Wednesday, March 29, 2017

فرقہ پرستی : نقصانات –وجوہات-حل

فرقہ پرستی : نقصانات –وجوہات-حل
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

اسلام ایک صاف ستھرا دین ہے اس پہ کسی قسم کا داغ دھبہ ، میل کچیل نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اسلام کا ہرمعاملہ واضح ، تعلیمات روشن اور افکار ونظریات سے لیکر عقائد وعبادات تک سارے کے سارے ٹھوس اور مستند معیار پر قائم ہیں ۔ یہ دین اپنے ماننے والوں کو اتحاد واتفاق کی تعلیم دیتا ہےاس لئے نماز، روزہ، حج جیسے ارکان اسلام میں وحدانیت نظر آتی ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین میں لوگوں کو تفرقہ بازی کرنے ، اختلاف وانتشارپھیلانے ، نفرت ودشمنی کو ہوادینے سے منع کیاہے اور الفت ومحبت، اتحاد واتفاق اور بھائی چارہ کو قائم کرنے اور اسے بڑھانے کا حکم دیا ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جہاں عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں یگانگت کی فضاقائم رکھے وہیں گفتاروکردار کے ذریعہ علماء کی بھی ذمہ داری ہے کہ اتحاد ملت کا دامن تھامے رہے ،اس کے لئے جو بھی جائز صورت اپنانی پڑے اپنائے خواہ تنظیمی شکل ہویا  خلافت کا قیام ۔
جولوگ دین میں تفرقہ پھیلاتے ہیں یا تفرقہ بازی کا حصہ بنتے ہیں خواہ علماء ہوں  یا عوام دونوں ہی  اتحاداسلامی کے دشمن ،تعلیمات اسلامیہ کے مخالف اور اللہ ، اس کے رسول کے باغی ہیں ۔
آج دین ومسلک کے نام پر  ہمارے اختلاف نے عوام کو بڑے مشکلات میں ڈال رکھاہے ، عام آدمی صحیح دین کوسمجھنے سے قاصر ہے ،  دین پر عمل کرنے کے لئے بہت سارے مسائل میں تذبذب کا شکار ہے حتی کہ عبادات کی انجام دہی میں اس قدر کٹھنائی کا سامنا کررہی ہے کہ اکثر یت تو عبادت سے ہی روگراں ہوگئی ہے ۔ ایک دوسرے کی تکفیر کرنا، ایک دوسرے سےنفرت وبغض رکھنا ،ایک دوسرے کے خلاف  مکروفریب کرنا، دوسرے مسلک والوں کی مسجدوں ، قبرستانوں اور مدارس پر قبضہ کرنا، اپنی عبادت گاہوں ، کتابوں ، اماموں اور عقائدونظریات کو تقسیم وخاص  کرلینا، شادی بیاہ اورلین دین میں مسلکی منافرت برتنا، بے قصورمسلمانوں پر جوٹھے الزامات لگانا اور ان  پرجوٹھے مقدمات درج کراکےہراساں وپریشاں کرنا بلکہ اس پر فخر کرنا اور مزے لینا، ایک دوسرے کے مکاتب ومدراس کے خلاف سازش رچنا ، انہیں بند کرنے کی ناروا کوشش کرنا، مخلص دعاۃ ومبلغین کے خلاف پروپیگنڈے کرنا، اسلاف وبزرگان دین کے متعلق ہرزہ سرائی کرنا،  اپنے اپنے مسلکی قوت وشان بڑھانا اور اس کے لئے جائز وناجائز ہرقسم کے ذرائع استعمال کرنا ، مسلکی عصبیت ، مسلکی انارکی ، مسلکی تنازع ، مسلکی تشددوفساد مچانا مسلمانوں میں بطور خاص ہندوپاک، نیپال، بنگلہ دیش وغیرہ میں عام ہے ۔
