Thursday, February 15, 2018

نماز جمعہ کی رکعات اور اس کے چند مسائل

نماز جمعہ کی رکعات اور اس کے چند مسائل


مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)


اسلام میں نماز جمعہ کی بڑی اہمیت، اس کےبے شمار فضائل اوراس دن کےبے پناہ فیوض وبرکات ہیں ، اس اہمیت وفضیلت کے پیش نظر اس کی تیاری کا خصوصی حکم دیا گیا ہے اوراس نماز کے واسطے آنے کے آداب اور اس سے متعلق متعدد احکام بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ خوش نصیب وہ ہے جوجمعہ کی عمدہ تیاری کرے، وقت سے پہلے مسجد میں حاضر ہو، توفیق الہی کے بقدر نوافل کی ادائیگی کرے، خطبہ غور سے سنے اور فرائض وسنن کی ادائیگی سے لیکر اس دن سے متعلق مسنون اعمال وافعال انجام دے مثلا غسل ، خوشبو ، مسواک ،سورہ کہف کی تلاوت ، کثرت درود اور قبولیت کی ساعت سے استفادہ وغیرہ ۔
اس جگہ صحیح احادیث میں وارد نماز جمعہ کی رکعات کو بیان کرنا مقصود ہے تاکہ عوام کو اس نمازکی اصل رکعات سے آگاہی ہو اور لوگوں میں پھیلے نماز جمعہ سے متعلق غلط خیال کا سد باب ہو۔ نماز جمعہ کی رکعات کو میں تین صورتوں میں بیان کروں گا ۔
پہلی صورت : اس صورت میں تین باتیں ذکر کرنا مفیدسمجھتا ہوں ۔
(1) یہ بات جانتے ہوئے کہ نماز جمعہ سے قبل جمعہ کی کوئی مخصوص سنت نہیں ہے پھر بھی خطبہ سے قبل جس قدر نوافل پڑھنا چاہیں ہم پڑھ سکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من اغتسل ، ثمَّ أتَى الجمعةَ ، فصلَّى ما قُدِّر له . ثمَّ أنصت حتَّى يفرَغَ من خطبتِه . ثمَّ يصلِّي معه ، غُفر له ما بينه وبين الجمعةِ الأخرَى ، وفضلُ ثلاثةِ أيَّامٍ(صحيح مسلم:857)
ترجمہ: جس نے غسل کیا،پھر جمعے کے لئے حاضر ہوا،پھر اس کے مقدر میں جتنی نفل نماز تھی پڑھی،پھر خاموشی سےخطبہ سنتا رہا حتیٰ کہ خطیب اپنے خطبے سے فارغ ہوگیا،پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی،اس کے اس جمعے سے لے کر ایک اور جمعے تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور مزید تین دنوں کے بھی۔
تو یہ نماز نوافل شمار ہوں گی اور اس کی کوئی تحدید نہیں ہے جس کو جتنی رکعت پڑھنے کی خواہش ہو پڑھے ۔دو، چار، چھ ، آٹھ، بارہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ صحابہ کرام سے نماز جمعہ سے قبل متعدد رکعات پڑھنا منقول ہے مثلاقتادہ رضی اللہ عنہ سے چاراور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بارہ رکعات تواس سے ہم یہ دلیل نہیں اخذ کریں گے کہ یہ نماز جمعہ سے قبل کی سنن مؤکدہ ہے بلکہ نوافل کے ہی زمرے میں داخل ہے اس لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ جمعہ کی نماز سے قبل کچھ بھی سنت نماز ثابت نہیں ہے ۔
(2) خطبہ سے پہلے آنے والا نوافل نہ ادا کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن پھر بھی کم ازکم دو رکعت اسے تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہئے جیساکہ فرمان نبوی ہے :
إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ .(صحيح البخاري:1167)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
(3) بسا اوقات ہم میں سے کسی کو جمعہ کے دن اس وقت آنا ممکن ہوتا ہے جب امام ممبر پر خطبہ کے لئے آجائے یا خطبہ دے رہاہوں ۔ یاد رہے جان بوجھ کر جمعہ کے دن تاخیر سے آنا بڑی محرومی کا سبب ہے۔ جب امام ممبر پر بیٹھ جائے یا خطبہ دے رہاہوں تو اس حالت میں مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت تحیۃ المسجد ہلکے انداز میں پڑھ کر بیٹھے گا ۔ اس کی دلیل جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی سلیک غطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے دن اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے۔آپ نے ان سے مختصرا دو رکعت نماز ادا کرنے کو کہا اور فرمایا:
