Tuesday, December 22, 2020

معاشیات سے متعلق سوال وجواب

 

معاشیات سے متعلق سوال وجواب
جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر مسرہ طائف

سوال(1):ایک مسئلہ یہ کہ کسی کمپنی کے جائز products سیل کرنے پر کمیشن دیا جاتا۔ایک لاکھ کا پروڈکٹ سیل کریں تو 25 فیصداور 5 لاکھ کا سیل کریں تو 40 فیصد کمیشن ملتا ہے اور اس کمپنی میں شامل ہونے کے لئے نقدا 70000 يا قسطوں میں 77000 ادا کرنا ہوتا ہے۔ کمپنی کے founder کے مطابق یہ investment ہے اور اس کے بعد training دی جاتی ہے اور ہاں بعد میں 70000میں سے آدھے سے زیادہ واپس بھی کر دیا جاتا ہے تو اس پراسیس میں کوئی غیر شرعی امر تو نہیں ہےرہنمائی فرمائیں گے۔
جواب: کسی بھی تجارت میں شامل ہونے اوراس کی مصنوعات بیچنے کے لئے ہمیں صرف جائز مصنوعات کو ہی نہیں دیکھنا ہے بلکہ اس کے اصول وضوابط اور منفعت کے حصول کا طریقہ کار بھی دیکھنا ہوگا۔ صورت بالا میں اگر داخلہ فیس نہ ہوتی تو اس تجارت میں بحیثیت بائع یا مندوب بن کر تجارت کرنے اور نفع کمانے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن داخلہ فیس کی صورت میں ایک طرف ۷۰۰۰۰ ہے تو دوسری طرف منفعت مجہول ہے جس کی وجہ سے یہ تجارت قمار میں داخل ہے چاہے کچھ پیسے یا آدھے واپس ہی کیوں نہ کردئے جائیں ۔آپ کسی کمپنی میں ستر ہزار اس لئے لگارہے ہیں تاکہ اس بنیاد پر فائدہ حاصل کرسکیں اور آپ کا فائدہ یہاں مجہول ہے ،یہی قماربازی میں ہوتا ہے اس لئےکسی مسلمان کے لئے ایسی تجارت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے ۔ ہاں اگر ۷۰۰۰۰ کی قیمت کا سامان تجارت خریدکر آپ اپنی خریدی ہوئی مصنوعات سے تجارت کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال(2):میں سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں بناتا ہوں ، اس میں کچھ حصہ مصنوعی دھات اور نگینے کابھی ہوتا ہے ۔ ان انگوٹھیوں کو آگے تاجروں کو ادھار بیجتاہوں پھر ہمیں کچھ دنوں بعد انگوٹھی کےوزن کےبرابر خالص سونا وچاندی دیتے ہیں اس سونے وچاندی میں میری مزدوری اور مصنوعے دھات ونگینے کی قیمت بھی شامل ہوتی ہے، کیا یہ کاروبار جائز ہے ؟
جواب: یہ کاروبار جائز نہیں ہے ، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سونےوچاندی کو ادھار بیچا جاتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے ، سونا اور چاندی کا کاروبار نقد ہونا چاہئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انگوٹھی میں سونے وچاندی کے علاوہ بھی مصنوعی چیزیں ملی ہوتی ہیں یعنی سونے وچاندی کی مقدار کم ہوتی ہے جبکہ حاصل اس سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔شرعی طورپر سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے بیچتے وقت اتنی ہی مقدار میں سونا لیا جائے گا جتنی مقدار میں سونا تھا اور اتنی ہی مقدار میں چاندی لی جائے گی جتنی مقدار میں چاندی تھی ۔رہا مزدوری کا معاملہ تو اس کو سونے وچاندی کی شکل میں مذکورہ صورت میں حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کاروبار کی ایک جائز صورت تویہ ہے کہ آپ اپنی چیزوں کو تاجروں کے ہاتھوں نقدا بیج دیں ، ادھار نہ رہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ جس قدر سونا اور چاندی استعمال ہوئے ہیں اسی قدر سونا وچاندی حاصل کریں اور مزدوری و مصنوعی دھاتوں کی قیمت الگ سے حاصل کریں  ،وہ بھی نقد ادھار نہیں۔ ایک تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی چیزوں کا تاجروں کو وکیل بنالیں ، مالک آپ ہی رہیں گے وہ آپ کے لئے بیچیں گے اور آپ انہیں بیچنے کے عوض جو کمیشن یا مزدوری دینا چاہیں دے دیں ۔
سوال(3): ہمارے یہاں کسان پیاز وغیرہ کی مزدوری کرتے ہیں تو منڈی کے تاجروں سے کھیتی سے قبل اڈوانس رقم لے لیتے ہیں پھر پیاز کی کھیتی کے بعد ان تاجروں سےبازار سے کم قیمت پہ بیچتے ہیں کیونکہ ان سے اڈوانس لئے ہوتے ہیں ، کیا یہ طریقہ درست ہے ؟
جواب : اڈوانس کس حیثیت سے ہے وہ واضح نہیں ہے ، کیا یہ بطور قرض ہے یا پھر پیشگی خریدگی کی رقم ہے ؟ بطور قرض ہے تو بعد میں کم قیمت پر تاجر کا سامان خریدنا سود کہلائے گا لیکن پیشگی خریداری کی ادائیگی ہے تو اس کی صحیح شکل بیع سلم ہوگی ۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ تاجر کسان کو قبل ازکھیتی پیاز ودوسرے سامانوں کی مواصفات کی تحدید کے ساتھ مکمل رقم دیدے اور جب کھیتی ہوجائے تو جتنے کیلو سامان کی قیمت پہلے اداکی گئی ہے اتنا کیلو سامان تاجر کو مہیا کردے ۔ایسی صورت میں قیمت وہی مانی جائے گی جو کھیتی سے قبل طے ہوگئی تھی چاہے بازار میں فروختگی کے وقت جو بھی قیمت ہو۔
سوال(4): کچھ لوگوں کو دیکھاگیا ہے کہ بغیر اجازت وہ کسی مکتبہ کی کتابوں کی تصاویرلیکربیچنے کی نیت سے انٹرنیٹ پہ تشہیر کرتے ہیں ،جب کسی خریدار کی طرف سے مانگ ہوتی ہے تو وہ مکتبہ والوں سے خریدکر آگے انٹرنیٹ کے خریدارکوزیادہ قیمت پہ فروخت کرتے ہیں، شرعا اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب: کتاب بیچنے کی جائز شکلیں تین ہوسکتی ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ پہلے خود کتاب خریدکر اور اس کو قبضے میں لیکر مالک بن جائیں پھر آگے بیچیں ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ بائع کی طرف سے وکیل یا کمیشن ایجنٹ بن کر بیچیں یعنی وہ آپ سے یہ کہے کہ فلاں کتاب آپ کوسو روپئے میں دیتا ہوں آپ آگے جتنے پر بیچیں یا یہ کہ کتاب کی تعداد یا قیمت کے اعتبار سے کمیشن متعین کرلیں ۔ ایک تیسری شکل یہ ہے کہ آپ مشتری کی طرف کمیشن ایجنٹ بن کر کتاب بیچیں ۔ یہاں جو صورت ہے وہ شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے ، بیچنے والا کتابوں کو اس طرح بیچ رہا ہے جیساکہ وہ ان کتابوں کا بروقت مالک ہے اور وہ کتاب اس کے پاس موجود ہے جبکہ حقیقت میں وہ کتاب اس کے وقت پاس موجود نہیں ہوتی ہے ۔ اسلام نے ہمیں ایسی چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جس کے ہم مالک نہیں ہیں ۔
سوال(5): کئی کرکٹ ٹیم مل کر ٹورنامنٹ کھیلتی ہے ،اس ٹورنامنٹ میں شریک ہونے والی تمام ٹیمیں داخلہ فیس جمع کرتی ہیں ،اسی داخلہ فیس سے جتنے والی ٹیم کو انعام دیا جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب: اس طرح کا ٹورنامنٹ جوا کی قسم سے ہے کیونکہ ایک طرف رقم معروف ومتعین ہے جبکہ دوسری طرف فائدہ مجہول ہے یعنی شرکت کرنے والی ٹیم جتنی رقم لگارہی ہے ہوسکتا ہے وہ رقم ہار جائے یا ہوسکتا ہے اس سے کئی گنا جیت لے یہی حال جوا کا ہے اس لئے یہ عمل صحیح نہیں ہے۔
سوال(6):سپاری (چھالیہ)جو پان میں کھائی جاتی ہے اس کا کاروبار کرنا کیسا ہے ؟
