Wednesday, September 27, 2017

سوشل میڈیا پہ کئے گئے حالیہ سوالات اور قرآن وحدیث سے ان کے جوابات

سوشل میڈیا پہ کئے گئے حالیہ سوالات اور قرآن وحدیث سے ان کے جوابات

جواب از شیخ مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ، شمالی طائف (مسرہ)


سوال(1): کیا ہندو مسجد کی صفائی کرسکتا ہے ؟
جواب : صحیحین کی روایت سے معلو م ہوتا ہے کہ مومن نجس نہیں ہوتا ہے ، نجس تو اصل مشرک ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ(التوبہ:28)
ترجمہ:اے ایمان والو ! مشرک نرے ناپاک ہیں، تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں۔
ہندو قوم مشرک ہے اور شرک کی غلاظت کی وجہ سے وہ نجس وناپاک ہے اس لئے مسجد کی  مستقل صفائی کے کام پر کسی مسلمان کو ہی مامور کرنا چاہئے البتہ ضرورت کے تحت کفار مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں اس بناپر کبھی کبھار ان سے صفائی کا کام لینا پڑجائے تو کوئی حرج نہیں۔

سوال (2):عورت کا اپنے محرموں کے سامنے کھلے سر آنا کیسا ہے ؟
جواب : عورت اپنے محرم کے سامنے جس طرح چہرہ کھول سکتی ہے اسی طرح اپنے بال بھی ظاہر کرسکتی ہے اس لئے اپنے محرموں کے سامنے کھلے سر آنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ(النور:31)
ترجمہ: اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے ۔
اس آیت کی روشنی میں عورت اپنے محارم کے سامنے اپنے  ہاتھ ، پیر ، سر، بال اور گردن کھلا رکھ سکتی ہے ، اس لئے اپنے محارم کے سامنے کھلے سر  یا  کھلے بال آسکتی ہے۔

سوال (3): ایک اکیلا نماز پڑھنے والا کسی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا بھول گیا تو وہ کیا کرے ، نماز دہرائے یا سجدہ سہو کرے ؟
جواب : سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے اگر کسی رکعت میں پڑھنا بھول جائے تو وہ رکعت شمار نہیں ہوگی لہذا اس رکعت کے بدلے منفرد ایک رکعت ادا کرے اور سجدہ سہو کرے ۔

سوال (4): والدین یا خاندان کے کسی بڑے آدمی کی تصویر رکھنا جن کی موت ہوگئی ہو کیسا ہے ، اگر اس میں گناہ ہے تو کیا صرف رکھنے والے کو ملے گا یا میت کو بھی ؟
جواب : اسلام میں تصویر منع ہے ، صرف ضرورت کے وقت علماء نے اسے رکھنے کا جواز فراہم کیا ہے اس لئے بلاضرورت والدین یا خاندان کے کسی بڑے میت کی تصویر رکھنا جائز نہیں ہے جو تصویر رکھے گا گناہ اس کے حصہ میں جائے گا ، اس گناہ میں میت شامل نہیں ہوگا الا یہ کہ میت نے اپنی تصویر رکھنے کا حکم دیا ہو۔

سوال (5): قبلہ کی طرف پیر کرکے سونا کیسا ہے ؟
جواب : سوتے وقت قبلہ کی طرف پیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس میں کعبہ /قبلہ کی اہانت کا کوئی پہلو نہیں شامل ہے ۔ چلتے پھر تے ، اٹھتے بیٹھتے دن میں ہزاروں دفعہ قبلہ کی جانب پیر ہوتا ہے جب اس میں کوئی حرج نہیں تو سونے میں کیوں ؟ حتی کہ نماز میں قدم کا ظاہری اور اگلا حصہ کعبہ ہی کی طرف ہوتا ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے قبلہ کی جانب پیر پھیلانے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کا پیر سونے کی حالت میں قبلہ کی جانب ہو۔(فتاوى شيخ ابن عثيمين 2/ 976(

سوال (6): آب زمزم کھڑے ہوکر اور قبلہ کی طرف منہ کرکے پینا کیسا ہے ؟
جواب : نبی ﷺ نے زمزم کھڑے ہوکر پیا ہے اس لئے کھڑے ہوکر پی سکتے ہیں ، کوئی بیٹھ کر پئے تو اس میں بھی کوئی بات نہیں ۔ زمزم پینا ضرورت انسانی ہے کسی جانب بھی ہوکر پی سکتے ہیں اس میں قبلہ سمت ہونا کوئی شرعی حکم نہیں ہے ۔

سوال (7): انٹرنیٹ وائی فائی کی ایجنسی لینا کیسا ہے ؟
جواب : انٹرنیت میں  مفید ومضردونوں  پہلو شامل ہیں ا ور یہ اس کے استعمال پر منحصر ہے ۔ اگر کوئی اس کا استعمال منفی پہلو سے کرے تو غلط ہے مگر مثبت پہلو سے استعمال میں  قطعاکوئی حرج نہیں ہے ۔ اس وقت انٹر نیٹ کا مثبت پہلو بھی بہت مستعمل ہے بلکہ اکثرحکومتی مشاغل، تجارت ، آفس اور بہت سارے دنیاوی معاملات  انٹر نیٹ سے جڑے ہوئے ہیں حتی کہ مدارس ومساجد ، دینی مراکز، دعوتی شعبے اورفلاحی تنظیمات  وغیرہ  بھی  مستفید ہورہی ہیں جوکہ اس کا مثبت پہلو ہے لہذا کسی کے لئے انٹرنیٹ وائی فائی ایجنسی لینے اورچلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ایک کوشش ضرور کرے کہ جو لوگ اس کا منفی استعمال کرتے ہیں ان  کے برے کام میں کسی طرح کا معاون نہ بنے ۔

سوال (8):سود کا پیسہ کسی پریشان حال مسلمان کو دے سکتے ہیں ؟
جواب : سود اسلام میں سراسر حرام ہے البتہ وہ سود جو بنک سے ملتا ہے اس کے استعمال میں علماء کے درمیان مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ، میری نظر میں اسے سماجی کام میں صرف کردینا زیادہ بہتر ہے ، یونہی پریشان حال مسلمان کو دینا صحیح نہیں ہے ، اس کی مدد ذاتی پیسے یاقرض حسنہ اور مستحق زکوۃ ہے تو مال زکوۃ اور صدقات سے کرسکتے ہیں ۔ ہاں کوئی مضطر ہو یعنی کسی کی جان کا خطرہ ہو تو اس وقت بنک کے سود کا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

سوال (9) :کیا ماں باپ دونوں کا انتقال ہونے پر وراثت تقسیم کی جائے یا صرف باپ کے مرنے پر؟
جواب : ماں کی میراث کا مسئلہ الگ ہے اور باپ کی میراث کا مسئلہ الگ ہے ۔ جب ماں کی وفات ہو تو ان کی میراث تقسیم کی جائے گی اور جب باپ کی وفات ہو تو ورثاء میں ان کی میراث تقسیم کی جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب باپ کی وفات ہوجائے تو ان کا ترکہ اولاد ، بیوی اور دیگر وارثین میں تقسیم کیا جائے گا۔

سوا ل (10): محرم میں کتنے روزہ رکھ سکتے ہیں ؟
محرم میں دو قسم کے روزوں کا ذکر ملتا ہے ایک عمومی روزہ جس قدر چاہیں رکھ سکتے ہیں ، یہ رمضان کے بعد افضل روزے ہیں ۔ دوسرا خصوصی روزہ جسے عاشوراء کہتے ہیں جس کا ثواب پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ عاشوراء کے روزہ  سے متعلق افضل یہ ہے کہ نو اور دس محرم کا روزہ رکھا جائے۔ روزوں کی ان دو اقسام  کے علاوہ ہرمہینہ رکھے جانے والے  ایام بیض اور سوموار وجمعرات کے روزے بھی محرم میں رکھے جاسکتے ہیں ۔

