Tuesday, October 31, 2017

اسلامیات کے پانچ سوالات اور ان کے مختصر جوابات

اسلامیات کے  پانچ سوالات اور ان کے مختصر جوابات
جواب از مقبول احمد سلفی

سوال (1): کیا خواتین حضرات مرد علماء کی تقریر سن سکتی ہیں ؟
جواب : عورت کا مرد کی تقریر سننے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اصل مسئلہ مرد کو دیکھنے کا ہے  یعنی عورت   اجنبی مرد کو دیکھتے ہوئے تقریر سن سکتی ہے کہ نہیں یا یوں کہہ لیں کہ عورت اجنبی مرد کا چہرہ دیکھ سکتی ہے کہ نہیں ؟۔ اس میں اختلاف ہے کہ عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے کہ نہیں ؟ صحیحین کی روایت سے دیکھنےکی دلیل ملتی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
رأيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم يستُرُني ، وأنا أنظرُ إلى الحبشةِ ، وهم يلعبون في المسجدِ( صحيح البخاري:987)
ترجمہ: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا وہ مجھے چھپائے ہوئے تھے اور میں ان حبشی مردوں کو جو مسجد نبوی میں کھیل رہے تھے دیکھ رہی تھی۔
عورت کو نگاہیں نیچی کرنے اور مردوں کو نہ دیکھنے کا بھی حکم آیا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حکم لگے گا کہ ضرورتا ً عورت کا اجنبی مردوں کو دیکھنا جائز ہے مگر بلاضرورت دیکھنا منع ہے اور شہوت کی نظر سے دیکھنا تو سخت گناہ کا کام ہے ۔
سوال (2): گھر میں چھپکلی ہو تو اسے مار دینا چاہئے اور کیا اس کے مارنے  پر ثواب ملتا ہے ؟
جواب : چھپکلی کو مارنا چاہئے کیونکہ نبی ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گھر میں چھپکلی مارنے  کے لئےنیزہ رکھتی تھیں۔ حدیث میں وزع کا لفظ آیا ہے جو چھپکلی کے معنی میں ہے یایہ چھپکلی کی ایک قسم ہے جو گھروں میں رہتی ہے اسی قسم کی چھپکلی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مارا کرتی تھیں ۔ مسلم شریف کی روایت ہے ۔
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أمر بقتلِ الوزَغِ . وسمَّاه فُوَيسِقًا .(صحيح مسلم:2238)
ترجمہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وزغ(چھپکلی) کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے فاسق قرار دیا ہے۔
اور چھپکلی کے مارنے پر ثواب ملتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قتل وزَغًا في أولِ ضربةٍ كُتبت لهُ مائةُ حسنةٍ . وفي الثانيةِ دون ذلك . وفي الثالثةِ دون ذلك( صحيح مسلم:2240)
ترجمہ: جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے ، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی ، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔
سوال (3): علم غیب عطائی کیا ہے ؟
جواب : جو لوگ نبی ﷺ کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے علم غیب کی دو قسم کرتے ہیں کیونکہ اپنی عوام کو جھوٹی باتوں سے  بہلانے پھسلانے کا یہی مناسب بہانہ ہے ۔ ایک غیب ہے ذاتی اور دوسرا غیب ہے عطائی ۔ صوفیوں کا کہنا ہے کہ ذاتی غیب تو اللہ کے پاس ہے مگر عطائی غیب نبی ﷺ کے پاس ہے یعنی اللہ نے نبی ﷺ کو غیب کا علم عطا  کیا ہے اس طرح نبی ﷺ بھی عالم الغیب ہوئے ۔ قرآن وحدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالی ہے ، یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالی نے نبی ﷺکو  غیب کی خبریں بتائیں تو یہ وحی اور رسالت کے قبیل سے ہے ، کسی کو اگر غیب کی چند باتیں بتائی جائے تو وہ عالم الغیب نہیں کہلائے گا۔ قرآن میں ایک طرف اللہ تعالی نے علم غیب کو اپنی صفت بتلایا ہے تو دوسری طرف محمد ﷺ کی ذات  گرامی سے علم غیب کی نفی کی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ (الحشر:22(
ترجمہ: وہ اﷲ ہی ہے نہیں کوئی معبود سوائے اس کے ، جاننے والا غائب وحاضر کا بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔
اس آیت میں اللہ نے علم غیب کو اپنی صفت بتلایا ہے ، دوسرا فرمان ہے :
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الانعام:50(
ترجمہ: اے نبی ! آپ لوگوں سے کہہ دیں ! نہیں کہتا میں تم سے کہ میرے پاس اﷲکے خزانے ہیں اور نہ جانتا ہوں میں غیب اور نہ کہتا ہوں میں تم سے کہ میں فرشتہ ہوں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو وحی کیا جاتا ہے میری طرف پوچھو (ان سے)کیا برابر ہوسکتاہے اندھا اور آنکھوں والا؟کیا تم غور نہیں کرتے ؟
اس آیت میں اللہ نے کہا کہ محمد ﷺ غیب نہیں جانتے جو کچھ ان کے پاس ہے وحی ہے یعنی  محمد ﷺ کی ذات سے علم غیب کی نفی کی ہے مطلب یہ ہوا کہ علم غیب اللہ کی صفت ہے اسے کسی  دوسرےمیں تسلیم کرنا اللہ کی صفت کو مخلوق کی صفت سے تشبیہ دینا ہے ۔ اسی لئے ہم اہل حدیث نبی کی لائی ہوئی تمام باتوں کو  وحی کہتے ہیں جیساکہ اللہ نے فرمایا: وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ(النجم:3-4)
ترجمہ: اوروہ نبی اپنی خواہش سے تو بولتے ہی نہیں یہ تو وحی ہے جو کہ ان کی طرف وحی کی جاتی ہے ۔
بحث کے طور پر تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ آپ ﷺ کو علم غیب عطائی ہے بطور مثال آپ ﷺ کو غیب کی چند باتیں عطا کی گئیں تو اس کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ  غیب کی جتنی خبر آپ ﷺ کو عطا کی گئی  اس کے علاوہ غیب کی دوسری کوئی بات نہیں جانتے ہیں کیونکہ عطا اسی کو کہیں گے تو مل جائے اور جو نہ ملے وہ عطا نہیں ہے ۔ ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ نبی ﷺ کو طائف میں لہولہان کیاگیا، احد میں دانت شہید کیا گیا، جبل رماۃ پہ جنہیں آپ نے مامور کیا انہوں وہ جگہ چھوڑ دی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی ،سترقاریوں کو آپ نے تعلیم دینے کے لئے  بھیجا وہ شہید کردئے گئےوغیرہ اگر آپ غیب جانتے تو یہ حالات کبھی نہ  پیدا ہوتے ۔  
سوال (4) : نماز میں نبی کا خیال آنے پر نماز ہوجائے گی ؟
جواب : نبی ﷺ نے  امت کو اپنی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے او ر نماز اللہ کے لئے پڑھی جاتی ہے گویا ہم نماز میں اللہ کا دھیان رکھ کر رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ادا کریں گے ۔ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ بلاشبہ نماز میں نبی ﷺ اور آپ کی سنت کا خیال آئے گا اس کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ باقاعدہ درود میں آپ ﷺ کا نام تک آیا ہے جسے قعدہ میں پڑھا جاتا ہے ۔ایسا ہوسکتا ہےکہ محمد کا نام آئے توجہ اس طرف چلی جائے مگر آپ کی طرف خیال کرکے اس میں ڈوب جانایا قصدا ًنماز میں آپ کا خیال لانا  یہ منع ہے ۔
سوال (5): کیا انما المومنون اخوۃ(سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں) کے تحت نبی ہمارے بھائی ہیں ؟
جواب : دین وایمان کے رشتے سے تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں  خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ بخاری شریف کی اس روایت سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے ۔
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خطبَ عائشةَ إلى أبي بكرٍ ، فقالَ له أبو بكرٍ : إنَّمَا أنا أخوكَ ، فقالَ : أنتَ أخي في دينِ اللهِ وكتَابِهِ ، وهيَ لي حلالٌ .(صحيح البخاري:5081)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے شادی کے لئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں آپ کا بھائی ہوں ۔ ( تو عائشہ سے کیسے نکاح کریں گے ) ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے رشتہ سے تم میرے بھائی ہو اور عائشہ میرے لئے حلال ہے ۔
مکمل تحریر >>

