Monday, July 31, 2017

قرآن کریم کی قسم کھانا

قرآن کریم کی قسم کھانا

مقبول احمدسلفی

قرآن کریم اللہ کا کلام ہے ، اس میں کسی کی دورائے اور اختلاف نہیں ہے ۔ اللہ کا کلام یعنی قرآن کریم اس کی صفت ہے اور ہمارے لئے اللہ کی ، اس کے ناموں کی اور اس کی صفات کی قسم کھانی جائز ہے ۔ نبی ﷺ اللہ فرمان ہے :
من كان حالِفًا، فلْيَحلِفْ باللَّهِ أو لِيَصْمُتْ(صحيح البخاري:2679)
ترجمہ: جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
اس حدیث میں اللہ کی ہی قسم کھانے کا حکم ہواہے اور اس کی قسم میں اس کے اسماء اور صفات دونوں کی قسم شامل ہے۔ لہذا قرآن کی قسم کھانی جائز ہے ۔
بعض عوام  کویہ شبہ ہوتا ہے کہ صرف لفظ اللہ کے ذریعہ ہی قسم کھاسکتے ہیں اور دلیل میں پیش کرتے ہیں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن حلفَ بغيرِ اللَّهِ فقد كفرَ أو أشرَكَ(صحيح الترمذي:1535)
ترجمہ: جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر یا شرک کیا۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کی مثلا نبی یا ولی یا باپ دادایاکسی انسان کی یا کسی مخلوق کی قسم کھانی جائز نہیں ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تحلِفوا بآبائِكم ولا بأمَّهاتِكم ولا بالأندادِ ولا تَحلِفوا إلَّا باللهِ ولا تحلفوا باللهِ إلَّا وأنتُم صادقونَ(صحيح أبي داود:3248)
ترجمہ: اپنے باپوں یا ماؤں کے نام کی قسمیں نہ کھایا کرو اور نہ بتوں کے نام کی ۔ صرف اللہ کے نام کی قسم کھایا کرو اور اللہ کی قسم بھی اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو ۔
اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ جھوٹ پہ تو قسم کھانی ہی نہیں ، جب ہم قسم کھانے میں سچے ہوں تبھی قسم کھائیں اور صرف اللہ کی قسم کھائیں ۔ اور غیراللہ یعنی باپوں ، ماؤں اوربتوں کی قسم نہیں کھانی ہے ۔
اوپر یہ بات ہمیں معلوم ہوئی کہ  قرآن غیراللہ نہیں بلکہ اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہے جس سے اللہ ہمیشہ سے متصف ہے ۔ یہاں فتنہ خلق قرآن کو بھی یاد کریں کہ خلیفہ مامون کے زمانے میں ہرشخص سے زبردستی گواہی لی جارہی تھی کہ قرآن مخلوق ہے اس کی گواہی دے ورنہ سزائیں دی جاتیں ۔ اس وقت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ موجود تھے انہوں نے گواہی کہ قرآن مخلوق نہیں اللہ کا کلام ہے ۔ امام صاحب کو اس بات کی وجہ سے بہت سزائیں  ملیں مگر اس عقیدہ پر قائم رہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔

مکمل تحریر >>

Saturday, July 29, 2017

منبر: افادیت ومقاصد اور موجودہ صورت حال

منبر: افادیت ومقاصد اور موجودہ صورت حال
تحریر: مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