إذا جاء أحدكم ، يومَ الجمعةِ ، والإمامُ يخطبُ ، فليركع ركعتينِ ، وليتجوَّزْ فيهما(صحيح مسلم:875)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ کےدن آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔
اس دلیل سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جو لوگ خطبہ کے وقت آنے والے کو دو گانہ ادا کرنے سے منع کرتے ہیں دراصل وہ لوگ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔
دوسری صورت : اس صورت میں یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ نماز جمعہ کے طور پر صرف دو رکعت فرض ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن أدرَكَ منَ الجمعةِ رَكْعةً فليصلِّ إليها أخرَى . (صحيح ابن خزيمة للالبانی:1851)
ترجمہ: جو شخص جمعہ سے ایک رکعت پالے تو اسکے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح سے وارد ہے :
من أدرَكَ رَكعةً منَ الجمعةِ أو غيرِها فقد تمَّت صلاتُهُ(صحيح النسائي:556)
ترجمہ: جس نے جمعہ کی یا کسی اور نماز کی ایک رکعت پالی تو اس کی نماز پوری ہوگئی ۔
مذکورہ پہلی حدیث سے نماز جمعہ کے طور پر دو رکعت فرض ہونا ثابت ہوتا ہے وہ اس طرح کہ  نماز جمعہ میں دیر سے آنے والے کسی  مسبوق کو ایک رکعت امام کے ساتھ ملے تو اسے نبی ﷺ نے قضا کے طورپرصرف ایک رکعت مزید پڑھنے کا حکم دیا ہے گویا کل دو رکعتیں ہی ہوئیں ۔  دوسری حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت بھی پالی تو اس نے جمعہ کی نماز پالی البتہ جو ایک رکعت بھی نہ پاسکے وہ جمعہ کی  نماز سے محروم ہوگیا اسے اب جمعہ کی جگہ ظہر کی چار رکعت نماز ادا کرنا پڑے گا ۔مثال سے یوں سمجھ لیں کہ کوئی امام کو دوسری رکعت کے سجدہ میں یا تشہد میں  پائے تو اس سے نماز جمعہ فوت ہوگئی اسے ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی ۔
ایک امر کی وضاحت : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے خطبہ جمعہ چھوٹ جائے وہ چار رکعت نماز ادا کرے ۔
كانتِ الجمعةُ أربعًا فجُعِلَتْ ركعتينِ من أجلِ الخُطبةِ فمن فاتتهُ الخطبةُ فليُصَلِّ أربعًا۔(رواه ابن أبي شيبة :1/461)
ترجمہ: جمعہ کی نماز چار رکعت تھی پس خطبہ کی وجہ سے دو رکعت کردی گئی توجس سے خطبہ فوت ہوجائے وہ چار رکعت ادا کرے ۔
اسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس روایت کو شیخ البانی نے منقطع کہا ۔(إرواء الغليل:3/72)
تیسری صورت : اب یہاں نماز جمعہ کے بعد وارد شدہ روایات بیان کی جاتی ہیں جن  میں تین قسم کی باتیں منقول ہیں ۔
(1) ایک قسم نماز جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھنے کی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہےوہ نبی ﷺ کے متعلق  بیان کرتے ہیں:
وكان لا يُصلِّي بعدَ الجمُعةِ حتى يَنصَرِفَ، فيُصلِّي ركعتَينِ .(صحيح البخاري:937)
ترجمہ: جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
(2) دوسری قسم جس میں چار رکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا صلَّى أحدُكم الجمعةَ فليصلِّ بعدها أربعًا(صحيح مسلم؛881)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھ چکے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔
(3) اور تیسری قسم میں چھ رکعات کا ذکر آیا ہے ۔