Thursday, October 26, 2017

بیوہ خاتون کے احکام ومسائل

بیوہ خاتون کے احکام ومسائل

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف(مسرہ)

بیوہ اس خاتون کو کہتے ہیں جس کا شوہر وفات پاجائے ۔ ایسی خاتون کے لئے شوہر کی وفات بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ۔ ایک طرف والدین کا گھر چھوٹ چکا ہوتا ہے یعنی ان کی معاشی کفالت سے آزاد ہوکر شوہر کی کفالت میں آچکی ہوتی ہے تو دوسری طرف زندگی کی تنہائی، بچوں کی پرورش وپرداخت اور گھر کے اخراجات جیسے اہم مسائل اس کے سامنے ہوتے ہیں ۔ ایسے صبر آزما مرحلہ میں اولین وقت پر صبر کرنے والی عورتوں کو اللہ کی طرف سے اجر وثواب ملتا ہے ۔ بخاری شریف میں ایک عورت کا کسی قریبی کی وفات پر رونے کا ذکر ملتا ہے، مسلم شریف میں بچے کی وفات پر رونے کا ذکر ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
مرَّ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بامرأةٍ تبكي عند قبرٍ ، فقال : اتَّقي اللهَ واصبري قالت : إليكَ عَنِّي ، فإنكَ لم تُصَبْ بمصيبتي ، ولم تعرفْهُ ، فقيل لها : إنَّهُ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فأتت باب النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فلم تجد عندَهْ بوَّابِينَ ، فقالت : لم أعرفْكَ ، فقال : إنما الصبرُ عند الصدمةِ الأولى .(صحيح البخاري:1283)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تو اب وہ ( گھبرا کر ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے۔
جو اللہ کی طرف سے فیصلہ ہوجاتاہے وہ ہوکر رہتاہے ،اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ، ایک مومن کو اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا ہے اور آنےوالی مصائب ومشکلات پر صبر کرنا ہے اور مذکورہ حدیث سے ہم نے جان لیا کہ صبر بعد میں نہیں مصیب کے نزول کے وقت ہی کرنا ہے ۔وفات پر یا نزول بلا پر آنکھوں سے آنسو بہ جائے ، بے اختیار رونا آجائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر قصدا پھوٹ پھوٹ کر دیر تک روتے رہنے ،آہ وبکا کرتے رہنے، جزع فزع کرنے ، زبان سے برے کلمے نکالنے اور نامناسب کام کرنے سے صبر کا اجر ضائع ہوجائے گا۔میت کی بیوہ یا ا س کے کسی رشتہ دار کو میت کے پاس جزع فزع کرنے کی ممانعت ہے ، وہاں چیخنے چلانے کی بجائے میت کے حق میں دعائے خیر کرنا چاہئے ۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان کے گھر والے چیخنے چلانے لگے تو آپ ﷺنے فرمایا:
لا تَدعوا علَى أنفسِكُم إلَّا بِخيرٍ ، فإنَّ الملائِكَةَ يؤمِّنونَ على ما تَقولون ثمَّ قالَ : اللَّهمَّ اغفِر لأبي سلَمةَ وارفع درجتَهُ في المَهْديِّينَ ، واخلُفهُ في عقبِهِ في الغابِرينَ ، واغفِر لَنا ولَهُ ربَّ العالمينَ ، اللَّهمَّ افسِح لَهُ في قبرِهِ ، ونوِّر لَهُ فيهِ(صحيح أبي داود:3118)
ترجمہ: اپنے لیے بد دعائیں مت کرو بلکہ اچھے بول بولو کیونکہ جو تم کہتے ہو اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بطور دعا ) فرمایا: اے اللہ ! ابوسلمہ کی بخشش فرما، ہدایت یافتہ لوگوں کے ساتھ اس کے درجات بلند کر اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں تو ہی اس کا خلیفہ بن ۔ اور اے رب العلمین ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما، اے اللہ ! اس کی قبر کو فراخ اور روشن کر دے ۔
اسی طرح مصیبت لاحق ہونے کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئے ۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا أصابَ أحدَكم مصيبةٌ فليقل إنَّا للَّهِ وإنَّا إليهِ راجعونَ اللَّهمَّ عندَك أحتسبتُ مصيبتي فأجرني فيها وأبدلني منها خيرًا. (صحيح الترمذي:3511)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کوکوئی مصیبت لاحق ہو تو اسے : "إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيهَا وَأَبْدِلْنِي مِنْهَا خَيْرًا"پڑھنا چاہئے۔
ایسے وقت میں سماج کے دوسرے افراد کو چاہئے کہ بیوہ کو دلاسہ دے اور اس کی تعزیت کرے اور اگر سماج میں مجبور ولاچار قسم کی بیوائیں ہیں تو سماج کے ذمہ دار طبقوں کی  ذمہ داری ہے کہ ان کی خبر گیری کرے اور ان کے ماتحتوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرے ۔
سطور ذیل میں ہم بیوہ خاتون کے احکام ومسائل بیان کرنے جارہے ہیں تاکہ ہمیں اس سلسلے میں اسلام کی رہنمائی سے آگاہی رہے ۔اسے ہم چند مسائل کے تحت ذکر کریں گے۔
پہلا مسئلہ :
بیوہ کا پہلا مسئلہ عدت سے متعلق ہے اور اس میں چند امور قابل ذکر ہیں ۔
(1)شوہر کے انتقال پہ بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
