Tuesday, May 29, 2018

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے، فاتحہ نہ پڑھنے، رفع یدین نہ کرنے، اجتماعی دعا کرنےاور بیس رکعت تراویح پڑھنے کا حکم

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے، فاتحہ نہ پڑھنے، رفع یدین نہ کرنے، اجتماعی دعا کرنےاور بیس رکعت تراویح پڑھنے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے کچھ سوالات ہیں برائے کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں۔
1/ کوئی شخص ناف کے نیچے ہاتھ باندھتا ہوکیا اس کی نماز نہیں ہوتی ؟
2/کوئی نماز میں سورہ فاتحہ خلف الامام نہ پڑھتا ہو ؟
3/رفع یدین نہ کرتا ہو؟
4/نماز کے بعد اجتماعی دعا کرتا ہو تو کیا وہ بدعت کا مرتکب ہوتا ہے ؟
5/تراویح آٹھ کے بجائے 20 رکعات پڑھتا ہوتو کیا وہ مخالف سنت ہوگا؟
ائمہ مجتہدین نے پوری زندگی قرآن اور حدیث پر غور و فکر کے جو مسائل مستنبط کئے ہیں ان پر اگر کوئی عام آدمی عمل کرے تو یہ تقلید صحیح نہیں ہے جبکہ قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر جو مسائل علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن القیم رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے پیش کیا ہے ان کے مسائل کو فالو کرنے کو ہی اہل حدیث کہا جائے گا؟ اور یہ لوگ غیر مقلد کہلائے جاینگے؟
مولانا مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ (مقیم طائف) کی تحریروں سے بندہ مستفید ہوتے رہتا ہے مجھے امید ہے کہ میری الجھن کو دور کرینگے۔ مہربانی ہوگی ۔
سائل : محمد رباح

