Monday, April 22, 2019

پھلوں اور اناج میں زکوۃ کے مسائل


پھلوں اور اناج میں زکوۃ کے مسائل

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف -مسرہ

اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیق کرکے ان کی ضروریات کی تکمیل کے سارے اسباب مہیا فرمادئے ۔ کھانے پینے کے واسطے مختلف قسم کی غذائیں ، انواع واقسام کے اناج ، طرح طرح کے میوے ، ہری ہری سبزیاں اورحلال جانوروں کے لذیذ گوشت میسر کردئے ۔ انسان اللہ کی ان مختلف غذاوں سے جی بھر کر لطف اندوز ہوتا ہے اور اپنے خالق کی اس عظیم نعمت وصنعت پر شکر بجالاتا ہے ۔ جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے یا ان کے بدلے شکرگزاری سے انحراف کرتا ہے وہ اپنے خالق ومالک کا ناشکرہ ہے۔
سورہ الرحمن میں اللہ نے متعدد نعمتوں کا ذکر کیا ہے ، ان میں زمین سے پیداہونے والے غلوں اور پھلوں کا بھی ذکر ہے ۔ ان نعمتوں کا تذکرہ کرکے کہا کہ تم کون کون سی نعمتوں کا انکار کروگے ۔ فرمان باری تعالی ہے :
فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (الرحمن :11-13)
ترجمہ: جس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں اور بھس والا اناج ہے اور خوشبودار پھول ہیں پس(اے انسانواورجنو!)تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاوگے ۔
کسان اپنے کھیتوں میں بیج بوتا ہے اور کافی محنت کرتا ہے مگر نتیجہ یعنی پھل اللہ ہی اگاتا ہے ، اللہ کے علاوہ کوئی اناج اور پھلوں کو پیدا کرنے والا نہیں ہے چنانچہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیڑپودے کے خالق نے کہا:
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ،أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (الواقعه:63-64)
ترجمہ:اچھا یہ بتاؤکہ جو کچھ تم زمین میں بوتے ہو، کیا اسے تم ہی اگاتے ہو ، یا اگانے والے ہم ہیں۔
جیساکہ اوپر کہا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں پہ اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ پھلوں اور غلوں میں اللہ نے زکوۃ فرض کیا ہے اس کی ادائیگی مال کی پاکی کے ساتھ اللہ کا شکر بجا لانا بھی ہے ۔ اللہ زمینی پیداوار کا حق ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ(الأنعام:141)
ترجمہ : ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤجب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو۔
اس بات کا ذکر دوسرے مقام پہ اللہ نے اس انداز میں بھی کیا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ(البقرة:267)
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو۔
کن کن چیزوں میں زکوۃ دی جائے گی ؟
تمام قسم کی زمینی پیداوار میں زکوۃ نہیں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےبیان کیا ہے کہ چارقسم کے اناج اور پھلوں میں زکوۃ دینا ہے۔
موسی بن طلحہ ؒ بیان کرتے ہیں:
كان عِنْدنا كتابُ معاذِ بنِ جبلٍ – رضِي اللهُ عنه - ، عن النبيِّ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - : أنَّه إِنَّما أمَرَه أن يَأْخُذَ الصَّدقةَ : من الحِنْطةِ ، والشَّعيرِ ، والزَّبيبِ ، والتَّمْرِ۔
ترجمہ: ہمارے پاس معاذ بن جبل ؓ کی وہ تحریر ہے جو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں عطا کی تھی جس میں انہوں نے ان کو حکم فرمایا تھا کہ گندم ، جو ، منقی اور کھجور میں سے زکوۃ لی جائے ۔
بعض روایات میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے مگر شیخ البانی نے پانچویں چیز مکئی کے ذکر والی روایت کو منکر کہا ہے اور مکئی کے بغیر چار چیزوں والی حدیث صحیح کہا ہے ۔(ضعيف ابن ماجه:۳۵۸)
مذکورہ حدیث کی چارچیزوں میں سے دو گندم وجو کا تعلق اناج اور دومنقی وکھجور کا تعلق پھل سے ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ غلہ اور پھل دونوں پر زکوۃ ہے مگر ہر قسم کے اناج اور پھل پہ زکوۃ نہیں ہے ۔ یہاں چار چیزیں معلوم ہوگئیں اور چار کا ہی تذکرہ ہونے کا سبب اس زمانے کے مطابق ہے چار میں محصور کرنا مقصود نہیں ہے، ان کے علاوہ ہر قسم کا اناج اور پھل جو وزن کیا جاسکے اور ذخیرہ کیا جاسکے ان سب پر زکوۃ ہے ۔ گویا اناج اور پھلوں میں زکوۃ کے لئے دو صفات ہونی چاہئے ایک وزن کے قابل ہونا دوسری ذخیرہ اندوزی کے قابل ہونا۔ان دو صفات کی روشنی میں اناج میں گندم وجو کے علاوہ چاول، دال، مکئی ، موم پھلی وغیرہ اور پھلوں میں کھجور ومنقی(کشمش) وغیرہ پرزکوۃ ہے۔
پھلوں میں کسی قسم کے میوے مثلاآم، امردود، سیب ، ترانگور، انار، موسمی وغیرہ پہ زکوۃ نہیں ہے اور کسی قسم کی سبزیوں پر بھی زکوۃ نہیں ہے یعنی پیاز، لہسن ، گاجر ،مولی، ساگ وغیرہ میں زکوۃ ادا نہیں کرنی ہے ۔ ترکھجور اور انگور میں زکوۃ نہیں ہے ، سوکھ جانے پر زکوۃ ہے۔گننا ، انجیر، زیتون اور شہد میں زکوۃ نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم رہے کہ زکوۃ کے وہیں آٹھ مصارف ہیں جن کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر بائیس میں ہے۔
زکوۃ کی مقدار کیا ہے ؟
اوپر جن پیداوار میں زکوۃ کا ذکر کیا گیا ہے ان کا پانچ وسق ہونا ضروری ہے تب ہی زکوۃ فرض ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ليسَ في حَبٍّ ولا تَمْرٍ صَدَقَةٌ، حتَّى يَبْلُغَ خَمْسَةَ أوْسُقٍ، ولا فِيما دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، ولا فِيما دُونَ خَمْسِ أواقٍ صَدَقَةٌ.(صحيح مسلم:979)
