Saturday, June 30, 2018

رویت ہلال پہ حدیث کریب کا ایک مطالعہ

رویت ہلال پہ حدیث کریب کا ایک مطالعہ


مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)


رفتار زمانہ کے حساب سے مسائل واحکام میں بھی بسا اوقات تبدیلی واقع ہوتی ہے، آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں بعض کے نزدیک وحدت رویت کا مطالبہ وقت کی ضرورت اورحالات کا تقاضہ ہے۔یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے متقدمین میں سے بھی بعض علماء نے وحدت رویت پہ روشنی ڈال کر اسے اپنےموقف کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔جہاں تک مسئلہ امت کا ہےوہ سب کے سامنے ہے ، ہمیشہ سے امت کا تعامل وحدت رویت کے خلاف رہا ہے ۔ اپنے اپنے علاقہ کی رویت پہ انحصار کرکے روزہ رکھنے اور عید منانے کا دستور رہا ہے ۔
رمضان کے موقع سے رویت کے متعلق عوام میں شدید اختلاف کے باعث بعض علماء وحدت رویت پہ امت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ میں ایسے علماء کا اس وقت تک حامی نہیں ہوں جب تک امت کا وحدت رویت پر واضح اور قابل عمل اتفاق نہ ہوجائے خواہ عالمی سیمینار کرکے یا ملکی پیمانے پر اپنے اپنے علماء کے اتفاق رائے سے ۔
مختصر الفاظ میں اپنے موقف کو بیان کرنے کے بعد یہاں رویت ہلال کے سلسلے میں بہت ہی مشہور اور اہم دلیل حدیث کریب کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں تاکہ حالات کے تقاضہ سے ہٹ کر ہمیں رویت ہلال سے متعلق فہم سلف کی روشنی میں اسلام کا موقف معلوم ہوسکےکیونکہ کتاب وسنت کو ہمیں فہم سلف کی روشنی میں سمجھنا ہے ۔ اگر فہم قرآن وحدیث سے فہم سلف کو نکال دیا جائے تو پھر کوئی بھی نص کے مفہوم کو اپنے مسلک کی تائید میں موڑ سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں فہم سلف کا درجہ ویسے ہی ہےجیسے حدیث میں سند کا۔ آئیے حدیث کریب کا ایک مطالعہ کرتے ہیں ۔
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نےچاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
تخریج: (صحيح مسلم:1087، سنن أبي داود:2332، سنن النسائي:2111، سنن الترمذي:693، صحیح ابن خزیمہ:1916، السنن الکبری للبیہقی:8007،مسند أحمد:2785، سنن الدارقطني:2185 \21)
یہ حدیث مختلف کتب احادیث میں مروی ہے، یہ حدیث جن محدثین کے توسط سے ہم تک منقول ہوئی ہے انہوں نے اپنے اپنے اساتذہ سے کیا سمجھا ہے یہ جاننے کی اہم بات ہے۔ اس سے حدیث کا معنی ومفہوم متعین کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ حدیث اپنے معانی ومفاہیم کے ساتھ منتقل ہوتی آرہی ہے اس لئے ہمارے واسطے حدیث کی فہم وفراست میں سلف کی فہم ہی معیار ہے۔
حدیث کریب پہ محدثین کے قائم کئے گئے ابواب :
محدثین نے احادیث کو کتاب اور ابواب کے اعتبار سے جمع کیا ہے اس طرح محدثین نے حدیث سے کیا سمجھا ہے اس کا معنی متعین کرنے میں ہمارے لئے آسانی ہوگئی ہے۔
(1) مسلم شریف میں اس حدیث پر یوں باب باندھا گیا ہے :
’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دور کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔
(2) امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں مذکورہ حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے ’’باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟۔
(3) امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس طرح باب قائم کیا ہے ’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔ باب اس چیز کے بیان میں کہ ہر علاقہ والوں کے لئے اپنی اپنی رویت کا اعتبار ہوگا۔اور پھر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :"العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ "اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔
(4) امام نسائی نے کچھ اس طرح باب باندھا ہے: "باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ "باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشندے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں۔
 (5) امام ابن خزیمہ نے یہ باب قائم کیا ہے: ’’ باب الدليل على أن الواجب على أهل كل بلدة صيام رمضان لرؤيتهم لا رؤية غيرهم‘‘ یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے ۔
(6) حدیث کریب کی روایت کو بیہقی نے اپنی السنن الکبری میں اس باب سے بیان کیا ہے" باب الهلال يرى في بلد ولا يرى في آخر" چاند کے بارے میں باب جسے ایک شہر والے نے دیکھا اور دوسرے شہر والے نے نہیں دیکھا۔
(7) دارقطنی نے اپنی سنن "باب الشهادة على رؤية الهلال" (چاند دیکھنے کے سلسلے میں گواہی کا باب )کے نام سے باب باندھا ہے۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ کتاب وسنت کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھنا ہے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول سے فہم سلف نکال دیا جائے تو نص کو جو چاہے گا اپنے مقصدوہدف کی طرف پھیر لے گا۔ یہ حدیث جن کتب احادیث میں آئی ہے ان کی تدوین وترتیب کرنے والوں نے اپنے اپنے اساتذہ سےرویت ہلال کا  یہی مذکورہ معنی معلوم کیا ہے اور انہوں نے اپنے اپنے شاگردوں کو بھی اسی معنی ومفہوم کی تعلیم دی ہوگی ۔ ان سارے شیوخ وتلامذہ کی تعداد دیکھی جائے تو ہزاروں میں ممکن ہے۔ ان کے علاوہ اسلاف کی ایک بڑی جماعت سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا اعتبار کرنا منقول ہے جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور آخر اسی پرچودہ صدیوں سے  امت کا تعامل بھی رہاہے جیساکہ امام ترمذی نےحدیث کریب پہ لکھا ہے کہ اہل علم کے درمیان اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہرعلاقہ کی رویت کا اعتبار ہوگااور امام بغوی نے بھی لکھا ہے کہ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ "ان لکل اھل بلد رویتھم" ۔ البتہ بعض اہل علم نے وحدت رویت ہلال کا ذکر کیا ہے وہ بہت تھوڑے ہیں انہیں شمار کرسکتے ہیں ۔
حدیث کی شرح اور اس کا مفہوم :
اس حدیث میں مذکور ہے کہ ام الفضل نے کریب کو شعبان کے اخیر میں معاویہ کے پاس کسی کام سے بھیجا تو وہاں انہوں نے اور اہل شام نے جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اور سبھوں نے روزہ رکھا۔ جب کریب کام مکمل کرکے دوران رمضان ہی مدینہ لوٹ آئے ۔ ابن عباس سے کریب کی رویت ہلال پہ گفتگو ہوئی تو کریب نے کہا کہ ہم لوگوں نے جمعہ کی شب چاند دیکھا ہے ، تاکیدا ابن عباس نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے بھی دیکھا اور اہل شام نے بھی دیکھا ۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے اور اسی دن سے روزہ شروع کیا ہے لہذا ہم روزہ رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم چاند دیکھ لیں تو عید منائیں گے یا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے مکمل کریں گے ۔گویا ابن عباس نے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہیں کیا۔ کریب نے اس بات پہ تعجب کا اظہار کیا کہ کیا امیرمعاویہ کی رویت آپ کے لئے کافی نہیں ہے ؟  تو ابن عباس نے جواب دیا کہ نہیں ہمارے لئے امیر معاویہ کی رویت کافی نہیں ہے کیونکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اس حدیث میں تین باتیں اہم ہیں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ شام اور مدینہ کے درمیان کتنی مسافت ہے ؟ 
