Monday, July 30, 2018

یوٹیوب کی کمائی پر نوجوانوں کی فریفتگی اور اسلام


یوٹیوب کی کمائی پر نوجوانوں کی فریفتگی اور اسلام

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

اسلام نے کسب مال کے ضوابط متعین کئے ہیں ، ایک مسلمان کے لئے اس عمل کی کمائی حلال ہے جو اسلامی ضابطہ کے اندر آتا ہو جو عمل ضوابط سے خارج ہو اس کی کمائی حلال نہیں ہوگی ۔
کسب حلال کا اسلامی ضابطہ یہ ہے کہ تجارت وعمل میں جھوٹ وفریب نہ ہواور وہ ظلم وزیادتی ، ناجائزوحرام امور اورسود ی تعامل سے پاک ، عدل وانصاف ، امانت ودیانت اور حق وصداقت کے معیار پر مبنی ہو۔ اسلامی تجارت سے مال پاک ہوتا ہے ، سماج وسوسائٹی میں صالح عناصر تشکیل پاتے ہیں ، فرد وجماعت میں سکون وراحت ، صبروشکر کے اوصاف اور ایک دوسرے کے تئیں خیرخواہی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے لوگوں کو محنت پر ابھارا ہے اور سستی وغفلت سے منع کیا ہے ۔ محنت کے بدلے میں حاصل ہونے والے اجر کی فضیلت بیان کی ہے بلکہ محنت کو بھی مبارک عمل قرار دیا ہے ۔ محنت حلال کمائی کے لئے اورحلال کمائی کا استعمال اللہ کی رضاکے لئے یہ مومن کامل کے اوصاف حمیدہ میں سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امانتدار تاجر کا حشر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا جبکہ غیرامانتدار تاجروں کا معاملہ فاسق وفاجر کے ساتھ ہوگا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مع النَّبيينَ والصِّدِّيقِينَ والشُّهَدَاءِ .(صحيح الترغيب:1782)
ترجمہ:سچا اور امانت دار تاجر( قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إنَّ التجارَ يُبعثونَ يومَ القيامةِ فجَّارًا ، إلَّا من اتقَى اللهَ وبَرَّ وصدق( صحيح ابن ماجه:2/208 )
ترجمہ: تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جواللہ سے ڈرے، نیک کام کرے اورسچ بولے۔
اس تمہید کاعمومی مقصد انٹرنیٹ سے جڑے ان تمام لوگوں کو پیغام دینا ہے جو محنت سے جی چراتے ہیں اور سارا سارا دن بیٹھ کر انٹرنیٹ سے ہی کمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لئے انہیں جائز وناجائز کی پرواہ نہیں ہوتی ، بس کمائی ہونی چاہئے چاہے جیسے ہو۔بطور خاص نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ زندگی کا اہل ہدف بھول کر اکثر اوقات انٹرنیٹ پر صرف کرنا اور اسے ہی زندگی کا محورومقصود ٹھہرا لینا بڑی ہی نادانی ہے اور جائزوناجائز کی پرواہ کئے بغیر اسے کسب معیشت کا ذریعہ بنالینا اسلامی تجارت کے خلاف ہے ۔ ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمارا قدم اسلام کے سچے اصولوں پر قائم ہو ، نہ صرف کھانے پینے میں بلکہ تجارت ومعیشت سےلیکر زندگی کے تمام شعبہ جات میں ۔
سطور ذیل میں اس بات کا جائز لینا مقصود ہے کہ آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں طرح طرح کی ویڈیوز بنانےمیں  دن ورات کا اکثر حصہ صرف کررہے ہیں ، کوئی چٹکلے، کوئی جنسی مسائل، کوئی پکوان، کوئی کام کاج ، کوئی فتنہ پرور، کوئی فحش ومنکر، کوئی کہانی وکارٹون، کوئی خاص وعوام ہر قسم کی چیزیں نشر کررہاہے ۔ نوجوانوں میں ویڈیوز بنانے کے تئیں ایک قسم کا جنون سا پیدا ہوگیا۔ اس کی اہم وجہ ہے کہ گوگل کی طرف سے ویڈیوز پہ پیسے ملتے ہیں ، گھر بیٹھے آسانی سے پیسے اکاؤنٹ میں آنے کی وجہ سے اس جانب لوگوں نے بطور خاص نوجوانوں نے کافی توجہ دیدی ہے ۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کا مقصدزندگی ختم ہورہاہے بلکہ روشن مستقبل، جہد وعمل اور انقلابی کوششیں دھندلا پن کا شکار ہورہی ہیں۔ بہت سے ناعاقبت اندیش نوجوانوں کی وجہ سے لوگوں میں فحش ومنکرات کو بڑی تعداد میں فروغ مل رہاہے ۔ حد تو یہ ہے کہ کتنے لوگ یہاں جھوٹے مفتی، فریبی اسلامی اسکالر، دفاع عن الاسلام والسنہ ، مناظر، محقق وباحث بنے ہوئے ہیں اور سادہ لوح عوام میں ان کے جھوٹ کی وجہ سے منہج وعقیدہ کا فساد  ،علم وفن کے نام پر گمراہی پھیل رہی ہے ۔ ایک نے کوئی بات یوٹیوب پر اپ لوڈ کی ،دوسرا اس پہ ضرب لگاتا ہے ، گالیاں دیتا ہے اور گھر بیٹھے مناظرہ کی ویڈیو بناتا ہے  اور اپنے مشاہدین کی تعداد دیکھ پھولے نہیں سمارہاہے۔
یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ یوٹیوب پر ویڈیوز بناکر اپ لوڈ کرنے کے نتیجہ میں جو مالی منافع حاصل ہوتا ہے وہ شرعا حلال ہے یا حرام ؟
اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ گوگل کمپنی جو یہودی کمپنی ہے وہ کسی کو یوٹیوب پہ ویڈیو ڈالنے سے کیوں پیسہ دیتا ہے ؟ کیا صرف ویڈیو ڈالنے سے پیسہ ملتا ہے یا کسی دوسری چیز کے مقابل ؟ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم رہے کہ ہرکسی کو یوٹیوب پہ پیسہ نہیں ملتا ہے ۔ خیر جس کوبھی پیسہ ملتا ہے اسے اس بات کا پیسہ ملتا ہے کہ جس ویڈیوپہ گوگل کمپنی کسی چیز کا پرچار کرتی ہے اس پرچار سے گوگل پہلے اس کمپنی سے منافع کماتا ہے جس کا پرچار کیا ہے اور اس منافع میں سے گوگل ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والے اس شخص کو بھی دیتا ہے جس کی ویڈیوز پر پرچار نشر کرتا ہے ۔
مختصر میں مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر گوگل ہمیں یوٹیوب پر ویڈیواپلوڈ کرنے اور اس پہ پرچار ڈالنے کے عوض معلوم اجرت دےبشرطیکہ پرچار میں اسلام سے متصادم کوئی چیز نہ ہو اور نہ ہی ویڈیو بنانے والے نے اس ویڈیومیں کوئی خلاف شرع بات ڈالی ہو تو پھر گوگل کی طرف سے دیا گیا منافع حلال ہوگا۔ یہ ایک طرح سے جعالہ کا معاملہ ہے جس کے جواز پر علماء کے فتاوی موجود ہیں کہ کسی چیز کے عوض معلوم شدہ انعام یا معاوضہ ملے یعنی جعالہ میں اجرت تو معلوم وطے ہوتی ہے مگر مدت کا طےہونا ضروری نہیں ہے۔جعالہ اجارہ سے مختلف ہے ۔
یہاں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اولا اکثر ویڈیوز ہی فتنہ کا باعث ہیں ۔ کوئی مسلک کے نام پہ، کوئی جھوٹی تعلیمات پھیلانے کے نام پر، کوئی فحش ومنکرات کے نام پر تو کوئی اپنے دنیاوی اغراض ومقاصدکے نام پر ۔ اس قسم کی ویڈیوزبنانا اور لوڈ کرنا فی نفسہ حرام ہے اور اس سے پیسہ کمانا بھی ۔
اب ہم اس کا دوسرا پہلویہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا گوگل کی جانب سے پرچار کے مقابلہ میں منافع طے ہوتا ہے ؟ اس  کاجواب بعض لوگوں سے یہ معلوم ہواہے کہ ہاں اس کی اجرت طے ہے یعنی جس قدر آدمی پرچار والی ویڈیو کو دیکھے گا اسی قدر منافع زیادہ ہوگا۔ میں نے اپنی سطح پہ اجرت کی معلومات کی تو پتہ چلا کہ گوگل کی اپنی مرضی ہے جس چاہے جتنا منافع دے ۔ کہنے کے لئے ایک ہزار "مشاہدین" پر ایک ڈالر ہے مگر اس کی کوئی حقیقت مجھے نظر نہیں آتی۔ اس وجہ سے یوٹیوب کے ذریعہ پرچارکے مقابل منافع کے حصول میں ایک رکاوٹ پیدا ہورہی ہے وہ ہے اجرت کا نامعلوم نہ ہونا۔
اس سلسلہ میں ایک تیسرا بہت ہی اہم پہلو پرچار سے متعلق ہے ۔ اس پہلو سے کئی سوالات جڑے ہیں ۔ کیا جس کمپنی کا پرچار کیا جارہاہے اس کی تجارت حلال ہے ؟ کیا وہ سودی کاروبار سے پاک ہے ؟ اس میں حرام چیزوں کی ملاوٹ، طبی اعتبار سے اشیاء میں کوئی ضرررساں عنصر تو شامل نہیں ہے؟ پرچار مبالغہ آرائی اور جھوٹ کی آمیزش پہ مبنی تو نہیں ہے؟ پرچار میں روح والی تصویر، برہنہ عورت یا ہیجانی کوئی کیفیت تو نہیں ؟ کیا گوگل اس بات کی کسی کو ضمانت دیتا ہے کہ پرچار میں اسلامی اعتبار سے صرف جائز چیزیں ہی شامل ہوں گی؟ کیا منافع کمانے والے کو یہ حق ہے کہ اسلا م مخالف امر کو پرچار سے ہٹا سکے اور صرف اسلامی تجارت کے ضابطہ میں آنے والی تجارت کا ہی پرچار کرے ؟
اتنے سارے سوالات بلکہ اس سے بھی زیادہ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے اگر ہم گوگل کے پرچار میں بااختیار نہیں ہیں تو بلاشبہ پرچار میں حرام چیزوں کی آمیزش ہوگی کیونکہ یہ یہودی میڈیا ہے اس کے پاس تجارت کا کہاں کوئی ضابطہ ہے ؟ اسے تو مال سے سروکار ہے بس۔ اس کا پرچار کرکے ہم شر کے معاون بنیں گے اگر پرچار شر پر مبنی ہوا۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ(المائدة:2)
ترجمہ: نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنْ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ ، لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا ، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ ، لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا( مسلم:2674) .
ترجمہ: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