عنِ ابنِ عمرَ قالَ : كانَ إذا كانَ بمَكةَ فصلَّى الجمعةَ تقدَّمَ فصلَّى رَكعتَينِ ثمَّ تقدَّمَ فصلَّى أربعًا وإذا كانَ بالمدينةِ صلَّى الجمعةَ ثمَّ رجعَ إلى بيتِه فصلَّى رَكعتَينِ ولم يصلِّ في المسجدِ فقيلَ لَه فقالَ كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يفعلُ ذلِك(صحيح أبي داود:1130)
ترجمہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق عطاء کہتے ہیں کہ وہ جب مکے میں ہوتے ، اور جمعہ پڑھتے تو آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے ، پھر آگے بڑھتے اور چار رکعتیں پڑھتے اور جب مدینے میں ہوتے اور جمعہ پڑھتے تو اس کے بعد گھر لوٹ جاتے اور دو رکعتیں ادا کرتے اور مسجد میں نہ پڑھتے ۔ آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔
ان ساری روایات کو سامنے رکھتے ہوئےشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر مسجد میں جمعہ کے بعد سنت ادا کریں تو چار رکعت اور گھر میں ادا کرنا چاہیں تو صرف دو رکعت پڑھیں ۔ مسجد میں چھ رکعت بھی سنت ادا کرسکتے ہیں جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے تاہم گھر میں ادا کرتے وقت دو رکعتیں ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز جمعہ سے پہلے کوئی سنت نہیں ہے صرف دو رکعت تحیۃ المسجد ہے البتہ نفل کے طور پر کوئی جس قدر چاہے پڑھے اس کی تحدید نہیں ہے اور نماز جمعہ کے بعد سنت نماز دو ، چار اور چھ رکعات  تک پڑھنا ثابت ہے لہذا کوئی دو پڑھ لے یا کوئی چار اور کوئی چھ پڑھ لے سارے طریقے درست ہیں ۔
بعض تنبیہات و اصلاحات :
پہلی بات :احناف کے یہاں نماز جمعہ سے قبل چار سنت موکدہ اور بعد میں چار یا چھ سنت موکدہ بیان کیا جاتا ہے سو معلوم ہونا چاہئے کہ نماز جمعہ سے قبل سنت نماز ثابت نہیں ہے اوراس سے متعلق جن آثار صحابہ کو بنیاد بناکر سنت موکدہ کا حکم لگایا جاتا ہے وہ دراصل نوافل ہیں سنن نہیں ۔
دوسری بات: یہ کہ نماز جمعہ کو نماز ظہر پر قیاس نہیں کیا جائے گا ، نہ ہی اس کی طرح رکعات ادا کئے جائیں گے ۔ نماز جمعہ الگ نماز ہے اور اس کے احکام ورکعات بھی مستقل طور پر بیان کئے گئے ہیں۔
تیسری بات : یہ ہے کہ جو لوگ گاؤں دیہات میں  نماز جمعہ کے بعد ظہر احتیاطی کے طور چار رکعت پڑھتے ہیں وہ سراسر سنت کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل سنت میں موجود نہیں ہے ۔

مکمل تحریر >>

Thursday, February 1, 2018

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل


جوابات از شیخ مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)


1- میں نے اپنے بیٹے کا عقیقہ کیا اس میں دوبکرے ذبح کئے اور مزید کچھ گوشت خرید کر اس میں ملالیا تاکہ جتنے لوگوں کو دعوت دی گئی سب کو ہوسکے ، کیا یہ درست ہے اور کہیں یہ اشتراک تو نہیں ؟
جواب : عقیقہ کی دعوت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اگر دعوت میں افراد بڑھ جائیں تو کچھ زائد گوشت خرید کر عقیقہ میں شامل کرنےمیں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ اشتراک نہیں ہے ۔ اشتراک کہتے ہیں قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ لینے کو۔آپ نے لڑکا کی طرف سے دومستقل جانور ذبح کیا سنت پوری ہوگئی ۔ اب اس عقیقہ میں مزید گچھ گوشت ملالینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں عقیقہ کی دعوت میں ریاونمود کی خاطر ہزاروں لوگوں کو بلانا اور عقیقہ کے گوشت کے علاوہ ڈھیر سارا گوشت مزید خرید کرلاناجائز نہیں ہے ۔ اگر اللہ نےضرورت سے زیادہ پیسہ دیا ہے تو زائد گوشت کے پیسوں کو غریبوں میں صدقہ کردیں یا اس سے محتاجوں کی مدد کریں ۔