دوسری بات یہ ہےکہ  ابن عباس نے معاویہ کی رویت کا اعتبار کیوں نہیں کیا؟
تیسری بات یہ ہے کہ ابن عباس کا کہنا ایسے ہی نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میپ زوم ڈاٹ کام کے اعتبار سے طریق(راستہ) کا اعتبار کرکے 1267 کیلو میٹر ہے اور خط مستقیم کا اعتبار کرکے 1045 کیلو میٹر ہے۔ صاحب سبل السلام تحریر فرما ہیں کہ اہل شام کی رویت کا اعتبار اہل حجاز کے لئے نہیں ہوگا اور کریب نے اکتیسواں روزہ رکھا جو کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں ہی تھا۔ (سبل السلام :ص156)
کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اگر شام ومدینہ کے درمیان 1045 یا 1267کیلو میٹر کا فرق ہے تو ہندوستان میں پندرہ کیلو میٹر یا دوسری جگہ اس سے کم اور زیادہ  کا اعتبار کیوں ہوتا ہے ؟ کرہ ارض کے نشیب وفراز سے مطلع کے فرق میں بعض مقامات کا بعض دوسرے مقامات سے فرق ہوسکتا ہے اس لئے اصلا مطلع کا فرق دیکھا جائے گا نہ کہ کیلو میٹر کا ۔ اس کا عمومی طریقہ یہ ہے کہ عموماجن علاقوں میں ایک ساتھ رویت ہوتی ہے ان تمام علاقوں کا مطلع ایک مانا جائے گاخواہ مسافت جو بھی ہو۔
دوسرے سوال کا جواب صحیح مسلم کی مشہور زمانہ شرح (شرح نووی) کی روشنی میں دو معانی کا امکان ہے ۔ پہلا معنی تو یہ ہوسکتا ہے کہ کریب کی خبر ،خبر واحد تھی اور یہاں شہادت کا معاملہ تھا جس کے لئے خبر واحد کافی نہیں ہوتی ۔  حدیث کا یہ معنی متعین کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ خود امام نووی نے کہا کہ یہ بات ظاہر حدیث کے خلاف ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ابن عباس نے کریب کی خبر اس لئے رد کردی کیونکہ رویت دور والوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتی۔ حدیث کے ظاہر سے یہی دوسرا معنی صحیح ہے۔
تیسری بات ابن عباس کا قول کہ اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے اس سے مراد ابوداؤد کی عمدہ شرح عون المعبود میں حدیث کریب کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ چیز یاد کررکھی تھی کہ ایک بلد کا دوسرے اہل بلد کی رویت پر عمل لازم نہیں ہے ۔
حدیث کریب پر چند اعتراضات کا جواب :
پہلا اعتراض : اگر حدیث کریب ہی اختلاف مطلع کے اعتبار میں دلیل ہے تو اس حدیث کے حساب سے شام وحجاز کے درمیان جو مسافت ہے اس مسافت کو ہرجگہ دلیل بنائی جائے پھر ہندوستان میں پندرہ سوکلومیٹر  یا اس سے زیادہ کی رویت کیوں معتبر ہے ؟
جواب :  حدیث کی شرح اور اس کامفہوم کے عنوان سے پہلی بات کے تحت اس کا جواب دیا جاچکا ہے ۔ اور ہاں اس کے بہت سارے دلائل ہیں حدیث میں اہل ستارہ کا مسئلہ دیکھیں اور عکرمہ کا قول لکل اھل بلد رویتھم  بھی دیکھ لیں ۔
دوسرا اعتراض : ابن عباس کا اہل شام کی رویت نہ تسلیم کرنا صحابی کا اجتہاد تھا جوکہ غلط بھی ہوسکتا ہے ۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ صحابی نے خود اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ہمیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے گویا کہ یہ ان کا اجتہاد نہیں تھا فرمان رسول پر عمل تھا۔
تیسرا اعتراض: افطار کے سلسلے میں خبر واحد کافی نہیں ہے اس وجہ سے ابن اعباس نے کریب کی خبر رد کردی کیونکہ انہیں رسول اللہ کا حکم معلوم تھا جیساکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا ہی رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے۔
جواب : اولا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر واحد کی وجہ سے کریب کی بات رد نہیں کی جیساکہ اوپر میں واضح کرچکا ہوں ۔ ثانیاحدیث کےاس ٹکڑے" أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ "سے جو بعض اہل علم نے خبر واحد کا احتمال ظاہر کیا ہے وہ حدیث کے ظاہر اوراکثر محدثین کی رائے کے خلاف ہے۔نیز کریب نے یہ نہیں کہا کہ صرف میں نے چاند دیکھا بلکہ کہامیں نے اور اہل شام نے چاند دیکھا ہے۔ اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ابن عبا س نے خبر واحد کی وجہ سے کریب کی خبر تسلیم نہیں کی تو آسانی سے اہل شام کے ذریعہ اس خبر کی تصدیق کرسکتے ہیں جبکہ ابن عباس نے ایسی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خبرواحد کا احتمال ظاہر کرنا بالکل صحیح نہیں ہے ۔
چوتھا اعتراض : یہ وہی ابن عباس ہیں جن سے عاشوراء کے روزہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا نو محرم کا روزہ رکھ  لے۔ سائل نے پوچھا کہ کیا اسی طرح رسول اللہ ﷺ روزہ رکھتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس جواب سے حدیث کریب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ ابن عباس کے کلام میں کس طرح خطا کا امکان ہوسکتا ہے؟
جواب : ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فیصلے کو کچھ لوگوں نے الگ رنگ دینے کی کوشش کی ہے جسے یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں ہے ۔ یہاں مسلم شریف کی حدیث نمبر 2664 میں ذکر عاشوراء کی بات کا جواب دینا ہے۔ یہ حدیث مسلم کے علاوہ ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن خزیمہ اور مسند احمد وغیرہ میں موجود ہے۔ اس حدیث کا شراح حدیث نے مختلف جواب دیا ہے اعتراض کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ مسلم شریف کی روایت ہے جس کی سند اور متن دونوں میں کہیں نکارت نہیں ہے۔
عون المعبود میں اس حدیث کے تحت مذکور ہے کہ نبی ﷺ اسی طرح روزہ رکھتے کا مطلب ہےکہ  رسول اللہ ﷺ نے آخرحیات میں نویں محرم کا روزہ رکھنے کا عزم کیا تھا گویا کہ آپ نے نویں کا روزہ رکھا۔ اور صاحب تحفہ الاحوذی نے امام شوکانی کے حوالے سے ایک قول ذکر کیا ہے کہ اسی طرح نبی ﷺ روزہ رکھتے تھے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی ﷺباحیات ہوتے تو اسی طرح روزہ رکھتے ۔
کتنی سیدھی بات ہے جسے غلط رنگ دیا جارہا ہے ۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع نہیں کیا ہے تاہم ارادہ ظاہر کیا کہ اگر قربانی کا جانور ساتھ نہیں لاتے تو میں بھی تمتع کرتا ۔ اس سے علماء نے تمتع کی افضلیت پر استدلال کیا ہے ۔