یوٹیوب سے پیسہ کمانے والا کوئی بھی مسلم نوجوان اس بات کا اقرار کرنے سے نہیں کترائے گا کہ گوگل کی جانب سے ویڈیوز پر شائع ہونے والے اعلانات میں اسلام سے ٹکرانے والی کوئی بات کبھی بھی نہیں ہوتی ۔ جب صورت حال ایسی ہو تو ہم بھی شر کے پھیلاؤ میں حصہ بنیں گے ۔ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ آپ نے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی اس میں گوگل نے کسی کمپنی کا اعلان شامل کیا ، اس اعلان میں برہنہ لڑکی شامل ہے یا کوئی فحش کام کا اعلان ہے یا حرام کمپنی / اشیاء کا اعلان ہے یا اس اعلان میں جھوٹ اور فریب سے کا م لیا گیا ہے ۔ ایسی صورت میں اس اعلان کو جو بھی دیکھے گا اس کا گناہ ویڈیو لوڈ کرنے والے کے سر جائے گا ۔ اس ویڈیو کو دیکھنے والے لاکھوں ہوں تو لاکھوں کا گناہ سر آئے گا۔ دوسری طرف اس کی کمائی بھی حلال نہیں ہوگی ۔
ان باتوں کا میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی مفید کاموں کے لئے یوٹیوب پر دینی ویڈیوز اپ لوڈ نہ کرے ، اصل مقصد پرچار کے مقابل مالی منافع کی شرعی حیثیت بتلانا ہے ۔ پیسہ کمانا اصل یا اہم نہیں ہے بلکہ کمائی حلال ہے کہ نہیں یہ اصل اور اہم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر گوگل کمپنی سے جڑنا فری میں ہو ، آپ کو اپنی اجرت معلوم ہو اور اعلان مباح چیزوں پر مشتمل اور مباح امور کے متعلق ہونیز ویڈیو بھی فی نفسہ بے عیب ہو تو پھر منافع حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نوجوانوں کو آخر میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ نے آپ کو ویڈیو زبنانے کا جوہر دیا ہے تو اس جوہر سے قوم کو فائدہ پہنچائیں،میں اس سے نہیں روکتا مگر مندرجہ ذیل باتوں کو دھیا ن میں رکھیں ۔
٭ زندگی کا اصل ہدف اسے نہ ٹھہرائیں ، اپنی تخلیق کااصل مقصد جانیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کریں ۔
٭ انٹر نیٹ جہاں مفید ہے وہیں مضر بھی ہے ، اس کے مضرات کو محسوس کریں اور ان سے بچیں ،اللہ کے یہاں حساب دینا ہوگااور اوقات کا خیال کرتے ہوئے حقوق وواجبات کی ادائیگی کریں ۔
٭ سستی و جھوٹی شہرت اور حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیر بن محنت مالی منفعت کے حصول اورفواحش ومنکرات کا سبب بننے سے بچیں ۔ آپ دنیا سے چلے جائیں گے مگر یوٹیوب کا یہ کالا حصہ باقی رہے گا حتی کہ یوم حساب اس کا حساب بھی چکانا ہوگا۔
٭ اسلام نےانسان کو محنت وعمل پہ ابھارا ہے ، عمل اور عامل کی قدر کی ہے لہذا ہم بھی شرف محنت کو اپنائیں اور ہمیشہ حلال رزق کی تلاش کریں ، اللہ تعالی نیتوں کے حساب سے آپ کو حلال روزی مہیا فراہم کرے گا کیونکہ انسانوں کو روزی دینے والا ہے۔
٭ آج آبادی کی کثرت کی وجہ سے روزگار کی فراہمی ہرکس وناکس کے لئے مشکل ہوگئی ہے اور فتنے کے دور میں کسب حلال تو اور بھی مشکل ہے ۔ ایسے میں ایک مومن کا یہ امتحان ہے کہ اپنے دامن کو فتنہ سے بچاتے ہوئے حلال روزی پر اکتفا کرے خواہ کم ہی روزی نصیب ہو۔ ہر شخص کی روزی اس کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے اورہرشخص کی قسمت میں امیر ہونا بھی نہیں لکھا ہے ، اللہ نے سماج کے دوطبقے امیروغریب بنائے ہیں ۔ یہ فرق قیامت تک باقی رہے گا۔ اشتراکی نظام نے معیشت میں مساوات پیداکرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگیا۔
٭ اسلام نے ہمیں جائز طریقے سے محنت کرکے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے سے منع نہیں کیا ہے ، منع کیا ہے تو کسب معاش کے ناجائز طریقے سے اور جسے غربت ملی یا جسے روزی کی فراوانی نصیب نہیں ہوئی ایسے لوگوں کو صبر کرنا چاہئے ۔ اس پر اللہ کی طرف سے دنیا اور آخرت میں بہتر بدلہ ہے۔ یقین جانیں مالدار وہ نہیں جو پیسے والا ہو بلکہ مالدار وہ ہے جو اعمال وتقوی والاہو اور یتیم وہ نہیں جس کے والدین نہ ہوں بلکہ یتیم وہ ہے جواعمال وتقوی سے خالی ہوگرچہ اس کے پاس دولت کا انبار ہو۔
٭ آخری بات کے طور یہ جملہ یاد رکھیں کہ یوٹیوب کے لئے صرف وہی ویڈیو بنائیں جس سے آپ کا اخروی کوئی نقصان نہ ہو۔ عقیدہ ومنہج مخالف ویڈیو، کسی پر الزام تراشی والی ویڈیو، مسلکی عصبیت میں بنائی گئی ویڈیو، اخلاق واعمال برباد کرنے والی ویڈیو، فتنہ وفساد پھیلانے والی ویڈیو یا بدعات وخرافات اور فواحش ومنکرات سے لبریز ویڈیو بنانے کا انجام بہت برا ہے اور اس کا اثر کتنا زیادہ ہے وہ اوپر ہمیں معلوم ہی ہوگیا۔ منافع سے بالا تر ہوکرہم صرف تعلیمی ، اصلاحی اور مفید ویڈیوز جو کتاب وسنت پر مبنی ہوں یا ان کے مخالف نہ ہوں اسے ہی بنائیں اور شیئر کریں ۔جھوٹی کہانیاں بنانے، کارٹون میں وقت ضائع کرنے ، ویڈیوز میں غیرضرروی تصنع وتکلف برتنے یا فضول ولایعنی کاموں والے ویڈیوز سے بھی بچیں ۔