سوال (11) ہم اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ ڈھائی فیصد زکوۃ نکال دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب : مال میں زکوۃ فرض ہونے کی دوشرطیں ہیں ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نصاب تک پہنچ رہاہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس پہ ایک سال کا وقفہ گزر گیا ہو۔ آپ کا اپنی تنخواہ میں سے ماہانہ  ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنا درست نہیں ہے کیونکہ وہ مال نصاب تک نہیں پہنچا ہے اور اس پہ سال بھی نہیں گزرا ہے لہذا آپ اپنی تنخواہ سے بچی رقم جو  595 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے اور اس پہ سال گزرجائے تب اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ نکالیں ۔

سوال (12): نئے سال کی مبارک باد دینا کیسا ہے ؟
جواب : صحابہ کرام نئے سال کی دعائیں ایک دوسرے کو دیا کرتے تھے لہذا ہمیں صحابہ کی اقتداء میں ایک دوسرے کو " اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، وجوارمن الشيطان ورضوان من الرحمن۔(اے اللہ ! اس مہینے یا سال کو ہمارے اوپرامن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور شیطان کی پناہ اور رحمن کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما) کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال (13): غیر مسلم کی شادی میں شرکت کرنا ہے ؟
جواب : غیرمسلموں کی شادی میں عام طور سے گانے بجانے ، رقص وسرود، شراب وکباب اور عریانیت وفحاشیت دیکھنے کو ملتی ہے لہذا اس قسم کی شادی و تقریب میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے ۔ ہاں اگرشادی وتقریب  ان عیوب سے پاک سے ہو تو انسانیت اور رواداری کے طور پر اس میں شرکت کرنا معیوب نہیں ہے ۔

سوال (14): مسجد یا عیدگاہ میں اگربتی جلانا کیسا ہے ؟
جواب : خوشبو کی چیز بدن پہ ، گھر میں اور مساجد میں استعمال کرنا جائز ہے ، نبی ﷺ نے جس طرح بدن پہ خوشبو استعمال کرنے کا حکم دیا اور بطور خاص یوم جمعہ کو، اسی طرح مسجد کو بھی کوخوشبودار کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔
عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ(صحيح الترمذي:594)
ترجمہ: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے محلوں میں مسجد بنانے، انہیں صاف رکھنے اور خوشبو سے بسانے کا حکم دیاہے۔
اگربتی بھی خوشبو کی ایک قسم ہے اسے مسجد میں جلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو حرج اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ اسے غیر مسلم کثرت سے اپنی دیوی دیوتاؤں کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ غیر مسلم پوجا میں پھول ، پلیٹ ، دھاگہ وغیرہ بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں بلکہ پانی کے بغیر ان کی پوجا نہیں ہوگی تو اس وجہ سے ہم پانی کا استعمال چھوڑ دیں گے ؟ نہیں ، جو چیز اصلا حلال ہے اسے غیرمسلم کثرت سے استعمال کرنے لگے تو وہ حرام نہیں ہوجائے گی ، حلال ہی رہے گی ۔

سوال (15): ایک لڑکی نے اپنی ماں سے قرض لی تھی اب اس کی ماں وفات پاگئی ہیں تو وہ قرض کی رقم کیسے ادا کرے ؟
جواب : بیٹی کو چاہئے کہ رقم اگر ہدیہ نہیں بلکہ قرض کے طور پر تھی تو جلد سے جلد لوٹا دے ، قرض میں تاخیر جائز نہیں اور چونکہ ماں بیٹی کا معاملہ ہے یہاں  واپسی میں تاخیر ماں کے لئے ممکن کوئی تامل نہ ہولیکن معاملہ حقوق العباد کا ہے اور ماں وفات پاچکی ہے ، اب اس کی صورت یہ ہے کہ وہ رقم وارثین میں تقسیم کردی جائے اور بیٹی اللہ سے معافی طلب کرلے ۔

سوال (16): نماز جنازہ میں ثنا پڑھنے کا حکم ؟
جواب : صراحت کے ساتھ کسی حدیث میں نماز جنازہ میں ثنا پڑھنے کا ذکر نہیں ملتا ہے لیکن عام نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے نماز جنازہ میں بھی ثنا پڑھ سکتے ہیں ۔

سوال (17): لڑکی کا اجنبی مرد کو دل سے پسند کرنا جن سے واٹس ایپ کے ذریعہ دینی معلومات حاصل کرتی ہے ؟
جواب : ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے محبت کرنا عین اسلام ہے مگر یہ محبت عشق وعاشقی اور شہوت وفحاشی سے پاک ہوتی ہے۔ایک مسلمان کی ایک دوسرے مسلمان سے محبت اللہ کی رضاکے لئے ہویہ ممدوح اور قیامت میں عرش الہی کا سایہ نصیب ہونے کا سبب ہے ۔ یہاں ایک سنگین مسئلہ سوشل میڈیا پہ اجنبی لڑکا اور لڑکا کا چیٹ کرنا، ناجائزتعلقات قائم کرنا اور فحاشی کا ارتکاب کرنا ہے ۔ یہ حرام اور اللہ کی طرف سے سخت تباہی  کا باعث ہے۔ ہاں اجنبی لڑکیا ں اسلامی حدود وقیود میں رہ کر علماء کرام سے دین سیکھ سکتی ہیں اور ان سے اللہ کی رضا کے لئے محبت کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے مگراس کا اظہار نہ کرے اور  ہمیشہ یہ یاد رہے کہ خلوت میں شیطان ہوتا ہے ، نیٹ پہ کسی سے چیٹ کرتے ہوئے اللہ کا خوف ہمیشہ دل میں رکھے ،کیا پوچھنا ہے اور کیا نہیں؟ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں ؟ شریعت کی روشنی میں دیکھے ؟  اور عام یا انجان  لڑکوں سے کوئی بات ہی نہ کرے کیونکہ اس سے بات کرنا فضو ل ہےاور یہ بعد میں گناہ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

سوال (18): کرسی پہ بیٹھ کر نماز ادا کرنے والا ٹیبل پہ سجدہ کرسکتا ہے یا زمین پر سجدہ ضروری ہے جیساکہ حدیث میں سات اعضاء زمین پہ رکھنے کا ذکر ہے ؟
جواب : کرسی پہ نماز وہی ادا کرسکتا ہے جسے ٹھیک طریقہ سے زمین پر نماز ادا کرنے میں دشواری ہو اور ایسا مریض یا کمزور آدمی جو کرسی پہ بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہوئے زمین پر سجدہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ کرسی پر ہی جس قدر ہو سجدہ کے لئے جھک جائے ۔ ٹیبل پہ بھی سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر جھکنے سے گرنے کا ڈر ہو ورنہ ٹیبل کی ضرورت نہیں ۔

سوال (19): روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت ہے کیا؟
جواب : ہاں روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت ہے ۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں : نَهَى رسولُ اللَّهِ أن يمتَشِطَ أحدُنا كلَّ يومٍ(صحيح النسائي:238)
ترجمہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ہم میں سےکوئی روزانہ کنگھی کیا کرے۔
اس لئے ایک دن ، دودن ناغہ کرکے بال میں کنگھی کرے ،ہاں اگر ضرروت پڑے تور وزانہ بھی کنگھی کرسکتے ہیں مثلا کوئی روزانہ غسل کرے تو بال سنوارنے کے لئے کنگھی کرسکتا ہے ۔ نبی ﷺ کا حکم ہے : من كانَ لَهُ شَعرٌ فليُكرمْهُ(صحيح أبي داود:4163)
ترجمہ: جس نے بال رکھے ہوئے ہیں وہ اس کی تکریم کرے۔
ممانعت کی اصل وجہ یہ ہے کہ بالوں پہ خواہ مخواہ وقت ضائع نہ کرے یا بلاضرورت اسی میں نہ لگا رہے ۔

