Wednesday, October 31, 2018

شاتم رسول کے مختصر احکام ومسائل


شاتم رسول کے مختصر احکام ومسائل

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

نبی کریم ﷺ کی شان سب سے نرالی ہے ، اللہ تعالی نے آپ کی عظمت وشان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں ذکر فرمایا: وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ( الشرح : 4)ترجمہ: اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا ہے ۔
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسا لمحہ نہیں گذرتا جب نبی کریم ﷺ کا ذکر نہ ہوتا ہو، اذان میں ، نماز میں ، مساجد میں ، مدارس میں ، بیانات واجتماعات میں ہر جگہ آپ کا ذکر پاک ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہوکہ اللہ نے آپ کو اتنا بلند مقام دیا کہ آپ سب سے افضل و اشرف ہیں ۔ آپ کی شان میں نازیبا کلمات کہنے والا، آپ کا استہزاء کرنے والا، آپ کی توہین کرنے والا، آپ کو گالی دینے والا، آپ پر طعن کرنے والا اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے والا "شاتم رسول" کہلاتا ہے ۔ شاتم رسول ہرطرح کی لعنت کا مستحق ہے ۔ ایسے بدطینت پراللہ کی لعنت ، رسول اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام مسلمانوں کی لعنت کی ہو ۔
نبی کریم ﷺ کے کئی حقوق ہم پر ہیں ۔ ان میں سے آپ پر ایمان لانا، آپ کی فرمانبرداری کرنا، آپ سے محبت کرنا، آپ کی تعظیم وتوقیر کرنااور آپ کو گزند پہنچنے والی تمام باتوں سے دور رہنا ہے۔ جو نبی ﷺ کی توہین کرتاہےاور آپ کی شان میں نازیبا کلمات کہتا ہے اس کی گستاخی شریعت میں جرم عظیم ہے ۔ ایسا شخص ملعون ہے وہ شان نبیﷺ کی حددرجہ پامالی کرنے والا ہے۔اس کے جرم عظیم کا صلہ لعنت کے ساتھ اسلام نے قتل ٹھہرایا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے : مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (الاحزاب:61)
ترجمہ: ان پر پھٹکار(لعنت) برسائی گئی جہاں بھی مل جائیں ،پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں ۔
اس بات پر تمام علماء متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے ۔ قرآن و حدیث کےمتعدد دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (الاحزاب:57)
ترجمہ: اور جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ۔
سورہ توبہ کی چودہویں آیت میں اس قسم کے لوگوں کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیاہے  اور عملی طور پر اللہ کے رسول ﷺنے اس قرآنی حکم کو برت کر دکھایا۔ شاتم رسول کعب بن اشرف اور ابورافع کوآپ ﷺنے قتل کا حکم دیا اور وہ قتل کئے گئے ۔ اسلام میں عورت کی بڑی قدرومنزلت ہے یہاں تک کہ جنگ جہاں سبھی کو قتل کیا جانا چاہئے اسلام نے وہاں عورتوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے لیکن شتم رسول ایسا مرحلہ ہے کہ عورت کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والی عورتوں کو بھی قتل کیا گیا ہے ۔ عمیر بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بہن جو مشرکہ تھی اور نبی ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی تلوار سے وار کرکے قتل کردیا، اسی طرح ایک یہودی عورت جو نبی ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہتی تھی کسی صحابی نے اس کا گلا دبا کر مار دیا۔ ایک نابینا آدمی کی ام ولد تھی جو نبی ﷺ کو گالیاں دیا تھی تو انہوں نے برچھے سے قتل کردیا۔ یہ سب واقعات بتلاتے ہیں کہ نبی کی شان میں گستاخی کرنے والا مرد یا گستاخی کرنے والی عورت بطور سزا قتل کئے جائیں گے ۔
ان تمام سطور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گستاخ رسول (شاتم رسول) کی سزا واجبی طور پر قتل کرنا ہے ۔ اگر ایک مسلمان نبی ﷺکی شان میں گستاخی کرتا ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوکر قتل کا سزاوار ہوجاتا ہے بلکہ شاتم رسول کے قتل پہ پوری امت کا اجماع ہے ۔ تفسير القرطبي(8 / 82) میں ہے : "أجمع عامة أهل العلم على أنَّ مَن سبَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم عليه القتل"کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے نبی ﷺ کو گالی دی اسے قتل کیا جائے گا۔
شاتم رسول سے متعلق ایک اہم معاملہ اس کی توبہ یا معافی مانگنے کا ہے ۔ اس سلسلے میں قدرے تفاصیل ہیں جنہیں میں نیچے درج کرتا ہوں ۔
(1) اگر کوئی مسلمان نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو ایسا شخص مرتد وکافر ہوجاتا ہے ۔ یہ اگر توبہ کرکے اسلام کی طرف لوٹ بھی آئے پھربھی اس کے قتل کی سزا معاف نہیں ہوگی ۔ اہل علم کا قوی موقف یہی ہے۔