مکمل تحریر >>

Saturday, July 28, 2018

سجدہ تلاوت اوراس کے احکام ومسائل


سجدہ تلاوت اوراس کے احکام ومسائل

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

اسلام میں سجدے کی بڑی اہمیت ہے ، عبادت میں اس کا خاص مقام ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اس حالت میں رب کے لئے انتہائی عاجزی کا اظہار کررہاہوتا ہے ۔عبادت کی یہی وہ اہم کیفیت ہے جس سے بندہ اللہ سے بیحد قریب ہوتا ہے ، اس سے سرگوشی کرتا ہے اور خوب خوب دعائیں کرتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ(صحيح مسلم:482)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو۔
اللہ کو یہ ادا بیحد پسند آتی ہے اور لوگوں کو  سجدہ کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ (الحجر:98)
ترجمہ: آپ اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں ۔
اللہ نے ابلیس کو آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو انکار کرنے کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوگیا۔اس لئے خالص ہوکر اللہ کے لئے سجدہ بجالائیں اور ہرگزہرگز کسی غیر اللہ کو سجدہ نہ کریں ۔
سجدے کے مقامات چودہ یا پندرہ؟
یہاں پر اس موضوع میں سجدہ سے مراد نماز کادوسجدہ نہیں بلکہ قرآن کریم کے پندرہ مقامات کی تلاوت پہ  ایک سجدہ کرنا ہےجسے سجدہ تلاوت کہتے ہیں خواہ وہ مقام نماز کے دوران آئے یا بغیر نماز کے۔
احناف کی طرح شافعیہ کے نزدیک بھی چودے سجدے ہیں البتہ سورہ حج میں شافعیہ کے نزدیک دو سجدے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک سجدہ ہے ۔
اہل الحدیث پندرہ سجدے مانتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوداؤد میں حدیث ہے ۔
‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَهُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَجْدَةً فِي الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهَا ثَلَاثٌ فِي الْمُفَصَّلِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي سُورَةِ الْحَجِّ سَجْدَتَانِ (سنن ابی داؤد: 1401)
ترجمہ: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن مجید میں (۱۵) سجدے پڑھائے: ان میں سے تین مفصل میں اور دو سورۃ الحج میں ۔
اس حدیث کو امام نووی نے الخلاصہ میں حسن ، ابن الملقن نے تحفۃ المحتاج میں صحیح یا حسن ، ابن القیم نے اعلام الموقعین میں صحیح اور صاحب تحفۃ الاحوذی نے حسن کہا ہے۔
حنفی کے مشہور عالم علامہ بدرالدین عینی نے بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں مندرجہ ذیل روایت کو نقل کرکے صحیح کہا ہے۔
عن عمرِو بنِ العاصِ أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أقرأَهُ خمسَ عشرةَ سجدةً في القرآنِ العظيمِ مِنْهَا ثلاثةٌ في المُفَصَّلِ(عمدة القاري:7/139 )
ترجمہ: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن مجید میں (۱۵) سجدے پڑھائے: ان میں سے تین مفصل میں۔
گویا حنفی عالم سے پندرہ سجدوں کا ثبوت مل رہا ہے اور سورہ حج میں دو سجدے ہونے کا صحیح حدیث سے ثبوت ملتا ہے ۔
ان عقبة بن عامر حدثه ، قال : قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم : افي سورة الحج سجدتان ؟ قال : " نعم ، ومن لم يسجدهما فلا يقراهما ".
ترجمہ: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن کہا ہے ۔( صحيح أبي داود: 1402)
ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ابواسحاق السبیعی کا قول نقل کیا ہے : أدركت الناس منذ سبعين سنة يسجدون في الحج سجدتين(المصنف: کتاب الصلاۃ ، فی الحج سجدتان)
ترجمہ: میں نے ستر سال سے لوگوں کو سورہ حج میں دوسجدے ہی کرتے پایا ہے۔
یہ قول حنفی تالیف اوجزالمسالک الی موطا مالک میں بھی موجود ہے جس پر کوئی کلام نہیں کیا ہے۔
سجدہ تلاوت کے پندرہ مقامات وآیات :
1- إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته ويسبحونه وله يسجدون(الأعراف/206 )
ترجمہ:یقینا جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کوسجدہ کرتے ہیں.
2-ولله يسجد من في السماوات والأرض طوعاً وكرهاً وظلالهم بالغدو والآصال (الرعد:15).
ترجمہ: اللہ ہی کے لیے زمین اور آسمان کی سب مخلوق خوشی اور ناخوشی سے سجدہ کرتی ہے اورصبح وشام ان کے سا‏ئے بھی ۔
3-ولله يسجد ما في السماوات وما في الأرض من دابة والملائكة وهم لا يستكبرون (النحل:49).
ترجمہ: یقینا آسمان وزمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے۔
4-قل آمنوا به أو لا تؤمنوا إن الذين أوتوا العلم من قبله إذا يتلى عليهم يخرون للأذقان سجدا(الإسراء:107 ) .
ترجمہ: کہہ دیجۓ ! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کےبل سحدہ میں گرپڑتے ہیں۔
5- إذ تتلى عليهم آيات الرحمن خروا سجداً وبكياً( مريم:58 ) .
ترجمہ: ان کے سامنے جب اللہ رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی تویہ سجدہ کرتے روتے گڑگڑاتے گرپڑتے تھے۔
6- ألم تر أن الله يسجد له من في السماوات ومن في الأرض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب ومن يهن الله فما له من مكرم إن الله يفعل ما يشاء(الحج:18 ) .
ترجمہ: کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ سب آسمان والے اور زمین والے ، اور سورج چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانوراوربہت سے انسان بھی اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ہاں بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ثابت ہوچکا ہے ، جسے اللہ تعالی ذلیل کرے اسے کوئ بھی عزت دینے والا نہیں ، یقینا اللہ تعالی جو چاہتا کرتا ہے۔
7-يا أيها الذين آمنوا اركعوا واسجدوا واعبدوا ربكم وافعلوا الخير لعلكم تفلحون (الحج:77 )
ترجمہ: اے ایمان والو ! رکوع و سجدہ کرتے رہو اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
8-وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا( الفرقان:60) .
ترجمہ:اور جب بھی ان سے رحمن کوسجدہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں رحمن کیا ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس ( تبلیغ )نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا۔
9- ألا يسجدوا لله الذي يخرج الخبء في السماوات والأرض ويعلم ما تخفون وما تعلنون (النمل:25 ) .
ترجمہ: کہ اسی اللہ تعالی کے لیے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے ، اور جو کچھ تم چھپاتے اورظاہرکرتے ہو وہ سب جانتا ہے۔
10- إنما يؤمن بآياتنا الذين إذا ذكروا بها خروا سجداً وسبحوا بحمد ربهم وهم لا يستكبرون(السجدة:15) .
ترجمہ: ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی اس کی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
11- وظن داود أنما فتناه فاستغفر ربه وخر راكعاً وأناب(ص:24) .
ترجمہ:اور داود علیہ السلام سمجھ گۓ کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے ، پھر تو وہ اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوۓ گرپڑے اور پوری طرح رجوع کیا۔
12-ومن آياته الليل والنهار والشمس والقمر لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا لله الذي خلقهن إن كنتم إياه تعبدون(فصلت:37) .
