Monday, November 27, 2017

جنت میں چھ چیزیں نہیں ہوں گی ۔


جنت میں چھ چیزیں نہیں ہوں گی ۔

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

مجھے ایک بھائی نے مولانا یونس پالنپوری کی مرتب اردو کتاب" بکھرے موتی " کا ایک اقتباس بھیجا ہےتاکہ وہ  اس کی حقیقت جان سکیں  ۔ وہ اقتباس اس طرح ہے ۔
"جنت مین سب کچھ ہوگا مگر چھ چیزیں نہ ہوں گی۔ موت نہ ہوگی، نیند نہ ہوگی، حسد نہ ہوگا، نجاست نہ ہوگی، بڑھاپا نہ ہوگا، داڑھی نہ ہوگی بلکہ بغیر داڑھی کے جوان ہوں گے ۔ " (حوالہ بکھرے موتی جلد چہارم صفحہ 65)
آئیے اس اقتباس میں جو چھ باتیں لکھی گئی ہیں ان کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
پہلی چیز: جنت میں موت نہ ہوگی۔ چنانچہ یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جنت میں موت نہیں ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
النومُ أخو الموتِ ، ولا يموتُ أهلُ الجنَّةِ (صحیح الجامع: 6808)
ترجمہ: نیند موت کا بھائی ہے اور اہل جنت کو موت نہیں آئے گی ۔
یہ بات صحیحین کی روایت سے بھی ثابت ہے ، بخاری شریف کی حدیث دیکھیں :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَارَ أَهْلُ الْجَنَّةِ إِلَى الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ إِلَى النَّارِ جِيءَ بِالْمَوْتِ حَتَّى يُجْعَلَ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ثُمَّ يُذْبَحُ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ لَا مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ لَا مَوْتَ فَيَزْدَادُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَرَحًا إِلَى فَرَحِهِمْ وَيَزْدَادُ أَهْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلَى حُزْنِهِمْ( صحيح البخاري: 6548)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں چلے جائیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کردیا جائے گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اے جنت والو! تمہیں اب موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو! تمہیں بھی اب موت نہیں آئے گی۔ اس بات سے جنتی اور زیادہ خوش ہوجائیں گے اور جہنمی اور زیادہ غمگین ہو جائیں گے۔
دوسری چیز: جنت میں نیند نہ ہوگی ۔ یہ بات بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے ، الجامع کی مذکورہ روایت بھی اس کی دلیل ہے کیونکہ نیند کو موت کا بھائی کہا ہے تو دونوں کا یکساں حکم ہوگا۔ دوسری احادیث میں واضح الفاظ بھی آئے ہیں ۔
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :النَّوْمُ أَخُو الْمَوْتِ ، وَلا يَنَامُ أَهْلُ الْجَنَّةِ (المعجم الأوسط للطبراني(
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نیند موت کا بھائی ہے اور اہل جنت نہیں سوئیں گے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے مجموعی طرق کے اعتبار سے صحیح کہا ہے ۔ (السلسلہ الصحیحۃ : 1087)
مشکوۃ میں بھی یہ روایت آئی ہے ، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے :
سأل رجلٌ رسولَ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ - : أينامُ أهلُ الجنةَ ؟ ! قال : النومُ أخو الموتِ، ولا يموتُ أهلُ الجنةِ .(مشكوة)
ترجمہ: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ جنت والے سوئیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: نیند موت کا بھائی ہے اور اہل جنت نہیں سوئیں گے ۔
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی نے ضعیف کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کے متعدد طرق ہیں بعض طریق صحیح ہے ۔ (تخريج مشكاة المصابيح:5579)
تیسری چیز: جنت میں حسد نہ ہوگا۔ یہ بات بھی قرآن وحدیث کے نصوص سے ثابت ہے کہ اہل جنت کے دلوں میں دنیاوی بغض وحسد نہ ہوگااللہ تعالی اسے ان کے سینوں سے نکال  پھینکے  گا۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَاناً عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (الحجر: 47 )
ترجمہ: ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے ، وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے ۔