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ رب العالمین !
سب سے پہلے آپ کی راحت وسکون کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی سے خصوصی دعا کرتا ہوں اور پابندی کے ساتھ سنت نبی ﷺ کے مطابق عبادت کرنے کی سعادت مانگتا ہوں ۔
اوپر جتنے بھی  سوالات کئے گئے ہیں ان تمام مسائل پر برصغیر میں اس قدر لکھا گیا ہے کہ مزید لکھنے کی گنجائش نہیں رہی ۔ یہاں آپ کو مذکورہ مسائل پہ الجھن درپیش ہے اسے آپ رفع کرنا چاہتے ہیں تاکہ عبادت کے تئیں مطمئن ہوجائیں ۔ ناچیز آپ کو مختصر الفاظ میں یہاں جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اس امید میں کہ آپ کا الجھن دور ہوجائے ساتھ رب تعالی سے آپ کی راحت کے لئے مزید دعاگو ہوں ۔
ایک مسلمان کے اوپر ضروری ہے کہ نبی ﷺ کی نماز کا طریقہ معلوم کرےتاکہ صحیح سے نماز پڑھ سکے جیسے بدوی صحابی  نے نماز ادا کرلی تھی پھر بھی  نبی ﷺ نے دو یا تین مرتبہ کہا کہ پھر سے نماز پڑھو، پھر سے نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی ہے تو انہوں نے کہا کہ اسے اللہ کے رسول مجھے دکھادیجئے اور تعلیم دے دیجیے کہ کیسے نماز پڑھی جاتی ہے تو آپ نے اس طرح وضو کرنے کا حکم دیا جس طرح اللہ تعالی نے حکم دیا ہے پھر نماز کی تعلیم دی اس میں یہ بھی  فرمایا:
فإن كان معك قرآنٌ فاقرأْ به وإلَّا فاحمدِ اللَّهَ وكَبِّرْه وهلِّلْه(صحيح أبي داود:861)
ترجمہ: اوراگرتمہیں کچھ قرآن یادہو تو اسے پڑھو ورنہ الحمد لله، الله أكبر اور لا إله إلا الله کہو۔
بطور خاص یہ ٹکڑا ذکر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ جسے نماز کی دعائیں اور قرآن یاد نہ ہو وہ اپنی نماز میں الحمد للہ ، اللہ اکبر اور لاالہ الااللہ پڑھا کرے اور جتنی جلد ممکن ہو دعائیں اور قرآن کی کچھ سورتیں یاد کرلے ۔
اس واقعہ  میں اس طرح بھی الفاظ وارد ہیں :
لا تتمُّ صلاةُ أحدِكم حتَّى يفعلَ ذلِكَ(صحيح أبي داود:858)
ترجمہ: کسی شخص کی نماز کامل نہیں ہو سکتی ، حتیٰ کہ ایسے ہی کرے ۔
اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ مسلمان کو عبادت کرنے سے پہلے وضو کرنے کا طریقہ اور نماز پڑھنے کا طریقہ معلوم کرنا چاہئے تاکہ وہ نبی ﷺ کے طریقہ پر عبادت انجام دے اور اسی کا آپ نے حکم دیا ہے ۔فرمان نبوی ہے :
صَلُّوا كما رأيتُموني أُصَلِّي(صحيح البخاري:6008)
ترجمہ: تم لوگ اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
اور کوئی بھی عمل اس وقت تک قبول نہ ہوگا جب تک اس میں اخلاص نہ پایا جاتا ہو اور وہ سنت کے مطابق نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو مذکورہ اعمال انجام دیتا ہے وہ سنت کی مخالفت کرتا ہے ، اس کی عبادت میں سنت کی مطابقت نہیں ہے اور اوپر بخاری کی حدیث گزر گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرح عبادت کرنے کا حکم دیا ہے ۔
ہاں اگر کوئی مسلمان ایسا ان پڑھ ہے جس نے سستی میں نماز کی تعلیم نہیں لی تھی اسے نہیں معلوم کہ نبی ﷺ کی سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے، اسے نہیں معلوم کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی جاتی ہے ، اسے رفع یدین کا مسنون ہونا بھی معلوم نہیں ہے ، یہ بھی معلوم نہیں نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا رسول اللہ ﷺ کا عمل نہیں ہے اور نبی ﷺ کے قیام اللیل کی رکعات سے بھی ناواقف ہے یعنی مذکورہ سارے اعمال لاعلمی میں انجام دیا ہو تو ایسے کام کو اللہ معاف کردیتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللَّهَ وضَعَ عن أمَّتي الخطَأَ والنِّسيانَ وما استُكرِهوا عليهِ(صحيح ابن ماجه:1677)
ترجمہ: اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔
لاعلمی میں سنت کی مخالفت میں جو کام کرلیا کرلیا ، اب اللہ کی طرف رجوع کرے، عبادت کا مسنون طریقہ معلوم کرے اور سنت کے مطابق عمل کرے ۔ اس میں بھلائی ، عمل کی قبولیت اور دارین میں کامیابی کا سبب ہے ۔
ایک مرحلہ ایسا بھی ہے کہ آدمی کو نبی ﷺ کی سنت معلوم بھی ہوتی ہے مگر عمدا اس پر عمل نہیں کرتا اس کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں ۔ ممکن ہے مسلکی تعصب ہو، یا سماجی خوف ہو ۔ ان دو صورتوں میں بھی وہ سنت کا مخالف ہے ۔ دین کے لئے نہ تومسلکی تعصب کی گنجائش ہے اور عمل کی خاطر سے لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر جان کا خطرہ ہوتو اس مجبوری میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جہاں تک تقلید ، مقلد اور غیرمقلد کا معاملہ ہے تو یہ دین میں سے نہیں ہے ، دین میں اتباع ہے اور وہ اللہ کی اور اس کے رسول کی بس ۔ ائمہ اربعہ نے دین میں جو اجتہاد کیا وہ قابل قدر ہے اس پر اللہ کی جانب سے انہیں اجر ملے گا ، ہم ان  سے محبت کرتے ہیں اوران کے اجتہاد سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں مگر ان ائمہ کی کسی بات کو بغیر دلیل کے ماننا تقلید ہے جبکہ ہمیں اتباع کرنا ہے یعنی دلیل کی پیروی کرنی ہے ۔ ائمہ اربعہ کی وہ بات جو دلیل سے ثابت ہے یا علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، علامہ البانی رحمہم اللہ کی وہ بات جس کی قرآن وحدیث سے دلیل ہو ہم تسلیم کریں گے دراصل یہی اتباع رسول ہے اور ان کی وہ بات جو سنت کے مخالف ہو یا بے دلیل ہو چھوڑ دیں گے ، یہ بھی اتباع رسول کا ہی تقاضہ ہے جو ائمہ اربعہ اور دیگر کبار اہل علم کے اقوال سے بھی معلوم ہوتا ہے۔
واللہ اعلم 
کتبہ 
مقبول احمد سلفی 

مکمل تحریر >>

Saturday, May 26, 2018

ڈاکٹرذاکر نائیک کا متنازعہ جملہ "محمد ﷺ کو بھی ماننا حرام ہے "


ڈاکٹرذاکر نائیک کا متنازعہ جملہ "محمد ﷺ کو بھی ماننا حرام ہے "


تحریر : مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)