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین کے دور میں بھی اختلاف کا نمونہ ملتا ہے مگر وہ اختلاف نصوص آیات واحادیث میں فہم وبصیرت کا اختلاف ہے جس کا امکان کل بھی تھا ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ۔ صحابہ کرا م اور تابعین عظام دین پر عمل کرنے کے لئے نبی ﷺ کی سنت تلاش کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے ۔ صحابہ کے بعد تابعین  واتباع تابعین کا بھی یہی منہج رہاہے۔ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کا باعث یا تو  نص کی عدم معرفت یا نص میں فہم کا اختلاف ہے ۔ یہ اختلاف ہوتے ہوئے بھی ائمہ کے دور میں تفرقہ بازی نہیں تھی ۔ آج لوگوں نے ان کے نام پر الگ الگ فرقہ بنارکھا ہے اور ان ائمہ کے اختلاف کو بنیاد کر آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر میں مبتلا ہیں ۔ جہاں تک کسی امام سے نص کی عدم معرفت کی وجہ سے  کسی مسئلہ میں خطا ہوئی تو اس خطا کو چھوڑ دی جائے گی اور یہ خطا جوآج ہمیں اختلاف نظر آرہی ہے دراصل اس وقت کے لحاظ سے اس امام کا اجتہاد تھا جو انہوں نے اللہ کی دی ہوئی دینی بصیرت کی بنیاد پراخذ کیا تھا ، ان کے سامنے کوئی خاص مسلک ، کوئی خاص دنیاوی غرض یا کوئی شخصیت پرستی نہیں تھی ، وہ ہم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے تھے ، اپنی زبان سے وہی بات کہتے جو وہ اپنی دینی بصیرت سے حق سمجھتے تھے ۔ آج دلیل واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگ امام کی بشری  خطاؤں پہ مصر ہیں اور یہ اصرا ر اس قدد شدید ہے کہ آپس میں جدل وجدال کا ماحول بناہوا ہے ۔ اور جہاں پر ائمہ سے نص کی معرفت کے باوجود  فہم وبصیرت میں اختلاف ہوا تو اس اختلاف کو کتاب وسنت پر لوٹایا جائے جو موافق ہو اسے اختیار کیا جائے جو مخالف ہو چھوڑ دیا ہے ۔ اس سے کسی امام کی اہانت مقصود نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے حق میں کسر شان شمار ہوگی ۔ چاروں ائمہ ہمارے ہی ہیں ،کسی غیر کے نہیں ہیں ۔ ہم ان سے بہت محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ان کی خطا یا اختلاف پہ گرفت نہ کی جائے اور نہ ہی ان کے نام پہ فرقہ بنایا جائے ۔ مجتہد ہونے کے ناطے ان سے جو خطا یا اختلاف ہوا  وہ اللہ کے نزدیک اجر کا باعث ہے لیکن ہم جان بوجھ کر ان کے اختلاف کو ہوا دیں ، ان کے اختلاف کی بنیاد پر   ائمہ کو چار حصوں اور چار فرقوں میں تقسیم کردیں اور ان کی بشری خطا کو بھی جبرا صحیح ثابت کریں یہ مذموم ہے ۔ یہی تفرقہ بازی کی جڑ ہے ۔معلوم یہ ہوا کہ نصوص  میں فہم وتدبر سے جو مختلف معانی اخذ ہوں وہ مذموم نہیں بلکہ مختلف معانی کو بنیاد بناکر تفرقہ بازی کرنا یہ مذموم ہے ۔ یقین جانئے اگر آج بھی امت اس نقطہ نظر ہی جمع ہوجائے تو سارے فرقے مٹ سکتے ہیں کیونکہ اسلام ایک طریقہ حیات اور دستور زندگی کا نام ہے اس میں تفرقہ باز ی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔
ہمیں  اگر امام ابوحنیفہ ؒ سے محبت ہے  تو محبت کا ظہار کرسکتے ہیں ، فرط محبت میں نسبت بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ کوئی امام مالک سے فرط محبت کے طور پر اپنے نام کے ساتھ مالکی لکھے۔ لوگوں کا صدیقی ، فاروقی اور عثمانی لکھنا بھی بطور محبت ہے ۔ کوئی کسی مدرسے سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی محبت میں خو د کو اس طرف انتساب کرتا ہے ۔  محبت کے اظہار کے لئے  کی اچھی نسبتوں میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر نسبت کا مطلب الگ فرقہ بنانا ہے تو مذموم ہے خواہ  نسبت کسی شخص کے نام پر ہو، ادارے کے نام پر یا قوم وعلاقہ کے نام پر ہو۔