یہ عدت چار مہینے دس دن (ایک سو تیس دن تقریبا)ان تمام بیوہ عورت کی ہے جو بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی خواہ حیض والی ہو یا غیر حیض والی اور مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ البتہ اگر حاملہ ہے تو پھر عدت وضع حمل ہوگی یعنی عورت حمل وضع کرتے ہی عدت پوری ہوجائے گی جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ(الطلاق:4)
ترجمہ: اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔
(2) عدت کی شروعا ت اس دن سے ہوگی جب شوہر کی وفات ہوئی ہے ۔ اگر کسی بیوہ کو کچھ دن تاخیر سے شوہر کی وفات کی خبر ملتی ہے توبھی عدت کی شروعات اسی دن سے مانی جائے گی جب وفات ہوئی ہو یعنی انجانے میں گزرے ایام بھی عدت میں شمار کئے جائیں گےاوراس درمیان عورت سے لاعلمی میں زینت کی چیزیں استعمال کرنے یا باہر نکلنے کی وجہ سے  وہ معذور ہے ۔
(3) اس میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیوہ اپنی عدت کہاں گزارے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیوہ عورت اس جگہ عدت گزارے گی جہاں شوہر کا انتقال ہواہے ۔ بیوہ کے لئے نبی ﷺ کا فرمان ہے :
امْكُثي في بيتِكِ الَّذي جاءَ فيهِ نعيُ زوجِكِ حتَّى يبلغَ الْكتابُ أجلَهُ(صحيح ابن ماجه:1664)
ترجمہ: تم اپنے اس گھر ميں عدت بسر كرو جہاں تمہيں اپنے خاوند كى موت كى خبر ملى تھى حتی کہ کتاب اللہ کی بیان کی ہوئی مدت پوری ہوجائے۔
(4) اگر شوہر نے طلاق رجعی دی تھی یعنی ایسی طلاق جس میں شوہر کورجوع کا اختیار ہوتا ہے، وہ پہلی اور دوسری طلاق ہے۔ اور دوران عدت شوہر کی وفات ہوگئی تو ایسی مطلقہ رجعیہ کو چار مہینے دس دن بطور عدت گزارنے ہیں ۔ ہاں اگرشوہر نے تیسری طلاق دیدی یا طلاق رجعی کی عدت ختم ہوگئی پھر شوہر کا انتقال ہوا تو اسے وفات کی عدت نہیں گزارنی ہے کیونکہ شوہر سے جدا ہوچکی ہے ۔
(5) عدت کے دوران سفر کرنا منع ہے اس لئے حج وعمرہ کا سفر ہویا تفریح کا سفر یا بلاضرورت سفر(گھر سےباہر نکلنا) ہو یہ سب بیوہ کے لئے دوران عدت ممنوع ہیں لیکن وہ ضرورت کے تحت سفر کرسکتی ہے مثلا شوہر کے گھر عدت گزارنا مامون نہ ہویا دوسرے کا گھر ہوتو مامون ومناسب جگہ منتقل ہوکر عدت گزارسکتی ہے ، اسی طرح کوئی ضرورت کی چیز لادینے والا نہ ہو تو خود سے باہر نکل کر اشیاء ضروریہ خرید سکتی ہے اور اگر بیمار پڑجائے تو علاج کی غرض سے بھی گھر سے نکل سکتی ہے یعنی بیوہ کے لئے دوران عدت ضرروت کے تحت باہر جانا جائز ہے ۔ایک اور بات اہم ہے کہ اگر عورت سفر پہ ہو اور ابھی دور نہیں گئی ہووہاں شوہر کی وفات کی خبر ملے تو سفر سے لوٹ جائے اور شوہر کے گھر عدت گزارے لیکن سفر ضروری ہواور منزل کے قریب پہنچ گئی ہومثلا حج یا عمرہ کا سفر تو اپنا حج وعمرہ مکمل کرلے ۔
دوسرا مسئلہ :
 بیوہ کے لئے جہاں چار ماہ دس دن عدت گزارنا ہے وہیں اس کے لئے ان دنوں  سوگ منانے کا بھی حکم ہوا ہے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے : لا يحلُّ لامرأةٍ تؤمنُ باللهِ واليومِ الآخرِ أنْ تحدَّ على ميِّتٍ فوقَ ثلاثِ ليالٍ ، إلَّا على زوجٍ أربعةَ أشهُرٍ وعشرًا (صحيح البخاري:5334)
ترجمہ: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، صرف شوہر کے لیے چار مہینے دس دن کا سوگ ہے ۔
اب ہمیں جاننا یہ ہے کہ سوگ منانے کا اسلامی طریقہ کیا ہے ؟  سوگ میں زینت اور بناؤسنگار کی چیزیں استعمال کرنا منع ہیں۔ خوشبو اور سرمہ سے بھی پرہیزکرنا ہےجیساکہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں ۔
كنا نُنْهَى أن نُحِدَّ على مَيِّتٍ فوق ثلاثٍ، إلا على زوجٍ أربعةَ أشهرٍ وعَشْرًا، ولا نَكْتَحِلَ، ولا نتطيبَ، ولا نلبَسَ ثوبًا مَصْبوغًا إلا ثَوْبَ عَصْبٍ، وقد رُخِّصَ لنا عند الطُّهْرِ، إذا اغتسلَتْ إحدانا من مَحِيضِها، في نُبْذَةٍ مِن كُسْتِ أظفارٍ، وكنا نُنْهَى عن اتباعِ الجنائزِ .(صحيح البخاري:313)
ترجمہ: ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب ( یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی ) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں ( عدت کے دنوں میں ) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں بیوہ عدت کے دوران رنگین وچمکدار کپڑے،ریشمی اور زعفرانی لباس،زینت کی چیزیں مثلا کان کی بالی، نان کا نگ، ،پازیب، کنگن، ہار،انگوٹھی، چوڑیاں، کریم ، پاؤڈر، خوشبودارتیل ، عطر، سرمہ ، مہندی وغیرہ استعمال نہیں کرے گی ۔حیض سے پاکی پر معمولی مقدار میں بخور وغیرہ استعمال کرسکتی ہےاور دوا کے طور پرسرمہ بھی استعمال کرسکتی ہے مگر صرف رات میں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ سوگ میں عورت پر غم کے آثار ظاہر ہوں اس وجہ سے زینت کی چیزیں استعمال کرنا منع ہے۔ سفید کپڑا ہی بیوہ کی علامت نہیں ہے کوئی بھی عام سادہ کپڑا جو خوبصورت نہ ہو پہن سکتی ہے اور ضرورت کی چیزیں انجام دینے مثلا کھانا پکانا، پانی بھرنے، جھاڑو دینے، غسل کرنے، کپڑا صاف کرنے ، بات چیت کرنے اور گھریلو امور انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کوئی ملازمت ہواور چھٹی کی کوئی گنجائش نہ ہو توبناؤسنگار سے بچتے ہوئے ملازمت بھی کرسکتی ہےکیونکہ یہ ضرورت میں داخل ہے۔ بلاضرورت بات چیت، ہنسی مذاق، گھر سے نکل کر کام کرنا (الایہ کہ اشد ضرورت ہو)،  ٹیلی ویزن ،ریڈیو ، اخبار اور موبائل کا بلاضرورت استعمال کرنا یعنی وقت گزاری کے لئے  منع ہے ۔ خالی وقت میں قرآن کی تلاوت، ذکرواذکار، دعاواستغفاراورکتب احادیث وسیر کا مطالعہ بہتر ہے ۔