(2) اگر کوئی کافر حالت کفر میں نبی ﷺکو گالی دیا تھا پھر اس نے اسلام قبول کرلیا تو ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جائے گا ، اس کے اسلام لانے کی وجہ سے پہلے والےتمام جرائم معاف کردئے جاتے ہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : الإسلامَ يهدِمُ ما كان قبْلَه(صحيح مسلم:121)
ترجمہ: اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے۔
(3) ایک وہ کافر ہے جس نے توہین رسالت کا ارتکاب کرکے اسلام تو قبول نہیں کیا مگر وہ مسلمانوں سے معافی مانگتا ہے اور اپنے کئے پر شرمندہ ہے تو معلوم رہے کہ ایسے شخص کو معافی نہیں ملے گی ، اس کے معافی مانگنے سے قتل کی سزا نہیں بدلی جاسکتی ، ہرحال میں اسے قتل کیا جائے گا۔
کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ نبی ﷺ نے تو بہت سے گستاخان رسول کو معاف کردیا تھا تو توبہ کرنے یا معافی طلب کرنے سے شاتم رسول کی سزا کیوں معاف نہیں ہوگی ؟
علماء نے اس کا دوجواب دیا ہے ۔
پہلا جواب یہ ہے کہ شروع اسلام میں شاتم رسول کی معافی تھی مگر بعد میں وہ حکم منسوخ کردیا گیا۔ ایک دوسرا جواب یہ ہے کہ سب وشتم کا تعلق دو حقوق سے ہے ۔ ایک حق اللہ کا ہے جو اس کی رسالت، اس کی کتاب اور اس کے دین میں قدح سے متعلق ہے ۔ دوسرا حق رسول اللہﷺ کا آپ کی اہانت سے متعلق ہے ۔اگرکوئی شاتم رسول سچے دل سے توبہ کرلے تو ہوسکتا ہے اللہ تعالی اپنا حق اس شاتم سے معاف کردے مگر رسول اللہ ﷺکی اہانت کی کوئی معافی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ وفات پاگئے ہیں ، آپ کی وفات کے بعد کسی کو معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آخر میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کیا کوئی شخص انفرادی طور پر کسی شاتم رسول کو قتل کرسکتا ہے ؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں اکثرجگہ اسلامی نظام نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے شاتم رسول کو سزا دینے میں حکومت وقت آنا کانی سے کام لیتی رہتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اکثر شاتم رسول کو سزا نہیں ملتی ، جس کی وجہ سے ان گستاخوں کے مزید حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی اوروں کے اندر بھی گستاخی کی جسارت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے میں بہت سے مسلمان جذبات میں آجاتے ہیں اور خود سے شاتم کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ٹھان لیتے ہیں ۔ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی پر ہرمسلمان کا دل گستاخی کا بدلے لینے پر آمادہ ہوجاتا ہے،یہ حب نبی کا تقاضہ ہےمگر کیا ہمیں انفرادی طورپر کسی شاتم رسو ل کا سر تن سے جدا کرنے کا اختیار ہے ؟
اسلامی شریعت کی رو سے ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ انفرادی طورپر کسی مجرم پر اسلامی حدود نافذ کریں کیونکہ حدود کا نافذ کرنا حاکم یا اس کے نائب کا کام ہے ۔ فتاوی لجنہ دائمہ(21/7) میں تحریر ہے: "ولا يقيم الحدود إلا الحاكم المسلم أو من يقوم مقام الحاكم ، ولا يجوز لأفراد المسلمين أن يقيموا الحدود لما يلزم على ذلك من الفوضى والفتنة "
ترجمہ: حدود کو صرف مسلمان حاکم یا اس حاکم کا قائم مقام ہی نافذ کرے گا اور مسلمانوں میں کسی کو انفرادی طورپر حدود نافذ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے انتشار وفتنہ برپا ہوسکتا ہے۔
اس موقع سے میں تمام مسلمانوں کو دوباتوں کی تاکید کرتا ہوں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب کہیں پر شتم رسول کا واقعہ پیش آئے تو ہمیں یقینا اس سے صدمہ پہنچے گا مگر مشتعل ہوکر آپ خود مجرم کوسزا دینے سے پرہیز کرنا ہے کیونکہ ایسا نہ قانونا مجاز ہے اور نہ ہی شرعا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہرملک میں مجرموں کو سزا دینے کے لئے عدالت ہوتی ہے ،جہاں اسلامی نظام نہیں وہاں ہمیں عدالت کا سہارا لیکر شاتم رسول کو کڑی سے کڑی سزا دلانے کی مانگ کرنی ہے اور اگر ملک کے سارے مسلمان متحد ہوکر گستاخ کو سزا دلانے پر اڑ جائیں تو حکومت کو بھی مجبور ہونا پڑجائے گا۔ شرط یہی ہے کہ ہمارے اندر اتحاد ہو۔ گستاخ رسول دنیا میں اگردنیاوی سزا سے بچ بھی جائے تو اخروی انجام سے کوئی نہیں بچا سکتا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (الاحزاب:57)
ترجمہ: اور جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ۔