ترجمہ:نہ غلے میں صدقہ ہے نہ کھجور میں حتیٰ کہ وہ پانچ وسق تک پہنچ جائیں اور نہ پانچ سے کم اونٹوں میں صدقہ ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم(چاندی) میں صدقہ ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں دینی ہوگی ۔ اب جاننا یہ ہے کہ پانچ وسق آج کے زمانے میں کتنا کیلوگرام ہوتا ہے؟۔ ابن ماجہ(ح:361)اور ابوداود(ح:1559) میں ایک وسق کی مقدار ساٹھ صاع بتلائی گئی ہے مگر یہ روایت سندا ضعیف ہے ، ارواء الغلیل میں اس روایت پہ بحث کرتے ہوئے شیخ البانی نے ذکر کیا ہے کہ اس کے دوسرے طریق بھی ہیں اور اس کا شاہد بھی ہے ۔(إرواء الغليل:3/280)
امام نووی نے المجموع میں ابوداود کی روایت ذکر کے ضعف کا حکم لگایا ہے اور کہا ہے کہ اس کے معنی پہ اجماع ہوا ہے ۔ ابن المنذروغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے ۔
جب ایک وسق ساٹھ (60)صاع کا ہوگا تو پانچ وسق برابر تین سو (300)صاع ہوگا۔ زکوۃ الفطر میں ایک صاع کا وزن عام طور سےتقریبا ڈھائی کلو(2.5)مانا جاتا ہے ، شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے یہاں ایک صاع تین کلو اور شیخ ابن عثیمین کے یہاں دوکلوصفرچار(2.04)کے برابر ہے ۔ اگر ڈھائی کلو کے حساب سے تین سو صاع کا حساب لگاتے ہیں تو اناج اور پھلوں میں زکوۃ کی مقدارتقریبا سات سو پچاس(750) کلو گرام ہوگی۔ اس سے کم ہو تو پھر زکوۃ فرض نہیں ہے ، ہاں تھوڑا بہت کم ہو تو زکوۃ دینی ہوگی کیونکہ یہ وزن بھی دوسرے اہل علم کی پیمائش کے حساب سے زیادہ ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان رہے کہ صاع میں اختلاف کی وجہ سے پانچ وسق کا انگریزی وزن دوسرے علماء کے یہاں فرق فرق ہوسکتا ہے۔ شیخ ابن باز کے یہاں نو سو(900) کلو بنتا ہے اور شیخ ابن عثیمین کے یہاں چھ سوبارہ(612)کلو بنتا ہے۔
پھلوں اور اناج میں زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ
زکوۃ کی دوسری اصناف میں نصاب کے ساتھ ایک سال پورا ہونے کی شرط ہے جبکہ اناج وپھل کی زکوۃ اسی وقت ادا کرنی ہے جس وقت کاٹا جائے جیساکہ اوپر سورہ انعام کی آیت گزری ہے یعنی ایک سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ اس لئے جب کوئی گندم، جو،چاول، دال، کشمش، کھجور وغیرہ کی فصل کاٹے اور ان کی مقدار سات سو پچاس کلوگرام کے برابر ہوجائے تو اس کی زکوۃ ادا کرے ۔ ان اشیاء میں دوطرح سے زکوۃ ادا کی جائے گی ۔ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے:
عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلم : أنه سنَّ فيما سقتِ السماءُ والعيونُ أو كان عثرِيًّا العشرُ وفيما سُقيَ بالنضحِ : نصفُ العشرِ .(صحيح الترمذي:640)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے یہ طریقہ جاری فرمایاکہ جسے بارش یاچشمے کے پانی نے سیراب کیا ہو، یا عثر ی یعنی رطوبت والی زمین ہوجسے پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہوتو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اورجسے ڈول سے سیراب کیا جاتا ہواس میں دسویں کاآدھایعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔
پہلا طریقہ : جو زمیں آسمانی بارش یا نہروتالاب کے پانی سے سیراب کی جائے یا اس میں پانی کی ضرورت ہی نہ پڑے تو اس زمین سے حاصل شدہ پیداوار پہ دسواں حصہ زکوۃ دینی ہوگی یعنی دس حصے میں سے ایک حصہ یا کہہ لیں کل پیداوارکا دس فیصد ۔
دوسرا طریقہ : جو زمین بورنگ،کنواں اور نل وغیرہ سے آبپاشی کی گئی ہو اس کی پیدوار میں بیسواں حصہ یعنی پانچ فیصد زکوۃ دینی ہوگی۔
زکوۃ ادا کرتے وقت پیداوار پہ سیرابی کے علاوہ دیگر مصروفات کا اعتبار نہیں ہوگا بالفاظ دیگر زمین کی جتائی ، کھاد، دیکھ ریکھ ، کٹائی اور مزدوری وغیرہ پہ صرف کئے پیسے کی وجہ سے عشر یا نصف عشر پر فرق نہیں آئے گا اور نہ ہی زکوۃ دیتے وقت یہ اخراجات نکال کر زکوۃ دی جائے گی ۔
بٹائی، ٹھیکہ، بھرنا اور کھیتی کا مشروط طریقہ
سماج میں کھیتی باڑی کے متعدد طریقے رائج ہیں ،ہمیں ان کی شرعی حیثیت جاننے کی ضرورت ہے تاکہ غیرشرعی طریقےسے بچا جاسکے ۔
ایک مسئلہ بٹائی کا ہے یعنی ایک شخص زمین دے اور دوسرا کھیتی کرے اور پیداوار آپس میں برابر برابر بانٹ لے۔ یہ معاملہ زمین بٹائی پر دینے کاہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، نبیﷺ نے خیبر کی زمین بٹائی پہ لگائی تھی ، اس کی پیداوار کا آدھا حصہ مسلمانوں کو ملتا تھا۔ بٹائی میں لگانی اور پیداوار کا معاملہ طے ہونا چاہئے یعنی کاشت کاری پہ ہونے والے اخراجات کا معاملہ طے اور واضح ہو،نفع میں دونوں طے شدہ مقدار میں شریک ہوں گے اور نقصان کی صورت میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔ جب پیداوار تقسیم ہوجائے اور کاشت کار وزمین مالک کی پیداوار نصاب تک پہنچ جائے تو دونوں اس کی زکوۃ ادا کریں گے۔ نصاب تک نہیں پہنچے تو زکوۃ نہیں ہے ۔
