Sunday, May 28, 2017

معذور خواتین رمضان المبارک سے کیسے فائدہ اٹھائیں ؟

معذور خواتین رمضان المبارک سے کیسے فائدہ اٹھائیں ؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر- طائف

اسلام ایک آفاقی دین ہے ، اس کے آغوش میں رحمت ہی رحمت ہے ۔اس دین پر چلنے والا رحمتوں اور برکتوں سے مالامال ہوجاتا ہے ۔اس کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں ، ممکن ہے آج کے مسلمان ایمان وعمل کی کمزوری کی وجہ سے کہیں پر اللہ کی رحمت اور اس کی نصرت سے محروم ہو ں لیکن تاریخ کے ذرین اوراق ہماری فتح وظفر سےمزین ہیں۔
 اسلام میں ہرایک مسلمان کی رعایت اور دلجوئی کا سامان موجود ہے ۔ کوئی مالدار ہے اور کوئی غریب ہے تو ایسا نہیں کہ مالداری کی وجہ سے مالدار اللہ کے نزدیک بہت محبوب ہے  اور غریب اپنی غربت کے سبب محبوب نہیں ۔پروردگار کے نزدیک محبوب ہونے کا معیار دین وتقوی ہے ۔ جس کے پاس دینداری ہوگی ، اللہ کا تقوی ہوگا وہ اللہ کا محبوب وپیارا بندہ ہوگاخواہ وہ غریب ہو یا دولتمند، یتیم ولاوارث ہو یا اونچے خاندان کا، معذور وبیمار ہو یا صحت مندوتوانا، اپاہج ہو یا صحیح وسالم۔ اس لئے اللہ نے ہمیں جس حال میں بھی رکھا ہے اس کا تقوی اختیار کریں اور بکثرت اعمال صالحہ انجام دیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات:13)
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔
کچھ  دیندارلوگ جب بیمار ہوجاتے ہیں تو غمگین ہوجاتے ہیں کہ اب نیکی کا موقع کم ہوگیا بطور خاص نیک خواتین رمضان المبارک میں حیض ونفاس آجانے اور نمازوروزہ سے دور ہونے کے سبب بہت ہی مایوس ہوجاتی ہیں اور خود کو مردوں سے کمتراور دینداری کے اعتبار سے پست سمجھتی ہیں ۔ ایسی خواتین کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ، اسلام نے سب کی رعایت کی ہے اور بحالت حیض ونفاس بھی رمضان المبارک میں بہت سے نیک اعمال انجام دے سکتی ہیں اور خوب خوب اجروثواب کماسکتی ہیں جنہیں میں نیچے درج کرنا چاہتاہوں ۔اس سے پہلے آپ کوچند باتوں کی نصیحتیں کرنا چاہتاہوں ۔  
پہلی بات : مومن مرد وعورت کو کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونی چاہئے وہ بڑے چھوٹے ، کالے گورے ، غریب ومالدار اور بیمار وتندرست میں کوئی فرق نہیں کرتا بلکہ اس کا فضل وکرم ہر قسم کے نیک  بندوں پر عام ہے۔
دوسری بات : بیماری وصحت اور عورتوں کے مخصوص ایام ومختلف مراحل اللہ کی جانب سے ہیں وہ اپنے بندوں کے لئے وہ کرتا ہے جو اس کے حق میں مناسب ہوتا ہے ۔ اگر آپ رمضان میں بیمار یا حیض ونفاس میں ہیں تو اس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے ۔ آپ نے پہلے سے رمضان میں روزہ رکھنے اوراعمال خیر کرنے کی نیت کی تھی مگر عذر کی وجہ سے بعض خیر کے کام نہیں کرپارہے ہیں تو اللہ تعالی نیت کا ثواب دے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ان الاعمال بالنیات (بخاری) یعنی عمل کا دارومدار نیت پر ہے ۔ بندہ کسی نیکی کی نیت کرلے اور عذر کے سبب وہ نیکی نہ کرسکے تو اللہ اس کا ثواب دیتا ہے ۔
تیسری بات : جو آدمی صحت میں جو عمل کرتا تھا بیماری کے سبب اگراس سے وہ عمل چھوٹ جائے تو اسےعمل کرنے کے برابر اجر ملےگا، یہ اللہ کا بندوں پر بڑا احسان  ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا مرضَ العبدُ ، أو سافرَكُتِبَ له مثلُ ما كان يعملُ مُقيمًا صحيحًا (صحيح البخاري:2996)
ترجمہ: جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا ۔
اب یہاں مختصرا معذور خواتین کے لئے ایسے اعمال بیان کرتا ہوں جو وہ رمضان المبارک میں انجام دے سکتی ہیں اور اجر وثواب کماسکتی ہیں ۔ معذور سے مراد بیمار، حیض والی، نفاس والی ، حمل والی (اگر روزہ نقصان پہنچائےاس کو یا اس کے بچے کو) ، دودھ پلانے والی (اگر روزہ نقصان پہنچائےاس کو یا اس کے بچے کو)اور عمررسیدہ (اس قدربوڑھی  کہ انہیں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں)عورتیں ہیں ۔
(1) جن عورتوں کے لئے ضعف وبڑھاپے کےسبب روزہ رکھنا دشوار ہے و ہ ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانادیدے ،کھانے میں نصف صاع یعنی ڈیڑھ کلو اناج دینا ہے ۔ روزہ کے علاوہ رمضان کے جتنے کارخیر ہیں ان تمام میں وہ حصہ لے سکتی ہیں ، ان کے لئے کچھ بھی منع نہیں سوائے اس کے جس کی طاقت نہیں رکھتی ۔
(2) بیمار خواتین کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو وقتی طور پر بیمار ہوں اور روزہ رکھنے سے قاصر ہوں تو بیماری کے دنوں میں روز توڑ دیں گی اور بعد میں قضا کریں گی ۔ دوسری وہ جو کسی ایسے دائمی مرض میں مبتلا ہوں جس میں روزہ رکھنا دشوار ہو توایسی خواتین ،عمررسیدہ خاتون کے زمرے میں ہیں ۔ یہ ہرروزے کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو) گیہوں، چاول یا کھائی جانے والی دوسری اشیاء دیدے۔بیمار خاتوں حسب استطاعت نماز کے ساتھ جس عمل کی طاقت رکھے انجام دینے کی کو شش کرے ۔
(3) حاملہ ومرضعہ کو روزہ سے نقصان لاحق ہونے کا خدشہ ہو تو روزہ چھوڑ سکتی لیکن اگر کسی قسم کے ضرر کا  خطرہ نہ ہو تو انہیں روزہ رکھنا چاہئے ۔ نماز تو فریضہ ہے یہ صرف حیض ونفاس میں ساقط ہے لیکن بیماری ، ضعیفی اور حمل ورضاعت میں کبھی بھی نماز نہیں چھوڑنی ہے ۔ نماز کے ساتھ بقیہ سارے نیک کام انجام دے سکتی ہیں ۔  
(4) حیضاء اور نفساء : بحالت حیض ونفاس روزہ ونماز منع ہے ۔ انقطاع دم کے بعد نماز کی قضا نہیں لیکن روزوں کی قضا لازم ہے ۔