سوال (20): مجلس کے اختتام پہ سورہ صافات کی آخری آیات پڑھنا کیسا ہے جیساکہ بعض لوگوں کا عمل ہے ؟
جواب : مجلس کے اختتام پر "سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك" کہنا چاہئے کیونکہ یہ حدیث سے ثابت ہے ۔ سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول بأخَرَةٍ إذا أراد أن يقومَ من المجلسِ سبحانكَ اللهمَّ وبحمدِكَ، أشهدُ أن لا إلهَ إلا أنتَ، أستغفرُكَ وأتوبُ إليكَ ( صحيح أبي داود:4859)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری ایام میں جب کسی مجلس سے اٹھتے تو یہ کلمات کہتے تھے«سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك»۔
سوال میں مذکور سورہ صافات کی آخری آیات پڑھنے کا ذکر ضعیف حدیث میں ہے ۔
من سرَّهُ أن يكتالَ من المكيالِ الأَوْفَي من الأجرِ يومَ القيامةِ ، فليَقُلْ آخرَ مجلسِه حينَ يُريدُ أن يقومَ : { سبحانَ ربِّكَ ربِّ العزَّةِ عمَّا يصفونَ ، وسلامٌ على المرسلينَ ، والحمدُ للهِ ربِّ العالمينَ }(السلسلة الضعيفة:6530)
ترجمہ: جسے پسند آئے اور وہ قیامت کے دن اجروثواب سے لبریز پیمانے سے تولنا چاہے تو وہ مجلس سے اٹھتے وقت آخر میں کہے :
{ سبحانَ ربِّكَ ربِّ العزَّةِ عمَّا يصفونَ ، وسلامٌ على المرسلينَ ، والحمدُ للهِ ربِّ العالمينَ }
مرسل ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے ، شیخ البانی نے اسے سلسلہ ضعیفہ میں شمار کیا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ نماز کے بعد بھی یہ آیات کئی احادیث میں پڑھنے کا ذکر ملتا ہے مگر کوئی حدیث ضعف سے خالی نہیں ہے ۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, September 26, 2017

نماز جنازہ میں چار تکبیرات پہ صحابہ کرام کااجماع

نماز جنازہ میں چار تکبیرات پہ صحابہ کرام کااجماع

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ، شمالی طائف(مسرہ)

نماز جنازہ میں چار سے زائد تکبیرات کابھی  ثبوت ملتا ہے ، تین تکبیر سے لیکر نو تکبیرات کا ذکر ہے تاہم صحیحین میں پانچ تک کا ذکر ہے ۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں:
كان زيدٌ يُكبِّرُ على جنائزِنا أربعًا . وإنه كبَّر على جنازةٍ خمسًا . فسألتُه فقال : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُكبِّرُها .(صحيح مسلم:957)
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے جنازوں (کی نماز) میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا کہ " آپ تو ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ تکبیریں کیوں کہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔
یہ حدیث متعدد کتب احادیث میں مروی ہے مثلا ابوداؤد، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، بیہقی ، مسند طیالسی اور مسند احمد وغیرہ ۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تحت  لکھا ہے :
دل الإجماع على نسخ هذا الحديث  لأن ابن عبد البر وغيره نقلوا الإجماع على أنه لا يكبر اليوم إلا أربعا ، وهذا دليل على أنهم أجمعوا بعد زيد بن أرقم ، والأصح أن الإجماع يصح من الخلاف (شرح مسلم(
ترجمہ: اجما ع اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ ابن عبدالبر وغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ اس وقت صرف چار تکبیرات کہی جائے گی ، یہ اس بات پہ دلیل ہے کہ زید بن ارقم کے بعد اس پہ اجماع کرلیا گیا اور صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف سے اجماع صحیح ہوتا ہے ۔
گویا امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک پانچ والی روایت منسوخ ہے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع ہے ۔ جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ چار تکبیرات ہی مشروع ہیں ، ان کی چار وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اکثر صحابہ سے مروی ہے ، ان کی تعداد پانچ تکبیرات بیان کرنے والے صحابہ سے زیادہ ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ صحیحین کی روایت ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ چار تکبیرات پہ اجماع واقع ہوا ہے ۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کا آخری عمل یہی ہے جیساکہ امام حاکم نے  مستدرک میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے  ان لفظوں کے ساتھ روایت ذکر کیا ہے(آخر ما كبر رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجنائز أربع ) کہ نبی ﷺ نے جنازہ پہ سب سے آخری مرتبہ چار تکبیرات کہیں۔ (نیل الاوطار ، باب عددتکبیر صلاۃ الجنائز)
صاحب عون المعبود کا  رحجان چار تکبرات کی طرف لگتا ہے چنانچہ انہوں نے علی بن جعد کے حوالے سے صحابہ کے کچھ آثار پیش کئے جن سے چار تکبیرات پہ اجماع کا علم ہوتا ہے جیسے کہ بیہقی میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا صحابہ کبھی چار تو کبھی پانچ پر عمل کرتے تو ہم نے چار پہ جمع کردیا۔ بیہقی میں ابووائل رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ نبی ﷺ کے زمانہ میں چار، پانچ ، چھ اور سات تکبیرات کہا کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو جمع کرکے اس اختلاف کی خبر دی اور انہیں چار تکبیرات پہ جمع کردیا۔ابراہیم نخعی کے طریق سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ کرام ابومسعود رضی اللہ عنہ کے گھر جمع ہوئے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع کرلیا۔ (عون المعبود ، باب التکبیر علی الجنازۃ)
امام ترمذی نجاشی والی روایت جس میں چار تکبیر کا ذکر ہے اسے بیان کرکے لکھتے ہیں کہ اسی حدیث پر نبی ﷺ کے اکثر اصحاب کا عمل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں ۔ یہ قول سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن المبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق وغیرھم کا ہے ۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی التکبیر علی الجنازۃ)
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی میت فضل کے اعتبار سے بڑا ہو تو کیا ان کے جنازہ میں تکبیر ات زائد کہی جاسکتی ہیں ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ افضل یہی ہے کہ چار پہ اکتفا کرے جیساکہ اس وقت عمل کیا جاتا ہے اس لئے کہ یہ نبی ﷺ کا آخری عمل ہے ، نجاشی کی بڑی فضیلت ہے پھر بھی نبی ﷺ نے ان کی نماز جنازہ میں چار تکبیرات پہ ہی اکتفا کیا ۔ (مجموع فتاوى و رسائل بن باز – تیرہویں جلد)
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز جنازہ میں چار تکبیرات نبی ﷺ کا آخری عمل ہے اور اس پہ صحابہ کرام کا اجماع ہے اس لئے جنازہ میں چار تکبیرات ہی کہی جائیں گی ۔

