Saturday, December 28, 2019

زمین وآسمان کا مالک اور سارے جہان کا بادشاہ اللہ ہے


زمین وآسمان  کا مالک اور سارے جہان کا بادشاہ اللہ  ہے

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

پاک ہے وہ اللہ جس کی بادشاہت ہمیشہ سے زمین وآسمان پر قائم ہے ، اسی کے لئے اعلی صفات اور بلندی وپاکیزگی ہیں۔ وہ ہرعیب سے پاک اور تمام قسم کی خوبیوں کا مالک ہے۔جس طرح وہ ساتوں آسمان اس کے اختیار وقدرت میں ہیں ،ان میں جس طرح چاہتا تصرف کرتا ہے اسی طرح ساتوں زمیں پر بھی اسی کی بادشاہت ہے ۔ بظاہرزمین پر ہمیں انسانوں میں بھی ملکوں کے بادشاہ وحاکم نظر آتے ہیں مگر وہ وقتی بادشاہ ہیں حقیقی بادشاہ تو زمین وآسمان کا خالق اللہ رب العالمین ہی ہے ،وہی خالق کائنات زمین پر جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران:26)
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
یہ آیت بتلاتی ہے کہ لوگوں کی بادشاہت زائل ہونے والی ہے ،آج کسی کو اللہ بادشاہ ہونے کا موقع دیتا ہے تو کل اس کی جگہ کسی اور کو مقررکردیتاہےجبکہ خود ہمیشہ سے بادشاہ ہے ۔ وہ زمین وآسمان میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے اور اپنی تدبیرسے سارے جہان کا نظام چلاتا ہے ۔
تواریخ اور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سے دنیا بنی اس وقت سے لیکرآج تک کوئی ایسا انسان نہیں گزراجو ازآدم تاایں بادشاہ بنابیٹھا ہو، اس کی بادشاہت ختم نہ ہوئی ہو۔بہت بڑی سچائی یہ ہے کہ انسان کی زندگی محدود ہے ، وہ اپنے حصے کی دنیا کاٹ کر اللہ کے حکم سے مرجاتا ہے ، موت کی وجہ سے پھر اس انسان کا دنیاوی رشتہ کٹ جاتا ہے ، وہ بادشاہ رہا ہوتو اس کی بادشاہت ختم ، زمین وجائیداد کا مالک رہا ہو تو اس کی ملکیت ختم بلکہ مال ومنال کے ساتھ تمام انسانوں سے اس کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے بھلا اس حقیقت کا انسان دنیا کا حقیقی بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے ؟
اس بات کو ایک مثال سے یوں بھی سمجھیں کہ سلمان کو سعودی عرب کی بادشاہت نصیب ہوئی تو اس کے دو احوال ہوسکتے ہیں ۔ ایک حال تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی زندگی میں ہی اس کی بادشاہت ختم ہوجائےگی یا دوسرا حال یہ ہوگا کہ موت سے اس کی بادشاہت ختم ہوجائے ۔ یہ دوحالت دنیا کے تمام گزشتہ حاکم وبادشاہ کی رہی ہے اور آئندہ بھی یہی حالت سارے دنیاوی بادشاہ وحاکم کی رہے گی ۔
قرآن میں اللہ کے لئے مُلْك (بادشاہت) اور مَالِك، مَلِك ، مليك بادشاہ کے معنی میں آیا ہے ،آپ کی خدمت میں قرآن مجید سے چند آیات پیش کرتا ہوں جن میں اللہ تعالی بیان کرتا ہے کہ زمین وآسمان کا بادشاہ وہی ہے ، فرمان الہی ہے :
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرۃ:107)
ترجمہ: کیا تجھے علم نہیں کہ زمین اور آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران:189)
ترجمہ:اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (المائدۃ:18)
ترجمہ:اور زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز اللہ تعالٰی کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الملک:1)
ترجمہ: بہت بابرکت ہے وہ (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔
فرعون لوگوں سے کہتا تھا "الیس لی ملک مصر" کیا مصرپر میری بادشاہت نہیں ہے ؟ذرا سوچیں کہ  کیا مصر پر آج بھی فرعون کی بادشاہت قائم ہے ؟ موسی علیہ السلام کے زمانے میں ہی اللہ نے فرعون کو ڈبوکر موت دیدی اور اس کی حکومت کا خاتمہ کردیا ، اس وقت سےلیکر آج تک مصر پر نہ جانے کتنے لوگوں نے حکومت کی ؟ لوگ آتے رہے اور جاتے رہے ، کسی کی بادشاہت ہمیشہ نہیں چلی اور نہ ہی چل سکتی ہے۔ کہاں گئے؟نمرودوشدادوہامان، سب دنیا سے مٹ گئے۔اللہ کا فرمان ہے : إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ (يوسف:40) یعنی فرمانروائی صرف اللہ تعالی کی ہے۔
اللہ تعالی دنیا کے بادشاہوں کو آسمان پر بادشاہت کرنے کا اختیار نہیں دیتا ، ان کو زمین پر ہی محدوداختیار دیتا ہےاور اختیار کی مدت بھی محدودہوتی ہےیعنی چند دنوں کے لئےمعمولی اختیاردیا جاتاہے۔
زمین کے بادشاہ چلتی ہوا ،برستے پانی ، گرجتی بجلی اوررونماہونے والا زلزلہ وطوفان نہیں روک سکتا کیونکہ ان سب چیزوں پر بادشاہت اللہ کی ہے۔ اللہ ہی آدم علیہ السلام کے زمانے میں بارش برساتا تھا، آفتاب کو طلوع وغروب کرتا تھا، رات ودن کو لاتا تھا، زندگی و موت دیتا تھااور آج بھی وہی بارش لاتا ہے ، سورج طلوع وغروب کرتا ہے ، رات ودن کو لاتا ہے اور زندگی وموت دیتا ہے ،اس لئے تو وہی دنیا کا حقیقی بادشاہ ہے۔
زمین وآسمان کے سارے خزانے بھی اسی کے ہیں ،انسان کی نہ زمین اپنی ہے، نہ سونے چاندی اپنے ہیں حتی کہ اس کا اپنا جسم وبدن بھی اپنا نہیں ۔ذرا غور کریں اور اللہ کی بادشاہت پر ایمان پختہ کریں۔ انسان کاپورا جسم اللہ کا دیا ہوا ہے پھر اس جسم کے تمام عضو اور تمام حرکات وسکنات پر اللہ کی بادشاہت ہے۔ آنکھوں سے دیکھنے پر اللہ کی بادشاہت ہے، کانوں سے سننے پر اللہ کی بادشاہت ہے، ناک سے سونگھنے اور سانس لینے پر اللہ کی بادشاہت ہے ، ہاتھ وپیر سے حرکت کرنے ، دل ودماغ سے سوچنے اور سونے جاگنے تمام چیزوں پر اللہ کی بادشاہت ہے۔ انسان بادشاہ کیا مجبور محض ہے۔ اس کو ہرلمحہ اپنے خالق ومالک کی مہربانی چاہئے ورنہ اس کے جسم کا کوئی کل پرزہ کسی کام کا نہیں ۔ اللہ چند لمحوں کے لئے آنکھوں سے بصارت چھین لے اندھا بن جائے گا، کانوں سے سماعت لے لے بہرہ ہوجائے گا ، دل ودماغ سے سوچ وفکر سلب کرلے پاگل ہوجائے گا اور جسم سے روح نکال لے مردہ قرارپائے گا۔
پاک ہے وہ پروردگار جو ہمیں گوناگوں نعمتوں سے نوازاہے مگر کم ہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کرتے ہیں اور اس کا کہا مانتے ہیں ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ(المنافقون:7)
ترجمہ: اور آسمان و زمین کے کل خزانے اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں لیکن یہ منافق بے سمجھ ہیں۔
اور حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے :
يا عِبَادِي لو أنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وإنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا في صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فأعْطَيْتُ كُلَّ إنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، ما نَقَصَ ذلكَ ممَّا عِندِي إلَّا كما يَنْقُصُ المِخْيَطُ إذَا أُدْخِلَ البَحْرَ( صحيح مسلم:2577)
ترجمہ: اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، آدمی اور جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو مانگے سو دوں تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو۔
سبحان اللہ ،اللہ سارے خزانوں کا مالک ہے اور جتنا چاہے کسی کو دے اس کے خزانے میں کچھ بھی کمی نہیں ہوتی پھربھی مسلمانوں کی اکثریت غیراللہ سے مانگنی ہے۔ ایسے میں اللہ کا عذاب ان  پر نہیں آئے گا تو کیا آئے گا؟
آج اللہ بادشاہ ہے ساتھ ہی انسانوں کو اچھائی اور برائی کرنے کی مہلت بھی دے رکھی ہے ، کل آخرت میں جب بادشاہ ہوگا تب اس کی طرف سے کوئی مہلت نہیں ہوگی ۔ نیکی کا بدلہ اچھا اور ظلم کا بدلہ برا ہوگا،غرض دنیا میں انسان نے جو کچھ کیا ہوگا ،مالک یوم الدین(قیامت کے دن کا بادشاہ )قیامت میں ذرہ ذرہ کا حساب لے گااوراللہ پوچھے گاآج کس کی بادشاہت ہے؟
يَوْمَ هُم بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (غافر:16)
ترجمہ: جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟ فقط اللہ واحد و قہار کی ۔
ارشادباری تعالی ہے :الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا(الفرقان:26)
ترجمہ: اور اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا ۔
نبی ﷺفرماتے ہیں:يَطْوِي اللَّهُ عزَّ وجلَّ السَّمَواتِ يَومَ القِيامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بيَدِهِ اليُمْنَى، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ، أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الأرَضِينَ بشِمالِهِ، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ؟(صحيح مسلم:2788)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں غرور کرنے والے؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا (جو داہنے کے مثل ہے اور اسی واسطے دوسری حدیث میں ہے کہ پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں) پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں بڑائی کرنے والے؟
اس حدیث کی روشنی میں اللہ کی بے مثال قدرت اور اس کی عظیم بادشاہت کے بارے میں غور فرمائیں کہ اللہ قیامت والے دن اس قدربلندوبالا سات طبقوں والاآسمان (جس میں چاندزمین سے پچاس گنابڑا اور سورج زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑاہے)لپیٹ کر دائیں ہاتھ میں اور ساتھ طبقوں والی زمین خزانوں سمیت دوسرے ہاتھ میں لے لے گا۔ اس دن دنیا کے ظالم بادشاہوں کا کیا حال ہوگا؟ نبی ﷺ اس بابت بیان فرماتے ہیں :
أشدُّ الناسِ يومَ القيامةِ عذابًا إِمامٌ جائِرٌ(صحيح الجامع:1001)
ترجمہ: قیامت کے دن طالم بادشاہ کو سب سے زیادہ شدید عذاب دیا جائے گا۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ ہی زمین وآسمان کا مالک اور سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ اس کی بادشاہت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ اسی نے ہمیں اور پوری کائنات کو پیدا کیا ہے لہذا ہمیں ہمیشہ اس سے ڈرنا چاہئے اور اس نے اپنی بندگی کی خاطر ہمیں پیدا کیا ہے سو خالص اس کی بندگی بجالانا چاہئے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی ذرہ برابر شریک نہیں کرنا چاہئے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ زمین وآسمان کے سارے خزانوں کا مالک اکیلا اللہ ہےاور وہی اپنی تدبیر سے ساری مخلوق کی پرورش کرتا ہےاس لئے ہمیں جس چیز کی بھی حاجت پڑے اپنے رب سے مانگیں وہ اپنےمحتاج ومانگنے والے بندوں کو محروم نہیں کرتا ۔
تیسری  اور آخری بات یہ ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کو اللہ ملک کا حاکم بنائے یا گاؤں اور گھر کا سربراہ بنائے تو کبھی بھی اپنے ماتحتوں پر ظلم نہ کریں ، یاد رکھیں اللہ کی نظروں سے کچھ بھی اوجھل نہیں ہے او ر ظلم وفساد کرنے والوں کووہ دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اوریقینا آخرت میں بھی سزا دے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی ہمیں شعور ہونا چاہئے کہ اللہ کے فضل سے ہی کسی کو جاہ ومنصب اور دولت وسلطنت ملتی ہے لہذا نہ کبھی غرور کریں اور نہ ہی اپنے جاہ ومنصب اور دولت وسلطنت کا غلط استعمال کریں ، دنیا کی نعمت آنکھ کھلی رہنے تک ہے نگاہ بند ہوتے ہی سب کچھ چلا جاتا ہے اوراندھیرا چھا جاتا ہے۔