یہاں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ حیض والیوں کو لامحالہ رمضا ن میں بھی حیض آئے گا اورکتنی خاتون کو اس ماہ میں بچہ بھی پیدا ہوتا ہےتو حیض ونفاس کی حالت میں عورت کون کون سا نیک کام کرسکتی ہے تاکہ رمضان المبارک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اور سیلان دم کی لمبی مدت بغیر نیکی کے یوں ہی نہ گزررجائے۔  
اس مسئلے کی وضاحت سے قبل یہ بتانا چاہتاہوں کہ عام طور سے خواتین میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں عورتوں کے لئے روزہ کے سوا کوئی عمل نہیں ہے اور جو حیض ونفاس سے ہو وہ تو اور بھی سمجھتی ہیں کہ ہمارے لئے کچھ بھی نہیں جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ رمضان المبارک میں خواتین کیا کیا عمل انجام دے سکتی ہیں اس پہ میرے بلاگ میں میرامضمون ہے جس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں چند ایسے اعمال ذکر کرنا چاہتاہوں جسے حیضاء ونفساء رمضان میں انجام دے سکتی ہیں اور فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔
(1) قرآن کی تلاوت :اس میں اختلاف ہے کہ عورت حیض کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے کہ نہیں ؟ راحج قول کی روشنی میں عورت حیض کی حالت میں اور نفاس کی حالت میں قرآ ن کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ ممانعت کی کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے ۔اس جانب بہت سے اہل علم گئے ہیں البتہ  بعض علماء نے کہا کہ مصحف کو بغیر چھوئے تلاوت کرے اوربعض نے کہا کہ تلاوت کے وقت ہاتھ میں دستانہ لگالے ۔ اسی طرح معلمہ اور متعلمہ بھی قرآن کی  تلاوت کرسکتی ہیں ۔ یہاں میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ آج ٹکنالوجی کا زمانہ ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موبائل، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ میں قرآن کریم لوڈ کرکے وہاں سے بلاجھجھک تلاوت کریں ، نہ کسی کا اعتراض رہے گا اور نہ ہی قاری کے دل میں کھٹکا۔
(2) ذکر واذکار: صبح وشام کے اذکار ، سونے جاگنے کے اذکار، اور دیگر کسی قسم کے بھی اذکار عورت حیض ونفاس میں کرسکتی ہیں ۔ اس لئے عورت کو چاہئے کہ اذکار کی مستند کتابوں سے کثرت سے اذکار حفظ کرلے جن سے رمضان وغیر رمضان ہمیشہ فائدہ اٹھاسکتی ہے ۔ بعض اذکار مختصر ہیں مگر اجر وثواب میں بہت ہی زیادہ ہیں ۔
(3) دعا: یہ مومن کا ہتھیار ہے ، دعا سے بندوں کو ہرچیز مل سکتی ہے ۔ بیماری سے شفا، فقر سے نجات، مشکل سے چھٹکارا، جنت سے قربت اور جہنم سے رستگاری ۔سبھی ممکن ہے ۔ بدر کے میدان میں نبی ﷺ نے دعا کی اس کے اثر سے تین سو تیرہ نہتھے مسلمان ہزارکے مسلح کافروں پر غلبہ پاگئے ۔ اس لئے رمضان میں سبھی مسلمانوں کو بشمول حیضاء ونفساء  بطور خاص دعا کا اہتمام کرنا چاہئے اور دعا میں افضل اوقات کو تلاش کرنا چاہئے مثلا سجدہ میں ، اللہ کے نزول آسمان کے وقت(تہائی رات) ، اذان واقامت کے درمیان وغیرہ ۔
(4) استغفار: نبی ﷺ دن میں سو سوباراستغفار کیا کرتے تھے ، بحالت حیض ونفاس استغفار کو کثرت سے لازم پکڑا جائے ، اس کا بڑا اجر ملتا ہے ۔ اللہ تعالی بہت ساری چیزوں میں برکت دیتا ہے ، نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے حتی کہ مالداری بھی نصیب کرتا ہے ۔
(5) توبہ : توبہ یہ ہے کہ بندہ شرمندہ ہوکر رب سے اپنے کئے ہوئے گناہوں کی معافی طلب کرے ۔ رمضان ایک سنہرا موقع ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنے جرم کا رب العالمین کے سامنے اعتراف کرنا چاہئےاور آئندہ اس سے بچنے کا عزم کرنا چاہئے ، اللہ تعالی توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : كلُّ بني آدمَ خطَّاءٌ ، و خيرُ الخطائين التوابونَ(صحيح الجامع:4515)
ترجمہ: ہربنی آدم گناہگار ہے اور سب سے اچھا گنہگار وہ ہےجو توبہ کرنے والا ہے ۔
(6) صدقہ وخیرات : اس ماہ مبارک میں حیضاء ونفسا ء اپنے مال سے غرباء ومساکین کو صدقہ دے سکتی ہیں ، اپنے پاس مال نہ ہو تو شوہر کی اجازت سے اس کے مال سے صدقہ دینے میں دونوں کو ثواب ملے گا۔
(7) دوسروں کو افطار کراکرروزہ داروں کے برابر ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
(8) روزہ داروں کے لئے افطاری تیار کرنے اوران کے لئے سحری تیار کرنے سے بھی ان شاء اللہ ثواب ملے گا۔
(9)  درس وتعلیم : اگرآپ کے پاس دینی تعلیم ہے تو خواتین کے لئے رمضان میں روزہ اور دینی احکام سے واقفیت کے لئے تعلیم کا انتظام کریں  اور خواتین کو اسلام کی ضروری تعلیم سے آگاہ کریں ، قرآن و حدیث کا بھی درس دے سکتے ہیں ۔ اللہ کے فضل سے آپ کو  اس عمل کا بہت اجر ملے گا۔اگر تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو دوسروں کے علمی حلقے میں شامل ہوکر دین سے آگاہی حاصل کریں ۔  
(10) شب قدر سے استفادہ : اگر کوئی حیضا ء یا نفساء رمضان کا آخری عشرہ پائے تو اس رات شب بیداری کرے، خوب خوب دعا، ذکر، توبہ اوراستغفار کرے ۔ اس رات کی  مخصوص دعا بطور خاص پڑھے ۔ شب قدر کی دعا یہ ہے : اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي(اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو مجھے معاف کردے)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حیض ونفاس والی عورت کو بدنی عبادت میں نمازوروزہ منع ہے مگر قلبی اور لسانی اعمال مثلا ذکرواذکار، دعاواستغفار، صدقہ وخیرات، درس وتدریس، اوردینی کتابوں کا مطالعہ جیسے اعمال انجام دینا جائز ہیں ۔ اسی طرح وہ اعمال جو طہارت وغیرطہارت دونوں میں انجام دینا جائز ہیں وہ بھی کرسکتی ہیں جیسے خدمت خلق ، حسن معاشرت، صلہ رحمی، نصیحت، احسان وسلوک ، نیکی پر تعاون ، برائی سے روکنے پر مدد  وغیرہ ۔  