2- وراثت میں بیٹیوں کا کیا حصہ مقرر کیا گیا ہے بتائیں کیونکہ نہ لوگوں کو اس کا علم ہے اور نہ ہی اسے نافذ کرتے ہیں ؟
جواب : وراثت میں بیٹیوں کا حصہ بیٹے کے مقابلے میں آدھا ہے یعنی دولڑکی کو جتنا حصہ ملے گا اتنا حصہ ایک لڑکے کو ملے گا۔ اللہ کا فرمان ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ(النساء:11)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔
یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب میت نے لڑکا اور لڑکی دونوں چھوڑا ہو لیکن اگر صرف لڑکیاں ہوں ،لڑکے نہ ہوں اورلڑکی کی تعداد دو ہو یا دو سے زیادہ تو انہیں تہائی مال میں سے دو حصے ملے گیں اور اگر صرف ایک لڑکی  ہوتوکل مال کا اسے نصف حصہ ملے اور بقیہ عصبہ پر تقسیم ہوگا۔ اللہ کا فرمان ہے : فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ{الـنساء:11}
ترجمہ: اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دوتہائی ملے گا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے۔
3- آپ کس دلیل کی بنیاد پر بڑی عمر میں عقیقہ دینے کے قائل ہیں اسے حوالہ کے ساتھ ذکر کریں مہربانی ہوگی؟
جواب : نبی ﷺ کا فرمان ہے : كلُّ غلامٍ رهينٌ بعقيقتِه، تُذبحُ عنه يومَ سابعِه، ويُحلق رأسُه ويُسمَّى( صحيح النسائي:4231)
ترجمہ:ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے ( عقیقہ) ذبح کیا جائے، اُس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔
اس حدیث سے دلیل ملتی ہے کہ عقیقہ بعد میں بھی دیاجاسکتا ہے کیونکہ ہر بچہ اپنے عقیقہ کی وجہ سے گروی ہوتا ہے اور وہ گروی اسی وقت ختم ہوگی جب بچہ کی طرف سے عقیقہ دیا جائے گا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بسا اوقات آدمی مستطیع ہوتا ہے مگر وقت پرپیسے نہیں ہوتے یا بعض لوگ شروع میں غریب ہوتے ہیں بعد میں مالدار ہوجاتے ہیں ایسے لوگ اپنے بچوں کی گروی اس وقت ختم کریں جب انہیں سہولت ہو لیکن جسے اللہ نے بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کی طاقت دیا ہے اس کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ بغیر کسی چیز کا انتظار کئے اسی دن عقیقہ کرے۔
4- کچھ لوک جزاک اللہ خیرا کے ساتھ مزید الفاظ کثیرا ، یا احسن الجزاء یا فی الدنیا والآخرہ لگاتے ہیں کیا اس طرح نبی ﷺ سے ثابت ہے اگر نہیں تو کہیں نئی بدعت کے دائرے میں تو نہیں آئے گا؟
جواب : جزاک اللہ خیرا دعائیہ کلمہ ہے ، کوئی اسی پر اکتفا کرے تو ٹھیک ہے اور کوئی اس میں مزید دعائیہ جملہ بڑھائے تو بھی ٹھیک ہے ، دعا دینے میں  الفاظ کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ جس طرح ہم دوسری زبانوں میں کسی کو بہت ساری دعائیں دیتے ہیں اسی طرح عربی میں بھی دے سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ دعاؤں کی زیادتی جزاک اللہ خیرا کے ساتھ ہو۔
5- میرے گھر میں کام کاج کے لئے پانی کی ٹنکی ہے اس میں چوہا گرکر مرگیا، کیا اس کا پانی ناپاک ہے اور اس کے لئے ہمیں کیا کرنا پڑے گاکہ پانی پاک ہوجائے ؟
جواب : اگر پانی کے حوض میں چوہا یا بلی یا کتا گر کر مرجائے تو اولا اس مرے ہوئے جانور کو حوض سے نکال کر پھینک دے اس کے بعد دیکھے کہ پانی کے تین اوصاف ، رنگ ، بو اور مزہ میں سے کسی میں تبدیلی آئی ہے؟ اگر نہیں تو پانی پاک ہے اور اگر ہاں تو اس حوض میں سے اس قدر پانی نکال کر پھیک دے جس سے پانی میں آئی تبدیلی ختم ہوجائے ۔
6- مغرب کے وقت بچوں کو گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہیے تو کیا مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے بھی بچوں کو گھر سے باہر جانے سے روکنا چاہئے ؟