پانچواں اعتراض : حدیث کریب خاص ہے ۔
جواب : بالکل خاص نہیں ہے۔ خصوصیت کی دلیل چاہئے ۔
حدیث کریب کے چند اہم مستفادات:
حدیث کریب سے ایسے نکتے بھی نکلتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی اعتراض کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی مثلا
٭ کریب نے  شام میں شام کی رویت کا اعتبار کرکے روزہ رکھا اور مدینہ آئے تو اہل مدینہ کے حساب سے روزہ رکھا اور عید منائی جبکہ شام کے حساب سے انہوں نے اکتیس روزے رکھے۔
٭ کوئی صحابی اپنی جانب سے اجتہاد کرکے کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، سارے صحابہ عادل ہیں ۔
٭ رویت ہلال بہت ہی اہم معاملہ ہے ،اگر ایک جگہ کی رویت ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے معتبر ہوتی تو ابن عباس جیسےجلیل القدر صحابی رسول فورا  رویت اپنے لئے بھی معتبر گردانتے ۔ بھلا فرمان رسول کے سامنے صحابی اپنا اجتہاد چلا ئے،گیا گزرا مسلمان بھی ایسی بات نہیں سوچ سکتا۔
٭ رویت کے فرق سے اہل شام اور اہل مدینہ کے شب قدر میں فرق ہورہاہے اور رمضان کی اصل پونجی والی رات تو یہی ہے۔ کریب کی خبر نہ مان کر اپنےآپ کو اور اہل مدینہ کو شب قدر کی فضیلت سے کیسے محروم کرسکتے ہیں ؟
٭ رویت ہلال کا فرق تو بہر کیف زمانے میں موجود ہے ، مطلع کا واضح فرق ہے اور اس کااعتبار کرنا ہی دلائل سے قوی معلوم ہوتا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ کریب نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے حساب سے اپنا روزہ مکمل کیا اور اس طرح اکتیس روزے ہوگئے ۔ گویا ہر علاقے کی اپنی اپنی رویت ہے ۔ وہ اس طرح کہ اگر شام میں تیس دن رمضان کے مکمل ہوئے تو مدینہ میں بھی وہاں والوں کی رویت کے اعتبار سے تیس روزے ہوئے ۔ اس اہم نکتہ سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا معتبر ہونا معلوم ہوتا ہے۔
٭ وحدت رویت کو ماننے سے حدیث کریب کی روشنی میں اہل مدینہ کا ایک روزہ چھوٹ گیا جس کی قضا کرنی تھی ، اگر اس کی قضا کرلی جاتی تو اہل مدینہ کا روزہ کریب کی طرح اکتیس کا ہوجاتا جبکہ مہینہ اکتیس کا ہوتا ہی نہیں ہے۔ اہم سوال قضا کا ہے ۔ ابن عباس کا ایک روزہ قضا نہ کرنا اور اہل مدینہ کو قضا کا حکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دور والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
٭ کریب کی خبرسے جس طرح اہل شام اور اہل مدینہ کے روزہ میں فرق واقع ہورہا ہےاورشب قدر میں فرق ہوا، اسی طرح عیدمیں بھی فرق ہورہاہے جبکہ وحدت رویت والے کہتے ہیں عید اس دن ہے جس دن سب منائیں ۔ یہاں اس کی مخالفت ہورہی ہے۔
٭ کریب کی خبر کی تصدیق وتسلیم نہ کرنا اس کا بین ثبوت ہے کہ ہر علاقہ والے اپنے حساب سے رویت کا اعتبار کرتے تھے ورنہ اولا ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خبریں وصول کی جاتیں اور خلفاء وامراء کا باقاعدہ رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ایلچی کے ذریعہ کسی جگہ رویت ہوجائے تو دوسرےتمام علاقوں میں خبر دی جاتی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کام نہ عہد رسول میں ہو ا اور نہ ہی عہد خلافت میں جو سراسر رویت وحدت کے خلاف ہے۔
٭ رویت ہلال کو ہم رمضان کے ساتھ ہی خاص سمجھتے ہیں جبکہ یہ پورے سال کے ساتھ خاص ہے ، ہرماہ ایام بیض کے روزے تیرہ، چودہ اور پندرہ کو رکھنا ہے ۔ امت کی آسانی اسی میں ہے کہ اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کریں ۔ قریب وبعید کے علاقوں میں نہ صرف گھنٹوں اوقات کا فرق پایا جاتا ہے بلکہ رات ودن کا بھی فرق ہےجوکہ قدرتی نظام ہے اس میں ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ مجھے تو اس میں وحدت نظر نہیں آتی کہ  ایک مسلمان ایک جگہ عید منائے اور دوسری جگہ رات ہونے کے سبب ہمارے دوسرے مسلمان بھائی سورہے ہوں ۔
٭اللہ تعالی جس طرح سورج کو ایک وقت میں نکالتا اور ڈباتا ہے اسی طرح چاند کو بھی ایک وقت میں اگاتا اور ڈباتا ہےاور ان دونوں (شمس وقمر) کے طلوع وغروب ، صبح صادق اور اوقات زوال بلکہ پنچ وقتہ نمازوں کے اوقات مختلف ہیں حتی کے سارے مسلمانوں کا قبلہ ایک جہت میں نہیں ہے۔ جس طرح ہم نمازوں کے اوقات کے فرق کو امت کے اختلاف سے تعبیر نہیں کرتے اسی طرح علاقائی رویت کے حساب سے روزہ اور عید منانے کو امت کا اختلاف نہیں کہیں گے ۔  
ہر بلد والے کے لئے اپنی اپنی رویت پر اجماع:
علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہوگیا ہےکہ جو ایک شہر ایک دوسرے سے دور واقع ہو اس کی رویت کا اعتبار نہیں ہوگا جیسے کہ خراسان اندلس سے دور ہےاس لئے کہ ہر شہر کے لئے ایک خاص حکم ہےجو اس شہر کے ساتھ ہی مخصوص ہےجیساکہ حدیث میں آیا ہےچنانچہ جو شہر آپس میں قریب ہوں ان کی رویت ایک دوسرے لئے معتبر ہوگی ۔ خبر خواہ حکومت کی جانب سے ہو یا دو عال گواہوں کی طرف سے یا جماعت مستفیضہ کی طرف سے بہر حال قریبی شہر والوں کو شامل ہوگی  اور جو شہر زیادہ دور واقع ہو اس کو شامل نہیں ہوگی ۔ ابن عرفہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر)
وحدت رویت ہلال کا موقف اور آخری بات :
علامہ ابن باز نے اچھی بات کہی ہے کہ اگر وحدت رویت میسر ہوسکے تو یہ احسن وافضل ہے ورنہ ہرہلد کی رویت ہی تمام اہل علم کے نزدیک راحج ہے ۔ اور علامہ ناصرالدین البانی نے لکھا ہے جب تک تمام ممالک اسلامیہ وحدت رویت پر متفق نہ ہوجائیں اس وقت تک ہر ملک کے باشندوں کو اپنے ملک اور حکومت کے ساتھ روزہ رکھنا چاہئے ۔اختلاف کرکے الگ الگ نہ ہوجائیں کہ کوئی اپنے ملک کے حساب سے اور کوئی دوسرے ملک کے حساب سے عمل کرنے لگے بلکہ اپنے ملک کی رویت پر روزہ رکھنا چاہئے خواہ ایک دودن آگے پیچھے ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ایک ہی ملک میں وسیع پیمانے پر اختلاف پھیلنے کا خطرہ ہے اور ایسا بعض عرب ممالک میں ہوبھی رہاہے۔
ان دونوں موقف کو سامنے رکھتے ہوئے میں بھی یہ کہتا ہوں کہ  اگروحدت رویت پہ امت اسلامیہ کا اتحاد ہوجائے اور اتحاد کا نقطہ نظر بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے واضح اور قابل عمل ہو تو مجھے اس سے اختلاف نہیں ہے صرف اس وجہ سے کہ رویت ہلال پہ امت مزید ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر اپنی طاقت ختم نہ کرے اور غیروں کو جگ ہنسائی کا موقع نہ دے ۔ وحدت رویت کے کسی واضح اور قابل عمل  نقطہ اتحاد پر جب تک امت اسلامیہ کا اجماع نہ ہوجائے اس وقت تک مسلمانوں کو اپنے اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کرنا چاہئے اور اسی حساب سے روزہ رکھنا چاہئے اور عید منانا چاہئے ۔
مکمل تحریر >>