مکمل تحریر >>

Thursday, May 25, 2017

شوہر کی دونوں اولاد میں جائداد کی تقسیم

شوہر کی دونوں اولاد میں جائداد کی تقسیم

سوال ہے کہ ماں کی دو شادی ہوئی ہے پہلے شوہر سے تین بیٹے ہیں اور دوسرے شوہر سے تیں بیٹیاں ہیں ۔ ماں کے نام دوسرے شوہر نے کچھ پراپرٹی کی ہوئی ہے ،اب ماں کا انتقال ہوگیا ہے تو کیا اس جائداد پر پہلے شوہر سے پیدا ہوئی تین بیٹوں کا بھی حق ہے جبکہ یہ جائداد پہلے شوہر کی نہیں تھی بلکہ دوسرے شوہر کی تھی ۔
جواب : چونکہ دوسرے شوہر نے بیوی کے نام جائداد کی ہے ، یہ جائداد شوہرثانی کی طرف سے بیوی کے لئے ہبہ وعطیہ کی شکل میں ہوگی ۔ ماں کے انتقال ہونے سے ماں کی یہ جائداد ان کے سارے بچوں میں تقسیم ہوگی یعنی پہلے شوہر کے تینوں بیٹوں اور دوسرے شوہر کے تینوں بیٹیوں کے درمیان ۔ تقسیم کا طریقہ یہ ہوگا کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔ اگر شوہر باحیات  ہوتو ان کو چوتھائی اور عورت کے والدین بھی ہوں تو ان میں سے ہرایک کو چھٹواں حصہ ملے گا۔


واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی


مکمل تحریر >>

Wednesday, May 24, 2017

کیا اعتکاف کی نیت کے مخصوص الفاظ ہیں؟

کیا اعتکاف کی نیت کے مخصوص الفاظ ہیں؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر - طائف

تمام عملوں کا دارومدار نیت پرہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنما الأعمالُ بالنياتِ، وإنما لكلِّ امرئٍ ما نوى، فمن كانت هجرتُه إلى دنيا يصيُبها، أو إلى امرأةٍ ينكحها، فهجرتُه إلى ما هاجر إليه(صحيح البخاري:1)
ترجمہ:تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اعتکاف کے لئے بھی نیت کرنی چاہئے اور نیت بھی خالص ہونی چاہئے جو ریاونمود سے پاک ہو۔ کچھ لوگ اعتکاف کی نیت کے لئے زبان سے مخصوص الفاظ بولتے ہیں ، وہ اس طرح کے ہوتے ہیں ۔
1- نویت سنۃ الاعتکاف(میں نے مسنون اعتکاف کی نیت کی)۔
2- ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺩﺧﻠﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﺗﻮﻛﻠﺖ ﻧﻮﻳﺖ ﺳﻨﺔ ﺍﻻﻋﺘﻜﺎﻑ( اللہ کے نام سے داخل ہوا اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں اور سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں )۔
اس قسم کے الفاظ قرآن و حدیث میں کہیں وارد نہیں ہے ، انہیں لوگوں نے اپنے من سے گھڑکر عوام میں پھیلا دیا ہے ۔ جیساکہ میں نے اوپر حدیث بیان کی کہ تمام عملوں کا دارومدار نیت پر ہے اس  حدیث کے لحاظ سے  ہرعمل کے لئے نیت کرنی چاہئے اور نیت خالص ہونی چاہئے تاکہ اللہ کی طرف سے درجہ قبولیت عطا ہو۔ یہاں جاننا یہ ہے کہ جب ہرعمل کے لئے نیت کرنےکا حکم ہے تو نیت کس چیز کا نام ہے ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں نیت کے متعلق ذکر کرتے ہیں :
النية هي القصد والإرادة والقصد والإرادة محلهما القلب دون اللسان باتفاق العقلاء۔
ترجمہ: نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں،قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں ،اس پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے۔
آگے لکھتے ہیں :
فلو نوى بقلبه صحت نيته عند الأئمة الأربعة وسائر أئمة المسلمين من الأولين والآخرين۔
ترجمہ: اگر کسی نے دل سے نیت کرلی تو اس کی نیت چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل) اور مسلمانوں کے اگلے پچھلے تمام اماموں کے نزدیک صحیح ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے ، نیت کے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمیت بقیہ تینوں ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے، اس لئے جو لوگ نماز کے لئے  روزہ  اوراعتکاف کے لئے مخصوص الفاظ میں زبان سے بول کر نیت کرتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں ،اس بدعت سے بچنا چاہئے کیونکہ بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے جس کے متعلق نبی ﷺ کے فرامین ہیں :
(1)من عملَ عملا ليسَ عليهِ أمرُنا فهو ردٌّ(صحيح مسلم:1718)
ترجمہ: جس نے ایسا عمل کیا جو میرا حکم نہیں ہے وہ مردود ہے ۔
(2)إنَّ أصدقَ الحديثِ كتابُ اللَّهِ ، وأحسنَ الْهديِ هديُ محمَّدٍ وشرَّ الأمورِ محدثاتُها وَكلَّ محدثةٍ بدعةٌ وَكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ (صحيح النسائي:1577)
ترجمہ: یقینا سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے،کاموں میں سے بد ترین کام وہ ہیں جنہیں ایجاد کرلیا گایا ہو اور ہرنو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
نبی ﷺ کے فرامین کی روشنی میں ذرا اندازہ لگائیں کہ دین میں نیا کام ایجاد کرنا کتنا بھیانک ہےاور اس کی سزا کس قدر خطرناک ہے؟ ۔
سمجھنے کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ ہرعمل کے لئے نیت ہونی چاہئے اور شریعت میں لاکھوں ،کروڑوں اعمال ہیں ، کس کی مجال ہے کہ ہر عمل کے لئے مخصوص الفاظ گھڑے ؟ اور کس کی مجال ہے کہ ہرعمل کے لئے نیت کے مخصوص الفاظ یاد کرے اور عمل کرنے سے پہلے اسے پڑھے ؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے اور دین کے نام سے بدعت گھڑنے یا بدعت پر عمل کرنے سے بچائے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

Sunday, May 21, 2017

سوشل میڈیا کے معروف داعی فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی سے اردو مجلس فورم انتظامیہ کا انٹرویو(دوسری قسط)