مکمل تحریر >>

Tuesday, December 24, 2019

سورج و چاند گرہن اور روہت ہلال



سورج و چاند گرہن اور روہت ہلال

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

سورج او رچاند دونوں اللہ کی مخلوق اور اس کی عظیم نشانیاں ہیں ، ان دونوں چیزوں میں اللہ  نے مخلوق کے لئے سیکڑوں  فوائداورمظاہر رکھے ہیں ، ان مظاہر میں سے سورج وچاند گرہن بھی ہے ۔ سورج یا چاند میں گرہن لگنا بطور عذاب ہے ، اللہ تعالی گرہن کے ذریعہ بندوں کو ڈراتا اور اپنی طرف لوٹنے کے لئے تنبیہ کرتا ہےلہذا جب کبھی سورج یا چاند گرہن لگ جائے تو ہمیں نماز اور استغفار کے ذریعہ اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے اور اللہ کے دین کی طرف پلٹ جانا چاہئے ۔
ماہرین فلکیات نے خبردی ہے کہ ہندوپاک میں بعض مقامات پر ۲۶/دسمبر۲۰۱۹ بروز سوموارسورج گرہن لگے گا، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجرد علم فلکیات پر بھروسہ کرکے اس کے اعلان شدہ وقت پر نماز کسوف ادا کی جائے یا آنکھوں سے سورج گرہن دیکھنا ضروری ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ سورج گرہن آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی نمازکسوف ادا کی جائے گی کیونکہ یہ نماز کسوف کے دورانیہ میں ادا کی جائے گی اور جب کسوف پیدا ہی نہ ہوتو پھراس کی کوئی نماز نہیں ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکسوف کی ادائیگی کو اسے دیکھنے پر موقوف کیا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْنَا فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ(صحیح البخاری: 1040)
ترجمہ: ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبد اللہ نے یونس سے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا، ان سے ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ سورج کوگرہن لگنا شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اٹھ کر جلدی میں ) چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ساتھ ہی ہم بھی گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تاآنکہ سورج صاف ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت وہلاکت سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھو تو اس وقت نماز اور دعا کرتے رہو جب تک گرہن کھل نہ جائے۔
اس حدیث میں بالکل واضح ہے کہ جب تم سورج وچاند گرہن دیکھو تب نماز پڑھولہذا جو لوگ بغیر دیکھے ماہرین فلکیات کی خبروں پر اعتماد کرکے نمازکسوف یا نمازخسوف ادا کرتے ہیں وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔
یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ سورج یا چاند کی رویت جس خطے میں ہوگی وہیں نمازکسوف یا نماز خسوف ادا کی جائے گی اور جن مقامات پر سورج یا چاند گرہن نہ ہواس خطے والے سورج یاچاند گرہن کی نماز ادا نہیں کریں گے ۔ جو لوگ رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں ایک جگہ کی رویت پوری دنیا کے لئے مانتے ہیں وہ بڑی خطا پر ہیں ۔ یہاں رویت سے مراد آنکھوں کی رویت ہے نہ کہ علم یا خبر۔ رویت اصل میں آنکھوں سے دیکھنےکو ہی کہاجاتا ہے البتہ کہیں قرینہ صارفہ ہوتو اس کی الگ بات ہے ۔ اس بات کو ایک دوسری حدیث سے سمجھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سانپ وبچھو دیکھنے پر اسے مارنے کا حکم دیا ہے ، یہ حکم پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ہے ، اب اگر ہند کی کسی مسجد میں سانپ دکھے تو امریکہ والے سانپ نہیں ماریں گے کیونکہ اسے سانپ دکھا ہی نہیں ، اسی طرح روزہ ، عید اور نمازکسوف وخسوف میں رویت کا مسئلہ ہے ۔