چوتھی چیز : جنت میں نجاست نہیں ہوگی ۔ یہ بات بھی بالکل صحیح ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر ایک باب باندھا ہے " بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ"(باب : جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہوچکی ہے( اس باب کے تحت یہ حدیث درج کرتے ہیں جو جنت میں پیشاب وپاخانہ اور کسی قسم کی نجاست نہ ہونے کی دلیل ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الجَنَّةَ صُورَتُهُمْ عَلَى صُورَةِ القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ، لاَ يَبْصُقُونَ فِيهَا، وَلاَ يَمْتَخِطُونَ، وَلاَ يَتَغَوَّطُونَ، آنِيَتُهُمْ فِيهَا الذَّهَبُ، أَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَمَجَامِرُهُمُ الأَلُوَّةُ، وَرَشْحُهُمُ المِسْكُ، وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ، يُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الحُسْنِ، لاَ اخْتِلاَفَ بَيْنَهُمْ وَلاَ تَبَاغُضَ، قُلُوبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ، يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا(صحيح البخاري:3245)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند روشن ہوتا ہے ۔ نہ اس میں تھوکیں گے نہ ان کی ناک سے کوئی آلائش آئے گی اور نہ پیشاب ، پائخانہ کریں گے ۔ ان کے برتن سونے کے ہوں گے ۔ کنگھے سونے چاندی کے ہوں گے ۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود کا ہوگا ۔ پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہوگا اور ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی ۔ جن کا حسن ایسا ہوگا کہ پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائے دے گی ۔ نہ جنتیوں میں آپس میں کوئی اختلاف ہوگا اور نہ بغض و عناد ، ان کے دل ایک ہوں گے اور وہ صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہا کریں گے ۔
پانچویں چیز : جنت میں بڑھاپا نہیں ہوگاکیونکہ سبھی کو تیس یا تینتیس سال کا کڑیل جوان کرکے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
يدخلُ أهْلُ الجنَّةِ الجنَّةَ جُردًا مُردًا مُكَحَّلينَ أبناءَ ثلاثينَ ، أو ثَلاثٍ وثلاثينَ سنةً(صحيح الترمذي: 2545)
ترجمہ: جنتی جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے، وہ امرد ہوں گے، سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے اور تیس یا تینتیس سال کے ہوں گے۔
اسی طرح یہ روایت بھی دیکھیں :
أن امرأة عجوزا جاءته تقول له: يا رسول الله ادع الله لي أن يدخلني الجنة فقال لها: يا أم فلان إن الجنة لا يدخلها عجوز وانزعجت المرأة وبكت ظنا منها أنها لن تدخل الجنة فلما رأى ذلك منها بين لها غرضه أن العجوز لن تدخل الجنة عجوزا بل ينشئها الله خلقا آخر فتدخلها شابة بكرا وتلا عليها قول الله تعالى: { إن أنشأناهن إنشاء فجعلناهن أبكارا عربا أترابا }. )السلسلة الصحيحة:2987(
ترجمہ: :ایک بڑھیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائیں کہ وہ مجھے جنت میں داخل کردے۔ آپ نے فرمایا: اے فلاں کی ماں جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہوگی (راوی) بیان کرتے ہیں کہ (یہ جواب سن کربڑھیا) مونہہ پھیرکرجاتے ہوئے رونے لگی یہ گمان کرکے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتی ۔ جب آنے انہیں دیکھا تو بیان کرنے کا مقصد واضح کیا کہ کوئی عورت بڑھیا ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اسے دوسری تخلیق کریں گے اور پھر جوان وکنواری ہوکر اس میں داخل ہوگی ۔ اور آپ نے اللہ کے اس قول کی تلاوت کی :" إن أنشأناهن إنشاء فجعلناهن أبكارا عربا أترابا " ہم نے ان کی (بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے اور ہم نے انہیں کنواریاں بنادیا ہے ، محبت والیاں اور ہم عمر ہیں ۔
چھٹی چیز: جنت میں داڑھی نہیں ہوگی یہ بات بھی صحیح ہے تاکہ جنتی کے حسن وجمال میں مزید خوبصورتی پیدا ہوجائے ۔ دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے اور اس کا حکم وجوب کا ہے جو دنیا میں رسول اللہ ﷺ کے اس واجبی حکم پر عمل کرے گا اور صحیح ایمان والا ہوگا تو اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا اور وہاں اسے جوان بنا دیا جائے گا اس طرح کہ جسم اورچہرے سے بال  ہٹا دیا جائے گا۔ اس کی دلیل بڑپاھا کے تحت گزری ترمذی کی روایت ہے جس میں خاص لفظ "مردا" آیا ہے جو بلاریش کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