جواب: عموما سپاری کا استعمال پان اور مختلف قسم کے گٹکھوں میں ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں جسم کو مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا کرنے والی ہیں بلکہ موت کے دہانے پر پہنچانے والی ہیں ، یہ بغیر دھوئیں والا سگریٹ ہے مگر نقصان میں سگریٹ سے بھی بڑھ کرہےحتی کہ جو کوئی میٹھی سپاری یا صرف سادہ سپاری کھاتا ہے وہ بھی سپاری کے نقصانات اٹھاتا ہے ،اس میں بدبو کے علاوہ دانتوں کے سڑنے اورجھڑنے  کا چالیس فیصد امکان بڑھ جاتا ہے۔محض سپاری سے سیکڑوں قسم کی زہریلی اشیاء تیار کی جاتی ہیں اور روزانہ ان کے سبب بے شمار اموات ہوتی ہیں گویا سپاری کاایک کاروباری ہزاروں انسان کا قاتل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں طبی رپورٹ چھالیہ کو مضر بتلاتی ہے تو دوسری طرف کئی ممالک میں اس پرپابندی بھی عائد ہےاس لئے ایک مسلمان کے لئے سپاری کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے ، ہاں اگراس کا کوئی مثبت استعمال ہو مثلا بطور علاج تو بس اسی قدر استعمال کی گنجائش ہوگی۔
سوال(7): میں نے کپڑے کی دوکان کھولی ہے اور میرا ارادہ یہ ہےکہ شرعی طورپر کاروبار کروں ، اس لئے مجھے یہ بتائیں کہ کپڑوں پر کتنا نفع لے سکتے ہیں ، کیا اسلام نے کوئی قید لگائی ہے ؟
جواب: اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے کاروبار میں برکت دے اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو حلال طریقے سے تجارت کرنے اور حلال روزی کھانے کی توفیق دے۔
آپ نے سوال کیا ہے کہ سامان تجارت پرخرید ریٹ سے کتنا زیادہ منافع لے سکتا ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ سامان تجارت میں نفع لینے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، یہ بازار کے اتاروچڑھاؤ پر منحصر ہے اس لئے آپ حالات کے مطابق اپنے سامان کی جو قیمت لگانا چاہیں لگاسکتے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ابوداؤ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں)۔
تجارت میں اصل یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولاجائے، دھوکہ نہ دیا جائے ، سامان کا عیب نہ چھپایاجائے،حرام چیز نہ بیچی جائے، سامان روک پر نرخ چڑھنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ ایک امانتدار تاجر کی طرح تجارت کی جائے۔
سوال(8): کیا فارماسسٹ اپنا سرٹیفکیٹ کرائیے پر دے سکتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ میڈیکل (دوا کی دوکان /فارمیسی) چلانے کیلئے حکومت کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ لگتی ہے جس کیلئے دو سالہ کورس D-Pharm یا چار سالہ کورس B-Pharm کرنا ہوتاہے۔ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد فارماسسٹ حکومت کی جانب سے دوسرے کے میڈیکل پر اپنا سرٹیفکیٹ فارماسسٹ(ملازم) کے طور پر لگا سکتا ہے جس کی ڈیوٹی 8 گھنٹے ہوتی ہے یہاں تک تو درست ہے البتہ اگر کوئی فارماسسٹ صرف اپنی سرٹیفکیٹ لگائےاور وقت نہ دے یعنی سرٹیفکیٹ کرائے پر دے تو کیسا ہے؟
جواب: جس نے فارمیسی ڈپلومہ کیا ہوتا ہے وہ میڈیکل اسٹور کھولنے کا مجاز ہوتا ہے مگر آج کل ہندوپاک سمیت بہت سارے ممالک میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی فارماسسٹ کی ڈگری پہ دوسرا شخص مارمیسی کھولتا ہےاور فارماسسٹ کو بغیر عمل کے محض ڈگری کے بدلے میں طے شدہ رقم دی جاتی ہے ۔ اس طرح کسی فارماسسٹ کا اپنی ڈگری کرائے پہ دینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ڈگری (شہادۃ یعنی گواہی )فارماسسٹ کی ذاتی اہلیت کی گواہی ہے ۔ کسی کام کی اہلیت ایسی چیز نہیں ہے جس کو ہم کسی غیرکے حوالے کرکے اس سےکرایہ وصول کرسکیں ۔ اس عمل میں جھوٹ اور دھوکہ شامل ہے ۔
مذکورہ بالا سوال کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی فارماسسٹ اپنی ڈگری کسی فارمیسی کو کرائے پر دیتا ہے مگر وہاں عمل نہیں کرتا اس کا کیا حکم ہے ؟ اس کا وہی جواب ہے جو اوپر دیا گیا ہےیعنی اس میں بھی وہی جھوٹ اور فریب ہے ۔ فارمیسی کی اس ڈگری پہ ظاہر سی بات ہے کسی دوسرے فرد کو مزدوری کرنے کے لئےرکھائے گا جو سراسر جھوٹ اور فریب ہے ، جب وہ ڈگری فارمیسی میں کام والے کی نہیں ہے تو وہ کیسے اس بنیاد پہ وہاں کام کرسکتا ہے، یہ تو محض اہلیت کی گواہی ہے اور اس شخص کے حق میں ہے جس نے اسےحاصل کیا ہے۔بہت سے انجینئر حضرات بھی کمپنیوں کو اس طرح اپنی ڈگری کرائے پر دیتے ہیں ۔مصر کے سلفی عالم دین جنہوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ سے تعلیم حاصل کی پھر کویت کے مدرسہ اور جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی سے منسلک ہوئے ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ڈگریوں کو کرائے پر دینا جائز ہےبطور خاص طبی سرٹیفکیٹ کو فارمیسی کے لئے دینا ، کبھی وہ وہاں کام کرتا ہے اور کبھی کام نہیں کرتا بلکہ سرٹیفکیٹ کی اجرت لیتا ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا کہ غیر کو دے کراس قسم کی ڈگریوں کے ذریعہ تجارتی لائسنس حاصل کرنا اور اجرت لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ عمل جھوٹ اور دجل میں سے ہے ۔
ذرا غور کریں کہ ایک فرد کی وجہ سے کم ازکم تین افراد (سرٹیفکیٹ دینے والا، لینے والا اور اس پر کام کرنے والا ) گنہگار ہورہے ہیں اس لئے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جھوٹ اور فریب والا کام نہ کریں ، اللہ کافرمان ہے : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اور رسول اللہ نے فرمایاکہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
آپ کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو اپنی فارمیسی کھولیں یا جس جگہ اپنی ڈگری لگارہے ہیں وہاں کام کریں اور کام کے عوض مال کمائیں ۔
سوال(9): آج کل اکثر مقامات پر لوگ کمیٹی ڈالتے ہیں ، اس کمیٹی میں ایک شخص حساب وکتاب کے لئے متعین ہوتا ہے ایسے شخص کا اجرت لینا جائز ہے جبکہ کمیٹی والے راضی ہوں اور یہ اجرت لوگوں کے جمع شدہ مال سے کاٹ لی جاتی ہے ؟
جواب: جب سارے ممبران اس بات پر راضی ہوں کہ کمیٹی کا حساب وکتاب کرنے والا شخص ماہانہ یا سالانہ اتنی رقم لے گا اور وہ لوگوں کے حساب وکتاب سے ان کے علم ورضامندی کے ساتھ  اپنی اجرت ماہ بہ ماہ یا سالانہ حسب اتفاق کاٹ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(10): انٹرنیٹ پر ایسی بہت ساری کمپنیاں ہیں جن کا ممبر بن کر نفع کمایا جاتا ہے ، ہرممبر بننے والا اپنے نیچے ممبر بناتا چلا جاتاہے  اور نفع اوپر سے لیکر نیچے  تک تمام درجات کے ممبران کو ملتا ہے ، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ اس میں شامل ہونےکےلئےمقرر ہ قیمت تک کا سامان خریداجاتا ہے جو بازا ر ریٹ سے مہنگا بھی ہوتا ہے اور کتنے سامان ضرورت کے قابل بھی نہیں ہوتے، ایسی کمپنی میں شمولیت اختیارکرکے روپیہ کمانا کیسا ہے ؟
جواب: مذکورہ کمپنی کو ملٹی لیول مارکیٹنگ کہاجاتا ہے اس پر مفصل مضمون میرے بلاگ پرموجودہے ، یہاں مختصرا یہ عرض کردوں کہ ایسی کمپنیوں میں نہ شمولیت اختیار کرنا جائز ہے اور نہ ہی متعدد طبقات کے ممبران کی محنت کھانا جائز ہے کیونکہ یہاں سامان خریدکرکمپنی کا ممبر بناجاتا ہےجس کے مقابلے میں نفع متعین نہیں ہے اس لئے سرے سے اس میں شرکت جائز نہیں ہے اور اپنی محنت سے جوڑنے والے اشخاص کے علاوہ دوسرے افراد کی ممبرسازی کا منافع لینا بھی جائز نہیں ہے ۔