دوسرا مسئلہ بھرنا کا ہے اس کی شکل یہ ہے کہ قرض حاصل کرنے کے لئے زمین گروی رکھی جاتی ہے اورجب تک قرض نہیں لوٹایا جاتا تب تک مرتہن زمین میں کاشت کرتا ہے یا اس سے دوسرا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یہ معاملہ شرعا جائز نہیں ہے ۔جب کوئی قرض حاصل کرے اور قرض کے بدلے کوئی چیز بطور ضمانت گروی رکھ دے ، اس حد تک معاملہ جائز ہے مگر جو چیز بطور ضمانت رہن رکھی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے جبکہ یہاں بھرنا میں زمین سے فائدہ اٹھا یا جارہاہے،اگرچہ قرض دار کی طرف سےزمین سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہو پھر بھی جائز نہیں ہے کیونکہ قرض کی مہلت کے بدلے یہاں فائدہ اٹھایا جارہا ہے جو کہ سود کی شکل ہے۔ اس گروی رکھی زمین سے فائدہ اٹھانے کی جائز شکل موجود ہے کیوں نہ ہم جائز طریقے سے فائدہ اٹھائیں ۔ قرض لینے والا مرتہن سےمزارعت (بٹائی) کا معاملہ طے کرلے اور اس کی پیداوار سے اپنا حصہ لیا کرے یا اپنا حصہ چھوڑ کر اتنا قرض میں کم کروالے۔ اسی طرح زمین کرائے پر بھی دے سکتے ہیں جس طرح مکان یا تجارتی زمین کرائے پر لگائی جاتی ہے۔ ان دو صورتوںمیں قرض دار اور قرض خواہ دونوں جائز طریقے سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ زمین کرایہ پر دینے کی صورت میں اس کا عشر یا نصف عشر کاشت کار پر ہوگا۔شیخ ابن بازؒ لکھتے ہیں : زمین سے اگنے والے دانوں اور پھلوں کی زکوۃ کاشت کار پر واجب ہے اگرچہ زمین اجرت پر لی گئی ہو اور جس شخص نے زمین اجرت پر دی اور اس کی بطور اجرت لی ہوئی رقم اگر نصاب کو پہنچ گئی اور ٹھیکہ کی تاریخ کے اعتبار سے اس پر سال گزر گیا تو اس پر اس رقم کے اعتبار سے زکوۃ دینا واجب ہے۔ (دائمی کمیٹی فتوی : 9388)
تیسرا معاملہ بعض علاقوں میں "من کھپ" کاہے یعنی زمین والا دوسرے شخص کو اس شرط پہ کھیتی کے لئے زمین دے کہ فی کٹھہ (720 یا 1361 اسکوائرفٹ)ایک مَن اناج دے گا۔
یہ معاملہ مشروط طریقے سے زمین بٹائی پر دینے کا ہے ، اس میں شرعی طور پرقباحت ہے ۔ جب زمین والا فی کٹھہ ایک من اناج طے کرلیتا ہے تو نقصان کی صورت میں صرف عامل کو خسارہ ہوگا ۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ آسمانی آفات کی وجہ سے مکمل فصل برباد ہوجائے ایسی صورت میں عامل کا اپنا جو نقصان ہوا ، ہوا ہی، زمیندار کو فی کٹھہ اناج اپنے گھر سے دینا پڑے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی خود نقصان اٹھاؤ۔
زکوۃ اداکئے گئے اناج اور پھل کی قیمت پر زکوۃ
بہت سے کاشت کاراپنی پیداوار بیج دیا کرتےہیں ، ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اس نے عشر یا نصف عشر جو ادا کیا تھا وہی کافی ہے یا بیچنے کے بعد اس کی قیمت پر پھر سے زکوۃ دینی ہوگی؟
اس کا جواب جاننے سے پہلے ایک بات یہ جان لی جائے کی کہ زکوۃ نفس مال میں سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس قیمت اور یا اس کے مشابہ کوئی دوسری چیز بھی دے سکتے ہیں ، یہ زکوۃ کی تمام اقسام میں جائز ہےمثلا سونے کی زکوۃ دیتے وقت سونا ہی بطور زکوۃ دینا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی قیمت دینا کافی اور جائز ہے۔
اب سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی نے غلہ /پھل سے اس کی کٹائی کے بعد زکوۃ ادا کردیا پھر جو غلہ /پھل بچا اسے بازار میں بیچ دیا ۔ بیچنے کے بعد جو قیمت ہاتھ آئی وہ سونا اور چاندی کے قبیل سے ہے۔اس پر بھی زکوۃ ہے مگر دو شرطوں کے ساتھ یہ قیمت سونا یا چاندی کے نصاب تک پہنچتی ہو اور اس پر ایک سال کا وقفہ گزرجائے جبکہ غلہ اور پھل کی صورت میں محض ایک بار شروع میں زکوۃ دینی ہوتی ہے بعد میں وہ سالوں پڑا رہے اس کی کوئی زکوۃ نہیں ہے۔
میوے اور سبزیوں کی تجارت پر زکوۃ
اوپر ہم جان چکے ہیں کہ کسی قسم کے میوے اور کسی قسم کی سبزی پر زکوۃ نہیں ہے ، ہاں اگر کوئی سبزیوں اورمیوے کی تجارت کرتا ہے مثلا ساگ، آلو،پیاز، ٹماٹر، سیب، انار،جانوروں کا چارہ وغیرہ تجارت کی غرض سے کاشت کرتا ہے تو ان کی اشیاء میں زکوۃ نہیں ہے مگر ان کی تجارت سے جو مال حاصل ہوگا اس پر زکوۃ ہوگی بشرطیکہ مال نصاب تک پہنچتا ہو اور ایک سال گزرجائے۔

مکمل تحریر >>

Thursday, April 18, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (بارہویں قسط)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (بارہویں قسط)
جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)

سوال(۱):کیا شہید کی بیوی پر عدت ہے؟
جواب : اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ(البقرة:234)
ترجمہ: تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
اللہ کے اس فرمان کے مطابق ہر عورت جس کا شوہر وفات پاجائے یاقتل و شہید کردیاجائے چارماہ دس د ن عدت گزارے گی سوائے حاملہ عورت کے ۔ حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے یعنی جب بچے کی پیدائش ہوگی اس وقت عدت مکمل ہوگی ۔
سنن اربعہ میں زینب بنت کعب بن عجرہ کا واقعہ ہے جن کے شوہر ابوسعید خدری ؓ شہید (غلام نے قتل کیا)ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم دیا ۔(صحيح أبي داود:۲۳۰۰، صحيح الترمذي:۱۲۰۴، صحيح النسائي:۳۵۳۲، صحیح سن ابن ماجہ: ۲۰۳۱)
سوال(۲):بلاضرورت خلع طلب کرنے والی عورت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : نکاح مردوعورت کے لئے سکون زندگی ہے جس کی بنیاد پاکیزہ اصولوں پر قائم ہے ۔ اس رشتے کو بلاسبب توڑنے والا مرد یا توڑنے والی عورت اللہ کے یہاں گنہگار ٹھہریں گے ۔ عورت کے لئےبڑی سخت وعید آئی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أيُّمَا امرأةٍ سألت زوجَها طلاقًا في غيرِ ما بأسٍ فحرامٌ عليها رائحةُ الجنةِ(صحيح أبي داود:2226)
