Sunday, December 31, 2017

عیدین کی نماز کا مسنون وقت

عیدین کی نماز کا مسنون وقت

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

عید الفطر کی نماز یکم شوال اور عیدالاضحی کی نماز دس ذوالحجہ کو ادا کی جائے گی ، ان دونوں نمازوں کا وقت فجر کی نماز کے بعد جواز کا وقت ہے جو سورج نکل جانے کے بعد سے شروع ہوتا ہےزوال تک یعنی ظہر کے وقت سے کچھ پہلے تک رہتا ہے ۔ دونوں عید کی نماز کا وقت ایک ہی ہے اوران دونوں کے اوقات میں صحیح حدیث سے کوئی فرق ثابت نہیں ہوتا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جب سورج ایک یا دو نیزہ بلند ہوجائے تو نماز ادا کریں ، یہ حکم جہاں عام نفل نمازوں کے لئے ہے وہیں نماز عیدین کے لئے بھی ہے ۔
سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قلتُ يا رسولَ اللَّهِ أيُّ اللَّيلِ أسمَعُ قالَ جوفُ اللَّيلِ الآخرُ فصلِّ ما شئتَ فإنَّ الصَّلاةَ مشْهودةٌ مَكتوبةٌ حتَّى تصلِّيَ الصُّبحَ ثمَّ أقصر حتَّى تطلعَ الشَّمسُ فترتفعَ قيسَ رمحٍ أو رمحينِ فإنَّها تطلعُ بينَ قرني شيطانٍ ويصلِّي لَها الْكفَّارُ ثمَّ صلِّ ما شئتَ فإنَّ الصَّلاةَ مشْهودَةٌ مَكتوبةٌ حتَّى يعدلَ الرُّمحُ ظلَّهُ(صحيح أبي داود:1277)
ترجمہ:میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! رات کا کون سا حصہ زیادہ مقبول ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :آخر رات کا درمیانی حصہ ، سو جس قدر جی چاہے نماز پڑھو ۔ بیشک نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس کا اجر لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ فجر پڑھ لو ۔ پھر رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل آئے اور ایک یا دو نیزوں کے برابر اونچا آ جائے ۔ بیشک یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ پھر نماز پڑھتے رہو ، بیشک نماز میں فرشتے حاضر ہوتے اور اس کا اجر لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ نیزے کا سایہ اس ( نیزے ) کے برابر ہو جائے ( یعنی دوپہر ہو جائے اور کوئی زائد سایہ باقی نہ رہے ) ۔
مذکوہ بالا حدیث کے چند اہم مستفادات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)اس حدیث میں قیس رمح کا لفظ سمجھنے والا ہے ، کہیں پر یہی لفظ قید رمح اور کہیں قدر رمح آیا ہے ، معانی ایک ہی ہیں ۔ رمح کا اردو ترجمہ نیزہ کیا جاتا ہے جس کی لمبائی بارہ بالشت بتائی جاتی ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ رمح والی بحث پہ لکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتو اسے دیکھو جب وہ "قدررمح" یعنی ایک میٹر آنکھوں سے لمبائی کے برابر بلند ہوجائے توممانعت کا وقت نکل گیا ۔ وقت کے حساب سے اس کا اندازہ بارہ منٹ سے دس منٹ تک ہوگا بس،زیادہ لمبا نہیں ۔ تاہم احتیاطا پونہ گھنٹہ (پندرہ منٹ) زیادہ کرلیا جائے تو ہم کہیں گے کہ سورج نکلنے کے پندرہ منٹ بعد ممنوع وقت ختم ہوجاتا ہے ۔ (الشرح الممتع : 4/113)
(2) اس حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہورہی ہے کہ فجر کے بعد نمازوں کا وقت یہ ہے کہ سورج نکل کر کم ازکم ایک میٹر بلند ہوجائے جس میں دس سے پندرہ منٹ لگتا ہے خواہ نفلی ہو یا عیدین کی البتہ چھوٹی ہوئی نماز یا اسباب والی نماز ممنوع اوقات میں بھی ادا کرسکتے ہیں۔
(3) سورج ایک نیزہ بلند ہوجانے سے ممنوع وقت ختم ہوجاتا ہے اب اس وقت سے لیکر زوال تک نوافل ادا کرسکتے ہیں ، اسی طرح اس درمیان عیدین کی نماز بھی ادا کرسکتے ہیں ۔
(4) نماز عید کا اول و افضل وقت اس کا ابتدائی وقت ہے جو کہ سورج کا ایک نیزہ بلند ہونا ہے تاہم اس سے متاخر کرکے پڑھنے سے بھی نماز ہوجائے گی یعنی عیدین کی نماز پڑھنے کا انتہائے وقت(وقت جواز) زوال تک ہے ۔
(5)سورج کے طلوع کا وقت شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع کا وقت ہوتا ہے جب شیطان کے پچاری اس کی پوچا کررہے ہوتے ہیں اس لئے نبی ﷺ نے سورج طلوع ہونے کے وقت کوئی نماز ادا کرنے سے منع کیا ہے ۔
مذکورہ حدیث سے ہمیں اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ عیدین کی نماز کو اول وقت یعنی سورج ایک نیزہ بلند ہوجانے کے وقت ادا کرنا افضل ہے ، اس کی صراحت ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔
جناب یزید بن خمیر الرجی بیان کرتے ہیں:
خرجَ عبدُ اللَّهِ بنُ بُسْرٍ صاحبُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ معَ النَّاسِ في يومِ عيدِ فطرٍ أو أضحَى فأنكرَ إبطاءَ الإمامِ فقالَ إنَّا كنَّا قد فرغنا ساعتَنا هذِه وذلِك حينَ التَّسبيحِ(صحيح أبي داود:1135)
حضرت عبداللہ بن بسررضی اللہ عنہ صحابئی رسول لوگوں کے ساتھ عید فطر یا عید اضحٰی کے لیےتشریف لائے توامام کے تاخیر کر دینےکو انہوں نے ناپسند کیا اور کہاکہ ہم تواس وقت فارغ ہو چکے ہوتے تھےیعنی اشراق کے وقت۔
اس حدیث سے جہاں اول وقت میں عید کی نماز ادا کرنے کا علم ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ زوال سے قبل اول وافضل وقت کے بعد بھی ادا کی گئی نماز ہوجاتی ہے کیونکہ کچھ تاخیر سے عید کی نماز ادا کرنے کو عبداللہ بن بسر رضی اللہ نے بس ناپسند کیا ۔ یہاں ایک اور بات یہ معلوم ہوئی کہ عید الفطر اور عیدالاضحی کا وقت رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک ہی تھا۔
بعض علماء نے عیدالفظر کی نمازمعمولی تاخیر سےاور عیدالاضحی کی نماز جلدی ادا کرنے کو کہا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ عید الفظر کے دن اہم کاموں میں سے ایک کام فطرانہ کی ادائیگی ہے جس کا وقت نماز عیدالفطر سے قبل ہے ،اگر اس نماز میں کچھ تاخیر کردی جائے تو فطرانہ کی ادائیگی میں لوگوں کو سہولت ہوجائے گی۔ اور عیدالاضحی کے دن اہم کاموں میں سے ایک اہم کام قربانی کرناہے جس کا وقت عیدالاضحی کی نماز کے بعد ہے ۔ اگر جلدی اول وقت پہ اس نماز کو اداکرلی جائے تو قربانی دینے اور اس کا گوشت کھانے کھلانے اور تقسیم کرنے میں لوگوں کو آسانی ہوگی۔
یہ فرق جید علماء سے بھی منقول ہے ،اس پہ عمل کرنے میں حرج کی بات نہیں ہے کیونکہ نماز اس کے جواز کے وقت میں ہی ادا کی جاتی ہے تاہم میری ناقص نظر سے عیدالفطر میں تاخیر سے خاصا فرق نہیں پڑتا کیونکہ فطرانہ کا افضل وقت عیدکاچاند نکلنے سے ہی شروع ہوجاتا ہے جبکہ وقت جواز کے حساب سے عیدسے ایک دو دن پہلے ہی لوگ فطرانہ دے سکتے ہیں ۔نماز میں تاخیر کرنے سے لوگ فطرانہ ادا کرنے میں قصدا تاخیر کرتے ہیں،اگر نماز میں تاخیر نہ ہو تو لوگ وقت سے ادا کردیں گے  اس لئے عیدالفطر کی نمازبھی اول وقت پر ہی ادا کی جائے تو اولی وافضل ہے ۔اوپر نماز عید میں تاخیر کرنے پر صحابی رسول عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کی ناپسندیدگی آپ نے پڑھی ہی ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کے وقتوں میں فرق سے متعلق مجھے کوئی صحیح روایت نہیں ملی ۔
(1)ایک روایت اس طرح سے آئی ہے ۔
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي بنا يومَ الفطرِ والشمسُ على قيدِ رُمحيْنِ والأضحَى على قيدِ رُمْحٍ(ارواء الغلیل: 3/101)
ترجمہ: نبی ﷺ ہمیں عیدالفطر کی نماز دونیزے کے برابر سورج ہونے پرپڑھاتے اور عیدالاضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ پر ہوتا ۔
شیخ البانی اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں معلی بن ہلال کے کذب پر سارے نقاد کا اتقاق ہے۔ دیکھیں ارواء الغلیل کا مذکورہ حوالہ۔
(2)ایک دوسری روایت اس قسم کی ہے ۔
أنَّ رسولَ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - كتب إلى عمرو بنِ حَزْمٍ وهو بِنَجْرانَ : عَجِّلِ الأضحى وأَخِّرِ الفِطرَ وذَكِّرِ الناسَ۔
ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے والی نجران عمروبن حزم کو لکھا کہ وہ عیدالاضحی میں جلدی اور عیدالفطر میں تاخیر کریں اور لوگوں کو (خطبہ میں) نصیحت کریں۔
یہ مرسل روایت ہے جسے امام شافعی نے بیان کیا ہےاورشیخ البانی نے کہا کہ اس میں مہتم روای ہے ۔ دیکھیں (تخريج مشكاة المصابيح:1394)
کبھی کبھی عید کی اطلاع زوال کے بعد ہوتی ہے اور ہمیں اوپرمعلوم ہوا کہ نمازعیدین زوال تک ہی پڑھی جاسکتی ہیں لہذا اس صورت میں روزہ توڑ دینا چاہئے اور اگلے دن نماز عید پڑھنا چاہئے ۔
جناب ابوعمیر بن انس اپنے چچوں سے ، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے ، بیان کرتے ہیں:
أنَّ رَكبًا جاءوا إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يشهدونَ أنَّهم رأوا الهلالَ بالأمسِ فأمرَهم أن يفطروا وإذا أصبحوا أن يغدوا إلى مصلَّاهم(صحيح أبي داود:1157)
ترجمہ: ایک قافلے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ ہم نے کل شام کو چاند دیکھا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر لیں اور اگلے دن صبح کو عید گاہ میں پہنچیں ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, December 27, 2017