تیسرہ مسئلہ:
جب بیوہ کی عدت مکمل ہوجائے یعنی وہ بطور عدت ایک سو تیس دن پورے کرلے تو جہاں چاہے دوسرے دیندار مرد سے شادی کرسکتی ہے ۔ اس سے تنہائی کی حفاظت اور پاکدانی نصیب ہوگی نیزمعاش کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ سماج میں اولاد والی خاتون کا شادی کرنا معیوب مانا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ یہاں میں ان مردوں کو بھی مخاطب کرنا چاہتا ہوں جن کی بیوی کی وفات ہوگئی وہ کسی بیوہ خاتون سے شادی کرکے اپنی اور اس کی زندگی بہتر بنالیں ۔ بیوہ سے کوئی ضروری نہیں ہے کہ شادی شدہ مرد ہی شادی کرے ، غیرشادی شدہ مرد بھی شادی کرسکتا ہے ۔ نبی ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا آپﷺ غیر شادی شدہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوہ تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بیوہ خاتون سے آپ ﷺ نے نکاح کیا۔
یہاں یہ خیال رہے کہ دوسری شادی عدت کے بعد ہی ہوگی ، عدت کے دوران نکاح اور پیغام نکاح دونوں غلط ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ دونوں کو ولی کی اجازت لینی ہوگی۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ" نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
چوتھا مسئلہ :
شوہر کی وفات کے بعداس کا چھوڑا ہوا مال اس کے وارثین میں تقسیم کیا جائے گا۔ وارثین میں بیوہ بھی داخل ہے۔ اگر بیوہ کو اولاد ہو تو کل مال کا آٹھواں حصہ ملے گا لیکن اگر کوئی اولاد نہ ہو تو چوتھائی مال کا مستحق ہے۔ میت کی ایک سے زائد بیویاں  ہوں تو آٹھواں یا چوتھائی حصہ میں سے سب برابر برابرمال لے گی۔ میراث اس بیوہ کو بھی ملے گا جس سے صرف عقد ہوا ہو اور شوہر نے دخول نہیں کیاہو، اسی طرح مطلقہ رجعیہ بھی میراث کا مستحق ہے۔
پانچواںمسئلہ :
 بیوہ سے متعلق لوگوںمیں کئی قسم کی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں اس میں ان کا ازالہ کیاجاتا ہے۔
(1) عورتوں میں ایک خیال عام ہے کہ بیوہ کو لازما سفید کپڑا ہی پہننا ہوگا ، اسی عقیدہ کے تحت بہت سی بیوہ خواتین جو دوسری شادی نہیں کرتیں مرتے دم تک سفید لباس ہی لگاتی ہیں جبکہ یہ خیال غلط ہے ۔ کالا، ہرا، نیلا کوئی بھی سادہ لباس بیوہ عدت میں لگاسکتی ہے۔
(2) بیوہ کا مردوں سے بات کرنا یا موبائل وٹیلی فون سے رابطہ کرنا بھی  برا سمجھا جاتا ہے ۔ یہ خیال بھی درست نہیں ہے ،ہاں بس ضرورت کی حد تک بات کرے۔
(3) گھر میں بغیر چپل کے چلنا، چاندنی رات میں نکلنا یا ہفتہ میں ایک سے زائد بار نہانا غلط تصور کیا جاتا ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ بیوہ چیل وبغیر چل سکتی ہے، چاندنی رات میں گھر کے آنگن یا چھت پہ ٹہل سکتی ہےاور جتنی بار نہانے کی ضرورت ہو نہا سکتی ہے۔ نہانے میں بغیر خوشبو کے صابن استعما ل کرے۔
(4) عدت مکمل کرنے پر مخصوص طریقہ بھی کہیں کہیں رائج ہے مثلا ضرروی طور پر نہانا، ضروری طور پر خوشبو استعمال کرنایا  لازما خواتین میں زینت کا اظہار کرنا ، یہ سب دین اسلام میں سے نہیں ہے یعنی عدت مکمل کرنے کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ دوسروں کی جانکاری کے لئے لازما زینت استعمال کرے۔
(5) بیوہ کو حقارت کی نظر سے دیکھنا یا اس کے شوہر کی وفات سے کسی قسم کی نحوست لینا بھی بے دینی وجہالت ہے ۔
(6) بیوہ سے شادی یا بیوہ کی شادی بھی نادانوں کی نظر میں غلط معلوم ہوتی ہے حالانکہ شادی  سکون ، عفت، برکت، روزی اور بے حیائی سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
(7) ایک بھیانک غلط خیال یہ بھی عوام الناس میں منتشر ہے کہ شوہر کی وفات سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اس لئے میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوجاتے ہیں لہذا بیوی شوہر کو چھو نہیں سکتی، دیکھ نہیں سکتی، غسل نہیں دے سکتی ۔ یہ ساری باتیں غلط ہیں ۔ شوہر سے نکاح ٹوٹ جانے کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی زوجین ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں ۔ وفات کے بعد بیوی شوہر کو دیکھ سکتی ہے ، چھو بھی سکتی ہے اور نہلا بھی سکتی ہے۔
بیوہ سے متعلق یہ مختصر احکام تھے ، ان کی جانکاری دوسروں کوبھی دیں تاکہ لوگوں میں بیوہ کے دینی احکام عام ہوں اور لوگ جہالت سے بچ سکیں ۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, October 17, 2017