تبلیغ دین اور ارسال رسالت میں منبروں کا بہت بڑا رول ہے۔ شروع اسلام سے لیکر آج تک منبر مسلمانوں کو اتحادواتفاق،تعلیم وتربیت، ادب واخلاق، وعظ ونصیحت، پیغام رسالت ودعوت اسلام سے باخبر کرتے آرہاہے ۔  دو لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہمیت خطبہ جمعہ کی ہے منبر کی اس سے کم نہیں۔جمعہ کا دن خیروبرکت اور اہمیت وفضیلت والا ہے دوسری امتوں کو اللہ نے اس دن کی برکات  سے محروم کررکھا تھا،اس دن کےفضائل وبرکات سےامت محمدیہ فیضیاب ہوئی ۔ یوم جمعہ کی خصوصیات میں خطبہ جمعہ بھی شامل ہے جسے منبر پر کھڑے ہوکر دیا جاتا ہے ۔ جس طرح یوم جمعہ کی فضیلت اورنماز جمعہ کی فضیلت ہے اسی طرح خطبہ جمعہ کی بھی بڑی فضیلت ہے ۔ اس فضیلت کا اندازہ اس حدیث سے لگائیں جس میں ذکر ہے کہ جس نے خطبہ جمعہ کے دوران کسی کو چپ ہونے کوکہا تو وہ سارے اجر سے محروم ہوگیا۔ خطبہ عبادت ہے اس لئے اسے ہمہ تن گوش ہوکر سننے کا حکم آیاہے تاکہ خطیب جن باتوں کی طرف نمازیوں کی توجہ مبذول کرانا چاہے وہ پوری طرح ذہن میں نقش ہوجائے اور پھر انہیں عملی زندگی میں برتے ۔  
منبر کا خطبہ سے گہرا ربط ہے اس وجہ سے خطبہ کی اہمیت سے منبر کی اہمیت  بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ یہاں سب سے پہلے منبر رسول ﷺ کا بارے میں جانتے ہیں تاکہ ممبر کیا ہے اس کے تقاضے کیا ہیں اور اس کا استعمال کس لئے اور کس طرح کرنا چاہئے  اچھے سے پتہ چل سکے ۔
اسلام کا پہلا منبر : منبر رسول ، خصوصیات وکردار
شروع میں جمعہ کے دن نبی کریم ﷺ کھجور کے تنے کا سہارا لیکر جوچھت کو تھامے ہوئے تھا کھڑے ہوکر خطبہ دیتے ، اس حال میں کہ آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور ایک عصا کا سہارا لئے ہوئے ہوتے ، وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ آٹھ ہجری میں رسول اللہ ﷺ کے لئےسب سے پہلا منبر تیار کیا گیا جو اسلام میں سب سے پہلا منبر ہے ۔یہ تین سیڑہیوں والا تھا خطبہ دیتے وقت رسول اللہ ﷺ اوپری حصے پر تشریف رکھتے اور دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھتے۔ بخاری شریف میں آپ ﷺ کے لئے منبر بنائےجانے کی تفصیل  ہے :
أنَّ رجالًا أتَو سهلَ بنَ سعدِ الساعديِّ ، وقد امتَرُوا في المِنبرِ ممَّ عودُهُ ، فسألوهُ عن ذلكِ ، فقالَ : واللهِ إني لأعرِفُ ممَّا هوَ ، ولقدْ رأيتُهُ أوَّلَ يومٍ وُضِعَ ، وأوَّلَ يومٍ جلَسَ عليهِ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ ، أرسلَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ إلى فلانةٍ ، امرأةً قد سمَّاها سهلٌ : مُرِي غلامَكِ النجارَ ، أن يعملَ لي أعوادًا ، أجلِسُ عليهنَّ إذا كلَّمْتُ الناسَ . فأمرَتْهُ فعملهَا من طَرفاءِ الغابةِ ، ثم جاءَ بها ، فأرسلَتْ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ، فأمرَ بها فَوُضِعَت ها هنَا ، ثم رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ صلَّى عليهَا وكبَّرَ وهوَ عليهَا ، ثم ركعَ وهوَ عليهَا ، ثم نزلَ القَهقَرَى ، فسجدَ في أصلِ المنبرِ ثم عادَ ، فلمَّا فرَغَ أقبلَ على الناسِ فقالَ : أيُّهَا الناسُ ، إنمَا صنعتُ هذَا لتَأْتَمُّوا ولتَعْلَموا صلاتِي .(صحيح البخاري:917)
ترجمہ:کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ان کا آپس میں اس پراختلاف تھا کہ منبر کی لکڑی کس درخت کی تھی۔ اس لیے سعد رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے میں جانتا ہوں کہ منبر نبوی کس لکڑی کا تھا۔ پہلے دن جب وہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو میں اس کو بھی جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی فلاں عورت کے پاس جن کا حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے نام بھی بتا یا تھا۔ آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے میرے لیے لکڑی جوڑ دینے کے لیے کہیں تاکہ جب مجھے لوگوں سے کچھ کہنا ہوتو اس پر بیٹھا کروں چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا اور وہ غابہ کے جھاؤ کی لکڑی سے اسے بنا کر لایا۔ انصاری خاتون نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہاں رکھوایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر ( کھڑے ہو کر ) نماز پڑھائی۔ اسی پر کھڑے کھڑے تکبیر کہی۔ اسی پر رکوع کیا۔ پھر الٹے پاؤں لوٹے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا اور پھر دوبارہ اسی طرح کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو خطاب فرمایا۔ لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنی سیکھ لو۔
نبی ﷺ کے منبر کی بڑی فضیلت وخصوصیات ثابت ہیں ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ قوائمَ مِنبري هذا رواتِبُ في الجنَّةِ(صحيح النسائي:695)
ترجمہ: بےشک میرے منبر کے پائے بہشت کی سیڑھی ہوں گے ۔
ما بين بيتي ومِنبري روضةٌ من رياضِ الجنةِ ، ومِنبري على حوضِي(صحيح البخاري:6588)
ترجمہ: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔
اس منبر سے نبی ﷺ نے اپنی امت کو دین کی تعلیم دی ہے ، وعظ ونصیحت کی ہے ،منبر پرنماز پڑھ کر سکھایا ہے ، قرآن کی تعلیم دی ہے ،  لوگوں کو جہادپرابھارا ہے، اعلائے کلمۃ اللہ کا درس دیا ہے ، امت مسلمہ کی خیروبھلائی کے لئے دعائیں کی ہیں ، دشمنوں کے لئے بددعا کی ہیں ۔ نبی ﷺ کے خطبہ کے موضوعات میں جنت وجہنم ، توحیدوایمان، صفات الہیہ کا بیان، تفاصیل واصول ایمان کا بیان، عمل صالح کا بیان، آخرت کے احوال اور امم ماضیہ کے حالات کا بیان ہوتا تھا۔