ترجمہ: جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔
یہ طلاق کی وعید ہے جبکہ بلاسبب خلع طلب کرنا شمار کی علامت ہے ۔ ارشاد نبوی ہے:إِنَّ المختلِعاتِ والمنتَزِعاتِ ، هُنَّ : المنافِقاتُ (صحيح الجامع:1938)
ترجمہ: {بلا ضرورت } اپنے شوہروں سے چھٹکارا لینے اور خلع کرانے والی عورتیں ہی منافق ہیں ۔
ہاں ، اگر عورت شوہر میں دینی ، اخلاقی، معاشرتی اور مردانہ خرابی پائے تو خلع طلب کرسکتی ہے اس صورت میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
سوال(۳):عورت سر کا مسح کیسے کرے جبکہ گھنے بال ہونے کی وجہ سے پیچھے سے واپس ہاتھ لانے سے بال بکھرنے کا ڈر ہے اور سر بھی ننگا ہوگا؟
جواب : عورت ومرد کے مسح میں کوئی فرق نہیں ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :"وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ" یعنی اپنے سروں کا مسح کرو ۔ یہ فرمان مردوعورت دونوں کو شامل ہے ۔ نبی نے ہمیں مسح کا طریقہ یہ بتلایا کہ تر ہاتھوں کو سر کے اگلے حصے پر پھیرتے ہوئے گدی تک لے جائیں اور پھر واپس آگے کی طرف لے آئیں اور شہادت کی انگلی سے کان کا اندرونی حصہ اور انگوٹھے سے بیرونی حصہ مسح کریں ۔
عورت کو اپنا بال ننگا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی چوٹی ہو تو کھولنے کی ضرورت ہے ۔ دوپٹے کے اندر سے بالوں پر ہاتھ پھیرلیں اور اجنبی مرد آس پاس نہ ہو تو سر ننگا ہونے اور بال بکھرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(۴):بیوی نے پہلے مہر معاف کردیا پھر مہر کا مطالبہ کررہی ہے ایسا کرنا کیسا ہے ؟
جواب: اگر عورت کو مہر معاف کرنے کے لئے سسرال والے یا شوہر نے دھمکی یا طلاق کا خوف دلاکر مجبور کیا ہو اور مجبور ہوکربیوی نے مہر معاف کردیا ہو ایسی صورت میں یہ معاف کرنا لغو ہوگا اور شوہر کے ذمہ مہر باقی رہےگا اور بیوی مہر طلب کرے تو ادا کرنا واجب ہوگا، مطالبہ نہ بھی کرے تب بھی شوہر کو دینا ہوگا لیکن اگر بیوی نے ہوش وحواش میں اپنی مرضی سے معاف کردیا یا مہر لینے کے بعد شوہر کو ہدیہ کردیا تو دوبارہ مہر مانگنے کا حق بیوی کو نہیں ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا (النساء:4)
ترجمہ:اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ، ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھالو ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیوی خوش دلی سے کچھ مہر یا سارا معاف کردے تو شوہر کے لئے حلال ہے اور خوش دلی سے معاف کئے ہوئے مہر کا دوبارہ مطالبہ کرنا بیوی کے لئے جائز نہیں ہے ۔
سوال(۵):ایک عورت کو حیض آیا ہے مگر وہ شرم کی وجہ سے جماعت والی نماز میں شامل ہونا چاہتی ہے تاکہ کسی کو حیض کا علم نہ ہو ، کیا اس کا ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟
جواب : اللہ تعالی نے دین کے احکام بتانے میں شرم نہیں کیا اور نہ اس کے رسول نے شرم کیا جبکہ آپ بہت ہی حیا والے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی خواتین نے دینی احکام کی جانکاری حاصل کرنے میں بھی کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کیں ۔ اللہ نے قرآن میں ذکر کیا کہ اے نبی آپ سے لوگ حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور اسی طرح حدیث میں مذکور ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم عہد رسول میں حیض سے ہوتے تو ہمیں صرف روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا۔ ان باتوں کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ کسی عورت کو حیض آجائے تو شرم کی وجہ سے نماز نہ پڑھے ، نبی نے حیض والیوں کو نماز اور روزہ سے منع فرمایا ہے :
أَليسَ إذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ ولَمْ تَصُمْ، فَذلكَ نُقْصَانُ دِينِهَا(صحيح البخاري:1951)
ترجمہ:کیا جب عورت حائضہ ہوجاتی ہے تو نمازاورروزہ نہیں چھوڑ دیتی ؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
اگر کسی عورت نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ حیض کی حالت میں ہے پھر بھی نماز پڑھ لی ہے تو اسے اللہ سے توبہ واستغفار کرنا چاہئے اورہمیشہ کے لئے اس عمل سے باز رہنا چاہئے ۔
سوال(۶):چھوٹے بچیوں کو بنا بازو کے رنگین اور بھڑکیلے لباس پہننانے کا کیا حکم ہے جبکہ آج کل یہ سماج میں عام ہے؟
جواب: بچیوں کے لباس بھی ہمیں صحیح اختیار کرنا چاہئے ۔ یہ نہ بھولیں کہ ہم مسلمان ہیں اور آج کل خواتین کے جو کپڑے ریڈی میڈ ملتے ہیں اکثر فاحشہ عورتوں کی ہوتی ہیں ۔ بچپن سے ہمیں اپنی بچیوں کو اسلامی ماحول میں ڈھالنا ہے ،اسلام نے ہمیں بچوں کی اسلامی تربیت کا حکم دیا ہے ، جب لڑکیوں سے تربیت چھین لیں گے تو آگے وہ اسلام پر کیسے چلے گی ؟۔
ذرا سوچیں کہ جس بچی کو بچپن سے رنگین اور چھوٹے چھوٹے کپڑوں کی عادت ہوجائے وہ بعد میں پردہ کیسے کرے گی ؟آج جس قدر فتنہ عام ہے اس کے حساب سے بچپن سے بچیوں کی سخت نگرانی کے ساتھ اچھی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ بدقماشوں کی بھینٹ نہ چڑھے اور نظر بد کا بھی اپنی جگہ مسئلہ ہے اچھوں کی بھی نظر لگ سکتی ہے ۔ اس لئے اپنی بچیوں کو اسلامی ماحول دیں ۔
سوال(۷): گھر میں غیر مسلم خادمہ سے کام لینا جائز ہے ؟