آپ کے سوالات اور شیخ مقبول احمد سلفی کے جواب

آپ کے سوالات اور شیخ مقبول احمد سلفی کے جواب

جواب از مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

سوال (1): بڑھاپے میں دو نمازوں کو اکٹھا کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اہل علم نے دو نمازوں کو جمع کرنے کے چھ اسباب ذکر کئے ہیں وہ سفر، بارش، کیچڑ اندھیرے کے ساتھ، بیماری ، عرفہ اور مزدلفہ ہیں۔بڑھاپا بھی مرض ہی ہے ، بڑھاپا ایسا ہو کہ اپنے وقت پہ نماز ادا کرنا آسان ہو تو پانچوں نمازوں کو اپنے اوقات میں ادا کریں گے لیکن اگرنمازوں کو اپنے وقت پہ پڑھنے میں مشقت ہو تو دو نمازیں جمع تقدیم یا جمع تاخیر سے ادا کرسکتے ہیں ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی بڑی عمر کا عاجز شخص ہے تو ظہر وعصر کو ایک وقت میں اور مغرب وعشاء کو ایک وقت میں جمع کرکے پڑھنے میں اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ ہرنماز کو اپنے وقت پر پڑھنے سے عاجز ہے۔ (موقع شیخ ابن باز ، حكم صلاة المتقدمين في السن الذين يصلونها في غير وقتها)
سوال (2): کیاغیر مسلم رفاہی ادارے کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کی شادی کرائی جاسکتی ہے ؟ یہ شادیاں ایک محفل میں اجتماعی صورت میں ہوتی ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : بہت سارے ممالک میں غیرمسلموں میں بھی ایسے فلاحی ادارے ہیں جو مسلم وغیرمسلم کی تفریق کئے بغیر سماجی کام کرتے ہیں ، اگر یہ ادارے مخلص ہوں یعنی اس کے پیچھے کوئی دھوکہ نہ ہو اور حلال پیسوں سے غریبوں کا تعاون کرتے ہوں تو غریب مسلمانوں کو ان اداروں سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ کسی غریب بچی کی شادی کرنی ہو تو اس قسم کے مخلص اداروں سے تعاون لیا جا سکتا ہے ۔ ہاں اجتماعی صورت میں شادی ہو تو یہ خیال کرنا پڑے گا کہ وہاں فحش ومنکر نہ ہو۔
سوال (3): فاسق و فاجر کسے کہتے ہیں اور ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟
جواب : فاسق فسق سے بناہوا ہے اور فسق کہتے ہیں اللہ کی اطاعت سے نکل جانا ، اس طرح فاسق کا معنی ہوا ،معصیت اور کبیرہ گناہوں کے ذریعہ اللہ کی اطاعت سے نکل جانے والا۔
فاجر ، فجور سے ہے یہ بھی معصیت ونافرمانی اور کبائر کا نام ہے مگر فسق سے زیادہ شدید ہے جیسے حدیث میں جھوٹ کے متعلق ذکر ہے "الکذب یھدی الفجور" یعنی جھوٹ فجور کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ اور جھوٹ اسلام میں شدید قسم کی معصیت ہے مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور جو جھوٹ بولتا ہے اسے ہدایت نہیں ملتی ۔ اس طرح فاجر کا معنی ہوگا معصیت او ر کبائر کے ذریعہ اللہ کی نافرمانی سے نکلنے والا۔ فاسق وفاجر میں ایک فرق شدت گناہ کا ہے تو دوسرا فرق فاجر ،فاسق کے مقابلہ میں گناہ پر مصر رہنے والا ہے ۔
سوال(4): بنگلور میں مسلمانوں کی امبیٹینڈ نام سے ایک کمپنی ہے وہ شیئر مارکیٹ اور زمینات میں رقم لگاتی ہےیا حلال چیزوں میں انوسٹ کرتی ہے، اس کمپنی میں ایک لاکھ روپیہ لگانے سے ماہانہ گیارہ سے تیرہ ہزار منافع ملتا ہے کیا اس میں انوسٹ کرنا جائز ہوگا؟
جواب : امبیٹینڈ کمپنی اگر ایسے شیئر مارکیٹ میں پیسہ لگاتی ہے جس کا کاروبار سود سے پاک اور حلال چیزوں کا ہے یا جہاں کہیں بھی انوسٹ کرتی ہے وہ حلال چیز یا حلال کام ہے تو آپ کا اس کمپنی میں انوسٹ کرنا جائز ہے اور طے شدہ منافع لینا بھی جائز ہوگا بشرطیکہ نقصان کی صورت میں اس میں شریک رہا جائے ۔
سوال (5): ایک ایسے آدمی سے قرض لیکر عمرہ کرنا جائز ہے جس کے متعلق حرام کمائی کا شبہ ہے ساتھ ہی یہ بھی معلوم رہے کہ اس کی بیمار ماں عمرہ پہ آرہی ہے اس سے ملے کئی سال ہوگئے وہ اپنی ماں سے ملاقات کرنے اپنا ملک نہیں جاسکتا کیونکہ اس پہ مقدمہ چل رہاہے ؟
جواب : ماں سے ملاقات کرنے کو عمرہ نام نہ دیا جائے بلکہ ملاقات  یا عیادت نام دیا جائے ، آپ اس شخص سے قرض لیں جو حلال کمائی کرتا ہو ، ایسا قرض ملنا مشکل ہو تو  اپنا کوئی سامان بیچ کر یا گروی رکھ کر کہیں سے رقم حاصل کریں ۔ لیکن اگر آپ کے پاس بیچنے کے لئے یا گروی رکھنے کے لئےبھی  کوئی سامان نہ ہو یعنی آپ خود محتاج ہوں تو ایسی مجبوری میں ایسے شخص سے ضرورت بھر پیسہ لے سکتے ہیں جس کی کمائی میں شبہ ہو یعنی اس کا مال حلال وحرام میں مکس ہو ۔ مکہ پہنچ کر ملاقات کرلیں ، حالات کا جائز لے لیں وہاں سے اگر عمرہ کا ارادہ بنے تو عمرہ بھی کرلیں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال (6): کیا یہ حدیث صحیح ہے ، نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ سفید بال نہ چنا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن نور ہوں گے۔ جس شخص کا جو جو بال سفید ہوتا گیا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کیلئے ایک نیکی لکھیں گے، ایک گناہ معاف کریں گے اور ایک درجہ بلند کریں گے۔ (ابن حبان عن ابی ہریرہؓ(
جواب : ہاں یہ حدیث صحیح ہے ، شیخ البانی نے اسے صحیح الجامع میں ، صحیح ابوداؤد میں اور صحیح الترغیب وغیرہ میں صحیح کہا ہے ۔ متن وترجمہ پیش ہے ۔
لا تنتِفوا الشَّيبَ ما من مسلِمٍ يشيبُ شيبةً في الإسلامِ إلَّا كانت لَهُ نورًا يومَ القيامةِ إلَّا كتبَ اللَّهُ لَهُ بِها حسنةً وحطَّ عنهُ بِها خطيئةً(صحيح أبي داود:4202)
ترجمہ: سفید بال مت نوچا کروجس کسی مسلمان کے بال حالت اسلام میں سفید ہو جائیں قیامت کے دن یہ اس کے لیے نور کا باعث ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ایک ایک بال کے عوض اس کی نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ دور کرتا ہے ۔