ترجمہ: اور دن رات اور سورج چاند بھی اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں ، تم سورج کو سجدہ نہ کرو اور نہ ہی چاند کو بلکہ اللہ تعالی کوسجدہ کرو جس نے ان سب کوپیدا فرمایا ہے ، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
13-فاسجدوا لله واعبدوا(النجم:63) .
ترجمہ:تو اللہ ہی کو سجدہ کرو اور اس کی ہی عبادت کرو۔
14-وإذا قرء عليهم القرآن لا يسجدون(الانشقاق:21 ) .
ترجمہ:اور جب ان پر قرآن پڑھا جات ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے۔
15- كلا لا تطعه واسجد واقترب(العلق:19 ) .
ترجمہ: خبردار ! اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا اور سجدہ کراور قریب ہوجا۔
(فقہ السنہ)
ان جگہوں کی تلاوت کرتے وقت سجدہ کرنا مشروع ہےخواہ تلاوت نمازمیں ہو یا نماز سے باہر ۔ نبی ﷺ جب سجدہ کی ان آیات سے گزرتے تو سجدہ کرتے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ:أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَيَقْرَأُ سُورَةً فِيهَا سَجْدَةٌ، فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ، حَتَّى مَا يَجِدُ بَعْضُنَا مَوْضِعًا لِمَكَانِ جَبْهَتِهِ(صحيح مسلم:575)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی کہ نبی کریم ﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتےتھے ۔ آپ اس سورت کی تلاوت فرماتے جس میں سجدہ ہوتا اور سجدہ کرتے تو ہم (سب)بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے ، حتی کہ ہم میں سے بعض کو پیشانی رکھنے کے لیے بھی جگہ نہ ملتی تھی ۔
سجدہ تلاوت کا حکم :
سجدہ تلاوت کے مقامات پر سے جب گزر ہو تو سجدہ کرنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قرأَ يومَ الجمعةِ على المنبرِ بسورةِ النحلِ ، حتى إذا جاءَ السجدة نزل فسَجَدَ ، وسَجَدَ الناسُ ، حتى إذا كانت الجمعةُ القابلةُ ، قرأَ بها ، حتى إذا جاءَ السجدةُ ، قال : يا أيُّها الناسُ ، إنا نَمُرُّ بالسجودِ ، فمَن سَجَدَ فقد أصابَ ، ومَن لم يَسْجُدْ فلا إثمَ عليه . ولم يَسْجُدْ عمرُ رضي اللهُ عنه . وزادَ نافعٌ ، عن ابنِ عمرَ رضي الله عنهما : إن اللهَ لم يَفْرِضْ السجودَ إلا أن نشاءَ .(صحيح البخاري:1077)
ترجمہ: انہوں نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ہمراہ سجدہ تلاوت کیا۔ جب آئندہ جمعہ آیا تو آپ نے منبر پر پھر اسی سورت کی تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو فرمایا: لوگو! ہم آیت سجدہ پڑھ رہے ہیں، جس نے اس پر سجدہ کیا اس نے ٹھیک اور درست کام کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا اس پر کوئی گناہ نہیں، تاہم حضرت عمر ؓ نے سجدہ نہ کیا۔ حضرت نافع نے ابن عمر ؓ کے واسطے سے حضرت عمر ؓ سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت ہم پر فرض نہیں کیا ہے، ہاں! اگر ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
صحیحین میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
قرأتُ على النبيِّ صلى الله عليه وسلم : والنجم . فلم يَسْجُدْ فيها(صحيح البخاري:1073، صحیح مسلم:577)
ترجمہ: میں نے ایک دفعہ نبی ﷺ کے حضور سورہ نجم تلاوت کی تھی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا تھا۔
سنت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اسے چھوڑ دیا جائے بلکہ اس پہ ہمیشگی برتنا چاہئے اور کوئی امر مانع نہ ہو سجدہ والی آیت پہ فورا سجدہ کرنا چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إذا قرأ ابنُ آدمَ السجدةَ فسجد ، اعتزل الشيطانُ يبكي . يقول : يا وَيْلَهْ ( وفي رواية أبي كريب يا وَيْلي ) . أُمِرَ ابنُ آدمَ بالسجود فسجد فله الجنَّةُ . وأُمِرتُ بالسجود فأَبَيْتُ فلي النارُ . وفي رواية : فعَصَيتُ فلي النَّارُ(صحيح مسلم:81)
ترجمہ: جب ابن آدم سجدے کی آیت تلاوت کر کے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے ، وہ کہتا ہے : ہائے اس کی ہلاکت !(اور ابوکریب کی روایت میں ہے ، ہائے میری ہلاکت!) ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا ، اس پر اسے جنت مل گئی اور مجھے سجدے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا ،سو میرے لیے آگ ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: عليك بكثرةِ السجودِ للهِ, فإنك لا تسجدُ للهِ سجدةً إلا رفعَك اللهُ بها درجةً وحطَّ عنك بها خطيئةً(صحيح مسلم:488)
ترجمہ: تم اللہ کے حضور کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرو گے اللہ اس کے نتیجے میں تمہارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمہارا کوئی گناہ معاف کر دے گا۔
سجدہ تلاوت کرنے کا طریقہ :
سجدہ تلاوت نمازہی کی طرح سات اعضاء پر کرنا ہے مگر اس میں نماز کی طرح شرائط نہیں ہیں۔سجدہ تلاوت کے لئے طہارت شرط نہیں ہے ، باوضو ہو تو اچھی بات ہےاور ممکن ہوتوافضل ہے قبلہ رخ ہوجائے تاہم بغیر قبلہ رخ کیا گیا سجدہ بھی ادا ہوجائے گا۔ سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائے او ر سجدے کی دعائیں کرے۔ مثلا "سبحان ربي الأعلى" اور"سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي"۔سجدہ تلاوت کی دعابھی کافی ہے تاہم سجدوں کی دعاؤں کے ساتھ دیگر مسنون دعائیں بھی کرسکتے ہیں۔ سجدہ میں دعا کرنے کے بعد بغیر تکبیر کے سر اٹھالے، بس ایک ہی سجدہ کرے ۔ سجدہ کے لئے نہ تو یہ ضروری ہے کہ بغیر وضو والا ضروری طور پر وضو کرے اور نہ ہی سجدہ کے لئے کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنا یا سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر کہنا یا سجدہ کرکے سلام پھیرنا ثابت ہے۔  
تلاوت کی دعائیں :
پہلی دعا:
عن عائشةَ رضيَ اللَّهُ عنْها قالَت : كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يقولُ في سجودِ القرآنِ باللَّيلِ يقولُ في السَّجدةِ مرارًا سجدَ وجْهي للَّذي خلقَهُ وشقَّ سمعَهُ وبصرَهُ بحولِهِ وقوَّتِهِ(صحيح أبي داود:1414)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سجدہ قرآن میں یہ دعا تکرار سے پڑھا کرتے تھے (سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته)میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اور آنکھ بنائے ۔
ابوداؤد، ترمذی، سنن دارقطنی، سنن نسائی، مسند امام احمد، مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ دعا بطور سجدہ تلاوت وارد ہے ان مقامات میں "فتبارك الله أحسن الخالقين" کے الفاظ نہیں ہیں البتہ مستدرک حاکم میں یہ روایت تین جگہوں پر ہے ایک جگہ ان الفاظ بھی زیادتی ہے ۔ اس روایت کو حاکم نے شیخین کی شرط پہ صحیح کہاہے ۔ الفاظ کی زیادتی مسلم میں بھی بطور عام سجدہ کی دعا وارد ہے روایت آگے آرہی ہےاور یہ سورہ مومنون آیت نمبر چودہ کا حصہ بھی ہے۔
دوسری دعا:
ایک شخص خواب میں ایک درخت کے پیچھے نماز میں سجدہ کرتے ہوئے اس درخت کو یہ کہتے سنا اور رسول اللہ ﷺ سے وہ آواز بیان کیا جو یہ ہے۔
اللهم اكتُبْ لِي بها عندَك أَجْرًا، وضَعْ عني بها وِزْرًا، واجعلْها لي عندك ذُخْرًا، وتَقَبَّلْها مِنِّي كما تَقَبَّلْتَها من عبدِكَ دَاوُدَ(صحيح الترمذي:579)
