر سب بھاجپا کی مٹھی میں ہیں ۔ ہم نے بابری مسجد کا فیصلہ بھی دیکھا جو سپریم کورٹ سے آیا، اس کے لئے ہم نے مظاہرے نہیں کئے تھے کورٹ پر انحصار کئے تھے ، فیصلہ پر نظرثانی کے لئے دوبارہ کورٹ میں عرضی  پیش کی گئی جسے یک لخت خارج کردی گئی ۔ ایسی صورت حال میں ظالمانہ قانون کیب کی روک تھام کے لئے پرامن مظاہروں کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مظاہرے موجودہ صورت حال میں جائز ہی نہیں ہم سب کی اولین ضرورت ہیں ، بروقت انہیں اپنے تمام کام کاج پر ترجیح دینا چاہئے ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے میں علماء سرفہرت رہے ہیں اور انہوں نے ملک بھر میں مظاہرے کئے ، ان میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیاسوائے انگریزی غلام ومنافق کے۔اس میں مزید ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ جو لوگ اس بل کی حمایت میں ہیں ان کےساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے ، اس بابت میرا یہ کہنا ہے کہ ہمیں ان سے تعرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ملک کی اکثریت مخالفت میں کھڑی ہے ہم اکثریت کے ساتھ مل کر عدلیہ اور حکومت پر دباؤ بناسکتے ہیں ۔ رہی بات عورتوں کا مظاہروں میں حصہ لینا جبکہ انہیں اپنے گھروں میں استقرار کا حکم دیا گیا ہے تو میں سمجھتا ہوں یہاں عورت ومرد سب کی جان ومال کو خطرہ ہے ،اگر عورت  کا اس میں حصہ لینا مفید ہے تو وہ بھی حصہ لے سکتی ہے جیساکہ اسے بھی اپنے جان ومال کے لئے دفاع کا حق ہے تاہم شرعی حدود ملحوظ رکھنا چاہئے مثلا پردہ  اوراختلاط کے متعلق ۔
اب میں بات کرنا چاہتاہوں این آرسی کی ، کئی علماء نے بیان دیا ہے کہ آین آرسی قرآن سے ثابت ہے ، میں ان علماء سے بصداحترام گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اس موقف پر نظرثانی کی زحمت فرمائیں ۔ ایک طرف آپ ہی کہتے ہیں بلکہ پورا ملک کہہ رہا ہے کہ این آر سی مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ پورے ہندوستانیوں کے خلاف ہے پھر تضاد بیانی کیوں ؟  کہیں آپ کی یہ بات کٹرہندو پشپیندرکو نہ معلوم ہوجائے تو جس طرح پہلے کہتا رہا ہے کہ مودی کو اللہ نے بھیجا ہے اب یہ بھی کہے گا کہ تم جب قبول کرتے ہو این آرسی قرآن سے ثابت ہے پھر اس کی مخالفت کیوں کرتے ہو،چپ چاپ  ملک سے نکل جاؤ۔ دقت نظری سےمسئلہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن میں کیا کہاگیا ہے، کس پس منظر میں کہا گیا ہے  اور کون مخاطب ہیں؟
سورہ ابراہیم  میں اللہ نے ذکر کیا ہے کہ کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گےیا پھر ہمارا دین قبول کرلو اور دوسرے مقامات پر بعض اقوام کا بھی ذکر ہے جنہوں نے اپنی قوم کے نبی اور ان پر ایمان لانے والوں کو ملک بدرکرنے کی دھمکی دی مثلا قوم شعیب، قوم لوط اور مشرکین مکہ ۔ میرا سوال ہے کہ کیا این آر سی کا یہی پس منظر اور مطلب ہے جو مطلب مذکورہ آیت میں ہے ؟ کیا ہندوستان کے کافروں نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ تم مسلمان ہندوستان سے نکل جاؤ یا ہندو مذہب قبول کرلو؟ بالکل ایسی بات نہیں ہے ۔