جواب : یہ حکم واجبی نہیں ہے پھر بھی چھوٹے بچوں کو سورج ڈوبنے کے بعد اکیلے کھیلنے کودنے یا غیرضروری کام کے لئے باہر نہ بھیجا جائے تاہم ضروری کام کے لئے کسی کے ساتھ جائے یا نماز کے لئے جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
7- کیا ایک مصلی پہ میاں بیوی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : بیوی کے بغل میں نماز پڑھنےکی دو صورتیں ہیں ، اگر شوہر وبیوی ایک ساتھ نماز پڑھیں تو لازما بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا پڑے گا اور اگر شوہر وبیوی الگ الگ اپنی نماز پڑھ رہے ہوں تو ایک دوسرے کے بغل میں ایک مصلی پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
8- قنوت نازلہ اور قنوت وتر میں کیا فرق ہے ؟
جواب :مصائب کے وقت فرض نماز میں دشمنوں کے خلاف دعا کی جاتی ہے اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں ۔ اس سے مظلوم مسلمانوں کی نصرت و اعانت اور سفاک کفار و اعداء اسلام کی بربادی مقصود ہے۔ مغرب یا فجر کی نماز میں امام مسجد نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کربلند آواز سے دعاپڑھے جس میں مسلمانوں کے لئے دعا کرے اور کفار پرکثرت سے لعنت بھیجے اور سارے مقتدی اس پہ آمین کہیں ۔ ضروت پڑے تو پانچوں نماز میں دعا کی جاسکتی ہے کیونکہ پانچوں نماز میں قنوت کا ثبوت ملتا ہے ۔ آپ کى قنوت اکثر فجر کی نماز میں ہوتى۔
اور رات کی آخری نماز وتر میں رکوع سے پہلے یا بعد میں دعا کرنے کو قنوت وتر کہتے ہیں ۔ گویا قنوت نازلہ اور قنوت وتر میں فرق ہے ، ایک فرق تو یہ ہوا کہ قنوت وتر نماز کا حصہ ہے جو صرف وتر کی نماز مشروع ہے جبکہ قنوت نازلہ کسی نماز کا حصہ نہیں بلکہ مصیبت کے وقت ہرفرض نماز میں پڑھی جانے والی اضافی دعا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ قنوت نازلہ میں دعا رکوع کے بعد ہے جبکہ قنوت وتر میں پہلے ہےتاہم رکوع کےبھی دعائے قنوت کی جاسکتی ہے۔ دونوں میں ایک چیز مشترک یہ ہے کہ دونوں دعائیں ہیں اور دونوں میں دعاؤں کی زیادتی جائز ہے اور ہاتھ اٹھانا بھی۔
9- کسی کا رشتہ دار جادو کرتا ہے اور لوگوں کو اس کے جادو کی خبر بھی ہے اس سے لوگ کافی پریشان ہیں کیا وہ اس سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے؟
جواب : جادو کرنا نواقض اسلام میں سے ہے اس وجہ سے جادو کرنے والا اسلام سے باہر ہوجاتا ہے ۔ جادوگر شرک وکفر دونوں کا مرتکب ہو اس لئے وہ کافر اور مشرک شمار کیا جائے گا۔اس لئے نبی ﷺ نے جادوگروں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے بلکہ اس کی سزا قتل مقرر کی ہے ۔ جس کسی کا رشتہ دار جادوگر ہو اسے احسن طریقے سے دعوت دے اور خالص توبہ کرائے ورنہ اس سے نہ صرف مقاطعہ جائز ہے بلکہ سماج کو اس سے پاک کرنے کے لئے اس کے شر سے بچتے ہوئے جوصورت اختیار کرنی پڑے جائز ہےخواہ سزا دی جائے یا شہر بدر کیا جائے یا سماجی بائیکاٹ کیا جائے تاکہ سماج میں اور لوگوں کے گھروں میں کفر وشرک داخل نہ ہو۔
اس معاملہ میں ایک بات دھیان میں رہے کہ بسااوقات دیہی علاقوں میں بغیر ثبوت کے کسی کو ڈائن ، چڑیل اور جادوگرنی قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے سارے محلے میں بدنام کیا جاتا ہے ،اس لئے بغیر ثبوت کے کسی کو مطعون کرنا یا اس کے ساتھ زیادتی کرنا بہت بڑا جرم ہے اس بات کی ہمیں سمجھ ہونی چاہئے۔
10- کیا منفرد جہری نمازوں کو سرا پڑھ سکتا ہے ؟