مکمل تحریر >>

Friday, December 20, 2019

ظالم فرعون پر اللہ کا عذاب اورعبرت ونصیحت


ظالم فرعون پر اللہ کا عذاب اورعبرت ونصیحت

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب

ظلم اندھیرا ہے ، فساد فی الارض ہے اور کرہ ارض پردنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے ۔ اللہ تعالی شرک کے علاوہ اپنے نفسوں پراور اللہ کےحق میں ہوئے ظلم وزیادتی کو چاہے تو معاف کرسکتا ہے مگربندوں کے حق میں ظلم وزیادتی کرنے والوں کوہرگز معاف نہیں کرے گا ۔ بھلے دنیا کی عدالتوں میں ایسے ظالموں کے لئے کوئی سزا نہیں مگرخالق کائنات کی عدالت سے دنیا کی سزامقرر ہوتی ہے اور ضرور اسے مل کررہتی ہے ، آخرت میں تو الگ سے سزا مقرر ہےہی ۔انسانی تاریخ ظالموں کی عبرتناک سزاؤں سے بھری پڑی ہے ، میں یہاں قرآن مقدس کے حوالے سے دنیا کے ظالم ترین انسان فرعون کے ظلم واستبداد اور اس پر اللہ کے قہر وعذاب کا ذکرکرنا چاہتا ہوں جس میں دنیا والوں کے لئے عبرت ونصیحت ہے مگر کم ہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ، اللہ کا فرمان ہے : فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (یونس:92)
ترجمہ: سوآج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔
بنی اسرائیل جس کی طرف موسی علیہ السلام بھیجے گئے ، دراصل یعقوب علیہ السلام کی بارہ اولاد سے چلنے والی بارہ قبائلی نسلیں ہیں جو مصر میں تھیں ۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا تھا ، ان کو پوری دنیا پر برتری  اور حکومت عطا فرمائی تھی ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (البقرة:47)
ترجمہ: اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ۔
مصرمیں قبطیوں کی بھی قوم تھی جس سے فرعون یعنی بادشاہ ہوا کرتا تھا، جب بنی اسرائیل نے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی ، حد سے تجاوز کیا تو اللہ نے ان پر چارصدیوں تک ظالم فراعنہ کو مسلط کردیا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنارکھا تھااور ان میں سے کوئی یہاں سے بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ دوبارہ اللہ نے نبی اسرائیل پر مہربانی کی اور موسی علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بناکر بھیجا اور آپ کی بدولت فرعون  کے ظلم سے نجات دی ۔
موسی علیہ السلام اور فرعون کا قصہ بڑا طویل ہے ۔ سورہ قصص، سورہ شعراء اور دیگر متعدد مقامات پر اس کی تفاصیل مذکور ہیں ، میں قرآن اور تفاسیرکے حوالے سے مختصر طورپر یہاں موسی علیہ السلام کا قصہ اور بنی اسرائیل کا فرعون کے ظلم سے نجات بیان کردیتا ہوں ۔ موسی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے نجومیوں اور کاہنوں نے فرعون کو خبردی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیداہونے والا ہے جو اس کی حکومت وسلطنت کا خاتمہ کرنے والا ہے ۔ اس وجہ سے فرعون بنی اسرائیل کا ہرلڑکا قتل کروانا شروع کردیا، قتل کی وجہ جب خدمت گزار نبی اسرائیلیوں کی کمی ہونےلگی تو پھرایک سال لڑکوں کو قتل کروانا شروع کیا اور ایک سال چھوڑ دیا کرتا تھا۔ موسی کےبڑے بھائی ہارون کی پیدائش قتل والے سال سے پہلے اور موسی علیہ السلام کی پیدائش قتل والے سال ہوئی ۔ اللہ نے موسی علیہ السلام کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے تابوت میں رکھ کر دریا میں بہادواور کوئی غم نہ کرو، ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ اس بچے کو اس کے پاس دوبارہ لوٹائے گا اور اسے پیغمبر بھی بنائے گا۔ ماں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور بیٹی کو لوگوں کی نظروں سے دورہوکراسے دیکھتے رہنے کی تاکید کی ۔قدرت کا کرشمہ کہ اس تابوت پہ فرعون کے حواریوں کی نظر پڑتی ہے وہ اسے دربار میں لے آتے ہیں ، لڑکا دیکھ کرفرعون نے قتل کا حکم دیا مگر فرعون کی بیوی نے یہ کہہ کر بچا لیا کہ شاید یہ ہمارے کسی کام آئے یا اسےہم  اپنا بیٹا بنالیں ۔قدرت نے بچے کو ماں کا ہی دودھ پلایا کیونکہ اس نے کسی کا دودھ پیا ہی نہیں۔فرعون جسے اپنے ہلاک کرنے والے کی تلاش تھی ، اس کے قتل کے درپے تھا اور اس کام کے لئے سیکڑوں لڑکوں کا قتل کرواچکا تھا اس وقت وہ اپنے محل میں اسی کی پرورش کر رہا تھا۔ یہ بھی قدرت کا عظیم کرشمہ ہے۔ جوانی تک وہاں پلے بڑھے ، ایک روز انہوں نے ایک قبطی کو بنی اسرائیل پر ظلم کرتے دیکھا ، پہلے اسے منع کیا،باز نہ آنے پر ایک مکارسید کردیا اور قبطی اسی وقت مرگیا ۔ اس ڈرسے کہ کہیں فرعون قبطی کو قتل کرنے کے جرم میں ہمیں نہ قتل کروادے وہ مدین چلے گئے ۔ وہاں ایک کنواں پر لوگوں کو جانور سیراب کرتے دیکھا، ان میں دولڑکیاں بھی تھیں جو کافی دیر سے انتظار کرہی تھیں ،موسی  علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم سب سے آخر میں اپنے جانور کو پلائیں گے ۔ موسی  علیہ السلام نے پانی پلانے پر ان کی بغیراجرت مددکی، لڑکیاں گھر جاکر اپنے والد کو آپ کے بارے میں بتایا اور امانتدار وقوی ہونے کی صفت بتاکراپنے یہاں کام پر رکھنے کی صلاح دی۔ باپ نے موسی علیہ السلام  کو طلب کیا اور آٹھ سال خدمت کرنے پر اپنی ایک بیٹی سے نکاح کا وعدہ کیا ،اگر دس سال پورے کریں تو یہ احسان ہوگا۔ موسی علیہ السلام راضی ہوگئے ۔ جب خدمت کرتے کرتے مدت پوری ہوگئی تو بوڑھے باپ نے آپ سے ایک بیٹی کا نکاح کردیا۔ اب موسی علیہ السلام اپنے اہل و مال کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آگ کی تلاش میں ایک جگہ ٹھہر گئے ۔ بیوی کو انتظار کرنے کہا اور خوداس جگہ آگ لینے چلے گئے جہاں سے روشنی نظر آرہی تھی ۔ وہاں پہنچنے پر اللہ نے موسی علیہ السلام سے کلام کیااور آپ کو نبوت سے سرفرازفرماکر فرعون کی طرف جاکر اسے نرمی سے تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ نے آپ کو بطور معجزہ نو نشانیاں عطا فرمائی ۔ موسی علیہ السلام کے اندر ایک خوف تو یہ تھا کہ انہوں نے قبطی کومار دیا تھا اور دوسرا خوف یہ تھا کہ فرعون بڑا ظالم تھا،وہ رب ہونے کا دعویدار ہےساتھ ہی  آپ کی زبان میں لکنت بھی تھی اس لئے اللہ سے چارباتوں کی دعاکی،اللہ فرماتاہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي، يَفْقَهُوا قَوْلِي، وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي، هَارُونَ أَخِي، اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي، وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي(طہ:25-32)
ترجمہ: موسی نے کہا اے میرے پروردگار!(1)میرا سینہ میرے لئے کھول دے (2)اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے  (3)اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں (4)اور میرا  وزیر میرے کنبہ میں سے کردے یعنی میرے بھائی ہارون کو، تو اس سے میری کمر کس دے اور اسے میرا شریک کار کردے۔
دونوں بھائی موسی اور ہارون علیھما السلام نے فرعون کو ر ب العالمین کا پیغام سنایااور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف بلایا مگر اس نے سرکشی کی اور نبوت کی نشانیاں طلب کی ۔ موسی علیہ السلام نے اپنے نبی ہونے کا معجزہ پیش کیا، لاٹھی کا سانپ بن جانا، بغل میں ہاتھ لگانے سے اس میں چمک پیدا ہونا۔ فرعون نے جادوگری کہہ کراس کا بھی انکار کیا ۔ پھر فرعون نے اپنے ماہر جاگردوں سے موسی علیہ السلام کا مقابلہ کروایا ، مقابلے میں پہلے فرعون کے جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھیکی اور آخر میں موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھیکیں جو ازدھا بن کر جادوگروں کے تمام آلات نگل گیا ، یہ منظر دیکھ سارے جادوگر موسی اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ۔فرعون اب بھی ایمان نہ لایا اور خود کو ہی معبود کہلواتا رہا۔ لوگوں سے کہتا "اناربکم الاعلی یعنی میں تم سب کا سب سے بڑا معبود ہوں ۔ یہ فرعون کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ اس کےعلاوہ قرآن نے فرعون کوسرکشی کرنے والا، بنی اسرائیل پر ظلم وستم ڈھانے والا، ان کا قتل کرنے والا اور فساد مچانے والا کہا ہے ، اللہ فرماتا ہے :
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (القصص:4)
ترجمہ:یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بیشک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔
اس کے علاوہ رسول کی تکذیب کرنے والے فرعون اور اس کے لشکر کو قرآن نے کہیں ظالم قوم کہا، کہیں فاسق قوم کہا، کہیں قاہر تو کہیں سرکش وباغی اور کہیں متکبرکہا۔ ایک طرف فرعوں اپنے ان مظالم کی وجہ سے اللہ کی عدالت سے دردناک عذاب کا مستحق تھا ہی ،دوسری طرف  موسی علیہ السلام نے اس کی ہلاکت کی اللہ سے دعا بھی مانگ لی ، اللہ فرماتاہے:
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (یونس:88)
ترجمہ:اور موسیٰ نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے اے ہمارے رب! ( اسی واسطے دیئے ہیں کہ ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں ۔ اے ہمارے رب! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔
پھر کیا تھا، دنیا میں ہی فرعون اور اس کے لشکروں پر اللہ کی طرف سے قسم قسم کا عذاب آنا شروع ہوگیا۔ قحط سالی، پھلوں کی کمی،طوفان،ٹڈیاں،گھن کا کیڑا ، مینڈک اور خون کا عذاب آیاحتی کے ان کے ساختہ پرداختہ کارخانے اور اونچی اونچی عمارتوں کو بھی درہم برہم کردیاگیا، فرعون موسی علیہ السلام سے عذاب ہٹانے کے بدلے بنی اسرائیل کی آزادی کا وعدہ کرتا مگر کبھی نبھاتا نہیں ۔
فرعون اور اس کے لشکروں پر دنیا کا سب سے بڑا عذاب یہ آیا کہ جب موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لیکر ایک دن اچانک بھاگ نکلے اور فرعون مع لشکر ان کا پیچھا کیا ، دریا کے پاس پہنچ کر موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پانی پر لاٹھی ماری اور بارہ راستے بن گئے ، اس طرح موسی علیہ السلام  اور ان کی قوم ان راستوں سے پار نکل کرہمیشہ کے لئے فرعونی ظلم وستم سے نجات پاگئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر دریا عبور کرنے لگے تو اللہ نے پانی کو آپس میں ملاکر ڈبودیا اور سب کو ایک آن میں موت کی نیند سلا دیا۔ اللہ کا فرمان ہے : وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ(البقرة:50)
ترجمہ: اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا چیر دیا اور تمہیں اس سے پار کرا دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔
ترمذی(3108) کی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو جبرائیل علیہ السلام فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونسنے لگے، اس ڈر سے کہ وہ کہیں «لا إلٰہ إلا اللہ» نہ کہہ دے تو اللہ کو اس پر رحم آ جائے۔
فرعون کو اس کے ظلم کے بدلے دنیا میں مختلف قسم کی سزا ملی ، دردناک طریقے سے غرق آب بھی کیا گیا،مرتے وقت فرشتےاس کے منہ میں دریا کی مٹی ڈھونس رہے تھے، مظلوم کے سامنے ظالم فرعون کوکیفرکردار تک پہنچایا گیا یعنی اس کو ڈبوکرمارا گیا، مرکربھی قیامت تک(عالم برزخ میں) فرعون اور اس کی آل کو عذاب ملتا رہے گااور قیامت میں بھی سخت ترین عذاب دیا جائے گا، اللہ کا فرمان ہے :
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (غافر:46)
ترجمہ: آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ۔
اس پورے واقعہ سے ایک اہم نصیحت ملتی ہے کہ اللہ نے موسی علیہ السلام اور آپ پر ایمان لانے والوں دنیا کے سب سے ظالم حکمراں سے نجات دی حتی کہ فرعون کی بیوی آسیہ بھی ایمان لے آتی ہے ، فرعون سے نجات اور جنت میں گھر کے لئے اللہ سے دعا کرتی ہے۔
ظالم فرعون کی ہلاکت وتباہی کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ دیکھو ظالم کیا انجام ہوا؟
فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (القصص:40)
ترجمہ: بالآخر ہم نے اسے اوراس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا برد کر دیا اب دیکھ لے کہ ان گنہگاروں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
ایک دوسری جگہ اللہ نے کہا کہ دیکھو فساد پھیلانے والے کا انجام کیا ہوا؟
ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (الاعراف:103)
ترجمہ: پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا ، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا ۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔
نصیحت سے متعلق ایک آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے فرعون کی لاش محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ بعد والوں کے لئے نصیحت رہے ، فرمان الہی ہے :فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (یونس:92)
ترجمہ: سوآج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔
اس آیت کے تناظر میں مصر کے میوزیم میں موجود ممی کی ہوئی لاش کو اکثرلوگ فرعون موسی کہتے ہیں ، واضح رہے کہ یہ محض ایک سائنسی تحقیق ہے اس لئے اس لاش کو حتمی طور پر فرعون کی لاش نہیں کہا سکتا اور نہ ہی حتمی طورپر یہ کہہ سکتے ہیں کہ لاش کی حفاظت سے مقصود قیامت تک حفاظت ہے کیونکہ آیت میں اس کی صراحت نہیں ہے ۔
مکمل تحریر >>