پہلے یہ تو دیکھیں کہ ہندوستان میں کس قسم کے مسلمانوں کی اکثریت ہے، دہلی میں صوفی کانفرنس کرنے والے مودی کے ساتھ مل کر کانفرنس کرتے ہیں کیا یہ لوگ آیت کے مصداق ہوسکتے ہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ لفظ این آرسی ملک کے تمام باشندوں کو شامل ہے ، اس سے صرف مسلمان مراد نہیں ہے ، اس وجہ سے این آرسی کی دلیل قرآن سے نکالنا نہ صرف اجتہادی خطا ہے بلکہ دشمن کے لئے پروپیگنڈا کا راستہ  بھی ہموار کرنا ہے ۔  
اس سے متعلق آخری بات کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت سےمسلمانوں کو نکال دیا جائے یا ان سب کو قتل کردیا جائے ،اس بات سے حقیقی مسلمان کبھی نہیں خوف کھائےگاکیونکہ ان دونوں صورتوں میں اللہ کی طرف سے ہمارے لئے انعام ہے۔حقیقی مومن کو اس کی زمین سے نکالا جائے تو اللہ انہیں ان کی سرزمین میں واپس بلاتا ہےجیساکہ نبی ﷺ اور اصحاب رسول کے ساتھ ہوا اور اگر قتل کردیا جائے تو وہ اسلام کے لئے قتل ہونے پرشہید کہلائے گالیکن یاد رہے شرک کرنے والا مقتول شہید نہیں ہوگا، اس لئے شروع میں کہا ہوں کہ ہندوتوا کا مسلم مخالف ایجنڈا اتنافکرمندی کا باعث نہیں ہے جتنا کہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ توحید پر ایک جگہ جمع ہوناہے۔
ایک مسئلہ میراساتھ یہ پیش آیا کہ ایک صاحب نے میرے گروپ اسلامیات میں لکھا کہ یہ خالص اسلامی گروپ ہے پھربھی ہندوستانی مسائل پہ کوئی بات چیت نہیں ہے ،علماء خاموش ہیں،کیا مسلمان مرجائیں گے تو آرایس ایس کے غنڈوں کو مسائل بتائے جائیں گے ؟
گرچہ جملوں کا انتخاب صحیح نہیں ہے تاہم وہ موجودہ صورت حال پہ علماء کی خاموشی سےشدید نالاں نظر آتے ہیں ، میں نے انہیں جواب دیا کہ یہاں مسئلے مسائل کی ضرورت نہیں بلکہ ظالمانہ قانون (سی اے بی، این آرسی، این پی آر) کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ملک کے مسلم طبقات کے دینی رہنما، علماء اور طلباء پر جمود طاری ہے ، کچھ ہے تو بس لفاظی ، لچھے دار تقریر یا سیمینار جبکہ ابھی وطن کو ہمارے جسم وجاں کی ضرورت ہےجیسے انگیریزوں سے آزادی کے لئےہمارے آباء واجداد نے قربان دی۔
ہندوستانی صورت حال کےتناظرمیں سوشل میڈیا پہ سرحد پارسے کچھ ہوائیں غلط سمت چلتی نظر آرہی ہیں ، یہ ہوائی اڑانے والے کچھ خود کوموحد کہنے والے بھی ہیں ۔ بہت سارےسرحدی غنچے اس بات پہ کھل رہے ہیں کہ قائداعظم رحمہ اللہ کا دوقومی نظریہ سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ میں دوسروں پہ کم، موحدکہنے والوں پہ زیادہ حیران وششدر ہوں کہ کس طرح ایک غالی شیعہ کو اس کے نام سے نہیں بلکہ قائداعظم سے پکارا جاتا ہے  اور رحمہ اللہ کے ذریعہ دعا دی جاتی ہے ۔ دوسری طرف ہند کے عالم دین ، مفسرقرآن مولاناابوالکلام آزاد ؒ کا نظریہ عدم تقسیم کا ہے ۔ایک موحد کس کو ترجیح دے گا؟
سرحدی بھائی ہمیں قسم قسم کے طعنے دے رہے ہیں ان کا ذکر فضول ہے ،اصل مسئلے کی وضاحت کافی ہے،ایک مسئلہ ہندوستان سے مسلمانوں کی محبت  پر سوال اٹھانا اور دوسرامسئلہ ہندؤں کا ملک کہہ کر ہمیں یہاں سے ہجرت کرجانے کا مشورہ دہنا ہے ۔ ملک سے محبت پر سوال اٹھانا جہالت اور ناواقفیت کی دلیل ہے، وطن سے محبت اور اس کے اظہار میں قطعی کوئی حرج نہیں ہے اور ہجرت کرنے کا مشورہ دینے والوں کو پہلے اپنے احوال درست کرنا چاہئے ، ہمارے لئے ابھی ہجرت کا وقت نہیں آیا ہے جب اسلامی احکام پر عمل کرنے سےہمیں  روک دیا جائے گا پھر یہ مسئلہ آئے گاقطع نظر اس سے کہ سرحدپار کے وزیراعظم نے مسلمان مہاجر کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ یا للعجب