ترجمہ: اے اللہ! اس کے بدلے تو میرے لیے اجر لکھ دے، اور اس کے بدلے میرا بوجھ مجھ سے ہٹادے، اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنالے،اور اسے مجھ سے تو اسی طرح قبول فرماجیسے تونے اپنے بندے داود سے قبول کیاتھا۔
ترمذی کی روایت میں آگے مذکور ہے۔ حسن بن محمدبن عبیداللہ بن أبی یزید کہتے ہیں: مجھ سے ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے تمہارے دادا نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ نبی اکرمﷺ نے آیت سجدے کی تلاوت کی اور سجدہ کیا، ابن عباس کہتے ہیں: تو میں نے آپ کو ویسے ہی کہتے سنا جیسے اس شخص نے اس درخت کے الفاظ بیان کئے تھے۔
تیسری عام دعا:
صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ نبی ﷺ جب سجدہ کرتے توکہتے : اللهمَّ ! لك سجدتُ . وبك آمنتُ . ولك أسلمتُ . سجد وجهي للذي خلقَه وصوَّره ، وشقَّ سمعَه وبصرَه . تبارك اللهُ أحسنُ الخالقِين(صحیح مسلم:771)
ترجمہ:اے اللہ!میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیااور تجھ ہی پر ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا،میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نےاسے پیدا کیا،اس کی صورت گری کی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں،برکت والاہے اللہ جو بہترین خالق ہے ۔
سنن دارقطنی اور صحیح ابن حبان وغیرہ میں رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا فرض نمازمیں کرنے کی بابت منقول ہےجبکہ دوسری احادیث سے رات کی نفل نماز کے سلسلے میں بھی وارد ہے ۔ چونکہ سجدہ تلاوت میں سجدہ سے متعلق ساری دعائیں کرسکتے بلکہ دیگر ماثورہ دعائیں بھی کرسکتے ہیں اس دعا کو بھی سجدہ تلاوت میں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سجدہ تلاوت کے مزید چند احکام :
٭نماز میں سجدہ تلاوت کرتے وقت امام تکبیر کہتے ہوئے سجدہ کرے گا اور مقتدی کو الزامی طور پر امام کے ساتھ سجدہ کرنا ہوگا پھر تکبیر کہتے ہوئے کھڑا ہوگا، سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر نماز کے ساتھ خاص ہے،بغیر نماز والے سجدہ میں اٹھتے وقت تکبیر نہیں ہے۔
٭ بہتر یہ ہے کہ امام سری نماز میں لوگوں میں تشویش ہونے کی باعث سجدہ تلاوت نہ کرے البتہ منفرد کے لئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
٭ قاری کے علاوہ سامع پر بھی سجدہ تلاوت مسنون ہے یعنی نے جس نے قاری کو آیت سجدہ تلاوت کرتے سنا اس کو سجدہ کرنا چاہئے جیساکہ نبی ﷺ جب کوئی سجدہ کی آیت تلاوت کرتے تو سجدہ کرتے اور آپ کے ساتھ موجود صحابہ بھی سجدہ کرتے۔
٭ کوئی گاڑی چلاتے ہوئے ٹیپ رکارڈسے تلاوت کی آیت سنے تو ممکن ہو تو سجدہ کرلے ورنہ چھوڑ بھی سکتا ہے کیونکہ واجب نہیں ہے ، عدم وجوب کی دلیل اوپر گزری ہے۔ ٹرین، جانورکی سواری اور جہاز وغیرہ پر سفر کرتے وقت آیت سجدہ پڑھنے یا سننے یا لاؤڈسپیکرسے آیت سجدہ سننے کا  بھی یہی  حکم ہے۔ سواری پہ سجدہ نہ کرسکنے کی صورت میں ہاتھ کے اشارے کے ساتھ تھوڑا سا جھک جائے اور دعا پڑھ لےیہ بھی کافی ہے۔
٭سجدہ تلاوت کرتے وقت کوئی اونچی چیز نہ ملے توقرآن پاک فرش پہ رکھ سکتے ہیں ، کوئی موجود ہو تو اس کو تھمادے اور اگر ریحل ، ٹیبل یا طاق وصندوق وغیرہ ہوتواس پر رکھ دے یا خود اپنے ہاتھ میں تھام کر بھی سجدہ کرسکتا ہےاس حال میں کہ ہاتھ زمین پر ہو۔
٭ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ بھی قرآن پڑھ سکتی ہے وہ اگر سجدہ تلاوت سے گزرے تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا ہےکہ حیضاء اور نفساء کے سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
٭ عورت سجدہ کرے تو سر ڈھانپنا ضروری نہیں ہے تاہم بہتر ہے اور بعض اہل علم نے ضروری قرار دیا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
٭جب قاری یا حفظ کرنے والا بار بار سجدہ والی آیت پڑھے تو ایک بار سجدہ کرنا کافی ہےاور چھوڑ دینے میں گناہ نہیں ہےکیونکہ واجب نہیں ہے۔
٭جس طرح اسباب والی نمازیں مکروہ اوقات میں بھی ادا کرسکتے ہیں اسی طرح سجدہ تلاوت بھی کرسکتے ہیں خواہ سورج ڈوب رہاہو یا نکل رہاہو۔
٭کوئی تلاوت کرے اور تھوڑی دیر بعد سجدہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن آیت سجدہ کی تلاوت پہ طویل وقت گزر جائے اور سجدہ نہیں تھا تو اب سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭ قرآن کریم میں سورہ حج کے آخر میں باہری صفحہ پر"السجدة عند الشافعي" (یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہاں سجدہ تلاوت ہے) لکھا ہوتا ہے ۔ یہ فقہی مسلک کے اعتبار لکھا ہوا ہے کہ اسے امام شافعی یہاں سجدہ مانتے ہیں جبکہ امام ابوحنیفہ نہیں مانتے ۔ میں نے اوپر حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں اس لئے حدیث رسول کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی یعنی ہمیں اس بات کو محمد ﷺ کی جانب نسبت کرنے کی ضرورت ہے۔
سجدہ تلاوت کے متعلق رائج چند غلط طریقے :
1/ بعض لوگ سجدہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ، زبان سے نیت بھی کرتے ہیں اورسجدہ سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہیں سو ان کاموں کی کوئی دلیل نہیں ہےاس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے، سجدہ کرنے کا طریقہ اوپر بیان ہوا ہے اس کےمطابق کریں ۔
2/بعض لوگوں میں یہ طریقہ رائج ہےکہ مکمل قرآن ختم کرکے اکٹھے سارے سجدے کرتے ہیں بطور خاص تراویح پڑھانے والے آخر رمضان میں ختم قرآن کے دن ساری سجدہ والی آیتیں اکٹھے پڑھ کر اکٹھے سجدہ کرتے ہیں ۔ یہ دین میں نئی ایجاد ہے ۔ اسی طرح بعض لوگ تلاوت مکمل کرکے سجدے کرتے ہیں یہ بھی غلط ہے۔
3/ تلاوت کرتے ہوئے سجدہ والی آیت کو چھوڑ دینا اور آگے تلاوت کرنا جائز نہیں ہے جیساکہ بعض حفاظ کرتے ہیں ،بھلے سجدہ نہ کرے مگر آیت سجدہ کی تلاوت ترک نہ کرے ۔
4/بعض لوگ سجدہ کی جگہ بجائے سجدہ کرنے کےبعض قسم کے اذکار کرتے ہیں مثلا "سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير" یا "سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر" یا چار دفعہ"لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير" یہ بھی دین میں نئی ایجاد ہے ، ذکرسجدہ کا بدل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلاف میں سے کسی نے ایسا کیا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ ایسی کوئی دعا نہیں ہے جو سجدہ تلاوت سے مستغنی کردے۔
5/ بعض لوگ سور ج ڈوبتے اور نکلتے وقت سجدہ تلاوت نہیں کرتے ایسے لوگ اس معاملہ میں خطا پر ہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ ایسے وقتوں میں سجدہ کرسکتے ہیں ۔
6/احناف کےیہاں لکھا ہے کہ کلاس میں جتنے طالب علم سجدہ کی آیت پڑھے استاد کو اتنی دفعہ واجبی طور پرسجدہ کرنا ہوگا۔ یہ تکلیف مالا یطاق ہے۔ اولا سجدہ تلاوت واجب ہے ہی نہیں ،ثانیا ایسی حالت میں ایک بار سجدہ کافی ہے۔
7/ قرآن خوانی میں ایک شخص دوسرے کی طرف سے سجدہ کرتا ہے۔ معلوم رہے قرآن خوانی کامروجہ طریقہ شریعت کے خلاف ہے اور یہ بھی خلاف سنت ہے کہ کوئی دوسرے کی جانب سے سجدہ تلاوت کرے۔