مکمل تحریر >>

Friday, September 22, 2017

نئے ہجری سال کا استقبال کیسے کریں ؟

نئے ہجری سال کا استقبال کیسے کریں ؟

مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب

دین اسلام ایک فطری نطام زندگی  کا نام ہے ، اس کی تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق  ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں زمانے کی لچک اور اس کےمختلف حالات ومراحل کی رعایت بھی ہے ۔ اس لئے آج سے ساڑھے چودہ صدی پہلے نازل شدہ قرآن کی کوئی ایک آیت یا کوئی ایک فرمان رسول زمانے کے مخالف یا انسانی فطرت سے متصادم نہیں ہے بلکہ اسلام اپنی اس بے مثال خوبی سے غیرمسلموں کو اپنے آغوش میں آنے کی دعوت دیتا رہااور ضلالت وگمراہی سےبے قرارومضطرب دل کلمہ شہادت پڑھ کر دامن اسلام میں محبت وخلوص، امن وراحت ، اخوت وحلاوت ، عدل ومروت ، اخلاق ووفا  اور نوروہدایت سے لذت اندوز ہوتا رہا۔
آج جب کہ نیا اسلامی اور ہجری سال شروع ہوچکا ہے ،ایک بار پھر سے نزول قرآن ، بعثت نبوی، آمد خاتم الانبیاء والمرسلین اور دین اسلام پہ جان ودل قربان کرنے والے عظیم المرتبت صحابہ کرام جن سے اللہ راضی ہوئے اور وہ اللہ سے ، کی عظیم تاریخ اورتاریخ کے سنہرے  اوراق نظروں کے سامنے آگئے ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اسلامی سال ایک ایسے مہینہ سے شروع ہوتا ہے جسے تخلیق کائنات سے اللہ تعالی نے حر مت وتقدس سے نوازا ہے ،اس مہینہ کو نبی ﷺ نے شہراللہ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے ۔اس کی قدر ومنزلت کفارومشرکین بھی کیا کرتے تھے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (التوبة: 36)
ترجمہ: اللہ نے جب سے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں اس وقت سے لے کر اسکے ہاں کتاب اللہ میں مہینوں کی کل تعداد بارہ ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ' یہ دین قیم ہے ' لہذا تم ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تمام تر مشرکین سے قتال کرو جسطرح وہ تم سب سے قتال کرتے ہیں اور جان لو کہ یقینا اللہ تعالی پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔
نئے ہجری سال کے آغاز سے ہمارے ذہن میں ہجرت نبوی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، یہ ہجرت کفر سے اسلام کی طرف تھی ، یہ ہجرت اسلام کی سربلندی  اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے تھی ۔ قربان جائیے ان پاک باز نفوس پرجنہوں نے اسلام کی حفاظت اور کلمہ کی سرفرازی کے لئے تن ، من دھن کی بازی لگادی ۔ نہ مال دیکھا، نے گھربار کی پرواہ کی ، نہ آباء واجداد کی محبت اسلام پہ غالب آسکی ، بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے سرشار ہوکر اسلام کی سربلندی کے لئے سب کچھ چھوڑ کر ایک آوازمحمدی  پہ لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ سے یعنی البلد الامین ترک کرکے مدینہ طیبہ کی طرف سفر ہجرت اختیار کیا۔ جب انصاریوں کا یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو انصار ومہاجرین کی اخوت ومحبت قابل دید تھی ، دنیا کی تاریخ میں کسی قوم میں انصاومہاجرین جیسی اخوت وبھائی چارگی کی ایسی مثال نہیں ملتی ۔ انصاریوں میں اپنے مال وجائداد اور گھربار بلکہ زندگی کی ہرایک چیز میں مہاجرین کو شریک وشامل کیا ۔ نئے اسلامی سال  کی آمد پہ کفر سے اسلام کی ہجرت کی یاد تازہ ہونے کے ساتھ انصاریوں کا اپنے مہاجرین  بھائیوں کی دل کھول کر مدد کرنا اور خود پہ انہیں ترجیح دینا بھی خوب  یاد آتا ہے ۔ آج اگر مسلمان اسلام کی سربلندی کے لئے اسی طرح قربانی دینے پر آمادہ ہوجائے اور اپنے مظلوم ومجبور بھائیوں کی امداد کرے تو دنیا کے کسی خطہ میں مسلمان کمزور نہیں رہیں گے اور ان پرکبھی بھی کفارومشرکین  ظلم نہیں کرسکتے ۔ دشمنوں کے دل میں جیسے پہلے ہمارا رعب ودبدبہ قائم تھا پھر سے قائم ہوجائے گامگر افسوس مسلمان ہی مسلمانوں کو مٹانے،کمزور کرنے اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پہ تلا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہم ہرجگہ پسپا اور کفار سےسہمے ہوئے ہیں اور کفار ہم پہ غلبہ پالیا ہے۔ اللہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے اور آپس  میں اخوت ومحبت پھر سے بحال کردے ۔
نیا اسلامی سال دستک دے چکا ہے ، ہم نے نئے سال میں قدم رکھ کے حیات مستعار سے ایک سال کا قیمتی عرصہ کم کرلیا ہے ۔ مسلمانوں میں موجود مختلف فرقوں کے حالات ، زمانے کا پس منظر، دنیا میں انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کی خوفناک تباہی  ، ظلم وعدوان، شراب وکباب، عیاشی وزناکاری اور نیکی کی پستی اور برائیوں کا عروج ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ ایسے حالات میں نئے سال میں قدم رکھتے ہوئے ہمیں کن باتوں کو دھیان میں رکھنا چاہئے یا نئے ہجری سال کا ہمیں کس انداز میں استقبال کرنا چاہئے ؟ ایک اہم سوال ہمارے ذہن میں کھٹکتا ہے اسی کا مختصر جواب سطور ذیل میں دینے کی خاکسار نے کوشش کی ہے ۔
(1) احساس کم مائگی :  عام طور سے لوگوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ نیا سال آنے سے وہ ایک سال بڑا ہوگیا،یہ بڑکپن لوگوں کے لئے دھوکہ کا سبب بناہواہے ۔ ایک بڑا دھوکہ تو یہ ہے کہ ہرنئے سال کی آمد پہ اپنی پیدائش مناکر خود کو بڑا منانے اور بنانے کی  جھوٹی کوشش کرتا ہے جبکہ حقیقتا وہ ہرنئے سال کی آمد پہ ایک سال چھوٹا ہوا کرتا ہے ۔ یہ احساس ہوجائے تو لوگ اپنی پیدائش مناناچھوڑ دے ۔ کون اپنی موت کی خوشی منائے گا ،آدمی زندگی کے جتنے سال گزارتا ہے وہ موت سے اتنا ہی قریب ہوجاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیدائش منانا جائز نہیں ہے ۔ جب حقیقت یہ ہے کہ نیا سال ہماری زندگی سے ایک سال کم کرتا ہے تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں بے بضاعتی کا احساس ہونا چاہئے ۔ اس با ت کا احساس ہونا چاہئے کہ دنیا کی زندگی میں انجام دئے گئے عمل پہ آخرت کی کامیابی وناکامی کا انحصار ہے جبکہ ہم  سال کے بارہ مہینوں میں غفلت کی ردا اوڑھےرہے ، کل کی ہمیشگی والی زندگی کے لئے کچھ نہیں کیا،ہمارا ماضی وحال بالکل تاریک ہے آخرت میں کیسے نجات پاؤں گا؟ دنیاوی زندگی کو ہم نے لہوولعب کا ذریعہ سمجھ لیا تھا حالانکہ یہی زندگی آخرت کوسنوارسکتی ہے ،کل مجرم لوگ رب کے سامنے کہیں گے :
رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ (السجدۃ:12)
ترجمہ:اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔
رب کعبہ کی قسم اگر یہ احساس شدت سے پیدا ہوگیا ،اپنے اعمال کی قلت کا اندازہ لگالیااور آخرت کے تئیں  فکر پیدا رلیا تو نیا سال کا استقبال نیکیوں کی راہ پہ چلنے کا عزم مصمم سے کریں گے ۔
(2) نفس کا محاسبہ :  مومن کے جو اوقات گزرتے ہیں ان کا  ہمیشہ محاسبہ کرتا رہتا ہے ، یہی محاسبہ ہمارے ایمان کو تازہ رکھے، گا ،خوف الہی پیدا کرتا رہےگا، فکرآخرت کی رمق ماند نہیں ہونے دے گا اور مسلسل عمل صالح پر گامزن رکھے گا۔ زندگی سے ایک سال کی کمی اور عمل صالح کی قلت کا احساس کرکے کل کی تیاری کے لئے پہلی زندگی سے آنے والی زندگی کو بہتر بنانے کی ہم بھرپورکوشش کریں گے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر:18)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو، کیونکہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