جواب: نوکرانی مسلم ہو یا غیرمسلم ،اس کے بڑے مفاسد ہیں ۔ اگر شرعی حدود میں رہ کر نوکرانی سے کام لیا جائے تو اس سے گھریلو کام لینے میں حرج نہیں ہے ۔ شرعی حدود میں سب سے اہم مردوزن کا اختلاط  نہ ہوناہے۔ اگر گھر میں نوکرانی کا سامنا مردوں سے ہو ، کھانے پینے کی چیز اس کے سامنے پیش کرے ، کام کرتے اختلاط ہو یا مرد کے ساتھ خلوت ہو تو ان صورتوں میں نوکرانی سے کام لینا جائز نہیں ہے۔ نوکرانی سے کام لیتے وقت  بڑے احتیاط کی ضرورت ہے اور مسلم خادمہ ہو تو بہتر ہے کہ وہ نظافت، پردہ اور دین واخلاق کا اہتمام کرسکے ۔
سوال(۸):ایک شخص کو دو بیوی تھی، ایک پاس میں رہتی تھی اور دوسری الگ رہا کرتی تھی،اب اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ایسی صورت میں کیا دونوں عورت پر عدت ہے یا صرف اس عورت پر جو پاس میں رہا کرتی تھی ؟
جواب : ایک شخص کی دو،تین یا چارجتنی بیویاں (اسلام میں مرد کو چار بیوی تک کی اجازت ہے)ہوں ، شوہر کی وفات پر ساری بیویاں عدت گزاریں گی خواہ وہ شوہر کے ساتھ رہتی ہوں یا الگ الگ ۔
سوال(۹):جو عورت شوہر کی وفات کی عدت میں ہو کیا وہ عید گاہ جا سکتی ہے اور عید کے دن نئے لباس اورزینت کی چیزیں استعمال کر سکتی ہے؟
جواب : جب زینب بنت کعب بن عجرہ کے شوہر شہید کردئے گئے اور انہوں نے نبی سے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے اجازت دے دیں کہ میں اپنے اقارب اور اپنے بھائیوں کے گھر چلی جاؤں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیا:امْكُثي في بيتِكِ الَّذي جاءَ فيهِ نعيُ زوجِكِ حتَّى يبلغَ الْكتابُ أجلَهُ(صحيح ابن ماجه:۱۶۶۴)
ترجمہ: جب تک اللہ کی مقرر کردہ مدت (موت کی عدت) پوری نہیں ہو جاتی، اسی گھر میں رہائش رکھو جہاں تمہیں اپنے خاوند کی وفات کی خبر پہنچی۔
یہ حدیث اور اس معنی کی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے عورت شوہر کی وفات پہ لازمی طور پر شوہر کے گھر میں ہی عدت وفات گزارے گی اور بلاضرورت، بغیر کسی عذر کے گھر سے قدم نہیں نکالے گی ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے متوفی عنہا زوجہا کی عدت میں نمازعید سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کا شوہر وفات پاجائے اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پڑوسی یا رشتہ داریا نمازعید یا اس کے مثل کسی کام کے لئے گھر سے نکلے بلکہ وہ اپنے گھر میں باقی رہے گی ۔ (فتاوى نور على الدرب)
اس بنیاد پرعورت نمازعید کے لئے گھر سے باہر نہیں نکلے گی اور نہ ہی وہ اس دن زینت کی چیزیں استعمال کرے کیونکہ وہ سوگ منارہی ہے اور سوگ میں زینت اختیار کرنا منع ہے ۔
سوال(۱۰):میت کو وضو کرانے کا کیاحکم ہے ؟
جواب : میت کو غسل دیتے وقت پہلے ناپاکی کی صفائی کی جائے پھر وضو کرایا جائے گا۔ میت کے حق میں وضو ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے جیساکہ عام غسل طہارت میں مستحب ہے ۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) کی وفات پر غسل دینے کے وقت فرمایا تھا:ابْدَأْنَ بمَيَامِنِهَا ومَوَاضِعِ الوُضُوءِ منها.(صحيح البخاري:167)
ترجمہ:غسل داہنی طرف سے دو اور اعضائے وضو سے غسل کی ابتداء کرو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میت کی نجاست اور ناپاکی دور کرنے کے بعد استحبابی طور پر وضو کرایا جائے گا ، یہ وضو وجوبی طورپر نہیں ہے اس کی دلیل ایک صحابی کا واقعہ ہے جو اونٹنی سے گر کر وفات پاگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی اور بیری سے غسل دینے کا حکم دیا ، آپ نے اسے وضو کرانے کا حکم نہیں دیا۔(الشرح الممتع)
سوال(۱۱):میت کے غسل وتکفین پہ غیر مسلم سے کام کاج کے لئے مدد حاصل کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب : بہتر اور افضل یہی ہے غسل وتکفین کا سارا کام مسلمان ہی انجام دے تاہم ناگزیر حالات میں میت کے غسل اور اس کی تجہیز وتکفین پہ بعض کام کاج کے واسطے غیرمسلم سے مدد لی جا سکتی ہے جیسے بازار سے کوئی سامان منگوانا تاہم خالص غسل اور تجہیزو تکفین کے لئے مدد نہیں لی جائے  گی۔شیخ صالح فوزان نے بیان کیا ہے کہ کسی کافر کا مسلمان کو غسل دینا جائزنہیں ہے کیونکہ میت کو غسل عبادت ہے اورعبادت کسی کافر کی جانب سے صحیح نہیں ہوگی ۔
سوال(۱۲):کیا آپریشن کے بعد آنے والا خون نماز و روزہ کے لئے مانع ہے ؟
جواب : ولادت کے بعد آنے والا خون نفاس کا مانا جائے گا چاہے ولادت آپریشن سے ہو یا طبعی طورپر۔ اس بنا پر عورت کو جب تک نفاس کا خون آئے اسے نما زوروزہ سے رکنا ہوگا اور جب خون بند ہوجائے تب غسل طہارت کے بعد نماز شروع کرے ۔
سوال(۱۳):کیا بیوی شوہر سے تعلقاتی مردوں کے بارے میں جانکاری لے سکتی ہے تاکہ میاں بیوی کے درمیان فتنہ وفساد اور سماج میں شر پھیلانے سے روکا جا سکے ؟
جواب : یقینا بیوی کا حق ہے کہ اگر شوہر کے حلقہ احباب پر شک ہو تو اس کے ساتھیوں کے دین و اخلاق کی جانکاری حاصل کرے اور یہ یقین سے معلوم ہو جائے کہ فلان شخص میاں بیوی کے درمیان فساد پیدا کرنے والا ہے یا شوہر کو برائی کے راستے پر لے جانے والا ہے یا سماج میں شرانگیزی کرنے والا ہے تو اپنے شوہر کو اس آدمی سے دور رہنے کی تاکید کر سکتی ہے بلکہ سختی کے ساتھ بیوی کو منع کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَن رَأَى مِنكُم مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بيَدِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسانِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وذلكَ أضْعَفُ الإيمانِ.(صحيح مسلم:29)