سوال (7): میرا امتحان ڈھائی بجے سے پانچ بجے تک ہے اس دوران عصر کا وقت ہوجارہاہے ، کیا میں ظہر کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ سکتا ہوں ؟
جواب : امتحان ایسا عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے دو نمازوں کو آپ جمع کرسکتے ہیں ، آپ اپنے امتحان میں شریک ہوجائیں اور امتحان دینے کے بعد جب فارغ ہو ں اس وقت عصر کی نماز پڑھ لیں ۔ عصر کا وقت سورج ڈوبنے کے وقت تک رہتا ہے ۔
سوال (8):خوشی کے موقع پر بچوں کو پھول پہنانا کیسا ہےمثلا حفظ قرآن کی تکمیل کے وقت؟
جواب : کسی کی اچھی کارگردگی پر بطور تشجیع پھولوں کا ہار ، سرٹیفیکیٹ، اوارڈ اور نقود وغیرہ پیش کئے جائیں تو میرے خیال سے اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے ۔ ہاں اگر پھولوں کا ہار پہنانے میں کوئی مخصوص رسم ادا کی جاتی ہے  یا اس میں کسی غیر قوم کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے تو پھر اس صورت میں اسے ترک کردینا اولی ہے۔
سوال (9): ایک سے زائد بیویاں ہوں تو شوہر کی خدمت تمام بیویاں ہمیشہ کرتی رہیں یا جسکی باری ہو وہی اپنے وقت پر خدمت کرے؟
جواب : باری مقرر کرنا حق زوجیت کی ادائیگی کے لئے ہے جبکہ شوہر کی خدمت بیویوں کے ذمہ ہمہ وقت واجب ہے اسے کسی ایک وقت سے یا کسی ایک بیوی کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتاہے ۔
سوال (10): شریعت میں شوہر کی فرمان برداری کا جو حکم ہے کیا وہ صرف بستر تک محدود ہے یا ہربات میں شوہر کی اطاعت ضروری ہے؟۔
جواب : شوہر کی اطاعت ہرجائز حکم کے ساتھ ہے ، کیا آپ کو نبی ﷺ کا یہ فرمان معلوم نہیں :
المرأةُ الصَّالحةُ إذا نظر إليها تسرُّه وإذا أمرَها أطاعتْهُ وإذا غاب عنها حفِظتْهُ(تخريج مشكاة المصابيح لابن الحجر: 2/250(
ترجمہ: نیک عورت وہ ہے جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش کردے اور جب حکم دے تو اطاعت بجالائے اور جب وہ غائب رہے تو اس کے اشیاء کی حفاظت کرے۔
ایک دوسری روایت  میں نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے :
إذا صلَّتِ المرأةُ خَمْسَها ، و صامَت شهرَها ، و حصَّنَتْ فرجَها ، وأطاعَت زوجَها ، قيلَ لها : ادخُلي الجنَّةَ مِن أيِّ أبوابِ الجنَّةِ شِئتِ( صحيح الجامع:660)
ترجمہ :جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی ‏حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ‏ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
ایک اور حدیث میں اس طرح آیا ہے حضرت حصین بن محصن کی پھوپھی بیان کرتی ہیں :
أتيتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ في بَعضِ الحاجةِ ، فقالَ : أي هذِهِ ! أَذاتُ بعلٍ ؟ قلتُ : نعَم ، قالَ : كيفَ أنتِ لهُ ؟ قالَت : ما آلوهُ إلَّا ما عجزتُ عنهُ , قالَ : [ فانظُري ] أينَ أنتِ منهُ ؟ فإنَّما هوَ جنَّتُكِ ونارُكِ(آداب الزفاف للالباني:213)
ترجمہ : میں کسی حاجت کیلئے خدمت نبوی میں حاضر ہوتی ہیں ، آپ نے سوال فرمایا : کیا تو شادی شدہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ، آپ نے فرمایا اپنے شوہر کے ساتھ تیرا معاملہ کیسا ہے ؟ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اسکے حق کی ادائیگی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی ، الا یہ کہ میرے بس سے باہر ہو ، آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا ، اسکے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا رہتا ہے ؟ وہ تمہارے لئے جنت یا جہنم کا سبب ہے ۔
سوال (11): جمعہ کے دن سورۃ الکھف کی فضیلت میں جس نور کا ذکر ہے اس نور سے کیا مراد ہے؟
جواب : جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت سے نور نصیب ہوتا ہے ، اس کا ذکر کسی صحیح احادیث میں ہے مثلا
٭نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
من قرأ سورةَ الكهفِ يومَ الجمعةِ أضاء له النُّورُ ما بينَه و بين البيتِ العتيقِ(صحيح الجامع: 6471)
ترجمہ :جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہو جاتی ہے۔
٭رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ سورةَ الكهفِ في يومِ الجمعةِ ، أضاء له من النورِ ما بين الجمُعتَينِ(صحيح الجامع:6470)
ترجمہ : جو جمعہ کے دن سور ة الکہف پڑھے،اس کیلئے دونوں جمعوں(یعنی اگلے جمعے تک)کے درمیان ایک نور روشن کردیا جائے گا۔
٭نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ(صحيح الترغيب للالبانی : 736)۔
ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہو جاتی ہے۔
یہاں نور سے مراد نور ہدایت ہے اس ہدایت کے نور سے معاصی اور منکرات سے آدمی  بچتا رہے گا۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے" نور مابین الجمعتین "کے متعلق کہا ہے کہ اس کا اثر اور ثواب برابر تمام ہفتے جاری و ساری رہے گا۔
سوال (12): عورت کو کتنے کپڑوں میں کفن دینا ہے اور ان کپڑوں کا نام کیا ہے ؟
جواب : عورت کو بھی مردوں کی طرح تین چادروں میں دفن کیا جائے گا ، عورت ومرد کے کفن میں فرق کرنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔ ابوداؤد میں پانچ کپڑوں سے متعلق ایک روایت ہے جسے لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ بیان کرتی ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کی بیٹی ام کلثوم کو غسل دیا تھا۔ اس روایت کو شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ضعیف قرار دیتے ہیں اور شیخ البانی نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ دیکھیں : )ضعيف أبي داود:3157(