Thursday, June 28, 2018

طائف یونیورسٹی کے سابق پروفیسر میراحتشام علی دارفانی سے کوچ کرگئے


طائف یونیورسٹی کے سابق پروفیسر میراحتشام علی دارفانی سے کوچ کرگئے

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف

موت اٹل  حقیقت ہےکسی کو اس سے انکارنہیں  اور کسی صورت  اس سےمفر نہیں مگر بہت سے جانے والے اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جن کی وجہ سے دیرتک انہیں یاد کیا جاتا رہتا ہے، نام لئے جاتے رہتے ہیں بلکہ جب جب زبان پہ ان کا نام آتا ہے ذکرخیر ہوتاہے اور دعائے مغفرت ہوتی ہے۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
چند دن پہلے کی بات ہے پروفیسر میر احتشام علی طائف سعودی عرب میں موجود تھےاور تقریبا پانچ سالوں سے طائف یونیورسٹی میں شعبہ آئی ٹی سے منسلک ہوکر اپنا فریضہ انجام دے رہے تھے اچانک اس یونیورسٹی سے کئی پروفیسر وں کو برخواست کیا گیا ان میں سے ایک آپ بھی تھے ۔ بچوں کے ساتھ یہاں خوشحال زندگی گزاررہے تھے ۔یونیورسٹی کے اس فیصلے سےاچانک سب کچھ بدل گیا اور بچوں کے ساتھ اپنا وطن رخت سفر بادھنے پر مجبور ہوگئے۔ 21/ جون 2018 بروز جمعرات بذریعہ سعودی ایرلائنس جدہ سےحیدرآباد کا سفر ہوا ۔ جمعہ کو صبح سویرےبچوں کے ساتھ اپنے گھر صحیح سلامت پہنچ گئے تھے ۔ جمعہ گزرا، ہفتہ گزرا ، اتوار بھی گزرا۔ 25/ جون سوموار کو سرے شام سینے میں شدید درد اٹھا، فورا ایمبولینس منگاکر ہاسپیٹل لے جایا گیا وہاں ڈاکٹروں نے نبض دیکھ کر میت قرار دے دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
موت کسی بہانے آتی ہے مگر حقیقت میں وہ اپنے وقت پر آتی ہے۔ ڈاکٹروں نے دل کا حملہ قرار دیا ہے جو حالیہ صدمہ کے عوض لاحق ہواہو۔
اللہ کی طرف سے تمام نفس کے لئے اس کی موت کا وقت متعین ہے اور اسی وقت متعین پر موت کا فرشتہ اپنے مالک کے حکم سے کسی کی روح قبض کرتا ہے ۔اس سے لمحہ بھر نہ آگے اور نہ لمحہ بھر پیچھے عین وقت مقرر پر قفص عنصری سے روح پرواز کرتی ہے۔ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ، شاید اس کے پیچھے ہمارے خالق ومالک کی یہ حکمت رہی ہو کہ آدمی ہمہ وقت آخرت کی تیاری میں لگارہے ۔اس لئے ہمیں کبھی موت سے غافل نہیں ہونا چاہئے ،موت کو کثرت سے یاد کرکے آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا چاہئے ۔ یہ دنیا کیا ہے اور اس کی شی کیا ہے؟ سبھی فانی ہیں ۔
میر احتشام علی صاحب بڑے نیک، ملنسار،دوسروں کا خیرخواہ اور دعوت وتبلیغ سے جڑے ہوئے تھے ۔ یونیور سٹی کے پروفیسر ہونے کی باوجود طائف دعوۃ سنٹر سے جڑ کر دعوت کا فریضہ بھی انجام دیتے ، جالیات کے پروگراموں میں پیش پیش رہا کرتے ،بچوں کا پروگرام یہی سنبھالتے ان کے لئے دینی سوالات تیار کرتے اور انگریزی میں سوال وجواب کیا کرتے ۔ موصوف نےاس سنٹر سے دعوۃ کورس(EIECC) کی تربیت بھی حاصل کی تھی بلکہ دعوت سے پہلے بنیادی علوم کورس بھی پاس کئے تھے جن میں قرآن، حدیث ،عقیدہ اور احکام شامل ہیں ۔
دینی علوم کے علاوہ آپ نے حیدرآباد دکن سے بیچیلر اور امریکہ سے ماسٹر ڈگری پاس کیا تھا۔ زندگی کی لگ بھگ اڑتیس بہاریں دیکھ چکے تھے ۔ لمبے تڑنگے اور صحت مند وخوبصورت اوصاف کے حامل تھے ۔ نیزدین وعقیدہ، علم ومعرفت ، اخوت ومحبت ، صدق ووفااور پیکرجودوسخا سے مزین تھے ۔
طائف دعوۃ سنٹر کے داعی شیخ رحمت اللہ بالی اور ڈاکٹر فیاض الدین صاحب کے ساتھ اکثر اوقات رہا کرتے ، دین سے محبت کرتے اور دعوتی امور میں ان کی بھرپور مدد کیا کرتے تھے ۔ آج ان کی دینی خدمتوں سے طائف والے محروم ہوگئےمگر ان کی یادیں لوگوں پر مہربان رہیں گی،وہ اپنی خوبیوں کی وجہ سے اپنے حلقوں میں سدا یاد کئے جاتے رہیں گے ۔ طائف کے تمام دعاۃ بطور خاص شیخ بالی صاحب اور ڈاکٹر صاحب دونوں شکریہ کے حقدار ہیں جنہوں نے پروفیسر صاحب کواپنے سنٹر سے وابستہ کرکے دین ودعوت اور عقیدہ ومنہج سے مالا مال کیا ۔
آج ہی 26/ جون ظہر بعد حیدرآباد کی صفہ مسجد ٹولی چوکی تلنگانہ میں جنازہ کی نمازادا کی جائے گی اور سپردخاک کیا جائے گا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزه نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اللہ تعالی موصوف کی بشری خطاؤں کو معاف فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل اور غیبی امداد عطا کرے، جملہ دینی خدمات کوشرف قبولیت سے بخشے، آپ کی قبرپہ رحمت وفضل کی بارش برسائے، برزخی زندگی میں جنتی نعمتوں سے نوازےاور آپ کے لئے جنت کا راستہ آسان بنائے ۔ آمین
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، وارْحمْهُ، وعافِهِ، واعْفُ عنْهُ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ، واغْسِلْهُ بِالماءِ، والثَّلْجِ، والْبرَدِ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه، وَأَهْلاً خَيّراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ، وأدْخِلْه الجنَّةَ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار.