ترجمہ:جوشخص کوئی برائی دیکھے تو چاہئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے ، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اورجسے اس کی طاقت بھی نہ ہووہ اپنے دل میں اسے براجانے اوریہ ایما ن کا سب سے کمتردرجہ ہے۔
سوال(14) : جیساکہ لوگوں میں دوا کھاتے وقت "ھوالشافی" کہنا رائج ہے کیا یہ دوا کھانے کی دعا ہے یا کوئی اور مخصوص دعا ہے ؟
جواب : نبی ﷺ سے دوا کھانے کی کوئی مخصوص دعا ثابت نہیں ہے۔ ھوالشافی عام طور سے مسلم اطباء نسخہ جات کے شروع میں لکھتے پڑھتے ہیں اس وجہ سے لوگوں میں یہ رائج ہوگیا ۔ اصل میں ھوالشافی عقیدہ ہے کہ دوا کھانے والا اس ایمان و یقین کے ساتھ دوا کھائے کہ یہ بذات خود فائدہ نہیں کرے گی ، شفا تو اصل میں اللہ تعالی دینے والا ہے ۔
کھانا کھاناہو، پانی پینا ہو، دوا کھانی یا پینی ہو شروع میں بسم اللہ کہیں جیساکہ حدیث سے ثابت ہے ۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إذا أكَلَ أحدُكُم فليذكُرِ اسمَ اللَّهِ تعالى ، فإن نسِيَ أن يذكرَ اسمَ اللَّهِ تعالى في أوَّلِهِ فليقُلْ : بسمِ اللَّهِ أوَّلَهُ وآخرَهُ(صحيح أبي داود:3667)
ترجمہ : جب کوئی کھانا کھائے تو پہلے بسم اللہ کہے ۔اگر کھانے کے شروع میں بسم اللہ کہنا بھول جائے تو" بسمِ اللَّهِ أوَّلَهُ وآخرَهُ" (اس کھانے کا آغاز اور اختتام اللہ کے نام کے ساتھ کرتاہوں)کہے ۔
سوال(۱۵):کسی کا کوئی عزیز وفات پاجائے اور اس کی یاد آجائے ، اس کی یاد میں رونا آجائے تو کیا کیا جائے یعنی ایسا کیا جائے کہ دل کو تسلی ہو؟
جواب : میت پہ رونا ایک فطری امر ہے جسے روکنا مشکل ہے ،کچھ ایسے بھی عزیز ہوتے ہیں جن کی یاد مدتوں آتی ہے ۔ کسی فوت شدہ رشتہ دار کی یاد میں رونا آجائے اس سے کوئی گناہ نہیں ہے ۔ ہاں ایسا رونا منع ہے جس میں نوحہ خوانی یعنی گریبان چاک کرنا اور چیخنا چلانا ہو۔
اگر کسی کو میت کی یاد آجائے تو کثرت سے ان کے لئے استغفار کرے، استغفار سے ان کے درجات بلند ہوں گے ، دل کی تسلی کے لئے ان کی جانب سے صدقہ وخیرات بھی کرسکتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میت کی یاد سے ہمیں اپنا مرنا یاد آنا چاہئے ، ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہاں کسی کو بقا نہیں ہے ، ہمیں بھی دنیا سے رخصت ہونا ہے ،جب یہ سوچ پیدا ہوگی تو نیک کام کا خیال آئے گا اور اس طرح دل کی تسلی کے ساتھ آخرت میں نجات کی کوشش کریں گے ۔
مکمل تحریر >>

Saturday, April 13, 2019

بنت حواکے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط نمبرگیارہ)


بنت حواکے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط نمبرگیارہ)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)


سوال(1): ایک عورت کا خلع ہوا اور اسی دن حیض آیا تو اس کی عدت کب ختم ہوگی ؟
جواب : سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننا ہے کہ حیض کی حالت میں خلع ہوگا کہ نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں بھی خلع واقع ہوجائے گا۔ اور خلع کی عدت میں علماء کے درمیان اختلاف ہے تاہم صحیح بات یہ ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اور جس حیض میں خلع واقع ہوا ہے اس کا شمار نہیں ہوگا بلکہ اس حیض سے پاک ہوکر جب اگلا حیض آجائے تب عدت پوری ہوگی ۔ابن قدامہ نے المغنی میں لکھا ہے کہ حیض میں طلاق دی جائے تو اس کا شمار عدت میں نہیں ہوگا اس بات میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
سوال(2): کیا عورت جوڑا بناکر نماز پڑھ سکتی ہے؟
جواب : صحیح مسلم(2128) میں جہنمی عورتوں کی ایک صفت بتلائی گئی ہے: رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِ المائِلَةِ یعنی ان کے سربختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہوں گے ۔ محدثین نے اس کے کئی معانی بیان کئے ہیں ان میں ایک معنی امام نووی نے قاضی کی طرف منسوب کرکے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بال اکٹھا کرکے درمیانی سر کے اوپر جمع کرلینا جو بختی اونٹ کی کوہاں کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح مسلمان عورت کے بالوں کا جوڑا بنانا جائز نہیں ہے ۔
اگر کسی عورت نے لاعلمی میں اس حالت میں نماز پڑھ لی بشرطیکہ بال ڈھکے ہوئے تھے تو اس کی نماز صحیح ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ عمل نہ نماز میں درست ہے اور نہ ہی نماز کے باہر لہذا ہمیشہ کے لئے اس عمل سے باز رہے ۔
سوال(3): شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا گھر سے نکلناکیسا ہے ؟
جواب : اللہ نے عورتوں کو گھروں میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، فرمان الہی ہے : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ(الاحزاب:33) ترجمہ:اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔
یہی وجہ ہے کہ احادیث میں عورتوں کے متعلق گھر سے نکلتے وقت اجازت طلب منقول ہے ۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا والد کے گھر جانے کا ارادہ فرمائیں تو رسول اللہ ﷺ سے کہا: أتأذن لي أن آتي أبوي(صحیح البخاري:4141وصحیح مسلم:2770).