Thursday, December 19, 2019

مسلمان ڈرنے والی قوم نہیں ہے



مسلمان  ڈرنے والی قوم نہیں ہے

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف-سعودی عرب

جب سے ہندوتوا کو بنیاد بنانے والی اور اسے فروغ دینے والی حکومت برسرے اقتدار آئی ہے تب سے ملک میں بدامنی ، دہشت گردی اور فساد کو بڑھاوا ملا ہے ، اس حکومت سے پہلے بھی ملک میں فساد پائے جاتے تھے مگر اس قدر زیادہ نہیں ۔ اس کی مرکزی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کے اکثراہل سیاست ہی فسادی ہیں ، ان کے اکثر وبیشترمنسٹروں پرقتل، زنا، دہشت گردی اور غنڈہ گردی کے الزامات ہیں ، ان فسادی منسٹروں کی وجہ سے ملک کے دوسرے فسادیوں کا سرفخروغرور سے بلند ہے ۔ موجودہ اہل سیاست ہی لوگوں کو فساد پر ابھارتےہیں  اور پھرفسادیوں کی حفاظت ودفاع  بھی کرتے ہیں  تاکہ فسادی کی ہمت بلند رہے اور بے خوف ہوکر مزید فساد پھیلاتا رہے ۔
یہ لوگ اس لئے فساد مچاتے ہیں تاکہ ملک کا اقلیتی طبقہ ان سے ڈرا سہما رہےاوریہ ان پر  راج کرتے رہیں ، ان کا دین دھرم بدلتے رہیں ، ان کا خون  پانی کی طرح بہاتے رہیں ، ان کو غدار وطن اوردہشت گرد کہتے رہیں ، انہیں مجرم وفسادی کہہ کر جیل کی سلاخوں میں سڑاتے رہیں ، ان سے اپنی مرضی کا کام لیتے رہیں اور جے شری رام، وندے ماترم کا نعرہ لگواکر ان کو  مجبوراہندوانہ دین پر عمل کرواتے رہیں  ۔یاد رہے ہمارا خون بہ سکتا ہے ، ہم جیل کی سلاخوں میں جاسکتے ہیں ، ظلم وستم کے پہاڑ سہہ سکتے ہیں مگر نہ  باطل طاقت سے ڈرسکتے ہیں اور نہ ہی  اپنے دین وایمان کا سودا کرسکتے ہیں ۔ اس کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرکے بھگواحکومت اور بھگواتنظیموں نے سوچا اب ہم انہیں ڈرا لئے گئے مگر سبحان اللہ سی اے بی کے خلاف احمدآباد کی سڑکوں پر خواتین کا احتجاج دیکھ کر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جب یہ گجرات کی مسلم عورتوں میں قتل عام کرنے کی باوجود خوف پیدا نہیں کرسکےتو ہندوستان کے مسلم مردوں میں کہاں سے خوف پیدا کرسکے گا؟مسلمان نڈر اوربہادر قوم ہے ، ہمارے پاس ہتھیار نہ سہی ، اپنے حوصلوں سے لڑتے ہیں اورایمانی طاقت وقوت سے جنگ جتتے ہیں ۔
سی اے بی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی جلوسوں پر کنٹرول کرنے کے لئے حکومت نے متشددانہ رویہ اختیار کی ، پولیس سےگولی چلوائی، آنسو گیس چھوڑوائی ، انٹرنیٹ بند کروائی ،دھارا ۱۴۴ نافذ کی مگر احتجاج جوں کا توں ہے اور کہیں کسی طبقہ پر خوف طاری نہ ہوا۔ اب ہمارے حوصلوں سے حکومت خود ڈر گئی ہے ، نرمی سے بات کررہی ہے ، لوگوں کو پیار سے سمجھانے کی کوشش میں لگی ہے ۔ ایک بڑا گیم یہ بھی کھیل رہی ہے کہ مسلم رہنماوں کو خریدکران کے ذریعہ عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے دراصل یہ خود ڈر گئی ہے اور کسی طرح احتجاج رکوانا چاہتی ہے۔ دہلی کے شاہی امام  سید احمد بخاری نے حکومت کے ہاتھوں بکتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ این آر سی ابھی کوئی قانون نہیں ہے اس کا محض اعلان ہوا ہے ، صرف سی اے بی  قانون ہے اور اس سےہندوستانی  مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔یہ تو پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوئے مسلمانوں سے متعلق ہے اس کے تحت انہیں شہریت نہیں مل سکے گی۔ یہ شاہی امام کی زبان نہیں مودی اور امت شاہ کی زبان ہے ، اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت پوری طرح  ڈر گئی ہے اورخود سے کچھ نہیں کرپارہی ہے تو مسلمانوں میں میرجعفرومیرصادق کا کردار نبھانے والوں کو تلاش کررہی اور اپنی بات ان کی زبان سے اگلوانا چاہ رہی ہے ۔ ایک ایسے میرجعفربہار سے بھی سامنے آگئے ہیں ان کا نام ڈاکٹرخالدانور(ایم ایل سی) ہے ، ان کی پارٹی پہلے سنسد میں سی اے بی کی حمایت کرچکی ہے اور وہ اب یہ کہتے ہیں کہ بہار میں این آر سی لاگو نہیں ہونے دیں گے ۔واضح رہے کہ سی اے بی ایک قابون بن چکا ہے اور صرف آسام کے لئے نہیں ہے بلکہ  آسام وبہار سمیت  ہندوستان کے تمام صوبوں کے لئے لایا گیا ہے ، ایک موٹی عقل والا بھی سوچ سکتا ہے کہ کسی بھی صوبہ میں سی اے بی نافذ کرنے کے لئے پہلے این آرسی کی ضرورت پڑے گی اور اس کا اظہار امت شاہ نے سنسد میں بھی کیا ہے کہ این آر سی پورے ملک میں کی جائے گی، گویا سی اے بی اور این آرسی لازم وملزوم کی طرح ہیں ۔ ایسے میں ڈاکٹرخالد انور اور سیداحمد بخاری جیسے دوچہرےوالوں کی باتوں سے ہمیں دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
مجھے خدشہ ہے کہ ملک بھر میں لوگوں کا احتجاج نہ رکا تو ممکن ہے کہ اس طرح ہرصوبہ سے بلکہ  ملک کے کونے کونے سے میرجعفر ومیرصادق نکلے اور ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ سی اے بی سے  ہندوستانی مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے اس لئے چوکنا رہنے اور پرامن احتجاج جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ بابری مسجد کے فیصلے پر بھی ہم نے ایسے دوچہرے والے بہت سے رہنماوں کودیکھا تھاجنہوں نے عدالت کے فیصلے کو مسلمانوں کے حق میں صحیح قرار دیا ، دراصل ان لوگوں کو حکومت نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی خرید لیا تھا تاکہ فیصلہ آنے کے بعد لوگوں کی ذہن سازی کرکے خاموش  کرسکے ۔