سب کو معلوم ہے کہ ہند کے حالات پاک سے مختلف ہیں پھر بھی پاک میں بت پرست آرام سے ہیں ، ان سے کوئی بیر سے نہیں ، قادیانیوں کو ایک بڑے شہر ربوہ میں پناہ دی گئی ہے جہاں ان کو اپنی دعوت کی نشرواشاعت کے لئے اخبارات و چینلر سے لیکر ہرقسم کا پلیٹ فارم مہیا ہے ، سالانہ اجلاس اس قدر اہم ہوتا ہے کہ پوری دنیا سے قادیانی اس میں شریک ہوتے ہیں اور پھر عیسائی وشیعہ حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں جو نہ صرف پاک کے لئےخطرناک ہیں بلکہ دین اسلام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں ، یوٹیوب پر سیکڑوں ویڈیوز مل جائیں گی جن میں شیعہ اللہ، رسول، امہات المومنین، صحابہ اور اسلام کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ، آخر ان کو مسلم  ملک میں اس قدرچھوٹ کیسے ؟
سرحدپار سے  ایک اور صاحب ملے جو میرے مضمون میں وارد ایک مصرعہ پہ اعتراض کرنے لگے ، مشہور شعر کا ایک مصرعہ ہے۔
ہندی ہیں وطن ہیں ہندوستان ہمارا ،،،، اس پہ انہوں نےمجھے وسعت نظری پیدا کرنے کی نصیحت کی اور کچھ اعتراضات کئے مگر لاجواب ٹھہرے ، اس مصرعہ پہ انہوں نے کہا "مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا"۔ میں ان سے بصداحترام عرض کیا کہ اگر آپ سے کوئی پوچھے کس ملک کے باشندہ ہیں تو کیا جواب ہوگا ؟ صاحب کی طرف سےابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔  
خیر،میں نے اختصار سے لکھنے کو سوچا تھا مگرمضمون کچھ طویل ہوگیا، اس مضمون سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر سلیقہ اختلاف ملحوظ خاطر رہنا چاہئے۔ 

مکمل تحریر >>

Friday, January 3, 2020

وقت کی اہمیت (نئے سال کے پس منظر میں)


وقت کی اہمیت (نئے سال کے پس منظر میں)

تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)

جنوری آتے ہی پچھلا سال پرانا اور آنے والا "نیا سال" ہوجاتا ہے، اس موقع پر پہلی جنوری کو دنیا بھر میں لوگ خوشیاں مناتے ہیں ، خوشی منانے کے نام پرمذہبی یاسماجی خدمات نہیں انجام دی جاتیں بلکہ کفرومعصیت ، رقص وسرود،فسق وفجور اور شراب وکباب کی مستیاں چلتی ہیں حتی کہ زناکاریاں اورعیاشیاں تک کی جاتی ہیں ۔ اللہ کی پناہ ایسی خوشی اور اظہار خوشی کے فحش طریقوں سے ۔ آپ اگر ان لوگوں کا جائزہ لیں جو ایسی خوشیاں مناتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ وہ درحقیقت وقت کی اہمیت سے لاپرواہ اور زندگی کےاصل مقصد سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔
اسلام میں وقت کوبڑی اہمیت حاصل ہےاس وجہ سے انسانی زندگی کا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ بہت ہی قیمتی ہے ۔ وقت وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کی بنیاد پر آخرت میں فیصلہ ہوگا اور ہرشخص کو اس کے مطابق نتیجہ ملے گایعنی جس انسان کا دنیاوی وقت اچھا ہوگا آخرت میں اس کا نتیجہ بھی اچھا ہوگا اور جس کا دنیاوی وقت برا گزرا ہوگااس کے ساتھ آخرت میں بھی برا ہی ہوگا۔