معروف داعی  ومبلغ فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی سے اردو مجلس فورم انتظامیہ کا انٹرویو(دوسری قسط)
1- مذہبى تعليم كى طرف كيسے آئے ؟ ذاتى انتخاب تھا ؟
جواب : پورا گھرانہ مذہبی ہے ، والد محترم مولانا عبدالخالق فیضی حفظہ اللہ قدیم ومشہور سلفی ادارہ جامعہ فیض عام مئو،یوپی سے فارغ ہیں اور اپنے علاقے میں  معروف ومعتبر علمائے دین میں شمار ہوتا ہے،وہاں والد صاحب کی بڑ ی خدمات ہیں ۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے استاد مولانا محمد حنیف مدنی رحمہ اللہ کے ہم سبق ہیں ۔ والدمحترم نے گھر میں سختی سے دینی ماحول قائم کیا ہوا تھا، ہم لوگوں کو پنٹ شرٹ تک پہننے کی اجازت نہیں تھی ۔ اپنے پاس بٹھاکر دینی کتب پڑھاتے ، یہی وجہ ہے کہ میں نے آپ سے ہی مکتب کی تعلیم لی ، پھر1996 میں بڑے بھائی منظورالرب اسلامی  جامعہ سلفیہ بنارس لے کر گئے ، داخلہ کی امید تو نہیں تھی بس اللہ کی ذات پر بھروسہ تھا ۔ پہلی جماعت میں داخلہ کے لئے رجسٹریشن کروایا۔ شیخ علی حسین سلفی نے میرا انٹرویو لیا، پہلے کتابوں کا نام پوچھا پھر شیخ نے کہا کہ بیٹا تمہارا داخلہ تیسری جماعت میں ہونا چاہئے اس لئے تیسری میں داخلہ لے لو۔ میں تو ٹھہرا بچہ ،میں نے کہا نہیں مجھے پہلی میں داخلہ لینا ہے ۔ پھر شیخ نے کہا جاؤ اپنے ذمہ دار کو بلاؤ ، بڑے بھائی کو بلایا ،شیخ بضد تھے کہ تیسری میں میرا داخلہ دلائیں ، بھائی نے کہا کہ اس کی بنیاد مضبوط کرنی ہے اس لحاظ سے پہلی جماعت ہی صحیح ہے ۔ بالآخر بات ہوتے ہوتے ، طے پایا کہ نہ پہلی ، نہ تیسری بلکہ دوسری جماعت میں داخلہ ہو۔ اس طرح دوسری جماعت میں داخلہ ہوا۔ یہ صرف اور صرف والد محترم کی مہربانی اور آپ کی تعلیم وتربیت کا ثمرہ تھا۔
2- دوران تعليم كبھی فيلڈ بدلنے كا خيال آيا ؟
جواب : گھر کا جو دینی  ماحول تھا بھلااس ماحول میں جینے والا بھی کبھی دوسرا میدان اختیار کرسکتا ہے ؟۔  تجربے کی بات ہے کہ جس کے گھر میں تربیت کا بہترین نمونہ ہواس کا اثر بچوں پر بہت گہرا پڑتا ہے ۔
3- الف۔خاندان ، دوست احباب مذہبی ہيں يا نہيں اور آپ كے دينى مشاغل پر ان كا كيا ردعمل ہوتا ہے؟
جواب : پورا گھرانہ مذہبی ہے ، ہاں دوست واحباب میں دیوبندی خیال والے بھی تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹتے چلے گئے ، اس کی ایک وجہ جامعہ سلفیہ بنارس سے سلفی تعلیم حاصل کرنا اور دوسری وجہ مسلسل گھر سے باہر رہنا ہے ۔ دوران تعلیم چھٹیوں میں جب گھر آتا تو دیوبندیوں سے نوک جھوک ہوتی بلکہ اکثر مجھے مسائل پہ چھیڑا کرتے ۔ اس وقت میرے اندر بھی مذھبی سختی کافی تھی جس کی بناپر سخت قسم کا جواب بھی دیا کرتا ۔نتیجے میں پورے دیوبندی حلقے میں مجھے کٹر قسم کا وہابی سمجھا جانے لگااور اب تک یہی حال ہے ،کم ہی دیوبندی مجھ سے بات کرتے ہیں ،اکثر مجھ سے جلنےوالے، حسد وکینہ رکھنے والے ہیں ۔ وجہ صرف اور صرف اہل حدیث ہونا ہے ، جھگڑا لڑائی کوئی نہیں ۔ دوستوں کو بھی بدظن کرنے میں ان حاسدین کا ہاتھ  ہے ۔ یہاں کسی کا گلہ شکوہ مقصود نہیں ہے بلکہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے گاؤں میں ہندؤں کی اچھی خاصی تعداد ہے ، ان کافروں سے ان دیوبندیوں کو کوئی نفرت نہیں  مگر وہابی سے سخت نفرت ہے ۔ الحمد للہ جماعت اہل حدیث کی اپنی مسجد ہے جس میں بچپن سے خطبہ دیتا آرہاہوں ، دیوبندی کی تین مساجد ہیں ، کبھی کبھار ان مسجدوں میں نماز پڑھنے کا موقع ملا ،ایک مسجد سسرال کے پاس ہے ،سسرال میں ہوتے ہوئے اکثر اسی مسجد میں نماز پڑھتا تاکہ ان کے دماغ میں کوئی فتور نہ آئے مگر کبھی انہوں نے امامت کے لئے آگے نہیں بڑھایا۔ جاہل سے جاہل آدمی امامت کراتا ،ایک دوچلہ لگاکر خود کو فقیہ وامام سمجھنے لگتا اور دوسرے مسلک کے علماء کو حقارت بھری نظر وں سے دیکھتا ہے۔ ایک صاحب سامنے بہت اچھا بنتے ہیں مگر پکے تبلیغی ہیں انہوں نے اپنی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ کے لئے مجھ سے گزارش کی، میں نے حامی بھر لی ،جب یہ بات کانوں کان دیوبندیوں میں پھیلی تو پھر جمعہ کے دن خبر ملی خطبہ جمعہ کنسل جبکہ کیسے کیسے لوگ ان کے یہاں خطبہ دیتے ہیں اسے بیان کرکے اس جماعت کو بدنام کرنے کا ارادہ نہیں ہے ۔
4-مذہب پر عمل ميں قريبى لوگوں ميں سب سے زيادہ حمايت اور مدد كس سے ملى ؟
جواب : الحمد للہ مذہب پر عمل کرنے میں کبھی کوئی دشواری نہیں رہی ، سلفی ہونے کے سبب احناف کی نظروں میں اچھا نہیں ہوں بس ۔
5-دوران تعليم اور فراغت كے بعد قريبى رشتوں اور سماجى حلقوں كى جانب سے مذہبی مخالفت برداشت كرنى پڑی؟ كسى موقع پر دلبرداشتہ ہوئے؟
جواب : دوران تعلیم دیوبندیوں سےہلکی  نوک جھوک رہی مگر مخالفت شدید نہیں رہی ،منجملہ  یہ لوگ سلفیوں کے خلاف سخت رہے اور یہ سخت رویہ میرے پڑھنے کے بعد سے شروع ہوا۔ پہلے نہیں تھا ،والد محترم بلاتفریق سب کے یہاں اجلاس میں وعظ کرنے جاتے بلکہ ہرمجلس میں آپ کا وعظ ہوا کرتا۔  چونکہ ان کی تعداد بہت ہے اور ہم لوگ دس بارہ  گھر کے قریب ہوں گے ۔پہلے پانچ گھر تھے تو پنچ گھریا کہہ کر طعنہ دیا جاتا ۔ دل برداشتہ اس دن زیادہ ہوئے جب خطبہ جمعہ کے لئے کہا اور پھر انکار کردیا۔
6- مطالعے كا كتنا شوق ہے؟
جواب : مطالعہ تو میری غذا ہے ۔کسی ادارے سے فارغ ہوجانا  یا کہیں سے علمی اسناد لے لیناہی کافی نہیں ہے ، علم اسی کا ٹھوس ومعیاری ہوتا ہے جوہمیشہ علم سیکھنا جاری رکھتا ہے اور جس نے سمجھا میں نے جامعہ سے فراغت حاصل کرلی ،مجھےکتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں ایسے شخص کے علم کو گھن لگ جاتا ہے ۔
7- مطالعہ :