جانوروں کے خون سے علاج کرنا

جانوروں کے خون سے علاج کرنا
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

سوال : کسی شخص کو اگر فالج کا اثرہوتا ہے تو کبوتر کا خون بغرض شفا لگاتے ہیں کیونکہ اس کے خون میں گرمی ہوتی ہے لیکن کچھ لوگوں کاکہناہے کہ خون لگانا صحیح نہیں ہے اس سلسلے میں صحیح رہنمائی فرمائیں۔
جواب : اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق کی ، اسی نے بیماری کو پیدا کیا ہے اور اسی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما أنزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنزلَ لَه شفاءً(صحيح البخاري:5678)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔
یہاں علاج سے مراد حلال اور پاک چیزوں سے علاج ہے ۔ دنیا میں علاج کے ہزاروں طریقے موجود ہیں ، ایک مسلمان کے لئے علاج کے سلسلے میں اسلامی اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔ علاج کی بابت اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ جو چیز حرام ہو اس سے علاج نہیں کر سکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللهَ لم يجعلْ شفاءَكم فيما حرَّم عليكُم( السلسلة الصحيحة: 4/175)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لئے اس چیز میں شفا نہیں رکھا ہے جس کو تمہارے اوپر حرام قرار دیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے شراب حرام ہونے کی بنا پر ایک صحابی کو اس سے دوا بنانا منع فرمادیا:
أنَّ طارقَ ابنَ سويدٍ الجُعَفيَّ سأل النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن الخمرِ ؟ فنهاه ، أو كره أن يصنعَها . فقال : إنما أصنعها للدواءِ . فقال: إنه ليس بدواءٍ . ولكنه داءٌ.(صحيح مسلم: 1984)
ترجمہ: حضرت طارق بن سوید جعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب(بنانے) کےمتعلق سوا ل کیا،آپ نے اس سے منع فرمایا یا اس کے بنانے کو نا پسند فرمایا،انھوں نےکہا:میں اس کو دوا کے لئے بناتا ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دوا نہیں ہے،بلکہ خود بیماری ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں معلوم یہ ہوا کہ جو چیز حرام ہے اس سے دوا نہیں بنا سکتے ، نہ ہی اس حرام چیز کو بطور علاج استعمال کرسکتے ہیں ۔ ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللهَ تعالى خلق الدَّاءَ و الدَّواءَ ، فتداووْا ، و لا تتداووْا بحَرامٍ(صحيح الجامع:1662)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے بیماری اور علاج دونوں پیدا کیا ہے پس تم لوگ علاج کرو اور حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔
بلکہ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ جو حرام چیزوں سے علاج کرتا ہے اللہ تعالی اسے شفا نصیب نہیں فرمائے گا۔
من تداوى بحرامٍ لم يجعلِ اللهُ له فيه شفاءً(السلسلة الصحيحة:2881)
ترجمہ: جس نے حرام نے علاج کیا اللہ اس کو شفا نہیں دے گا۔
علاج کے سلسلے میں اسلام کا ایک دوسرا اصول یہ ہے کہ پاک چیزوں سے علاج کرنا ہے  اور ناپاک وخبیث چیزوں سے بچنا ہے۔
عن أبي هريرةَ قالَ : نهى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّه عليه وسلم، عنِ الدَّواءِ الخبيثِ(صحيح أبي داود:3870)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دواؤں کے استعمال سے منع فرمایا ہے ۔
سوال میں پوچھا گیا ہے کہ فالج کی بیماری میں کبوتر کا خون بطور علاج لگانا کیسا ہے ؟
قرآن میں خون سے متعلق ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خون حرام ہے ۔ فرمان الہی ہے : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ(المائدة: 3)
ترجمہ: اور تمہارے اوپر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے ۔
یہاں خون سے بہنے والا خون مراد ہے جیساکہ دوسری آیت سے اس کی وضاحت ہوتی ہے ۔
قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ(الانعام :ا45)
ترجمہ: کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے۔
ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے لئے کسی قسم کا بہنے والا خون حلال نہیں ہے اس لئے کبوتر کے خون سے فالج کی بیماری کا علاج کرنا جائز نہیں ہے حالانکہ کبوتر کا گوشت اپنی جگہ کھانا حلال ہے مگر اس کا بہتا ہوا خون حلال نہ ہونے کی وجہ سے اس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے خواہ علاج کا طریقہ کھانے یا پینے یا ملنے (لگانے) جیساکہ ہو۔
ہاں مچھلی کا خون ، کلیجی اور دل کا خون اور حلال جانور کو اسلامی طریقہ پر ذبح کرنے کے بعد اس کے اندرون جسم میں لگا ہوا خون حلال ہے۔نیز اضطراری حالت میں جان بچانے کی غرض سے مباح ادویہ میسر نہ ہونے پر حرام چیزوں سے علاج کرسکتے ہیں ۔ 
مکمل تحریر >>

Tuesday, December 26, 2017

جشن عید میلاد نہ منانے والوں پربیجا اعتراض

 جشن عید میلاد نہ منانے والوں پربیجا اعتراض



مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ، شمالی طائف (مسرہ)