مکمل تحریر >>

کیا صحابہ کرام کے اقوال وافعال ہمارے لئے حجت ہیں ؟

کیا صحابہ کرام کے اقوال وافعال ہمارے لئے حجت ہیں ؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
شیخ ایک سوال کا جواب مطلوب ہے،صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چند حبشی نوجوانوں کو جنگی مشق کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر خاموشی اختیار فرمائی،اسی طرح عید کے روز چند بچیوں کو جنگی اشعار گاتے ہوئے سنا تو اس پر بھی خاموشی اختیار فرمائی۔اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں کہ صحابہ کرام کے اقوال و افعال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی ہے۔ اس پس منظر میں ،،،،،،
(1) پہلا سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ان اقوال و افعال کو حجت بنایا جاسکتا ہےجن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی ہے؟
(2) دوسرا سوال یہ ہے کہ جس عمل کی صراحت قرآن و احادیث میں نا ملے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اعمال وأقوال کو بطور حجت مان سکتے ہیں یا نہیں؟
براہ کرم ان دو مسئلوں پر روشنی ڈال کر ہماری رہنمائی فرمائیں،نوازش ہوگی۔ جزاک اللہ خیرا
سائلہ :  ام عائشہ صدیقہ مالیگاؤں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ :
سب سے پہلے حدیث سمجھ لیں کسے کہتے ہیں پھر دونوں سوالوں کے جواب آسان ہوجائیں گے ۔ حدیث کہتے ہیں ہر وہ قول ، فعل ،تقریر یا صفت جو نبی ﷺکی طرف منسوب ہو ۔ اگر نسبت صحیح ہوئی تو حدیث صحیح ہوتی ہے ورنہ ضعیف ہوتی ہے۔
اس تعریف میں تقریر کا لفظ آیا ہے اس سے مراد صحابہ کا قول یا فعل جس کا علم نبی ﷺ کو ہوا ہو اور آپ ﷺ نےاس قول یا فعل پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کی ۔ گویا آپ کا جو پہلا سوال ہے وہ حدیث تقریری  سے متعلق ہے ، ایسا کوئی عمل  صحابی یا قول صحابی جس پر رسول اللہ ﷺ نے خاموشی اختیار کی ہو وہ حدیث ہی کہلاتی ہے اگر اس تقریری حدیث کی سند صحیح ہو تو دین میں حجت ہے۔ یہ پہلے سوال کا جواب ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صرف اپنی اور رسول  کی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔ ان دونوں کے ماسوا دین میں کسی کی بات قابل حجت نہیں ہے تاہم محض وہ اجتہادی مسائل جن میں شریعت خاموش ہواور صحابی کا قول یا فعل صحیح سند سے معلوم ہورہا ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہوا ہے ،جدید قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہیں اور علمائے امت ان میں اجتہاد کرتے رہیں گے جن کا اجتہاد دلائل سے قوی ہوگا اختیار کرسکتے ہیں ۔ ائمہ اربعہ کے اجتہاد کا بھی یہی حکم ہے ۔ ان کے جو اجتہاد کتاب وسنت کے خلاف ہیں انہیں رد کردیں دراصل ان مسائل میں ائمہ کا بھی یہی موقف ہے اور جو مسائل کتاب وسنت سے نہیں ٹکراتے ان میں جس امام کا فتوی دلائل سے قوی معلوم ہو اختیار کرلیا جائے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف ایک امام کے ہی اجتہاد لیں گے ، نہیں ۔یہاں یہ بات بھی  واضح رہے کہ تقلید جائز نہیں ہے۔ سارے ائمہ ہمارے اپنے ہیں، ان سب کو اللہ نے دین میں بصیرت وفقاہت عطا فرمائی، استفادہ علم میں کسی ایک کی تخصیص اوردوسرے ائمہ سے صرف نظر کرنا سراسر زیادتی  اور دوسرے ائمہ کی فقاہت وبصیرت اور حکمت ودانائی سے چشم پوشی کرناہے ۔ تمام ائمہ کا احترام ، ان کے اجتہادات سے استفادہ بلکہ ان کے علاوہ قیامت تک جو فقیہ ومجتہد پیدا ہوتے رہیں تمام سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)

مکمل تحریر >>

Saturday, June 23, 2018

گناہوں کے مضر اثرات انسانی زندگی پر

گناہوں کے مضر اثرات انسانی زندگی پر
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