منبر اونچا ہونے کی حکمت : منبر" نبر"سے بناہے جس کے معنی بلندی کے ہے۔ منبر یعنی اونچائی سے کوئی بات کہنے پر سب کو برابر سنائی دیتی ہے خطیب کےاشارے بھی بالکل بآسانی نظرآتےہیں ، خطیب کی نگاہ مصلی کی طرف اور مصلی کی نگاہ خطیب کی طرف مرکوزہو۔ گویامنبر افہام وتفہیم کے لئے نہایت ہی اہم وسیلہ ہے ۔ نبی ﷺ کو نماز کی تعلیم دینی تھی تو منبر پر چڑھے تاکہ سب کو نماز کی کیفیت اچھے سے نظر آئے ، ایک صحابی دوران خطبہ مسجد میں آئے اوربغیر دوگانہ پڑھے بیٹھ گئے آپ نے انہیں دیکھا تو دورکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا۔
منبر کی اہمیت وافادیت : جمعہ کے دن تمام اہل اسلام کا ایک جگہ اجتماع ہوتا ہے ، یہ اجتماع اللہ کی عبادت کی غرض سے ہوتا ہے ، غسل کرکے ، عمدہ لباس پہن کر ، خوشبواستعمال کرکے مسلمان جامع مسجد میں حاضرہوتے ہیں ۔ ذہن نشاط و قبول سے معمور، دل ونگاہ عبادت الہی کا جذبہ لئے ہوئے اور جسم وجاں اللہ کے حکم کی تعمیل پر فدا ہونے کے لئے تیار ہے۔ ایسی صورت میں خطیب ایسے مسلمانوں میں جس قدر چاہیں صفات حمیدہ پیداکریں،خدمت خلق  کا جذبہ بیدار کریں، تعلیم وتربیت سے سجاسنوار دیں،قرآن وحدیث کی خوشبوؤں سے مشکبار کردیں، ایمان وعمل کے ہتھیار سے لیس کردیں، جہاد فی سبیل اللہ کا سبق پڑھائیں ، دین اسلام پر مر مٹنے کا ذوق وشوق پیدا کردیں یعنی منبر انسان کو مومن کامل بنانے کا بہترین وسیلہ ہے، اس قدر افادیت سے بھرپور دنیا کا کوئی اسٹیج نہیں ہے۔
منبر کے مقاصدوتقاضے: منبر کا وہی مقصد ہے جو خطبہ کا مقصد ہے اور خطبہ کے اہم مقاصد میں ایک مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے ۔سارے انبیاء نے اپنی امت کو ایک اللہ کی طرف بلایا ، یہی حکم نبی آخرالزمان محمد عربی ﷺ کو بھی ملا کہ آپ لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ بلائیں ۔ آج امت میں طرح طرح کے اختلاف وانتشار، شرک وبدعات اور رسم ورواج کا دوردورہ ہے ، ایک اکیلا مثالی خطیب ان کے ازالے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے اور سماج سے شروفساد، ظلم وجور، شرک وبدعت ، کفروضلالت، غفلت وسستی ، جہل ونادانی، افعال قبیحہ، اعمال شنیعہ، بے دینی وبے ایمانی کا خاتمہ کرسکتا ہے ۔ منبر کا اہم مقصد ہے کہ لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں ، برائی کا حکمت سے اور نادانی کا علم سے  مقابلہ کریں، امت مسلمہ کی اصلاح ہوگی تو ہمارے گفتار وکردار سے خود  اسلام کاغیروں میں بھی تعارف ہوگا اور کفارومشرکین ہمیں دیکھ کر ہی اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے ۔ افسوس کہ گفتار وکردار کے ایسے خطباء سے منبرمحروم ہے  اور ساتھ ساتھ منبرکا جو اصل مقصد ہے وہی بروئے کار نہیں لایا جاتا۔
موجودہ دور میں منبر کا استحصال:  آج اکثرجگہ مسلم خطوں میں منبروں کا استحصال ہورہاہے ۔ موجودہ زمانے میں  ذاتی مقاصد، دنیاوی فائدے، سیاسی منفعت، ذاتی رنجش ونزاع ،بغض وحسد ، دل کی بھڑاس، مسلکی تشدد، فقہی تنازعات، فروعی مسائل، ذات وبرادری کی عصبیتیں ، تجارتی منافع،منصب کی مصلحتیں جیسے کام منبروں سے  لیا جارہاہے جبکہ دوسری طرف ممالک اسلامیہ خاک وخون میں ڈوبے ہوئے ہیں، کفر کی ساری خدائی ایک ہوچکی ہے، ہم مسلمان پوری طرح کفار کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں ، جگہ جگہ مسلمانوں کا خون رائیگاں ، عزتیں نیلام اور طاقتیں کمزور ہورہی ہیں  اور ہمارے خطباء وواعظین اپنے ہی کاشانے جلانے پہ مستمر ہیں۔ منبروں سے اشتعال انگیزاور پرتشدد  بیانوں سے مسلمانوں کے آپس کے گھرگھر تباہ ہورہے ہیں ، فردوجماعت میں ایک دوسرے مسلک والوں کے تئیں تشددوتنفر پیدا ہورہاہے ، اسلامی اتحاد پارہ پارہ اور مسلمانوں کی طاقت پاش پاش ہورہی ہے ۔ جب منبر بھی تنازعات ، تنافرات ، تباغضات، تعصبات، تشددات سے پاک نہ رہے تو ہماری کون سی جگہ پاک رہے گی ۔ فوری طورپرہمیں ہوش کے ناخن لیناہے ، منبروں کواستحصال سے بچانا ہے ، ایسے کم علم  وبے عمل  خطیب سے انہیں پاک کرنا ہے جو منبر وں پر داغ لگے ہوئے ہیں اور ایمان وتوحید کے منافی خطبوں سے فرزندان توحید کے گھروں اور دلوں کو تباہ کرتے ہیں ۔اور جو باصلاحیت  وباعمل علماء ہیں صرف انہیں ہی خطابت کے لئے بحال کئے جائیں ،ایسے ہی علماء کواسٹیج واجلاس کی زینت بنائی  جو صلاحیت کے ساتھ ساتھ عمل صالح سے لیس ہوں اور امت اسلامیہ کی اصلاح کا درد اپنے دلوں میں رکھتے ہوں ، گھروں ، بستیوں ، ملکوں اور دلوں کوجوڑنے کا کام  عقیدہ توحید کی بنیاد پر  کرتے ہوں ۔بازار کفر میں ایمان کا سودا ہورہاہے ،  منکرات وسیئات کی آماجگاہ میں حسن وشباب کے ننگے ناچ سے قلب وضمیر پر کارعصیاں کے زنگ لگائے جارہے ہیں ۔ ایسے میں جہاں عوام کو بیدار ہونا ہے اور کفروعصیاں سے دامن بچانا ہے وہاں خطیب وواعظ کی ذمہ داری عوام سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔ خطیب تو لوگوں کے لئے نمونہ ہے ،انہیں اپنے گفتاروکردار سے عوام کی اصلاح کرنی ہے ۔ خطیب کو اصلاح کی ابتداء منبروں کو تشددواستحصال اور غیض وغضب سے پاک کرکے کرنا ہے ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, July 26, 2017