مومن کا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہماری زندگی کا حساب لے گا اس لئے اللہ کے سامنے حساب  پیش ہونے سے پہلے خود ہم اپنااحتساب کرلیں ،جہاں ہم سے  غفلت ہوئی،خطا سرزد ہوئی، گناہ کا ارتکاب ہوگیا ، اللہ تعالی بہت معاف کرنے والا ہے اس سے معافی طلب کرلیں وہ یقینا معاف کردے گا۔ اگر گناہ کی پوٹری لیکر اس دنیا سے چلے گئے تو پھر وہاں توبہ کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لئے ہوشیار وہ ہے جو اپنا محاسبہ دنیا میں ہی کرلے تاکہ کل قیامت میں حساب کے دن ،رب اورسب کے سامنےشرمندہ نہ ہونا پڑے ۔
(3) وقت کی قدرومنزلت : نئے سال کے استقبال پہ ہمیں وقت کی قدر کرنا بھی سیکھنا ہوگا،ویسے مومن وقت کا پابند ہوتا ہے مگر کبھی کبھی زمانے کی چکاچوند اور اس کی دل فریبی کا شکار ہوکر عیش وعشرت اور رنگ رلیوں ہی کو زندگی سمجھ لیتا ہے ۔ ایسے موقع سے ہمیں اپنے اندر یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ رب کی مرضی کے مطابق گزرنا چاہئے ، دنیا فانی اور اس کی دل فریبی دھوکہ دینے والی ہے ،یہاں ہم مسافر کی طرح زندگی گزاریں ، ہر لمحہ آخرت کی طرف کوچ کرنے کے لئے تیار رہیں،یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہمارا وقت اللہ کی رضا کے کام میں گزرتا رہاہوگا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : كُن في الدُّنيا كأنَّكَ غَريبٌ أو عابرُ سبيلٍ وعدَّ نفسَكَ في أَهْلِ القبورِ(صحيح الترمذي:2333)
ترجمہ: تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو یا راہ گیر ہو، اور تم اپنا شمار ان لوگوں میں کرو جو دنیا سے گزر گئے ہیں۔
یہ حدیث ہماری آنکھ کھولنے کے لئے  کافی ہے ، اس کے الفاظ "وعدنفسک فی اھل القبور " یعنی خود کو مردوں میں شمار کروسے نصیحت حاصل کرتے ہوئے وقت کی قدر کریں اور اس کا استعمال جائز طریقے سے کریں ۔ کھیل کود،موج مستی، لایعنی گھوم گھام اور فضول کاموں میں وقت کے ضیاع سے پرہیز کریں۔
(4) محرم الحرام میں ہونے والی بدعات کا خاتمہ : چونکہ اسلامی سال کا آغاز حرمت والے مہینہ سے ہورہاہے اس لئے اس کا احترام کرنا ہمارے اوپر واجب ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ نے عظمت وتقدس والے مہینوں کو پامال کیا اور اس میں شیعہ کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے طرح طرح کی بدعات وخرافات کو انجام دیا۔ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پہ ماتم، تعزیہ ، عزاداری، نوحہ وزاری،قوالی ومرثیہ ،دیگیں اور سبیلیں ، نحوست وعزا کا اظہار، شہداء کی نذرونیاز، جسم لہولہان کرنا، عورتوں ومردوں کا اختلاط اور ناچ گانے ، ڈھول تماشے وغیرہ امت میں رواج دئے ،یہ سارے کام نوایجاد اوربدعات کے قبیل سے ہیں ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ احترام والے مہینے کا احترام کرے جس طرح اہل زمانہ نے کیاہے ۔ اللہ کے حدود کی پامالی عذاب کا پیش خیمہ ہے ۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو دین کی صحیح سمجھ دے کہیں ایسا نہ ہوکہ ان بدعات کے ارتکاب سے اللہ امت پر عذاب عام کردے ۔
(5) نئے سال کا آغاز اورمحرم کے:  روزہ شہوتوں کو توڑنے والا اور دل میں ایمان وعمل صالح  بیدار کرنے والا بہترین وسیلہ ہے ۔ محرم الحرام یعنی سال کا پہلا مہینہ جہاں اس کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے وہیں فرمان رسول سے اس کی عظمت مزید دوبالا ہوجاتی ہے ۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
أفضلُ الصيامِ ، بعدَ رمضانَ ، شهرُ اللهِ المحرمِ . وأفضلُ الصلاةِ ، بعدَ الفريضَةِ ، صلاةُ الليلِ(صحيح مسلم:1163)
ترجمہ: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
اوپر والی قرآنی آیت ہمیں بتلاتی ہے کہ محرم کا احترام کرنا چاہئے اوریہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ ہمیں اس ماہ مبارک میں کثرت سے روزہ رکھنا چاہئے ، یہ روزے رمضان کے بعد افضل روزے ہیں ۔ جو روزہ کے بجائے اس ماہ میں دیگیں چڑھاتے ہیں ، سبیلیں تقسیم کرتے ہیں ، قومہ اور بریانی سے پیٹ بھرتے ہیں ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
اگر ہم اس ماہ مقدس میں کثرت سے روزہ نہیں رکھ سکتے تو کم ازکم عاشوراء محرم کا روزہ رکھیں جو سابقہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ عنہ سے اگر سچی عقیدت ہے تو ان کے نانا کی سنت کی پیروی کریں اور ڈھول تماشہ ،گانے باجے ، رقص وسرود ، مرغ مسلم اور موج ومستی کی بجائے عاشوراء( نو اور دس محرم) کا روزہ رکھیں ۔ اصل سنی کون ہے ؟، اہل السنہ والجماعۃ کہلانے کا حقدار کون ہے؟ عاشوراء کے روزہ سے پتہ چل جائے گا۔ ہم یہ بات بھی دعوی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے نانا کی سنت پہ چلتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھتےرہے  ہوں گے ۔ لہذا سچے سنی بنیں اور جھوٹا دعوی چھوڑ دیں ۔
(6) نئے سال کی شروعات عزم واستقلال سے : اسلام میں نوحہ اور عزاداری کی گنجائش نہیں ہے اور سال نوکا استقبال ماتم ونوحہ کی بجائے نئے ولولہ خیزعزم واستقلال سے کریں ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت سے پہاڑ جیسے عزم واستقلال کا پتہ چلتا ہے ، ان کی شہادت جہاں مسلمانوں کے لئے  ماتم کی بجائے سربلندی کی علامت ہے وہاں کربلا کا سفر عزم مصمم کی ذریں تاریخ بھی ہے ۔ اس تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ہمیں آنے والا سال اسی طرح اسلام کی سربلندی کے لئے عزم وحوصلہ بیدار کرکے شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔
(7) نیا سال کا آخری پیغام : مسلم قوم کی اپنی الگ پہچان اور الگ شناخت ہے ۔ اس کے پاس اللہ کا قانون، نبی کی پاکیزہ  تعلیمات اور صحابہ کی انمول سیرت ہے ، ہمیں کسی قوم کی کسی چیز میں نقالی کی ضرورت نہیں ہے ۔ آج ہم  نےہجرت اور اس کے اسباق بھلادئے ، ہجری کلنڈر کا استعمال ترک کردیاجو اپنی مثال آپ ہےاور کلینڈرمیں ،طورطریقے میں غیروں کی نقالی شروع کردی ۔ جب عیسوی سال آتا ہے تو" ہپی نیو ایر "مناتے ہیں ، پکنک پہ جاتےہیں اور طرح طرح کے رسم ورواج انجام دیتے ہیں ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا نیا سال عیسوی نہیں ہجری ہے اور اس کی مبارک باد دینا  اسلام میں جائز نہیں ہے ہاں نئے سال کی دعا آئی ہے اسے پڑھنا چاہئے ۔
اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، وجوارمن الشيطان ورضوان من الرحمن۔
ترجمہ:اے اللہ ! اس مہینے یا سال کو ہمارے اوپرامن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور شیطان کی پناہ اور رحمن کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما۔
حوالہ مع حکم : معجم الصحابہ للبغوی  رقم :1539، طبرانی میں موجود  روایت ضعیف ہے مگر معجم الصحابہ کی یہ روایت موقوفا صحیح ہے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں ذکرکیا ہے۔
ساتھ ساتھ جس طرح دسویں  محرم، رمضان المبارک اور ایام حج میں ہجری کلینڈر کا خیال کرتے ہیں اسی طرح پورے کام کاج میں بلکہ سالوں اسے ازبر رہنا چاہئے ۔ اس سے ہماری عبادت اور عبادتوں کے اوقات جڑے ہوئے ہیں ۔  ایک اور بات دھیان میں رہے کہ نیا سال خواہ ہجری ہو یا عیسوی اس کو منانے کا کوئی خاص طریقہ اسلام میں جائز نہیں ہے ، نہ کوئی پکنک ، نہ سیروسیاحت اور نہ ہی کوئی دعوت وفنکشن ۔ اس لئے نئے سال کی آمد پہ کوئی خاص عمل انجام نہیں دینا چاہئے ۔ 
مکمل تحریر >>