بعض لوگ ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ لوگ عید میلاد نہیں مناتے تو دوسراگناہ کیوں کرتے ہیں؟ ، جب ہم جشن میلاد کی دعوت دیتے ہیں تو اس میں شریک ہونے سے کیوں بھاگتے ہیں جبکہ یہ تو خالص نبی ﷺ کی محبت میں قائم کی گئی محفل ہے اور آپ لوگ نہ جانے کون کون سا برا عمل کرتے ہیں اس سے کوئی خوف نہیں؟ ۔
یہ اعتراض بیجا قسم کا ہے ، اگر آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں تو ہمیں گناہوں کا طعنہ نہیں دیں، ہم انسان ہیں غلطی ہوسکتی ہےاس غلطی پہ ہمیں متنبہ کریں اور اسےمل جل کر ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ ایک سچے مسلمان کا یہی طریقہ ہے جیساکہ نبی ﷺ کے فرمان سے واضح ہے ۔ اگر ہم گناہ کو گناہ نہیں کہیں تو اعتراض کیا جاسکتا ہے مگر ہم میں اور آپ میں فرق یہ ہے کہ آپ کو بارہا میلاد منانے سے منع کیا جاتا ہے اور اس کام کوبدعت اور دین میں نئی ایجاد کہا جاتا ہے مگر آپ نہ مانتے ہیں اور نہ ہی اس بدعتی کام سے رکتے ہیں تو پھر ایک سچے مسلمان کو چاہئے کہ ایسی بدعت سے دور رہے اور اس میں کسی طرح معاون بننے سے بچا رہے ۔
عید میلاد النبی منانا شرعی اعتبار سے بدعت کے حکم میں ہے جس کے بڑے مفاسد ونقصانات ہیں بلکہ اس بدعت کے پیچھے بہت سے کفریہ و شرکیہ اعمال بھی انجام دئے جاتے ہیں اور بدعت ایجاد کرنے والا ضلالت و گمراہی کا مرتکب ہے اور بدعت جہنم میں لے جانے والی ہے ۔ اللہ نے ایسے شخص کو بڑےگمراہوں میں شمار کیا ہے، فرمان الہی ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَیرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ (القصص:50)
ترجمہ: اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالى کی (نازل کردہ شرعی) ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے ۔ یقینا اللہ تعالى ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : وَكلَّ محدثةٍ بدعةٌ وَكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ(صحيح النسائي: 1577)
ترجمہ: اور ہر نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
تو جو عمل دین میں اپنے من سے گھڑ لیا جائے اور اسے دین کا نام دے کر عمل کیا جائے کتنی بڑی جسارت ہے ؟۔ دین تو نام ہے وحی الہی کا پھر خواہشات نفس پر چلنے کو دین کیسے کہا جائے گا ؟العیاذ باللہ
بدعتی کو قیامت میں حوض کوثر سے روک دیا جائے گا اور اس لئے ہم بدعت کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ بدعت اللہ اور اس کے رسول پرصریح بہتان والزام ہے ۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل اللہ اور اس کے رسول کے فرمان میں ہے جبکہ یہ دین میں نئی ایجاد ہے جس کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
من أحدث في أمرِنا هذا ما ليس فيه فهو ردٌ(صحيح البخاري:2697)
ترجمہ: جس کسی نے ہمارے دین میں نئی چیز کی ایجاد کی جو دین سے نہیں ہے‘ تو وہ مردود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بدعتی کا کوئی عمل مقبول نہیں اور کلمہ گو مسلمان ہونے کے باوجود کل قیامت میں اسے وہی نبی ﷺ جن کے نام سے بدعت کرتے تھے ، سڑکوں پر جلوس اور نعرے لگاتے تھے اور جش عید میلاد النبی کے نام پہ خوب گاتے پھرتے تھے ان بدعتیوں کو حوض کوثر سے روک دیں گے ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنا فرَطُكم على الحوْضِ ، وليُرفَعنَّ رجالُ منكم ثمَّ ليختلِجن دوني ، فأقولُ : يا ربِّ أصحابي ؟ فيُقالُ : إنَّك لا تدري ما أحدثوا بعدك(صحيح البخاري:6576)
ترجمہ: میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹادیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔
ٹھیک ہے ہم گنہگار ہیں ، نبی آدم کی تمام اولاد گنہگار ہیں ، شدت کے ساتھ ہر گناہ کی مذمت کرتے ہیں اور اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالی کی پناہ وتوفیق طلب کرتے ہیں۔یاد رکھیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے وہ بھول چوک کو معاف کردیتا ہے ۔ اسی طرح توبہ واستغفار سے گناہ کبیرہ کو بھی مٹا دیتاہے اور عموما اللہ تعالی نیکیوں کی وجہ سے بنی آدم کے گناہوں کوختم کر دیتا ہے ، فرمان الہی ہے : إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ (هود:114)
ترجمہ: بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : اتَّقِ اللَّهِ حيثُ ما كنتَ ، وأتبعِ السَّيِّئةَ الحسنةَ تمحُها ، وخالقِ النَّاسَ بخلقٍ حسنٍ(صحيح الترمذي: 1987)
ترجمہ: جہاں بھی رہو، اللہ سے ڈرو، اور گناہ کے بعد نیکی کرو ؛ یہ نیکی گناہ کو مٹا دے گی، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔
تو یہ ہم اپنے گناہ کرنے کی دلیل نہیں پیش کررہے ہیں بلکہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی گناہوں کو توبہ واستغفار اور نیکیوں کی وجہ سے معاف کرنے والا ہے اور چاہے تو ویسے بھی بڑے سے بڑا گناہ معاف کردے مگر کوئی شرک پر مر جائے تو اس کی بخشش نہیں ہوگی ۔ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدً(النساء: 116)
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دےاور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔
اوپر بدعتی کا حال معلوم ہی ہے کہ دنیا میں بھی اس کے لئے زجزوتوبیخ ہے ، اس کا عمل ضائع وبربا د ہے اور آخرت میں بھی دھتکارا جائے گا۔ اور جشن عید میلاد النبی ایسی بدعت میں جس میں کفر وشرک بھی پایا جاتا ہے ، فسق وفجور اور معصیت ونافرمانی اپنی جگہ ۔
اللہ تعالی سے ہم ہر گناہ سے معافی طلب کرتے ہیں اور ہر قسم کی برائی سے بچنے کی توفیق وسعادت مانگتے ہیں اور اگر بھول سے یا عمدا گناہ سرزد ہوجائے تو نیکیوں کا وسیلہ لگاکر اللہ سے عفو کے طلب گار ہوتے ہیں مگر دین کے نام پر بدعت ایجاد کرنا کسی طور ہمیں گوارہ نہیں ، نہ ہی ایسے شخص کو برادشت کریں گے جو من مانی اور گھڑی ہوئی باتوں کو دین الہی کا نام دے اور اس پر عمل کرے بلکہ شدت کے ساتھ اس کی مذمت کریں گے ۔ شرک وبدعت کے خلاف جنگ کی نوبت آئی تواس سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔

مکمل تحریر >>

Saturday, December 16, 2017

ایان نام رکھنا کیسا ہے ؟

ایان نام رکھنا کیسا ہے ؟


مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ،شمالی طائف(مسرہ)


نام رکھنے کے لئے سماج میں ایک عام طریقہ رائج ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایک لفظ لے لیتے ہیں اور لوگوں سے اس لفظ کا معنی پوچھتے ہیں ۔اگر معنی خوبصورت ہوا تو نام رکھ لیتے ہیں ۔سوشل میڈیا کی ترقی کی وجہ سے ابھی ایک دوسرا طریقہ ایجاد ہوا ہے و ہ یہ ہے کہ گوگل یا کسی ویب سائٹ سے ناموں کی لسٹ دیکھ کرخوبصورت معنی والا نام پسند کرلیتے ہیں جبکہ اس میں معنوی اور اعتقادی بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں۔
مسلمانوں کو نام رکھنے میں یہ مذکورہ طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، انہیں چاہئے کہ اللہ کے اسمائے حسنی جانے اور کسی ایک کو اختیار کرکے شروع میں عبد لگاکر نام رکھ لے ۔اسی طرح انبیاء ، صحابہ، تابعین اور علماء ومحدثین وغیرہ کے نام جانے اور ان کے ناموں پر نام رکھے ۔ یہ انتساب ہمارا دینی ہوگا ۔
ایان کے تعلق سے نٹ پر اردو، ہندی اور انگلش میں کافی بحث موجود ہے جہاں اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک معنی اللہ کا تحفہ زیادہ منتشرہےجبکہ اس لفظ کو اردو زبان کی لغت میں تلاش کرتے ہیں تو نہیں ملتا ۔عربی زبان میں یاء کی تشدید کے ساتھ آیا ہے جو کب اورجب کے معنی ہے ۔ گویا لوگوں میں مشہور لفظ ایان اردو اور عربی میں موجود نہیں ہے ۔
تاہم ناموں کی حیثیت سے یہ لفظ ہندی، انگلش ،صومالی اور تمل زبان میں مستعمل ہے۔کئی زبانوں کے ڈراموں اور قصے کہانیوں میں بھی یہ نام کثرت سے استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی یہ لفظ عام ہوگیا اور اپنے بچوں کو اس نام سے پکارنے لگے ۔
آیان الف کے مد کے ساتھ فارسی زبان میں ملتا ہے جس کے معنی آمدہ اور شب دراز کے ہیں۔
جہاں تک عین سے عیان کی حقیقت ہے تو یہ اردو میں نوں غنہ کے ساتھ اس طرح آیا ہے "عیاں" ۔ اس کا معنی ظاہر ہے۔ عَيّان عربی میں عین کے زبر اوریاء کی تشدید کے ساتھ عاجز کے معنی میں اور عِيَان عین کے کسرہ کے ساتھ دیکھنے اور معائنہ کرنےکے معنی میں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کاایان، آیان یا عیان نام رکھنا چاہتے ہیں انہیں میں یہ مشورہ دوں گا کہ وہ اسی سے ملتا جلتا نام ابان رکھیں ۔ابان بن سعید رضی اللہ عنہ قبیلہ قریش کےایک جلیل القدر صحابی گزرے ہیں ،فتح مکہ سے تھوڑا پہلےسن 7 ہجری میں اسلام قبول کیا اور واقدی کے مطابق اجنادین کے دن سن13 ہجری کو شام میں جام شہادت نوش فرمایا۔ نبی ﷺ نےسات ہجری میں ایک سریہ کی قیادت دے کر بھیجا تھا اور9ہجری میں بحرین کا والی بھی مقرر کیا تھا آپ کی وفات کے وقت بحرین کے والی تھے۔ ایک اور مشہور ومعروف ابان گزرے ہیں وہ ہیں ابان بن عثمان تابعی جوکہ خلافت امویہ میں عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں سات سال مدینہ کے والی رہے۔ سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ ان سے کچھ احادیث مروی ہیں اور یہ ثقہ راوی ہیں بلکہ یحی بن قطان کے حوالے سے لکھا کہ وہ مدینہ کے دس فقہاء میں سے ایک ہیں ۔لوگ ان سے قضاء کی تعلیم حاصل کرتے ،عمروبن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے ابان بن عثمان سے زیادہ علم حدیث اور فقہ کا جانکار نہیں دیکھا۔
مکمل تحریر >>

Thursday, December 14, 2017

اردو پیراگراف کو انگریزی میں کنورٹ کریں

اب کوئی بھی انگریزی بول یا لکھ سکتا ہے

How to Translate Urdu paragraph to English - 99.9% (Exact Translation) - Urdu & Hindi Tutorials 2017



مکمل تحریر >>

Monday, December 11, 2017

یوٹیوب کا چینل بنائیں اور ایڈ سنس کے ساتھ لنک کریں

How to Create YouTube Channel & Link with Google AdSense Full Tutorial Urdu/Hindi 2017



مکمل تحریر >>

Sunday, December 10, 2017

روئے زمین پر اللہ کی دو ضمانتیں

روئے زمین پر اللہ کی دو ضمانتیں

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ)