مکمل تحریر >>

Sunday, December 13, 2020

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:22)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:22)
جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ- طائف

سوال (1):جب میں گھر میں نمازپڑھتی ہوں تو کبھی کبھار گھر میں نامحرم آجاتے ہیں تو کیا نماز میں چہرےکاپردہ کرنا ہوگا اس بات کی جانکاری کے ساتھ کہ ہمارے یہاں مشہور ہے کہ نماز میں چہرے کاپردہ نہیں ہے ؟
جواب : جہاں بھی اجنبی اور نامحرم کا گزرہو وہاں عورتوں کو اپنے چہرے کا پردہ کرنا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالی نے نامحرموں سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ حکم نمازوغیرنماز ، حج وعمرہ اور سفر وحضر تمام حالات کو شامل ہے ، اللہ کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ[الأحزاب:59]
ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (جلباب ایسی بڑی چادر کو کہتےہیں جس سے چہرہ سمیت پورا بدن ڈھک جائے) ۔
اس لئے جب نماز پڑھتے ہوئے گھر میں نامحرم داخل ہوجائے تو آپ اپنا چہرہ ڈھک لیں اور عورتوں میں جو مشہورہے کہ نماز میں چہرے کا پردہ نہیں یہ حنفیوں کی بات ہے جو قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔
سوال(2): میک اپ کی چیزیں فروخت کرنا کیسا ہے ؟
جواب: میک اپ کی وہ چیزیں بیچنا جائز ہے جن کا استعمال اسلام میں جائز ہے اور وہ چیزیں بیچنا ناجائز ہے جن کا استعمال اسلام میں منع ہے۔ممنوع چیزوں میں عورتوں کے مصنوعی بال، مصنوعی پلکیں ،خنزیر کی چربی والی مصنوعات، کالا خضاب، ملون کونٹکٹ لینس، کافروں کی مشابہت والی چیزیں ا ور ناچنے گانے والی ، فسق وفجوروالی عورتوں کی مخصوص فحش چیزیں وغیرہ ۔
 سوال(3): کیا کسی طوائف یا ناچنے گانے والیوں کا میک اپ کرنا جائز ہے؟
جواب: اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدہ:2) ترجمہ: ظلم اور گناہ کے کام پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
اللہ کے اس فرمان کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلم عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی طوائف ، زانیہ، ناچنے گانے والی اور اجنبی مردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرنے والی عورتوں کا میک اپ کرے کیونکہ ایسا کرنا گناہ کے کام پر تعاون ہوگا اور اللہ نے گناہ کے کام پر کسی کی مدد کرنے سے منع کیا ہے ۔
سوال (4) کیا خلع کے لئےلڑکی کو ولی کی اجازت لینا ضروری ہے؟
جواب: خلع لینے کے لئے عورت کو اپنے ولی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ شرعی وجہ کا ہونا کافی ہے یعنی عورت کے لئے اپنے شوہر سے خلع لینا اسی وقت جائز ہوگا جب کوئی معقول وجہ اور شرعی عذر ہوگا ۔بغیر عذر کے جیسے طلاق دینا گناہ ہے اسی طرح بغیرعذرکے خلع لینا بھی گناہ ہے۔
سوال(5): جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اولاد کی جنس طے کرکے یعنی لڑکا یا لڑکی متعین کرکے پیدا کرنا کیساہے؟
جواب: ٹکنالوجی کی ترقیات میں ایک ترقی یہ بھی ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ جسےلڑکا چاہئےاسے لڑکا اور جسے لڑکی چاہئے اسے لڑکی پیداکرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان بذریعہ جدید علاج اپنے لئے متعین جنس اختیار کرسکتا ہے تو اس کا جواب جاننے کے لئے پہلےیہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جنس اختیار کرنے کا جدید طریقہ کیا ہے؟ جدید طریقہ یہ ہے کہ مردوعورت کا نطفہ حاصل کرکے عورت کے تولیدی انڈوں کا ملاپ منی کے ان ذرات سے کرایا جاتا ہےجوکہ مطلوبہ جنس کے حصول کے لئے کارآمد ہوتے ہیں پھر تلقیح کا عمل انجام دے کر اسے عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ تولید میں ایک شرعی خامی تو یہ ہے کہ مرد کو جلق کرنا پڑتا ہے اور دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ عورت کو اپنی شرمگاہ کھولنی پڑتی ہے،ظاہرسی بات ہے بغیرشدیدمجبوری کے یہ عمل جائز نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی سماجی اعتبار سے بھی اس کے بڑے مفاسد ہیں اس لئے عام حالات میں  جنس اختیارکرناجائز نہیں ہے تاہم اشد ضرورت کے تحت کوئی جنس متعین کرنا چاہے تو جواز کا پہلو نکل سکتا ہے مثلا کسی کومتعدد بیٹیاں ہوں ،ایک لڑکا چاہے یا اس کے برعکس،مزید وضاحت کے لئےمیرامضمون" رحم مادر کی پیوندکاری اسلام کی نظر میں" کا مطالعہ کریں ۔ اس مسئلے میں افضل صورت یہ سمجھتا ہوں کہ اولاد کے لئے اللہ سے دعا کرے جس طرح انبیاء نے دعا کی اوربچے کی پیدائش اور اس کی جنس کا معاملہ اللہ کے سپرد کردے کیونکہ اولاد عطاکرنے والا ، اس سےمحروم کرنے والا وہی ہے اور جنس متعین کرنے والا اصلا وہی ہے،فرمان باری تعالی ہے : لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَأَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (الشوری:49-50)
ترجمہ : اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔
اگرایک بیوی سے اولاد نہ ہو تو دوسری شادی کرے، دوسری سے بھی اولاد نہ ہو تو تیسری شادی کرے اور تیسری سے اولاد نہ ہو تو چوتھی شادی کرے اور اگر چوتھی سے بھی اولاد نہ ہو تو تقدیر کے لکھے پہ صبر کرے اور اللہ کے فیصلے سے راضی ہوجائے۔
سوال(6): ایسی مہندی لگانے کا کیا حکم ہے جس میں الکوحل بھی شامل ہو؟
جواب: کوئی حرج نہیں ہے، الکوحل یہاں کھانے اورپینے کےقبیل سے نہیں ہےبلکہ استعمال کے لئے ہے اور یہ ایک قسم کا کیمیکل ہےجو ضرورت کے تحت مختلف قسم کی چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہےالبتہ کھانے پینےمیں نشہ آور ہونے کے سبب ناجائز ہوگا۔اوریہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ الکوحل نجس ہے تو اس بارے میں جان لینا چاہئے کہ منشیات حکما نجس ہے نہ کہ معنوی طور پرمثل مشرک کے کہ وہ حکما نجس ہے ، اس کو چھونے سے بدن ناپاک نہیں ہوتا۔
سوال(7): ہمارے یہاں سامان بیچنے والا ،عورتوں کا بال لیکر گھریلو سامان دیتا ہے کیا ہم یہ کام کرسکتے ہیں؟
 جواب: سرسے لیکر پاؤں تک انسانی جسم کا کوئی عضویاحصہ بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کی ملکیت ہے اور پھر اللہ نے اسے تکریم بخشی ہےلہذا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ عورتوں کا بال نقد یا سامان کے عوض بیچے ،ساتھ ہی ان بالوں کوشیطانی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا بھی خدشہ ہے ۔
سوال(8): کیا باپ کی جائیداد تقسیم کرنے کے لئے ماں کی وفات کا انتظار کرنا ہوگا؟
جواب: نہیں ، جس کی جائیداد تقسیم کرنی ہے بس اسی کا وفات پانا ضروری ہے ، اس لئے باپ کا انتقال ہوجائے تو ترکہ تقسیم کرنے کے لئے ماں کی وفات کا انتظار نہیں کیا جائے گابلکہ میت کی تدفین کے بعد بلاتاخیر وراثت تقسیم کردی جائے اور بیوی کو بھی حصہ ملے گاکیونکہ اسلام نے شوہر کے مال میں بیوی کا بھی حصہ مقررکیا ہے۔جب ماں کا انتقال ہوجائے تب اس کی نجی جائیداد اس کے وارثین میں تقسیم کی جائے گی ۔
 سوال(9): بعض عورتیں اپنے گھروں میں برتھ ڈےاور دوسرے فنکشز کے لئے کیک بناکر بیچتی ہیں ، کیا یہ تجارت جائز ہے؟
 جواب: گھروں میں کیک بناکر تجارت کرنا جائز ہے لیکن فسق وفجور اور کفرومعصیت والے فنکشنز کے لئے مخصوص طورپرکیک تیار کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع کیا ہے ۔اسلام میں سالگرہ منانا جائز نہیں ہے اس لئے اس کام کے لئے کیک تیار کرنا جائزنہیں ہوگا البتہ کیک کی عام تجارت یا جائزدعوتوں کے لئے کیک بنانا جائز ہے۔
سوال(10): کیا بیٹی فوت ہوجانے سے ساس کے لئے داماد نامحرم ہوجاتا ہے؟
جواب: ساس محرمات ابدیہ میں سے ہے یعنی بیوی فوت ہوجائے یا اسے طلاق دیدے پھر بھی داماد اپنی ساس سے شادی نہیں کرسکتا ہے۔
سوال(11): ہمارے یہاںسنارسےمستعمل سونا اورچاندی کے لین دین پر تیس فیصد کٹوٹی کی جاتی ہے کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:سونا کا سونے سے اور چاندی کا چاندی سے لین دین پر کمی زیادتی کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ادھاروتاخیر سے معاملہ کرنا جائز ہے ۔ اس معاملہ میں یہ تو طے ہے کہ جس سنار کے پاس جائیں گے وہ پرانا سونا اور چاندی کم ریٹ پر لے گاجوکہ اسلامی اعتبار سے ناجائز شکل ہے اس لئے مستعمل زیورات بدلنے سے بہتر ہے کہ اسےبیچ کر اسی پیسے سے نئے زیورات خرید لئے جائیں، یہ شکل جائز ہوگی ۔یاسونے کے زیورات سے چاندی اور چاندی کے زیورات سے سونا خریدلیں یہ شکل بھی جائز ہےکیونکہ یہاں جنس بدل رہا ہے اس لئے قیمت میں کمی بیشی جائز ہےساتھ ہی یہ بھی دھیان رہے کہ معاملہ نقدی اورفوری طے ہو۔
سوال(12): کیا حالت جنابت و حیض میں قرآن کریم اور دینی کتابوں کی صفائی کرنااور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے ؟
 جواب:افضل صورت  تویہی ہے کہ جو پاک ہووہی قرآن کی صفائی کرے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے تاہم ضرورت کے وقت حیض والی عورت دستانہ لگاکر قرآن چھوسکتی ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ اسے منتقل کرسکتی ہے جیساکہ تلاوت کرنا بھی اس کے لئے جائز ہےلیکن جنبی کا معاملہ الگ ہے ، نبی ﷺ حالت جنابت میں تلاوت نہیں فرماتے ، جب اس حالت میں تلاوت ممنوع ہے تو مصحف چھونا بدرجہ اولی ممنوع ہوگا۔ رہا مسئلہ دینی کتابوں کا تو جنبی ہو یا حائضہ ان کی صفائی ستھرائی کر سکتے ہیں۔
سوال(13): کرائے والی ماں کی کیا حیثیت ہے یعنی کرائے پر کسی عورت کی کوکھ لے کر بچہ پیدا کرنا کیسا ہے؟
جواب: اس کو انگلش میں سروگیٹ مدرہوڈکہاجاتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی کا نطفہ حاصل کرکے اسے مصنوعی طریقہ سے باآور کرکے کسی دوسری عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے گویا ایک عورت کی کوکھ کرایہ پر ہوتی ہے جبکہ اس کوکھ میں نطفہ میاں بیوی کا ہوتا ہے۔ یہ سراسر حرام ہے۔ بعض علماء نے سروگیسی میں جواز کا ایک پہلو نکالاہے کہ ایک شخص کو دو بیویاں ہوں تو ایک بیوی اور شوہر کا نطفہ دوسری بیوی کےرحم میں اس کی اجازت سے رکھا جاسکتا ہےمثلا بانجھ بیوی کا بیضہ اور شوہر کا نطفہ لیکراولادجننے والی بیوی کے رحم میں رکھا جائے یا اولاد جننے والی بیوی کا بیضہ اور شوہرکا نطفہ لیکر بانجھ بیوی کے رحم میں رکھاجائے ۔ حقیقت میں جواز کافتوی غلط ہے اور کسی کے لئے ایک بیوی کا بیضہ دوسری بیوی کے رحم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔اس مسئلہ پہ رابطہ عالم اسلامی کی اسلامک فقہ اکیڈمی کا سیمینا رہوچکاہےجس کا خلاصہ الاسلام سوال وجواب کے فتوی نمبر 23104میں مذکور ہے۔
سوال(14): دنیا میں جس عورت کی کسی وجہ سے شادی نہ ہوسکے اسے آخرت میں کیا ملے گا؟
 جواب: اس بارے میں اہل علم نے لکھا ہے کہ جنت میں اس کی شادی ایسے مرد سے کردی جائے گی جس سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے گی۔
سوال(15): کیا یہ بات صحیح ہے کہ اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روح خود ہی قبض کی؟
 جواب : نہیں ، ایسی کوئی بات کسی نص سے ثابت نہیں ہے ،یہ لوگوں میں غلط مشہور ہے ۔تفسیرروح البیان میں یہ بات بلاسند منقول ہے اس لئےاس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
 سوال(16): عورتوں میں سب سے افضل کون ہے؟
 جواب: شیخ ابن باز سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں علی الاطلاق سب سے افضل کون ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ پانچ عورتوں کو افضلیت حاصل ہے ، وہ ہیں خدیجہ، عائشہ، فاطمہ بنت محمد،آسیہ اور مریم۔ان پانچوں میں حضرت عائشہ کو افضلیت حاصل ہے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ تمام عورتوں میں عائشہ کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوپر۔
سوال(17):ایک جگہ میری بیٹی کا رشتہ لگاہے مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ لڑکا والے نکاح کرکے تین سال تک رخصتی کرنا نہیں چاہتےاوراس بارے میں ایک مولانا نے بتایا کہ نکاح کرکے چھ ماہ تک رخصتی نہ کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے کیا واقعی دین اسلام میں ایسی بات ہے؟
جواب: آپ اپنی بیٹی کا عقد کرلیں اور تین سال بغیر رخصتی کے اپنے گھر رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں ،اس سے نکاح نہیں ختم ہوگا ۔ صحیح بخاری میں ہے سیدہ عائشہ سے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں : أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ تَزَوَّجَهَا وهي بنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وبَنَى بهَا وهي بنْتُ تِسْعِ سِنِينَ(صحيح البخاري:5134) ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ سے نکاح کے تین سال بعد رخصتی کرائی ، یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ نکاح کرکے رخصتی نہ کرانے سے نکاح نہیں ختم ہوتاچاہےنکاح پہ کئی سال گزرجائے۔
سوال(18):حیض کی حالت میں اجر کی نیت سے وضو کرنا یا سونے سے پہلے وضوکرکے سونا کیسا ہے؟
جواب: نبی ﷺ سے کھانے اور سونے سے قبل حالت جنابت میں وضو کرنا ثابت ہے اور اسی طرح بعض اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام حالت جنابت میں وضو کرکے مسجد میں ٹھہرا کرتے تھے ۔ حالت جنابت میں وضو کرنے سے نجاست میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ حیض میں مسلسل خون جاری رہتا ہے اس وجہ سے اس حالت میں وضو کرنے سے نجاست میں خفت کا امکان نہیں ہے بنابریں حیض کی حالت میں وضو کرنا مفید نہیں ہے اور نہ شریعت میں حیض والی کا وضو کرنا ثابت ہے ۔
سوال(19):پیٹ آپریشن کی وجہ سے باربارہمبستری کرنے سے  پیٹ درد کرتا ہے کیا ایسی صورت میں شوہر کا ہاتھ سے منی خارج کرنا جائز ہے جبکہ بیوی نہ بار بار جماع کرنے دے اور نہ ہی دوسری شادی کی اجازت دے ؟
جواب: اللہ تعالی فرماتا ہے تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ۔ اس آیت کا مطلب ہے کہ بیوی سے ہمبستری کرنے میں کوئی بھی طریقہ استعمال کرسکتے ہیں جس سے بیوی کا پیٹ درد نہ کرےلیکن جلق (خودلذتی/مشت زنی)کرنا  جائز نہیں ہے اور دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی بھی  ضرورت نہیں ہے ۔
سوال(20): کیا بیٹی اپنے باپ کے سر کا بوسہ لے سکتی ہے ؟
جواب: جس طرح  باپ اپنی بیٹی کے سر کا بوسہ لے سکتا ہے اسی طرح بیٹی بھی اپنے باپ کے سر کا بوسہ لے سکتی ہے ، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ 