مکمل تحریر >>

Tuesday, October 30, 2018

کیا جرسی گائے حلال ہے ؟


کیا  جرسی گائے حلال  ہے ؟

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

اس وقت پوری دنیا میں بلکہ اکثر ممالک کے اکثرصوبوں میں جرسی گائے پائی جاتی ہے ، باقاعدہ اس کے فارم چلتے ہیں اور افزائش نسل کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ۔
یہ گائے اپنی رنگت اور ہیئت میں عام گایوں سے مختلف ہوتی ہے ، اس کے بدن پہ سفید یا سیاہ یا سرخ قسم کی بودیں ہوتی ہیں ۔ جرسی گائے کی طرف لوگوں کا میلان اس وجہ سے ہوا کہ یہ دوھاری ہے اور بڑے مہنگے داموں میں بکتی ہے۔
جرسی گائے کے متعلق لوگوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ خنزیر(سور) کے نطفے سے پیدا ہوتی ہے اور وہ اسی کے مشابہ چھوٹے قدوقامت اور پتلی ٹانگوں والی ہوتی ہے، حالانکہ تحقیق سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ دیسی اور ولایتی نرومادہ کے اختلاط سے جرسی گائے جنم لیتی ہے اس طورپر کہ ایک نسل کے بیل کا نطفہ لیکر دوسری نسل کی گائے کے رحم میں بذریعہ انجکشن ڈالا جاتا ہے اس سے جو مادہ بچہ پیدا ہوتا ہے اسے جرسی گائے کہتے ہیں ۔ اس اختلاط کی وجہ یہ بنی کہ حیوانات کے ماہرین نے مختلف ممالک کی نسلوں کے گایوں اور بیلوں پراختلاط نطفہ کا تجربہ کیا تو اس کے ذریعہ پیداشدہ گائے میں دودھ کی کثرت پائی گئی ۔ اگر اس اختلاط سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر یہ عمل تسلسل اختیار نہ کرتا۔ بہرکیف ! جرسی گائے کی افزائش میں خنزیرکا مادہ شامل نہیں ہے بلکہ یہ  گائے اور بیل کی ہی مختلف نسلوں میں آپسی اختلاط کا نتیجہ ہےیہی وجہ ہے کہ بعض علاقوں میں اسے دوغلی گائے بھی کہتے ہیں ۔آپ ہندوپاک کے جرسی گائے فارم میں جاکر اس بات کی تحقیق بھی کرسکتے ہیں کہ کیا یہ لوگ جرسی گائے کی افزائش نسل میں خنزیر کا نطفہ شامل کرتے ہیں ؟ یا اس بابت لوگوں میں محض غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے؟۔
قصہ مختصر یہ کہ جرسی گائے گا گوشت کھانے اور اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اس کی قربانی یا عقیقہ دینے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ قربانی سے اس لئے بچنا چاہئے کہ  یہ مخلوط نسل ہے اور اللہ تعالی نے قرآن میں صرف آٹھ جانوروں کی قربانی کا ذکر کیا ہے ۔ اس عدد سے جس طرح بھینس خارج ہے اسی طرح جرسی گائے بھی خارج مانی جائے ۔ اور عقیقہ کے لئے بڑے جانور کا ثبوت نہیں ہے اس وجہ سے عقیقہ بھی نہیں دے سکتے ۔
نیچے چند فتاوے بھی شامل کرتا ہوں تاکہ عوام کو زیادہ اعتماد ہوسکے ۔
1- جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم ) بنارس کا فتوی :
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:جرسی گائے حلال ہے یا حرام؟
الجواب بعون اللہ الوھاب وھو الموفق للصواب:
جرسی گائے ، گائے ہی کی جنس ہے اور گائے حلال ہے۔ لہذا یہ بھی حلال ہے۔ حرمت کی جو بات کہی جاتی ہے وہ تحقیق کے خلاف ہے۔
دارالإفتاء جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم) بنارس
2- دارالعلوم دیوبند الہند کا فتوی :
یہ سوال جرسی گائے کے بارے میں ہے۔ (۱)کیا اس کی قربانی ہوسکتی ہے؟ (۲)کیا ہم اس گائے کا دودھ پی سکتے ہیں؟ (۳)کیا یہ سور کی نسل سے تعلق رکھتی ہے؟ جرسی گائے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 2387=2142/ د
جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ جرسی گائے میں چونکہ بیل کا نطفہ بذریعہ انجکشن گائے کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے اور اس سے بچے کی ولادت ہوتی ہے،تو اُسے گائے کا بچہ کہا جائے گا، اور اس کا کھانا اور دودھ پینا حلال ہوگا البتہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے، اس میں ایسا جانور ذبح کرنا چاہیے جس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو جب غیرمشتبہ جانور بآسانی دستیاب ہوسکتے ہیں تواس قسم کے جانور ذبح نہ کرنے میں احتیاط ہے، اسی عبادت کو بلا مجبوری مشتبہ بنانا درست نہیں۔ اور اس گائے کا سور کی نسل سے تعلق رکھنے کے بارے میں ہمیں علم نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
3-دارالعلوم وقف دیوبند کا فتوی :
جرسی گائے اسے کہتے ہیں کہ جسکے جسم پر سفید-سیاہ یا پھر سرخ رنگ کے چھینٹ ہوتے ہیں تو ایسی گائے کے دودھ کا پینا یا پھر اسکے گوشت کا کهانا کیسا ہے ؟کیوں کہ ایسی گائے کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس گائے کے نسل کا تعلق خنزیر سے ہے۔
Ref. No. 1008 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جب صورت و غذا کے اعتبار سے وہ گائے ہے تو اس کا دودھ اور گوشت استعمال کرنا جائز ہے۔ لان المعتبر فی الحل والحرمۃ الام فیما تولد من ماکول وغیرماکول۔ (کذا فی الشامی) واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء، دارالعلوم وقف دیوبند
مکمل تحریر >>

Monday, October 29, 2018

جرمانہ میں وصول کی جانے والی رقم مسجد میں لگانا؟


جرمانہ میں وصول کی جانے والی رقم مسجد میں لگانا؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