ذاکٹرذاکر نائیک صاحب سے ایک ہندو نے سوال کیا کہ بت پرستی غلط ہے میں بھی مانتا ہوں مگر مزار کی پوجا کرنا کیسا ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے سائل کے اس سوال کے جواب میں قبر سے متعلق دو احادیث پیش کیں ۔ ایک یہ کہ نبی ﷺ کا حکم ہے قبروں کو زمین کے برابر کردواور دوسری یہ کہ قبر کی زیارت سے آخرت یاد آتی ہے ۔ساتھ میں یہ بھی کہا کہ باباؤں کو چھوڑو آج کی تاریخ میں ہم محمد ﷺ سے بھی نہیں مانگ سکتے ۔ آگے ایک جملہ بولتے ہوئے سبقت لسانی کے طور پر زبان سے نکل گیا " محمد ﷺ کو بھی ماننا ہمارے لئے حرام ہے " ۔
ڈاکٹرصاحب آگے بیان کرتے ہیں کہ جو شخص مرچکا ہے ہم انہیں عزت کرتے ہیں ، محمد ﷺ سے محبت کرتے ہیں ، ان سے پیار کرتے ہیں لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے ، ان کی عبادت نہیں ، عبادت صرف اللہ کی ۔
اس ویڈیو کلپ کا مذکورہ جملہ کہ محمد ﷺ کو بھی ماننا ہمارے لئے حرام ہے اس پہ بریلوی طبقہ  نے بڑی افسوسناک حد تک گرفت کی اور جب سے یہ جملہ بولا گیا ہے اس وقت سے اب تک اس کا حوالہ دے کر ڈاکٹر صاحب کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا جاتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ پوری جماعت اہل حدیث کو مطعون کیا جاتا ہے ۔
جب متنازعہ جملہ کو پورے ویڈیو کلپ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے زبان کی سبقت کی وجہ سے مانگنے کی جگہ ماننا کہا گیا ہے، اصلا وہ وہی بات کہنا چاہ رہے تھے جو انہوں نے پہلے کہی کہ آج کی تاریخ میں ہم محمد ﷺ سے بھی نہیں مانگ سکتے ۔اور یہ سہوا "ماننا حرام "کہا جانا سوفیصد سبقت لسانی ہے کیونکہ وہی شخص اس کلپ میں نبی ﷺ کی دو احادیث بطور دلیل پیش کرتے ہیں پھر آپ ﷺ سے محبت وپیار کرنے کا واسطہ دیتے ہیں مزید برآں انہوں نے پہلے صحیح جملہ استعمال بھی کیا ہے کہ آج کی تاریخ میں ہم محمد ﷺ سے بھی نہیں مانگ سکتے ۔یہ چیز کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کوئی بھی یوٹیوب پر ڈاکٹر صاحب کا متنازلہ بیان سن سکتا ہے اور حقیقت جان سکتا ہے ۔
کہاوت ہے "چور مچائے شور" ۔ جب چور کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہی شور مچانے لگتا ہے بعینہ ایسا ہی بریلوی طبقہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق کررہا ہے ۔ ان میں سے اکثریت کو پتہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے سہوا ایسا جملہ نکل گیا ہے مگر چونکہ ڈاکٹر صاحب نے مزارات کی کمائی پرکاری ضرب لگائی ہے جس سے اس طبقہ  کی تجارت میں خاصا نقصان ہوا ہے ، اس نقصان کا بدلہ چکانے کے لئے اس جملے سے بہتر اور کوئی گرفت نہیں ملی اور نہ مل سکتی ہے اس لئے سالوں سے اس سبقت لسانی کو پکڑے ہوئے ہیں جبکہ یہی طبقہ بڑی بڑی گستاخی پر صرف اپنے مفاد کے لئے شیعوں کی حمایت کرتا ہے ۔ حال ہی کا واقعہ ہے جب عامر لیاقت نے پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی تو لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا، عامر لیاقت کی حقیقت عوام کے سامنے لائی ، پیمرانے اس پر پابندی بھی لگائی ۔ اسی پابندی کے دوران ایک ویڈیو میں کوکب نورانی (بریلوی  عالم)عامر لیاقت کا صحابی سے متعلق گستاخی پر دفاع کرتے ہیں کہ انہوں نے توبہ کرلی ہے اس لئے توبہ کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ جاتا مزید توبہ کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ یہاں چونکہ اس بریلوی  عالم کو چینل پہ آنے کا مکمل معاوضہ لینا ہے بلکہ مزید کمانا بھی ہے تو ایسے گستاخ کی تائید نہیں کرے گا تو کیا کرے  گا؟۔
 اب آئیےمیں پوچھتا ہوں کیا اس کوکب  نورانی کو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا متنازعہ بیان پرتوبہ کرنا معلوم نہیں ہے جبکہ یہ سبقت لسانی ہے اس پہ توبہ کی ضرورت ہی نہیں پھر بھی ڈاکٹر صاحب کی اعلی ظرفی کہ ملت اسلامیہ کے سامنے اپنے بیان کئے الفاظ کو غیرارادی اورسبقت لسانی کہتے ہیں اور ساتھ ساتھ توبہ بھی کرتے اوراپنے الفاظ واپس لیتے ہیں ۔ صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طبقہ اپنے جرم کو چھپانے ، شرک وبدعت کی شناعت پہ پردہ پوشی کرنے اور اپنے عیوب کو مخفی رکھنے کے لئے کچھ بھی بول سکتا ہے ، کسی سے مدد لے سکتا ہے اور کسی کی بھی حمایت وتائید کرسکتا ہے چہ جائیکہ مسلمان میں سے ہو یا غیر وں میں سے ۔ الحفظ والامان
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے جو غلط جملہ اپنی زبان سے غیرارادی طور پر ظاہر کیا جس کی انہوں نے بعد میں وضاحت کی اور اس پہ کھلے دل سے توبہ بھی کیا پھر بھی مسلمانوں میں سے بعض لوگ اس پہ گرفت کرتے اور اس جملے کی وجہ سے ان کی تکفیر کرتے ہیں حتی کہ انسانوں سے بھی خارج کیا جارہاہے ۔ آئیے ڈاکٹر صاحب کے مقدمہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی عدالت میں پیش کرتے ہیں تاکہ کم ازکم صاحب فہم وبصیرت پر حق واضح ہو اور وہ جانے انجانے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔
صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ اللَّهَ وضَعَ عن أمَّتي الخطَأَ والنِّسيانَ وما استُكرِهوا عليهِ(صحيح ابن ماجه:1677)
ترجمہ: اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔
گویا نبی ﷺ کے فرمان کی روشنی میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ جب کسی بندہ سے غیرارادی طور پر بھول چوک ہوجائے تو اللہ کے نزدیک وہ معاف ہے اس وجہ سے کسی کی بھول چوک پر مواخذہ نہ دنیا میں ہوگا اور نہ ہی حساب وکتاب کے دن ہوگا۔
اب یہاں پر رسول رحمت ﷺ کی زبانی ایک پیارا سا  واقعہ ملاحظہ فرمائیں جو سب کی آنکھیں کھولنے والا ہے ۔ مسلم شریف کی حدیث ہے اس لئے اس حدیث کی صحت میں شک کی گنجائش نہیں ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
للهُ أشدُّ فرحًا بتوبةِ عبدِه ، حين يتوبُ إليه ، من أحدِكم كان على راحلتِه بأرضِ فلاةٍ . فانفلتت منه . وعليها طعامُه وشرابُه . فأيس منها . فأتى شجرةً . فاضطجع في ظلِّها . قد أيس من راحلتِه . فبينا هو كذلك إذا هو بها ، قائمةٌ عنده . فأخذ بخطامِها . ثم قال من شدةِ الفرحِ : اللهم ! أنت عبدي وأنا ربُّك . أخطأ من شدةِ الفرحِ۔(صحيح مسلم:2747)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ (بندہ) اس کی طرف توبہ کرتا ہے، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری پر (سفر کر رہا) تھا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل (کر گم ہو) گئی، اس کا کھانا اور پانی اسی (سواری) پر ہے۔ وہ اس (کے ملنے) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ وہ اپنی سواری (ملنے) سے ناامید ہو چکا تھا۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ (آدمی) اس کے پاس ہے، وہ (اونٹنی) اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ خوشی کی شدت کی وجہ سے غلطی کر گیا۔
اس حدیث میں مذکور ہے کہ جب سوار کو کھوئی ہوئی اپنی سواری مل گئی تو  مارے خوشی کے اس کی زبان سے کفریہ جملہ " تومیرا بندہ میں تیرا رب"نکل جاتا ہے مگر چونکہ وہ بندہ کہنا یہ چاہ رہاتھا کہ میں تیرا بندہ تو میرا رب ۔ اس وجہ سے اللہ غلطی کرنے کے باوجود خوش ہوتا ہے۔ اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی سبقت لسانی پر گرفت کرتا ہے تو میں کہوں گاکہ اسے ڈاکٹر صاحب سے نہیں اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہے ۔
ڈاکٹرصاحب سے حسد ودشمنی میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ  نہیں جی !ذاکر نائیک نے جان بوجھ کر ایسا کہا ہے، اس کا عقیدہ ہی ایسا ہے ۔ یہ بات گلے سے نہیں اترے گی کیونکہ اس ویڈیو کو سن کر دشمن سے دشمن ایسا الزام لگانے سے ڈرے گا مگر بیحد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ مسلکی حسد میں اس  قدر اندھا ہوگئے کہ حق سجھائی نہیں دیتا یا زبان پر ایسی مہر لگ گئی کہ حق ادا نہیں ہوتا۔
تھوڑی دیر کے لئے محض بحث کے طور پرمان لیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات جان بوجھ کہی ، اب اس مقدمہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ(الشورى: 25)
ترجمہ: وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کی) برائیوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
التائبُ من الذنبِ كمن لا ذنبَ لهُ(صحيح ابن ماجه:3446)
ترجمہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے سرے سے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔
یہاں بھی عدالت الہیہ کا فیصلہ ہے کہ توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے ، نبی ﷺ کی عدالت نے توبہ کرنے والے کو گناہوں سے پاک وصاف کردیا۔ اس سلسلے میں بہتیرے نصوص ہیں اور صحابہ وتابعین کے بے شمار واقعات جن میں توبہ کرنے سے معافی کا ذکر ہے ۔
اس کے باوجود کوئی اس مسئلے میں ہٹ دھرمی کرے ، ڈاکٹرصاحب کو طعنہ دے، تکفیر کا فتوی لگائے،انہیں مسلمانوں سے خارج گردانے، انسانوں میں بھی شمار نہ کرے ، بری بری گالیاں دے ایسے سارے لوگوں کو کل قیامت میں اللہ کے یہاں حساب دینا ہے اور یہ حقوق العباد ہیں جو نیکیاں کرنے سے معاف نہیں ہوتیں بندوں کا حق لوٹانے سے معاف ہوتی ہیں ۔ آج برائیوں کے غلبے نے لوگوں کے دل سیاہ کردئے، اللہ کا خوف دل سے نکل گیا، ایمان میں آمیزش کرلی، عقیدہ خراب کرلیا ، مسائل خود سے وضع کرلئے ، مسلمانوں پر طعن وتشنیع اور ان کی تکفیر معمولی مشغلہ بن گیا۔
اللہ کے بندو! کسی کا خوف ہونہ ہو اللہ کا تو خوف کرو، کسی کا دل دکھاؤگے ، اللہ ناراض ہوگا، گالیاں بکوگے ان کے بدلے اعمال برباد ہوں گے ۔ ایک دن اللہ کا سامناہوگا اس دن ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا  ، اس وقت سوائے ندامت ورسوائی کے اور کچھ نہ ملے گی۔اگر خود کو مومن کہتے ہو تو فرمان مصطفی ﷺ کا پیکر بن جاؤ۔
المسلمُ من سلِم المسلمون من لسانِه ويدِه ، والمهاجرُ من هجر ما نهى اللهُ عنه(صحيح البخاري:6484)
ترجمہ: مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے ( تکلیف پہنچنے سے ) محفوظ رکھے اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سے رک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا مسلمان بننا ہے جس شر سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں بلکہ ہمیں مسلمان مہاجر بننا ہے اللہ تعالی نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان تمام چیزوں سے رک جانا ہے۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, May 23, 2018