مکمل تحریر >>

Tuesday, December 8, 2020

اعمال صالحہ کی طرف جلدی کرنا

 

اعمال صالحہ کی طرف جلدی کرنا

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ –طائف
نبی نوع آدم کی فطرت میں اللہ تعالی نے عجلت رکھی ہے اس عجلت کا پرتو ہمیں انسانی زندگی میں نظر آتا ہے خصوصا
 کفرومعصیت کے ارتکاب میں جبکہ اللہ تعالی بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ، وہ اہل معصیت کی طرح عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتاکیونکہ وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ اللہ کافرمان ہے:
وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَلْ لَهُمْ مَوْعِدٌ لَنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْئِلًا(الكهف:58)
ترجمہ:تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انہیں جلدی عذاب کردے بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے ۔
عجلت گوکہ فطری امر ہے لیکن یہ کبھی مذموم ہوتی ہے تو کبھی ممدوح ہوتی ہے ۔ گناہوں کے کاموں میں عجلت بہت بری ہے جبکہ اعمال صالحہ کی انجام دہی میں جلدی کرنا مستحسن ہے ۔
یہاں ایک چیز اور قابل ذکر ہے کہ اعمال صالحہ کے تعلق سے بھی بعض امور میں عجلت سے منع کیاگیا ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ نمازجمعہ کے لئے جلدی کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ پنج وقتہ نمازوں کی طرف جلدی جلدی چل کرآنے سے منع کیاگیاہے فرمان نبوی ہے :
إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فلا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ، وأْتُوهَا تَمْشُونَ، عَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ(صحيح البخاري:908)
ترجمہ: جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ (اپنی معمولی رفتار سے) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ۔
اسی طرح نماز کی ادائیگی میں جلدی جلدی کرنے ، امام سے پہلے سر اٹھانےاوردعاکی قبولیت میں جلدی کرنے سے منع کیا گیا ہے حتی کہ ہروہ کام جو حسن ادائیگی سے انجام نہ دیا جائےممنوع ہے۔اس کے ساتھ ہی ہمیں شارع علیہ السلام نے اعمال صالحہ کی انجام دہی میں جلدی کرنے کا حکم دیا ہےجوکہ یہاں میرا مقصودِ بیان ہے۔ یہ اللہ کا حکم ، مومنوں کی ایک عظیم خوبی اور سارے انبیاء کی صفت ہے ۔
اللہ تعالی نیکی کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے : فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ(البقرۃ:148) یعنی تم نیکیوں کی طرف دوڑو۔
اللہ تعالی مومنوں کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (المؤمنون:61)
ترجمہ: یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کررہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں ۔
اللہ تعالی جمیع انبیاء کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ(الانبیاء:90)
ترجمہ: یہ بزرگ لوگ(انبیاء)نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈرخوف سے پکارا کرتے تھے۔
ان چند آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا انبیاء اورمومنوں کی صفت ہے ، یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم بھی ہے اس لئے ہمیں اس صفت کو اپنانا چاہئے ۔ اعمال صالحہ میں جلدی کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کام کو ایک جھٹکے میں تمام کرلیا جائے ، نہیں بلکہ اس کا مقصود یہ ہے کہ کسی بھی بھلائی کو انجام دینے میں تاخیر اور ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے ، اسےبلاتاخیرفوری طورپر انجام دے دیا جائے ۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ تاخیرکرنے سے ممکن ہے کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے اور سوچا ہوا نیک کام ادا نہ ہوسکے ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ آج کے زمانے میں نیکی کرنا مشکل اور برائی انجام دینا سہل ہےکیونکہ گناہوں میں جلدبازی شیطان کی طرف سےہےاور اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے جبکہ نیکی کے راستے میں متعدد رکاوٹیں ہیں ۔ نیک کام سے روکنے کے لئے نفس، شیطان ، برا ماحول، برا ساتھی ، سستی، ضعیفی،بیماری، مشغولیت اور موت گھات میں لگے ہوئے ہیں ۔نبی ﷺ نے پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جاننے کی نصیحت کی ہے۔ بڑھاپے سے پہلےجوانی کو،بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجگی سے پہلے تونگری کو،مشغولیت سے فرصت کواور موت سے پہلے زندگی کو۔ اس لئے اچھا آدمی وہ ہے جو برابرعمل کرتا رہتا ہے اور نیک کام کے کرنے میں جلدی کرتا ہے۔اس تعلق سے چند احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ مزید ہمیں نصیحت ملے اور یہ محرک بن کرہمارے دل کو اس صفت حمیدہ کی طرف ابھارے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ ہمیں فتنہ کے ظہور سے پہلے نیک کام جلدی جلدی کرلینے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ فتنہ ظاہر ہونے کے بعد اعمال صالحہ پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا ۔
بَادِرُوا بالأعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ المُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا(صحيح مسلم:118)
ترجمہ: جلدی جلدی نیک کام کر لو ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے، صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو ایماندار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور اپنے دین کو بیچ ڈالے گا دنیا کے مال کے بدلے۔
ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ نےچھ فتنوں کا ذکر کیا ہے۔
بادِرُوا بالأعْمالِ سِتًّا: الدَّجَّالَ، والدُّخانَ، ودابَّةَ الأرْضِ، وطُلُوعَ الشَّمْسِ مِن مَغْرِبِها، وأَمْرَ العامَّةِ، وخُوَيْصَّةَ أحَدِكُمْ.(صحيح مسلم:2947)
ترجمہ: جلدی کرو نیک اعمال کرنے کی چھ چیزوں سے پہلے، ایک دجال کے نکلنے سے، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور، چوتھے آفتاب کا پچھم سے نکلنا، پانچویں قیامت، چھٹے موت۔
ان احادیث سے ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جائے گا کہ محض فتنے کی آمد سے قبل اعمال صالحہ کی طرف جلدی کی جائے بلکہ یہ حکم عام ہے جیساکہ اوپر کی آیات میں مومنوں کی اور انبیاء کی صفت قراردی گئی ۔اس کا اندازہ نبی ﷺ کے مندرجہ ذیل عمل سے بھی لگاسکتے ہیں ۔عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
صَلَّيْتُ مع النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ العَصْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ سَرِيعًا دَخَلَ علَى بَعْضِ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ ورَأَى ما في وُجُوهِ القَوْمِ مِن تَعَجُّبِهِمْ لِسُرْعَتِهِ، فَقالَ: ذَكَرْتُ وأَنَا في الصَّلَاةِ تِبْرًا عِنْدَنَا، فَكَرِهْتُ أنْ يُمْسِيَ - أوْ يَبِيتَ عِنْدَنَا - فأمَرْتُ بقِسْمَتِهِ(صحيح البخاري:1221)
ترجمہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی بڑی تیزی سے اٹھے اور اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلدی پر اس تعجب و حیرت کو محسوس کیا جو صحابہ کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں مجھے سونے کا ایک ڈلا یاد آ گیا جو ہمارے پاس تقسیم سے باقی رہ گیا تھا۔ مجھے برا معلوم ہوا کہ ہمارے پاس وہ شام تک یا رات تک رہ جائے۔ اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔
اس حدیث سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آپ کے پاس صدقہ کا سامان تھا اس کی تقسیم میں ذرہ برابر بھی یعنی رات بھرکی تاخیربھی کس قدر ناگوار معلوم ہوئی ،جیسے ہی معلوم ہواصدقہ کی چیز گھر میں موجود ہے فورا اس کو تقسیم کرنےکا حکم دے دیا ، اس کام کے لئے آپ نے اذکارصلاۃ بھی ترک کردی حتی کہ لوگوں کے کندھے بھی پھلانگے ۔ کس قدر صدقہ میں آپ نے جلدی دکھائی، یہ ہے نیک عمل میں جلدی کرنے کا مطلب اور اس کا اعلی نمونہ ۔اسی طرح حقوق العباد سے متعلق نبی ﷺکا فرمان ہے:
ما حقُّ امِرئٍ مسلمٍ ، له شيءُ يُوصي فيه ، يَبِيتُ ليلتين إلا ووصيتُه مكتوبةٌ عندَه.(صحيح البخاري:2738)
ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔
اور جنازہ کے بارے میں یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
أَسْرِعُواْ بالجنازةِ ، فإن تَكُ صالحةً فخيرٌ تُقَدِّمُونَهَا ، وإن يَكُ سِوَى ذلكَ ، فشَرٌّ تضعونَهُ عن رقابكم .(صحيح البخاري:1315) ترجمہ:جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔
مذکورہ دونوں احادیث سے خیرکے کام میں جلدی کرنےکی ترغیب ملتی ہے ، پہلی حدیث کے مطابق جلدی کرنے سے حقدار کو حق مل جائے گا گرچہ موصی کی وفات ہوجائےکیونکہ وصیت لکھ لی گئی ہے اور دوسری حدیث کے مطابق میت کو ان کے اعمال صالحہ کا فائدہ جلدی سے قبر میں ملنا شروع ہوجائے گا۔
آپ ﷺ کے پیارے صحابہ سے اعمال خیر میں سبقت اور جلدی کرنے کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں ،خوف طوالت کی وجہ سے یہاں پرمحض دو واقعات کا ذکر کررہا ہوں جس نے میرے دل کو جھنجھوڑا ہے۔
پہلا واقعہ: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
قالَ رَجُلٌ للنبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ أُحُدٍ أرَأَيْتَ إنْ قُتِلْتُ فأيْنَ أنَا؟ قالَ: في الجَنَّةِ فألْقَى تَمَرَاتٍ في يَدِهِ، ثُمَّ قَاتَلَ حتَّى قُتِلَ(صحيح البخاري:4046)
ترجمہ: ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ احد کے موقع پر پوچھا: یا رسول اللہ! اگر میں قتل کر دیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں۔ انہوں نے کھجور پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھی اور لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
سبق:اس واقعہ سے صحابی کا جہاد میں جلدی کرنا، اعلائے کلمۃ اللہ اور رضائے الہی کے لئےاس کی راہ میں جلدی سے شہیدہوجانےكى مثال ہمارے لئے کس قدر سبق آموز ہے،ہاتھ کا معمولی نوالہ کھانے بھر بھی تاخیر نہیں کی۔
دوسرا واقعہ: عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم لوگ تمہاری «فضيخ» (کھجور سے بنائی ہوئی شراب) کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے، یہی جس کا نام تم نے «فضيخ» رکھ رکھا ہے۔
فإنِّي لَقَائِمٌ أسْقِي أبَا طَلْحَةَ، وفُلَانًا وفُلَانًا، إذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقالَ: وهلْ بَلَغَكُمُ الخَبَرُ؟ فَقالوا: وما ذَاكَ؟ قالَ: حُرِّمَتِ الخَمْرُ، قالوا: أهْرِقْ هذِه القِلَالَ يا أنَسُ، قالَ: فَما سَأَلُوا عَنْهَا ولَا رَاجَعُوهَا بَعْدَ خَبَرِ الرَّجُلِ(صحيح البخاري:4617)
ترجمہ: میں کھڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا: تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہا: انس رضی اللہ عنہ اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔
سبق:سبحان اللہ ! اس واقعہ نے تو ایمان تازہ کردیا ، اللہ نے صحابہ کا مقام یونہی بلند نہیں کیا، ان کے اعمال بھی اعلی تھے ۔اللہ کا پیامِ حرمت سنتے ہی شراب بہادئے، ذرہ برابر بھی کسی نے نہ ترددکیا ،نہ تاخیر کی اورنہ ہی ایک قطرہ حلق سے نیچے اتارا۔
ان باتوں کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر جلدبازی ہے مگر دنیا کمانے میں اور گناہ کا کام کرنے میں ،بھلائی کے کاموں میں جلدی نہیں ہے۔اللہ تعالی نے جابجا مختلف عملوں کا بڑا بڑا اجر بتلایاہے اور عظیم انعامات کا وعدہ کیا ہے مگر ان کی طرف دل راغب نہیں ہوتااوراگردنیا کی بات کی جائےمثلاکہاجائے کہ جو فلاں جگہ اورفلاںوقت پر حاضر ہوگا اس کوایک ایک لاکھ روپیہ ملے گاچنانچہ اس خبرکوسننےوالاہرکوئی وقت پرروپیہ لینے اس جگہ حاضرہوجائےگا ۔اس بات کا صاف مطلب ہے کہ ہمارا ایمان بہت کمزور ہے اس کی اصلاح اورقوت دینے کی ضرورت ہے۔ آئیے آج سے عزم کرتے ہیں کہ اپنے ایمان کی اصلاح کریں گے اور انبیاء وصالحین کی مذکورہ خوبی کو اپنے اندر پیدا کریں گے ۔ان شاء اللہ