الف -كس چيز كا مطالعہ زيادہ كرنا پسند ہے؟ اخبار ، رسالہ ، ڈائجسٹ ، فيشن ميگزين ، كھانے كى تركيبوں كى كتابيں ، مہندی کے ڈيزائن كى كتابيں، ناول، جاسوسى ناول ، رومانوى ناول، افسانے ، سستی کتاب يا موضوعاتى منتخب كتابيں ؟
جواب: اخبار ، دینی رسائل اور دینی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہو ں ،بروقت موضوعاتی کتابوں کا مطالعہ زیادہ ہے ۔
ب- كتنى كتابيں پڑھ جاتے ہيں؟ روزانہ ايك ، ہفتے ميں ايك ، مہينے ميں ايك ، تين ماہ ميں ايك ، چھ ماہ ميں ايك ؟
جواب: دوران تعلیم مطالعہ پرزیادہ وقت صرف ہواکرتا ،کتابیں ہی اوڑھنا بچھونا ہواکرتیں۔عموما تکیہ کے نیچے کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی ۔ اب مشاغل اور ذمہ داریاں بڑھنے سے جس موضوع کی ضرورت پڑتی اس سے متعلق کتابیں پڑھتا ہوں  جس کی کوئی حد متعین نہیں کرسکتا۔
ج - كتابيں خريدنا پسند ہے ؟ ذاتى مكتبہ ميں اكثر كتب كس موضوع پر ہيں ؟
جواب:گاؤں میں اپناایک چھوٹا مکتبہ ہے ،شاید گاؤں میں اتنی کتابیں کسی کے گھر نہ ہو،ان میں اکثر انعامات کی ہیں جو جامعہ سلفیہ میں کلاس، تقریروتحریر اور دیگر عملی مسابقوں کے تحت ملیں۔ کچھ خریدی بھی ہیں ۔
د- كتابيں مستعار دينا پسند ہے يا نا پسند ؟ لوگ واپس كرتے ہيں يا بھول جاتے ہيں ؟
جواب : گھر پہ کم رہنے کا اتفاق ہوا اور گاؤں میں اپنی جماعت کے لوگ کم ہیں دیوبندی لوگ وہابی کی کتاب پڑھیں گے نہیں انہیں خداواسطے کا بیر ہے ۔ مجھے یاد ہے جب میں 2003 میں طلباء کے سالانہ میگزین "المنار" کا ایڈیٹرتھا ،ایڈیٹرہونے کی وجہ سے ہمیں المنار کے کافی نسخے ملے جنہیں اپنے متعارفین میں تقسیم کیا۔ دیوبندیوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ اتفاق سے دہلی کے ایک دیوبندی مدرسےمیں بچوں کو ناظرہ تعلیم دیتا تھا،ساتھ میں المنار کا ایک نسخہ بھی تھا مجھے بچوں کے ذریعہ پتہ چلا کہ مدرسہ کے ایک دیوبندی عالم نے سارے بچوں کو اس کتاب کو چھونے سے منع کررکھاہے ۔
ھ ۔ كوئى تاريخى كتابياتى صدمہ ؟ جس ميں كسى نے كتاب لى اور ضائع كر دى ؟
جواب: ایسا کوئی صدقہ نہیں ہوا، کتابیں تو کچھ لوگوں کو دی ، کچھ نے لوٹائی اور کچھ نے نہیں ۔یہ تو سدا سے دستور ہے ،کتاب لینے والا ہرکوئی لوٹاتا ہی نہیں۔
و - مطالعے كے دوران كتاب پر حاشيہ لكھتے ہيں يا اہم معلومات كے الگ نوٹس ليتے ہيں ؟ نوٹس كى اردو يادداشت ہو گی ؟۔
جواب: اگر ذاتی کتابیں ہوں تومطالعہ کے دوران  پنسل سے اہم نکات پر نشان زد کیا کرتا اور اگر دوسروں کی کتاب ہوتو قابل توجہ پوائنٹ لکھ لیا کرتا۔
8- پسنديدہ موضوع جس پر مطالعہ پسند ہے؟مذہب تو آپ كا ميدان ہے اس كے علاوہ؟
جواب: مذہب ہی موضوع اور میدان ہے ۔
9- كچھ كتابيں جو بار بار پڑھی ہوں؟
جواب:  تفسیر وکتب احادیث باربار پڑھتا رہا اور آج بھی یہی زیادہ تر الٹ کر دیکھتا ہوں ۔تاریخ سے کچھ اور اردو ادب سے کچھ سے زیادہ ربط رہا  جس کے سبب جامعہ ملیہ اسلامیہ نیودہلی سے بی اے اردو آنرس کیا۔
10- پسنديدہ كتب ؟ مذہب اور ادب ميں خاص طور پر۔
جواب: مذہب میں تفسیروکتب احادیث اور سیرت کی اہم کتابیں پسند کرتا ہوں۔ادب میں طالب علمی کے زمانے میں تاریخی ناول، تاریخی افسانے،تنقید اور انشائیہ پڑھا کرتا ،شروع میں شاعری بھی کیا کرتا تو شعراء اور دیوان سخن سے بھی دلچسپی رہی ۔ شعروادب کے حوالے سے جو نام معروف ومستند ہیں ان سب کو پڑھا ہوں۔
11- پسنديدہ مصنفين ؟
جواب: ہرفن سے متعلق اہم کتابیں اور ان کے مصنفین میرے پسندیدہ ہیں ۔
12- اپنے معاشرے كى علمى حالت كے متعلق آپ كا كيا خيال ہے ؟
جواب: اوپر میں نے اپنے سماج کی عکاسی کی ہے کہ میں نے تبلیغی سماج میں آنکھیں کھولی ۔چاروں طرف حضرت جی والا ماحول ہے ،خواتین کو مسجدوعیدگاہ میں آنے کی ممانعت ہے مگر تبلیغی دوروں کی مکمل اجازت ہے ۔ اس وقت گاؤں گاؤں میں خواتین کا تبلیغی گشت ہوتا ہے اور عورتوں کو ساڑی پہننا ناجائز کہہ کر قمیص وشلوار پہنایاجارہاہے ۔ چلاکش مولوی کہلاتاہے اور محفل وعظ وممبر اسی کے حوالے ہوتا ہے ۔ حقیقت میں دینی تعلیم معمولی ہے اور خواتین میں تو جہالت کی انتہا ہے ۔ وہاں کچھ کرنے کو سوچتا ہوں مگر مسلکی مخالفت کا شدید خطرہ ہے ۔
13- ہم (مسلم امہ )علم وتحقيق ميں واقعى پسماندہ ہيں يا يہ ہوائى كسى دشمن نے اڑائى ہو گی؟
جواب: میری معلومات کی حد تک مسلمان اپنی تعداد کے حساب سے نہ دینی علوم میں پیچھے ہیں اور نہ ہی عصری علوم میں ۔ ہمارے یہاں سائنس داں ، سیاست داں، اطباء ، فلسفی، محقق  اور اکالروں کی کوئی کمی نہیں ۔ انہیں ہائی لائٹ نہیں کیا گیاجس کی وجہ سےشبہ ہوتا ہے کہ مسلمان علم وتحقیق کے میدان میں پیچھے ہیں۔
14- مستقبل كى منصوبہ سازى كرنا پسند ہے ؟ ہاں تو كيوں اور كتنى ؟ اگلا دن ، اگلا ہفتہ ، اگلا مہينہ اگلا سال ، يا اگلے پانچ سال وغيرہ؟ نہيں توكيوں؟
جواب: کسی بھی لائحہ عمل کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہے ،اس کے بغیر کامیابی مشکل ہے ۔ منصوبہ بندی کے متعلق میرا یہ نظریہ ہے کہ وہ ٹھوس ہو اور قلیل المدت ہو یعنی طویل المدت نہ ہوکیونکہ زندگی اور حالات کا کوئی پتہ نہیں اور منصوبہ کو اولوالعزمی کے نافذ کیا جائے ۔
15-
1- حالات حاضرہ اور سياسيات سے كتنى دل چسپی ہے؟
جواب: حالات حاضرہ سے واقفیت کی فکر رہتی ہے مگر اس کے لئے الگ سے وقت نہیں دے پاتاکیونکہ مذہبی کازمیں زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے عدیم الفرصت ہوگیا ہوں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ماحول ومعاشرہ سے بے خبررہتاہوں ۔ سوشل میڈیا نے حالات سے آگاہی کو بہت ہی آسان بنادیا ہے ۔
2- مذہبی لوگ سياسيات، مزاح اور شعرو ادب سے بھاگتے ہيں كيا يہ تاثر درست ہے؟