رمضان المبارک اور گناہوں کی مغفرت کے مواقع


رمضان المبارک اور گناہوں کی مغفرت کے مواقع

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

رمضان سراپا بخشش ومغفرت کامہینہ ہے ، اس میں ہر قسم کی خیروبرکت کی انتہاء ہے ۔بلاشبہ یہ ماہ مبارک صیام وقیام پہ اجرجزیل اور گناہوں کی مغفرت کے ساتھ اپنے اندر نیکیوں پہ بے حدوحساب اجروثواب رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلاف کرام چھ مہینے پہلے سے ہی رمضان پانے کی رب سے دعائیں کرتے ، جب رمضان پالیتے تو اس میں اجتہاد کرتے، ہر قسم کی طاعت وبھلائی پر ذوق وشوق اور اللہ سے اجر کی امید کرتے ہوئے محنت کرتے ۔ جب رمضان گزرجاتا تو بقیہ چھ مہینے رمضان میں کئے گئے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لئے دعا کرتے ۔گویا سلف صالحین کا پورا سال رمضان کی خوشبوؤں سے معطر رہتا ۔ آج ہم ہیں کہ نہ رمضان کی عظمت کا احساس ، نہ اس کی خیروبرکات سے سروکار ہےحتی کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کا بھی خیال دل میں نہیں گزرتاجبکہ رمضان پاکر اس میں مغفرت نہ پانے والا نہایت ہی بدنصیب ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
شقِيَ عبدٌ أدركَ رمضانَ فانسلخَ منهُ ولَم يُغْفَرْ لهُ(صحيح الأدب المفرد:500)
ترجمہ: بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا۔
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اس معنی کی کئی صحیح احادیث وارد ہیں جن سےرمضان المبارک میں محروم ہونے والوں کی محرومی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک جگہ ہے :رَغِمَ أنفُ امرئٍ أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(فضل الصلاۃ للالبانی:15، صحیح بشواھدہ)
ترجمہ: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:بَعُدَ من أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(صحيح الترغيب:1677)
ترجمہ: دوری ہو اس کے لئے جس نے رمضان پایا اور وہ نہیں بخشا گیا۔
تیسری جگہ وارد ہے:منْ أدركَ شهرَ رمضانَ ، فلم يُغفرْ له ، فدخلَ النارَ ؛ فأَبعدهُ اللهُ(صحيح الترغيب:1679)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، اس کی مغفرت نہ ہوئی اور وہ جہنم میں داخل ہوا اسے اللہ دور کرے گا ۔
چوتھی جگہ مذکور ہے:مَن أدرك شهرَ رمضانَ فماتَ فلم يُغْفَرْ لهُ فأُدْخِلَ النَّارَ فأبعدَه اللهُ(صحيح الجامع:75)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، مرگیا ، اس کی مغفرت نہیں ہوئی اور وہ جہنم میں داخل کردیا گیا اسے اللہ اپنی رحمت سے دور کردے گا۔
کہیں ہم کلمہ گوہوکر رمضان کے روزوں کا انکار کرکے اللہ کی رحمت سے دور نہ ہو جائیں ،اس کے لئے روزوں کی عظمت اپنے دل میں بحال کرنی ہوگی ، رمضان نصیب ہونے پر رب کا شکریہ بجالانا ہوگا اور اس ماہ مبارک کو غنیمت جانتے ہوئے گناہوں کی مغفرت کے واسطے نمازوروزہ ،صدقہ وخیرات ،ذکر الہی، قیام وسجود اور عمل صالح کرکے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اس سے اس بات کی توفیق طلب کرنی ہوگی کہ وہ ہمیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کردے۔
بلاشبہ بنی آدم گناہگار ہے لیکن ہمیں رب کی رحمت ومغفرت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، اللہ اپنے بندوں کی نیکیوں کے بدلے گناہ معاف کرتا ہے ، توبہ قبول کرتا ہے اور درجات بلند کرکے کامیابیوں سے دامن بھر دیتا ہے ۔ یاد رہے مغفرت کے لئے ہمارا عقیدہ درست ہونا چاہئے، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک وساجھی نہ ٹھہرائیں ورنہ پھر نہ عبادت کام آئےگی اور نہ رمضان کے قیام وصیام کام آئیں گے ۔ رب کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ(النساء: 48)
ترجمہ: بےشک اللہ اس (گناہ)کو نہیں بخشے گاکہ (کسی کو)اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہ جسے چاہے معاف کردے گا۔
اگر مسلمان کا عقیدہ درست ہے تو اس کے سارے اعمال اللہ کے یہاں مقبول ہیں ،اسے اللہ بخش دیتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (هود: 11)
ترجمہ: سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں ، انہیں لوگوں کے لئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی ۔
اس مضمون میں اختصار کے ساتھ ہم رمضان المبارک میں اللہ کی جانب سے بخشش کے سنہرے مواقع کا ذکر کریں گے اوربخوف طوالت ان مواقع سے صرف نظر کریں گے جو عام دنوں میں بخشش کے باعث ہیں گوکہ وہ بھی رمضان میں بھی شامل ہیں الا یہ کہ کسی خاص موقع ومناسبت سے ہو۔
آئیے ان اعمال ومواقع کا ذکر کرتے ہیں جو رمضان میں مغفرت کا سبب ہیں ۔