سب سے پہلے اس مضمون کے لکھنے کا مقصد بیان کردوں تاکہ ضمنی پیغام کے ساتھ میرا اصل پیغام بھی عام وخاص تک پہنچے ۔ نبی ﷺ کی وفات کا انکار کرکے دین میں ہزاروں بدعات وخرافات کو داخل کرلیا گیا ہے بلکہ بدعت کے راستے کفریہ عقائد اور شرکیہ اعمال بھی درآئے اور ان اعمال وافعال کی انجام دہی پر نازاں وفرحاں ہیں۔وفات نبی کے انکار کی نوبت اس طرح پیش آئی کہ صوفیوں کے نزدیک صوفی وولی اور پیرومرشد کبھی نہیں مرتے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ اور نہ صرف زندہ رہتے ہیں ہرکسی کی مدد بھی کرتے ہیں ، لوگوں کے پاس آتے جاتے ، چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے اور سنتے دیکھتے نظر آتے ہیں ۔ جب یہ اولیا ء اور پیرومرشد کا حال ہے تو پھر نبی کی وفات کا انکار کرنا پڑے گا اور ماننا پڑے گا کہ وہ بھی زندہ ہیں ۔ اس طرح مزار کی کمائی حلال کرنے کے لئے نبی ﷺ کی وفات کا انکار کیا گیا ہے جبکہ دنیا میں کسی کو بقا نہیں خواہ وہ نبی ہو یا ولی سوائے اللہ کے ۔ صرف اللہ کی صفت الحی اور القیوم ہے یعنی اللہ ہی ایک ایسی ذات ہے جو ہمیشہ سےزندہ اور قائم ہے ، ہمیشہ باقی رہنے والی اورقائم رکھنے والی ہے۔ اللہ کے علاوہ ساری مخلوق کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اس پہ قرآن وحدیث کے بے شمار دلائل ہیں ، ان کو یہاں طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کروں گا بلکہ قرآن کی صرف ایک آیت کے ذکر پر اکتفا کروں گا اور نہ ہی یہاں مزارات وقبے ، کشف وکرامات ، غیراللہ سے امداد ، مردوں کے نام پہ تجارت ، نذرونیاز کے نام پرسادہ لوح عوام سے مال اینٹھنااورعلاج ومعالجہ کے نام پر عورتوں کی عزت وآبرو سے کھیلنا وغیرہ ذکر کروں گا۔
سورہ انقال میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال:33)
ترجمہ: اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ۔
قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں بخاری شریف میں وارد ہے ۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ كُرْدِيدٍ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَبُو جَهْلٍ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنْ السَّمَاءِ أَوْ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَمَا لَهُمْ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الْآيَةَ (صحيح البخاري: 4648)
ترجمہ: مجھ سے احمد بن نضر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے صاحب الزیادی عبد الحمید نے جو کردید کے صاحبزادے تھے ، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ابو جہل نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر بر سادے یا پھر کوئی اور ہی عذاب دردناک لے آ۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی "وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَمَا لَهُمْ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ"(حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے ، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں ۔ ان لوگوں کے لئے کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب ہی سرے سے نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد حرام سے روکتے ہیں)۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روئے زمین پر اللہ کی دو ضمانتیں ہیں ۔ پہلی ضمانت نبی ﷺ کا زندہ ہونا، دوسری ضمانت مومنوں کااستغفارکرنا۔
جب ابوجہل نے اللہ سے عذاب کا مطالبہ کیا تو اللہ نے بتلایا کہ جب تک نبی زندہ ہیں اس وقت تک قوم پر عذاب نہیں آئے گی ۔ ، نبی ﷺ کی زندگی میں کفار بھی اللہ کے عذاب سے مامون ہوگئے تھے اب ابوجہل مرگیا اور نبی ﷺ کی اللہ کے حکم سے وفات پاگئے تو اللہ کی پہلی ضمانت روئے زمین سے اٹھ گئی ۔
ترمذی میں بھی اس کی وضاحت ہے گوکہ روایت ضعیف ہے مگر معنی صحیح ہے ۔
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمْ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(سنن الترمذي:3082)
ترجمہ: ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے لئے اللہ نے مجھ پر دو امان نازل فرمائے ہیں (ایک){وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ }(دوسرا) {وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ}اور جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو ان کے لیے دوسرا امان استغفار قیامت تک چھوڑ جاؤں گا ۔
ابن عباس رضی اللہ سے مروی اس معنی کا اثر تحفہ الاحوذی اور ابن کثیر وغیر ہ متعدد کتب حدیث وتفسیر میں مذکور ہے ۔
أن الله جعل في هذه الأمة أمانين لا يزالون معصومين مجارين من طوارق العذاب ما دام بين أظهرهم فأمان قبضه الله إليه وأمان بقي فيكم قوله : وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون . (تحفۃ الاحوذی شرح حدیث رقم: 3082)
ترجمہ: بے شک اللہ اس امت میں دو ضمانتیں رکھا ہے جب تک وہ ضمانتیں ان کے درمیان ہیں ان کی وجہ سے امت برابر عذاب سے محفوظ رہے گی ۔ پس پہلا امان اللہ نے اٹھالیا اور دوسرا امان تمہارے درمیان باقی ہے ۔ اللہ کا قول : وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون(اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں) ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روئے زمین سے اللہ کی ایک ضمانت اٹھ گئی وہ ہے نبی ﷺ کا وفات پاجانا ۔ یہ جان لیں کہ آپ ﷺ کا اس دنیا سے اٹھ جانا امت کا بہت بڑا خسارہ ہے ۔بیحد افسوس ہے ان لوگوں پر جودنیا کی دولت حاصل کرنے کے لئے نبی ﷺ کی وفات کا انکار کرتے ہیں ۔ اس سے زیادہ افسوس اس حرکت پہ ہے کہ آپ کی وفات سے روئے زمین کی ایک ضمانت اٹھ گئی مگر دنیا کی دولت و ہوس کے پرستار ہر سال نبی ﷺ کے نام پہ جشن عید میلاد النبی مناتے ہیں ۔ حیف صد حیف
ایک ضمانت چلی مگر اللہ کی ایک ضمانت ابھی بھی روئے زمین پرباقی ہے وہ ہے مومنوں کا استغفار کرنا ۔ جو بدعتی ہیں وہ بدعت سے توبہ کرلیں اور کثرت سے استغفار کریں ، جو بد چلن ہیں وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں اور بکثرت اللہ سے استغفار کریں اور جو کفر ومعاصی میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ اپنے ایمان کی اصلاح کریں ، عمل صالح انجام دیں اور استغفار کو لازم پکڑیں ۔ اللہ تعالی استغفار کی بدولت ہم سے عذاب ٹال دے گا ۔ آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات بہت ناگفتہ بہ ہیں ، ان حالات میں من مانی، نفسانی خواہشات اور بے دینی وخرافات چھوڑ کراللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرنا ، اپنے اعمال درست کرنا اور توبہ واستغفار کو لازم پکڑنا نہایت ضروری ہے ۔
مکمل تحریر >>