واٹس ایپ گروپ" اسلامیات" کے سوالات اور ان کے جوابات

واٹس ایپ گروپ" اسلامیات" کے سوالات اور ان کے جوابات

جوابات از: مقبول احمدسلفی

(1) غیرمسلم کو عربی پڑھا نامثلا قرآن یا نورانی قاعدہ کیساہے ؟
جواب : غیرمسلم کو عربی زبان سکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن قرآن سکھانے کی بابت علماء نے کہا ہے کہ جو اسلام کی طرف مائل ہو اور جس سے اسلام کی امید ہو اسے قرآن سکھایا جائے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ (التوبة :6(
ترجمہ: اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے توتواسے پناہ دے دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچادے ۔ یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں ۔
اگر کسی غیرمسلم کو کلام اللہ سنانے یا سکھانے کا فائدہ ہے تو اسے اللہ کا کلام سنانا اور سکھانا چاہئے ۔
(2)  گجرات میں سیلاب ہونے کی وجہ سے ایک مولوی نےمسند احمد کے حوالے سے  یہ دعا پڑھنے کی نصیحت کی ہے کیا یہ ہے صحیح ہے ؟ اللهمَّ إِنَّي أعوذُ بكَ مِنْ شرِّ الأعميَيْنِ : السيلُ والبعيرُ الصؤولُ .
ترجمہ: اے اللہ ! دو اندھی چیزوں کی برائیوں سے یعنی سیلاب اور بدکے ہوئے اونٹ سے حفاظت فرما۔
جواب : یہ دعا طبرانی اور مجمع الزوائد میں موجود ہے، ہیثمی نے کہا کہ اس میں عبدالرحمن بن عثمان حاطبی ضعیف ہے ۔ (مجمع الزوائد:10/147)
شیخ البانی نے ضعیف الجامع میں ضعیف اور سلسلہ ضعیفہ میں منکر کہا ہے ۔ (دیکھیں : ضعيف الجامع:1200،السلسلة الضعيفة: 29/14)
(2) کون سی نماز کے ساتھ قضا نماز اور نوافل نہیں پڑھ سکتے ؟
جواب : سوال کچھ گنجلک ہے مگر میرے جواب سے سوال کو متعین کیا جاسکتا ہے ۔ فرض نماز کے ساتھ فرض تو ادا ہوگا ہی ،قضا اور نفل بھی ادا کرسکتے ہیں جیسے کہ عصرکی نماز ہورہی ہے تو جس نے عصرکی نماز نہیں ادا کی ہے وہ عصر کی نیت سے جماعت میں شامل ہوگا ، جس نے ظہر کی نماز نہیں ادا کی تھی وہ ظہر کی نیت سے عصر کی نماز میں شامل ہوگا یہ اس کی قضا نماز ہوگی۔اور اگر کوئی آدمی مسافر ہونے کی حیثیت سے ظہروعصر دونوں پڑھ لی ہووہ چاہے تو عصر کی جماعت میں شامل ہوجائے نفل کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز، قضا نمازاورنفل نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ تراویح کی نماز ہورہی ہے اور کسی نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی ہے تو وہ اس میں شامل ہوکر عشاء کی فرض نماز پڑھ سکتا ہے ، مغرب کی قضا کی نیت سے بھی اس میں شامل ہوسکتے اورتراویح کی  نفل میں نفل کی حیثیت کی سے شامل ہونا تو ہے ہی ۔
(4)کیا واقعی زمزم کا پانی خراب نہیں ہوتا، جو زمزم میرے پاس دو تین سال پہلے کا ہے اس کا استعمال کرسکتے ہیں ؟ اور جو زمزم میں دوسرا پانی ملادیا ہے اسے بھی سالوں بعد استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب : عام کنواں کا پانی چند سالوں میں بدل جاتا ہے مگر زمزم کا کنواں ہزاروں سال پرانا ہے اس کے پانی کے ذائقہ میں ذرہ برابر تبدیلی پیدا نہیں ہوئی، اول وقت سے جوں کا توں ہے۔یہ زمزم کی بہت بڑی خصوصیت ہے یہی وجہ ہے کہ کنواں سے زمزم باہر نکال کر بھی سالوں ذخیرہ کرسکتے ہیں اس میں بیکٹریا سے حفاظت کا الہی سامان موجود ہے ۔ آپ سالوں پرانے زمزم کو استعمال کرسکتے ہیں اور اسے  بھی استعمال کرسکتے ہیں جس میں دوسرا پانی ملادیا گیا ہو،جس میں زمزم ملایا جائے اس میں زمزم کی خصوصیت غالب ہوجاتی ہے۔ یہاں ایک مشورہ دوں گا کہ زمزم کو خالص ہی اسٹور کریں بھلے ہی پینے کے وقت کچھ ملالیں ۔
(5) کیا زمزم کا پانی زیادہ ہو تو اس سے کھانا بنا سکتے ہیں ؟
جواب : اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، زمزم فضیلت والا پانی ہے اس میں شفا بھی ہے ۔ خالص پینے سے ، ملاکر پینے سے یا کھانے میں استعمال کرنے سے شفا اپنی جگہ باقی رہے گا۔
(6) تصریح کے بغیر حج کرنا کیسا ہے اور جو لوگ ذی القعدہ کے مہینے میں مکہ میں داخل ہوجاتے ہیں اور حج کے ایام میں مکہ سے ہی احرام باندھ کر حج کرتے ہیں اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کو اشھر حج (حج کے مہینے) کہا جاتا ہے ، ان تین مہینوں میں کوئی آدمی  مکہ کا سفر کرے اس حال میں کہ اس کا ارادہ حج کا ہے تو اسے میقات سے ہی احرام باندھنا ہوگا ۔ جو بغیر احرام کے میقات سے گزرگیا اور مکہ سے احرام باندھ کر حج کیا اسے دم دینا ہوگا۔ رہا مسئلہ تصریح کا تو یہ قانونی چیز ہے جوکوئی بغیرتصریح کے حج کرتاہے وہ سعودی قانون کی مخالفت کرتا ہے البتہ بغیر تصریح کے کیا گیا حج درست ہے ، نبی ﷺ نے اور صحابہ کرام نے بغیر تصریح کے حج کیا۔ یہ آج کا قانون ہے اور اس میں لوگوں کی بھلائی ہے لہذا قانونی اعتبار سے حج کرنا چاہئے۔
(7) میرے دادا جی ضعیف ہیں ، انہوں نے ضعیفی کی وجہ سے رمضان کا روزہ نہیں رکھا  تو کیا ان کے ورثاء آپس میں تقسیم کرکے چھوٹے ہوئے روزے رکھ سکتے ہیں یا ہدیہ دینا پڑے گا؟
جواب : جب کوئی ضعیفی کی وجہ سے رمضان کا روزہ نہ رکھ سکے تو رمضان میں ہی وہ ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے دیا کرے ، یعنی مسکین کو کھانا دینے کا کام رمضان میں ہی ہوجانا چاہئے اب تاخیر ہوگئی ہے پھر بھی امسال انتیس یا تیس جتنے روزے ہوئے ہوں اتنے دن کے حساب سے مسکین کو کھانا دیدے ۔فدیہ نصف صاع یعنی ڈیڑھ کلو اناج چاول یا گیہوں  دینا ہے ۔اس کے بدلے پیسہ دینا کفایت نہیں کرے گا ۔
(8) کپورے کھانے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : کپورے کھانے کی ممانعت نہیں ہے ، حلال جانور کے ساتھ اعضاء ((بوقت ذبح بہنے والاخون،شرمگاہ، کپورے(خصیتین)،غدود، اگلی شرمگاہ،مثانہ،پتہ)) کھانے کی ممانعت والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے ، حلال جانور کا ذبح کے وقت بہنے والا خون حلال نہیں باقی سب حلال ہے ۔
(9) میت کی طرف سے قربانی کرسکتے ہیں کہ نہیں مثلا دادادادی، نانانانی وغیر ہ
جواب : میت کی طرف سے مستقل قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ہے اس لئے دادا دادی اور نانانانی کی طرف سے مستقل قربانی نہیں کرسکتے لیکن اپنی قربانی میں شریک کرسکتے ہیں جیساکہ نبی ﷺ نے اپنی قربانی میں اپنی امت کو شریک کیا تھا۔
(10)میرا  ایک غیراہل حدیث رشتہ دار اہل حدیث سے بہت متاثرہے ،سالوں سے پورے رمضان کا عمرہ کرنے جاتا ہے وہ حرم کے اعمال کے متعلق پوچھتا رہتاہے ،ایک سوال  اسے کھٹکتا ہے اس نے ایک سعودی کو دیکھا جو ہمیشہ فجر کی اذان ہوتے ہی پانی پیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ سنت رسول ہے ، کیا یہ درست ہے ؟
جواب : اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کے ساتھی کو سیدھی سچی راہ چلائے ، آمین
نبی ﷺ کا ایسا کوئی فرمان یا عمل  نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ رمضان میں اذان کے بعد بھی کھانا اور پینا چاہئے ،ہاں نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے :إذا سمعَ أحدُكُمُ النِّداءَ والإناءُ على يدِهِ ، فلا يَضعهُ حتَّى يقضيَ حاجتَهُ منهُ(صحيح أبي داود:2350)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اسکے ہاتھ میں ہو تو وہ اسے اس وقت تک نہ رکھے جب تک اس میں سے اپنی حاجت پوری نہ کر لے ۔
اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اتفاقیہ کبھی اگر سحری کھاتے ہوئے اذان ہوجائے تو برتن کا کھانا ضرورت بھر کھالینا چاہئے لیکن فجرکی اذان ہونے کے بعد سحری کھانا درست نہیں ہے اگر کسی نے جان بوجھ کر ایسا عمل کیا تو اس کا روزہ نہیں ہوگا ، اس روزہ کی قضا کرنی ہوگی ۔