دین اسلام ایک کامل نظام ہے۔اس نے انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے ماننے والے اللہ کی توفیق سے دنیا کے تمام نقصانات سے بچ سکتے ہیں، انسانی زندگی پر برے اثرات ڈالنے والے عناصرکو پہنچان کر اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں ۔ جسم کو ضرر پہنچانے اسباب سے پرہیز کرکے تندرست وتوانا رہ سکتے ہیں ۔
آج مسلمان کی زبوں حالی، معاشی پریشانی، سماجی فساد، زیست کی صعوبت اور جسم وجاں کی کسمپرسی سے دوچار ہونے کی وجہ خود کی بے راہ روی، بے دینی ، بدعملی، ترک قرآن اور عبادت ومناجات سے خالی زندگی گزارنا ہے۔ ہم نے دینی راہ چھوڑدی جو صاف ،سہل ، سیدھی ،سچی اور روشن ہےاور شیطانی ڈگر، گناہوں کی پرخطر پگڈنڈی اور بے ایمانی کی خاردار وادی سے گزراپنی زندگی کا ہدف بنالیا۔بالآخر شیطان نے ہم سے وہ کام لیا جو اس کا ہدف تھا پھر زمانے میں شروفساد کا ظہور ہوا، قہرالہی نے زمین میں انسانی آہ وبکا اور چیخ وپکار پھلادی، انسان کے گناہوں نے ہماری زندگیاں تباہ ، ہمارے گھر برباد اور سماج ومعاشرہ کو تہ وبالا کردیا۔
شیطان ہمیں ، ہمارے اہل وعیال، ہمارے گھروں، ہمارے سماج اور پوری دنیا کو تباہ کرنا چاہتاہے اور ہم اس کا آلہ کار بن کر اپنی تباہی آپ کررہے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ, إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (ص:82-83)
ترجمہ: کہنے لگا پھر تو میں تیری عزت کی قسم! میں ان سب کویقینا بہکا دوں گا بجز تیرے ان بندون کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں۔
نیچے "گناہوں کےمضر اثرات انسانی زندگی پر" اس موضوع کی وضاحت کرنی ہے ۔ اوپر شیطان اور اس کے فریب کا ذکر اس لئے کیا ہوں کہ انسان ،گناہ کرنے کی وجہ سے شیطان کا محبوب اور اللہ کا ناپسندیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ گناہگاروں کو بہکانا اور ان سے شیطینت کروانا شیطان کے لئے آسان ہے ۔ جو مخلص بندے ہیں، دین پر مضبوطی سے عمل کرتے ہیں ، عقائد وایمان مستحکم بنائے ہوئے ہیں اور رب کی بندگی میں صبح وشام کرتے ہیں ایسے مخلص بندوں کو بہکانا شیطان کے لئے مشکل ہے۔ اس لئے ہمیں دین پر جم جانا ہے اور گناہوں سے اپنا دامن بچانا ہے ۔
گناہ کہتے ہیں "ترک المامورات وفعل المحظورات " (جن کا حکم دیاگیا ہے انہیں چھوڑدینا اور جن سے منع کیا گیا ہے انہیں انجام دینا)۔
گناہ کے لئے عربی میں مختلف الفاظ وارد ہیں مثلا ذنب، معصیہ، سیئہ، خطیئہ، اثم، فسق، فجور، فساد وغیرہ
گناہوں کے دو اقسام ہیں۔ ایک گناہ کبیرہ اور دوسری گناہ صغیرہ ۔
گناہ کبیرہ اسے کہتے ہیں جس کام پر وعید، سزا، لعنت، جہنم ، آگ وغیرہ کی سزا سنائی گئی ہو اور گناہ صغیرہ جن کاموں پر اس قسم کی کوئی وعید وارد نہ ہو۔ تاہم چھوٹے گناہوں کے بھی بھیانک انجام ہیں خصوصا جب انہیں ہلکا سمجھ لیا جائے یا مسلسل انجام دیاجائے یا اعلانیہ طورپران کا ارتکاب کیا جائے۔
آج امت کے گناہوں نےانسانی زندگی کو بھیانک اور پرخطرموڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں، ہم مارے کاٹے اور گاجرمولی کی طرح ذبح کئے جارہے ہیں مگر کہیں سے مدد نہیں آرہی ہے۔ آغا حشر کاشمیری کا شعر موجودہ صورت حال کی عکاسی کررہاہے ۔
حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
امت میں تفرقہ، فساد، رشوت خوری، زناکاری، سود بازاری، لوٹ کھسوٹ، قتل وغارت گری، ظلم وجور، کسب معاش میں حلت وحرمت کا فقدان، ذکر الہی اور عبادت رحمن سے غفلت، برائی کا شوق اور نیکی سے نفرت ، ایمان بلاعمل اور مسلمان بلاکردار اسی کا نتیجہ ہے ۔ ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا سمٹ گئی ہے وہیں برائی کا اثر ورسوخ بھی گہرا اور کافی وسیع ہوگیا ہے ۔ لمحوں میں برائی کا اثر دنیا پر مرتب ہوجاتا ہے۔ گناہ کے اثر سے فرد تو فرد جماعت محفوظ نہیں حتی بحر وبر کی ساری چیزیں اس سے متاثر ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الروم:41)
ترجمہ: خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالی چکھادے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔
اس معنی کی بہت ساری آیات قرآن میں موجود ہیں ۔ چند ایک یہاں پیش کرتا ہوں ۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ(الشورى: 30)
ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمادیتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(آل عمران: 165)
ترجمہ: (کیا بات ہے) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آگئی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے بشک اللہ تعالی ہرچیز پر قادر ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ(النساء: 79)
ترجمہ: تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ۔
اللہ فرماتا ہے:
وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ...(القصص: 47)
ترجمہ: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ انہیں ان کے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی ۔۔۔۔
اللہ فرماتا ہے:
ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ(آل عمران: 182)
ترجمہ: یہ تمہارے پیش کردہ اعمال کا بدلہ ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔
اللہ فرماتا ہے :
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ (الروم: 36)
ترجمہ: اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور ماگر انہیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض ناامید ہوجاتے ہیں۔
ان ساری آیات سے صاف صاف ظاہر ہے کہ زمانے میں فساد کی وجہ ہمارے برے کرتوت اور گندے اعمال ہیں ۔ انسانی زندگی میں پریشانی کا سبب خود کے برے اوصاف ہیں۔
گناہوں کے مضر اثرات انسانی زندگی پر بے شمار ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر سطور ذیل میں کیا جاتا ہے تاکہ ہم انسان عبرت پکڑیں اور گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ ان سے بچنے کا پختہ عزم کریں ۔
(1) حافظہ کی کمزوری : گناہ کا انسانی زندگی پر اس قدر شدید برا اثر پڑتا ہے کہ آدمی کی عقل تک متاثر ہوجاتی ہے۔ سوچنے سمجھنے میں خطا کرنے لگتا ہے اور حافظہ پر تو برا سے برا اثر پڑتا ہے۔ بھولنے کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے ۔ یاد کیا ہوا بھی ذہن سے اڑنے لگ جاتا ہے اور کوئی چیز یاد کرنے میں بہت گراں گزرتی ہے۔ دیوان شافعی میں اس سے متعلق بہت ہی نصیحت آموزشعر موجود ہے جسے میں یہاں درج کررہاہوں ۔
شَكَوتُ إِلى وَكيعٍ سوءَ حِفظي فَأَرشَدَني إِلى تَركِ المَعاصي
وَأَخبَرَني بِأَنَّ العِلمَ نورٌ وَنورُ اللَهِ لا يُهدى لِعاصي
اشعار کا ترجمہ: میں نے اپنے استاد حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے قوت حافظہ کی کمی کی شکایت کی جس پر میرے استاد نے مجھے گناہوں کو ترک کر دینے اور ان سے مکمل اجتناب کی نصیحت فرمائی اور فرمایا:علم اللہ رب العزت کے نور میں سے ھے اور اللہ تعالی کا نور گناہ گار کو عطاء نھیں کیا جاتا۔