برصغیرہندوپاک میں اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے مجرموں پر حدود نافذ نہیں کیا جاتا تاہم بعض جگہوں پر سماجی اور قبائلی  اعتبار سےمالی  جرمانہ وصول کیا جاتا ہے مثلا کسی نے زنا کاری کی تو اس پر مالی جرمانہ عائد کیا جاتا ہے ۔ اس جرمانہ کے متعلق لوگ پوچھتے ہیں کہ اسے مسجد کے فنڈ میں استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
اس سوال کا جواب دینے سے قبل یہ معلوم ہونا چاہئے کہ احناف کے یہاں تعزیربالمال (مالی جرمانہ) جائز نہیں ہے مگر قرآن وحدیث سے مالی جرمانہ کا جواز نکلتا ہے ۔
قرآن کی دلیل : سورہ توبہ آیت نمبر107میں مسجد ضرار کا ذکر ہے جسے منافقین نے کفرپھیلانے اور مسلمانوں میں تفریق پھیلانے کی غرض سے بنایا تھا نبی ﷺ نے اسے ڈھانے کا حکم دیا اور آپﷺ کے حکم سے صحابہ کرام نے جڑ سے مسجد کو منہدم کردیا۔ مسجد کا انہدام مالی نقصان ہے گویا تعزیر میں مالی نقصان یا  مالی جرمانہ لگایا جاسکتا ہے ۔
سنت سے دلیل : سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ( درختوں پر ) لٹکتے پھل کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :جس کسی ضرورت مند نے اسے اپنے منہ سے کھا لیا ہو ، اپنے پلو میں کچھ نہ باندھا ہو تو اس پر کچھ نہیں لیکن۔"ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة"(صحيح أبي داود:4390)
ترجمہ: جو وہاں سے کچھ لے کر نکلے تو اس پر دو گنا جرمانہ اور سزا  ہے۔
یہاں "غرامہ مثلیہ" یعنی دہرا جرمانہ سے مراد مالی سزا ہے جیساکہ مسند احمد میں "ثمنُهُ مرَّتينِ" یعنی دہری قیمت کا ذکر ہے ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے دلائل ہیں بخاری ومسلم کی ایک اہم دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں نماز سے پیچھے رہ جانے والوں کے گھر جلانے کا ذکر ہے اور گھرجلانا مالی جرمانہ ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ غرامہ مالیہ کا حکم منسوخ  ہوگیاہے مگر یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد بھی  خلفائے راشدین اورصحابہ کرام نے تعزیربالمال پر عمل کیا ہے ۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ  قبائلی طورپرکسی مجرم پر مالی جرمانہ کیا جائے تو اس پیسے کو دین کے کام میں یا مسجد کے فنڈ میں لگا سکتے ہیں کہ نہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اصلا عام آدمی یا چند افراد کا کسی مجرم پر مالی جرمانہ لگانا شرعا درست نہیں ہے ، مالی جرمانہ عائد کرنا حاکم وقت ، قاضی یا ان کے قائم مقام عہدیدار کا فریضہ ہے ۔
فتاوی لجنہ دائمہ سے اس مالی جرمانہ کے متعلق سوال کیا گیا جو قبائل کے بعض افراد کی طرف سے بعض امور کے ارتکاب پہ عائد کیا جاتا ہے تو کمیٹی نے جواب دیا:
من أخذ غرامة مالية لمن يفعل كذا وكذا. فهذا إجراء لا يجوز؛ لأنه عقوبة تعزيرية مالية ممن لا يملكها شرعًا، بل مرد ذلك للقضاة، فيجب ترك هذه الغرامات(فتاوى اللجنة الدائمة، رقم:20904 )
ترجمہ: جس نے مالی جرمانہ لیا ایسے شخص سے جو ایسا یا ویسا کرے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ شرعی طورپرمالی سزا نافذ کرنے کا اختیار ایسے اشخاص کو نہیں ہے بلکہ یہ قاضی کے ذمہ ہے اس لئے یہ جرمانے ترک کرنا واجب ہے۔
جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ قبائلی طورپر ہم کسی پر جرمانہ عائد نہیں کرسکتے تو جو روپیسہ اس طورپر کسی شخص سے وصول کیا گیا ہے اسے لوٹا دینا چاہئے ۔
مکمل تحریر >>

Sunday, October 28, 2018

تعلیم کی غرض سے نوجوان لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا


تعلیم کی غرض سے نوجوان لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا

سوال : ایک نوجوان لڑکی گھر سے تیس چالیس منٹ کی دوری پر قرآن کی تفسیر سیکھنے کے لئے اکیلی جاتی ہے تو اس کے والد باہر نکلنے سے منع کرتے ہیں ایسی صورت میں لڑکی کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : ضرورت کے تحت نوجوان لڑکی کو گھر سے باہر جانے کی شریعت میں اجازت ہے۔ رشتہ داروں سے ملنے، مریض کی عیادت کرنے،خیرکا کام کرنے، وعظ ونصیحت سننے اور تعلیم حاصل کرنے یادوسروں کو تعلیم دینے کی غرض سے نوجوان لڑکی گھر سے باہر جاسکتی ہے اور یہ امور ضرورت کے دائرے میں آتے ہیں جبکہ تعلیم کا حصول لڑکی کے لئے بڑی اہم ضرروت ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : قد أَذنَ اللهُ لكنَّ أن تخرجْنَ لحوائجِكنَّ(صحيح البخاري:5237)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے باہر جا سکتی ہو۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت ضرروت کی تکمیل کے لئے گھر سے باہر جاسکتی ہے تاہم گھر سے باہر جاتے ہوئے زیب وزینت سے بچنا ہے اور کامل طورپر شرعی حجاب کو اپنانا ہے۔ ایک باپ کو یا لڑکی کے ولی کو ضرورت کے تحت باہر جانے سے منع نہیں کرنا چاہئے بلکہ نیکی کے کاموں پرلڑکیوں کا تعاون کرنا چاہئے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے:إذا استأذَنَكم نساؤُكم بالليلِ إلى المسجدِ فأذَنوا لهن(صحيح البخاري:865)
ترجمہ:اگر تم سے تمہاری عورتیں رات میں مسجد آنے کی اجازت طلب کریں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔
اس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کو اجازت لیکر گھر سے باہر جانا چاہئے اور دوسری بات یہ ہے کہ جس کام میں عورت کے لئے خیروبھلائی ہو اس کام کے لئے عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت دینی چاہئے ۔
چونکہ یہ زمانہ فتنے کا ہے اس وجہ سے آج کل نوجوان لڑکی کا گھر سے نکلنا پرخطر ہے، راستہ مامون ہو تو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے نوجوان لڑکی حجاب کے ساتھ اکیلے گھر سے باہر جاسکتی ہےلیکن فتنہ کا اندیشہ ہو تو باپ کو قطعی حق نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو اکیلے گھر سے باہر ایسی جگہ جانے دے جہاں اس کی عزت وآبرو کے لئے خطرہ ہوخواہ باہر جانے کی غرض تعلیم ہو یا کچھ اور۔ راستہ میں فتنہ کی صورت میں ایسا ممکن ہے کہ کوئی محرم نوجوان لڑکی کو تعلیم گاہ تک چھوڑ آئے اور لوٹتے وقت بھی گھر تک اپنے ساتھ لائے اور اگرایسی سہولت نہ ہو تو پھر اپنے گھر ہی تعلیم کا بندوبست کر یا عورتوں کے لئے مخصوص تعلیم گاہ میں مستقل طورپر رہائش اختیار کرکے تعلیم حاصل کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی

مکمل تحریر >>

Tuesday, October 23, 2018

فجر کی اذان کے بعد نوافل اور تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم


فجر کی اذان کے بعد نوافل اور تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

فجر کی اذان اور اقامت میں کافی وقت ہوتا ہے اس لئے مسجد میں پہلے حاضر ہونے والے نمازی سنت کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھنا چاہتے ہیں اورسوال کرتے ہیں کہ کیا فجر کی اذان کے بعد اگر ہم سنت ادا کرلیں تو نوافل ادا کرسکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل صرف دو رکعت سنت پڑھنا منقول ہے ۔ اس لئے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل دو رکعت فجر کی سنت کے علاوہ نوافل پڑھنا مکروه ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ (سنن الترمذي:427)
ترجمہ: طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی صلاۃ نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی صلاۃ نہیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی ، احمد شاکر اور شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے ۔
صحیح مسلم میں حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں:كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ، إذا طلع الفجرُ ، لا يُصلِّي إلا ركعتَينِ خفيفتَينِ .(صحيح مسلم:723)
ترجمہ: جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان کے بعد فرض سے پہلے صرف دو رکعت سنت ادا کرنا چاہئے اورنبی ﷺ صحابہ کرام کو دو سے زائد رکعت پڑھنے سے منع کیا کرتے تھے ۔ جناب یسار مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں :
رآني ابنُ عمرَ وأنا أصلِّي ، بعدَ طلوعِ الفجرِ ، فقالَ : يا يَسارُ ، إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ خرجَ علينا ونحنُ نصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ ، فقالَ : ليبلِّغ شاهدُكم غائبَكم ، لا تصلُّوا بعدَ الفجرِ إلَّا سجدتينِ( صحيح أبي داود:1278)
ترجمہ:سیدنا ابن عمر ؓ نے مجھے دیکھا کہ میں طلوع فجر کے بعد نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے فرمایا : اے یسار ! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :تمہارا حاضر ( موجود ) شخص اپنے غائب کو بتا دے کہ سوائے دو رکعتوں کے طلوع فجر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو ۔
عبداللہ بن بحینہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مرَّ برجُلٍ يصلِّي . وقد أُقيمت صلاةُ الصبحِ . فكلَّمه بشيءٍ ، لا ندري ما هو . فلما انصرفْنا أَحطْنا نقول : ماذا قال لك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ؟ قال : قال لي " يوشِكُ أن يُصلِّيَ أحدُكم الصبحَ أربعًا " (صحيح مسلم:711)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جونمازپڑھ رہاتھا جبکہ فجرکی نمازکی اقامت ہوچکی تھی پس آپ نے کچھ کہا مگر پتہ نہیں کیا کہا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سارے اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پوچھ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں کیا کہا؟توانہوں نے کہاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھناچاہئے سوائے فرض کے کیونکہ نبی ﷺ نے اس صحابی کو منع کیا جو اقامت کے بعد بھی نماز ادا  کررہے تھےاور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ فرض سے پہلے صرف دو رکعتیں ہیں۔
شیخ البانی ارواء الغلیل میں فرمایا ہیں کہ صحیح سند کے ساتھ بیہقی نے روایت ہے :
عن سعيد بن المسيب أنه رأى رجلا يصلي بعد طلوع الفجر أكثر من ركعتين يكثر فيها الركوع والسجود فنهاه فقال : يا أبا محمد ! أيعذبني الله على الصلاة ؟ ! قال : لا ولكن يعذبك على خلاف السنة(إرواء الغليل :2 / 236)
ترجمہ: سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو فجر کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعتوں سے زیادہ رکوع اور سجود کرتے دیکھا تو اس کو منع کیا ۔اس شخص نے کہا کہ اسے ابومحمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا ؟ تو ابن مسیب نے کہا کہ نہیں ، لیکن سنت کی مخالفت پر اللہ تمہیں عذاب دے گا۔
شیخ البانی نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ابن المسیب ایسے بدعتیوں کے لئے مضبوط ہتھیار تھے جو نماز وروزہ سے متعلق بدعتیوں کو اچھا کرپیش کرتے تھے ۔
ان تمام ادلہ سے معلوم ہوگیا کہ جنہوں نے فجر کی اذان کے بعد سنت کی ادائیگی کرلی ہو وہ مزید کوئی نفل نہ پڑھے  بلکہ فجر کی جماعت کا انتظار کرے یہاں تک کہ فجر پڑھ لے ۔ امام ترمذی نے اذان فجر کے بعد نوافل کی ادائیگی پر کراہت لکھا ہے بلکہ اس کراہت پر اجماع ذکر کیا ہے اور صاحب تحفہ نے بھی کہا کہ اس باب میں صراحت کے ساتھ احادیث کی دلالت کی وجہ سے میری نظر میں ان لوگوں کا قول راحج ہے جو مکروہ قرار دیتے ہیں ۔
یہاں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جنہوں نے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلی ہو اور مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی جماعت میں کچھ وقت باقی ہے کیا وہ تحیہ المسجد پڑھ سکتا ہے ؟
فجر کی اذان کے بعد دو رکعت سنت کے علاوہ عام نفلی نماز نہیں ادا کرسکتے ہیں مگر تحیۃ المسجد سبب والی نماز ہے جنہوں نے گھر میں سنت ادا کرلی ہو وہ مسجد آئے اور دو رکعت پڑھنے کا وقت پائے تو تحیۃ المسجد ادا کرے گا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ(صحيح البخاري:1167)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔
اس حدیث کی روشنی میں علماء نے ممنوع اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھنا جائز کہا ہے لہذا جو آدمی گھر میں فجر کی سنت پڑھ چکا ہو وہ مسجد میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ کر بیٹھے گا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لو صلى الراتبة في بيته صلى سنة الفجر في بيته ثم جاء إلى المسجد قبل أن تقام الصلاة؛ فإنه يصلي تحية المسجد حينئذ قبل أن يجلس؛ لأنه حينئذ ليس عنده سنة الفجر قد صلاها في بيته، فيصلي تحية المسجد ثم يجلس.(موقع شیخ ابن باز)
ترجمہ: اگر کوئی اپنے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلے پھر مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی نماز کھڑی ہونے میں وقت ہے تو وہ اس وقت بیٹھنے سے قبل تحیۃ المسجد پڑھے گا اس لئے کہ اس وقت اس پرفجر کی سنت پڑھنا باقی نہیں ہے کیونکہ اس نے گھر میں ادا کرلیا ہے پس وہ تحیۃ المسجد ادا کرے گا پھر بیٹھے گا۔
مکمل تحریر >>