مکمل تحریر >>

Tuesday, December 17, 2019

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا


ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا


تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف، سعودی عرب


ظلم کو قیامت کی تاریکی کا نام دیا گیا ہے ، اس تاریکی کو دنیا میں ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہئے مگر ہم کمزور ہیں ظلم کا خاتمہ کیسے کریں اور ظالموں کو کیفرکردار تک کیسے پہنچائیں؟آج ہندوستان میں مسلمانوں پر جس قدر ظلم ڈھایا جارہا ہے اس کی مثال انگریزی سامراج میں بھی نہیں ملتی ہے ۔ ہم ظلم اس لئے سہتے آرہے ہیں کہ ہم کمزور ہیں ، ہم  تعداد اور طاقت وقوت  ہراعتبار سے کمزور ہیں ۔ہم  بلامزاحمت قتل ہوتے رہے ، ہندوستان میں مختلف حصوں میں ہمارا خون پانی کی طرح بہایا گیا، دوسرے مسلمان بھائی اس خونی منظر کو دیکھتے رہے اور خاموش رہے ۔ گجرات میں تین ہزار مسلمانوں کو دن کے اجالے میں قسم قسم کی اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا ، مجرم سرے عام گھوم رہے ہیں مگرہم سراپا خاموش رہے ، کہاں جائیں اورکیا کریں ؟ حکومت ظالم ہے ، کورٹ کچہری سب پر ظالم حکومت کا قبضہ ہے ، ایسے میں ہم قتل ہوتے رہیں گے اور حکومت تماشہ دیکھتی رہے گی بلکہ مجرموں کی نہ صرف پشت پناہی کرتی رہے گی انہیں اس مجرمانہ کام پر اکسانے والی بھی یہی ہوگی ۔ دن کے اجالے میں بابری مسجد منہدم کردی گئی ، مجرم موجود ہیں ، ان کے خلاف  سارےثبوت موجود ہیں مگر ان مجرموں کو کوئی سزا نہیں مل سکتی کیونکہ حکومت ظالم ہے اور عدالتوں سے مجرم کو راحت تو مل سکتی ہے سزا نہیں مل سکتی ہے ۔ جب  حکومت نے ہمارے پرسنل لاء  میں دخل اندازی کی ،طلاق پر پابندی عائد کی  اورعدالت نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کا فیصلہ سنا یا  اس وقت یہ اندازہ ہوگیا کہ اب ہندوستان  کے کورٹ کچہریوں سے مسلمانوں کے حق میں بچا کچا انصاف بھی ملیامیٹ ہوگیا۔
جب  بی جے پی کی حکومت ہی لاشوں اور ظلموں کے ڈھیر پر بنی ہواس حکومت کا پارلمنٹ  سے  سی اے بی کا پاس کرانا کوئی امر محال نہیں ہے ۔ ہم کمزور ہوتے ہوئے ابتک سارے ظلم سہتے رہے مگر سوچ وفکر کا مقام یہ ہے کہ کیا یہ ظلم بھی پہلے کی طرح سہہ لیں گے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سہنے والا ظلم نہیں ہے ۔
اس قرار سے ہم سب مسلمانوں کی  جان ومال داو پر لگی ہے ، جہاں سارے مسلمان کی جان داو پر ہو وہاں کیسے خاموش رہ سکتے ؟ جہاں دستور ہند ہمیں عزت وآبرو، جان ومال اور دین وملت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے وہیں شرعی اعتبار سے بھی حق رکھتے ہیں کہ اپنی جان، عزت اور دین کی حفاظت کریں ، بایں طور قتل بھی کردئے گئے تو شہید کہلائیں گے ۔
پہلے ہمیں اپنی ایک غلطی کی اصلاح کرنی ہوگی ، مسلمان این آر سی کے ڈر سے جگہ جگہ کیمپ لگارہے ہیں اور اپنے اپنے کاغذات درست کررہے ہیں ، ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیا ہمیں اپنے ہندوستانی ہونے پر شک ہے ؟ بالکل شک نہیں ہے پھر حکومت کے ظالمانہ قانون سے ڈر کر ہندوستانی ہونے کا کیوں ثبوت پیش کریں ؟میں داد دیتا ہوں ان تمام صوبہ جات کے وزراء کو جنہوں نے این آر سی کی سخت مذمت کی ہے اور اپنے اپنے صوبوں میں اسے لاگو نہ ہونے دینے  کا اعلان کیا ہے ۔ حکومت کو قطعی اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ سارے ہندوستانیوں سے ہندوستانی ہونے کا ثبوت مانگیں ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنی ہوگی اور اپنے ساتھ غیرمسلموں کو بھی اس بھروسے میں لینا ہوگا۔ اگر کسی گاوں میں چوری ہوتو حکومت کا کام ہے چور پکڑے، وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ سارے گاوں والے ثبوت پیش کریں کہ ہم چور نہیں ہیں ۔ لہذا این آر سی کا سرے سے بائیکاٹ کریں جس طرح سی اے بی کا بائیکاٹ کررہے ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی بھی تعداد کم نہیں ہے مگر آپس میں مسلکی ٹولیوں میں بٹنے کی وجہ سے ہم کمزور لگ رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ہم اتنے کمزور بھی نہیں ہیں جتنا رونا روتے ہیں ۔ہم سب ایک  دین کے ماننے والے ہیں ،ہمیں اس  دین پر ایک ہونا ہوگا۔ ہم کو ایک کرنے کا طریقہ  بھی وہی ہوگا جس طریقہ سے ہم جدا جدا نظر آتے ہیں ۔ عوام کو گروہوں میں ان کے علماء نے تقسیم کیا ہے وہی علماء عوام کو ایک جگہ جمع ہونے کا درس دے کر جمع کرسکتے ہیں ۔ یہاں امیرالمومنین چننے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک جگہ جمع ہوکر مشترکہ کوششوں سے ظالمانہ قرار داد کی مخالفت کرنی ہے اور دستوری طور پراپنا حق بحال رکھنا ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ بہت سارے علماء ابتک یہ بیان جاری کرچکے ہیں کہ اس وقت ہمیں متحد ہونا چاہئے، ہمیں کیب کی مخالفت کرنی چاہئےاور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جمہوری ملک میں حقوق طلبی  اور ظالمانہ قرارداد مسترد کرنے کے لئے عموما مظاہرے ہی کرنا پڑتا ہے ، باشعور ہندوستانیوں نے اس بات کو محسوس کیا اور ہند کے اکثر علاقوں میں پرامن مظاہرے کررہے ہیں حتی کہ عصر ی طالب علموں نے اس میدان میں نمایاں اقدام کیا جس کی وجہ سے ان پر مظالم ڈھائے گئے، وہ سب طالب علم شکریہ کے حقدار ہیں  ۔ افسوس کا مقام ہے کہ مظاہرین کی صفوں میں علمائے امت ، رہنمائے ملت اورقائدین اسلام  نظر نہیں آرہے ہیں ۔جنگ آزادی میں علماء کی قیادت و شجاعت اور جان ومال کی قربانیاں ہمارے سامنے ہیں ۔ اس لئے صرف بیان بازی سے کام نہیں چلے گا ، اپنی اپنی جماعت وجمعیت لیکرقائدین وعلماء کوگھروں سے نکلناپڑےگا اور عوام کے شانہ بشانہ ہوکر پرامن مظاہرے میں حصہ لینا ہوگا۔
سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ کیب کی مخالفت میں پورا ملک بشمول  ہندو، سکھ، عیسائی ہمارے ساتھ ہے ، اپنوں میں او ر غیرمسلم بھائیوں میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ این آر سی ہم سب کے لئے خطرناک ہے ، ہم سب لوگوں کو پہلے یہ ثابت کرناہوگا کہ ہندوستانی ہیں اور ظاہر سی بات ہے یہ کام سب کے لئےبڑا دشوار ہے ، خاص طور سے غریب ومزدور لوگوں کے لئے جن کے پاس کاعذات محفوظ نہیں ہوتے، سیلاب زدہ علاقوں کے لئے  جن کا کوئی سامان محفوظ نہیں ہوتااورہندومسلم عورتوں کے لئے جن کے نام سے سرکاری کاعذات کم ہی ہوتے ہیں ۔ جب یہ شعور تمام لوگوں میں پیداہوجائے گا تو ان سب کے لئے کیب کی مخالفت کرنا آسان ہوگا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کیب کے خلاف پورے ہندوستان میں مظاہرے ہورہے ہیں ، ان میں مسلم علماء اور قائدین کی بھی  شمولیت ضروری ہے، ساتھ ساتھ لوگوں کو خصوصا غیرمسلموں کو این آر سی کی مشکلات کا احساس دلانا ہے اور ہمیں کوئی کاغذ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ہندوستان ہمارا ہے ، ہم یہاں پیدا ہوئے ، ہمارے باپ دادا نے انگریزوں کی غلامی سے ملک آزاد کرایا اور ان سب نے مل کر سیکولربھارت  بنایا جس کا آئیں سیکولر ہے ، اس آئین کے تحت سب کو ملک میں رہنے اور اپنے اپنے مذہب کے حساب سے جینے کا حق حاصل ہے ۔ کوئی اس سیکولربھارت اور سیکولرآئین کو توڑنے کی کوشش کرے توہمیں اسے اس ملک سے باہر کرنا چاہئے یا ایسے ظالم کے ہاتھوں حکومت نہیں سونپنی چاہئے یاکم ازکم  سیکولرزم کو ٹوٹنے سے روکنا چاہئے ، آخری کام تو ہمیں ہرحال میں کرنا ہوگا۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