جواب : سنت تو یہی ہے کہ منفرد بھی جہری نمازوں کو جہرا ہی پڑھے لیکن اگرکوئی مصلحتا یا بغیر مصلحت کے جہری نماز کو سرا بھی ادا کرلے تو نماز صحیح ہے البتہ سنت چھوٹ گئی ، ہاں اگر منفرد نے بھول سے جہری نماز کو سرا پڑھ لیا تو سجدہ سہو کرلے ۔
11- کسی نے بیس سال پہلے ایک دینار مہر میں طے کیا جو ابھی بھی دینا باقی ہے تو کیا آج کے حساب سے مہر دینا پڑے گا یا صرف ایک دینا ر دلیل سے واضح کریں ؟
جواب : صرف ایک دینار ہی دینا ہے کیونکہ شوہر کے ذمہ یہ بطور قرض باقی ہے اور قرض کی ادائیگی جب بھی ہوگی اسی شکل میں ہوگی ، ہاں اگر تاخیر کی صورت میں اپنی مرضی سے کچھ دینا چاہے تو دیاجا سکتا ہے کیونکہ قرض پہ بلامشروط کچھ زائد دینا جائز ہے جیساکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا جسے آپ نے ادا کیا اورکچھ زیادہ دیا۔( صحيح البخاري:443)
اس پر مفصل مضمون پڑھنے کے لئے میرے بلاگ پر "پچاس سال پہلے کا قرض کس طرح چکائیں؟" مطالعہ فرمائیں۔
12- تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملانے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : ظہر، عصراور عشاء کی آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا چاہئے ۔اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ، وَسُورَةٍ سُورَةٍ، وَيُسْمِعُنَا الآيَةَ أَحْيَانًا(صحيح البخاري:762)
ترجمہ:حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ نبی ﷺ ظہر اور عصر کی دو رکعات میں سورہ فاتحہ اور کوئی ایک ایک سورت پڑھتے تھے۔ اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا بھی دیتے تھے۔
اس سے مزید وضاحت ایک دوسری روایت میں ہے ۔سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
كنَّا نَقرَأُ في الظُّهرِ والعَصرِ خَلفَ الإمامِ في الرَّكعتينِ الأولَيينِ ، بفاتحةِ الكِتابِ وسورةٍ . وفي الأُخرَيينِ بفاتحةِ الكِتابِ(صحيح ابن ماجه:694)
ترجمہ: ہم لوگ امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی نمازوں میں پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھتے تھے اور بعد کی دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔
مشروع یہی ہے کہ رباعی نماز کی آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھے حتی کہ مغرب کی تیسری رکعت میں بھی ۔ نبی ﷺ سے ظہر کی آخری دورکعتوں میں سورت پڑھنا بھی ثابت ہے مگر یہ آپ کا کبھی کبھار کا عمل تھا۔
13- ہمارے یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے کی کمائی سے باپ کا حج نہیں ہوگا کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب : یہ بات صحیح نہیں ہے کہ بیٹے کے مال سے باپ کا حج نہیں ہوگا ، بیٹے کے مال میں باپ کا خصوصی حق ہے اور اپنے بیٹے کی کمائی کھانا ایسے ہی جیسے اپنی کمائی کھانا ہے ۔اس لئے نبی ﷺ نے فرمایا: إنَّ أَطيبَ ما أَكلَ الرَّجلُ مِن كَسْبِه، ووَلدُه مِن كَسْبِه.( صحيح النسائي:4463)
ترجمہ: انسان کا سب سے اچھا کھانا وہ ہے جواپنی کمائی سے کھائے اوراس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہی ہے۔
ایک صحابی نبی ﷺ سے عرض کرتے ہیں:
يا رسولَ اللَّهِ إنَّ لي مالًا وولدًا وإنَّ أبي يريدُ أن يجتاحَ مالي فقالَ أنتَ ومالُكَ لأبيكَ(صحيح ابن ماجه:1869)
ترجمہ: اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال بھی ہے اوراولاد بھی اورمیرا والد میرا مال لینا چاہتا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اورتیرا مال تیرے والد کا ہے۔
اس لئے بیٹے کے مال سے باپ کا اپنی ضرورت بھر پیسہ لیناجائز ہے اوراس کے مال سے حج وعمرہ کرنا بھی جائز ہے۔ہاں ضروریات کے علاوہ باپ اپنے بیٹے کو مجبور کرکے دوسرے کام کے لئے مثلا حج یا عمرہ کے لئے پیسہ نہیں لے سکتا اپنی خوشی سے دےتو پھر صحیح ہے۔