مکمل تحریر >>

Sunday, November 15, 2020

سوشل میڈیا پر عورتوں کا علمائے کرام سے سوال کرنا

 سوشل میڈیا پر عورتوں کا علمائے کرام سے سوال کرنا 

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ – طائف

سائنسی ترقیات کی وجہ سے علمی شعبوں میں بھی بیحدترقی ہوئی ہے ،علم گویاکٹورے میں سما گیا ، اس علمی ترقی نے مسافت کو بے معنی کردینے کے ساتھ ایک جگہ بیٹھے دنیاکے کسی کونے سے رابطہ کرنااور کچھ بھی استفادہ کرناآسان سے آسان تربنادیا ہے ۔ سوشل میڈیا جس کے مختلف پلیٹ فارمزجیسے فیس بک، واٹس ایپ، ٹیلی گرام، انسٹاگرام، یوٹیوب، ٹویٹر وغیرہ ہیں ان عوامی پلیٹ فارمز سے اکثر وبیشترمردوخاتون جڑے ہوئے ہیں اور اپنے ذوق وشوق کے اعتبار سے ان کا استعمال کرتے ہیں ۔ شرعی اعتبار سے ایک سوال کیا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز سے کیا خواتین علمائے کرام سے شرعی مسئلہ پوچھ سکتی ہیں ؟درحقیقت اپنے آپ میں یہ ایک اہم سوال ہے اور سوشل میڈیا سے جڑی خواتین کو جاننے کی اشدضرورت بھی ہے ، اس کاجواب جاننے سے پہلے چند ایک بات واضح ہوجائے ۔
پہلی چیز یہ ہے کہ انسانی سماج کی تکمیل مردوعورت دونوں سے مل کر ہوتی ہے اور ہمیشہ سے کارگہ حیات میں سماجی اور علمی کاموں میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی رہی ہیں اس لئے سوشل میڈیا جوکہ سماج کی طرح ہے اس کو عورتوں سے الگ کرکے ہم نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا یعنی عوامی پلیٹ فارم یہ صرف مردوں کے لئے خاص نہیں ہے ، عورتوں کے لئے بھی ہے اور عورتیں یہاں ان سارے عوامی فارمز پر موجود ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ عورتیں فیس بک ، واٹس ایپ، یوٹیوب اور ٹویٹر وغیر استعمال کرکے ان سے ہرطرح کا کام لے ہی رہی ہیں تو کیوں نہ ان کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم دیں یعنی ہم ان کو ان پہلوؤں سے آشنا کریں جن سے علمی فائدہ ہو۔ علمی فوائد میں ایک فائدہ علمائے کرام سے دین سیکھنا اور کتاب وسنت کی روشنی میں ان سے شرعی مسئلہ جاننا ہے ۔
سوشل میڈیا اور فتنہ :
سوشل میڈیا کے فوائد کے ساتھ ہمیں ہمیشہ  اس بات کا احساس رہنا چاہئے کہ اس جگہ جہاں بہت سارے فوائد ہیں وہیں قسم قسم کے فتنے بھی ہیں ، یہ فتنے عورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ مردوزن سب کے لئے یکساں عام ہیں ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اگر سوشل میڈیا سے عورتیں چلی جائیں تو اس کے فتنے ختم ہوجائیں گے۔ ایسی بات نہیں ہے ۔ میرے مضمون کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ میں عورتوں کوکثرت سے سوشل میڈیا استعمال کرنے اور فتنہ میں جھوکنے کی کوشش کررہا ہوں بلکہ میری کوشش ہے کہ جو عورتیں پہلےسےسوشل میڈیا سے جڑی ہیں ان کو اس کے مثبت استعمال کی طرف دعوت دوں ۔ مرد حضرات اور سوشل میڈیا سے جڑے علماء خودکو اتنا پارسا نہ سمجھیں کہ اس جگے کے فتنے کی انہیں ہوا نہیں لگتی ہے یا نہیں لگے گی،انہیں بھی محتاط رہنا ہے ۔
سوشل میڈیا پہ عورتوں کا علمائے کرام سے سوال کرنا:
اب آتے ہیں اصل سوال اور سوشل میڈیا سے جڑی خواتین کے لئے اس کے مثبت استعمال اور علمی فائدہ کی طرف ۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہاں خواتین پہلے سے موجود ہیں اور اپنے ذوق وشوق کا کام کرہی رہی ہیں ایسے میں ہم انہیں کہیں گے کہ اس کا استعمال دین سیکھنے کے لئےکریں ، قرآن کا ترجمہ وتفسیر، حدیث کی تعلیم اور فقہی مسائل واحکام جانیں اور دوسروں میں شیئر بھی کریں ۔ ایسی خواتین کو بہت ساری جگہوں پرمختلف اجمال کی تفصیل، آیت وحدیث کا مفہوم اور پیش آمدہ مسائل یا دوسروں کے پوچھے گئے سوالات جاننے کی ضرورت پڑے گی ایسے میں وہ کیا کریں اور کہاں جائیں ؟ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے ۔
علماء سے سوال پوچھنے کی ضرورت وفوائد:
ہمیں معلوم ہے کہ خواتین میں معلمات کی کمی ہے ، محدود عورتیں ہی اچھی تعلیم یافتہ ہوں گی اور پھر ان محدود عورتوں سے سوشل میڈیا پر استفادہ سب عورتوں کے لئے مشکل ترین ہے ،مزید برآں عورتوں کے پاس گھریلو کام کی وجہ سے وقت کی قلت بھی ہے۔ تھوڑا بہت بعض معلمات سے استفادہ ہوسکتا ہے جو سوشل میڈیا سے جڑ کرکچھ کام کرسکیں ۔ ان باتوں سےصاف ظاہر ہے کہ عورتوں کو دینی احکام ومسائل جاننے کے لئے مرد علماء کی ضرورت ہے اور الحمد للہ اس میدان میں بہت سارے علماء، مردوں کے ساتھ خواتین میں بھی قابل قدردینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔نتیجتاً عورتوں میں دینی وعملی بیداری، عقائد واعما ل کی اصلاح، رسم ورواج کی بیخ کنی، شرکت وبدعت کا ازالہ اور توحید وسنت کو غلغلہ نظر آتا ہے ۔ سماج میں تعلیم نسواں کی کمی کے باعث اس پلیٹ فارم سے عمردرازی سے بے پرواہ ہوکربہت ساری معمرخواتین صحیح علم سے روشناس ہورہی ہیں۔میرے علم میں متعدد بار ایسے واقعات آئے جہاں کسی عورت نے تقلید سے تو کسی نے شرک وبدعت سے توبہ کیا اور وہ اپنے گھر میں اکیلی موحدہ بن کر رہ رہی ہے ، گھر والے تکلیف دیتے ہیں تاکہ وہ پلٹ کر سابقہ راستے پر آجائے مگر وہ ڈٹی رہی ۔ کتنے گھرانوں میں بیوی کی اصلاح سے شوہر اور اولاد کی بھی اصلاح ہوئی ۔ ایک دیوبندی گھر انے میں طلاق ثلاثہ کے بعد تین سال تک بیٹھی لڑکی کو بغیر حلالہ کے پھر سے اسی شوہر سےمیں نے نکاح پڑھوایا اور یہ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہوا اس واقعہ کی تفصیل میرے بلاگ پر موجود ہے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں فوائد گناہوں تو کئی صفحات چاہئے مگر یہ اس کے ذکرکامقام نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پہ سوال کرنے کی نوعیت اور اس کا شرعی حکم :
{۱}سوشل میڈیا پہ علماء سے عورتوں کے لئے سوال کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ موبائل یا کسی میسنجر کے ذریعہ براہ راست کال کرکے دینی مسئلہ پوچھے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، جس طرح ایک عورت علماء سے ملاقات کرکےان سے مسئلہ پوچھ سکتی ہے اسی طرح کال کرکے براہ راست بھی کوئی مسئلہ پوچھ سکتی ہے ۔ اللہ تعالی نے سورہ احزاب آیت نمبر53 میں مردوں کو حکم دیا ہے کہ جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کروتو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ اسی طرح عہد رسول میں صحابیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور سوال پوچھا کرتی تھیں ، احادیث میں بکثرت اس کی دلیلیں مل جائیں گی ، بطور نمونہ چند دلائل یہاں ذکر کرتا ہوں جن میں صحابیات کے سوال ہوں گے جواب رسول کو اختصار کی وجہ سے حذف کردیا ہوں ۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عَنِ الحَيْضِ، كيفَ تَغْتَسِلُ منه؟(صحيح البخاري:7357)
ترجمہ: ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے متعلق پوچھا کہ اس سے غسل کس طرح کیا جائے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
سألتِ امرأةٌ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قالت إنِّي أستحاضُ فلا أطهرُ أفأدعُ الصَّلاةَ(صحيح ابن ماجه:512)
ترجمہ: ایک عورت نبی سے سوال کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے جس سے میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتی ہیں:
سَأَلَتِ امْرَأَةٌ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقالَتْ: يا رَسولَ اللَّهِ، إنَّ ابْنَتي أصابَتْها الحَصْبَةُ، فامَّرَقَ شَعَرُها، وإنِّي زَوَّجْتُها، أفَأَصِلُ فِيهِ؟(صحيح البخاري:5941)
ترجمہ: ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میری لڑکی کو خسرے کا بخار ہو گیا اور اس سے اس کے بال جھڑ گئے۔ میں اس کی شادی بھی کر چکی ہوں تو کیا اس کے مصنوعی بال لگا دوں؟
عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں:
كانَ رِدفَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ غَداةَ النَّحرِ، فأتَتهُ امرأةٌ من خَثعَمَ، فقالَت: يا رسولَ اللَّهِ إنَّ فريضةَ اللَّهِ في الحجِّ على عبادِهِ، أدرَكَت أبي شيخًا كبيرًا، لا يستطيعُ أن يَركبَ، أفأحجُّ عنهُ؟(صحيح ابن ماجه:2368)
ترجمہ:وہ یوم النحر کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کے بندوں پر عائد کیے ہوئے فریضہ حج نے میرے والد کو بڑھاپے میں پایا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی سکت نہیں رکھتے، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر لوں؟
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن أمًّ سُليمٍ سألت رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عن المرأةِ ترى في منامِها ما يرى الرجلُ؟(صحيح ابن ماجه:491)
ترجمہ: ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ عورت اپنے خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے؟
یہ ساری احادیث اور احادیث کی وہ ساری اسناد جن میں خاتون، مرد راوی سے بیان کرتی ہےوہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ ایک عورت بلاشک وشبہ مرد سے علم حاصل کرسکتی ہے اور مسائل پوچھ سکتی ہے ۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ کام علماء نے بھی انجام دیا اور جب سے جدیدوسائل کی فراہمی اور موبائل کی ایجاد ہوئی اور کسی عالم سے خاتون نے کال پر سوال کیا انہوں نے اسے جواب دیا ، کسی عالم دین کا یہ فتوی نہیں ہے کہ کال پہ کسی عورت کا دینی سوال کرنا جائز نہیں ہے ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ فون کے ذریعہ عورت کا اجنبی مرد سے بات کرنا کیسا ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ فون کے ذریعہ عورت کا مرد سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی شرعی مصلحت یا مباح کام ہو جیسے علمی سوال کرنا یا کسی مریض اور اس کی صحت کے بارے میں سوال کرنایا کسی اہم چیز کے بارے میں تو کوئی بات نہیں ہے۔ (شیخ کی ویب سائٹ سے)