مکمل تحریر >>

Saturday, December 14, 2019

مسلمان حساس اور بیدار قوم ہے،مسئلہ قیادت کا ہے۔


مسلمان حساس اور بیدار قوم ہے،مسئلہ قیادت کا ہے۔

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف ،سعودی عرب

جب بھی مسلمانوں کے ساتھ سیاسی معاملات پیش آتے ہیں اور انہیں مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے توعموما تجزیہ نگاروں میں ایک جملہ گردش کرتا نظر آتا ہے کہ مسلمان بے حس ہیں ،بے ضمیر ہیں ، مردہ قوم ہیں جبکہ یہ تجزیہ  خصوصا مشکلات کے وقت بالکل غیرمناسب اور مسلمانوں کی ہمت وحوصلے کو توڑنے والا ہے ۔ گوکہ ہمارے پاس ایمانی وعملی کمزوری کے ساتھ تعداد کی بھی کمی ہے ،  اسلحہ جات تو ہم گھروں میں رکھتے ہی نہیں ، ہمارا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے ۔ گھر میں سانپ نکل آئے تو بمشکل لاٹھی تلاش کرپاتے ہیں ، نیزہ ، بھالا  اور تلواروبندوق تو دور کی بات ہے۔
اس وقت ہندوستان پوری طرح بھگوا طاقت کی لپیٹ میں  ہے ،سنسد سے لیکر عدالت وکچہری تک ہرجگہ بھگوائی قوت واثر کا بول بالا ہے ،ایسے لگ رہا ہے جیسے کل ہندوستانی انگریزوں کے غلام تھے اور آج بھگوائی کے غلام ہیں ، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر فرق کہیں ملتا ہے تو بھگوائی میں دور دور تک انصاف نظر نہیں آتا جبکہ انگریزوں میں دوردور تک کہیں کہیں انصاف نظر آجاتا ہے ، انگریزکا اصل نشانہ مسلمان تھے ، کہیں کہیں ہندو بھی نشانے پر ملتے ہیں جبکہ بھگوا حکومت صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر رہی ہے اس کا جیتا جاگتا نمونہ ماب لنچنگ جوکہ اکثر مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے (بلکہ یہ کہہ لیں کہ  مسلمانوں میں دہشت پھیلانے اور انہیں مٹانے کا منصوبہ ہے) اس پر بالکل سردمہری اختیار کرنا ،کشمیر سے 370 ہٹانا، طلاق پر پابندی اور سزا نافذ کرنا ،بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کا عدالت عظمی سے فیصلہ صادر کرنااور سیکولر بھارت میں صرف مسلمانوں کے خلاف کیب(شہری ترمیم بل)  جیسا ظالمانہ بل پاس کرنا دیکھنے کو ملتا ہے ۔
اب تک بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جتنے بھی قوانین پاس کئے گئے ان میں سب سے زیادہ ظالمانہ ، وحشیانہ اور سفاکانہ قانون کیب ہے ۔ جس وقت کیب بل نافذ پاس کرانے کی بات چل رہی تھی تو کسی کو امید بھی نہیں تھی کہ بھاجپا سرکار دونوں ایوانوں سے کیب پاس کرالے جائے گی مگر جتنی آسانی سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے اس سرکار نے کیب پاس کرالیا اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے کہ اگر یہ قانون اٹل رہا اور پورے ملک میں نافذ کردیا گیا تو پھراتنی ہی آسانی سے بھارت سے مسلمانوں کا صفایا بھی کر لے جائے گی۔ مسلمانوں کی بقا اور تحفظ کے لئے اس بل کی روک تھام اور کالعدم قرار دینا نہایت ہی ضروری ہے ۔
اس بل کی روک تھام کیسے ممکن ہے ؟ میں نے مضمون کا عنوان قائم کیا ہے کہ مسلمان حساس اور زندہ قوم ہے ، مسئلہ قیادت کا ہے ۔ اس عنوان سے ہی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ؟۔
سب سے پہلے تو یہ بات اپنے اپنے ذہن سے نکالنی ہوگی کہ مسلمان مردہ اور بے ضمیر قوم ہے ،دشمن طاقت  ہماری  بیداری اور زندہ دلی کی حقیقت تسلیم کرتی ہے اور اس قدر خائف ہے کہ آج ہرجگہ مسلمانوں کے مٹانے کی بھیانک کوشش چل رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان کمزور اور مردہ قوم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم مسلمان بھارت میں ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر اپنا نہ صرف تشخص کھوبیٹھے ہیں بلکہ قوت وطاقت اور عزم وحوصلہ سب کچھ تقسیم ہوکر بے قوت ہوگئے ، ہمیں اپنی تعداد سمیٹ کر قوت وحوصلہ یکجا کرنا ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہم سارے مسلمان ایک جگہ جمع کیسے ہوں گے اور ہماری منشر طاقت کیسے یکجا ہوگی ؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ہم جنگ آزادی میں کیسے جمع ہوئے تھے ؟ ہم نے انگریزوں کو ملک سے کیسے نکالا تھا ؟ سب کچھ تاریخ میں مرقوم ہے ۔ اسی طرح پھر سے یکجا ہونا ہے اور ملک کو اور ملک کے مسلمانوں کو بھگوائی طاقت سے نجات دلا نا ہے ۔
آج مسلمانوں کے تمام طبقوں کو ان  سب کے علماء نے ایک دوسرے طبقے سے جدا کیا ہے، یہی جدا کرنے والے پھر سے ہمیں ایک جگہ جمع کرسکتے ہیں ۔تمام مسالک ومکاتب کے علماء کو اپنی عوام کی ذہن سازی کرنی ہوگی کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ان سے مل کر رہنا ہے ، ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا ہے ، ضرورت پڑی تو ان کے لئے جان ومال کی قربانی دینی ہے ۔ ساتھ ساتھ تمام مسالک کے علماء میدان عمل میں بھی آئیں اورمل جل کر عوام کی اگوائی کریں یعنی علماء ایک طرف عوام کی ذہن سازی کریں تو دوسری طرف مل جل کر ایک ساتھ رہبری اور قیادت کے لئے میدان میں بھی آئیں ۔
میرے کہنے کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح کل کا ہندوستان علماء کی محنت اور قربانیوں سے انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ، اسی طرح آج بھی علماء کی  مشترکہ  مخلصانہ   کوششوں سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔اس لئے خود کو کمزور نہ سمجھیں ، اپنوں کو بزدل اور مردہ نہ کہیں ۔ ہم بھلے تعداد میں کم ہوں مگر ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں مسئلہ بس قیادت کا ہے ۔ ہماری قیادتوں میں اخلاص آجائے ، ہم اپنے اور دشمنوں میں  پہنچان کرسکیں اور ایک پلیٹ فارم سے کام کریں تو بھاجپا کیا اس سے بھی ظالم حکومت کے پنجے اکھاڑ پھینکیں ۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ بھارت کے اکثر غیرمسلم بھی کیب پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں ایسے میں اگر سارے مسلمان علماء اور عوام ایک نہ ہوسکیں تو ہمارے لئے ڈوب مرنے کی بات ہوگی ۔  