اس لئے شیخ البانی نے احکام الجنائز میں عورت ومردکے لئے یکسان کفن بتلایا ہے اور کہا کہ فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ شرح ممتع میں ذکر کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کی طرح کفن دیا جائے گا یعنی تین کپڑوں میں ، ایک کو دوسرے پر  لپیٹ دیا جائے گا۔
سوال (13) کیا کسی شخص کے انتقال پر تعزیتی مجلس قائم کرنا یا کسی زندہ شخص کی حیات وخدمات پر سیمینار کرنا اسلام میں جائز ہے ؟
جواب : کسی کی تعزیت پہ مجلس قائم کرنا بدعت میں سے ہے ، نبی ﷺ کا واضح فرمان ہے : كنَّا نرى الاجتماعَ إلى أَهلِ الميِّتِ وصنعةَ الطَّعامِ منَ النِّياحة( صحيح ابن ماجه:1318)
ترجمہ: ہم لوگ میت والوں کے ہاں جمع ہونے کو اور ( جمع ہونے والوں کے لیے) کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتےتھے۔
اور کسی ایسے زندہ آدمی کی حوصلہ افزائی کرنا جن کی قابل قدر خدمات ہوں دعوت دے کر اور کچھ لوگوں کو جمع کرکے اس میں حرج نہیں ہے ، یہ بلاوا تعریف کے پل باندھنے کے لئے نہیں بلکہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشجیعی اکرام سے نوازنے کے لئےہومگر جن کی خدمات نہ ہو صرف تعریف اور دنیاوی مفاد کے لئے تقریب یا اجلاس کرنا جائز نہیں ہے ۔ نبی ﷺ نے منہ پر کسی کی تعریف کرنے سے منع کیا ہے اور جس شخص کی جھوٹی تعریف کی جائے  وہ کتنا قبیح ہوگا ؟۔  
سوال (14): منطق ،فلسفہ اور علم کلام کا سیکھنا کیسا ہے ؟
جواب : اس وقت ان علوم کے سیکھنے سکھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ان میں کچھ بھی بھلائی نہیں ہے ۔ ایک وقت تھا جب اس کا زمانہ تھا تو اس وقت دشمنان اسلام کو ان ہی زبان میں سمجھانے کے لئے بعض علماء نے بھی ان علوم کو سیکھا اور ان سے اسلام کا دفاع کیا جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منطق کا علم حاصل کرکے منطقیوں کے رد میں الرد علی المنطقیین نامی کتاب لکھی ۔ شیخ ربیع ھادی مدخلی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ جو ذکی ہے اسے علم منطق کی ضرورت ہی نہیں اور جو کند ذہن ہے اسے یہ علم فائدہ نہیں پہنچائے گا تو کیا متوسط آدمی کے لئےمنطق میں کوئی دخل رہے گا؟
سوال (15): اگر میں نے کچی پیاز کھالی ہو اور نماز کا وقت ہوگیا ہے تو کیا کروں یا پیاز کھانے کے کتنی دیر بعد مسجد میں جاسکتے ہیں ؟
جواب : کچی پیاز کھاکر مسجد آنا منع ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من أَكلَ من هذِه الشَّجرةِ فلا يقربنَّ مسجدَنا  ولا يؤذيَنَّا بريحِ الثُّومِ(صحيح مسلم:562)
ترجمہ:جو شخص اس درخت سے کھائے وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور لہسن کی بو سے ہم کو تکلیف نہ پہنچائے ۔
اس کا کوئی وقت متعین نہیں ہے جب تک بدبو باقی رہے مسجد سے دور رہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز چھوڑ دے ، کہیں پر نماز ادا کرلے ۔
سوال (16): آج کل بہت ساری مصنوعات میں چارکول استعمال کیا جاتا ہے اس کے نتائج بہتر ہیں میرا سوال یہ ہے کہ چارکول مکس مصنوعات مثلا پیسٹ ، ماکس وغیرہ استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب : اشیاء میں اصل اباحت ہے ، چارکول(کوئلے) سے اگر پیسٹ تیار کیا جائے یا ادویہ بنائے جائیں یا پھر مصنوعات تیار کئے جائیں تو ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ کے نقصان دہ نہ ہو۔   
سوال (17): شادی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے مہر کے طور پر پلاٹ، گھر، زیوروغیرہ کامطالبہ کرنا یا پیپر پہ لکھوانا جائز ہے ؟
جواب : مہر لڑکی کا حق ہے جو شوہر کے ذمہ ہے اس میں لڑکی والوں یا لڑکے والوں کو دخل نہیں دینا چاہئے ۔ لڑکی چاہے تومعاف بھی کرسکتی ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے ۔ مہر میں بڑی رقم کا مطالبہ کرنایاپلاٹ ، گھر اور زیور کا جبرامطالبہ کرنا لڑکی والوں کے لئے جائز نہیں ہے ۔ لڑکے کو جو میسر ہو وہ مہر کے طور پر دے سکتا ہے اس میں جبر نہیں کیا جائے گااور مہر کی گرانی کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : خيرُ الصَّداقِ أيسرُه(صحيح الجامع:3279)
ترجمہ: بہتر حق مہر وہ ہے جو زیادہ آسان ہو۔
لہذا مہر کے معاملہ آسان رہے اسے لڑکے یااس کے گھروالوں  پر بوجھ نہ بنائے جس کی آدائیگی اس کے لئے مشکل ہو۔
سوال (18): مرد میت کو تابوت پر رکھ کر اسے ڈھانک کر لے جانا ضروری ہے ؟
جواب : ویسے مرد کو کفن میں لپیٹنے کے بعد تابوت پر رکھ  کربغیر چادر سے ڈھکے بھی قبرستان لے جا سکتے ہیں اور چادر سے ڈھک کر لے جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے البتہ عورت کے حق میں بہتر ہے کہ تابوت پر پردہ ڈال کر لے جایا جائے کیونکہ وہ ستر کی چیز ہے ۔
سوال(19): جو خودکشی کرلے کیا وہ سایہ بن کر لوگوں کو پریشان کرتا ہے ؟
جواب : ایسا عقیدہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ کافروں کے یہاں پایا جاتا ہے ۔ موت خواہ طبعی ہو یا خودکشی دونوں صورت میں  اچھی بری روحوں کی الگ الگ جگہیں ہیں جہاں وہ رہتی ہیں ۔ اس لئے ایسا عقیدہ رکھنا کہ  خودکشی کرنے والوں کی روح دنیا میں ہی بھٹکتی رہتی ہیں یا سایہ بن کر لوگوں کو پریشان کرتی ہیں باطل عقیدہ ہے ۔
سوال (20): قضا نماز کی ادائیگی کے وقت اقامت کہنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : نماز کے لئے اقامت کا حکم مشروعیت کا ہے یعنی اقامت واجب نہیں ہے بغیر اقامت کے بھی نماز ہوجائے گی مگر مشروع یہ ہے کہ نماز قضا ہو یا ادا اقامت کہے خواہ اکیلے ہو یا جماعت سے ۔