14- کیا حج کے لیے آئسہ(بوڑھی) عورتوں کے لیے بھی محرم کا ہونا لازمی ہے ۔((وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بزينة.))پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے؟
جواب : عورت کے ساتھ سفر میں محرم کا ہونا ضروری ہے جیساکہ فرمان رسول ﷺ ہے : لا تسافرُ المرأةُ إلَّا معَ ذي محرمٍ(صحيح البخاري:1862)
ترجمہ: کوئی عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے ۔
یہ فرمان عام ہے جو ہر بالغ عورت کو شامل ہے خواہ جوان ہو یا بوڑھی اور سوال میں مذکور قرآنی آیت سفر سے متعلق نہیں ہے بلکہ حجاب (پردہ) سے متعلق ہے۔
15- اکسڈنٹ میں قتل ہونے کا حکم کیا ہے ؟
جواب : اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ڈائیور سےقصدا قتل نہیں ہوا ہے تواسےقتل خطا کہتے ہیں اور قتل خطا میں دیت اور کفارہ دونوںواجب ہو جاتے ہیں ۔ اگر مقتول کے وارث دیت معاف کر دیں تو دیت ساقط ہو جاتی ہیں مگر کفارہ باقی رہ جاتا ہے ۔ کفارہ میں غلام آزاد کرنا یا مسلسل دو مہینے کا روزہ رکھنا ہے۔ مزید تفصیل میرے بلاگ پر دیکھیں۔
16- اللہ نے قرآن میں نبی ﷺ پر درود اور سلام دونوں پڑھنے کا حکم دیا ہے تود ردود ابراہیمی کے اندر صرف درود ہے اس صورت میں ہمیں کون ساد ردود پڑھنا چاہئے ؟
جواب : نماز میں تو درود ابراہیمی ہی پڑھنا ہے اور نماز سے باہر درود ابراہیمی کے علاوہ دیگر ثابت درود بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ صرف درود پڑھنا بھی جائز ہے اور اس کی اپنی فضیلت ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا(صحيح مسلم:932)
ترجمہ:جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا۔
اور اللہ نے قرآن میں نبی ﷺ پر درود وسلام دونوں پڑھنے کا حکم دیا ہے اس لئے درود ابراہیمی کے علاوہ سلام کے ضیعےکا بھی التزام کیا جائے جیساکہ صحابہ کرام نبی کا نام آنے پر صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے ۔ اس میں درود وسلام دونوں جمع ہیں ۔
17- جسے دعائے قنوت یاد نہ ہو وہ وتر کی نماز میں کیا کرے ؟
جواب : جسے دعا ئے قنوت یاد نہ ہو وہ جس قدر جلدممکن ہو اسےیاد کرے جس طرح نماز کی دوسری دعائیں یاد کیا ہے اور جب تک یاد کی ہوئی دوسری دعائیں بھی قنوت میں پڑھ سکتا ہے نیز چاہے تو دعائے قنوت یاد کرتا رہے اور وتر میں کتاب سے دیکھ کر پڑھ لیا کرے ۔ جب یاد ہوجائے تو زبانی پڑھے ۔ کبھی کبھار دعائے قنوت چھوڑ دے تو کوئی حرج نہیں ۔
18- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قیام الیل کے لئے اٹھتے تو سورۃ آل عمران کی آخری آیت کی تلاوت آسمان کی طرف دیکھ کر کرتے تھے، اگر کوئی شخص ایسی جگہ رہتا ہے جہاں سے آسمان نہ دکھائی دے مثلاً فلیٹ وغیرہ میں رہتا ہے تو وہ کیسے پڑھے؟
جواب : یہ صحیح ہے کہ نبی ﷺ جب اٹھتے تو باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھ کر سورہ آل عمراہ کی آخری آیات پڑھتے پھر اچھی طرح مسواک کرتے پھر وضو کرتے پھر قیام اللیل کرتے ۔ روایت اس طرح سے ہے ۔