Wednesday, September 20, 2017

قرآن حفظ کرنے والی خواتین کو نصیحت

قرآن حفظ کرنے والی خواتین کو نصیحت

تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)سعودی عرب

قرآن اللہ کا مقدس کلام ہے ، اس کتاب سے مسلمانوں کو بے پناہ محبت ہے ، یہ بے چینوں کے لئے سکون وراحت کا سامان ، بیماروں کے لئے نسخہ کیمیا، اندھیر قلب ونظر کےلئے ایمان ویقین کی روشنی ، گمراہ نفس کے لئےسراپا  ہدایت کا سرچشمہ اور مومن کے لئے دنیا وآخرت کی کامرانی کا ضامن ہے ۔ مسلمانوں کی قرآن سے شدید محبت کی وجہ سے اس کے یاد کرنے والے بھی ہردور میں کثیر تعداد میں رہے ہیں ۔ دنیا کاایسا کوئی کونہ یا روئے زمین کا کوئی ایسا ٹکرا نہیں ہےجہاں مسلمان رہتے ہوں اور وہاں کوئی حافظ قرآن نہ پایا جاتا ہو۔ مسلمانوں کی قرآن سے اسی بے پناہ محبت کی وجہ سے ہردور میں کفار نے اس کتاب مقدس کو جلانے اور مٹانے کی ناپاک کوشش کی مگر اپنی ناپاک کوشش میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کی حفاظت اللہ رب العالمین نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے ۔ کہا جاتا ہے " جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے"۔
نورحق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹاسکتا ہے کون
اسلام ہی ایک ایسا مذمب ہے جس کی مذہبی کتاب قرآن کے حافظ بے شمار تعداد میں ہرجگہ پائے جاتے ہیں اور کسی مذہب کے اندر مذہبی کتاب اس قدر حفظ کرنے کی مثال نہیں ملتی ۔کفاراسلام دشمنی میں قرآن جلاسکتے ہیں ، دوچار حفاظ کو شہید کرسکتے ہیں مگرلاکھوں کروڑوں  حفاظ کے سینوں سےاسے  نہیں نکال سکتے ۔یہ اللہ کا مسلمانوں پر خاص فضل وکرم ہے۔
قرآن کے حفظ کرنے والے جہاں مرد حضرات ہیں وہیں خواتین کی بھی کم تعداد نہیں رہی ہے ۔ آج کل گھریلو اورسماجی مسائل بڑھنے کی وجہ سے عورتوں کے لئے گھر اور قرآن کا حفظ کچھ  مشکل مرحلہ نظر آتا ہے ، یہ ان خواتین کی بات ہے جنہیں بچپن میں قرآن حفظ کرنے کا موقع نہیں ملاورنہ توصغر سنی میں حفظ قرآن بہت ہی آسان ہے اور لڑکا ہو یا لڑکی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے بس سرپرست کی خاصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ جس خاتون کی عمر شادی کے قریب ہوگئی یا شادی ہوگئی اور اس عمر میں حفظ قرآن کا شوق پیدا ہوگیا تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے ،اس مرحلہ میں بھی کچھ پریشانی کا سامنا کرکے قرآن پاک حفظ کرسکتی ہے مگر کچھ مسائل تو ہیں اسی سبب ہندوستان کے صوبہ بہار سے محترمہ  زیبا فاطمہ  صاحبہ خاکسار سے پوچھتی ہیں کہ" کچھ مسلم خواتین قرآن حفظ کر رہی ہیں انکے لئے کچھ نصیحت کریں جس سے انکے مقصد میں آسانی ہو کہ باوجود گھر کے کام کاج اور تمام ذمہ داریوں کے وہ قرآن حفظ کر رہی ہیں۔میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا قرآن گھر پر خود سے حفظ کیا جا سکتا ہے یا کسی حافظ کی نگرانی میں ہی حفظ کرنا چاہیے؟ "
اللہ کی کتاب پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ جو قرآن سے جس قدر وابستہ ہوگا ، اس کے اندرعمل کا جذبہ اتنا ہی بیدار ہوگا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے حافظوں کا درجہ بہت بلند ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
يُقالُ لصاحِبِ القرآنِ اقرأ وارتَقِ ورتِّل كما كنتَ ترتِّلُ في الدُّنيا فإنَّ منزلَكَ عندَ آخرِ آيةٍ تقرؤُها(صحيح أبي داود:1464)
ترجمہ: صاحب قرآن کوکہا جاۓ گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگي ۔
یہاں صاحب قرآن سے مراد حافظ قرآن ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ عظیم ثواب اسی کو ملے گا جس نے قرآن حفظ کیا، اس کی ادائیگی اور قرات کو مستحکم کیاجیساکہ اس کی شان ہے۔(مرعاۃ المفاتیح ،کتاب فضائل القرآن)
صاحب قرآن کے والدین کو قیامت میں نور کا تاج پہنایا جائے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
ان کے علاوہ صاحب قرآن کے بے شمار فضائل ہیں ، صرف انہیں دو احادیث پہ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہرمسلمان مردوعورت کو چاہئے کہ قرآن یاد کرے (جس قدرممکن ہو)، اس کا علم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے ۔اس لئے میں اپنی مسلمان بہنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کا قرآن حفظ کرنا بہت مبارک عمل ہے ، اس سے دین وآخرت دونوں سنور جائے گی ۔ اپنے دین وعقائد کو درست کرتے ہوئے دین پر صحیح سے عمل کرسکیں گی ، ساتھ ہی دوسری خواتین کی اصلاح بھی بہتر انداز میں کر سکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر آپ کےپاس ایک ایسی عورت آئی جو مزاروں پہ جاتی ہے ، غیراللہ سے فریاد رسی کرتی ہیں ، میت کے لئے نذر مانتی ہے ، قرآن اس کی زندگی میں تعویذ کی حد تک ہے وغیرہ ۔ اس عورت کے سامنے اگر قرآن سے چند آیات پڑھ کر ترجمہ کردیں ، مختصر سمجھا دیں گویالمحہ بھر میں آپ نے اس کے عقیدہ کی اصلاح کردی ۔ماننا نہ ماننا اپنی جگہ آپ نے دعوت کا حق ادا کردیااور یقین کریں قرآن پڑھ کے آپ کا سمجھانا بہت ہی موثر ہوگا،ویسے بھی  عورتوں میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے ۔
جو خواتین قرآن حفظ کرنا چاہتی ہیں ، ان کے سامنے کئی امور اور مراحل ہوں گے ، کام کاج، شادی بیاہ ، ماں باپ او ر شوہر واولاد وغیرہ ان سب مراحل میں آپ کے لئے دشواری پیش آسکتی ہے ، اس سے پہلے بنیادی طور پریہ سمجھ لینا چاہئےکہ  قرآن کا حفظ کرنا بہت بڑے اجر کا باعث ہے مگر ہرمسلمان کو مکمل قرآن یاد کرنا ضروری نہیں ہے ۔ تاہم اتنا ضرور یاد ہو کہ اس کے لئے پنج وقتہ نماز اور تراویح وتہجد میں آسانی رہے ۔ جب آپ  مکمل قرآن کریم حفظ کرنے کا ارادہ کریں  تو چند باتوں کو ملحوظ رکھیں ۔
(1) سب سے پہلے نیت خالص کریں اور اللہ تعالی سے حفظ قرآن میں آسانی کے لئے مدد طلب کریں ۔
(2) پھر عزم مصمم کرلیں کہ مجھے حفظ کرنا ہے اس کے لئے ایک مناسب وقت متعین کرلیں تاکہ ہمیشہ اس وقت کام کاج چھوڑ کر یاد کرنے لگ جائیں ۔ یاد رہے حفظ کا شوق نہیں ہوگا تو یہ کام مشکل تر ہوجائے گااس لئے شوق کو کم نہ ہونے دیں۔
(3) اگر آپ کا ناظرہ بہترین ہے اور نہایت دلجمعی سے حفظ کررہے ہیں توگھر میں اپنےسے بھی قرآن یاد کرسکتے ہیں کسی معاون کی اشد ضرورت نہیں ہے لیکن معاون کا ہونا زیادہ اچھا ہے ۔اس لئےآپ کے حق میں بہتر یہی ہےکہ  یاد کئے سبق کو سنانے کے لئے ایک اچھی قارئہ کا انتخاب کریں جسے روزانہ سنا سکیں ، روزانہ ممکن نہ ہو تو ہفتے بھر کا سبق ضرور سنائیں مگر دقت نظری کے ساتھ تاکہ جہاں کہیں اصلاح کی ضرروت ہو اس کی اصلاح کرلیں۔
(4) کوئی  قارئہ نہ ملے یا قارئہ کو سبق سنانے میں ناغہ ہوجایاکرے تو  موبائل یا کمپیوٹریاٹیپ رکارڈ سے وہ سبق سن لیا کریں ، اس سے حفظ کے ساتھ قرات میں بھی فائدہ ہوگا۔  
(5) حفظ کے لئے ایک ہی مصحف کا انتخاب کریں اور فجر  یا عشاء کے بعد کا وقت حفظ کے لئے بہت موزوں ہے اسے چن لیں یا پھرآپ کے لئے جس میں آسانی ہو۔
(6)  ایک اور بات حفظ کے ساتھ یا حفظ کے بعد جب آپ کے لئے آسانی ہو تھوڑا تھوڑا کرکے یاد کئے اسباق کو ترجمہ ومختصر تفسیر سے سمجھنے کی بھی کوشش کرتے رہیں۔
(7) ایک اہم بات اگر آپ شادی شدہ ہیں تو یاد رہے کہیں حفظ قرآن حقوق کی ادائیگی میں مخل نہ ہواور غیرشادی شدہ ہیں پھر بھی آپ کےذمہ جو کام ہو اسے ادا کرلیا کریں ۔
خواتین اسلا م کی عبرت کے لئے میں یہاں دو واقعہ ذکر رہاہوں ایک واقعہ میرے دور طالب علمی کا ہے ۔ ایک لڑکےکو میں نے دیکھا وہ عالمانہ پڑھائی بھی کررہاہے اوراز خود تھوڑا تھوڑا قرآن یاد کررہاہے ، پھر ہوا یوں کہ وہ  ادھر مدرسہ سے فارغ ہوا اور ادھر پورا قرآن حفظ کرلیا۔ اسی طرح ایک دوسرا واقعہ میں نے سعودی عرب کے ریڈیو پہ سنا ، ایک پروگرام ہے اذاعۃ القرآن ، اس کے ذریعہ عصر کے وقت مع القرآن کے نام سے ایک عصری پروگرام چلتاہے جس میں پہلے سے طے رہتا ہے کہ آج مشارکین کو فلاں جگہ سے فلاں جگہ کی آیات ترتیل سے سنانی ہیں ۔ ایک دن تقریبا پچاس سال کی عمر کی عورت نے قرآن سنایا ، پھر ریڈیو والے نے پوچھا کہ کتنا قرآن یاد ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں آنکھوں سے اندھی ہوں اور ٹیپ رکارڈ سے سن سن کر میں نے گھر میں تئیس سپارے حفظ کرلئے ۔ بس چند پارے باقی بچ گئے ہیں۔میرے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ سعودی عرب میں رہتے مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں عام طور سے مردوں کو جتنا قرآن یاد ہوتا ہے اتنا اپنے یہاں بہت سے مولوی کو بھی یاد نہیں رہتا ہے ۔ یہی حال سعودی کی خواتین کا بھی ہے ، ان میں بھی حفظ قرآن عام ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے سماج کے مردوخواتین کوبھی  اس کا جذبہ دےاور حفظ کرے والی  تمام عورتوں کے کام اور حفظ میں آسانی پیدا فرمائے آمین۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, September 19, 2017