Saturday, October 20, 2018

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل


آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1):کیا عشاء کی نماز کے بعد بغیر سنت پڑھے وتر کی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : سنن رواتب کی بڑی اہمیت ہے ، نبی ﷺ ان پہ محافظت برتتے تھے اسی سبب یہ سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں لہذا ہمیں بھی نبی ﷺ کا اسوہ اپناتے ہوئے پنچ وقتہ نمازوں کی سنن رواتب پہ ہمیشگی برتنی چاہئے ۔ اگر کبھی سنتیں چھوٹ جائے تو اس پہ گناہ نہیں ہے بلکہ ان کے اجر سے محرومی ہے۔ عشاء کی نماز کے بعد کسی نے سنت چھوڑ کےوتر پڑھ لیا تو اپنی جگہ اس کی عشاء نماز بھی درست اور وتر کی بھی نماز درست ہے ، تاہم سنت پڑھنے کا جو اجر تھا وہ اس سے ضائع ہوگیا مگر پھر بھی وہ گنہگار نہیں کہلائے گا۔
سوال(2):کیا بیوی شوہر کے مال سے زکوہ کا پیسہ اپنے والدین کو دے سکتی ہے ؟
جواب : بلاشبہ ایک شخص زکوۃ کے مال سےاپنے سسراور ساس کی مدد کر سکتا ہے ، یہ تعاون دامادکی جانب سے سسر اور ساس کے واسطے ہوگا ۔ شوہر کے مال سے زکوۃ کی رقم بیٹی اپنے ہاتھوں سے اپنے والدین کودیتی ہے تواس میں کوئی حرج نہیں، زکوۃ دینے والا تواصل اس کا شوہر ہے بیوی محض پہنچانے والی ہے۔ ہاں جب بیوی اپنے مال سے زکوۃ نکالے تو وہ اپنے والدین کو نہیں دے سکتی ، اولاد کو اصل مال(غیرزکوۃ) سے والدین پر خرچ کرنا چاہئے۔
سوال(3):بجاج فائننس یا کوئی اور فائننس کمپنی کا زیرو پرسینٹ والا ای ایم آئی والا لون لینا کیسا ہے؟
جواب : سودی کاروبار والے بنکوں اور کمپنیوں سے لون لینا سود کے کام پر تعاون ہے اس وجہ سے زیرو پرسینٹ پر بھی سودی کاروبار والے فائننس کمپنیوں سے لون نہیں لے سکتے۔
سوال(4) : طلاق تفویض کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : مسلم معاشرہ میں ایک غلط رواج نکل پڑا ہے ، بعض جگہوں پرنکاح نامہ میں تحریر ہوتا ہےکہ کیا شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا یعنی طلاق کا حق سونپ دیا؟ اس سوال کا جواب ہاں یا نہیں میں دینا ہوتا ہے ۔ جس نے ہاں کردیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب بیوی کو اختیار ہے،اپنے شوہر کو جب چاہے طلاق دے سکتی ہے ۔ اس غلط رواج کی وجہ سے لوگوں میں طلاق تفویض کے واقعات ہورہے ہیں ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں طلاق دینا مرد کا حق ہے وہ اگر نکاح نامہ پر طلاق تفویض کا اقرار بھی کرلے تو طلاق کا حق عورت کو نہیں ملے گا اور اس طرح سے دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اللہ اور اس کے رسول نے فیصلہ کردیا ہے کہ طلاق مرد کا حق ہے ۔ فرمان الہی ہے: لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ(البقرة:236)
ترجمہ:تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اگر تم نے عورت کو طلاق دے دیا۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:أيُّما امرأةٍ سألَت زَوجَها الطَّلاقَ في غيرِ ما بأسٍ ، فحرامٌ علَيها رائحةُ الجنَّةِ(صحيح ابن ماجه:2055)
ترجمہ:جس کسی عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پہ جنت کی خوشبو حرام ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:يا أيُّها النَّاسُ ، ما بالُ أحدِكم يزوِّجُ عبدَهُ أمتَهُ، ثمَّ يريدُ أن يفرِّقَ بينَهما؟َ إنَّما الطَّلاقُ لمن أخذَ بالسَّاق.(صحيح ابن ماجه:1705)
ترجمہ: لوگو! تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کر دیتا ہے، پھر وہ چاہتا ہے کہ ان دونوں میں جدائی کرا دے، طلاق تو اسی کا حق ہے جو عورت کی پنڈلی پکڑے۔
قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ طلاق دینے والا مرد ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے مرد کو خطاب کیا ہے اور پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہیں کرے گویا طلاق مرد کا ہی حق ہے اور اسی طرح دوسری حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ مرد کے ہی اختیار میں طلاق کا حق ہے کیونکہ وہی بیوی کے اعضائے مستورہ یعنی پنڈلی وغیرہ کو دیکھ اور چھو سکتا ہے۔ گوکہ اس میں غلام ولونڈی کا ذکر ہے کہ مالک ہی لونڈی کی شادی کسی غلام سے کرسکتا ہے مگر طلاق کا قانون غلام وآزاد دونوں کے لئے یکساں ہے یعنی جس طرح طلاق کا اختیار مالک کو نہیں ہے کہ وہ شادی شدہ غلام ولونڈی میں تفریق کرے اسی طرح بیوی کو بھی نہیں ہے،یہ حق شوہر کا ہے۔