زندگی کے سیکڑوں مسائل ہیں جہاں عورتوں کو مردوں سے بات کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جیساکہ میں نے اوپر ذکرکیا عورت بھی سماج کا ایک عنصر ہےبلکہ بعض ایسی ضروریات ہیں جہاں انہیں ہی بولنے کی ضرورت مثلا مرد سے علاج کے وقت اور جب کوئی محرم نہ ہو یا محرم پاس نہ رہتا ہو تب سارے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں جبکہ دینی علوم کی ضرورت اور شرعی احکام جاننے کامعاملہ دنیاوی تمام کاموں میں سب سے اہم ہے  ۔ ہمیں شرعی طور پر دیکھنا یہ ہے کہ جب عورت مرد سے بات کرے تو شرعی طور پر کن باتوں کا لحاظ کرےجن کی تفصیل آئے گی ، بس یہی امر مطلوب ہے ۔
{۲}سوشل میڈیا پر سوال پوچھنے کا ایک ذریعہ فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر چینلوں پر انفرادی طوپرتحریری شکل میں ہوتا ہے ۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ کوئی عورت کسی عالم دین سے انفرادی اور پرائیویٹ طور پر کسی شرعی مسئلے کے بارے میں دریافت کرے ، یہ شکل بھی اسی طرح جائز ہے جیساکہ اوپردلائل کی روشنی میں فون کال کا جواز فراہم کیا گیا ہے ، شرعی طور پر یہاں بھی یہی  دیکھنا ہے کہ جب عورت مرد سے بات کرے تو شرعی طور پر کن باتوں کا لحاظ کرے۔
{۳}سوشل میڈیا پر عورتیں گروپ کی شکل میں سوال کرسکتی ہیں ، یہ بھی سوال پوچھنے کی ایک نوعیت ہے اور استفادے کے اعتبارسے بہت ہی اہم و قدرے محفوظ ذریعہ ہے ۔ گروپ کی شکل عموما سوشل میڈیا کے اکثر فارمز پر دستیاب ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں جولوگ یاعلماء فیس سے جڑے ہیں ان کے ساتھ اپنی آئی ڈی یا فیس گروپس میں ، اسی طرح ٹیلی گرام، واٹس ایپ، ویب فورمز اورٹویٹروغیرہ پر اجتماعی شکل میں خواتین بھی موجود ہوتی ہیں ، وہاں ایک دوسرے کے کمنٹ اور تبصرے مردوزن سب کے لئے عیاں ہوتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ واٹس ایپ  پرگروپ کی شکل میں عورتوں کو ایک جگہ جمع کرکے علماء کے ذریعہ ان کی رہنمائی کرنا سوشل میڈیا کی عظیم خدمت ہے کیونکہ ہم عورتوں کو دین وعقیدہ سے لیس کرکے ان کے گھروں کی اصلاح کرسکتے ہیں اور الحمدللہ یہ اصلاحی کام ہوبھی رہا ہے ۔
کچھ لوگوں کو شایدلگے کہ شرعی اعتبار سے عورتوں کو کسی گروپ میں جمع کرنا غلط ہے مگر ایسا کرنا غلط نہیں ہے شرعا جائز ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں عورتوں کو انفرادی تعلیم دی ہے وہاں اجتماعی شکل میں بھی تعلیم دی ہے ۔ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
خَرَجَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في أضْحًى أوْ فِطْرٍ إلى المُصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَوَعَظَ النَّاسَ، وأَمَرَهُمْ بالصَّدَقَةِ، فَقَالَ: أيُّها النَّاسُ، تَصَدَّقُوا، فَمَرَّ علَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: يا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فإنِّي رَأَيْتُكُنَّ أكْثَرَ أهْلِ النَّارِ(صحيح البخاري:1462)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا: لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔
عن أم هشام بنت حارثة بن النعمان: وما أخذت (ق والقرآن المجيد) إلا عن لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها كل يوم جمعة على المنبر إذا خطب الناس.(صحیح مسلم : 873)
ترجمہ :سیدہ اُم ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورۂ ق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے (سن کر) ہی تو یاد کی تھی، آپ اسے ہر جمعہ کے دن منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
یہ دونوں احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بھی جماعت کی شکل میں تعلیم دی ہے اور عورتیں بھی اجتماعی شکل میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر رہی ہیں ۔
علمائے کرام نے بھی ہردور میں عورتوں کی دینی تعلیم کے لئے دروس ومحاضرات اور اجتماعات منعقد کرائے اور بطور خاص نسواں تعلیمی ادارےقائم کئے ، صرف ہندوستان کی بات کی جائے تو نسواں ادارے سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گے ،ان کے سرپرست ونگراں مرد ہیں اور ان اداروں میں تعلیم دینے پرصرف خواتین ہی مامور نہیں ہیں بلکہ علماء کی ایک جماعت بھی مامور ہوتی ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بہت سارے علماء آن لائن دروس اور دینی پروگرام چلا رہے ہیں جن سے خواتین بھی فائدہ اٹھارہی ہیں ۔ اس طرح گروپ کی شکل میں تعلیم حاصل کرنا یا دین کے بارے میں سوال کرنا کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
خلوت کا مفہوم سوشل میڈیا کے تناظر میں :
اس مضمون کے توسط سے سوشل میڈیا کے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ بتادوں جسے اکثر لوگوں کو سمجھنے میں غلطی ہوتی ہے اورپھرایک جائز مسئلہ کو عدم جواز کی طرح پیش کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :ألا لا يخلوَنَّ رجلٌ بامرأةٍ إلَّا كانَ ثالثَهما الشَّيطانُ(صحيح الترمذي:2165)
ترجمہ:خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد کو اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنے سے منع کیا ہے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک عورت کا کسی عالم سے فون پر مسئلہ دریافت کرنا یا تحریری شکل میں واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعہ پرائیویٹ میں سوال کرنا اس خلوت میں داخل ہے جس کی ممانعت اوپر والی حدیث میں وارد ہے؟ خلوت سے واقعتاًکیا مراد ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پرائیویٹ کال یا پرائیویٹ میسیج اس ممنوع خلوت کو شامل نہیں ہے ، اس کو ایک دوسرے شرعی مسئلےکے حوالے سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک لڑکے نے نکاح کیا، ابھی لڑکی کی رخصتی نہیں ہوئی،وہ لڑکا اپنی بیوی سے فون پر اکیلے میں بات کرتا ہے کیا اس بات کرنے کی وجہ سے لڑکی کوخلوت  حاصل ہوگئی، کیا اس پر خلوت کے احکام مرتب ہوں گے؟ہرگز نہیں۔اس مثال سےآپ سمجھ سکتے ہیں کہ حدیث میں مذکور خلوت سے مراد جسمانی خلوت ہے یعنی ایک عورت کا اجنبی مرد کے پاس بغیرآڑ کے جسم کے اعتبار سے موجود ہونا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وجودی خلوت سے شیطان فائدہ اٹھاکر اور ان کے دل میں شہوانی وسوسہ پیداکرکے زنا یا مقدمات زنا بوس وکنارتک پہنچا سکتا ہے اس لئے اسلام نے جسمانی خلوت پر پابندی لگاکر زنا کا دروازہ بند کردیاجیساکہ دوسری جگہ فرمان الہی ہے تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سوشل میڈیا پر اکیلے میں ضروری اور مباح کلام کرنا ممنوع خلوت میں داخل نہیں ہے اس کے باوجود یہ پلیٹ فارم شر وفتنہ سے محفوظ نہ ہونے کے باعث گفتگو میں شرعی حدود اور احتیاط کولازم پکڑنا ازحدضروری ہے۔
سوشل میڈیا پر عورتوں کا علماء سے سوال کرنے کے آداب :
٭سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پہ کسی سے بھی بات کرتے ہوئے عورتوں کو اپنی تصویر، گھریلو معاملات اور شخصی معلومات شیئر نہیں کرنی چاہئے ، مختصر تعارف کے طورپرکنیت استعمال کی جاسکتی ہے ۔
٭پوری طرح کوشش کریں کہ علماء سے تحریری شکل میں سوال کریں، تحریر بھی مختصر اور ضرورت کے مطابق ہو ۔ ضروری بات کے علاوہ اور کسی قسم کی بات نہ لکھی جائے۔
٭ کبھی کسی عورت کوایسا مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے جسے لکھنا مشکل ہے یا کسی عورت کو لکھناہی نہیں آتاہو ایسی صورت میں وہ کم سے کم الفاظ میں اپنی آواز رکارڈ کرکے سوال پوچھ سکتی ہے ۔ اسی طرح فون اور میسنجر پر علماء سے رابطہ کرکے بھی عورت سوال کرسکتی ہے۔
چونکہ عورت بھی سماج کا ایک عنصر ہے اور اس کو بھی مختلف حالات میں مردوں سے ہم کلام ہونے کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اسلام نے عورتوں کی آواز کا پردہ نہیں رکھا ہے تاہم جنس مخالف سے بات کرنے کے آداب سکھائے ہیں جس کا ذکر سورہ احزاب میں ہے :
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا (الأحزاب:32)
ترجمہ:اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت بالقصد اپنی آوازمیں لچک ،تصنع اور لطافت پیدا نہ کرے بلکہ فطری آواز یا روکھے پن سے بات کرے ۔
٭نامعلوم اور کم علم لوگوں سے نہ دین سیکھیں اور نہ ہی دین کے بارے میں سوال کریں،یاد رہے علم اسی عالم سے لیں جو علم اور تقوی میں معروف ہو۔
آخر میں چند احتیاطی تدابیر:
علماء حضرات جس طرح خود کو سوشل میڈیا کے فتنے سے محفوظ رکھتے ہوئے اس کا مثبت استعمال کرتے ہیں اسی طرح جنس مخالف کو بھی اس کےمفاسد سے آگاہ کرتے ہوئے مثبت استعمال کی دعوت دیں گے اور مثبت پہلوؤں سےانہیں علمی فائدہ بھی پہنچائیں گے ۔ سوشل میڈیا کو مداخل شیطان کر عورتوں کو اس کے مثبت استعمال سے روکنا بھلائی نہیں ہے کیونکہ یہ جگہ مردوں کے لئےبھی  فتنے کا سبب ہے۔میری نظر میں سوشل میڈیا کے  استعمال کی جائز صورت جس مردوں کے لئےہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے اور اس وقت تو گھر، سماج اور دنیا کی کوئی جگہ فتنے سے خالی نہیں ہے ایسے میں گھرچھوڑنےیا سماج ودنیا چھوڑنے کی بات کرنا نادانی ہوگی ۔
یہ بات بھی یقینی ہے کہ مردوں سے زیادہ فتنے کا خطرہ عورتوں کے لئے ہے ایسے میں عورتوں کوسوشل میڈیا کا استعمال کم سے کم اور بقدر ضرورت علمی فائدے کے لئے ہونا چاہئے ۔سوشل میڈیا کے استعمال کے وقت اللہ کا خوف دل میں رکھے، یہاں کے فتنے اور آزمائشوں سے آگاہ رہے تاکہ ان سے بچ سکے ۔ کسی انجان سے دوستی ، بلاجانے کسی گروپ میں شمولیت اور کسی سے بھی غیرضروری بات خطرات پیداکرسکتے ہیں ،اس لئے ان معاملوں میں حددرجہ محتاط رہے ۔سوشل میڈیا کے تمام فارمز پر بلاک کرنے کا اختیارموجود ہے جب بھی کہیں پر کسی سے کوئی خطرہ ہو اسے بلاک کر کے خطرے سے محفوظ ہوجائیں ۔
مکمل تحریر >>