(2) رزق سے محرومی : گناہگار رب کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔ اس کی زندگی پریشانی سے گھری ہوتی ہے وہ اپنے گناہوں کے سبب رزق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إن العبدَ ليحرمُ الرزقَ بالذنبِ يصيبُه(حاشية بلوغ المرام لابن باز:778)
ترجمہ: بے شک انسان اپنے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔
علم وعمل والے نیک لوگوں کی وجہ سے زرق دیا جاتا ہے اور جاہل وبدعمل لوگ اللہ کے فضل وکرم سے دور کئے جاتے ہیں چنانچہ امام ترمذی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا:
كانَ أخَوانِ على عَهْدِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فَكانَ أحدُهُما يأتي النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ والآخرُ يحترِفُ، فشَكَى المحترفُ أخاهُ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فقالَ: لعلَّكَ ترزقُ بِهِ(صحيح الترمذي:2345)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے ایک حصول علم کی خاطر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھااور دوسرا حصول معاش کے لئے جدوجہد کرتا۔ حصول معاش کے لئے جدوجہد کرنے والے نے نبی ﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا:" لعلک ترزق بہ" شاید تمہیں اسی کی وجہ سے رزق دیا جارہاہے ۔
(3) گناہ کا خوف مٹ جانا: مومن وہ ہوتا ہے جسے گناہ پر ڈر محسوس ہوتا ہے۔ اللہ سے خوف کھاتا ہے اور اس کی سزا کا خوف کھاکر توبہ کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرتا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے اندازہ لگائیں کہ مومن گناہوں سے کس قدر خوف کھاتا ہے اور منافق کا حال کیسا رہتا ہے؟
إنَّ المؤمنَ يرى ذنوبَه كأنه قاعدٌ تحت جبلٍ يخاف أن يقعَ عليه، وإن الفاجرَ يرى ذنوبَه كذبابٍ مر على أنفه(صحيح البخاري:6308)
ترجمہ: مومن اپنے گناہوں کو ایسا خیال کرتا ہے جیسے پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا شخص یہ خوف کرتا ہے کہ کہیں پہاڑ اس پر نہ گر پڑے اور فاجر گناہ کو ایسا سمجھتا ہے کہ ناک پر سے مکھی اڑ گئی۔
ہم گناہوں کو پہاڑ جیسا سمجھیں خواہ وہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو۔ بسا اوقات چھوٹے گناہ پر بھی سخت آزمائش آجاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے گناہ مل کر پہاڑبن جاتے ہیں۔
(4) گناہگار کی ذلت : گناہ کرنے والا کبھی کبھار دنیاوالوں کے سامنے ہی ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے اور آخرت میں جو رسوائی ہے وہ اپنی جگہ برحق  ہے۔ اللہ تعالی نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں اہل فسق وفجور کو عزت دے گا ۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے ،گناہوں کا خوف کھاتا ہے۔ برائی سے بچتا رہتا ہے اللہ ایسے شخص کو عزت دیتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات :13)
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ( ہی ) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔
(5) گناہگاروں کا معاملہ سخت تنگ ہے: اللہ تعالی ایسے لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ کرتا ہے جن کی زندگی گناہوں میں ملوث ہو اور گناہوں سے بے خوف ہوکر برائی پہ برائی کررہاہو بلکہ ایسوں کے لئے زندگی کی پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ تک مسدود فرما دیتا ہے ۔ امن وراحت کا طریق اور زندگی کی آسان گزرگاہ صرف مومن کو نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کافرمان ہے :
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق:2)
ترجمہ: جو اللہ سے ڈرتا ہے ،اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔
(6) آسمانی بلائیں گناہوں کے باعث نزول کرتی ہیں : دنیا میں کہیں زلزلے، کہیں طوفان ، کہیں شدید سیلاب، کہیں شدید قحط، کہیں بھوک مری، کہیں وبائیں اور کہیں لاعلاج بیماریاں گناہوں اور اپنے اعمال کے سبب ہیں ۔ ہم جس قدر شدید گناہ کرتےہیں اسی قدر شدید قہر الہی نازل ہوتا ہے ۔ ایسی بیماریوں میں ہم گرفتار ہوتے جن کا علاج میسر نہیں ہوتا اور نشان عبرت بنے دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔
(7) گناہوں کے باعث دل کی سختی: دنیاوی مشاہدہ بھی ہے کہ جو جس قدر برائی کا رسیا ہے وہ اسی قدر لوگوں کے لئے سخت دل ہے۔ اسے کسی سے پیار نہیں ہوتا، معمولی بات پہ ہنگامہ آرائی اس کی فطرت بن جاتی ہے اور لوگوں کے ساتھ کبھی بھی نرمی کا برتاؤ نہیں کرتا حتی کہ سختی میں اپنے اور بیگانوں کا فرق بھی یاد نہیں رہتا۔ سچ کہا ہے رب العالمین نے :
فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام:43)
ترجمہ: سوجب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی، لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔
(8) بے حیائی کا پیکر: بے حیائی کا ایک برا پہلو یہ ہے کہ اس کا خوگر بے حیا بن جاتا ہے ۔اس کے پاس خوف کا نام نہیں شرم تک کھوبیٹھتا ہےاور نہایت بےشرمی سے ڈھیٹ بن کر برائی کرتا ہے جیسے کوئی اس کاخالق و مالک نہیں، کسی کو اپنے کئے کا حساب نہیں دینا ہے اور نہ ہی دنیا میں اورآخرت میں کسی ملامت ورسوائی کا ڈر ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ ممَّا أدرَك النَّاسُ من كلامِ النُّبوَّةِ : إذا لم تَسْتَحْيِ فاصنَعْ ما شِئْتَ( صحيح البخاري:3484)
ترجمہ:اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو پھر جو جی چاہے کر۔
بدلے کے اعتبار سے گناہوں کا جو نقصان ہے بلاحدوحساب ہے یہاں انسانی زندگی پر ان کے مضر اثرات میں سے چند گہرے اور برے اثرات بیان کئے گئے ہیں ۔
بنی آدم سے گناہ ہوجانا بعید نہیں ہے ،گناہ کرکے نہ پچھتانا یہ قابل افسوس ہے ۔ جو لوگ گناہ کرکے شرمندہ ہوتے ہیں ، اللہ سے ڈرنے لگتے ہیں اور مارے خوف کے توبہ واستغفار کرتے ہیں دراصل ایسے ہی بندے اللہ کو پسند ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كلُّ بني آدمَ خطَّاءٌ وخيرُ الخطَّائينَ التوَّابونَ(صحيح ابن ماجه:3447)
ترجمہ: بنی آدم کی تمام اولاد گناہگار ہیں اور بہترین گناہگار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں ۔
گناہ سے متعلق ایک پیاری سی حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لولا أنكم تذنبون لخلقَ اللهُ خلقًا يذنبون ، يغفرُ لهم(صحيح مسلم:2748)
ترجمہ: اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ ایک ایسی مخلوق پیدا کر دے جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا۔