بکھرے موتی کی تحقیق ختم ہوئی یعنی اس میں درج ساری باتیں صحیح ہیں ، اس تحقیق کو پیش کرنے میرا مقصد لوگوں کو جنت کا شوق دلانا ہے ۔اللہ تعالی ہمیں اپنی رحمت وتوفیق سے جنت الفردوس میں داخل فرمائے ۔ آمین 
مکمل تحریر >>

Thursday, November 23, 2017

ربیع الاول 1439 کے سوال وجواب کی دوسری قسط

ربیع الاول 1439 کے سوال وجواب کی  دوسری قسط

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)


سوال (1):کیا اللہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے ؟
جواب : یہ بات لوگوں میں یقین کی حدتک مشہور ہوگئی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔ جب ہم اس بات کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں تلاش کرتے ہیں تو کہیں بھی نہیں ملتی البتہ اتنی بات ضرور ملتی ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر ایک ماں کی رحم دلی سے زیادہ مہربان و رحمدل ہے چنانچہ بخاری ومسلم میں عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قدِمَ على النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سَبيٌ، فإذا امرأةٌ من السبيِ قد تحلُبُ ثَديَها تَسقي، إذا وجدَتْ صبيًّا في السبيِ أخذَتْه، فألصقَتْه ببَطنِها وأرضعَتْه، فقال لنا النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( أترَونَ هذه طارحَةً ولدَها في النارِ ) . قُلنا : لا، وهي تقدِرُ على أن لا تطرَحَه، فقال : ( لَلّهُ أرحَمُ بعبادِه من هذه بولَدِها ) .(صحيح البخاري:5999، صحيح مسلم:2754)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہو تھا اور وہ دوڑ رہی تھی ، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے  جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے ۔
اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی ماں کی رحمدلی سے زیادہ  اپنے بندوں پرمہربان ہے مگر یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ تعالی سترماؤں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے ۔اس کی وجہ  یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جس کی دلیل نہ ہوتعین کرکے وہ بات کہنا صحیح نہیں ہےگوکہ اللہ تعالی  سترنہیں اس سے بھی زیادہ ماؤں کی رحم دلی سے بھی زیادہ رحمدل ہے مگر عدد مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے ۔
سوال (2):نبی کو آقا کہنا کیسا ہے ؟
جواب : لفظ آقا فارسی سے آیا ہوا ہے ,اردو لغت کے حساب سے اس کے مندرجہ ذیل معانی ہیں ۔
مالک ، خداوند ، صاحب ، خاوند ، حاکم ، افسر ۔ (حوالہ : فیروز اللغات اُردو)
 نبی ﷺ کے لئے سید کا لفظ حدیث میں آیا ہے ۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسلم : 2278)
ترجمہ : حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن بنی آدم کا سید (سردار) ہوں۔
لفظ سید اردو میں سردار اور آقا کے معنی میں آتا ہے ۔ ساتھ ہی جب لفظ آقا کی تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آقا اصل میں ترکی لفظ ہے ۔ ترکی سے فارسی اور پھر فارسی سے اردو میں داخل ہوا۔
عثمانیوں کے زمانے میں یہ لفظ عام طور سے ان لوگوں کے درمیان استعمال ہوا کرتا تھا جو حاکم ، حکومت اور فوج سے جڑا ہوا تھایعنی عام بول چال میں نہیں تھا۔
اردو میں اس لفظ کی آمد بھی ایسے ہی معنوں میں لگتی ہے ۔ یہ لفظ سب سے پہلے اردو میں مرزا محمد رفیع سودا کی کلیات میں 1780 ء میں ملتا ہے ۔ اور سودا درباری شاعر تھا ۔ پہلے نواب بنکش کے دربار سے پھر نواب سجاع الدولہ کے دربار سے اورآخر میں نواب آصف الدولہ کے دربار سے وابستہ رہا۔آخرالذکر نواب نے انہیں ملک الشعراء کا خطاب دیا۔
اس سے پتہ چلا کہ اردو میں اس لفظ کی آمد بھی خوشامدی پس منظر اور حکومتی نسبت سے ہوئی ۔ ویسے اس کے استعمال میں بڑی قباحت نظر نہیں آتی مگر اس کے بجائے سید کا استعمال زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ نبی ﷺ کے فرمان میں موجود ہے ۔
سوال (3):کتنے گھر تک پڑوسی کہلائے گا؟
جواب :  پڑوسی کے ساتھ احسان وسلوک کی بڑی تاکید وارد ہے لیکن پڑوسی کی حد بندی کی تعیین نہیں وارد ہے ۔ ایک روایت ہے :
السَّاكنُ من أربعينَ دارًا جارٌ.
ترجمہ : چالیس گھر کے باشندے پڑوسی کہلاتے ہیں ۔
اس کی بنیاد پر کہاجاتا ہے کہ آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے چالیس گھر پڑوسی کی حد ہے مگر یہ روایت اور اس معنی کی دیگرروایت ثابت نہیں ہے ۔ اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔(السلسلۃ الضعیفۃ:277)
پڑوسی کی حد بندی کے سلسلے میں تعیین کرنا صحیح نہیں ہے متصل جو لوگ ہوں پڑوسی کے حکم میں ہیں خواہ وہ سبھی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ہوں یا ایک سے زائد مساجد میں البتہ قریب کا پڑوسی دور کے پڑوسی سے زیادہ حق رکھتا ہوں ۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قَالَ:إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا(صحيح البخاري:2595)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری دو پڑوسی ہیں، تو مجھے کس کے گھر ہدیہ بھیجنا چاہئے؟ آپ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تم سے قریب ہو۔