سوال (5): پراویڈنٹ فنڈ سے حج وعمرہ کرنا کیسا ہے ؟
جواب : رٹائرمنٹ پہ ملنے والی رقم کو پراویڈنٹ یا جی پی فنڈ کہتے ہیں ۔ یہ دراصل حکومت کی جانب سے ملازمین کے لئے ان کی عمر کے آخری وقت میں بطور انعام وعطیہ ہوتی ہےاس کے لینے میں ، اس سے فائدہ اٹھانے میں اور اس رقم سے حج وعمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ تنخواہ سے کٹوتی ہونے والی معمولی رقم کے عوض خطیر رقم لینا سود میں داخل ہے، اسی طرح یہ شبہ بھی کہ حکومت کٹوتی والی رقم کو سودی کاروبار میں لگاتی ہے اسی سے رٹائرمنٹ پہ معاوضہ دیتی ہے۔ اس پہ عرض یہ ہے کہ حکومت کا ملازم کے ساتھ رٹائرمنٹ پہ حق خدمت دینا طے ہوتا ہے جس طرح حکومت سے ہماری تنخواہیں طے ہوتی ہیں۔ حکومت کے پاس ہزاروں ذرائع آمدنی حرام اور سودکے ہیں کیا ہم تنخواہیں نہیں لیتے ؟
پنشن کے جواز سے متعلق اپنے ایک فتوی میں شیخ محمد بن صالح المنجد نے کئی اقوال ذکر کئے ہیں ۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پنشن میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر وہبہ زحیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مذکورہ جتنی جانب سے بھی رقوم جمع ہوئی ہیں انہیں سود کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا کہ ملازم یا مزدور نے کم پیسے دیکر زیادہ وصول کیے ہیں کیونکہ ملازم یا مزدور کو ملنے والی یہ رقم حقیقت میں مالی تعاون ، عطیہ یا تحفہ ہے۔اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرار دادوں میں یہ بھی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت دی جانے والی رقم کا حکومت پہلے ہی اقرار کر چکی ہوتی ہے کہ یہ رقم اس نے اپنی رعایا کو دینی ہے کیونکہ حکومت رعایا کی ذمہ دار ہے۔(بحوالہ الاسلام سوال وجواب، رقم:243216)
سوال(6): شیطان کہاں کہاں انسان کو چیلنج کرتا ہے اور کہاں کہاں اسے امیدیں دلاتا ہے ؟
جواب: شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اس لئے اسے دشمن سمجھیں اور ہمیشہ اس کےشر سے محتاط رہیں، اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ (فاطر:6)
ترجمہ: بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اسے دشمن جانو۔وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے تاکہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں۔
یہ شیطان ہمارے اوپر اس طرح مسلط نہیں ہے کہ نیکی کرنے پر ہاتھ پکڑلے یا ہمیں گھسیٹ کر برائی کی طرف لے جائے بلکہ وہ نیکی سے روکنے کے لئے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور برائی کے کرنے کی دعوت دیتا ہے، اس لئے اللہ نے ایسے موقع پر اپنی پناہ طلب کرنے کا حکم ہے، فرمان الہی ہے:
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (فصلت:36)
ترجمہ:اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو، یقینا وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
گناہ کرنے والا یہ نہ کہے کہ شیطان نے ہمیں پکڑ کر زبردستی گناہ کروایا ، شیطان تو ہمیں بس ورغلاتا ہے ،غلطی انسان کی ہے جو اس کے بہکاوے میں آتا ہے۔ شیطان جہنمیوں سے کہے گا:وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ(ابراھیم:22)
ترجمہ: میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں ، ہاں میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے میری مان لی پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔
شیطان برائی کی دعوت لیکر ہمارے چاروں طرف سے حملہ کرتا ہے اور بہکانے کے واسطے ہر ایک حربہ استعمال کرتا ہے جس کا ذکر اللہ نے کیا ہے:ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (الاعراف:17)
ترجمہ: پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اوران کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پاؤگے۔
اعراف کی اس سے پہلی والی آیت میں اللہ فرماتا ہے: قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (الاعراف:16)
ترجمہ: اس نے کہا کہ بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے ، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان ہمیں ہر نیکی کے کام سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ابن حبان ، الجامع الصغیر اور سنن نسائی وغیرہ میں اس کی کچھ تفصیل بھی ذکر ہے کہ شیطان اسلام سے اورجہاد سے کس طرح بہکاتا ہے؟۔ فرمان نبوی ہے:إنَّ الشَّيطانَ قعدَ لابنِ آدمَ بأطرُقِهِ ، فقعدَ لَهُ بطريقِ الإسلامِ۔