ترجمہ: کیا آپ مجھے والدین کے گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں ؟
نبی ﷺ کا فرمان ہے:إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ باللَّيْلِ إلى المَسْجِدِ، فَأْذَنُوا لهنَّ.(صحيح البخاري:865)
ترجمہ:اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔
ان نصوص سے اور اس معنی کی دوسری دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جاسکتی ہے اور جب شوہر نے خصوصیت کے ساتھ باہر جانے سے منع کیا ہوایسے میں باہر نکلنا سخت قسم کی نافرمانی اور گناہ کا باعث ہے۔
سوال(4) : نوجوان خاتون کا مرد معلم سے قرآن کی قرات سیکھنا کیسا ہے ؟
مردوں کا عورتوں سے اور عورتوں کا مردوں سے دین سیکھنا جائز ہے ، یہ دونوں شکلیں عہد رسول میں پائی جاتی ہیں ۔ صحابہ کرام ازواج مطہرات سے مسائل پوچھا کرتے تھے اور صحابیات رسول اکرم ﷺ سے سوال کیا کرتی تھیں ۔ مسلم سماج میں کہیں کہیں جوان لڑکی امام اور مولوی صاحب کے سامنے بلاحجاب تعلیم حاصل کرتی ہے جہاں بسا اوقات خلوت بھی ہوتی ہے اور بسا اوقات اور بھی لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ یہ بڑے فتنے کا باعث ہے ، اپنے سماج سے اس پرفتن اور ناجائزطریقہ تعلیم کوختم کریں۔ رہا مسئلہ پردے کے پیچھے سے بغیر اختلاط وخلوت کے اور شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئےمدرسہ یا کسی جگہ تعلیم دینے کا تو یہ صورت جائز ہے ،ایسی جگہ پہ لڑکیاں اور عورتیں مردوں سے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں ۔
سوال(5): گھروں میں چیوٹیاں تکلیف دیں تو انہیں مارنا چاہئے کہ نہیں ؟
جواب : نبی ﷺ نے چیونٹی کو مارنے سے منع فرمایا ہے جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
إنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ نهى عن قتلِ أربعٍ من الدوابِّ ؛ النملةِ، والنحلةِ، والهدهدِ، والصّردِ(صحيح أبي داود:5267)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں کے قتل سے روکا ہے چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد، لٹورا چڑیا۔
اس حدیث کی شرح میں عون المعبود میں مذکور ہے کہ جو چیونٹی ضرر پہنچانے والی ہو اسے مار سکتے ہیں ۔ یہاں پر بڑے پاؤں والی سلیمانی چیونٹی مراد ہے کیونکہ وہ کم نقصان پہنچانے والی ہے لیکن چھوٹی چیونٹی زیادہ ضرر رساں ہوتی ہے اسے مار سکتے ہیں۔ امام مالک نے کہا کہ اگر چیونٹی ضرر رساں ہو اور ضرر دور کرنے کے لئے قتل کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو تو مار سکتے ہیں ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ گھروں میں موجود چھوٹی چیونیاں جو ضرر پہنچاتی ہوں انہیں قتل کرسکتے ہیں ۔
سوال(6) : باپ کا اپنے بیٹے کی سالی سے نکاح کرنے کا حکم کیا ہے ؟
جواب : باپ  کا اپنے بیٹے کی سالی اور اسی طرح بیٹے کی ساس سے نکاح کرنا جائز ہے کیونکہ وہ محرمات میں سے نہیں ہیں ۔
سوال(7): گھروں میں کام کرتے وقت ٹیپ وغیرہ سے قرآن کی تلاوت لگاسکتے ہیں تاکہ تلاوت سے بھی فائدہ اٹھائیں اور کام بھی کرتے رہیں ؟
جواب : سورہ اعراف میں حکم دیا گیا ہے کہ جب قرآن کی تلاوت ہو تو دھیان سے سنو اورخاموشی اختیار کرو، یہ حکم اللہ نے اس وقت دیا جب کفار تلاوت کے وقت شور مچایا کرتے تھے جیساکہ فصلت میں کفار کا حال مذکور ہے وہ کہتے تھے اس قرآن کو نہ سنواور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور وغل مچایاکرو۔
قرآن کی تلاوت کے آداب میں سے ہے کہ اسے غور وفکرسے سنا جائے اور عورتیں اپنے گھروں اور مطبخ میں کام کرتے وقت خاموشی سے تلاوت بھی سننا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس جگہ شورشرابہ ہو تو تلاوت نہ لگائی جائے کیونکہ ایسے میں قرآن کی اہانت ہوتی ہے ۔ تلاوت سے اصل مقصود ہے خاموشی سے اس کے معانی پہ غوروفکر کیا جائے تاہم جو عربی نہ سمجھے اس کے لئے بغیر غوروفکر کے بھی دھیان سے اور خاموشی کے ساتھ قرآن سننا باعث اجر ہے ۔
سوال(8): جنبی عورت کا وضو کرکےمسجد یا اس کے صحن میں بیٹھنا کیسا ہے ؟
جواب : اللہ کےفرمان: "وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ(النساء:43) کا ایک مطلب اہل علم نے یہ لیا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد کے اندر مت بیٹھو ،ہاں مسجد سے گزرنے کی ضرورت ہو تو گزر سکتے ہیں ۔
لہذا اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ ضرورت کے وقت جنبی مسجد سے گزر سکتا ہے یا مسجد میں مختصر وقت کے لئے داخل ہوسکتا ہے تاہم دیر تک مسجد میں ٹھہر سکتا ہے کہ نہیں ، اس میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ وضو کرنے کے بعد ناپاکی کم ہوجاتی ہے اس وجہ سے مسجد میں جنبی وضو کے بعد ٹھہر سکتا ہے ۔ دلیل میں عطاء کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے :
رأيتُ رجالًا من أصحاب رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يجلسونَ في المسجدِ وهم مُجنِبونَ إذا توضَّؤوا وضوءَ الصَّلاةِ۔
ترجمہ: میں نے اصحاب رسول کو نماز کی طرح وضو کرکے مسجد میں بیٹھتے دیکھا اس حال میں کہ وہ جنبی تھے ۔
اس کی سند کو شمس الحق عظیم آبادی نے صحیح کہا ہے ۔(غاية المقصود:2/291)ابن کثیر نے مسلم کی شرط پہ کہا ہے ۔
شیخ صالح فوزان نے الملخص الفقہی میں کہا کہ جس کو حدث اکبر لاحق ہو وہ وضو کرلے تو اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہوگیا انہوں نے دلیل کے طور پر مذکورہ قول پیش کیا ہے ۔
جہاں تک نبی ﷺ کا یہ فرمان کہ میں حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں سمجھتا ، اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔
سوال(9): حیض سے پاک ہوکر غسل کرنے سے پہلے جماع کرنے کا حکم کیا ہے ؟