سوال (4):کعبہ کی تصویر لٹکانا یا اس کی شبیہ گھروں میں رکھنا کیسا ہے ؟
جواب :  بغیر روح والی تصویروں کی اجازت ہے مگر کعبہ کی تصویر فریم میں لگا کر گھروں میں لٹکانا لوگوں میں اس سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے اس وجہ سے یہ نیت کرکے کعبہ کی تصویر لٹکانا جائز نہیں ہے ،یہی حال اس کی شبیہ کا بھی ہے ۔ کعبہ کے ساتھ اس پہ قرآنی آیات لکھا ہونا یا کعبہ کے گرد طواف کرنے والوں کی تصویر کا ہونا تو بالکل جائز نہیں ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ برکت کی نیت سے کعبہ کی تصویر یا اس کی شبیہ گھر میں رکھنا جائز نہیں ہے بالخصوص جب اس میں قرآنی آیات اور طواف کرنے والوں کی ذی روح تصویر ہو اور برکت کی نیت نہ ہو تو بھی بدعت کا راستہ بند کرنے کے لئے نہ رکھنا ہی بہتر ہے ، گھر کا کوئی نہ کوئی فرد یا گھر میں آنے والا کوئی زائراس سے برکت لے سکتا ہے ۔
سوال (5):ایک صحابی اللہ کے رسول ﷺکے پاس آئےاور انہوں نے سوال کیا کہ کیا میرے ماں باپ دونوں جنت میں ہیں یا جہنم میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اور آپ کے والدین دونوں جہنم میں ہیں ۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب :  اچھا کیا آپ نے یہ سوال کرکے کیونکہ اکثریت کو اس کا علم نہیں ہے ۔ یہ حدیث مسلم شریف کی ہے یعنی صحیح حدیث ہے ،اس کی صحت کے بارے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کیونکہ مسلم شریف کی تمام احادیث کی صحت پر پوری امت کا اتفاق ہے ۔ حدیث کے الفاظ اور اس کا ترجمہ ملاحظہ کریں ۔
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ:فِي النَّارِ، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ:إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ(صحيح مسلم:203)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا:اے اللہ کے رسول ! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا:آگ میں ۔ پھر جب وہ پلٹ گیا توآپ نے اسے بلا کر فرمایا:بلاشبہ میراباپ اور تمہارا باپ آگ میں ہیں ۔
اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کے والد کی وفات کفر پر ہوئی اس وجہ سے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
سوال (6): ایک مسافر آدمی مقیم امام کے ساتھ مغرب کی نماز میں عشاء کی نیت سے شامل ہوتا ہے تو وہ دو رکعت پڑھے گا یا تین پڑھے گا؟
جواب : اس مسئلہ میں ائمہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ چونکہ مسافر پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب نہیں اور یہاں امام ومسافر کے درمیان نماز کی رکعات کا فرق بھی ہے اس لئے مسافر الگ سے عشاء کی دو رکعت ادا کرلے اور ایک دوسراطریقہ یہ ہے کہ امام کے ساتھ عشاء کی نیت سے شامل ہوجائے اورامام کے سلام پھیرنے پرمزید ایک رکعت ادا کرکے عشاء کی چار رکعت مکمل کرلے۔
سوال (7):لیزر کے ذریعہ بالوں کی صفائی کا کیا حکم ہے جبکہ اس سے بال اگنا ہی بند ہوجاتا ہے اور حدیث میں داغنے سے منع کیا گیا ہے ؟
جواب:  لیزر سے غیر ضروری بال کی صفائی خود سے مشکل ہے اس کے ماہر سے ہی کروانا پڑتا ہے اور اس میں جلد کی خرابی اور نقصان کا پہلو موجود ہے نیز پردے کی جگہ کی صفائی دوسروں سے کروانا بلاضرورت جائز نہیں ہے ۔علماء نے لیزر سے بال صفائی کی اجازت دی ہے مگر میرے سامنے مذکورہ موانع ہیں جن کی بدولت لیزر سے صفائی نہ کرنا بہتر ہے ۔ اسلام نے ہمیں  غیر ضروری بال کی صفائی ہرچالیس دن کے اندر کرنے کی اجازت دی ہے اس  لئے شعاعوں اور الکٹرک  آلات کے ذریعہ بال کے مسام کو جلانے اور ہمیشہ کے لئے بال سے چھٹکارا پانے سے بہتر ہے صفائی کا وہ آلہ استعمال کیا جائے جس میں ضرر نہ ہو۔ ہاں اگر اس کی حاجت کسی کو ہو تو کوئی حرج نہیں مثلا  کسی معذورکو غیرضروری بال کی صفائی برابر کرنا دشوار ہے وہ کچھ مشقت برداشت کرکے لیزر سے صفائی کرلے۔  
سوال(8):کسی شخصیت پر سیمینار کرنا کیسا ہے ؟
جواب : سیمینار کا مفہوم ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جانیں کہ زندہ شخص کے لئے سیمینار کرنا میری نظر میں درست نہیں ہے کیونکہ اس میں اس شخص کی منہ پر تعریف کرنا ہے اور اسلام نے کسی شخص کی منہ پر تعریف کرنے سے منع کیا ہے البتہ ایک ایسی شخصیت جن کی دینی، علمی، سماجی اور ثقافتی خدمات ہوں تو ان کی وفات کے بعد ان پر سیمینار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ لوگوں کے اندر ان کے کارناموں سے تحریک پیدا ہو جیساکہ کسی اہم شخصیت کی وفات پر رسائل وجرائد کا خصوصی شمارہ نکالاجاتا ہے۔
سوال (9):کنیڈا میں بلیک فرائڈے منایا جاتا ہے ، وہ تو ہم نہیں مناتے مگر اس موقع سے سیل لگتی ہے اور سامان بہت ہی سستے داموں پر فروخت ہوتا ہے تو کیا میں اس سیل سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں ؟۔