مومن اور کافر کی زندگی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کافر دنیا کو عیش وعشرت اور کھانے پینے کی جگہ سمجھتا ہےاوراسی حساب سے زندگی گزارتا ہےجس کی پاداش میں اللہ اسے جہنم رسیدکرےگا جبکہ مومن اس دنیا کو آخرت کی تیاری کی جگہ خیال کرتا ہے اور اللہ کے عذاب اور جہنم سے خوف کھاکر یہاں کفر ومعصیت سے بچتا اور ایمان وعمل صالح کا کام کرتا ہے جس کے بدلے میں اللہ اسے باغوں والے جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ (محمد:12)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے انہیں اللہ تعالٰی یقیناً ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وہ (دنیا ہی کا) فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں ان کا اصل ٹھکانا جہنم ہے ۔
اس آیت پر غورکرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول بھی مدنظررکھیں جسے ابن مبارک رحمہ اللہ نےاپنی کتاب الزہد والرقائق میں ذکر کیا ہے،آپ فرماتے ہیں:
لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ هَمُّ أَحَدِهِمْ فِي بَطْنِهِ ، وَدِينُهُ هَوَاهُ۔ ( حوالہ : الزهد والرقائق لابن المبارك , بَابٌ : فِي طَلَبِ الْحَلالِ, رقم الحديث: 601)
ترجمہ: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا۔
آج مسلمانوں کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی میں وہ مومنانہ کردارنظر نہیں آتا جس کا ذکر اللہ نے مذکور ہ آیت میں کیا ہے بلکہ وہ طرززندگی نظر آتی ہے جس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہما کررہے ہیں ۔ واقعی عین وہی زمانہ مسلمانوں پر آگیا ہے، ایک طرف حرام وحلال کی پرواہ کئے بغیرلوگ پیٹ بھرنا ہی مقصدحیات سمجھ بیٹھے ہیں تو دوسری طرف دنیا پرستی، نفس پرستی،قبر پرستی، شخصیت پرستی اور بدعت وضلالت کو دین کا نام دے کر بڑے اخلاص سے انہیں انجام دیا جارہا ہے ۔
دنیا پرستی نے ہمیں مقصد حیات سے اس قدر دورہٹادیا کہ ماہ وسال کس رفتار سے گزررہے ہیں اس کا ادراک وشعور ناپید ہوتا جارہا ہے ، ایسا محسوس ہونادراصل قیامت کی ایک اہم نشانی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تقومُ السَّاعةُ حتَّى يتقارَبَ الزَّمانُ ، فتَكونُ السَّنةُ كالشَّهرِ، والشَّهرُ كالجُمُعةِ ، وتَكونُ الجمعةُ كاليَومِ، ويَكونُ اليومُ كالسَّاعةِ ، وتَكونُ السَّاعةُ كالضَّرمةِ بالنَّارِ(صحيح الترمذي:2332)
ترجمہ:یامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا ،سال ایک مہینہ کے برابر ہو جائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہو جائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہو جائے گی۔
زمانہ قریب ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ زمانے کی برکات وفوائد ختم ہوجائیں گے ، نقصان ہی نقصان ہوگا اور یہ بھی مطلب ہے کہ لوگ دنیا میں ایک قدرمست ومگن ہوجائیں گے کہ ماہ وسال کس طرح گزررہے ہیں اس کا احساس جاتا رہے گا۔ اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ آج ہمارے ہاتھوں میں انٹرنیٹ موبائل آگیا ہے ، رات یا دن میں کسی وقت موبائل استعمال کرنے بیٹھ جاتے ہیں تو گھنٹوں گھنٹے کس طرح گزرجاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ اور ٹسٹ سیریزجو مہینوں پر مشتمل ہوتی ہیں ، ان کی وجہ سے نہ صرف کھیلنے والوں کا بلکہ دیکھنے ،سننے اور انتظامی امور سنبھالنے والوں کے بھی کئی کئی ماہ ضائع ہوجاتے ہیں جس کا شعور وادراک انہیں نہیں ہوپاتا۔ کھیل کا مطلب ہوتا ہے چند لمحے یا گھنٹہ بھر کا مگر مہینوں پرمشتمل ٹورنامنٹ اور سیریز سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے کھیل کوزندگی کا مقصداور دنیا کوکھیل کی جگہ سمجھ لیا ہے ، اس سے زیادہ حیرانی ان لوگوں پر ہے جو زندگی بھرکے لئے کھلاڑی بن جاتے ہیں یعنی ان لوگوں کی زندگی کھیل تماشے میں تمام جاتی ہے ۔ لمحہ فکریہ ہے ان تمام لوگوں کے لئےجو کھیلوں میں اپنی عمر ضائع کرتے ہیں چاہے وہ کھلاڑی ہوں یا عملہ ہوں یا تماش بیں ۔
وقت اور زندگی اللہ کی طرف سے ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہے ،اس کی محافظت اور قدرکرنا ہماری ذمہ داری ہےمگر اس کی ادائیگی میں اکثریت کوتاہ نظر آتی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : نِعْمَتانِ مَغْبُونٌ فِيهِما كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ والفَراغُ(صحيح البخاري:6412)
ترجمہ:دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔
ایسی ہی ایک دوسری حدیث ہے جس میں نبی ﷺنے ایک صحابی کو چند نصیحتیں فرمائی ہیں ، آپ انہیں نصیحت کرتےہوئے فرماتے ہیں :
اغتنِمْ خمسًا قبلَ خمسٍ : حَياتَك قبلَ موتِك ، و صِحَّتَك قبلَ سَقَمِك ، و فراغَك قبلَ شُغْلِك ، و شبابَك قبلَ هَرَمِك ، و غِناك قبلَ فقرِكَ(صحيح الجامع:1077)
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔
کس قدر قیمتی پندونصائح ہیں ؟ جو ان نصیحتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالے گایقینا اس کی دنیا وآخرت سنور جائے گی ۔
آئیے اختصار کے ساتھ چند امور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتاہوں جو وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں معاون ہوں گے ۔
(1) سب سے پہلے تو گزشتہ زندگی اور اپنے نفس کا محاسبہ ابھی اور اسی وقت کریں۔ سوچیں، یاد کریں اورجہاں جہاں کمیاں، کوتاہیاں پائی جائیں آئندہ ان کی تلافی کی جائے۔ حقوق العباد سے متعلق غلطیوں کی تلافی انہیں بندوں سے ہوگی جن سے متعلق ہے تاہم اللہ کے حق میں کی گئیں چھوٹی بڑی تمام قسم کی نافرمانیوں کے لئے سچے دل سے توبہ کریں ، اللہ اپنے بندوں کو بے پناہ معاف کرنے والا ہے ۔ سابقہ گناہوں پر شرمندگی اور آئندہ نیکی کاپختہ عزم کرنا اولین مقصد بنائیں۔
(2) انسان گناہوں کی طرف نفس کی خواہش کی وجہ سے جاتا ہے اور نفس میں برے خیال شیطان ڈالتا ہے تو جس طرح شیطان ہمارا بڑا دشمن ہے نفس بھی اسی طرح بڑا دشمن ہے اس لئے جہاں شیطان سے بچنا ہے اس کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا ہے وہیں نفس کی ایسی تربیت کریں ،اس پر عبادت کا اس قدربوجھ ڈالیں کہ نفس آپ کے قابو میں ہوجائے ۔
(3) ایسے دوستوں کی صحبت اختیار کریں جن کے یہاں اوقات کی اہمیت اور زندگی گزارنے کا بہترین سلیقہ ہے اور بری صحبت سے بچیں جو تضییع اوقات کا بڑا سبب ہے۔