Sunday, December 3, 2017

اسم اعظم کیا ہے ؟

اسم اعظم کیا ہے ؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

ویسے تو سارے مسلمانوں میں اسم اعظم کا شہرہ ہے اور کیوں نہ ہوجبکہ اس کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے مگر برصغیر ہندوپاک میں جس طرح اس کا شہرہ اور استعمال ہے دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہے بطور خاص پیشہ ورانہ جھاڑ پھونک،دم وتعویذ اور جناتی وسفلی علوم جاننے والوں کے درمیان ہے تاہم اس کی اصل حقیقت سے اکثرعوام وتمام جعلی عاملین  نابلد ہیں ۔ جعلی عاملین  سمجھتے ہیں کہ ہم ہی اسم اعظم  کی حقیقت جانتے ہیں اور اس زعم میں اس اسم اعظم کے نام پہ عوام کو مختلف طریقے سے  ہیبت میں ڈالے ہوئے ہیں ۔ ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ عوام کی ہر پریشانی کو جناتی اثرات کا نام دے کران کے دل میں ڈر پیدا کرتے ہیں اور پھران سے من مرضی کامال وصول کرتے ہیں ۔بچہ بیمار ہوجائے تو جنات کا اثر، جانور مر جائے تو جنات کا اثر، گھر میں چوری ہوجائے تو جنات کا اثر، سفر سے لوٹنا پڑجائے تو جنات کا اثر، کام نہ بنے تو جنات کا اثر یا کوئی انہونی واقعہ ہوجائے تو جنات کا اثر۔اس طرح عوام ڈر جاتی ہے اور عاملوں کا سہارا لیتی ہے۔اس قسم کی ڈری سہی عوام کے اندر یہی خیال عام  ہے کہ اسم اعظم،کوئی الہی جادو یا خاص قسم کا سفلی  یا کشف وکراماتی علم ہے جسے عاملوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی سبب آج یہاں آپ کو مختصر انداز میں اسم اعظم کی حقیقت بتانا چاہتا ہوں تاکہ کسی سے دھوکہ نہ کھائیں اور آپ  خودبھی اس کا صحیح استعمال کریں اور فائدہ اٹھائیں ۔
سب سے پہلے اسم اعظم سے متعلق چند احادیث پیش کرتا ہوں ۔
پہلی حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ قَالَ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى(صحيح الترمذي:3475)
ترجمہ: بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ان کلمات کے ساتھ : '"اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ"دعاکرتے ہوئے سنا تو فرمایا:' قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! ا س شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہے اس نے دی ہے۔
دوسری حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا يَعْنِي وَرَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فَلَمَّا رَكَعَ وَسَجَدَ وَتَشَهَّدَ دَعَا فَقَالَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ إِنِّي أَسْأَلُكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ تَدْرُونَ بِمَا دَعَا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى(صحيح النسائي:1299)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا تھا اور ایک آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔ جب اس نے رکوع اور سجدہ کر لیا اور تشہد بھی پڑھ لیا تو اس نے دعا کی اور اپنی دعا میں کہا: [اللھم! انی اسئلک بان لک الحمد……… الخ] ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بنا پر کہ تیرے لیے ہی تعریف ہے۔ تیرے سوا کوئی (حقیقی) معبود نہیں۔ تو بہت احسان کرنے والا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کو بلا مادہ پیدا کرنے والا ہے۔ اےبزرگی و عزت والے! اے زندہ و جاوید! اے سب کو قائم رکھنے والے! بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ’’تم جانتے ہو اس نے کن لفظوں سے دعا کی؟‘‘ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بخوبی جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ساتھ اللہ کو پکارا جائے تو وہ ضرور جواب دیتا ہے اور جب اس کے ساتھ کچھ مانگا جائے تو ضرور عطا فرماتا ہے۔‘
تیسری حدیث : عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ: اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ فِي سُوَرٍ ثَلَاثٍ: الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، وَطه(صحيح ابن ماجه:3124)
ترجمہ:حضرت قاسم بن عبد الرحمٰن دمشقی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ کا عظیم ترین نام (اسم اعظم) جس کےساتھ اللہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے، تین سورتوں میں ہے: سورۂ بقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہٰ میں۔
ابن ماجہ کی دوسری روایت میں دوسورتوں کی آیت کی بھی تحدید ہے ، سورہ بقرہ " وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ " (آیت:163)، سورہ آل عمران " اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ " (آیت:2)
وہ حدیث اس طرح سے ہے :
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ فِي هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: {وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ} [البقرة: 163] ، وَفَاتِحَةِ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ (صحيح ابن ماجه:3123)