مکمل تحریر >>

Saturday, July 22, 2017

آمریت پر مبنی جماعت میں رہنے کا حکم

کسی ایسی جماعت جس میں شورائیت کی بجائے آمریت ہو اس سے منسلک رہنا یعنی اس کی رکنیت یا کوئی ذمہ داری لینا کیسا ہے؟
جواب : آمریت ڈکٹیٹرشپ اور مطلق العنانی کو کہتے ہیں ، اگر جماعت وتنظیم میں شورائیت کی جگہ آمریت پیدا ہوجائے تو جماعت(تنظیم) فساد کا شکار ہوجاتی ہے ، اس وقت جماعت(تنظیم) کے ذریعہ اصلاح نہیں تخریب عمل میں آتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں ہرکسی تنظیم میں آمریت کا کچھ نہ کچھ دخل ہے ایسے وقت میں سماج کے باشعور اور ذمہ دار شخص کو کیا کرنا چاہئے ؟کیا ایسی تنظیم سے جڑے رہنا چاہئے یا اس سے الگ ہوجانا چاہئے ؟
اس سوال سے متعلق  اختصار کے ساتھ میرا یہ جواب ہے کہ اگر ذمہ داران تنظیم صحیح العقائد مسلمان ہوں اس شرط کے ساتھ کہ تنظیم کا مقصدبھی پاکیزہ ہومثلا  اصلاح سماج ،اعلائے کلمۃ اللہ ، دینی تعلیم وتربیت وغیرہ  تو ایسی تنظیم کی آمریت کو ختم کرنا چاہئے نہ کہ تنظیم سے الگ ہوناچاہئے اور نہ ہی اس تنظیم کے متوازی دوسری تنظیم قائم کرنی چاہئے ۔ آمریت جمعیت کے  ہر شخص میں نہیں ہوگی اور نہ ہی آمریت صحیح العقیدہ مسلمان کا ایجنڈا ہوگاجن کے مقاصد پاکیزہ ہوں۔ بسااوقات  تنظیم کے بعض افراد عہدہ ومنصب ،مال وزر اور کسی داخلی یا خارجی عوامل کےسبب دھوکے  میں آمریت کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس آمریت کا تقاضہ ہے کہ دینداروامانتدار ذمہ داران تنظیم آمریت کا سد باب کریں خواہ اس کے لئے مطلق العنان شخص کا اخراج ہی کیوں نہ کرنا پڑے ،اصلاح کایہ آخری قدم ہے ۔اول وحلہ میں بیمار ذہنیت کے ایسے افراد کوبیماری سے پاک کرنے کے لئے باہم صلاح ومشورے ہونے چاہئے ۔ اجتماعی مشورے مفیدنہ ہوں تو بااثرشخصیت کے ساتھ انفرادی اصلاح کی کوشش کی جائے ،یعنی اصلاح کے جو بھی پہلو ہیں انہیں پہلے اختیار کئے پھر آخری قدم اٹھا یا جائے ۔ عام طور سے تنظیم میں اصلاح کی بجائے فورا اخراج کا حربہ اپنایاجاتا ہے اس اقدام سے بسااوقات بہت برے نتائج سامنے آتے ہیں ۔
اور اس سوال کے جواب میں مزید اضافہ یہ ہے کہ اگر آمریت ایسی تنظیم کا حصہ ہو جس میں بدعقیدہ لوگ شامل ہوں ، ان کامشن اصلاح یا احیائے اسلام نہیں بلکہ تخریب کاری ہو تو ایسی تنظیم کاقطعی حصہ نہیں بننا چاہئے ۔ اسی طرح صحیح عقائد کے حامل مسلمان غلط راہ اختیار کرلےاور اپنے  غلط مشن سے اسلام کو بدنام کررہاہویا نقصان پہنچا رہاہوتو ایسے افراد کابھی ساتھ نہیں دینا چاہئے ۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی

مکمل تحریر >>

قبروں پر اللہ کی تجلیات وخیروبرکت کا نزول؟

ایک بھائی کا سوال ہے کہ کیا اللہ کے انواروتجلیات یا خیروبرکت کسی اللہ والے کی قبروں پر اترتی ہے ؟
جواب :  قبر اور صاحب قبر کا معاملہ برزخی ہے ، اس کے احوال وکیفیات کوجاننا انسان کے بس میں نہیں ہے ، یہ اللہ کے علم میں ہے۔تاہم اس سے متعلق  قرآن وحدیث میں جو بیان کیا گیا ہے ہمیں اس کی تصدیق کرنی ہے ۔ سوال میں مذکور ہے کہ اللہ والوں کی قبر پر یعنی  ان کی قبر کے اوپراللہ کی تجلی یا خیر نازل ہوتی ہے کہ نہیں ؟ میں نے ابھی ابھی بتلایا کہ قبر کا معاملہ برزخی ہے اس کے حالات انسان نہیں معلوم کرسکتے سوائے اس کے کہ اس سے متعلق جوقرآن اور صحیح احادیث میں وارد ہے اس کی تصدیق کرنے کے ۔اللہ والے اور ان کی قبروں کے اندرونی حالات کے متعلق صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ وہ اللہ کی نعمت میں ہوتے ہیں ، ان کی قبر میں جنت کا فرش بچھا دیا جاتا ہے ، ان کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ، انہیں جنت کا لباس پہنایا جاتا ہے جیساکہ ابوداؤد کی حدیث میں مذکور ہے ،جب مومن بندہ فرشتے کے چوتھے سوال : تم نے یہ باتیں کیسے جانیں ؟ کاجواب دے دیتے ہیں تو نبی ﷺ کا فرمان ہے :
فينادي منادٍ منَ السَّماءِ: أن قَد صدقَ عَبدي، فأفرِشوهُ منَ الجنَّةِ، وافتَحوا لَهُ بابًا إلى الجنَّةِ، وألبسوهُ منَ الجنَّةِ قالَ: فيأتيهِ من رَوحِها وطيبِها قالَ: ويُفتَحُ لَهُ فيها مدَّ بصرِهِ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ: پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے ۔
یہ قبر کے اندر کی کیفیت ہے ، اس کی ہمیں تصدیق کرنی ہے اور قبر کے اوپر اللہ کی تجلی یا خیروبرکت نازل ہونے سے متعلق  کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ کسی نیک آدمی کی قبر پر نور دکھائی دے یاوہاں سے خوشبو آتی ہو لیکن فی زمانہ قبر پرستوں نے قبروں کی تجارت کرکے اس قسم کابڑا ڈرامہ رچا ہوا ہے ، جس کی قبر پہ مزار بناہو یا مزار بنانے کا ارادہ ہو وہاں خود سے جادوئی روشنی کایا مصنوعی خوشبو ظاہر کرکے لوگوں کومبہوت کرتے ہیں اور ان کی توجہ اللہ کی طرف سے موڑ پر قبر کی طرف کردیتے ہیں تاکہ قبر کی تجارت کو فروغ ملے ۔اس لئے اس وقت اس قسم کی باتوں پہ اپنا ایمان نہ ضائع کریں ۔ اگر کسی قبر سے واقعی  خوشبو آتی ہے یا وہاں واقعی نور نظر آتا ہے تو صاحب قبر کے لئے مزید مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کریں گے بس۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

Thursday, July 20, 2017

حج سے متعلق ایک بھائی کے چندسوال اوران کے جواب

حج سے متعلق ایک بھائی کے چندسوال اوران کے جواب

شیخ صاحب حج سے متعلق کچھ سوالات ہیں امید کرتا ہوں کہ جواب ارسال فرمائیں گے ۔
(1)حاجی کے لئے اس کی بیوی کب یعنی کس تاریخ سے حلال ہوگی اور کس تاریخ سے اس کے لئے حرام ہوجائے گی ؟
(2) حالت احرام میں پیر کهلا ہوا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟
(3) منی و عرفات میں ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑهنا ہے یا الگ الگ؟
(4) زم زم میں دوسرا پانی ملا سکتے ہیں یا نہیں ؟
(5) ایام حج میں کن کن صورتوں میں دم لازم آتاہے؟
سائل : اظہرالاسلام