مکمل تحریر >>

Saturday, July 21, 2018

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل


آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)


1/ اس کلام کی کیا حقیقت ہے "جب تمہیں ہچکی لگے تو پہلی ہچکی پر کلمہ طیبہ پڑھ لو ان شاءاللہ ہچکی رک ہو جائے گی اور اس عمل کو اپنی عادت بنا لو اور جب موت آئے گی جو برحق ہےتو موت سے پہلے ایک ہچکی آئے گی اور تماری عادت کی وجہ سے تمہاری زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہو جائے گا ان شاءاللہ "۔
جواب : ہچکی انسانی فطرت ہے جسے بعض اطباء نے بیماری کی علامت یا کھاتے پیتے وقت کسی خرابی کے سبب آتی ہے اس سے نجات پانے کے لئے بہت سے نسخے ہیں جسے عمل میں لاکر اسے بند کیا جاسکتا ہے۔ذکر تو ہروقت مشروع ہے لیکن اگر کوئی ہچکی کے وقت کلمہ پڑھنے کو خاص کرتا ہے تو اس سے بدعت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ایسی کوئی تعلیم رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ طبی نسخہ اختیار کیا جائے اور عافیت ملنے پر اللہ کی حمد بیان کی جائے ۔
2/ فرض نمازوں کے بعد آیۃ الکرسی اور معوذات پڑھنے کی کیا فضیلت ہے ؟
جواب : فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے سے متعلق رسول اللہ کا فرمان ہے :
مَنْ قرأَ آيةً الكُرسِيِّ دُبُرَ كلِّ صلاةٍ مكتوبةٍ ، لمْ يمنعْهُ من دُخُولِ الجنةَ إلَّا أنْ يمُوتَ (صحيح الجامع:6464)
ترجمہ: جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھتا ہے تو اسے جنت میں داخل ہونے سے موت کے علاوہ کوئی چیز نہیں روکتی ۔
اور معوذات یعنی سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس یہ تینوں عظیم سورتیں ہیں ۔ پہلی سورت رحمن کی صفات پر مشتمل ہے تو بقیہ دوجن و شیطان اور شروحسد سے پناہ مانگنے پر البتہ فرض نمازوں کے بعد انہیں پڑھنے کی خاص فضیلت وارد نہیں ، رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہے کہ انہیں پڑھی جائے۔
3/ بچے کو دو سال سے زائد دودھ پلانے کا کیا شرعا کیا حکم ہے ؟
جواب : مدت رضاعت دوسال ہے جو اللہ کے اس فرمان میں موجودہے :
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ(البقرۃ :233)
ترجمہ : مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔
دو سال سے زیادہ دودھ پلانا جائز ہے اگر اسے ماں کے دودھ کی حاجت ہو۔ اس کی متعدد مثالیں ہوسکتی ہیں مثلا بچہ لاغر ہو اور ماں کے دودھ سے اسے فائدہ پہنچتا ہویا اسی طرح دانہ پانی نہ کھاتا پیتا ہو وغیرہ ۔ اللہ کا فرمان ہے : لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (البقرة:279 )۔
ترجمہ: نہ تم کسی پر زیادتی کرواور نہ ہی تم پر کوئی زیادتی کرے ۔
4/ اگر جمعہ کے دن خطیب نہ ہو تو کیا جمعہ کے بدلے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے ؟
جواب : اگر کسی دن رسمی خطیب جمعہ کو حاضر نہ ہوسکے اور مسجد میں کوئی عالم دین بھی موجود نہ ہو تو عوام میں سے ہی کوئی جمعہ کا مختصر خطبہ دے جس میں حمدوثنا کے بعد معمولی سی نصیحت کردے اور درود پڑھ کر خطبہ ختم کردے کفایت کرجائے گاپھر دو رکعت جمعہ کی نماز پڑھادے۔ آج تو تقریبا تمام مساجدمیں خطبات کی کتابیں رکھی ہوتی ہیں اسے دیکھ کر پڑھ لیا جائے اور پھر جمعہ کی نماز پڑھی جائے یاقریب کی کسی جامع مسجد میں چلے جائیں مگر جمعہ چھوڑ کر اس کے بدلے میں ظہر پڑھنا صحیح نہیں ہے ۔
5/ ووٹ دینے کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟
جواب : جمہوریت اپنی جگہ بلاشبہ اسلام سے متصادم ہے ساتھ ہی ووٹنگ کا مروجہ طریقہ جس ادنی اور اعلی سب برابر ہوں سوفیصد غلط ہے مگر چونکہ جمہوری نظام کے تحت رہنے والوں پر حکمرانی کرنے والاووٹنگ سے ہی چنا جاتا ہے ایسے میں ہمارا حق بنتا ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال کرکےاور رشوت ودباؤ سے بالاتر ہوکر مفاد عامہ کی خاطر کام کرنے والے نمائندہ کا انتخاب کریں اور زیادہ نقصان پہنچانے والے عناصر سے قوم کو بچائیں۔
6/ اٹیچ باتھ روم میں وضو کرنا کیسا ہے ؟
جواب : اٹیچ باتھ روم میں وضو کرسکتے ہیں اور وضو کرتےوقت بسم اللہ کہنا چاہئے اور بیت الخلاء میں اللہ کانام لینا منع ہے اس وجہ سے اللہ کانام زبان سے نہ لے بلکہ دل میں پڑھ لے اور وضو کرکے وضو کی دعا باہر آکر پڑھے ۔ ویسے شروع میں بسملہ کہنے کے متعلق اختلاف ہے بعض نے واجب اور بعض نے سنت کہا ہے۔
7/ جمعہ کے دن خطیب کو ممبر سے اترنے کے بعد مقتدی کھڑا ہو یا اقامت کے دوران ہی؟
جواب : اقامت کے دوران کسی بھی وقت مقتدی کھڑا ہوسکتا ہے ، کھڑا ہونے کاکوئی وقت متعین نہیں ہے۔
8/ کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب: خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے اور خون بہہ رہاتھا تو اسی حالت میں نماز پوری کی ۔
9/ قربانی کا گوشت غیر کو دے سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب : غیرمسلم دوست، پڑوسی ، نرم اخلاق والوں، مانگنے والوں، اسلام کی طرف میلان رکھنے والوں یا مسلمانوں کی مدد کرنے والوں یعنی جو کافر ہمارے احسان وسلوک کے حقدار ہیں کو قربانی کا گوشت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
10/ اگر امام کے پیچھے مقتدی سے ایسی کوئی غلطی ہوجائے جس سے سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے تو کیا نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا؟
جواب : مقتدى بھول جائے تو اس كى كئى ايک حالتيں ہيں:
1-اگر مقتدى اپنى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق بھى نہ ہو يعنى اس نے سب ركعات امام كے ساتھ ادا كى ہوں، مثلا ركوع ميں سبحان ربى العظيم بھول جائے تو اس پر سجدہ نہيں ہے كيونكہ اس كى جانب سے امام متحمل ہے، ليكن فرض كريں اگر مقتدى سے ايسى غلطى ہو گئى جس سے كوئى ايك ركعت باطل ہو جاتى ہو، مثلا سورۃ فاتحہ پڑھنا بھول گيا تو اس حالت ميں امام كے سلام پھيرنے كے بعد وہ ركعت ادا كرنا ضرورى ہے جو باطل ہوئى تھى پھر تشھد پڑھ كر سلام كے بعد سجدہ سہو كرے.
2- اگر مقتدى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق ہو يعنى اس كى كوئى ركعت رہتى ہو تو وہ سجدہ سہو ضرور كرے گا چاہے وہ امام كے ساتھ نماز ادا كرتے ہوئے بھولا ہو يا باقى مانندہ نماز ادا كرتے ہوئے بھول جائے؛ كيونكہ اس كے سجدہ كرنے ميں امام كى مخالفت نہيں ہوتى اس ليے كہ امام اپنى نماز مكمل كر چكا ہے.(رسالۃ فى احكام سجود السھو تاليف شيخ ابن عثيمين بحوالہ الاسلام سوال وجواب فتوی رقم :72290)