(4) اسلاف کی سیرت بھی پڑھنی چاہئے اس سے زندگی میں ادب و سلیقہ اور شعورحیات پیدا ہوگا۔ میں نے ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی سیرت میں پڑھا تھا کہ وہ بہت ذہین طالب علم نہیں تھے مگر دوخوبیوں کی وجہ سے ذہین وفطین ساتھیوں سے سبقت لے گئے ، ایک وقت کی تنظیم اور دوسری جہد مسلسل ۔ میں نے اپنی زندگی میں کچھ کرنے کے لئے ڈاکٹرصاحب کی ان دوخوبیوں کو اپنانے کی کوشش کی اور ثمرات کا مشاہدہ کیا۔
(5) بیماری سے پہلے جو صحت ملی ہے اور موت سے پہلے جو زندگی نصیب ہوئی ہے اسے قیمتی سرمایہ سمجھ کر اچھے کام میں صرف کریں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:
إذَا أمْسَيْتَ فلا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وإذَا أصْبَحْتَ فلا تَنْتَظِرِ المَسَاءَ، وخُذْ مِن صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، ومِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ(صحيح البخاري:6416)
ترجمہ: شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے مطلب یہ ہے کہ موت اور بیماری سے پہلے شام کے وقت جو کام ہو اسی وقت کرلو صبح کا انتظار نہ کرو اور صبح کے وقت جو کام آئے اسی وقت کرلوشام کا انتظار نہ کرو۔
(6) آدمی اپنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے ؟ اسے زندگی کا اصل مقصد پتہ نہیں ہوگا یا اس میں ایمان کی حرارت  اورفکرآخرت ناپید ہوگی یا  وہ گناہوں کی طرف مائل ہوگا یا دنیا طلبی میں منہمک ہوگا یا دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہوگا کہ یہ عیش کرنے اور کھیل کود کرنے کی جگہ ہے یا بری صحبت کا اثرہوگا یا نفس اور شیطان کا اس پرغلبہ ہوگا۔ ایسے حالات میں ہمارے لئے معاون امور یہ ہیں ۔
اولا: ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ زندگی کااصل مقصد اللہ اوراس کے رسول کے احکام کے مطابق چلنا ہے، کھانا پینا محض زندگی کی ضرورت ہے مقصد نہیں ہے اس لئے دل میں دنیا طلبی کی محبت نہیں آخرت کی فکر ہونی چاہئے۔
ثانیا: موت کو کثرت سے یاد کریں جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم بھی دیا ہے تاکہ موت کی فکر سے ایمان میں قوت وحرارت پیدا ہوگی،دل سےمعصیت اوردنیا طلبی کا خیال دور ہوگا اور اعمال صالحہ کی طرف رغبت ہوگی ۔
ثالثا: موت کی اس گھڑی اور سختی کو یاد کریں جب روح نکل رہی ہوتی ہے ،پاس میں سارے اہل وعیال ہوتے ہیں مگر نہ کوئی سختی کم کرسکتا ہے اور نہ ہی موت ٹال سکتا ہے ۔ جس طرح موت کے وقت اہل وعیال اور مال ودولت کچھ کام نہیں آتے اسے طرح آخرت میں اپنے عمل کے سواکچھ کام نہیں آئے گا۔
رابعا: قبرستان کی زیارت کریں تاکہ فکرآخرت پیدا ہو ، آخرت کی تیاری کا خیال دل میں آسکےاور آنے والی زندگی کے لئے توشہ اکٹھا کریں ۔
خامسا: قبرکی منزل سے لیکر میدان حشر تک اکیلے پن کا احساس کریں ، نہ مرتے وقت کوئی ساتھ دیا، نہ مرکرکوئی دوسراہماری قبر میں ساتھ دینے کے لئے آیا اور آخرت میں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر بھاگیں گے ہی ۔
سادسا: سب سے اہم معاون امر یہ ہے کہ ہمیں سدا اس وقت کو یاد کرنا چاہئےجب ہمارا حساب وکتاب ہوگا اور ہم سے عمر کے بارے میں سوال ہوگا ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يسألَ عن عمرِهِ فيما أفناهُ(صحيح الترمذي:2417)
ترجمہ:قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کن کاموں میں ختم کی۔
