Monday, March 19, 2018

عورتوں کے لئے اذان واقامت کا حکم



عورتوں کے لئے اذان واقامت کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنتڑ، شمالی طائف (مسرہ)

نماز میں اذان واقامت صرف مردوں کے حق میں مشروع ہے کیونکہ مردوں پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے جبکہ عورتوں کی نماز اپنے گھر میں ادا کرنا بہتر ہے ۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ عورت اگر مردوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتی ہے شریعت نے اجازت دی ہے ۔
جب عورت کو اکیلے گھر میں نماز پڑھنا ہے تو اذان کی ضرورت ہی نہیں اور نہ ہی اقامت کی ، جیسے ہی کسی نماز کا وقت ہوجائے بغیر اذان کا انتظار کئے اپنی نماز انفرادی طور پرپڑھ سکتی ہے بخلاف مردوں کے کہ ان کے لئے اذان مشروع ہے پہلے اذان دے پھر اقامت کہہ کر جماعت سے نماز ادا کرے ،آگے اس بات کی دلیل بھی ذکر کی جائے گی۔ اذان دوسروں کو نماز کی اطلاع دینے اور مسجد میں حاضر ہونے کے لئے دی جاتی ہے اور اقامت بھی نماز کی جماعت کھڑی ہونے کی اطلاع دینے کے لئے ہے ۔ یہاں یہ مسئلہ بھی واضح رہے کہ مردوں کے حق میں بھی اذان واقامت فقط مشروع ہے یعنی اگر کسی نے بغیر اذان کے نماز ادا کرلیا یا کسی نے بغیر اقامت کے نماز پڑھ لیا تو نماز اپنی جگہ درست ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم قصدا  اذان یا اقامت چھوڑ کے نماز نہیں ادا کرنا ہے۔
ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کئی عورتیں مل کر جماعت سےفرض نماز ادا کریں اس صورت میں ان کے حق میں اذان واقامت کا کیا حکم ہے ؟ مثلا نسواں ادارہ ہے وہاں پنج وقتہ عورتوں کی جماعت ہوتی ہے اس جگہ عورتوں کو ہر نماز کے لئےاذان دینا چاہئے اور جماعت کھڑی ہونے سے پہلے اقامت کہنا چاہئے کہ نہیں ؟
نماز کا معاملہ توقیفی ہے ہمیں اس سلسلے میں اپنے من سے کچھ نہیں کہنا ہے اور نہ ہی لوگوں کے اقوال یا ضعیف وموضوع احادیث سے استدلال کیا جائے گا۔ جب ہم عورتوں کی نماز اور ان کی جماعت کے سلسلے میں صحیح احادیث تلاش کرتے ہیں تو یہ ثبوت ضرور ملتا ہے کہ ایک عورت دوسری عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل نماز لیکن عورتوں کے حق میں اذان واقامت کی کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملتی ہے تاہم صحیح دلائل سے اس بات کا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ عورتوں کے حق میں اذان واقامت نہیں ہے ۔ سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے:
كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يَزورُها في بَيتِها ، وجعلَ لَها مؤذِّنًا يؤذِّنُ لَها ، وأمرَها أن تؤمَّ أهلَ دارِها(صحيح أبي داود:592)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ان کے گھر میں ملنے کے لیے آیا کرتے تھے اور انکے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا جو ان کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ نے انہیں ( ام ورقہ کو ) حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں ۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگر عورتوں کا اذان دینا مشروع ہوتا تو آپ ﷺ ام ورقہ اور ان کے گھر کی عورتوں کے لئے مرد مؤذن کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ انہیں میں سے کسی ایک عورت کو یا ام ورقہ کو اذان دینے پر مامور کرتے مگر آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔
اسی طرح سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
أتيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنا وصاحِبٌ لي فلمَّا أردنا الانصرافَ قالَ لنا إذا حضرَتِ الصَّلاةُ فأذِّنا وأقيما وليؤمَّكما أَكبرُكُما(صحيح ابن ماجه:806)
ترجمہ: میں اور میرا ایک ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب ہم نے واپس ( وطن) جانے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا: جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم لوگ اذان اور اقامت کہنا اور تمہارا امام وہ بنے جو تم دونوں میں سے زیادہ بڑا ہے۔
اس حدیث میں جس طرح نبی ﷺ نے مردوں کو مخاطب ہوکر اذان واقامت اور جماعت کا حکم دیا ہے اس طرح کسی مرفوع حدیث سے عورتوں کے حق میں اذان واقامت کا ثبوت نہیں ملتا ہےالبتہ یہ اثر " ليس على النِّساءِ أذانٌ ولا إقامةٌ" کہ عورتوں پر اذان واقامت نہیں ہے ثابت نہیں ہے ۔
اس مسئلے میں بعض علماء نے عورتوں کے حق میں اذان واقامت دونوں اور بعض نے صرف اقامت کو مباح کہا ہے اور استدلال کے طور پر نبی ﷺ کا ایک یہ فرمان پیش کیا جاتا ہے :
إنَّما النِّساءُ شقائقُ الرِّجالِ(صحيح أبي داود:236)
ترجمہ: ہاں ! عورتیں ( بھی ) بلاشبہ مردوں ہی کی مانند ہیں ۔
بلاشبہ عورتیں بھی مردوں کی مانند ہیں مگر تمام چیزوں میں نہیں جیساکہ ہم ان کی فطرت ، جنس اور خلقت مردوں سے مختلف پاتے ہیں ۔ جس حدیث میں عورتوں کو مردوں کی مانند قرار دیا گیا ہے وہاں مسئلہ احتلام کا ہے کہ احتلام ہوجانے پر مردوں کی طرح عورتوں پر بھی غسل ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ عورتوں کے حق میں اذان واقامت مشروع نہیں ہے ۔