الجواب بعون اللہ الوھاب
پہلے سوال کا جواب : سوال میں پہلے حرمت اور پھر حلت کا ذکر ہونا چاہئے ۔مجملا یہ سمجھیں کہ جب تک حاجی حالت احرام میں ہوتا ہے بیوی سے جماع ممنوع ہوتا ہے ۔اوراس کی تفصیل یہ ہے کہ جب حاجی حج کی نیت کرلے  یوم الترویہ  یعنی آٹھ ذی الحجہ سے تو اس وقت سے بیوی سے جماع ممنوع ہے ،یہ ممانعت دس ذی الحجہ تک ہے ،اس شرط کے ساتھ کہ یوم النحر کوحاجی نے اس دن کے مناسک میں سے تین کام کرلیاہو مثلا اس نے کنکری مار لی ، بال منڈوالیا  اور طواف افاضہ کرلیا  تو بیوی  اس وقت حلال ہوجائے گی۔
دوسرے سوال کا جواب :  حالت احرام میں چپل کا استعمال کرنا چاہئے جس سے قدم کا اوپر ی حصہ، ٹخنہ اور ایڑی کھلے ہوں کیونکہ نبی ﷺ نے احرام میں چپل پہننے کا حکم دیا ہے۔پیر میں تکلیف ہو یا جوتا پہننے کی مجبوری ہو تو ٹخنے سے نیچے تک والاجوتا پہن سکتے ہیں ۔
تیسرے سوال کا جواب :  منی کی نمازیں خواہ آٹھ تاریخ کی ہو یا ایام تشریق کی اپنے اپنے وقت پر قصر کے ساتھ پڑھنی ہیں ، نمازیں جمع نہیں کرنی ہیں اور عرفات کی ظہروعصر کی نماز،ظہر کے وقت میں جمع وقصر کے ساتھ پڑھی جائے گی۔ اسی طرح منی سے لوٹ کر مزدلفہ میں عشاء کے وقت مغرب وعشاء کی نماز ایک ساتھ قصر سے پڑھی جائے گی ۔ 
چوتھے سوال کا جواب :  زمزم کے اندر شفا ہے ،اس کو خالص پیاجائے تو بہتر ہے لیکن کہیں زمزم کی قلت ہوتی ہے اور افراد کی کثرت ،اس وجہ سے زمزم میں دوسرا پانی ملانے کی ضرورت پڑجاتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ان شاء اللہ زمزم کی برکت اور شفا نصیب ہوگا ۔
پانچویں سوال کاجواب : حج کے سات واجبات ہیں ، ان میں سے کسی کو چھوڑنے پر دم دینا پڑتا ہے ، وہ سات واجبات یہ ہیں۔
(1) میقات سے احرام باندھنا
(2) سورج غروب ہونے تک عرفہ میں ٹھہرنا
(3) عید کی رات مزدلفہ میں گذارنا
(4) ایام تشریق کی راتیں منی میں بسر کرنا
(5) جمرات کو کنکری مارنا
(6) بال منڈوانا یا کٹوانا
(7) طواف وداع کرنا(حیض و نفاس والی عورت کے لئے نہیں ہے )۔
واجبات کے علاوہ نو محظورات (ممنوعات) احرام ہیں ،ان کے ارتکاب پر بھی دم ہے جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)بال کاٹنا(2)ناخن کاٹنا(3)مردکو سلاہواکپڑا پہننا(4)خوشبولگانا(5)مردکاسرڈھانپنا(6)عقدنکاح کرنا(7)بیوی کو شہوت سے چمٹنا(8) جماع کرنا(9)شکار کرنا۔
جوشخص لاعلمی میں ممنوعات احرام  میں سےکسی کا ارتکاب کرلے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے  لیکن اگر جان بوجھ کر ارتکاب کیا توفدیہ دینا ہوگا(گرایک سے لیکر پانچ تک میں سے کسی کا ارتکاب کیاہو)۔فدیہ میں یاتو تین روزہ یا ایک ذبیحہ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ شکار کرنے کی صورت میں اسی کے مثل جانور ذبح کرناہوگا۔عقدنکاح سے حج باطل ہوجاتاہے۔اگر تحلل اول سے پہلے جماع کرلے توعورت ومرد دونوں کا حج باطل ہوجائے گا اور اگر تحلل اول کے بعد طواف افاضہ سے پہلے جماع کرے تو حج صحیح ہوگامگر اس کا احرام ختم ہوجائے گا وہ حدود حرم سے باہر جاکر پھر سے احرام باندھے تاکہ طواف افاضہ کرسکے اور فدیہ میں ایک بکری ذبح کرے ۔ 
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی
مکمل تحریر >>

حدیث: اللہ تھوڑے عمل سے راضی ہوجاتا ہے


حدیث: اللہ تھوڑے عمل سے راضی ہوجاتا ہے

مقبول احمد سلفی

ایک حدیث پاک آتی ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان ہوئی ہے ،ابن ابی الدنیا نے اسے اپنی کتاب الفرج بعد الشدۃ میں اس طرح بیان کیا ہے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبِ بْنِ خَالِدٍ الْمَدَايِنِيُّ ، قَالَ : ثنا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ بَانَكَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ، يَقُولُ : عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عِبَادَةٌ ، وَمَنْ رَضِيَ بِالْقَلِيلِ مِنَ الرِّزْقِ ، رَضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ بِالْقَلِيلِ مِنَ الْعَمَلِ ۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ کی طرف سے کشادگی کا انتظار کرنا عبادت ہے اور جو تھوڑے رزق پر راضی ہوجاتا ہے، اللہ اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہوجاتا ہے۔
اسے بیہقی نے شعب الایمان میں ، ابومنصور دیلمی نے مسندالفردوس میں اور امام غزالی نے احیاء علوم الدین میں ذکر کیا ہے ۔
اس حدیث کی سند میں پہلا راوی ابوسعید عبداللہ بن شبیب متروک الحدیث ہے اور دوسرا راوی اسحاق بن محمد فروی ضعیف ہے اسے نسائی، ابوداؤد اور دارقطنی نے ضعیف کہا ہے ۔
امام غزالی کی کتاب احیاء کی اس حدیث کی تخریج کرتے وقت حافظ عراقی نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے ( تخريج الإحياء: 5/64)
شیخ البانی نے مشکوۃ کی تخریج میں کہا ہے کہ اس کی  دوسندیں ہیں اور وہ دونوں ضعیف ہیں ۔ اس لئے  شیخ نے سلسلہ ضعیفہ میں 1573، 1925، 2373 کے تحت اسے ضعیف قرار دیا ہے ، اسی طرح ضعیف الجامع میں بھی 1331  اور 5601 کے تحت ضعیف کہا ہے ۔
ابن الجوزی نے بھی اسے غیرصحیح کہا ہے ۔( العلل المتناهية: 2/806)
مکمل تحریر >>

Sunday, July 16, 2017

زکوۃ، کرسی، نمازجمعہ،مسواک ، مظاہرہ ، سرمہ اور مہندی وغیرہ سے متعلق سوالات کے جوابات