(7) اللہ نے قرآن میں اوقات کی قسم کھائی ہے ، کہیں رات ودن کی تو کہیں فجر اور عصر کے وقت کی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو اوقات کی اہمیت اوران کی محافظت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے اس لئے ہمیں اوقات کو اہمیت دینی چاہئے،ان کی حفاظت کرنی چاہئے اور لایعنی یا گناہوں کے کاموں میں وقت صرف کرنے سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے۔
(8) وقت کی تنظیم کاری کریں یعنی اپنے لئے دن ورات کا ایسا شیڈول تیار کریں جس میں اپنے اپنے وقت پر پابندی سےگھریلو، سماجی اور دینی سارے کام بحسن وخوبی انجام پاتے رہیں۔بطور مثال بہت سے لوگ نماز یا تلاوت یا دعا یا ذکرکے لئے بہانہ بناتے ہیں کہ دنیاوی کاموں سے فرصت نہیں ہے ۔ یہ عذرلنگ ہے آپ نے زندگی کو منظم نہیں کیا ہے ، آپ اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیں کہ عبادات بھی مقررہ اوقات میں پابندی سے کریں اور دنیاوی معاملات اور ذمہ داریاں بھی اچھے سے نبھاسکیں ۔
سال نو اور آخری پیغام : نئے سال کی آمد پہ لوگ اس لئے خوشیاں مناتے ہیں کہ انہیں یہ احساس ہورہا ہوتاہے کہ ہم نے زندگی کی ایک بہار مکمل کرلی اور ہماری عمر میں ایک سال کااضافہ ہوگیا، اب ہم ایک سال بڑے ہوگئے ،جنم دن منانے کے پیچھے بھی یہی عامل کارفرما ہے ۔ ایسا سوچنے اور احساس کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے لئے دنیا ہی سب کچھ ہےاس لئے ایسے لوگ دنیا میں وافر مقدار میں مال کمانے اور نفس کوعارضی لذت و سرور پہنچانے میں اپنے اوقات صرف کرتے رہتے ہیں ۔
سوچنے کا مقام ہے کہ دنیاوی زندگی محدود اور مختصر ہے جوکہ تقریبا ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہے ۔ اگر کوئی ایک سال بڑا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی سے ایک سال کم ہوگیا یعنی وہ ایک سال زیادہ زندہ رہتا اب ایک سال کم ہی زندہ رہے گا ۔ نئے سال کی آمد سے معلوم ہورہا ہے کہ ہم ایک سال مزید موت سے قریب ہوگئے۔ کس قدرحیرانی کی بات ہے کہ آدمی کی زندگی کا ایک سال ختم ہورہا ہے اور موت سے ایک سال قریب ہورہا ہے پھربھی نئے سال کا جشن منارہا ہے ،کیاایسا نہیں لگ رہا ہے کہ وہ اپنی موت کاجشن منارہا ہے ؟ کس قدر بے وقوف ہے وہ شخص جو اپنی موت کا جش مناتا ہے؟
میرے پیارے بھائیو! سمجھنے کی کوشش کرو، یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے،بھلاآزمائش کی جگہ جشن منانا کسی کو زیب دیتا ہے؟ یہاں تو روتےہوئے زندگی گزارنی چاہئے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:لَوْ تَعْلَمُونَ ما أعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، ولَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا(صحيح البخاري:6485)
ترجمہ:جوکچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا توتم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
آئیے عہد کرتے ہیں کہ اب سے نئے سال کا جشن نہیں منائیں گے بلکہ سال نو کی آمد پر اپنے نفس اور اعمال کا محاسبہ کریں گے اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرکے آئندہ مستقل طورپر اعمال صالحہ انجام دینے کا عزم مصمم کرتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ
مکمل تحریر >>