اوپر میں نے گناہوں کی دو اقسام بیان کیا ہے ۔ اب یہ جان لیں کہ گناہوں کی کیفیات اور ان کے اشکال مختلف ہیں ،ان کیفیات کے بقدر جرم ومعصیت میں تفاوت ہے۔ کچھ گناہ انجانے میں ہوجاتے ہیں ، کچھ عمدا ہوتے ہیں ، کچھ گناہ اصرار کے ساتھ کئے جاتے ہیں اور کچھ اعلانیہ طور پر۔ان سب کے متعلق شریعت کا حکم بھی جان لیں ۔
جو گناہ انجانے میں ہوجائے اس کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللَّهَ وضَعَ عن أمَّتي الخطَأَ والنِّسيانَ وما استُكرِهوا عليهِ(صحيح ابن ماجه:1677)
ترجمہ: اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی ) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔
قصدا اور عمدا گناہ کرنے کی بابت حق جل شانہ کا فرمان ہے :
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (الاحزاب:5)
ترجمہ: تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے ۔
اصرار کے ساتھ گناہ کرنا بہت ہی سنگین ہے ۔ گناہوں کو حقیر سمجھنا بھی گناہوں پر اصرار ہے اور جو گناہ مسلسل کئے جائیں وہ تو ہیں ہی۔ اس گناہ کا معاملہ سخت ترین ہے اس لئے کہاجاتا ہے کہ تسلسل کے ساتھ کیا جانے والا چھوٹا گناہ چھوٹا نہیں ہےبڑا ہوجاتا ہے۔ مومن بندہ گناہ کرکے شرمندہ ہوتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں آکر سچی توبہ کرتا ہے اور اس گناہ پر مداومت نہیں کرتا۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿ِآل عمران : 35﴾
ترجمہ: جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالٰی کے سِوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی بُرے کام پر اَڑ نہیں جاتے ۔
اعلانیہ طور پر گناہ کرنا یہ گزشتہ گناہ سے بھی خطرناک ہے ۔ ایسا شخص اللہ کے غیظ وغضب کا شکار ہوجاتا ہے اس کے حق سے معافی اٹھا لی جاتی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كلُّ أمَّتي مُعافًى إلَّا المُجاهِرينَ ، وإنَّ منَ المُجاهرةِ أن يعمَلَ الرَّجلُ باللَّيلِ عملًا ، ثُمَّ يصبِحَ وقد سترَه اللَّهُ ، فيقولَ : يا فلانُ ، عمِلتُ البارحةَ كذا وَكذا ، وقد باتَ يسترُه ربُّهُ ، ويصبِحُ يَكشِفُ سترَ اللَّهِ عنهُ( صحيح البخاري:6069)
ترجمہ:میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی ( گناہ کا ) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
اللہ تعالی کھلے پوشیدہ تمام احوال سے باخبر ہے ، کوئی تنہائی میں گناہ کرکے یا رات کے اندھیرے میں جرم کا ارتکاب کرکے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو اللہ سینوں کے راز تک سے بے خبر ہے اور روئے زمین پر ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں برائی کرنے سے زمین وآسمان کا خالق ومالک نہیں دیکھ سکتاہے۔
آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ، موبائل سے لوگ تنہائی میں بڑے بڑے فواحش ومنکرات انجام دے رہے ہیں اور انہیں بڑی بے باکی سے لوگوں میں نشر بھی کررہے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ کا خوف کھانا چاہئے ۔ اور جان لینا چاہئے کہ جو گناہ ہم سے سرزد ہوا ہے اس کا وبال بھی ہمارے ہی سر پر آئے گا اور سزا بھی ہمیں ہی بھگتنی پڑے گی ۔ اللہ کا فرمان ہے :
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ(فصلت:46﴾
ترجمہ: جو شخص نیک کام کرے گا وہ اپنے نفع کے لئے اور جو برا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے ۔ اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔
گناہ کی لذت چند لمحوں کی ہے جبکہ اس کی سزا دیرپا ہے،قیامت کے دن لذت اندوز ہونے والے اعضا ء ہمارے خلاف گواہی دیں گے ۔اللہ کا فرمان ہے :
یَوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ( النور: 24 )
ترجمہ: جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔
گناہوں کی وجہ سے اللہ بستیاں تباہ کردیتا ہے اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹادیتا ہے ۔ اللہ نے قرآن مقدس میں ایسی تباہ شدہ بستیوں کی مثال بیان کیا ہے تاکہ دوسری بستیاں عبرت حاصل کریں ۔
وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا (الطلاق:8)
ترجمہ: اور بہت سی بستی والوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان سے سخت حساب کیا اور انہیں عذاب دیا ان دیکھا ( سخت ) عذاب ۔
عذاب شدہ ایک اور بستی کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (النحل:112)
ترجمہ: اللہ تعالٰی اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی ۔ پھر اس نے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالٰی نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ آدمی گناہ کیوں کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو صحیح سے نہیں پہچانتا، اس سے نہیں ڈرتا، اس کی عبادت نہیں کرتا، اس کے دین پہ صحیح سے نہیں چلتا اور اخروی زندگی پر پختہ یقین نہیں رکھتا ۔
یہاں ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم سے انجانے میں یا جان بوجھ کر بہت سارے گناہ ہوگئے ، اب اپنے خالق ومالک کے دین کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں اور اپنے کئے پہ شرمندہ ہوکر سابقہ گناہوں سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟
ایسے لوگوں کو اللہ تعالی اولا مایوس ہونے سے منع کرتا ہے اور بڑے دلنشین انداز میں بندوں کومعاف کرنے کی بشارت دیتا ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر:53)
ترجمہ:( میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی ، بخشش بڑی رحمت والا ہے ۔
ثانیااللہ کی ذات وحدہ لاشریک پر کامل یقین رکھتے ہوئے ، اسے بڑا مہربان، بہت ہی رحم کرنے والااور بہت زیادہ معاف کرنے والا سمجھ کر سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ(التحریم:8)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔
ثالثا کثرت سے اعمال صالحہ انجام دینا تاکہ برائی کا دھیان مٹ جائے اور بطور خاص ان اعمال کی طرف التفات کرنا چاہئے جن پر جنت کی بشارت، گناہوں کی مغفرت اور بے پناہ اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے ۔
رابعا یہ دھیان رہے کہ نیکی کرنے یا توبہ کرنے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے حتی کہ حج کرنے سے بھی صغیرہ اور کبیرہ گناہ ہی معاف ہوتے ہیں اس لئے بندوں کے حقوق لوٹانے سے ہی حقوق العباد معاف ہوں گے ۔ امت کا مفلس ہے وہ شخص جس نے نماز وروزہ اور زکوۃ کی پابندی کیا ہو اور ساتھ ساتھ بندوں کو ستایا بھی ہو۔قیامت کے دن ایسے لوگوں کی نیکی مظلوموں میں تقسیم کردی جائے گی ۔ اگر ظالم کی نیکیاں ختم ہوجائیں تو مظلوم کے گناہ اس کے سر پر لاد دئے جائیں گے یہاں تک کہ اسے گھسیٹ کرجہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم)
اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں، ایمان وعمل پہ قائم رہنے کی عاجزی کرتے ہیں اور اپنےفضل وکرم سے جنت الفردوس میں داخلہ نصیب فرمانے کی التجا کرتے ہیں۔  

مکمل تحریر >>