جواب :  نومبر کے آخری جمعہ کو عیسائی بلیک فرائڈے کانام دیتے ہیں اور اس دن سے کرسمس ڈے منانے کی تیاری شروع کی جاتی ہے اسی لئے تمام قسم کی تجارتی چیزو ں میں بھاری چھوٹ ہوتی ہے۔اسلامی اعتبار سےجمعہ کا دن تمام دنوں کا سرداراور ہفتے کی عید ہے ۔ اس کی فضیلت میں  نبی ﷺ کایہ فرمان  وارد ہے:خيرُ يومٍ طلعت عليه الشَّمسُ ، يومُ الجمعةِ . فيه خُلِق آدمُ . وفيه أُدخل الجنَّةَ . وفيه أُخرج منها . ولا تقومُ السَّاعةُ إلَّا في يومِ الجمعةِ(صحيح مسلم:854)
ترجمہ : سب سے بہترین دن جب سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اس دن اللہ نے آدم کو پیدا کیا۔ اسی دن جنت میں ان کو داخل کیا اور اسی دن ان کو جنت سے نکالا گیا۔
اگر عیسائی بلیک فرائڈے منائے تو ہمیں اس کے بلیک فرائڈے کا حصہ نہیں بننا چاہئے اور نہ ہی ہمیں بلیک فرائڈے کی غلط اصطلاح  استعمال کرنی چاہئے ، افسوس ہوتا ہےکہ مسلمان بھی اس جمعہ کو بلیک فرائڈے کی طرح منانے لگے اور اپنی دوکانوں میں ڈسکاؤنٹ دینےلگے پھر ہم میں اور عیسائی میں کیا فرق رہا؟
سوال (10):اولاد کے حصول کے لئے مجھے کوئی وظیفہ بتائیں ۔
جواب : سب سے پہلے تو یہ عقیدہ ذہن میں راسخ کریں کہ بچوں کی پیدائش کا تعلق اللہ تعالی کی مشیت سے ہے۔اس پختہ عقیدہ کے ساتھ یہ عقیدہ بھی ہو کہ اولاد کا مکمل طور پر اختیار بھی اسی کے پاس ہے ۔پھر میاں بیوی جائز وسیلہ اختیار کرتے ہوئے استغفار کے ساتھ خوب خوب اللہ سے دعائیں کریں۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرسکتے ہیں اور قرآن میں بھی صالح اولادکی حصولیابی کے لئے کئی دعائیں وارد ہیں جنہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے اولاد مقدر ہوگی تو دیر سویر آپ کو اولاد نصیب ہوگی اور اگر مقدر نہیں ہوگی تو کوئی بھی طریقہ اختیار کرلیں اولاد نہیں ہوگی ۔ یہ اٹل الہی قانون ہے کسی کو وہ اولاد سے نوازتا ہے اور کسی کو محروم کردیتا ہے ۔ جسے اولاد عطا کرنا چاہے اسے کوئی اولاد سے محروم نہیں کرسکتا اور جسے اولاد سے محروم کرنا چاہے اسے دنیا کا کوئی پیروفقیر یا مرشد وولی اولاد نہیں دے سکتا ۔
سوال(11):اسلام کی رو سے جنم دن منانا جائز نہیں ہے تو کیا جنم دن کے موقع سے کیک وغیر ہ نہ کاٹیں صرف بہترین کھانا بناکر کھالیں تو یہ غلط ہے ؟
جواب : اگر آپ کچھ بھی نہیں کرتے صرف سوچ رکھتے ہیں کہ جنم دن منانا چاہئے تو یہ بھی غلط ہے اور سوچ کے ساتھ ساتھ کھانا کھانا یا جنم دن منانے کے لئے کوئی ادنی سا کام کرنا گویا جنم دن منانا ہے لہذا کیک نہ کاٹ کر جنم دن پہ اچھا کھانا کھانا اس نیت سے کہ آج جنم دن ہے جائز نہیں ہے۔
سوال(12):سودی بنک سے ملنے والی سودی رقم کیا ذاتی مقدمہ میں وکیلوں کی فیس،یا بچوں کےاسکول ڈونیشن یا جہیز کے سامان میں بلاثواب کے صرف کرسکتے ہیں ؟
جواب :  سود قطعی طور پر حرام ہے جہاں تک سودی بنک سے ملنے والی اضافی سودی رقم کا سوال ہے تو اسے نجی کسی بھی قسم کے کام میں صرف نہیں کیا جائے گا بلکہ مفاد عامہ یعنی رفاہی کام میں بلااجرکے صرف کردیا جائے گایا کسی مضطر کے اضطرای کام میں بھی صرف کرسکتے ہیں ۔
سوال(13):ایک اہل حدیث سیاستداں ہے وہ سیاست کی مجبوری کی وجہ سے مزاروں کی توسیع میں مالی امداد فراہم کرتا ہے ، ایسے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے میلاد میں بھی شریک ہوجاتا ہے اور کھڑے ہوکر سلام بھی پڑھنا ہے ایسے شخص کا اسلام میں کیا حکم ہے ؟
جواب : سیاسی مجبوری کے تحت مزار کے کام میں مدد کرنا جائز نہیں ہے ، نہ ہی عید میلاد یا مروجہ سلام جائز ہے ۔ مذکورہ شخص کو چاہئے کہ کسی کو خوش کرنے کی بجائے اللہ کو خوش کرنے والا کام کرے ورنہ مزاروں کی توسیع پہ مالی امداد، عید میلاد اور مروجہ سلا م میں شرکت کی وجہ سے بدعتی کہلائے گا۔
سوال(14):عید میلاد النبی منانے والے کہتے ہیں کہ اسلام میں عیدوبقرعید کے علاوہ بھی عیدیں ہیں جیسے جمعہ کی عید، عرفہ کی عید اسی طرح عید میلاد ایسے لوگوں کو کیا جواب دیا جائے ؟
جواب:  سالانہ اصل دو ہی عیدیں ہیں اس کی تعیین اور عیدین کے احکام مکمل تفصیل سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادئے ہیں ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل جاہلیت کیلئے دو دن تھے جن میں وہ خوب کھیل کود کرتے چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا: كانَ لَكُم يومانِ تلعَبونَ فيهِما وقد أبدلَكُمُ اللَّهُ بِهِما خيرًا منهُما يومَ الفطرِ ، ويومَ الأضحى(صحيح النسائي:1555)
ترجمہ: تمہارے کھیلنے کیلئے دو دن تھےاور اللہ تعالی نے تمہیں اس سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔
ان دونوں سالانہ عیدوں میں عیدگاہ، نماز اور تکبیرات وغیرہ کی تفاصیل واحکام کتب احادیث میں مذکور ہیں ۔ ایک حدیث میں  یوم النحر کے ساتھ عرفہ اورایام تشریق  کو بھی مسلمانوں کی عید قرار دی گئی ہے۔ روایت اس طرح ہے۔
يومُ عرفةَ ويومُ النَّحرِ وأيَّامُ التَّشريقِ عيدَنا أَهلَ الإسلامِ ، وَهيَ أيَّامُ أَكلٍ وشربٍ(صحيح الترمذي:773)