پہلا موقع : رمضان پانااور گناہ کبیرہ سے بچتے رہنا: عموما لوگ رمضان پانے کو خاص اہمیت نہیں دیتے ، یوں سمجھاجاتا ہے کہ ماہ وسال کی گردش سے رمضان آگیاحالانکہ اس مہینے کا پانا بڑی سعادت کی بات ہے ، جس کی قسمت میں رمضان نہ ہو وہ کبھی اسے نہیں پاسکتالہذا ہمیں اس ماہ کی حصولیابی پر بیحد رب کا شکریہ بجالانا چاہئے اور اس کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے اس کے آداب وتقاضے کو نبھانا چاہئے اور جوبندہ نماز قائم کرتا رہا اور گناہ کبیرہ سے بچتا رہا اس کے لئے اس ماہ مقدس میں سال بھرکے گناہوں کی بخشش کا وعدہ ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الصَّلواتُ الخمسُ والجمُعةُ إلى الجمعةِ ورمضانُ إلى رمضانَ مُكفِّراتٌ ما بينَهنَّ إذا اجتنَبَ الْكبائرَ(صحيح مسلم:233)
ترجمہ: پانچوں نمازیں ، ہر جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ، درمیانی مدت کے گناہوں معاف کردئے جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
دوسرا موقع: ایمان کے ساتھ اجروثواب کی امید سے روزہ رکھناگزشتہ تمام خطاؤں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن صامَ رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ (صحيح البخاري:2014)
ترجمہ: جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ،اجر وثواب کی امید کرتے ہوئے رکھا اسکے گزشتہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
ایک حدیث میں روزہ ، نمازاور صدقہ کو فتنے سے نجات اور گناہوں کا کفارہ بتلایا گیا ہے ،نبیﷺ کا فرمان ہے :
فِتنَةُ الرجلِ في أهلِه ومالِه وجارِه، تُكَفِّرُها الصلاةُ والصيامُ والصَدَقَةُ(صحيح البخاري:1895)
ترجمہ: انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی باعث آزمائش ہیں جس کاکفارہ نماز پڑھنا ،روزہ رکھنا اور صدقہ دینا بن جاتا ہے۔
تیسرا موقع: رمضان میں قیام کرنا غیررمضان میں قیام کرنے سے افضل ہے اور اس کا ثواب روزے کے مثل ہے اگر ایمان واحتساب کے ساتھ کیا جائے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : من قام رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبِه( صحيح مسلم:759)
ترجمہ: جو رمضان میں ایمان اور اجر کی امید کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔
چوتھا موقع: رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کی فضیلت آخری عشرے میں بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس میں لیلۃ القدر(شب قدر) ہے، نبی ﷺ اس عشرے میں شب بیداری کرتے اور خوب خوب اجتہاد کرتے ۔ شب قدر میں قیام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو شب قدر میں ایمان و خالص نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔
پانچواں موقع: افطار کے وقت اللہ بندوں کو آزاد کرتا ہے اس وجہ سے بطور خاص افطار کے وقت روزے کی قبولیت، گناہوں کی مغفرت، بلندی درجات ، جہنم سے رستگاری اور جنت میں دخول دعا کی جائے ۔ "للہ عند کل فطرعتقاء " (رواہ احمد وقال الالبانی ؒ : حسن صحیح )
ترجمہ : اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے ۔
ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک روایت جسے علامہ البانی ؒ نے حسن قرار دیاہے اس میں مذکور ہے کہ ہررات اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔
روایت اس طرح ہے : إنَّ للَّهِ عندَ كلِّ فِطرٍ عتقاءَ وذلِك في كلِّ ليلةٍ ( صحيح ابن ماجه:1340)
ترجمہ: اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے، یہ آزادی ہررات ملتی ہے۔
چھٹواں موقع: مومن کو رمضان کےدن میں روزہ رکھنا چاہئے،بحالت روزہ بکثرت اعمال صالحہ انجام دینا چاہئے اوراس کی ہر رات میں شب بیداری کرکے قیام،دعا، استغفار اور اذکار میں مصروف رہنا چاہئے کیونکہ ہررات اللہ تعالی کی جانب سے خیر کے طالب کو ندا لگائی جاتی اور جہنم سے رستگاری کی بشارت سنائی جاتی ہے ۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إذا كانَ أوَّلُ ليلةٍ من شَهْرِ رمضانَ : صُفِّدَتِ الشَّياطينُ ومرَدةُ الجنِّ ، وغُلِّقَت أبوابُ النَّارِ فلم يُفتَحْ منها بابٌ ، وفُتِّحَت أبوابُ الجنَّةِ فلم يُغلَقْ منها بابٌ ، ويُنادي مُنادٍ يا باغيَ الخيرِ أقبِلْ ، ويا باغيَ الشَّرِّ أقصِرْ وللَّهِ عُتقاءُ منَ النَّارِ ، وذلكَ كلُّ لَيلةٍ(صحيح الترمذي:682)
ترجمہ: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن جکڑدیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے طلب گار! رُک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے۔
ساتواں موقع: صدقہ گناہوں کی مغفرت کا اہم ذریعہ ہے ، نبی ﷺکا فرمان ہے : والصَّدَقةُ تُطفي الخطيئةَ كما يُطفئُ الماءُ النَّارَ(صحيح الترمذي:2616)
ترجمہ: صدقہ گناہ کوایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔
اس لئے نبی ﷺ رمضان میں خیر اور سخاوت کے کام تیز ہوا سے بھی زیادہ کرتے البتہ وہ روایت جس میں افضل صدقہ رمضان کاصدقہ بتلایا گیا ہے ضعیف ہے۔