جواب : ایسا تاثر صحیح نہیں ہے ۔ بہت سے مذہبی لوگ بڑے بڑے سیاستداں اور شعراء گزرے ہیں اور مزاح کی صفت تو سبھی میں عام ہے ،یہ کسی قوم وطبقہ سے وابستہ نہیں ۔
16- كيا آپ كو كبھی مسلم امہ كا فرد ہونے پر فخر ہوا ؟ كن مواقع پر؟
جواب: جب سے مسلمان ہونے کا احساس ہوا تب سے ہی مسلم امہ کا فرد ہونے پر مجھے فخر ہے ،کسی ایک موقع سے خاص نہیں کیاجاسکتا،ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
17- كبھی مسلم امہ كا حصہ ہونے پر افسوس ہوا ؟ كن مواقع پر ؟
جواب : مسلم امہ کا فرد ہونا افسوس کا باعث نہیں ،اس لئے کبھی اس پر افسوس نہیں ہوا۔ ہاں جو لوگ مسلم ہوکر ڈھٹائی سے شرک وبدعت کررہے اور صحیح اسلام کو اپنوں اور غیروں پر مشکل بنارکھے ہیں ایسے لوگوں پر بیحد افسوس ہے اور افسوس کے مارے زبان  حال سے کہتا ہوں :اے کاش! یہ لوگ مسلم امہ کا حصہ نہ ہوتے یا ہوتے تو صحیح دین پر عمل پیرا ہوتے تاکہ جہاں عام مسلمانوں کو دین سمجھنا اوراس پر عمل کرنا آسان ہوتا وہیں کافروں کے لئے بھی  دین اسلام میں داخل ہوناکوئی مشکل نہیں ہوتی۔
18- آپ مسلم امہ كے افراد سے كسى چيز ميں منفرد يا الگ نظر آنا چاہيں تو وہ كون سى چيزيں ہوں گی؟
جواب : کتاب اللہ اور سنت رسول کی سچی تصویر بننے میں مسلم قوم کی امتیازی شان ہے ، اپنی اسی صفت سے یہ قوم نہ صرف منفرد ہوگی بلکہ سارے مسلمان بلااختلاف ایک جگہ جمع بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک امت میں علماء پرستی، اندھی تقلید اور اقوال رجال کو سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا رہے گا کبھی یہ قوم ایک نہیں ہوسکتی ۔ دور حاضر کی ہماری ذلت وخواری اسی کا خمیازہ ہے ۔
19- زندگی ميں كيا نہ ہو تو موت كو ترجيح ديں گے؟
جواب : موت تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جو وقت مقرر پر آکر رہے گی ، اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ،اس وجہ سے جو لوگ کبھی کبھی دنیاوی غرض وغایت کے بدلے موت کو ترجیح دے دیتے اور ہلاکت کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں ،سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔موت کو ترجیح دینا اورموت وہلاکت کا راستہ اختیار کرنا گناہ ہے ،اسلام نے ہلاکت میں ہاتھ ڈالنے سے منع کیا ہے ۔ صرف ایک موڑ ہے کہ زمانے میں فتنہ شدیدہوجائے ،اس کی تاب لانا مشکل ہو تو صرف اللہ سے یہ دعا کرسکتے ہیں : اے اللہ اگر تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرے تو مجھے بغیر آزمائے ہوئے وفات دیدے۔
20-
الف۔ انتہائى مايوسى ميں كيا بات حوصلہ ديتى ہے؟
جواب : انتہائی مایوسی میں اللہ کا کلام مجھے حوصلہ دیتا ہے ۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر:53)
ترجمہ:۔ ( میری جانب سے ) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی ، بخشش بڑی رحمت والا ہے۔
اس لئے میں دوسروں کو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی نصیحت کرتاہوں ۔ کبھی کبھی انسان کو لگتا ہے کہ اس کے چاروں طرف مصیبت ہی مصیبت ہے ، نجات کا کوئی راستہ نہیں ملتا ۔ ایسا ممکن ہے لیکن یہ بھی سوچیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے ، ممکن ہے کہ پرورگار امتحان لے رہاہو تو اس پر صبر کرنا چاہئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے کسی گناہ کی وجہ سے اللہ نے ناراض ہوکر مصیبت نازل کردی ہو تو ایسے میں ہمیں اللہ تعالی سے سچی توبہ کرنی چاہئے ،اللہ تو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔
- ب ۔ زندگی ميں كن مواقع پر شديد افسردہ ہوئے يا پھوٹ پھوٹ كر روئے ؟ (بچپن کےعلاوہ )
جواب : جب جامعہ سلفیہ سے فارغ ہوئے اور دہلی کا سفرکیا کچھ کرنے کی نیت سے ، بہت ساری جگہیں تلاش کی مگر اس وقت لگتا تھا کہ کچھ نہیں جانتے ہیں کیونکہ کہیں کوئی کام نہیں مل رہاتھا۔ دینی تعلیم کی پڑھائی پر تھوڑی دیر کے لئے افسردہ ہوا مگر یہ شیطانی وسوسہ تھا۔ بہت سے طالب علم نوکری کی تلاش کے وقت افسرہ ہوجاتے ہیں ۔مجھے اللہ کی ذات پرمکمل بھروسہ تھا ۔ تلاش میں لگارہا ، اللہ سے دعائیں کرتا رہا اورخود کو اہمیت دے کر باہمت طریقے سے تگ ودوکیابالآخراللہ نے راستہ ہموار کردیا ، کئی کئی  اور اہم جگہوں سے آپ خود طلب ہوئی  اور الحمدللہ سیٹ ہوگیا۔ یہاں میں قارئین کو خصوصا طالبان علوم نبوت کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ آپ فراغت کے بعد بھی دینی تعلیم کو اہمیت دیں اور اپنی صلاحیت کے مطابق دینی شعبے سے جڑنے کی کوشش کریں ،دیرسویر آپ کا پسندیدہ وظیفہ مل جائے گا۔ ان شاء اللہ ۔ مدارس کے فارغین تجارت بھی کرسکتے ہیں اس طرف بھی آنا چاہئے مگردیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ مدرسے سے یونیورسٹی گئے یا تجارت یا غیردینی اداروں سے منسلک ہوئے ان میں سے اکثر  دین سے بیحد دور ہوگئے،یہ افسوسناک  پہلو ہے ۔
21- موت سے ڈر لگتا ہے؟
جواب : موت کو یا د کرنے کا مومن کو حکم ہوا ہے ، اس کی یاد سے آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اور مومن کو اس بات سے خوف کھانا چاہئے کہ کہیں اس کی موت کفر پر نہ ہواس لئے ہمیشہ اچھا کام کرتا رہے اور اللہ سے ڈرتا رہے ۔ جو لوگ موت کو نہیں یاد کرتے وہ آخرت سے بے خبر دنیا میں مست ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کی موت کس حال میں ہو کوئی پتہ نہیں چہ جائیکہ مسلمان ہو۔
22- آخرت كے بارے ميں كوئى منصوبہ سازى ہے؟ كوئى ايسا خاص عمل جو آپ مغفرت كى اميد پر ہميشہ جارى ركھنا چاہيں؟
جواب : اللہ کی عبادت کے بعد دعوت وتبلیغ کو اس نیت سے جاری رکھا ہوں کہ یہ میرا فریضہ ہے ،اس فریضے کی انجام دہی پر اللہ اپنے فضل سے ضرور بہتر بدلہ دے گا، اللہ سے دعا ہے کہ قول وعمل میں اخلاص دے ۔