ترجمہ:یوم عرفہ ، یوم نحر اور ایام تشریق ہماری یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔
یوم النحر(عیدالاضحی )اور عیدالفطر ہی اصل عیدیں ہیں اوپر حدیث گزری ۔یوم عرفہ اور ایام تشریق بھی عیدکا دن ہے ، سوال یہ ہے کہ اس عید کے دن مسلمانوں کو کس قسم کی خوشی منانے کا حکم ہے اور نبی وصحابہ نے اس قسم کی خوشی کا اظہارکیا، کتنی رکعات نمازاور کہاں ،کس طرح پڑھنے کا ذکر ہے ؟ ظاہر سی بات ہے یہاں ان دنوں  کوعیدکہنےسے مراد روزہ رکھنے سے منع کرنا ہے جیساکہ دوسرے حدیث میں صراحت ہے اور یہاں بھی کھانے پینے کا قرینہ روزہ نہ رکھنے سے متعلق ہے ۔ جمعہ کی عید کا ثبوت ہے ، عرفہ کی عید کا ثبوت ہے ، عیدالفطر اور عیدالاضحی کا ثبوت ہے ،نبی کی پیدائش کا دن بھی عید ہے اس پہ لفظ عید کی  کوئی دلیل نہیں پیش کیاجاسکتاسوائے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے ۔جب پیدائش نبی پہ لفظ عید کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر عیدمیلادالنبی منانا خلاف سنت ہے۔
سوال(15): شب زفاف میں دوگانہ اداکرنے کا کیا حکم ہے جیساکہ کچھ اداکرتے ہیں ؟
جواب : شب زفاف میں بیوی کی پیشانی پکڑ کر یہ دعا پڑھی جائے۔
اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ خيرَها وخيرَ ما جبلتَها عليهِ وأعوذُ بِكَ من شرِّها ومن شرِّ ما جبلتَها عليهِ(صحيح أبي داود:2160)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے اس (عورت) کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس چیز کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں۔جس پر تونے اسے پیدا کیا اور میں اس کے شر سےتیری پناہ میں آتا ہوں اور اس چیز کے شر سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں جس پر تونے اسے پیدا کیا۔
 بس یہی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے نماز کا کہیں ذکر نہیں البتہ اسلاف سے اس رات دو رکعت نماز پڑھنا ثابت ہے جسے شیخ البانی نے آداب الزفاف میں جمع کیا ہےاس لئے اگر کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو پڑھ سکتا ہے۔  
سوال(16):فرشتوں کے نام پہ اپنے بچوں کا نام رکھنا کیسا ہے ؟
جواب : ایک حدیث میں فرشتوں کے نام پر نام رکھنا منع ہے: ولا تُسمُّوا بأسماءِ الملائكةِ( اور فرشتوں کے نام پرنام نہ رکھو)۔ اسے شیخ البانی نے سخت ضعیف کہا ہے۔(ضعیف الجامع:3283)
جب یہ حدیث ضعیف ہے تو اسے دلیل نہیں بنائیں گے اور ممانعت کی کوئی صحیح دلیل نہ ہونے کی وجہ سے کہا جائے گا کہ فرشتوں کے نام پر نام رکھ سکتے ہیں ۔ یہی موقف جمہور علماء کا ہے۔
سوال (17): ایسا بیر(شراب) پینا جس میں نشہ نہ ہو اسلام کی رو سے کیسا ہے ؟
جواب: ایسا مشروب جس میں الکوحل نہ ملاہو وہ  خمریعنی حرمت والی شراب نہیں ہےاس لئے ایسے مشروب کا پینا جائز ہوگا تاہم اس سلسلے میں تین باتیں دھیان میں رکھنی ہوں گی۔
پہلی بات: عام طور سے کہاجاتا ہے کہ فلاں مشروب میں نشہ نہیں مگر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے یا نشہ باز کو نشہ کی لت ہونے کی وجہ سے نشہ کا انکار کرتا ہے اس لئے دیکھا جائے گا کہ کہیں ایسا مشروب تو نہیں جس میں نشہ  موجودہے پھر بھی الکوحل فری کا جھوٹا دعوی کیا جاتا ہے؟۔
دوسری بات: مشروب پاکیزہ ہو یعنی اس میں خباثت نہ ہو۔
تیسری بات: مشروب میں کسی قسم کا ضرر نہ ہو۔
سوال (18):کیا ابان کسی صحابی کا نام ہے جو مشہور محدث و فقیہ گزرے ہیں وضاحت کریں کیونکہ مجھے اپنے بچے کا نام رکھنا ہے۔
جواب : ابان بن سعید رضی اللہ عنہ  قبیلہ قریش کےایک جلیل القدر صحابی گزرے ہیں ،فتح مکہ سے تھوڑا پہلےسن 7 ہجری میں اسلام قبول کیا اور واقدی کے مطابق اجنادین کے دن سن13 ہجری کو شام میں جام شہادت نوش فرمایا۔ نبی ﷺ نےسات ہجری میں ایک سریہ کی قیادت دے کر بھیجا تھا اور9ہجری میں بحرین کا والی بھی مقرر کیا تھا آپ کی وفات کے وقت بحرین کے والی تھے۔ ایک اور مشہور ومعروف ابان گزرے ہیں وہ ہیں ابان بن عثمان تابعی جوکہ خلافت امویہ میں عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں سات سال مدینہ کے والی رہے۔ سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ ان سے کچھ احادیث مروی ہیں اور یہ ثقہ راوی ہیں بلکہ یحی بن قطان کے حوالے سے لکھا کہ وہ مدینہ کے دس فقہاء میں سے ایک ہیں ۔لوگ ان سے قضاء کی تعلیم حاصل کرتے ،عمروبن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے ابان بن عثمان سے زیادہ علم حدیث اور فقہ کا جانکار نہیں دیکھا۔  
سوال(19): میں نے وضو کے تین گھنٹے بعد موزہ پہنا کیا اس پہ مسح کرسکتا ہوں ؟
جواب : اگرتین گھنٹے بعد موزہ اس حال میں پہنا گیا کہ وضو باقی تھا تو اس پر مسح کرسکتے ہیں ۔
سوال(20): میں کام کے دوران جوتا پہنتا ہوں اسے نکالنے میں دقت ہے کیا اس جوتے پر مسح کرسکتا ہوں ؟
جواب : اگر جوتا اتنا لمبا ہو کہ مکمل ٹخنہ  ڈھک دےتو اس جوتے (بوٹ) پر مسح کرسکتے ہیں کیونکہ وہ خف کے حکم میں ہوگا لیکن ٹخنہ سے نیچے جوتا پر مسح کرنا جائز نہیں ، اسی طرح اس موزہ پر مسح جائز نہیں جو ٹخنہ سے نیچے ہو۔