آپ کے دس سوالات اور شیخ مقبول احمد سلفی کے جوابات

آپ کے دس سوالات اور شیخ مقبول احمد سلفی کے جوابات

سوال (1): ایک آدمی اپنی جاب کے سلسلے میں ایک شہر سے دوسرا شہر سفر کرتا ہے ہفتے میں دو دن وہ ایک شہر میں مقیم کی حیثیت سے رہتا ہے اور باقی کے دن دوسرے شہر میں,ایسے ہی سلسلہ چلتا رہتا ہے تو ایسی صورت میں اس آدمی کی نماز کا حکم کیا ہے, قصر کرے گا یا پوری نماز پڑھے گا؟
جواب : دوران سفر نمازیں قصر پڑھنی ہیں خواہ یہ سفر مہینوں یا سال پہ محیط ہو مگرکسی شہر میں نازل ہونے اور قیام کرنےکے متعلق دو مسئلے ہیں ۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کہیں چار دن سے زیادہ قیام کرنے کا پہلے سے ارادہ بن گیا تو وہاں مکمل نماز پڑھنی ہے کیونکہ وہ مقیم کے حکم میں ہے لیکن اگر چار دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہے یا یہ نہیں معلوم کہ کتنادن ٹھہرنا ہے تو اس صورت میں نمازیں قصر کرکے پڑھے گا۔

سوال (2) : میں نے ایک آدمی سے جھوٹ بولا ہے، اب اس غلطی پہ نادم ہوں،  کیا میں توبہ کرلوں تو غلطی معاف ہوجائے گی یا اس آدمی کو بتانا ضروری ہے ، یہ معلوم رہے کہ میں اس کو بتانے میں شرم محسوس کرتا ہوں اور اس قدر شرم ہے کہ اس سے بیان نہیں کرسکتا۔
جواب : انسان خطا کا پتلہ ہے ، غلطی کرسکتا ہے کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے اور اچھا انسان وہ ہے جو غلطی کرکے اس سے توبہ کرلے ۔ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے ، اللہ تعالی سے اس بڑے گناہ کی سچے دل سے توبہ کریں ، اللہ بڑا مہربان ، بہت معاف کرنے والا ہے۔ اگر آپ کے جھوٹ بولنے سے اس آدمی کا کوئی نقصان نہیں ہوا  یا آپ کے جھوٹ سے بدظنی کا بھی شکار نہیں ہوا تو خیر اسے بتلانے کی ضرورت نہیں ، جھوٹ پہ پشیمانی اور اللہ سے توبہ ہی کافی ہے لیکن اگر کچھ نقصان ہوا ہے تو اس کی تلافی ضروری ہے یا بدظنی کا شکار ہوگیا ہے تو اسے راضی کرنا ہے۔ اس کے کئے طریقے ہوسکتے ہیں ، اگر آپ کے لئے  براہ راست نقصان کی تلافی یا ناراضگی دور کرنا مشکل ہے تو اس آدمی کا کوئی قریبی ساتھی منتخب کریں اور اس کے ذریعہ خوش اسلوبی سے اپنا معاملہ حل کرلیں ۔