23- كوئى صدقہ جاريہ چھوڑ كر جانے كا ارادہ ہے؟ كيا ؟ (اولاد كے علاوہ : )
جواب: تحریر وبیانات ، ان شاء اللہ صدقہ جاریہ ہوں گے ۔ رب ذوالجلال سے دعاکرتاہوں کہ وہ مجھے حق کی  طرف رہنمائی کرتا رہے ۔
24- عام طور پر دھيمى آواز ميں بات كرنا پسند ہے يا بلند آواز ميں ؟
جواب : گفتگو کی شیرینی نرمی میں ہے ،یہ  مؤثروزوداثرہے اس لئے نرمی سے ہی ہمکلام کرتا ہوں ۔
25- اپنے ارد گرد امن كى كمى محسوس كرتے ہيں ؟
جواب : کئی سالوں سے سعودی عرب میں ہوں ،یہاں تو امن ہی امن ہے مگر سوچتا ہوں کہ اے کاش مادر وطن ہندوستان میں بھی ایسا ہی امن ہوتا تو کیا اچھا ہوتا۔سعودی عرب کو دیکھ کرہرکسی کویہ احساس ہوتاہےکہ  واقعی الہی قانون نافذ کرنے میں ہی امن وسکون ہے ۔
26- عام طور پر طاقتور اور خوشحال لوگوں كى مجلس اچھی لگتى ہے يا غريب اور كمزور لوگوں كى ؟
جواب : جو بھی قدر کرنے والے ہوں ان کی محفل اچھی لگتی ہے ، خواہ طاقتور ہوں، خوشحال ہوں یا غریب وکمزور لوگ۔
27- تحرير لكھ كر چھپوانے كا شغل كس عمر سے ہے؟ پہلى تحرير كے متعلق بتانا چاہيں تو كب اور كہاں چھپی؟
جواب : تحریر شائع کرانے کا شوق عموما لوگوں میں پایا جاتا ہے ، میرے اندر بھی طالب علمی کے زمانے سے  تھا ۔جامعہ سلفیہ میں ثانویہ تک کے بچوں کے لئے حائطیہ کا انتظام ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچے چھوٹے چھوٹے مضامین دیتے ہیں اور قابل اشاعت چند مضامین ایک بڑے سائز پیپرپر کتابت کرکے دیوار پر آویزاں کیا جاتا ہے ۔ثانویہ کے آخری سال میں اس کا نائب مدیر تھا۔ عالمیت اور فضیلت والوں کے لئے پندرہ روزہ حائطیہ کے ساتھ ایک سالانہ میگزین بھی نکلتا ہے ، عالمیت کے دوسرے سال میں اس کی مجلس مشاورت میں رہا، آخری سال نائب مدیر اور فضیلت کے پہلے مرحلے میں 2003 میں مدیراعلی  بنا۔فراغت کے بعد ایک سال دہلی رہا، اسی اثنا ایک دیوبندی مدرسہ میں پڑھا یا اس مدرسے کے مہتمم کے چھوٹے بھائی پندرہ روزہ اخبار آئینہ حق نکالاکرتے ، جب میرے متعلق خبر ہوئی تو انہوں نے یہ اخبار مجھے سونپ دیا۔ دہلی کے بعد پھرمرکزی جمعیت اہل حدیث  کاٹھمانڈونیپال چلا آیا ، یہاں تن تنہا پندرہ روزہ اردو اخبار شائع کیا ، اس اخبار کا سب کچھ میں ہی تھا ،جب شروع کیا اس وقت  وہاں سے کوئی اردو اخبار نہیں نکلتا تھا، سال بھر تک اخبار نکالاپھر اچانک جالیات القصیم سے ویزہ گیا تو اسے چھوڑ کر سعودی عرب آنا پڑا۔جیساکہ سبھی کو معلوم ہے اس وقت سوشل میڈیا کافی پاورفل ہے ، یہاں پہ جب میری تحریریں کثرت سے گردش میں آئیں تو اکثر لوگوں نے خود ہی میرے بلاگ سے مضامین لیکرچھانپا شروع کیا۔ پھر بہت سارے لوگوں نے اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا جنہیں میں اپنے مضامین بھیجتا ہوں ۔ الحمد للہ سوشل میڈیا کے علاوہ اخباراور رسائل وجرائد میں مضامین کی اشاعت سے تقریبا آدھی فیصد سے زیادہ لوگوں تک بات پہنچ جاتی ہے ۔ یہاں پر دوتین اخبارکا شکریہ ادا نہ کروں تو مجھ سے احسان فراموشی سرزد  ہوجائے گی ۔ روزنامہ پیغام مادر وطن دہلی ، سہ روزہ میدان صحافت مالیگاؤں اور صدائے عام جنک پورنیپال۔ برادرعزیزمطیع الرحمن عزیزایڈیٹرپیغام مادر وطن کا تہ دل سے مشکور ہوں جو میرے مضامین کو اولیت دیتے ہیں اور بلاجھجھک ہمیشہ اپنے اخبار کی زینت بناتے ہیں ۔ اللہ تعالی سے ان کے لئے سلامتی اور اس اخبار کے ذریعہ قوم ومذہب کی مزید خدمت کی دعا کرتا ہوں ۔
28 - تحرير لكھنے سے پہلے اس كے متعلق قواعد و ضوابط جاننا اور ان كا خيال ركھنا پسند كرتے ہيں يا جو جى ميں آئے؟
جواب : موضوع سے متعلق میرا یہ نقطہ نظر ہے کہ جو حالات کے مطابق ہو اوراس پر اردو میں کم یا نہیں لکھا گیا ہوایسے موضوع کو منتحب کرتا ہوں ، ساتھ ہی اسلامیات کے جدیدتر مسائل کا تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ جہاں تک مضمون کے قواعد وضوابط کی بات ہے تو میں پہلے موضوع سے متعلق ہرپہلو کو جاننے کی کوشش کرتا ہوں ، کوئی اشکال یا اعتراض وارد ہوسکتا ہے اسے بھی بنظر غائز دیکھتا ہوں پھر ذہن میں ایک خاکہ تیار ہوتا ہے اسے کے حساب سے مضمون مرتب کرتاہوں ۔
29- تصانيف جو اب تك شائع ہو چكيں ؟
جواب : نیپالی میں دو کتابیں شائع ہوئی تھیں ، معاشیات پر ایک مبسوط کتاب جو دراصل جامعہ کا مقالہ تھا ، اس طویل مقالےکے میرے مشرف ومربی شیخ محمدابوالقاسم فاروقی حفظہ اللہ رئیس الاحرار کہاکرتے ۔ یہ کتاب مکتبہ فہیم مئو سے چھپنے والی تھی، بک لیٹ میں بھی نام درج ہوگیا، کمپوزنگ بھی ہوگئی مگر نہ جانے کیا ہوگیا؟ ابھی ایک کتاب لاالہ الااللہ اور اس کے مقتضیات پر میرے سنٹر سےچھپنے کے لئے پریس میں گئی ہے ۔ ایک دوسری اردو کتاب رمضان المبارک کے فضائل ومسائل رمضان تک شائع ہوجائے گی ۔تبلیغی جماعت کا تعارف وتجزیہ اور قرآن وسنت کا باہمی ربط کے عنوان پر دوکتابیں اردو میں اور فضائل اسلام پر ایک کتاب نیپالی میں غیرمطبوع ہیں۔ باقی متعدد مقالات ومضامین ہیں جنہیں ان شاء اللہ کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہے ۔
30- مذہبی حلیے سے كئى لوگوں کو خاصى تكليف ہوتى ہے ، آپ كا ايسے مواقع پر كيا رد عمل ہوتا ہے؟ كوئى تجربہ جو ذكر كرنا چاہيں ؟
جواب : الحمد للہ ایسی کوئی نوبت نہیں پیش آئی البتہ اس کے برخلاف ایک مرتبہ گھر سے چھٹی گزارکر جامعہ جارہاتھا اس وقت کبھی کبھار کٹکھا کھالیا کرتا تھا،اسٹیشن پر ایک دوکاندار سے کٹکھا مانگااس نے کٹکھا دیتے ہوا کہا بیٹاتم طالب علم لگتے ہو اور کٹکھا کھاتے ہو؟ میں نے کہا آپ بھی تو بیچتے ہیں ، اس نے کہا میری تجارتی مجبوری ہے تمہاری کون سی مجبوری ہے ؟ میں لاجواب ہوگیا ، اسی کٹکھا پھینک دیا اور پھر دوبارہ اسے ہاتھ نہیں لگایا۔  