مکمل تحریر >>

Wednesday, March 7, 2018

سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم

سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)

فقہ حنفی کی شرع مخالف تعلیمات نے ملت اسلامیہ اور اس کے افراد کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ امت کا اختلاف وانتشار ، آپسی تنازع، ایک دوسرے کی تکفیروتذلیل اور مسلمانوں کے درمیان فساد اسی نقصان کاپیش خیمہ ہے ۔ آج بھی مسلمان ایک ہوسکتے ہیں ، ہماری بکھری ہوئی طاقت یکجا ہوسکتی ہے ، عظمت رفتہ پھر سے بحال ہوسکتی ہے اور چہار دانگ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ امت کو خالص کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے، علماء کے اقوال اور ائمہ کے اجتہادات کو نصوص شرعیہ پر ترجیح نہ دی جائے اور عقائدواعمال صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے لئے جائیں ۔
فقہ حنفی کے شرع مخالف مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر سسر شہوت سے بہو کو چھو لے یا اس سے زنا کرلے تو بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے ۔
سسر اور بہو یا داماد اور ساس کا رشتہ برصغیر میں بہت ہی مقدس مانا جاتاہے ، اسی تقدس کے تئیں ساس وسسر کو ابو امی کہہ کر لوگ پکارتے ہیں ۔ اپنے ذہن میں ایک طرف یہ تقدس رکھیں اور دوسری طرف یہ دیکھیں کہ ہمارے یہاں عموما فیملیاں مشترکہ طور پر رہتی ہیں ، اور آج کے پرفتن دور میں مشترکہ فیملی کے برے اثرات کسی کے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ساس، سسربہوئیں، بیٹے، نندیں، جیٹھ، دیورسب ایک ساتھ ایک جگہ رہتے سہتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام بہت سارے جرائم ومعاصی کا سبب ہے اس وجہ سے شادی کے بعد والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو الگ الگ کردے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی جان لی جائے کہ سسر اپنی بہو کے لئے محرمات میں سے ہے اس لئے بہو اپنے سسر کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے ، خلوت(خلوت) کرسکتی ہے حتی کے اس کے ساتھ مصافحہ کرنا اورسفر کرنا بھی جائز ہے ۔
مذکورہ بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا یہ خیال کریں کہ اگر سسر اپنی بہو کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے تو وہ کس درجے کا مسلمان رہ جاتا ہوگا؟
زنا ایک سنگین جرم اور گھناؤنا عمل ہے ، اس سے ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے اور زناکار ایمان سے محروم ہوکر قہر الہی کا مستحق ہوجاتا ہے قہر الہی کے ساتھ دنیا میں بھی اس کی عبرت ناک سزا ہے جسے دیکھ کر پھر کسی میں احساس زنا باقی نہیں رہ سکے گا ۔ اے کاش ! دنیا میں زنا کی بابت شرعی قانون نافذ ہوجائے تو سماج وسوسائٹی کی سب سے بڑی گندگی دور ہوجائے۔ سماج سے اگر یہ گندگی دور ہوجائے تو بہت ساری سماجی خرابیاں آپ خود دور ہوجائیں۔
اسلام میں زنا کے متعلق یہی پتہ چلتا ہے کہ اس کا گناہ اور اثراس کے سر ہے جس نے اس کا ارتکاب کیا ہے ۔ اگر سسر نے زبردستی اپنی بہو کے ساتھ زنا کیا ہے تو اس کا مکمل گناہ ووبال سسر کے سر ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى(فاطر:18)
ترجمہ: کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
قرآن کا یہ اصول ہرقسم کے گناہ کے سلسلے میں ہے خواہ قتل کا معاملہ ہو یا زنا کا اور زنا سسر وبہو کے درمیان ہو یا ان کے علاوہ کے درمیان ۔ یہی اصول دنیاوی علالتوں اور سماجی معاملوں میں بھی برتے جاتے ہیں کہ جس کی غلطی اسی کو سزا ۔ ایسا نہیں ہے کہ قاتل ابن زیاد ہو اور مجرم یزید ٹھہرے ۔
اور اگر زنا میں سسر کے ساتھ بہو کی بھی رضامندی تھی تو سسروبہو دونوں گنہگار ہیں اور دونوں رجم کے قابل ہیں لیکن اس کی سزا شوہر کو نہیں ملے گی وہ اس معاملے میں معصوم ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی سسر جبرا یا بہو کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس سے وہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوگی کیونکہ حرام کا ارتکاب کرنے سے کوئی حلال کام حرام نہیں ہوجائے گا۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا (ابن ماجہ: 2015) گوکہ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر کئی آثار سے یہ بات منقول ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح اثر میں مذکور ہے :