Monday, November 9, 2020

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-21)

 

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-21)
 
جواب از مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرمسرہ –طائف
 
سوال(1): کیا عورت اپنے ہار میں کعبہ کی تصویر لگاسکتی ہے اور ایسا ہار لگاکر حمام جا سکتی ہے ؟
جواب: کعبہ مسلمانوں کا قبلہ اوربہت ہی مقدس جگہ ہے ،اس کی جانب تھوکنے سے بھی ہمیں منع کیا گیا ہے اور استنجاکے وقت پیٹھ یا چہرہ کرنا بھی منع ہے اس لئے ایسی مقدس چیز کو گلے میں لگاکر عورت حمام نہیں جاسکتی ہےبلکہ اسے اپنے ہار میں کعبہ کی تصویر ہی نہیں لگانی چاہئے تاکہ اللہ کے عظیم گھر کا تقدس نہ پائمال نہ ہو۔یہاں یہ بھی یاد رہے کعبہ کی تصویر سے برکت حاصل کرنا جائز نہیں ہے ۔
سوال(2): کیا عورت آوازکے ساتھ مختلف قسم کے کھانوں کی ویڈیوزبناکر یوٹیوب پر ڈال سکتی ہے ،اس میں ہاتھ کی بھی تصویر آئے گی مگر اس پردستانہ لگاہوگا،واضح رہے یوٹیوب پرویڈیوزڈالنے کا مقصد کمائی کرنا ہے۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت کی آوازباعث فتنہ ہے اس لئے عورت کو اپنی آواز کی حفاظت کرنی چاہئے، دوسری بات یہ ہے کہ یوٹیوب پر لاکھوں کی تعداد میں ہر قسم کے کھانوں کی ویڈیوز پہلے سےموجود ہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ مزید لوڈہورہی ہیں ایسے میں یہ کام بلاضرورت اور فضول ہے ، تیسری بات یہ ہے کہ یوٹیوب کے ذریعہ حلال پیسے کمانا بہت مشکل ہے کیونکہ یہاں پر پیسے گوگل کے پرچار سے ملتے ہیں اور یہودی میڈیا کا پرچارجھوٹ، فریب، جوا، سود، موسیقی اور فحش وحرام چیزوں سے پاک ہو ناممکن  نہیں ہے۔یوٹیوب کی کمائی پر میرامفصل مضمون ہے اسے پڑھنا مفید ہوگا۔ خلاصہ یہ ہواکہ عورت کا کھانا بنانے کی ویڈیوزبناناایک فضول کام ہے ، اس میں اپنی آوازڈالنا بھی فتنہ کا سبب ہے ، لوگ حسن  صوت اورکیفیت پہ تعریفی کمنٹ کریں گے پھر اس کے ذریعہ حلال پیسہ کمانا بھی مشکل ہے اس لئے یہ کام نہ کیا جائے اس سے بہتر ہے قرآن وحدیث کا تحریری اسکرین لگاکر دین کی خدمت کریں سوال(3): کیا مسورکی دال میں ستر انبیاء کی برکات شامل ہیں؟
جواب:نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ طبرانی میں ایک حدیث ہے ،وائلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عليكُم بالقَرعِ فإنَّهُ يزيدُ بالدِّماغِ ، عليكُم بالعدَسِ فإنَّهُ قُدِّسَ علَى لسانِ سبعينَ نبيًّا۔
ترجمہ: کدو کو لازم پکڑو اس لئے کہ یہ دماغ کو بڑھاتا ہے اوردال کو لازم پکڑو کیونکہ اسے ستر انبیاءکی زبان پر لگنے کا شرف حاصل رہا ہے۔
یہ موضوع اور من گھرنت حدیث ہے ۔ دیکھیں :(السلسلة الضعيفة:510)
سوال(4): میں نے کبھی ابرو نہیں بنایامگر شادی کے موقع پر بناؤسنگار دیکھاجاتا ہے کیا ہم اس دن ابروبناسکتے ہیں؟
جواب: اللہ تعالی نے آپ کو شادی کی توفیق دی اوراس موقع پر صحت وتندرستی برقرار رکھی یہ اس کی بڑی توفیق ہے ایسے موقع سے رب کا شکریہ بجالانا چاہئے اور گناہوں کے کام سے بچنا چاہئے ۔ آپ نے کہا کہ میں نے زندگی میں کبھی ابرو نہیں بنائی مگر شادی کے موقع سے لوگوں اور شوہرکے واسطے بناسکتی ہوں تومیں آپ سے کہوں گا کہ یہ بھی آپ پر اللہ کا احسان ہے کہ ابھی تک ابروبناکر گنہگار نہیں ہوئیں جبکہ کتنی خواتین باربار یہ گناہ کرتی ہیں ،آپ آج بھی ابرونہ بناکر اس گناہ سے بچ جائیں ،ہوسکتا ہے یہی چھوٹی نیکی اللہ کو بہت پسند آجائے اوروہ آپ کی ازدواجی زندگی کو سنوار دے ۔ اس موقع پر ایک حدیث سےآپ بھی اور دوسری خواتیں بھی نصیحت حاصل کریں۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إلى النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَتْ: يا رَسولَ اللهِ، إنَّ لي ابْنَةً عُرَيِّسًا أَصَابَتْهَا حَصْبَةٌ فَتَمَرَّقَ شَعْرُهَا أَفَأَصِلُهُ، فَقالَ: لَعَنَ اللَّهُ الوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ. وفي روايةٍ : فَتَمَرَّطَ شَعْرُهَا(صحيح مسلم:5565) ‏‏‏‏
ترجمہ:ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میری بیٹی دلہن ہے اور اس کے چیچک نکلی ہے بال گر گئے ہیں۔ کیا میں جوڑ لگا دوں اس کے بالوں میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لعنت کی اللہ نے جوڑ لگانے والی اور لگوانے والی پر۔
ذرا غورکریں جس دلہن کے سرپہ بال نہ ہو وہ کتنی تکلیف میں ہوگی مگر رسول اللہ ﷺ نے اس تکلیف میں بھی مصنوعی بال لگانے سے منع کیا ، اس لئے آپ ابرو بنانے سے بچیں کیونکہ اللہ کے رسول نے ابرو کے بال بنانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ زینت کے بہت سارے حلال طریقے ہیں انہیں اپنائیں۔
سوال(5): کیا حیض والی عورت رقیہ کرسکتی ہے یا جو حالت حیض میں ہو اس پر رقیہ کیا جاسکتا ہے ؟
جواب: ہاں ، حیض والی عورت رقیہ کرسکتی ہے اور جس کو حیض آیا ہو اس عورت پر بھی رقیہ کیا جاسکتا ہے ۔ حالت حیض میں ذکر واذکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(6): بانجھ عورت سے شادی کرنا کیسا ہے ؟
جواب: بانجھ عورت سے شادی کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایاہے ، معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، فقالَ : إنِّي أصَبتُ امرأةً ذاتَ حسبٍ وجمالٍ ، وإنَّها لا تلِدُ ، أفأتزوَّجُها ، قالَ : لا ثمَّ أتاهُ الثَّانيةَ فنَهاهُ ، ثمَّ أتاهُ الثَّالثةَ ، فقالَ : تزوَّجوا الوَدودَ الولودَ فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأُممَ(صحيح أبي داود:2050)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: مجھے ایک عورت ملی ہے جو اچھے خاندان والی ہے، خوبصورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر وہ آپ کے پاس دوسری بار آیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع فرمایا، پھر تیسری بار آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خوب محبت کرنے والی اور خوب جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ (بروز قیامت) میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔
اس لئے افضل یہی ہے کہ بچہ پیداکرنے والی عورت سے شادی کی جائے تاکہ جنسی خواہش کی تکمیل اور شرمگاہ کی حفاظت کے ساتھ اولاد کی نعمت بھی میسر ہو تاہم بانجھ سے بھی شادی کی جاسکتی ہے۔
سوال(7): کیا عورت مونچھ کے بال نکال سکتی ہے ؟
جواب:اگر عورت کو مونجھ کے بال نکل آئے تو اس کو صاف کر سکتی ہے۔
سوال(8): کیا عورت ہاتھ اور پیر کی ویکس کراسکتی ہے؟
جواب: جسم میں بالوں کی تین اقسام بنتی ہیں ایک قسم وہ ہے جس کو زائل کرنے کا حکم ہے مثلا بغل اور زیرناف، دوسری قسم وہ ہے جس کو زائل کرنا منع ہے مثلا ابرو اور داڑھی اور تیسری قسم وہ ہے جس کو زائل کرنے اور نہ کرنے کے متعلق شریعت خاموش ہےاس قسم کے مسائل کے متعلق نبی ﷺ کا یہ حکم ملتا ہے۔ الحلالُ ما أحلَّ اللَّهُ في كتابِهِ والحرامُ ما حرَّمَ اللَّهُ في كتابِهِ وما سَكتَ عنْهُ فَهوَ مِمَّا عفى عنْهُ(صحيح الترمذي:1726)
ترجمہ: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا، اور حرا م وہ ہے ، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا اورجس چیزکے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کردیاہے۔
لہذا جسم کے اس حصے کا بال جس کے متعلق شریعت خاموش ہے مرد وعورت کاٹ سکتے ہیں۔
سوال(9): چھوٹی بچی کب سے پردہ کرنا شروع کرے گی ؟
جواب: کوئی بھی لڑکی بلوغت (حیض واحتلام)کے بعد ہی شریعت کا مکلف ہوتی ہے اس لئے پردہ بھی بالغ ہونے کے بعد ہی فرض ہوتا ہے تاہم اسلامی آداب وتربیت کے تحت بچپن سےاپنی بچیوں کو پردہ کرنا سکھانا چاہئے اس سے بچی میں حیا بڑھتی ہے اور آئندہ پردہ کرنے میں آسانی رہتی ہے ۔ سوال(10): کیا عورت عدت وفات میں بیمار ماں کی زیارت کرسکتی ہے اور بطورخدمت چند دن وہاں ٹھہر سکتی ہے؟
جواب:عدت وفات میں عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے گھر میں باقی رہے اور گھر سےکہیں باہر بغیر شدید ضرورت کے نہ نکلے ۔ معتدہ اپنی بیماروالدہ کی زیارت کے لئے بھی گھر سے نہیں نکلے گی سوائے اس کے کہ اس کی ماں کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو تو وہاں جاکر خدمت کرسکتی ہے اور ضرورت ختم ہوتے ہی اپنے گھرلوٹ جائے گی ۔
سوال(11) کیا میرے لئے بھانجے اور بھتیجے محرم ہیں یا ان سے پردہ کرنا ہے؟
جواب :سگابھانجہ اور سگا بھتیجا محرم میں داخل ہیں اس لئے ان سے پردہ نہیں ہے۔
سوال(12): آجکل پھلوں والے حقے پائے جاتے ہیں جن میں نشہ نہیں ہوتا ایسے حقوں کا کیا حکم ہے ؟