ترجمہ: حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا عظیم ترین نام (اسم اعظم) ان دو آیتوں میں ہے: (وَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَّا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنٌ الرَّحِيْمُ) تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔ اور سورۂ آل عمران کے شروع میں (یعنی) (الٓمّ اللهُ لآ اِلٰهَ اَلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ)۔
 اور تیسری سورت طہ کی آیت علماء یہ آیت " وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ " (آیت:111) بتلاتے ہیں ۔
اسم اعظم کیا ہے ؟
اسم عربی لفظ ہے جو ایک اکیلے نام کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اعظم یہ بتلاتا ہے کہ اس نام سے مراد عظیم نام ہے ۔ وہ نام کوئی ایک ہی ہوگا جیساکہ لفظ سے واضح ہے۔اوپر چند احادیث گزری ہیں جو اسم اعظم سے متعلق ہیں ۔اب یہاں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اسم اعظم کون سا کلمہ ہے ؟  حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے متعلق فتح الباری میں چودہ اقوال ذکر کئے ہیں ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی نظر میں "الحی القیوم "ہےجوتین مواقع پر مذکور ہوا ہےایک جگہ  آیہ الکرسی  میں ، دوسری جگہ شروع آل عمران میں اور تیسری جگہ سورہ طہ آیت نمبر 111 میں ۔
میری نظر میں اسم اعظم لفظ جلالہ یعنی اللہ ہے ۔ اللہ ہی  وہ نام ہے جو اللہ کے ناموں میں سب سے عظیم ہے اسی کواسم اعظم  کہا جاتاہے ۔ اس قول کو  بہت سے علماء نے بھی  اختیار کیا ہے ۔ اللہ اسم اعظم ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے چند کو یہاں بیان کرتا ہوں ۔
(1) قرآن کریم میں اساسی طور پر اور کثرت کے ساتھ لفظ جلالہ اللہ کا ذکر ہوا ہے جو تقریبا ڈھائی ہزار سے زائد بار ہے۔
(2) نبی ﷺ نے جتنی دعائیں کی ہیں ان میں سب سے زیادہ اللہ کا ہی استعمال ہوا ہے اور کثرت سے اللھم کا بھی استعمال ہوا ہے جو یا اللہ کے معنی میں ہے ۔
(3) ہر کام کی ابتداء اللہ کے لفظ سے اور قرآن کی ہرسورت کا آغاز لفظ اللہ سے ہوا ہے ۔
(4) اللہ وہ جامع لفظ ہے جس میں  خالق ومالک کی تمام حمدوثنا، اور تمام صفات وخصوصیات جمع ہیں ۔
(5)لفظ اللہ کا کوئی بدل نہیں اور نہ ہی کسی زبان میں یہ لفظ استعمال ہوکرذرہ برابرمتاثر ہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جب پکار کے لئے حرف ندا لگاتے ہیں تب اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی یعنی شروع کا الف لام محفوظ رہتا ہے جبکہ دیگر تمام اسمائے الہی کے آگے "یا" لگانے سے الف لام گرجاتا ہے مثلا یا رحمن ، یارحیم، یا غفار وغیرہ
(6) اگر اللہ کے علاوہ اسم اعظم ہوتا تو نبی ﷺ اپنی دعاؤں میں ضرور اکثر ان الفاظ کا ذکر کرتے بطور خاص جب آپ کو اپنے لئے یا امت کے لئے نازک موڑ پر رب سے دعا کرنی پڑی ۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لفظ اللہ ہی اسم اعظم ہے تو پھر اسم اعظم سے متعلق دوسرے الفاظ کا کیا حکم ہے ؟ اس  کا جواب یہ ہے کہ اوپر مذکور تین احادیث میں اسم اعظم سےاصل اللہ ہی مقصود  ہے ۔ پہلی حدیث میں " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ" میں اللھم اور اللہ کا ذکرآیا ہے ، دوسری  حدیث میں  " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ" اللھم آیا ہے اور تیسری حدیث میں سورہ طہ کے علاوہ میں بھی لفظ جلالہ کاذکر آیا ہے۔
اسم اعظم کا حاصل کلام :
یہ علم رکھتے ہوئے کہ اسم اعظم اللہ ہے ،یہ علم بھی رکھیں کہ جو الفاظ اسم اعظم والی احادیث میں آئے ہیں انہیں بھی دعا سے پہلے پڑھا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کےسنہرے الفاظ کا دعاؤں میں اہتمام کرنا اولی ہے ۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
1- اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔
2- اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ إِنِّي أَسْأَلُكَ۔
3- وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ۔
4- الٓمّ اللهُ لآ اِلٰهَ اَلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ۔
5- وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ۔
ان الفاظ کے بعد  کثرت سے اسم اعظم  یا اللہ کے ذریعہ  سوال کیا جائے ۔
اسم اعظم کے ذریعہ دعا کس طرح کی جائے ؟
پہلے تین باتیں ذہن نشیں کرلیں ، پہلی بات یہ کہ کچھ لوگ صرف اللہ اللہ کا ورد کرتے ہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگااور نہ ہی یہ ذکرکاطریقہ ہے اور نہ دعا کا طریقہ کیونکہ اس قسم کا کوئی ذکر یا دعا رسول اللہ ﷺ سے وارد نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دعا میں شرکیہ الفاظ ، غیراللہ کا واسطہ اور ناجائز مراد نہ ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ دعا کرنے والا حلال کمائی کھانے والا اللہ پر پختہ ایمان ویقین رکھنے والا ہو۔
دعا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے رب ذوالجلال کے حضور ثنا بجالائے، پھر نبی ﷺ پر درود پاک پڑھاجائے، اس کے بعد اوپر مذکور اسم اعظم  سے متعلق کلمات پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں پھر اللہ کے ذریعہ یا اسمائے حسنی کے واسطہ سے اپنے خالق کے سامنے اپنی حاجات وضروریات رکھیں ۔
مکمل تحریر >>