مکمل تحریر >>

Tuesday, November 21, 2017

ماہ ربیع الاول 1439 ھ کے سوال وجواب

ماہ ربیع الاول  1439 ھ کے سوال وجواب

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

سوال (1):جب کوئی کسی کا سلام لیکر آئے تو کیسے جواب دیں ؟
جواب : صحیح احادیث میں مذکور کہ اللہ تعالی اور جبریل علیہ السلام نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نبی کے واسطہ سے سلام بھیجا اس لئے کوئی آدمی دوسرے کی معرفت سلام بھیج سکتا ہے اس کے جواب میں کہاجائے گا" وعلیک وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ " ۔ سلام بھیجنے والی عورت ہو تو کہا جائے گا" وعلیک وعلیھا السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ "۔ اس پہ مدلل جواب میرے بلاگ پر"غائبانہ سلام کا جواب" کے عنوان سے تلاش کریں ۔
سوال (2):ایک شادی شدہ عورت جسے ایک بچہ بھی ہے اس نے چوری چھپے ایک دوسرے مرد سے شادی کرلی دس دنوں بعداس عورت کو پولیس پکڑ کر لے گئی ، پہلے شوہر کے لئے کیا حکم ہے ؟
جواب : کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس کا شوہر موجود ہو اور وہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے ۔ جیساکہ سوال میں مذکور ہے عورت نے دوسرے مرد سےچوری چھپے  شادی کرلی تو یہ شادی نہیں ہے ۔ اس عورت کا دوسرے مرد کے ساتھ رہنا زنا شمار ہوگا اور اس کی پاداش میں اگر دونوں شادی شدہ ہوں تو سنگسار کیا جائے گا۔افسوس اسلامی خلافت وعدالت نہ ہونے کی  وجہ سے زنا کو فروغ مل رہاہے ۔
زنا کے ارتکاب کے بعد بھی وہ عورت اب بھی پہلے والے مرد کی ہی بیوی ہے چاہے تو اسے رکھے یا طلاق دیدے ۔ یہاں مسلمان خاتون سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اسےاپنے شوہر سے کوئی شکایت ہے یا اس کے ساتھ زندگی نہیں  گزار سکتی  تو نکاح فسخ کرلے اور دوسری جگہ شادی کرلے ۔یہ اسلامی طریقہ ہے اوراس میں خیر وبھلائی ہے۔
سوال (3):ایک اجنبی مرد ایک اجنبی عورت کو راستہ چلتے کہیں سلام کرسکتا ہے ؟
جواب : اسلام میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم ہے جو محبت وسلامتی کا پیغام ہے۔ ایک مرد ،دوسرے مرد کو اور ایک عورت ،دوسری عورت کو سلام کرے حتی کہ مرد اپنی محرمات (عورت) سے بھی سلام کرسکتا ہے ۔ رہا مسئلہ اجنبی مرد کا اجنبی عورت کو سلام کرنے کا تو یہ اس وقت جائز ہوگا جب فتنے کا اندیشہ نہ ہو جیسے بوڑھی عورت کو سلام کرنا یا عورتوں کی جماعت پر سلام کرنا ۔اجنبی مرد کا  جوان لڑکی یا خوبصورت عورت کو سلام کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے ۔ اگر کسی نے ایسی عورت کو سلام کرلیا تو جواب نہیں دینا چاہئے ۔
سوال (4):کیا ہرماہ کے شر سے بچنے کی یہ دعا "اللھم انی اعوذبک من شر ھذا الشھر وشر القدر" (اسے اللہ میں تیری پناہ لیتا ہوں اس مہینہ کی برائی سے اور تقدیر کی برائی سے ) ثابت ہے ؟
جواب : اس معنی کی کئی روایتیں وارد ہیں اور وہ چاند دیکھنے کے سلسلے میں آئی ہیں ان میں سے کوئی روایت صحیح نہیں ہے ، سب کی سب ضعیف ہیں ۔ مجمع الزوائد اور الجامع الصغیر وغیر ہ میں یہ  دعا وارد ہے ۔
"اللهمَّ إنِّي أسألُك مِن خيرِ هذا الشَّهرِ وخيرِ القَدَرِ وأعوذُ بك مِن شرِّه"
ترجمہ: اے اللہ میں اس ماہ کی بھلائی اور تقدیر کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔(سلسلہ ضعیفہ : 3507، ضعیف الجامع :4408)
سوال (5):کیا عورت لوہے کی چوڑی جس پر سونے کا پانی چڑھا ہو پہن سکتی ہے اور اس میں نماز درست ہے ؟
جواب : عورتوں کا لوہے کی چوڑی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ اس پر سونے کا پانی چڑھا ہو یا نہیں چڑھا ہو اور اس میں نماز بھی درست ہے ۔ فقہ حنفی میں عورتوں کے لئے لوہے کی انگوٹھی پہننا اور اس میں نماز پڑھنا مکروہ لکھا ہے مگر اس بات کی قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے۔   
سوال (6):آج کل بے حیائی والے مشاعروں میں جہاں لڑکیوں کو صرف حسن وجمال کی وجہ سے دعوت دی جاتی ہے انہیں سننے کے لئے مسجد کے امام اور اسٹیج کے مقررین بھی جاتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنااور تقریر کرانا کیسا ہے؟
جواب : آج کل  کےمشاعرے واقعی بے حیائی کے اڈے ہیں ، اس میں شر کے علاوہ ذرہ برابر بھی خیر نہیں ہے ، اس قسم کی کوئی بھی  جگہ ہو ہر مسلمان کو بچنا چاہئے اور جو لوگوں کے امام وپیشوا ہیں انہیں تو بطور خاص بچنا چاہئے ۔ آپ کسی امام یا مقرر کے متعلق بے حیائی والے مشاعروں میں جانے کی خبر رکھتے ہیں تو پہلے آپ انہیں تنبیہ کریں  مان جائے تو ٹھیک ورنہ امامت وخطابت سے معزول کریں تاہم جب تک وہ نماز پڑھائیں ان کے پیچھے نماز ہوجائے گی ۔
سوال (7):مجھے ان بچوں کا نام چاہئے جو بچپن میں بولے ہیں ۔