مکمل تحریر >>

Sunday, December 8, 2019

سوشل میڈیا اور گنہگار آنکھیں


سوشل میڈیا اور گنہگار آنکھیں

تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف (مسرہ)

اللہ نے انسانوں کے لئےدنیا میں سیکڑوں قسم کی نعمتیں مہیا فرمائی ہیں جن کو احاطہ شما رمیں لانا محال ہے ، خود انسان کا وجود اس کی ایک عظیم کاریگری اور بیش بہا نعمت ہے ۔اس نے  انسانی جسم کے اندر ہی نہ جانے کتنی نعمتیں رکھی ہیں ، ان میں سے چندکا ہم احساس تو کرسکتے ہیں مگر شمار کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ ساری نعمتوں کا ادراک واحساس کرنا۔ایک جملہ میں اللہ نے اپنی نعمتوں کے بارے میں انسانوں کو بتلادیا کہ اگر تم اس کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے ہو۔
نعمتوں کے ادراک واحساس کا ایک نادرواقعہ سعودی عرب کی دارلحکومت ریاض میں پیش آیا اور اس قسم کے واقعات دنیا میں پیش آتے ہوں گے ، واقعہ یوں ہے کہ ایک 78 سالہ عربی شخص کو ایک اسپتال نے چوبیس گھنٹے کا 600 ریال کا بل پیش کیا ، وہ بزرگ بل دیکھ كر رونے لگا ,لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتلایا کہ صرف چوبیس گھنٹے آکسیجن کا 600 ریال دینا پڑرہا ہے جبکہ میں نے 78 سالوں سے اللہ کی تازہ ہوا میں سانس لے رہا ہوں اور کوئی بل نہیں ادا کیا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں اللہ کا کتنا مقروض ہوں ؟ ۔۔۔۔۔ سبحان اللہ
اللہ تعالی نے ہمیں ایک خوبصورت سانچے میں ڈهال کر مختلف نعمتوں سے اس سانچے کو مزین کیا، ان نعمتوں میں ایک اہم ترین آنکھوں کی نعمت ہے، اسی آنکھ سے دنیا کی رنگینی ، اس کی لطافت اور ہرچیز کا حسن وجمال دیکھتے ہیں اور جو ان آنکھوں سے محروم ہوجائے پوری دنیا اس کے سامنے تاریک بن جاتی ہے حتی کہ اس کا اپنا گھر، اپنا جسم اور اپنی جائیداد سب پر اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ اس پس منظر میں غور کیا جائے تو آنکھ والوں کے لئےبڑی عبرت ونصیحت ہے مگر کم ہی لوگ ہیں جو اللہ کی نشانیوں میں غوروفکراور عبرت ونصیحت تلاش کرتے ہیں ۔
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ (الروم:22)
ترجمہ: اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف بھی ہے ، دانش مندوں کے لئے اس میں یقینا بڑی نشانیاں ہیں ۔
اللہ تعالی آنکھوں کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتاہے : أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ (البلد:8)
ترجمہ: کیا ہم نے انسانوں کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔
دوسری جگہ فرماتا ہے : إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الانسان:2)
ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لئے پیدا کیا اور اس کو سننے والا اور دیکھنے والابنایا۔
جب اللہ نے آنکھ جیسی عظیم نعمت دی ہے تو اس کے کچھ حقوق بھی ہیں ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : وإن لعينك عليك حقا(صحیح البخاري:1874،صحیح مسلم:1159)یعنی تمہارے اوپر آنکھوں کے حقوق ہیں ۔
آنکھوں کا حق یہ ہے کہ اسے آرام پہنچائیں، اس کے ذریعہ قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرکے اس کے خالق کی وحدانیت پر ایمان لاکر خالص اسی کی بندگی بجالائیں ، آنکھوں کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے دور رکھیں، ان کو شہوتوں اور فحش کاموں سے بچائیں،ان بیش قیمت آنکھوں سے صرف جائز چیزوں کو دیکھیں اور راہ چلتے آنکھوں کا حق یہ ہے کہ نگاہ نیچی کرکے چلیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں آنکھوں سے جتنے گناہ آج سرزد ہوتے ہیں اتنے پورے جسم سے نہیں ہوتے ہوں گے۔ اسی احساس نے مجھے یہ تحریرلکھنے پر مجبور کیا شاید کوئی نصیحت پکڑنے والا نصیحت پکڑلے ، آنکھوں کی نعمت کا حقیقی احساس کرے اور ان کا صحیح استعمال کرے ۔
شاید بہت سارے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ زنا کا صدور جس طرح شرمگاہ سے ہوتا ہے آنکھوں سے بھی ہوتا ہے اور آنکھوں کا زنا بدنگاہی یعنی فحش  یا حرام چیزوں کو دیکھنا ہے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے:
زِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، والنَّفْسُ تَمَنَّى وتَشْتَهِي، والفَرْجُ يُصَدِّقُ ذلكَ أوْ يُكَذِّبُهُ(صحيح البخاري:6612)
ترجمہ: آنکھوں کا زنا (غیرمحرم) کو دیکھنا ہے ، زبان کا زنا غیرمحرم سے گفتگو کرنا ہے ، دل کا زنا خواہش اور شہوت ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کردیتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے ۔
اس حدیث کی روشنی میں آج کے ماحول ومعاشرے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا اکثر آدمی آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہے، سماج میں پائے جانے والے فحش مناظر، برہنہ لباس ، اسکول وبازار اور سواریوں سمیت بھیڑبھاڑ والی تمام جگہوں میں  مردوزن کااختلاط اپنی جگہ ۔ رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: لا تُتبعِ النَّظرةَ النَّظرةَ ، فإنَّ لَكَ الأولى وليسَت لَكَ الآخرَةُ(صحيح أبي داود:2149)
ترجمہ: نظر کے بعد نظر نہ اٹھاؤ کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر معاف ہے اور دوسری معاف نہیں ہے ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اچانک جب کسی اجنبی عورت پر نگاہ پڑجائے تو پہلی نگاہ معاف ہے لیکن عمدا کسی لڑکی پر پہلی یا دوسری تیسری نگاہ ڈالنا معاف نہیں ہے ۔ نظر لمحہ بھر کی ہوتی ہے اس لمحہ بھر کی نظر سے ہمیں رسول نے منع فرمایا ہے ، اس جگہ ذرا ٹھہر کر سوچیں کہ جو جان بوجھ کر موبائل سے گھنٹوں گھنٹہ ننگی تصویر اور فحش ویڈیوز دیکھتا ہے اس کی آنکھ کس قدر گنہگار اور زناکارہے؟ کیا لوگوں کو آنکھوں کے اس بھیانک زنا اور سنگین گناہ کے بارے میں احساس ہے ؟ ہرگز نہیں ۔
لڑکوں سے چند قدم آگے نوجوان لڑکیاں فحش کاموں میں ملوث نظر آتی ہیں ،وہ آنکھوں میں مصنوعی پلکیں لگاکر، ابروکی زیبائش کرکے اور منقش لینس لگاکر خودکوسنواتی ہیں اوراپنی آنکھوں سے لوگوں کو زنا کی دعوت دیتی ہیں ۔ایسی لڑکیا ں اسکول وبازار سے لیکر سوشل میڈیا کے تمام چینلز پر نظر آتی ہیں خصوصا ٹک ٹاک کو لڑکیوں نے بے حیائی پھیلانے کا وسیلہ بنالیا ہے۔