ترجمہ: شیطان انسان (کو گمراہ کرنے کے لیے اس) کے سب راستوں پر بیٹھتا ہے۔ وہ اس (کوگمراہ کرنے) کے لیے اسلام کے راستے پر بیٹھتا ہے۔
لمبی سی حدیث ہے ، اس میں آگے ہے : ثمَّ قعدَ لَهُ بطريقِ الجِهادِ ، فقالَ : تُجاهدُ فَهوَ جَهْدُ النَّفسِ والمالِ ، فتُقاتلُ فتُقتَلُ ، فتُنكَحُ المرأةُ ، ويُقسَمُ المالُ ، فعصاهُ فجاهدَ۔
ترجمہ: پھر شیطان اس کے سامنے جہاد کے راستے پر آکر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تو جہاد کرے گا؟ یہ تو جان ومال کی مشقت کا نام ہےپھر تو لڑائی کرے گا،تو مارا جائے گا۔ تیری عورت سے کوئی دوسرا شخص شادی کرلے گا اور تیرا مال وارثوں میں تقسیم کردیا جائے گالیکن مومن اس کی نافرمانی کرتا ہے اور جہاد کرتا ہے۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔(صحيح النسائي:3134)
تمام نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے دولفظوں میں مذکورہ سوال کا جواب یہ بنتا ہے کہ ہر نیک کام کرنے میں شیطان کا چیلنج ہے اور ہربرائی میں شیطان کی مدد و امیدہے۔ اگر نیکی کی طرف آپ رغبت کریں گے تو شیطان اس سے روکنے کے لئے ہر قسم کا ہتھکنڈا اپنا سکتا ہے یعنی نیکی کے ہرراستے میں اس کا چیلنج ہے اور برائی کرنے جائیں گے تو شیطان تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ ظاہر ہوگا اور برائی کی انجام دہی میں مدد دے کر لمبے وعدے اوراچھی امیدیں دلائےگا۔ اللہ کا فرمان ہے: يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (النساء:120)
ترجمہ: وہ ان سے وعدے کرتا رہے گا اور امیدیں دتالا رہے گا مگر یاد رکھو شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں وہ سراسر فریب ہیں۔
اس وجہ سے شیطان سے حفاظت کے جو طریقے اسلام نے بتلائے ہیں انہیں اپنانا چاہئے۔
سوال(7) : جمعہ کا خطبہ کوئی اور دے اور نماز جمعہ کوئی اور پڑھائے سلف سے ایسی کوئی مثال ملتی ہے اور ہمارے لئے اس مسئلہ میں کہاں تک گنجائش ہے؟
جواب : سنت تو یہی ہے کہ جو خطبہ دے وہی جمعہ کی نماز پڑھائے کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے اسی کا ثبوت ملتا ہے اور اسی سنت پر اسلاف کا عمل رہاہے مجھے اس کے برخلاف کوئی ثبوت نہیں معلوم ہے لیکن اگر ایک شخص نے خطبہ دیا اور دوسرے سے نماز پڑھائی تو اس کا جواز بھی علماء نے ذکر کیا ہے، ان میں امام احمد اور شیخ ابن باز بھی ہیں۔
سوال (8): اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کس طرح نماز ادا کرے؟
جواب : بہتر ہے کہ مریض امامت نہ کرائے تاکہ اس مریض کو اور اس کے پیچھے دیگر نمازی کو تکلیف نہ ہوتاہم اس کی امامت میں نماز جائز ہے۔ جب کوئی امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نمازی بھی بیٹھ کر نماز پڑھے کیونکہ مقتدی کوامام کی متابعت کا حکم دیا گیا ہے۔نبی ﷺکا فرمان ہے : وإذا صلى قاعدًا فصلوا قعودًا أجمعون(صحيح مسلم:411)
ترجمہ: اور جب امام نماز بیٹھ کر پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔
بعض علماءمقتدی کےلئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قائل ہیں مگر قوی موقف بیٹھ کر پڑھنا ہی جیساکہ فرمان رسول سے ظاہر ہوتا ہے البتہ مقتدی نے کھڑے ہوکر بھی نماز ادا کرلی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
سوال(9): آپ کا ایک مضمون قطع تعلق سے متعلق پڑھا بڑا جامع اور مؤثر ہے ، اس کی روشنی میں میرا یہ سوال ہے کہ کیا بدعتی اور مشرک رشتہ داروں سے بھی قطع تعلق نہیں کرسکتے ؟
جواب : فسق وفجور اور شرک وبدعت کرنے والوں سے قطع تعلق کرسکتے ہیں ، یہ تو دین کے واسطے ہوا اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جوممنوع صورت ہے وہ ذاتی غر ض اور دنیاوی منفعت کے سبب ہے۔ کوئی اللہ کی رضا کے لئے اہل شرک وبدعت سے مقاطعہ کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔
سوال(10) : میں باہر گھوم کر کام کرنے والا ہوں ، نماز کے وقت عموما بریلویوں کی مسجد ملتی ہے کیا اس میں جماعت کےساتھ نماز پڑھوں یا اکیلے؟
جواب : بریلویوں کے عقائد گمراہ کن ہیں اور کھلے طور پر شر ک وبدعت کا ارتکاب کرتے ہیں ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ اکیلے پڑھی جائے۔ اور اگر وہ وہابی سمجھ کر اپنی مسجد میں گھسنے نہیں دیتے جیساکہ بہت ساری جگہوں پر ایسا ہوتا ہے تو اللہ نے ساری زمین مسجد بنادی ہے، مسجد سے باہر کسی بھی جگہ اپنی نماز ادا سکتے ہیں خواہ گھر ہو، ہوٹل ہو،گاڑی ہو، دوکان ہویا کھلی زمین ہو۔

مکمل تحریر >>