جواب : مسند احمد، طبرانی ، ابن حبان اور حاکم میں فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا ایک واقعہ ہے جس کی سند صحیح ہے ،اس کا آخری ٹکڑا ہے ۔
‏‏قَالَ ‏‏ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما : ‏تَكَلَّمَ أَرْبَعَةُ صِغَارٍ : ‏‏عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ‏‏عَلَيْهِ السَّلام ،‏ ‏وَصَاحِبُ ‏جُرَيْجٍ ،‏ ‏وَشَاهِدُ ‏‏يُوسُفَ ‏، ‏وَابْنُ ‏مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ۔
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جن چارچھوٹے بچوں نے بات کی وہ یہ ہیں۔(1)عیسی بن مریم علیہ السلام(2)صاحب جریج(3)یوسف کی گواہی دینے والا(4)فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا بیٹا
سوال (8):کیا مہر میں زیور دے سکتے ہیں ؟
جواب : زیور مہر کے طور پر دے سکتے ہیں کیونکہ مہر کی نوعیت متعین نہیں ہے اور نہ ہی کمی بیشی کی کوئی حد ہے تاہم حیثیت کے مطابق بہترین چیز عورت کو مہر میں دے ۔ زیور مہر کی صورت میں دینے کے لئے پہلے بات طے کرلے تاکہ بعد میں لوگ اسے ہدیہ نہ سمجھیں اور پھر مہر کے لئے تنازع پیدا ہوجائے ۔
سوال (9):تین سورتوں میں اسم اعظم آیا ہے اس کی وضاحت کریں ۔
جواب : ابن ماجہ میں حسن درجے کی روایت ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
اسمُ اللهِ الأعظمُ الَّذي إذا دُعِي به أجاب في سورٍ ثلاثٍ البقرةُ وآلُ عمرانَ وطه(صحيح ابن ماجه:3124)
ترجمہ:اللہ کا عظیم ترین نام (اسم اعظم) جس کے ذریعہ دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے وہ تین سورتوں میں ہے ۔ سورہ بقرہ ، سورہ آل عمران اور سورہ طہ ۔
ابن ماجہ کی دوسری روایت میں دوسورتوں کی آیت کی بھی تحدید ہے ، سورہ بقرہ " وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ " (آیت:163)، سورہ آل عمران " اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ " (آیت:2) اور تیسری سورت طہ کی آیت علماء یہ آیت " وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ " (آیت:111) بتلاتے ہیں ۔
سوال (10):سوشل  میڈیاسے جڑی عورتوں کو چیٹ کرنے کے سلسلے میں آپ کیا نصیحت کرتے ہیں ؟
جواب : سب سے پہلے عورتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ  سوشل میڈیا  کے اسی حصہ سے جڑیں جہاں آپ کے لئے امن زیادہ ہواور عزت وآبرو محفوظ ہو مثلا ٹویٹریا گوگل پلس ۔ فیس بک عورتوں کے لئے زیادہ خطرناک ہے اس سے دور رہیں تو بہتر ہے ۔ جو خواتین سوشل میڈیا پہ ہیں انہیں چیٹ کرتے ہوئے وہ آداب بجالانا ہے جو کسی سے بات کرتے ہوئے ملحوظ رکھنا ہے ۔  بلاضرورت چیٹ نہ کریں اور اجنبی و غیرمعروف مردوں سے تو بالکل نہیں ،ضرورت پڑنے پر مختصر الفاظ میں صرف دیندارمعروف عورتوں سے چیٹ کریں ، کوئی دینی جانکاری جو عورتوں سے نہیں مل سکی اس بابت کسی دین وامانت میں معروف عالم سے پوچھیں ۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت فوائد ہیں وہیں بہت نقصانات بھی ہیں اس کا صرف مثبت استعمال کریں اور عزت وآبرو کا خیال کرتے ہوئے تنہائی میں ہمیشہ اللہ کا خوف کھاتے رہیں ۔
سوال (11):سجدے میں قرآنی دعا پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : رکوع اور سجدہ میں قرآن کی تلاوت ممنوع ہے لیکن دعا کی نیت سے قرآنی دعائیں سجدہ میں پڑھ سکتے ہیں خواہ وہ فرض نماز ہو یا نفل نماز ہو۔
سوال (12) : مغرب کی نماز کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ کیا چھ رکعت نماز اوابین پڑھنے  کا ثبوت ملتا ہے ؟
جواب : نماز چاشت ہی نماز اوابین ہے جو سورج بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے اور زوال سے پہلے تک رہتا ہے تاہم تاخیر سے پڑھنا بہتر ہے ۔ مسلم شریف میں ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: صلاةُ الأوَّابينَ حين ترمَضُ الفِصالُ(صحيح مسلم:748)
اوابین کی نماز اس وقت پڑھی جائیگی جب اونٹ کا بچہ سخت گرمی میں کُھر جلنے کے سبب اپنی ماں کا دودھ چھوڑ دے۔
یہ حدیث صریح ہے کہ اوابین کا وقت دھوپ کے وقت ہے مغرب کا بالکل نہیں ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں حنفی حضرات  جو اوابین کے نام سے مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کرتے ہیں بالکل غلط ہے۔مغرب کے بعد چھ رکعات نوافل پڑھنے کا ذکر ملتاہے مگر وہ سخت ضعیف ہے ۔
من صلَّى ستَّ رَكَعاتٍ ، بعدَ المغرِبِ ، لم يتَكَلَّم بينَهُنَّ بسوءٍ ، عدَلَت لَه عبادةَ اثنتَي عَشرةَ سنةً۔ ( ترمذی: 435،ابن ماجہ:256)
ترجمہ:جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اوران کے درمیان کوئی بری بات نہ کی تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگا۔
یہ حدیث عمل کرنے کے لائق نہیں ہے کیونکہ یہ سخت ضعیف ہے دیکھیں :(ضعيف ابن ماجه:256)
مکمل تحریر >>