میرے نوجوان بھائیو اوربہنو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ جن آنکھوں کو چندگھنٹہ اور چند منٹ کے لئے شہوانی سرور پہنچاتے ہیں یہی آنکھیں ہمارے خوبصورت جسم  كوبشمول آنکھیں شعلوں والے جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتی ہیں لہذا آنکھوں کی نعمت کا قدرداں بنیں ، جس نے یہ آنکھیں دے کر ہم پر بڑا احسان کیا ہےاس کا شکربجالائیں اور ان آنکھوں کا استعمال عبرت ونصیحت حاصل کرنے کیلئے کریں ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کو کون سی آنکھیں پسند ہیں ؟ اللہ کو وہ آنکھیں پسند ہیں جن میں شرم وحیا ہواور جو جھکی ہوئی ہوں یعنی شرم وحیا سے جھکنے والی آنکھیں رب ذوالجلال کو پسند ہیں اسی لئے مومنوں کو نگاہ نیچی کرنے کا حکم دیا ہے ،فرمان الہی ہے :
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (النور:30)
ترجمہ: مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے لوگ جو کچھ کریں اللہ سب سے خبردار ہے ۔
غورطلب امر یہ ہےکہ پہلے اللہ نے مردوں کو نگاہ نیچی کرنے کا حکم دیا ہے پھر اگلی آیت میں عورتوں کو بھی اس بات کا حکم دیا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت سے پہلے نگاہوں کی پستی کا حکم ایک بڑی حکمت پردال ہے ۔ دراصل تمام گناہوں کی جڑ آنکھ ہے ، آنکھ سے ہی دیکھنے کے بعد دل میں منصوبہ بناياجاتا ہے اور پھر شرمگاہ حرام کام میں ملوث ہوجاتی ہے ۔غض بصر کا فائدہ اللہ نے پاکیزگی قرار دیا ہے اس لئے جو لوگ اپنی نگاہوں کو پست رکھتے ہیں ان کے دل ودماغ اور روح وقلب سب برائیوں سے محفوظ اور پاک صاف رہتے ہیں ۔
اللہ کو وہ آنکھیں پسند ہیں جو اس سے ڈرنے والی اور خوف سے رونے والی ہوں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا(مریم:58)
ترجمہ: ان کے سامنے جب اللہ رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ سجدہ میں گرپڑتے اور رونے گڑگرانے لگتےہیں۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ليسَ شيءٌ أحبَّ إلى اللَّهِ من قَطرتينِ، وأثَرينِ : قطرةُ دموعٍ من خشيةِ اللَّهِ ، وقطرةُ دمٍ تُهَراقُ في سبيلِ اللَّهِ ، وأمَّا الأثرانِ فأثرٌ في سبيلِ اللَّهِ ، وأثرٌ في فريضةٍ من فرائضِ اللَّهِ(صحيح الترمذي:1669)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور دو نشانیوں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے: آنسو کا ایک قطرہ جو اللہ کے خوف کی وجہ سے نکلے اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں بہے، دو نشانیوں میں سے ایک نشانی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں لگے اور دوسری نشانی وہ ہے جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادائیگی کی حالت میں لگے۔
جو آنکھیں اللہ سے ڈرتیں اور اس کے ڈر سے روتی ہیں اللہ نے ان آنکھوں کے لئےبڑا بدلہ رکھا ہے ، نبی ﷺ نے عرش الہی کے سایہ  کے حقداروں میں جن سات خوش نصیبوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک وہ بھی ہے جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے رونے لگتا ہے ، اسی طرح آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے :
عَينانِ لا تمسُّهما النَّارُ: عينٌ بَكَت من خشيةِ اللَّهِ، وعَينٌ باتت تحرُسُ في سبيلِ اللَّهِ(صحيح الترمذي:1639)
ترجمہ: دوآنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ، ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو ۔
اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے :
لا يلِجُ النَّارَ رجُلٌ بَكَى مِن خشيَةِ اللَّهِ حتَّى يَعودَ اللَّبنُ في الضَّرعِ ، ولا يجتَمِعُ غبارٌ في سبيلِ اللَّهِ ودخانُ جَهَنَّمَ(صحيح الترمذي:1633)
ترجمه: اللہ کے ڈر سے رونے والاجہنم میں داخل نہیں ہوگا یہا ں تک کہ دودھ تھن میں واپس لوٹ جائے ، (اوریہ محال ہے) اورجہاد کاغباراورجہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے .
جب ہم کو یہ معلوم ہوگیا کہ آنکھیں اللہ کی انمول نعمت ہے اورہم نے جانے انجانے میں اس نعمت کا بہت ہی غلط استعمال کیا ہے ، اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟
پہلی فرصت میں سابقہ تمام گناہوں سے سچی توبہ کرنا چاہئے ، نبی ﷺ نے بتایا ہے کہ توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے بے گناہ آدمی ، توبہ کے بعد سب سے اہم بات  یہ ہے کہ ہمیں یہ احساس رہے کہ اللہ تعالی ہراس نعمت کے بارے میں ہم سے بروز قیامت سوال کرے گا جن کا ہم نے استعمال کیا ہے خواہ وہ نعمت دنیا کی ہو یا جسم کی ، آنکھوں کے بارے میں سوال کئے جانے کے متعلق صراحت کے ساتھ قرآن میں موجود ہے :
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا(الاسراء:36)
ترجمہ: بے شک کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہرایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ فحش چیزوں کے قریب بھی نہ جائیں یعنی ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے انسان حرام کاری تک پہنچ جاتا ہے ، اللہ کا فرمان ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ(الانعام:151)
ترجمہ: اور بے حیائی جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ علانیہ ہوں یا خواہ پوشیدہ۔
راستہ چلتے ہوئے نگاہ نیچی رکھیں اور موبائل استعمال کرتے ہوئے ان تمام مقامات اور جگہوں سے بچیں جہاں فحش چیزیں موجود ہیں مثلا فحش ویب سائٹس، انجان لڑکیوں سےدوستی ، ان سے ویڈیوکال یا انباکس شہوانی چیٹ وغیرہ۔
بذریعہ موبائل تنہائی میں آنکھوں سے گناہ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں ان کا خالق ومالک دیکھ رہا ہے بلکہ ان کے جملہ کارناموں کو لکھنے پر فرشتوں کو مامور کررہا ہے ، وہ ساری باتیں جانتے اور لکھتے  ہیں جو ہم اندھیرے یا اجالے میں انجام دیتے ہیں ۔
اور ایک آخری بات یہ ہے کہ ہم نیکی کی طرف رغبت پیدا کریں ، اعمال صالحہ پر دوام اور کثرت برتیں اور فرائض وواجبات میں کوتاہی نہ کریں خصوصا پنچ وقتہ نمازوں میں ۔ آپ کو وہ پیاری حدیث یاد دلاتا ہوں جس میں محمد ﷺ نے بتلایا ہے کہ وضو میں چہرہ دھوتے وقت چہرے کا گناہ مٹادیا جاتا ہے ، آنکھ چہرے کا حصہ ہے اور وضو کی برکت سے آنکھوں کا گناہ بلکہ  سارے جسم کا گناہ معاف کردیا جاتا ہے اور وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔
اے اللہ !ہماری آنکھوں کی حفاظت فرما ، ان میں حیا اور خوف ڈال دے جس سے یہ جھکی رہیں اور تیرے خوف سے آنسوبہاتی رہیں ۔ آمین
مکمل تحریر >>