11/ سالی کی بیٹی سے شادی کا حکم بتائیں ۔
جواب : جس طرح بیوی کے ہوتے ہوئے سالی سے نکاح حرام ہے اسی طرح سالی کی بیٹی سے بھی نکاح حرام ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أن يجمعَ الرجلُ بين المرأةِ وعمَّتِها ، وبين المرأةِ وخالتِها .(صحيح مسلم:1408)
ترجمہ: کسی عورت اور اس کی پھوپھی کو، اور کسی عورت اور اس کی خالہ کو (نکاح میں) اکٹھا نہ کیا جائے۔
جب بیوی کی وفات ہوجائے یا طلاق ہوجائے تو عدت گزرنے کے بعد سالی کی بیٹی سے شادی کرسکتے ہیں۔
12/ ہمارے علاقے میں حجاج حج پر نکلنے سے پہلے کسی عالم کو گھر بلاکر ان سے دعا کرواتے ہیں ، اس عمل کا کیا حکم ہے؟
جواب : کسی زندہ نیک آدمی سے دعا کروانا جائز ہے لیکن دعا کروانے کا کوئی مخصوص طریقہ رائج کرلیا جائے تو پھر غلط ہے مثلا حج پر جانے سے پہلے لوگ اپنے گھر عالم بلابلاکر دعا کروانے لگے تو پھر اس صورت میں یہ کام ممنوع ہوگا۔
13/ دوران حج وعمرہ صفا ومروہ پر جو دعائیں کرنی ہے ان میں ہاتھ اٹھانا ہے یا بغیر اٹھائے دعا کرنی ہے ؟
جواب : صفا ومروہ پر یہ دعا بغیر ہاتھ اٹھائےتین تین دفعہ پڑھنی ہے" لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده۔" اوردرمیان میں ہاتھ اٹھاکر قبلہ رخ ہوکر جو جی میں آئے تین دفعہ دعا کرے ۔
اور کنکری مارتے وقت جمرہ اولی کی رمی کے بعد اس سے ہٹ کر قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے اور ایسا ہی جمرہ وسطی کی رمی کے بعد بھی کرے مگر جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعا کے لئے نہ ٹھہرے ۔
14/ لڑکی کے والد نہیں ہیں ،والدہ ہے مگر وہ شادی کے لئے راضی نہیں ہے جبکہ لڑکی اور لڑکا نیز لڑکا کے گھروالے راضی ہیں ۔ کیا اس صورت میں ماں ولی بن سکتی ہے یا اس کی جگہ کوئی دوسرا ولی بن سکتا ہے ؟
جواب : نکاح میں ماں کی ولایت قبول نہیں ہے ، مردوں کو یہ حق حاصل ہے اور حقیت کے اعتبار سے ولایت کی ترتیب ہے ۔ پہلے باپ پھر دادا، پھر بیٹا، پھر سگے بھائی ،، اس طرح سوتیلا بھائی (باپ کی جانب سے)، پھر سگے اور سوتیلے بھائی کی اولاد ، پھر حقیقی چچا ،پھر باپ کی طرف سے سوتیلا چچا ۔اس ترتیب کے ساتھ ان میں سے جو زندہ ہو اس کی ولایت میں لڑکی کی شادی ہوگی ۔
15/ہم طالب علم جامعہ کے اندر جس روم میں رہتے ہیں اس میں پیسے کی چوری کثیر تعداد میں ہوتی ہے اورکسی کا کہنا ہے کہ کوئی آدمی ہے جو جن کے ذریعہ سے پتہ لگا لیتا ہے تو کیا اس پر عمل کرنا صحیح ہوگا ؟
جواب : گم شدہ سامان کی برآمدگی کے لئے جنات کی مدد لینا جائز نہیں ہے ، آپ کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ سے اس کی واپسی کی دعا کریں، پوچھ تاچھ کریں اور قانونی کاروائی کریں ۔
16/زید نے پانچ لاکھ موٹی رقم حامد کو بطور قرض دیا اور ادائیگی کی مدت دو سال مقرر کی اور زید نے دوسال تک اس مال کی زکاۃ دی ، اب ادائیگی وقت ہو گیا مگر حامد قرض کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا ٹال مٹول کرتے ہوئے مزید ایک سال ہوگیا تو کیا زید پر اس دیے ہوئے مال کی زکاۃ اس سال واجب ہے؟
جواب : ہاں تیسرے سال کی بھی زکوۃ ادا کرے گا۔
17/کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟*** فیضانِ حدیث *** قیامت کے روز اللہ کریم کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، تین شخص اللہ پاک کے عرش کے سایے میں ہوں گے (1) وہ شخص جو میرے امتی کی پریشانی دُور کرے (2) میری سنت کو زندہ کرنے والا (3) مجھ پر کثرت سے درود پڑھنے والا.( البدور السافرہ حدیث 366 )
جواب : ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ملتی ہے مگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
"ثلاثةٌ تحت ظلِّ عرشِ اللهِ يومَ القيامةِ ، يومَ لا ظلَّ إلَّا ظلُّه . قيل : من هم يا رسولَ اللهِ ! قال : مَن فرَّج على مكروبٍ من أمَّتي وأحيَا سنَّتي ، وأكثر الصَّلاةَ عليَّ"
سخاوی نے کہا کہ اس کی معتمد اصل پہ مجھے اطلاع نہیں مل سکی ۔( القول البديع:181)
18/ یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے سجدہ کیا تھا یہ کون سا سجدہ تھا؟
جواب : یوسف علیہ السلام نے بچپن میں خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے او ر چاند وسورج انہیں سجدہ کررہے ہیں ،یہی خواب اس وقت تعبیر بن کر حقیقت میں تبدیل ہوگیا جب انہیں مصر کی بادشاہت ملی کہ ان کے والدین اورسارے  بھائی بطور سلام وتکریم سجدہ ریز ہوگئے ۔ دراصل یہ یوسف علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا جبکہ امت محمدیہ میں کسی قسم کا سجدہ غیراللہ کے لئے جائز نہیں ہے ۔
19/ میاں بیوی میں جھگڑا لڑائی ہونے کی وجہ سے تقریبا تیس سال تک دوری رہی اب وہ دونوں اکٹھا ہونا چاہتے ہیں اس کے لئے کیا نکاح تجدید کرنے کرنے کی ضرورت ہے ؟
جواب : جھگڑا لڑائی سے میاں بیوی میں دوری ہوجانے پر نکاح نہیں ٹوٹتا ہے خواہ کتنے بھی سال ہوگئے ہوں البتہ اس طرح  دوری نہیں اختیار کرنی چاہئے تھی اس پہ اللہ تعالی سے توبہ واستغفار کریں۔ وہ دونوں ابھی بھی میاں بیوی ہیں لہذا نکاح کی ضرورت نہیں ہے بغیر نکاح کے اکٹھے ہوسکتے ہیں ۔
20/ دربار پر چڑھائے ہوئے بکرے منڈی یا قریبی بازار میں اس کے متولیان بیج دیتے ہیں ایسے بکرے کا گوشت یا قیمہ خریدنا کیسا ہے ؟
جواب : دربار پر چڑھایا ہوا جانور غیراللہ کے لئے ہے جس کا کھانا ، خریدنا، بیچنا کچھ بھی جائز نہیں ہے۔
21/ میں ایک مسجد میں امام ہوں وہاں لوگوں نے رمضان میں تراویح اور وتر کی نماز کے بعد جنازہ کی نماز پڑھی جبکہ حدیث میں وتر کو آخری نماز بنانے کا حکم ہے ؟
جواب : صحیحین کی روایت سے ثابت ہے کہ رات کی آخری نماز وتر کو بنانا چاہئے لیکن نبی ﷺ سے وتر کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھنا ثابت ہےجیساکہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وتر کے بعد رسول اللہ ﷺ  بیٹھ کردو رکعت ادا کیا کرتے تھے (مسلم:738) اس لئے وتر کے بعد بھی نوافل یا دوسری نماز (نماز جنازہ) پڑھ سکتے ہیں ۔
22/ تکافل مروجہ کی شرعی کیا حیثیت ہے ؟
جواب : مروجہ تکافل بھی بیمہ کی طرح ناجائز ہے کیونکہ یہ بھی بیمہ ہی کی ایک شکل ہے ۔

مکمل تحریر >>