سوال (3):  اگر بلی نے چوہا کھایا اور اس کے منہ میں خون وغیرہ لگا ہے ایسی حالت میں بلی نے برتن سے پانی یا دوھ پی لیا تو کیا وہ پانی یا دودھ پاک رہے گا یا ناپاک ہوجائے گا ؟
جواب : نبی ﷺ نے بلی کا جوٹھا پاک قرار دیا ہے کیونکہ وہ زیادہ گھروں میں آنے جانے والی ہے ، یہ معلوم ہے کہ بلی نجاست کھاتی ہے پھر بھی آپ ﷺ نے مشقت کی وجہ سے اس کے جوٹھے کو پاک کہا ہے ۔ اگر بلی نے چوہا کھالیا ہو اور کچھ وقت گزرگیا ہوپھر کسی برتن سے دودھ یا پانی پی لیا تو وہ پانی یا دودھ پاک ہی رہے گا ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے کہا کہ اگر بلی چوہا یا اس جیسی چیز کھالے اور جدائی کا وقت لمبا ہوجائے تو تھوک سے اس کا منہ پاک ہوجاتا ہے ضرورت کی وجہ سے ، یہ سب سے قوی قول ہے جسے اختیار کیا ہے امام احمد اور امام ابوحنیفہ کے اصحاب کی ایک جماعت نے (کتاب الاختیارات العلمیۃ، باب ازالۃ النجاسۃ)

سوال (4)  ایک آدمی نے وضو کرکے جراب پہنا پھر کسی نمازکے وقت ان جرابوں پر مسح کیااور مسجد میں داخل ہوتے وقت جرابوں کو نکال دیا اور نماز ادا کی کیا اس کی نماز درست ہوگی، جراب نکالنے سے وضو باقی رہتا ہے؟
جواب :صحیح قول کی روشنی میں اگر وضو کرکے جراب پر مسح کیا ہو اور مسجد میں داخل ہوتے وقت جراب اتار دیا ہو تو اس سے وضو باقی رہے گا ، اس لئے نماز درست ہے ،ہاں جراب اترنے کی وجہ سے اب دوبارہ اس پہ مسح نہیں کرسکتا ہے ۔پھر سےوضو کرکے جراب پہنے گا   تو اس وقت مسح کرسکتا ہے ۔

سوال (5): سیب کی پیداوار میں کس طرح زکوۃ نکالی جائے گی اور اس کا نصاب کیا ہے ؟
جواب : سیب کی پیداوار میں زکوۃ نہیں ہے لیکن جو سیب کی تجارت کرتا ہوں تو مال تجارت میں نصاب تک پہچنے اور حولان حول پہ زکوۃ دے گا۔ مال میں نصاب ساڑھے باون تولہ (595 گرام) چاندی ہے ۔

سوال (6): میرا بیٹا ایک سال کا ہے بوجوہ اسکا عقیقہ باقی ہے اسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی ہمیں خاندان والے کہتے ہیں کہ اس پر عقیقے کا بوجھ ہے اسلیے صحت کے مسائل ہیں بتائیے گا کیا ایسا کچھ شریعت میں موجود ہے یا یہ ایک مفروضہ ہے نیز ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکیں تو بعد میں کرنا کیسا ہے؟
جواب : صحت کے مسائل اس لئے نہیں ہیں کہ بچے کا عقیقہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے جو اللہ کی طرف سے پہلے سے ہی مرقوم ہے ۔ اس پر مومن کو ایمان لانا چاہئے ۔ جو کہتے ہیں کہ بچہ پر عقیقہ کا بوجھ ہے اس وجہ سے طبیعت ناساز رہتی ہے غلط خیال ہے ،اس  خیال سے عقیدہ پر برا اثر پڑسکتا ہے اس لئے ایسی بات کو مردود وباطل سمجھیں ۔ جس بچے کا ساتویں دن کسی وجہ سے عقیقہ نہیں ہوسکا بعد میں بھی اس کا عقیقہ کر سکتے ہیں  اکثر علماء کا یہی کہنا ہے ۔

سوال (7): کچھ عرصہ پہلے ایک بہو نے اپنی ساس کا کچھ زیور چرائی تھی  ، اس وقت ساس کا انتقال ہو گیااور اب بہو خود بڑھاپے کو پہنچ گئی ہے وہ اس گناہ کی تلافی کرنا چاہتی ہے تو اسکی کیا صورت ہے؟
جواب : بہو کو چاہئے کہ سب سے پہلے مال مسروق میت (حقدار)  کے ورثاء کو دیدے اور اس کے بعد اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

سوال (8): مجھے گھریلو کچھ مشکل پیش آتی ہے اس لئے میں نے ایک حافظ کو طے کردیا ہے تاکہ وہ روزانہ میرے گھر سورةالبقرہ کی تلاوت کرے، کیا میرا یہ عمل درست ہےیا پھر قرآن کی رکاڈنگ چلا سکتا ہوں ؟
جواب : گھریلو مشکل سے بچنے کے لئے اولا انسان کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ، جب اللہ ناراض ہوتا ہے تو اس کی زندگی اور گھر میں آفت بھیج دیتا ہے ، پھراللہ کی رضا کا کام کرنا چاہئے نیز گھر وں میں نوافل، اذکار، دعائیں اور تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے ، ساتھ ہی گھروں کو بری  اور گندی چیزوں سے پاک بھی کرنا چاہئے ۔ کسی حافظ کو طے کرنے کی ضرورت نہیں ہے،نہ ہی روزانہ سورہ بقرہ ختم کرنا ضروری ہے  خود سے جتنا میسر ہو قرآن پڑھیں یا گھر کے افراد میں سے جوبھی قرآن پڑھنا جانتے ہیں وہ سب مناسب اوقات میں  کچھ نہ کچھ تلاوت کیا کریں ، قرآن کی رکاڈنگ ہوتو اس سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔

سوال (9) : میرا ایک دوست ہے اس کی منگنی اس کی کزن سے ہوئی ہے ، وہ دونوں اپنے والدین کی رضامندی سے آپس میں بات چیت کرتے ہیں ، کیا یہ گناہ کا کام تو نہیں ؟
جواب : یقینا یہ گناہ کا کام ہے اور اللہ کی سخت ناراضگی کا باعث ہے ، اس کام کے لئے والدین کی رضامندی کوئی معنی نہیں رکھتی ، ان کی رضامندی تو بھلائی کے کاموں میں دیکھی جائے گی ۔ اس لئے لڑکا اور لڑکی دونوں کو فورا بات چیت سے ر ک جانا چاہئے یہاں تک کہ  نکاح  ہوجائے ۔ نیز انہوں نے آپس میں بات کرکے جو غلطی کی ہے اس سے توبہ کرنا چاہئے ۔

سوال (10): غیر مسلم کی اولاد فوت ہوجائے تو اسے صبر کی تلقین کرنا کیسا ہے ؟
جواب : غیر مسلم کو اس کا بچہ فوت ہو جانے پر صبر دلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، وہ بھی انسان ہے ، دکھ والی باتوں سے اسے بھی دکھ ہوتا ہے اور انسان ہونے کے ناطے اسے دلاسہ دینے کا حق بنتا ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ ہمارے اس اخلاق سے  متاثر ہوسکتا ہے اور اسلام یا مسلمانوں کے تئیں اس کا دل نرم ہوسکتا ہے ۔ ہمارا دین یہی تو چاہتا ہے کہ اخلاق کی دعوت دیں ، نبی ﷺ اخلاق کی تکمیل کے لئے تو بھیجے گئے تھے ۔ اور اخلاق سے ہی دنیا میں اسلام پھیلا ہے۔ 
مکمل تحریر >>