رمضان میں مغفرت سے متعلق بعض روایات
پہلی روایت : رمضان میں بخشش سے متعلق ایک بہت ہی مشہور حدیث ہے جو تقریبا رمضان میں نشر ہونے والے اکثر رسالے، کلینڈر اور پمفلیٹ وغیرہ میں لکھی ہے وہ اس طرح سے ہے :أولُ شهرِ رمضانَ رحمةٌ، وأَوْسَطُهُ مغفرةٌ، وآخِرُهُ عِتْقٌ من النارِ۔(السلسلة الضعيفة:1569)
ترجمہ: اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔
اس حدیث کو امام نسائی، حافظ ابن حجراور علامہ سیوطی نے ضعیف کہا ہے اور ابوحاتم، علامہ عینی حنفی اور علامہ البانی نے منکر کہا ہے ۔
دوسری روایت : رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشش دیا جاتا ہے اوراللہ سے مانگنے والامحروم نہیں ہوتا ۔ روایت دیکھیں ۔
ذاكِرُ اللهِ في رمضانَ مغفورٌ له، وسائِلُ اللهِ فيه لا يَخِيبُ۔
اوپر والا جملہ ترجمہ ہے۔ اس روایت کو علامہ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:3621)
تیسری روایت : اسی طرح مندرجہ ذیل روایت بھی ضعیف ہے ۔
يَغْفِرُ لأمتِهِ في آخِرِ ليلةٍ في رمضانَ، قيل : يا رسولَ اللهِ ! أَهِيَ ليلةُ القدرِ ؟ ! قال : لا، ولكنَّ العاملَ إنما يُوَفَّى أجرُهُ إذا قَضَى عملَه۔
ترجمہ: رمضان کی آخری رات میں امت معاف کردی جاتی ہے ، کہا گیا اے اللہ کے رسول! کیا یہ قدر کی رات ہے تو آپ نے فرمایا: نہیں ، جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہوتا ہے تو اسے پورا اجر دیا جاتا ہے۔
اس روایت کو علامہ البانی نے ضعیف کہا ہے (تخريج مشكاة المصابيح:1909)
اسی روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ روزہ داروں کے لئے فرشتے افطار تک استغفار کرتے ہیں ، بعض میں مچھلیوں کے استغفار کا ذکر ہے جوکہ ضعیف ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رمضان میں ہر قسم کی نیکی سے گناہ معاف ہوتے ہیں ،اس لئے دعا، نماز، ذکر، توبہ، استغفار، تلاوت، دعوت،صدقہ،زکوۃ وغیرہ ہر قسم کی بھلائی انجام دی جائے  ایسا نہیں ہے کہ رمضان میں  صرف اوپر مذکور اعمال ہی انجام دئے جانے کے قابل ہیں  اور صرف انہیں سے مغفرت ہوتی ہے، یہ تو وہ اعمال واسباب ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ رمضان میں مغفرت کی جاتی ہے ان پہ زیادہ توجہ دی جانی چاہئے ۔  
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی عبادتوں کوقبول فرمائے اور رمضان میں ساری خطاؤں کو بخش کر جنت الفردوس میں داخل کردے ۔ آمین   