مکمل تحریر >>

Monday, October 16, 2017

ہندوستانی مسلمان اور غیرمسلم تہوار دیوالی کی مٹھائی

ہندوستانی مسلمان اور غیرمسلم تہوار دیوالی کی مٹھائی

تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ، شمالی طائف (مسرہ)

دنیا میں اسلام کے علاوہ بہت سے مذاہب ہیں اور اسلام سمیت تمام مذاہب میں مذہبی تہوار منایا جاتا ہے ، شاید ہی ایسی کوئی قوم یا ایسا کوئی مذہب ہے جس میں تہوار نہ منایا جاتا ہو۔ اپنے اپنے رنگ ڈھنگ میں سبھی قوم تہوار مناتی ہے ۔ ہندوستان میں دیوالی کے موقع پر مٹھائی کھانے کھلانے کی رسم بہت مشہور ہے ۔ ویسے ہندوستان کثیر الادیان، کثیراللسان اور کثیر الاقوام ہے ۔ یہاں مختلف قسم کی بولیاں بولنے والے ، مختلف قسم کی تہذیب ماننے والے اور مختلف قسم کے ادیان وملل پر چلنے والےلوگ پائے جاتے ہیں ۔ صرف مسلمانوں میں یہاں کئی فرقے ہیں اوران میں  مسلکی اختلاف اس قدر شدید ہے کہ اتنی شدت شاید پوری  دنیاکے مسلمانوں میں کہیں نہیں پائی جاتی ۔ مسلمانوں کے باہمی تنازعات کا یہ حال ہے تو پھر مختلف ادیان کے درمیان کیسامعاملہ ہوگا سمجھ سکتے ہیں ۔صرف ہندو قوم کی شدت منافرت اور اسلام کے تئیں بعض وعناد کی مثال دینا چاہتاہوں کہ یہاں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں بے شمار علماء ، خطباء اور واعظین ہیں  ۔ اپنے اپنے مسلک ومذہب کی ترویج واشاعت میں رات دن کوشاں ہیں ، بڑے بڑے اجتماعات، کانفرنسیں، سیمنار، تبلیغی دورے اورگشت وچلہ کشی  ہوتی رہتی ہیں مگر کسی میں کیامجال کہ ہندؤں میں بھی تبلیغ کرسکے؟ الا ماشاء اللہ
اہل حدیث جماعت میں ایک شیر دل  مرد آہن  ڈاکٹر ذاکر نائک پیدا ہوا جنہوں نے پورے ہندوستان کی ہندو قوم کو اپنے پررونق اسٹیج سے للکارا ، ہزاروں کو حلقہ بگوش اسلام بھی کیا مگر ہند کی اکثریتی قوم ہندو اپنی کافرانہ طاقت کے بل بوتے ان کے سامنے بند باندھنےاور انہیں دعوت اسلام سے روکنے میں کامیاب ہوگئے، ان کے عالمی دعوتی ادارے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مجھے حیرت دعوت حق کی روک اور ڈاکٹر صاحب کی بندش پہ کم اور مسلکی بغض وعناد میں ڈوبے عیار ومکار علماء سوء پر زیادہ ہے جن میں سے بہت سے کھلے اور بہت سے درپرہ اپنے ہی دین اسلام کی اشاعت روکنے میں شازشیں رچتے رہے  اوربالآخر دیار ہند میں غیرمسلموں میں تیزی پھیل رہی دعوت اسلام پہ بندش لگوانے میں کامیاب ہوگئے ۔کل قیامت میں اللہ تعالی کو ایسے علماء کیا جواب دیں گے ؟
ہندوستان میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں ، گائے حلال ہے مگر ذبح نہیں کرسکتے ، قربانی نہیں دے سکتے ، حالات کا تقاضہ ہے کہ جس طرح اللہ نے تبلیغ میں حکمت وبصیرت کو مدنظر رکھنے کا حکم دیا ہے یہاں رہنے سہنے میں بھی مومنانہ فراست ، حکیمانہ طور طریق اور بصیرت اندوز بودوباش اختیار کی جائے ۔ ہندوستانی علماء کے سامنے مسلم عوام دیوالی کے موقع سے عام طور پر سوال کرتے ہیں کہ کفار کی دیوالی پہ ہم ان کی پیش کی ہوئی مٹھائی کھاسکتے ہیں کہ نہیں؟ ۔ اس  سوال کے جواب میں بعض علماء ان کی مٹھائی کھانے سے سخت انداز میں منع کرتے ہیں اور بعض کے یہاں حکمت وبصیرت کے مدنظر کھانے کا حکم ملتا ہے ۔ ذیل میں اسی مسئلہ کی مختصر وضاحت مقصود ہے۔
غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔
(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ جانیں کہ اسلام امن و سلامتی اور الفت ومحبت کا درس دیتا ہے اپنے اسی خوبی سے دنیا میں پھیلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام غیرمسلموں کے ساتھ نرمی برتنے ، احسان وسلوک کرنے اور خاص طور سے اسلام کی طرف مائل لوگوں کی تالیف قلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ زکوۃ کا ایک مصرف ایسے ہی قسم کے لوگ ہیں ۔اللہ تعالی غیرمسلموں سے احسان کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے :
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(الممتحنہ: 8)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تمام کافروں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ کافر جو بے ضررہوں، یا اسلام کی طرف مائل ہوں ، یا مسلمانوں کی مدد کرنے والے ہوں ایسے لوگ ہمارے احسان کے مستحق ہیں ۔
بعض کافروں نے عہد رسالت میں بھی اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ، تاریخ اٹھاکر دیکھیں ، شعب ابی طالب کا تین سال کا ظالمانہ محاصرہ بعض کافروں کی مدد سے ختم ہوا۔
اسی طرح اسیران بدر سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لو كان المُطْعَمُ بنُ عَدَيٍّ حيًّا ، ثم كلَّمَني في هؤلاء النُّتْنَى لترَكْتُهم له.(صحيح البخاري:4024)
ترجمہ: اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کردیتا ۔
مطعم بن عدی مشرک تھا لیکن اس نے رسول اللہ ﷺکی اس وقت مددکی تھی جب آپ طائف سے زخمی حالت میں واپس تشریف لائے ۔اس نے آپ ﷺکواپنی پناہ میں لیکر مکہ میں داخل کیا ۔آپ ﷺنے اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کےلئے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے ۔
آج بھی ایسےکفارہرجگہ  موجود ہیں جو مسلمانوں کے لئے نفع بخش ہیں ، ہندوستان میں اکثر مسلمان ظلم کے شکار ہیں اور دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ان میں سے بعض مسلمانوں کوکافروں کی امداد مل جاتی ہے جبکہ مسلمان وکلاء، مسلمان وزراءاور مسلمان امراء ورؤساء ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہتے ہیں ۔
اس قسم کے اچھے لوگ کافر ہونے کے باوجود مسلمان کا درد محسوس کرتے ہیں اورانہیں ظلم سے نجات کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کو وہ مسلمان جس کو کسی کافر نے مدد کی ہو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کےدنیاوی  معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے قلبی دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے۔ ان سے ملنے جلنےاورمعاملات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو بلکہ مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام اور معاون ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔جیسے ہم مسلمان اپنی عیدوبقر عید پہ کافروں کو تحائف دے سکتے ہیں بلکہ قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں اسی طرح کافر پڑوسی، میل جول والا، معاملات والا، احسان وسلوک والا، اسلام کی طرف رغبت رکھنے والا، مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ، اچھے اخلاق والا جسے اسلام کی دعوت دی جاسکے وغیرہ سے ان کے تہوار دوالی پہ مٹھائی یا وہ تحفہ اور کھانا قبول کرسکتے ہیں جو اسلام میں اصلا حلال ہو۔
ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ کفار کے تہوار پہ مبارک باد دینا جائز نہیں ہے ، ان کے تہوار پہ خود تحفہ دنیا چائز نہیں ہے ، ان کے تہوار میں کسی کفر وشرک والے کام پر تعاون کرنا چائز نہیں ہے اوران کے تہوار میں استعمال ہونے والی مخصوص مذہبی اشیاء کی تجارت جائز نہیں ہے ۔
بعض علماء نے بھی تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے کی بات کی ہےجن شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ ان کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہورعالم شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔

مکمل تحریر >>