جواب: حقہ حقہ ہی ہوتا ہے ، چاہے پھل اور پھول والا ہو یا کوئی اور؟ اس میں بھی نشہ کی کچھ مقدار ملائی جاتی ہے ، نشہ کچھ بھی نہ ہو تب بھی اس سے خارج ہونے والا دھواں طبی رپورٹ کے مطابق جسم وصحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ اور طویل المیعاد ہوتاہے بلکہ حقہ کو سگریٹ سے زیادہ ہلاکت خیز مانا جاتاہے۔ اس کی بدبو اپنی جگہ ۔ اسلام نے ہمیں جسم کو نقصان پہنچانے والی چیزوں کو استعمال کرنے سے منع کیا ہے اس لئے حقہ کا استعمال نہ کریں خواہ نشہ آور ہو یا خوشبودار وذائقہ دار۔
سوال(13): کیا بوڑھی عورت بھی عدت وفات گزارے گی ؟
جواب : ہاں ، اسلام نے کسی بھی عورت کو عدت وفات سے مستثنی نہیں کیاہے ، ہر قسم کی عورت اپنے شوہر کی وفات پہ چار ماہ اور دس دن عدت گزارے گی جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
سوال(14): کیا عورت کے لئے بھی کسی سےبیعت لینا ضروری ہے؟
جواب : چونکہ حنفیوں اور دیوبندیوں کے یہاں مردوں کی طرح عورتوں کی بھی بیعت ہوتی ہے اس لئے عوام کی طرف سے یہ سوال آتا ہے کہ کیا عورتوں کو بھی بیعت لینا ضروری ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے ملکوں میں پیروں اور مرشدوں کے نام پر جو بیعت لی جاتی ہے وہ صوفیوں کا طریقہ ہے اوریہ دین میں نئی ایجاد ہے جسے بدعت کہیں گے ، صوفی پکا بدعتی ہوتا ہے اس کے پاس کبھی جانا ہی نہیں چاہئے۔ قرآن وحدیث میں عوام کے لئے اس طرح کی کسی بیعت کا ثبوت نہیں ہے ،نہ مردوں کے لئےاور نہ ہی عورتوں کے لئے ۔ بیعت صرف مخصوص لوگوں کے لئے ہے وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کا کوئی خلیفہ اور امام موجود ہو جبکہ ہمارے ملکوں میں کوئی خلیفہ اور امام نہیں ہے جمہوری نظام ہے اور مسلمان فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ایسی صورت میں مخصوص لوگوں کے لئے بھی کوئی بیعت نہیں اور عوام کے لئے تو ویسے بھی نہیں ہے۔
سوال(15): جس عورت کا بچہ مرجائے اس کے لئے کوئی اجر ہے ؟
جواب: جس عورت کا بچہ مر جائے اور وہ پہلی فرصت میں اللہ سے اجر کی امید کرتے ہوئے صبر کرےتو اس کے لئے اجر وثواب ہے اور صبر کا بدلہ اللہ کے یہاں جنت ہے ، ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يقولُ اللَّهُ سبحانَه ابنَ آدمَ إن صبرتَ واحتسبتَ عندَ الصَّدمةِ الأولى لم أرضَ لَك ثوابًا دونَ الجنَّةِ(صحيح ابن ماجه:۱۳۰۸)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدمی! اگر تم مصیبت پڑتے ہی صبر کرو، اور ثواب کی نیت رکھو، تو میں جنت سے کم ثواب پر تمہارے لیے راضی نہیں ہوں گا۔
اسی طرح اولاد کی وفات پر صبر کرنے سے عورتوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، قالَ لِنِسْوَةٍ مِنَ الأنْصَارِ:لا يَمُوتُ لإِحْدَاكُنَّ ثَلَاثَةٌ مِنَ الوَلَدِ فَتَحْتَسِبَهُ، إلَّا دَخَلَتِ الجَنَّةَ فَقالتِ امْرَأَةٌ منهنَّ: أَوِ اثْنَيْنِ يا رَسُولَ اللهِ؟ قالَ: أَوِ اثْنَيْنِ(صحيح مسلم:2632)
‏‏‏‏ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتو ں سے فرمایا:تم میں سے جس کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ اللہ کی رضا مندی کے واسطے صبر کرے تو جنت میں جائے گی۔ ایک عورت بولی: یا رسول اللہ! اگر دو بچے مریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو ہی سہی۔
 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَتَتِ امْرَأَةٌ النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ بصَبِيٍّ لَهَا، فَقالَتْ: يا نَبِيَّ اللهِ ادْعُ اللَّهَ له، فَلقَدْ دَفَنْتُ ثَلَاثَةً، قالَ: دَفَنْتِ ثَلَاثَةً؟ قالَتْ: نَعَمْ، قالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتِ بحِظَارٍ شَدِيدٍ مِنَ النَّارِ(صحيح مسلم:2636)
‏‏‏‏ ترجمہ:ایک عورت ایک بچہ لے کر آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی، دعا کیجئیے اس کے لیے (عمر دراز ہو نے کی) کیونکہ میں تین بچوں کو دفنا چکی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:تو نے ایک مضبوط آڑ کر لی جہنم سے۔
جب کوئی بچہ بلوغت سے پہلے مرجاتا ہے تو وہ جنت میں جاتا ہے کیونکہ اس کی پیدائش فطرت اسلام پہ ہوتی ہے اور وہ اسی فطرت پہ مرجاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ في الجنَّةِ والشَّهيدُ في الجنَّةِ والمولودُ في الجنَّةِ والوئيدُ في الجنَّةِ( صحيح أبي داود: 2521)
ترجمہ: نبی جنت میں ہوں گے ، شہید جنت میں جائے گا ، چھوٹا بچہ جنت میں جائے گا اور زندہ دفن کیا گیا بچہ جنت میں جائے گا ۔
اس بچہ کی وفات پہ جب والدین صبر کرتے ہیں تو جنت میں اس کے لئے بیت الحمد کے نام سے ایک گھر بنا دیا جاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا ماتَ ولَدُ العبدِ قالَ اللَّهُ لملائِكتِهِ قبضتم ولدَ عبدي فيقولونَ نعم فيقولُ قبضتُم ثمرةَ فؤادِهِ فيقولونَ نعم فيقولُ ماذا قالَ عبدي فيقولونَ حمِدَكَ واسترجعَ فيقولُ اللَّهُ ابنوا لعبدي بيتًا في الجنَّةِ وسمُّوهُ بيتَ الحمْدِ(صحيح الترمذي: 1021)
ترجمہ: جب کسی بندے کا بچہ فوت ہوجاتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتاہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟تووہ کہتے ہیں: ہاں، پھر فرماتاہے: تم نے اس کے دل کاپھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ تواللہ تعالیٰ پوچھتاہے: میرے بندے نے کیاکہا؟ وہ کہتے ہیں:اس نے تیری حمد بیان کی اور'إنا لله وإنا إليه راجعون ' پڑھاتو اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کانام بیت الحمد رکھّو۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ فوت ہونے والا نابالغ بچہ جنت میں جائے گا اور اس کی موت پر صبر کرنے والی ماں کو اجر وثواب ملتا ہے اور جنت نصیب ہوتی ہے۔
سوال(16): شادی کے لئے لڑکی کی تصویر دی جاسکتی ہے؟
جواب: آج کے زمانے میں شادی کے لئے تصویر دکھانے سے کام نہیں چلتا، نہ تصویر پر بھروسہ ہوتا ہے یعنی بغیر دیکھے شادی نہیں ہوتی ہے اس لئے تصویر دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، اگر تصویرکا مطالبہ ہو تو کہیں کہ گھر آکر عورتیں یا وہ لڑکا جس کی شادی مقصود ہو دیکھ لے ۔ مخصوص طور پر تصویر لڑکے کو بھیجی جائے اور دیکھ لینے کے بعد واپس مانگ لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال(17): جس کھانے کو ہم کھاتے ہیں کیا اس کو سونگھ سکتے ہیں؟
جواب : ضرورت پڑنے پر کھانے پینے کی چیز کو سونگھنے میں حرج نہیں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا ہے البتہ کھانے پینے کی چیزوں میں سانس لینے سے منع کیا ہے تو سونگھتے وقت برتن میں ہمیں سانس نہیں لینا ہےاور طبرانی کی معجم کبیر میں ایک حدیث ہے کہ سونگھ کر کھانا جانوروں کا طریقہ ہے وہ حدیث ضعیف ہے ۔ لا تَشُمُّوا الطعامَ ، كما تشُمُّهُ السباعُ(ضعيف الجامع:6236)
ترجمہ: سونگھ کر کھانا نہ کھاو جس طرح درندے(حیوان) سونگھ کر کھاتے ہیں۔
سوال(18): پردے میں رہتے ہوئے مصنوعی بال یا مصنوعی پلک لگانا اور ابروبنانا کیسا ہے؟
جواب: جو چیزفی نفسہ حرام ہو وہ پردے میں کریں یا مجمع عام میں حرام ہی ہوگی، اس لئے کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ پردے میں یا پردے سے باہر مصنوعی بال اور مصنوعی پلک لگائےاور ابرو بنائے۔
سوال(19): بعض عورتیں رکارڈشدہ رقیہ پانی کو سناکر اسے دم کی نیت سے پیتی ہیں کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: یہ صحیح نہیں ہے ، رقیہ کی اصل زبان سے پڑھنا ہے ، جو عورت دم کرنا چاہتی ہے وہ اپنی زبان سے مسنون اذکار پڑھ کر جسم پر دم کرے اور خود سے رقیہ نہ کرسکتی ہو تو کسی دوسری عورت سے دم کراسکتی ہے یا دوسرے سے دم کیا ہواپانی اور تیل استعمال کرسکتی ہے۔
سوال(20): خلع کی عدت میں صحیح بات کیا ہے ایک حیض ہے یا تین حیض ؟
جواب: جن علماء نے خلع کو طلاق مانا ہے ان کے نزدیک خلع کی عدت طلاق کی طرح تین حیض ہے جبکہ خلع کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ خلع طلاق نہیں ہے بلکہ فسخ نکاح ہے اور خلع کی عدت ایک حیض ہے اس بارے میں صریح حدیث ہے۔ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں:
أنَّها اختلعت على عَهدِ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم فأمرَها النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم، أو أمرت أن تعتدَّ بحيضةٍ(صحيح الترمذي:1185)
ترجمہ:انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خلع لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا (یا انہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔
اس لئے خلع کی صحیح عدت ایک حیض ہے ، اگر خلع حالت حیض میں ہوا تو اگلےحیض  تک عدت ہوگی اور حالت طہر میں خلع ہوا تو جب بھی پہلا حیض آئے اس کے اختتام تک عدت ہوگی۔
 
مکمل تحریر >>