عنِ ابنِ عباسٍ أنَّ وطءَ الحرامِ لا يُحرِّمُ۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حرام وطی (مباشرت) سے (کوئی حلال چیز) حرام نہیں ہوجاتی ۔
اس اثر کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔ (إرواء الغليل:1881)
یہی مسلک حق ہے اور اسی کے قائل مالکیہ وشافعیہ ہیں لیکن احناف اور شوافع کے یہاں زنا سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ ان کا استدلال ہے کہ جس طرح ربیبہ (بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکی) سے نکاح اس وقت حرام ہوجاتا ہے جب مرد اس کی ماں سے جماع کرلے یعنی یہاں وطی سے حرمت ثابت ہورہی ہےٹھیک اسی طرح زنا سے جو لڑکی پیدا ہو وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی کے حکم میں ہے اور بیٹی سے نکاح حرام ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ(النساء:23).
ترجمہ: اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ،تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ،ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
یہ استدلال بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں نکاح کا ذکرہے ،اللہ کا فرمان ہے:ولاتنکحوا مانکح آباؤکم من النساء الا ما قد سلف یعنی تم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمارے باپوں نے نکاح کیا ہےمگر جو گزرچکا۔
اور نکاح کو زنا پر کیسے قیاس کیا جائے گا؟ اگر کوئی رشتہ نکاح کی وجہ سے حرام ہورہاہے تو زنا کرنے سے کوئی رشتہ کیسے حرام ہوجائے گا؟ دونوں دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ نکاح سے بعض رشتے کی حرمت کا ثبوت موجود ہے جبکہ زنا سے رشتے کی حرمت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
احناف کا یہ فتوی جہاں خلاف شریعت ہے وہیں اس فتوی پر سختی قابل مذمت اور حددرجہ افسوس ناک ہے ۔ اگر کسی کے یہاں سسر وبہو کے زنا کا واقعہ رونما ہوجائے تو سماج والے زبردستی میاں بیو ی میں تفریق کردیتے ہیں ۔ جس طرح سختی سے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں عورتوں کا جبرا حلالہ بلفظ دیگر زنا کروایا جاتا ہے اسی طرح سختی سے اس معاملہ میں بھی بے قصور شوہر کو بیوی سے الگ کردیا جاتا ہے۔
اس بات پر مجھے جس قدر حیرت ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات پر حیرانی ہے کہ جب احناف کو اپنے فتوی کا اتنا ہی پاس ولحاظ ہے تو پھر جو چیز شرعا ثابت ہے اور جسے احناف بھی مانتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا تو پھر اس معاملے میں خاموشی کیوں ،اسے کیوں نافذ نہیں کرتے؟ ۔ خودساختہ فتوی پر اس قدر سختی اور ثابت شدہ مسئلہ میں اس قدر غفلت ؟  شتان بین یزیدین
جس طرح زنا کی بابت سسر وبہو کا مسئلہ فقہ حنفی میں درج ہے اسی طرح ساس وداماد کا بھی مسئلہ ہے ۔داماد نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اپنی بیوی حرام ہوگئی ۔ یہ مسئلہ بالکل خلاف شریعت ہے اس لئے عوام سے میری درخواست ہے کہ آج کے علمی اور ترقی یافتہ دورمیں اندھے بہرے ہوکر کسی فتوی پر عمل نہ کریں ۔ پہلے صاحب علم وبصیرت سے مسئلہ کو دلائل کی روشنی میں جانیں پھر عمل کریں ۔ آج علم کا حصول اورمسئلے کی دریافت پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے، اکثر مراجع ومصادراور دین کی اہم کتابیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، بڑے سے بڑے علماء سے رابطہ آسان ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں پھر صحیح بات کی جانکاری کے لئے سستی کیوں ؟ یہ تو دین و شریعت کا معاملہ ہے نہ دنیا کا ۔ آپ دین پر اس لئے عمل کرتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو اور اس کے بدلےآخرت میں اس کی توفیق سے جنت ملے، نہ کہ اس لئے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا دنیا کا کوئی عالم  و مفتی آپ سے خوش ہو۔ہرکس وناکس کو میرا یہ پیغام ہے کہ صحیح دین کو پہچانیں ، سنت کے مطابق عمل کریں اور ہرعمل میں اللہ کی رضا تلاش کریں ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا یہی مطلوب ومقصود ہونا چاہئے۔
مکمل تحریر >>