مکمل تحریر >>

Monday, May 21, 2018

امام کے ساتھ بعض رکعت تراویح پڑھنے والوں کا اجر


امام کے ساتھ بعض رکعت تراویح پڑھنے والوں کا اجر

مقبول احمد سلفی
داعی/ اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

رات میں قیام کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے، یہ فرض نماز کے بعد سب سے عظیم الشان عبادت ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : أفضلُ الصيامِ ، بعدَ رمضانَ ، شهرُ اللهِ المحرمِ . وأفضلُ الصلاةِ ، بعدَ الفريضَةِ ، صلاةُ الليلِ(صحيح مسلم:1163)
ترجمہ: رمضا ن کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔
اللہ تعالی مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا: وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا(سورة الفرقان:64)
ترجمہ: اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔
رمضان خیر وبرکت کا مہینہ ہے اس میں نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے ، قیام اللیل کا اجر سابقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : مَن قامَ رمضانَ إيمَانًا واحْتِسابًا، غُفِرَ لهُ ما تقدَّمَ مِن ذَنْبِهِ(صحيح البخاري:2009)
ترجمہ: جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اسکے پہلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
آج کل ایک مسئلے میں عوام کا ذہن الجھا ہوا ہے یا انہیں الجھایا جارہا ہے کہ اگر امام بیس رکعت تراویح پڑھائے اور کوئی اس کے پیچھے صرف آٹھ رکعت یا بیس سے کم رکعت تراویح پڑھ کے چلا جائے تو اسے قیام اللیل کا ثواب نہیں ملے گا ۔ دلیل میں سنن اربعہ میں موجود مندرجہ ذیل روایت پیش کی جاتی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : من قامَ معَ الإمامِ حتَّى ينصرِفَ كتبَ اللَّهُ لَهُ قيامَ ليلةٍ(صحيح النسائي:1604)
ترجمہ: انسان جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور اس کے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے ۔
سنن اربعہ کی اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ جو شخص امام کے ساتھ آخر وقت قیام میں شریک رہے تو اسے پوری رات قیام کرنے کا اجر ملے گا ۔ مثلا کوئی امام آدھی رات قیام کرے اور مصلی آدھی رات تک امام کے ساتھ رہے تو اسے پوری رات قیام کا اجر ملے گا یا امام پوری رات قیام کرے اور مصلی پوری رات قیام میں شریک رہے تو اسے پوری رات قیام کرنے کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح کوئی امام رمضان میں گیارہ رکعت ترایح پڑھائے تو جو آخر وقت تک امام کے ساتھ ہوگا اسے مکمل رات قیام کرنے کا اجر ملے گالیکن کوئی امام بیس رکعت تراویح پڑھائے اور اس کے پیچھے کوئی مصلی آٹھ رکعت پڑھ کر چلا جائے تو اس مصلی نے نہ سنت کی مخالفت کی اور نہ ہی وہ رات میں قیام کے اجر سے محروم ہوگاالبتہ اس روایت میں مذکور مخصوص اجر "پوری رات قیام کا اجر" نہیں ملےگا ۔
قیام اللیل کی جو فضیلت ہے وہ فضیلت ہر اس شخص کواس مقدار میں ملے گی جس مقدار میں قیام کیا ہے ۔ رمضان المبارک (غیررمضان میں بھی) میں نبی کریمﷺ کا قیام گیارہ  رکعت کا ہوا کرتا تھا تو جو شخص رمضان المبارک میں آٹھ رکعت تراویح پڑھ لے (بعد میں تین وتر )خواہ وہ بیس رکعت والے امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو اسے رمضان میں قیام سے متعلق اجر ملے گااور رمضان میں قیام اللیل کا اجر سابقہ گناہوں کا کفارہ ہے جیساکہ اوپر بخاری کی روایت گزر چکی ہے ۔ اسی طرح کوئی رات بھر قیام اللیل کرے یا رات کے بعض حصے میں قیام اللیل کرے اسے اللہ تعالی عبادت کے بقدر اجر سے ضرور نوازے گا ۔ اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے فرمایاہے :
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ * قُمْ اللَّيْلَ إِلا قَلِيلا * نِصْفَهُ أَوْ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلا * أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلْ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا (المزمل:1-4)
ترجمہ: اے کپڑے میں لپٹنےوالے ! رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہوجاؤ مگر کم، آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کمکرلے یا اس پر بڑھادے اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو.
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ الليلِ مَثْنى مَثْنى . فإذا رأيتَ أنَّ الصبحَ يُدركُك فأَوتِرْ بواحدةٍ(صحيح مسلم:749)
ترجمہ: رات کی نمازدو رکعتیں ہیں،جب تم میں سے کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے،یہ اس کی پڑھی ہوئی(تمام) نماز کو وتر(طاق) بنادے گی۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قامَ بعشرِ آياتٍ لم يُكتب منَ الغافلينَ ومن قامَ بمائةِ آيةٍ كتبَ منَ القانتينَ ومن قامَ بألفِ آيةٍ كتبَ منَ المقنطرينَ(صحيح أبي داود:1398)
ترجمہ: جس شخص نے دس آیتوں سے قیام کیا وہ غافلوں میں شمار نہیں ہوتا ۔ اور جو سو آیتوں سے قیام کرے وہ « قانتين » ( عابدین ) میں لکھا جاتا ہے ۔ اور جو ہزار آیتوں سے قیام کرے وہ « مقنطرين » ( بےانتہا ثواب جمع کرنے والوں ) میں لکھا جاتا ہے ۔
ان ساری احادیث کا مفہوم یہ ہوا کہ رات کی نماز جو جس قدر پڑھے گا اس قدر ثواب ملے گا۔ دو، چار ، چھ ، آٹھ وغیرہ  اور رمضان المبارک میں قیام اللیل کا ثواب گیارہ رکعت(مع وتر) پڑھنے سے حاصل ہوجاتا ہے جس پہ گزشتہ سارے گناہوں کی مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے نیز امام کے ساتھ مکمل رات قیام اللیل کا اجر اس وقت ملے گا جب آخر وقت تک امام کے ساتھ  قیام میں شریک رہے ۔
واللہ اعلم بالصواب


مکمل تحریر >>