زکوۃ، کرسی، نمازجمعہ،مسواک ، مظاہرہ ، سرمہ اور مہندی وغیرہ سے متعلق سوالات کے جوابات

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

(1) جو سید ہیں ان کو زکوۃ نہیں ہے مگر ان میں سے جو معذور ہیں ان کی کیسے مدد کی جائے گی اور سید کون ہیں اس کی بھی وضاحت کردیں۔
جواب : ہاں یہ بات درست ہے کہ جو آل محمد ہیں جنہیں سیدبھی کہاجاتا ہے ان کے لئے زکوۃ نہیں ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا:
إنَّ هذهِ الصدَقاتِ إنَّما هِيَ أوْساخُ الناسِ . إنّها لا تَحِلُّ لِمُحمدٍ ولا لِآلِ مُحمدٍ(صحيح مسلم:1072)
ترجمہ: یہ صدقات لوگوں کا میل کچل ہیں اور یقیناً یہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلا ل نہیں۔
آج ہرکوئی اپنے نام کے ساتھ سید لگالیتا ہے اور بہت سے لوگ خود کو سید ہونے کا دعویدار ہیں ایسے میں ہمیں یہ بات جاننی ہوگی کہ دعوی کرنے والے کے پاس سید ہونے کا ٹھوس ثبوت ہے کہ نہیں؟ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آل رسول یعنی سید کسے کہتے ہیں مسلم شریف کے جس باب کے تحت مذکورہ حدیث درج ہے اس سے پہلے ایک باب ہے :
بَابُ تَحْرِيمِ الزَّكَاةِ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَعَلَى آلِهِ وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ دُونَ غَيْرِهِمْ(باب: رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل پر زکاۃ حرام ہے اور آپ کی آل سے مراد بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں)۔
تو آل رسول سے مراد بنوھاشم اور بنومطلب کی نسل والے ہیں ، جو ان کی نسل سے نہیں وہ آل رسول یا سید نہیں ۔ رہا یہ مسئلہ کہ جو سید میں معذور ہوں ان کی کیسے مدد کی جائے تو زکوۃ کے علاوہ ہرقسم کے جائزمال سے مدد کی جاسکتی ہے مثلا نفلی صدقہ اورخدمت خلق کے تحت مالی تعاون وغیرہ ۔
(2) کسی مالدار آدمی نے غریب فیملی کو شادی کے لئے زکوۃ کی رقم دی اور غریب فیملی نے اس مالدار آدمی کو بھی زکوہ کے مال سے دی گئی دعوت پہ بلایا کیا اس کاکھانا جائز ہے ؟
جواب : مالدار آدمی غریب کی اس دعوت میں شریک ہوسکتا ہے جس میں زکوۃ کا پیسہ لگایا گیا ہو۔ اس وقت زکوۃ کا مال کھانے والے کے حق میں ہدیہ کے قبیل سے ہوگا۔ مسلم شریف میں حضرت انس بن ما لک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا :
أَهْدَتْ بَرِيرَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمًا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَيْهَا، فَقَال: «هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّة(صحیح مسلم : 2485)
ترجمہ: حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز) نے کچھ گو شت جو اس پر صدقہ کیا گیا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کیا تو آپ نے فرما یا : وہ اس کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہد یہ ہے ۔
(3)ایک لڑکا نے کہا ہے کہ میں نے جمعہ کی نماز کی نیت کی تھی اور سویا ہی رہ گیا لہذا مجھے جمعہ کی نماز کا پورا ثواب ملے گا،کیا اس لڑکے کا کہنا صحیح ہے ؟
جواب : کسی کام کی سچی نیت کرنے سے ا س کا پورا ثواب ملتا ہے اگر اس کام کو کرنے کی توفیق نہیں ملی ،نبی ﷺ کا فرمان ہے :عمل کا دارومدار نیت پر ہے ۔ جس لڑکے نے جمعہ کی نماز پڑھنے کی سچی نیت کی اور وہ نماز جمعہ کے لئے بیدار نہیں ہوانیز جمعہ فوت ہونے پر افسوس کا اظہار کیا اور نماز جمعہ کی جگہ ظہرانہ ادا کیا ، ان شاء اللہ اسے نماز جمعہ پڑھنے کا ثواب ملے گا اور اس پر ترک جمعہ کا گناہ نہیں آئے گالیکن اگر وہ لڑکا رات کافی دیر سے سویا اسے سوتے وقت فجر اور جمعہ جانے کا یقین تھااور وہ نماز کے لئے بیدار ہونے کی خاطر کوئی سبب بھی اختیار نہیں کیا ۔نہ الارم لگایا اور نہ ہی کسی کو بیدار کرنے پر مامور کیا تو اس صورت میں اس پر نہ صرف جمعہ چھوڑنے کا گناہ آئے گا بلکہ نماز فجرترک کرنے کا بھی گناہ آئے گا۔ہاں فجر کے بعد زیادہ نیندآنے کے سبب سویا ہی رہ گیا اور نمازجمعہ ادا نہیں کرسکا اس حال میں کہ اس نماز کی سچی نیت کی تھی اور چھوٹنے پر اس کا غم بھی ہوا تواللہ اسے اجر دے گا ۔ شہروں اور کمپنیوں میں دیر رات تک کام کرنے والے بہت سے لوگ جمعہ کے دن سوئے ہی رہ جاتے ہیں ایسے لوگ نہ فجر کی نماز پڑھے ہوتے ہیں ،نہ انہیں جمعہ چھوٹنے کا غم ہوتا اور نہ جمعہ کی نماز چھوٹنے پر اس کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں ایسے لوگوں کو ثواب ملے گا یا عذاب؟ اللہ تعالی نیتوں کو جاننے والا ہے۔
(4) کیا مسواک والی حدیث میں ہرنماز سے مراد فرض والی ہے یا نفل والی یاپھر دونوں نمازیں مراد ہیں ؟
جواب : سوال میں اشارہ اس حدیث کی طرف ہے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لولا أن أشقَّ على أمتي، أو على الناسِ لأمَرتُهم بالسواكِ معَ كلِّ صلاةٍ(صحيح البخاري:887)
ترجمہ: اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔
یہاں صلاۃ (نماز) کالفظ عام ہے اس وجہ سے اس میں فرض ونفل دونوں نمازیں شامل ہیں ،اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔
لولا أن أَشُقَّ على أُمَّتي لأمرتُهم عند كلِّ صلاةٍ بوضوءٍ ، و مع كلِّ وضوءٍ بسِواكٍ(صحيح الترغيب للألباني:200)
ترجمہ: اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ہرنمازکے لئے وضو اور ہروضو کے لئے مسواک کاحکم دے دیتا۔
اس حدیث میں مسواک کاذکر ہروضو کے ساتھ ہے خواہ فرض نماز کے لئے ہو یا نفل نماز کے لئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسواک کرنا فرض ونفل دونوں نمازوں کوشامل ہے۔