جواب : سورہ بقرہ کی آیت نمبر دو سو بائیس میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب وہ پاک ہوجائیں تب ان کے پاس جاؤ۔ اہل علم نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کہ حیض سے پاک ہونے پر جماع کرنا جائز ہے یا غسل جنابت کے بعد ہی جماع کرسکتے ہیں ۔ راحج معلوم ہوتا ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہوجائے اور غسل جنابت کرلے تب جماع کرے ۔ اس بات کو علامہ ابن کثیر نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں علماء کا متفقہ مسئلہ کہاہے۔
سوال(10): پیار ومحبت کے طور پر میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے گانا گا سکتے ہیں ؟
جواب : مجرد گانا منع نہیں بلکہ لغو، جھوٹ ،فحش اور بےہودہ گوئی منع ہے یا ایسا گانا منع ہے جو آلات موسیقی یا رقص پہ گایا جایا۔مجرد صحیح کلام جو لحن سے پڑھا جائے اس کی ممانعت نہیں ہے اس لئے میاں بیوی صحیح باتیں ایک دوسرے کے سامنے گاسکتے ہیں ۔
سوال (11):کیا عورت جماعت سے نماز پڑھے تو وہی ثواب ملے گا جو مردوں کے لئے ہے؟
جواب : عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے اگرچہ وہ اکیلے پڑھتی ہو اور جماعت سے نمازپڑھنے کا ستائیس گنا ثواب یہ مردوں کے ساتھ ہی خاص ہے کیونکہ وہ جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دئے گئے جبکہ عورتوں کو جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا محض جواز کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ وجوب اور افضلیت کا۔
سوال(12):خلع کے بعد میاں بیوی پھر سے لوٹنا چاہیں تو رجوع کا کیا طریقہ ہوگا؟
جواب : خلع کے بعد مرد کو طلاق کی طرح رجوع کا حق نہیں ہے کیونکہ خلع طلاق نہیں ہے بلکہ یہ فسح نکاح ہے جس میں رجعت نہیں ہے ۔ ہاں بیوی کی رضامندی کے ساتھ شوہر عدت کے دوران یا عدت کے بعد بھی نئے نکاح اور مہر جدیدکے ساتھ اکٹھا ہوسکتا ہے ۔
سوال(13):نفاس کی عدت میں اگر شوہر نے بیوی سے جماع کرلیا تو کیا حکم ہے ؟
جواب : حیض اور نفاس میں جماع کا حکم یہ ہے کہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے نیز اللہ سے سچی توبہ بھی کرے ۔
سوال(14):میاں بیوی الگ رہتے ہوں وہ اگر اپنی اپنی نیکیاں ایک دوسرے سے بیان کریں تو کیا ریاکاری میں شمار ہوگی ؟
جواب : اطلاع کی غرض سے میاں بیوی ایک دوسرے سے نیکی کا کام ذکر کریں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے مثلا بیوی کہے کہ ابھی نماز پڑھ رہی ہو یا تلاوت کررہی ہو، آج روزے سے ہوں اور شوہر کہے کہ میں نے زکوہ کا مال محتاجوں میں تقسیم کردیا ۔
 اگر ایک دوسرے سے نیکی بیان کرنے کا مقصد تعریف حاصل کرنا ہے تو اس سے بچنا چاہئے ۔ نہ جانے کس بہانے آپ کی نیت میں فتور پیدا ہوجائے اور عبادت ریاکاری میں تبدیل ہوجائے ۔ ویسے بھی شیطان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ انسانی دلوں میں وسوسے اور بہکاوے ڈالتا رہتا ہے ۔ ہم شیطان کو اپنے اوپر غلبہ پانے کا موقع نہ دیں ۔
سوال(15):عورت کبھی کبھار گھر میں اکیلی ہوتی ہے خصوصا جب شوہر باہر ہو تو کیا یہ منع ہے کیونکہ میں نے سنا ہے اکیلے نہیں رہنا چاہئے ؟
جواب: بستی میں آپ اپنے گھر میں اکیلے رہتے ہیں تو یہ معیوب نہیں۔ ہاں معیوب یہ ہے کہ کوئی لوگوں سے مل جل کر نہ رہے یعنی الگ تھلگ رہیں، کسی سے کوئی مطلب یا تعلق نہ ہو ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
المؤمنُ الَّذي يخالطُ النَّاسَ ويصبرُ على أذاهم أعظمُ أجرًا منَ المؤمنِ الَّذي لاَ يخالطُ النَّاسَ ولاَ يصبرُ على أذاهم(صحيح ابن ماجه:3273)
ترجمہ: وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ہے۔
سوال(16):کوئی گھر میں سویا ہوا ہو اس کے پاس نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب : اصل میں لوگوں میں غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ میت کو سامنے رکھ کرجنازہ کی نماز پڑھی جاتی ہے اس وجہ سے سوئے ہوئے آدمی کے پاس اس طرح نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ یہ خیال غلط ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي وأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةً علَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا أرَادَ أنْ يُوتِرَ أيْقَظَنِي، فأوْتَرْتُ.(صحيح البخاري:997)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (تہجد کی) نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر عرض میں لیٹی رہتی۔ جب وتر پڑھنے لگتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
لہذا گھر میں کوئی سویا ہو تو اس کے پاس نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(17):کیا خالہ ماں کے برابر اور چچا باپ کی طرح ہے ؟
ہاں خالہ ماں کے درجہ میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :
الخَالَةُ بمَنْزِلَةِ الأُمِّ(صحيح البخاري:2699)
ترجمہ: خالہ ماں کے درجے میں ہے۔
اور چچا کے متعلق وارد ہے:العمُّ والِدٌ۔(صحيح الجامع:4142)
ترجمہ: چچا والد کے درجہ میں ہے ۔
سوال(18):گھر بدلنے کے لئے کیا کوئی دن افضل ہے ؟
جواب : گھر بدلنے کا نہ کوئی خاص دن ہے ، نہ ہی کوئی خاص طریقہ ہے اور نہ ہی کوئی دعا ہے ۔آپ کے لئے جب مناسب ہو اور جس طریقے سے آسانی ہو گھر بدل سکتے ہیں ۔
سوال(19):کیا بیوی کی وفات پر شوہر کے لئے بھی سوگ منانا ہے جیسے شوہر کی وفات پہ بیوی مناتی ہے ؟
جواب : سوگ منانا عورتوں کے ساتھ خاص ہے ،مردوں پر کوئی سوگ نہیں ہے ۔
سوال(20):کیا آج کل کے فتنے کے زمانے میں جوان سسر سے پردہ کرناچاہئے ؟
جواب : سسر سے پردہ نہیں ہے کیونکہ وہ محرم ہے لیکن اگر بہو کوپتہ چلے کہ اس کا سسر بدکردار ہے تو اس سے خود کو محفوظ رکھے۔ 
مکمل تحریر >>