31- ماشاء اللہ آپ پہلے ہی اردو مجلس کو بہت وقت دے رہے ہيں ليكن اردو مجلس ميں كوئى ايسى كمى جسے پورا كرنے ميں آپ مدد كر سكتے ہيں ؟
جواب: کمی سے تو کوئی مبرا نہیں ہے سوائے اللہ کے ، بس ہماری کوشش یہ ہوکہ ہم کتنی کمیوں کو دور کرسکتے ہیں ، اس کا اندازہ مجھ سے بہتر انتظامیہ کو ہوگا اور ناچیز کسی خدمت کے لائق ہو تو ضرور موقع عنایت فرمائیں ۔
32- اردو مجلس كى كوئى ايسى خامى جو آپ کو سخت ناپسندہو يا سب خوبيوں كا ستياناس كر ديتى ہے؟
جواب : میری نظر میں ایسی کوئی خامی نہیں ہے ۔

33- اردو مجلس كى كوئى ايسى خوبى جو كہيں اور نہيں ملتى ؟
جواب : یہاں خلوص وپیار ملا اور محبت بھرے ماحول میں کتاب وسنت کے دلائل سے مزین مضامین نشرکرنے اور دوسروں سے استفادہ کرنے کا بہترین موقع ملا۔
34- اردو مجلس كى انتظاميہ كى سب سے بڑی خامى جو آپ كو بہت محسوس ہوتی ہے؟
جواب : ایسی کوئی خامی مجھے اب تک محسوس نہیں  ہوئی، اللہ کرے محسوس بھی نہ ہو۔
35- انتظاميہ اردو مجلس كى سب سے بڑی خوبى جسے آپ سراہنا چاہيں؟
جواب : اردو مجلس فورم کا ہونا ہی میری نظر میں بڑی خوبی ہے جہاں ہرفن سے متعلق ماہرین کا اجتماع ہے ۔ رنگارنگ مضامین پڑھنے اور ان پرآزادانہ  تبصرہ  وتنقیدکرنے کو ملتا ہے ۔
36- اراکین کے ليے کچھ ايسى دينى كتب كا مطالعاتى نصاب تجويز كريں جن كا مطالعہ كرنا آپ کى نظر سے گزرنے والى ہماری معلومات كى خاميوں كو دور كرے ؟
جواب : میں تو عام لوگوں کو مستند تفاسیر اور کتب احادیث کا مطالعہ کرنے کو کہتا ہوں جس سےصحیح دین کی سمجھ ملے گی اور سماج وسوسائٹی سے اختلاف وانتشار اور شرک وبدعت کا خاتمہ ہوگا ۔ جو خاص طبقہ ہے وہ اپنے فن اور دلچسپی کے حساب سے موضوع وکتاب متعین کرتا ہے ۔
37- ماشاء اللہ آپ دعوت و تبليغ ميں متحرك ہيں ۔ اپنے تجربات كى روشنى ميں ساتھی داعيان و داعيات كو كيا نصيحتيں كرنا چاہيں گے ؟

جواب : دعوت وتبلیغ کرنے والوں کی بہت کمی ہے اور اچھائی کے مقابلے میں شر کا پھیلاؤکئی گنازیادہ ہے اس وجہ سے جو دعوت سے جڑے ہیں انہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے دعوت کا احساس کریں کہ اس کی کیا اہمیت ہے اور اس پرفتن دور میں دعوت کی کس قدر ضرورت ہے ، اس احساس کے تناظر میں جہد مسلسل اور انضباط وقت کے ساتھ فریضہ تبلیغ انجام دیں ۔ پھر دیکھیں آپ کی محنت کا ثمرہ کس قدر ظاہر ہوتا ہے ؟۔
مکمل تحریر >>