(5) ہندوستان میں اس وقت سیاسی مظاہرے ہورہے ہیں اس قسم کے مظاہرے کااسلامی حکم کیا ہے ؟
جواب : مظاہروں میں عام طور سے اشتعال انگیزی ، توڑپھوڑ، گالی گلوج، طعن وتشنیع، لوٹ مار ،ظلم وزیادتی اور بہت سی محرمات کا ارتکاب کیا جاتا ہے مثلا اختلاط، موسیقی،بسااوقات قتل،شراب، رقص وغیرہ اگر مظاہرہ اس کا نام ہے تو اسلام ان باتوں کی کیونکر اجازت دے گا؟۔ میں مانتا ہوں ہندوستان جیسے کثیرالتعداد ہندوملک میں مسلمانوں کو اپنے بہت سے حقوق منوانے کے لئے مظاہرہ کرنے پرمجبور ہونا پڑتا ہے، اس کا سہارا لئے بغیر بہت سے حقوق بحال نہیں ہوتے ۔ یہاں میرا یہ کہناہے کہ اپنے حقوق بحال کرنے کے لئے مسلمانوں کو قربان کیا جائے، عورت ومرد کے ساتھ اشتعال انگیز نعرے بازی کی جائے ، کہیں توڑ پھوڑ کیا جائے ،آتش بازی کی جائے ،تو کہیں ڈھول تاشے بجائے جائیں ، اس سے بہتر ہے صبر سے کام لیا جائے اور پرامن طریقے سےمسلم سیاسی لیڈروں کے ذریعہ ایوان حکومت تک اپنی بات پہنچائی جائے ۔ اگرمظاہرے پر امن ہوسکتے ہیں یعنی شرعی مخالفات سے خالی ہوں تو پھر اس کی گنجائش ہے ورنہ نہیں ۔
(6) نواب صدیق حسن خاں صاحب نے رسالۃ الاحتوا ءمیں لکھا ہے کہ کرسی قدم رکھنے کی جگہ ہے ، کیا اس قول کی کوئی دلیل ہے ؟
جواب : رسالۃ الاحتواء علی مسئلۃ الاستواء میں جو بات نواب صدیق حسن خاں صاحب نے لکھی ہے وہ حدیث وقرآن اور آثار سلف سے ثابت ہے ، اس بات کو علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے قدرے تفصیل سے دلیل کے ساتھ اپنی کتاب "کتاب العرش " میں واضح کیا ہے ۔ کرسی سے کیا مراد ہے اس سے متعلق پانچویں قول کے طور پر لکھتے ہیں :
إن الكرسي جسم عظيم مخلوق بين يدي العرش، والعرش أعظم منه، وهو موضع القدمين للبارئ عز وجل۔
ترجمہ: کرسی ایک بہت بڑی جسیم مخلوق ہے جو عرش کے آگے ہے ، عرش اس سے بڑآ ہے ، یہ کرسی اللہ تعالی کے دونوں قدموں کے رکھنے کی جگہ ہے ۔
یہ قول سلف کی بہت ساری کتابوں میں درج ہے ، اس قول کے بعد علامہ ذہبی نے لکھا ہے :
وهذا القول هو مذهب السلف من الصحابة والتابعين ومن سار على نهجهم واقتدى بسنتهم، وهذا هو ما دل عليه القرآن والسنة والإجماع ولغة العرب التي نزل القرآن بها.
ترجمہ: صحابہ و تابعین ، ان کے پیروکاروں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں یعنی سلف صالحین کا یہی مذہب ہے اور قرآن و سنت اور اجماع امت بھی اسی بات پر دلیل ہیں اور جس لغت عرب میں قرآن نازل ہوا ہے ، اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔
پھر قرآن وحدیث اور سلف کے آثار سے دلیل پیش کی گئی ہے ، جن میں قرآن کی ایک دلیل "وسع كرسيه السموات والأرض" سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کہ کرسی سے مراد دونوں قدم رکھنے کی جگہ ہے۔ (اسے ابن ابی شیبہ نے صفت العرش میں اور حاکم نے مستدرک میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے شیخین کی شرط پر ہے ، ذہبی نے بھی مواقفت کی ہے اور ہیثمی نے اس کے رجال کو صحیح کہا ہے)۔
(7) اثمد کیا ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے ؟
اثمدکالے پتھر کو کہاجاتا ہے جو سرخی مائل ہوتا ہے ،اسے کوٹ کرسرمہ بنایا جاتاہے ۔ اس سرمہ کے متعدد فوائد ہیں اور اسے دوسرے سرموں پر فضیلت حاصل ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
خيرُ أكحالِكم الإثمدُ يجلو البصرَ وينبتُ الشعرَ(صحيح ابن ماجه:2835)
ترجمہ: سب سے بہتر سرمہ اثمد کا ہے، وہ بینائی تیز کرتا، اور بالوں کو اگاتا ہے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
عليْكم بالإثمدِ عندَ النَّومِ فإنَّهُ يجلو البصرَ وينبتُ الشَّعر(صحيح ابن ماجه:2834)
ترجمہ: سوتے وقت اثمد کا سرمہ ضرور لگاؤ، کیونکہ اس سے نظر ( نگاہ ) تیز ہوتی ہے اور بال اگتے ہیں ۔
اثمد کی عمدہ قسم اصفہان سے حاصل کی جاتی ہے۔
(8) سورہ اعراف آیت نمبر 143 میں اللہ کی تجلی کے متعلق ایک پہاڑ کاذکر ہے اس پہاڑ سے طورسینا مراد ہے یا کوئی اور پہاڑ؟
جواب : اکثر مفسرین نے اس پہاڑ کو طور ہی کہا ہے۔
(9) بعض لوگ غلاف پہ آیات لکھنے کوجائز کہتے ہیں اور دلیل میں کعبہ کے غلاف پہ لکھی آیات کا ذکر کرتے ہیں ، اس بات کوواضح کریں۔
جواب : غلاف کعبہ پر قرآنی آیا ت لکھناجائز نہیں ہے اور نہ دیوار پر آیات نقش کرنا یا قرآنی تختی بناکر آویزاں کرنا جائز ہے ۔
(10) کیا مرد کسی مناسبت سے اپنے ہاتھوں پہ مہندی لگاسکتا ہے یا اپنا نام وغیرہ لکھ سکتا ہے ؟
جواب : مرد کسی بھی مناسبت سے اپنےہاتھوں پر مہندی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ عورتوں کے لئے ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أومت امرأةٌ من وراءِ سترٍ بيدِها كتابٌ إلى رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فقبضَ النَّبيُّ يدَهُ فقالَ ما أدري أيدُ رجلٍ أم يدُ امرأةٍ قالت بلِ امرأةٌ قالَ لو كنتِ امرأةً لغيَّرتِ أظفارَكِ يعني بالحنَّاءِ(صحيح أبي داود:4166)
ترجمہ: ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے اشارہ کیا، اس کے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا ایک خط تھا، آپ نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا، اور فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا تو اس نے عرض کیا: نہیں، بلکہ یہ عورت کا ہاتھ ہے، تو آپ نے فرمایا: اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخن کے رنگ بدلے ہوتی یعنی مہندی سے۔
البتہ مرد بیماری میں زخموں پرمہندی لگاسکتاہے اوراسی طرح داڑھی میں بھی لگاسکتا ہے.
مکمل تحریر >>