أنَّ ابنَ عباسٍ حدثه ؛ أنه بات عندَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ذاتَ ليلةٍ . فقام نبيُّ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ من آخرِ الليلِ . فخرج فنظر في السماءِ . ثم تلا هذه الآيةَ من آلِ عمرانَ : {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ، حتى بلغ، فَقِنَا عَذَابَ النَّار } [ 3 / آل عمران / الآيتان 190 و191 ] ثم رجع إلى البيتِ فتسوَّك وتوضأَ . ثم قام فصلَّى . ثم اضطجع . ثم قام فخرج فنظر إلى السماءِ فتلا هذه الآيةَ . ثم رجع فتسوَّك فتوضأَ . ثم قام فصلَّى ( صحيح مسلم:256)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو متوکل کو بتایا کہ انہوں نے ایک رات اللہ کے نبی ﷺ کے ہاں گزاری ۔ اللہ کے نبی ﷺ رات کے آخری حصے میں اٹھے ، باہر نکلے اور آسمان پر نظر ڈالی پھر سورہ آل عمران کی آیت :﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ﴾تلاوت کی اور﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾تک پہنچے ۔ پھر گھر لوٹے اور اچھی طرح مسواک کی اور وضو فرمایا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی ، پھر لیٹ گئے ، پھر کھڑے ہوئے ، باہر آسمان کی طرف دیکھا، پھر ( دوبارہ) یہ آیت پڑھی،پھر واپس آئے ، مسواک کی اور وضو فرمایا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔
اگر کوئی نیند سے بیدار ہو تو گھر سے باہر نکل کر سورہ آل عمران کی آخری آیات پڑھے، دوسری روایت میں آخری دس آیات کا ذکر ہے ۔ جو لوگ  فلیٹ کے اندر ہوتے ہیں، رات میں باہر نکلنا مشکل ہےتو وہ چھت پر چڑھ جائیں وہ بھی نصیب نہ ہو تو کھڑکی کھول لیں اگر کھڑکی سے بھی آسمان نہ دکھے تو بغیر آسمان کی طرف دیکھے یہ آیات پڑھ لیں ، مسواک کرلیں اور قیام اللیل ادا کرلیں سنت پر عمل ہوجائے گا۔
19- کشمیر میں سورج یا چاند گرہن کے وقت حاملہ عورت کو بہت احتیاط برتنے کوکہا جاتا ہے مثلا چاقو، قینچی وغیرہ کے استعمال سے حتی کے گھر سے باہر جانے سے بھی منع کیا جاتا ہے اس کی شریعت میں کوئی حقیقت ہے ؟
جواب : شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ صرف اور صرف باطل نظریہ ہے ۔ دنیا میں اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا اور اللہ تعالی کی طرف سے جس کے لئے جس بات کا فیصلہ ہوجائے اسے پوری دنیا مل کر بھی ٹال نہیں سکتی ۔ مسلمانوں کا یہ ایمان ہو کہ مصیبت بھی اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا ٹالنے والا بھی وہی ہے ۔ اگر ہمیں مصیبت سے بچنا ہے تو اللہ پر ایمان مضبوط رکھیں اور نیک عمل کرتے رہیں ۔ سورج گرہن کے وقت نبی ﷺ کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہواتھا اس سے بدفالی لینا گمراہی ہے ، ہاں گرہن اللہ کی نشانی میں سے ہے اس لئے تمام مسلمانوں کو اس سے سبق لینا چاہئے اور کثرت سے توبہ کرنا چاہئے اور دنیا سے رخ موڑ کر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔
20- موبائل میں قرآن رکھنے اور اسے حمام لے جانے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : موبائل ایک الکٹرانک آلہ ہے جس سے آج کل متعدد کام لیا جارہاہے ، اس میں مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں ، شرعی حدود میں رہتے ہوئے جیسے اس موبائل کا استعمال درست ہے ویسے ہی اس کے ذریعہ ہرقسم کا مثبت کام لینا بھی درست ہے ۔
آج کل موبائل کے لئے قرآن سافٹ ویر تیار کرلیا گیا ہے ، جس سے قرآن پڑھنےاوریادکرنے میں بڑی آسانی ہوگئی ہے ۔ بظاہر موبائل میں قرآن مجید رکھنے اور اس سے تلاوت کرنے یا حفظ کرنے میں شرعی کوئی ممانعت نہیں ، اس لئے ہم بلاحرج اپنے موبائل میں قرآن مجید رکھ سکتے ہیں۔
جس موبائل میں قرآن ہو اسے حمام میں لے جاسکتے کیونکہ یہ مصحف کے حکم میں نہیں ہے ، یہ ایک اپلیکیشن ہے جسے ضرورت کے تحت لوڈ کرتے ہیں اور ڈیلیٹ بھی کردیتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کے سینے میں قرآن محفوظ ہو اور وہ حمام جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

مکمل تحریر >>