مکمل تحریر >>

اسلام میں فرقہ واریت کا حکم

اسلام میں فرقہ واریت کا حکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
امید کرتا ہوں ملتِ اسلامیہ کے تمام نہایت قابل احترم فخرِ اسلام اہل علم,علما, مشائخ ,عالم فقیہہ, ماہر شریعت، قاضی حضرات خیر و عافیت سے ہونگے۔
مجھے کافی عرصہ سے ان تمام قابلِ احترام اہل علم صاحبان سے کچھ سوالات کرنا تھے، مگر بدقسمتی سے کوئی پلیٹ فارم یا موقع نہیں مل پایا کہ میں اپنی پریشانی اپنا مسلہ اپنے دماغ میں ڈھیر سارے موجود سوالیہ نشان انکے سامنے رکھو یا پھر بظاہر ان کے آمنے سامنے وقتاً فوقتاً جا کر اپنے سوالات عرض کر سکوں اور کوئی ٹھوس جوابات ان سے حاصل کر کے اپنے علم و فہم میں اضافہ کر سکوں۔ ممکن ہے میرے سوالات شاید میجھ اکیلے کا نہ ہو میرے جیسے کسی اور کم فہم کم عقل و دانش کے بھی ہو تو وہ کوئی کاوش کر لے اس کے جواب تلاشنے کی۔ خیر ہم سوالات کی جانب بڑھتے ہیں۔
سوالات: کیا اسلام میں فرقہ واریت پھیلانا یا بنانا یا کسی بھی طرح سے اس کا حصہ بننا جائز ہے؟
اگر یہ جائز ہے تو پھر اللہ سبحان وتعالی کے رسول ﷺ کا کون سا فرقہ تھا تاکہ ہم اس فرقہ سے خود کو منسلک کر سکیں؟
اگریہ جائزنہیں ہے تو پھر اسلام میں فرقہ واریت کون لوگ پھیلا رہے ہیں اور کیوں پھیلا رہے ہیں؟
کیا وہ علما ہیں مشائخ ہیں مفتی ہیں؟
 کیوں کہ ان ہستیوں سے زیادہ بہتر تو اسلام کو کوئی نہیں جانتا پھر یہ کم فہم عام انسان آپس میں کیسے اختلافات کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں کیسے بٹے ہوئے ہیں کیسے ایک دوجے سے تفاوت منافرت شدت اور غضب کا شکار ہو کر ایک دوجے کو کھانے پر ہیں؟ اور آئے دن تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ حتی کہ نوجوان طبقہ دین سے بیزار اور اسلام کی حقانیت کو نہ سمجھ کر یا تواس کے اندر رہتے ہوئے شرک و ظلم کا شکار ہوئے پڑے ہیں یا پھر اس سے منحرف ہو رہے ہیں اور نتیجہ کوئی ملحد بن رہا ہے کوئی دہریہ کوئی عیسائی کوئی کیا اور کوئی کیا۔
اور اگر علماء مشائخ اور دیگر اہل علم حضرات اس مہم کا حصہ نہیں ہیں تو پھر انہوں نے آج تک اس بٹوارے اورگمراہی کی مہم کے سد باب کے لئے کیا کیا اسکو روکنے کے لئے کیا اقدامات کئے کیا حکمت عملی اپنائی؟ مسلمانوں کو ایک امتِ واحدہ بنانے میں ایک ہم جماعت بنانے میں ایک اللہ ایک رسولﷺ ایک قرآن کے سائے تلے جمع کیوں نہیں کیا؟
پاک و ہند بلکہ پورے امتِ مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کیوں ہونے دیا؟ ان تمام علما کی ذمہ داریاں کیا رہی؟
کیا اسلام میں کسی مخالف سے علمی اختلاف کا مطلب شدت ،نفرت ،گالى گلوچ،  کوسنا،ایک دوجے پر نام رکھنا، لعن طعن کرنا کفر کے فتوے لگانا جنت دوزخ کے فیصلے سنانا ہی ہے؟
برائے کرم ان سوالات کے جوابات دے کر میری رہنمائی فرمائیں؟
والسلام عليكم
خواجہ مبشر

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الحمد للہ !
اسلام ایک صاف ستھرا دین ہے اس پہ کسی قسم کا داغ دھبہ ، میل کچیل نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اسلام کا ہرمعاملہ واضح ، تعلیمات روشن اور افکار ونظریات سے لیکر عقائد وعبادات تک سارے کے سارے ٹھوس اور مستند معیار پر قائم ہیں ۔ یہ دین اپنے ماننے والوں کو اتحاد واتفاق کی تعلیم دیتا ہےاس لئے نماز، روزہ، حج جیسے ارکان اسلام میں وحدانیت نظر آتی ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین میں لوگوں کو تفرقہ بازی کرنے ، اختلاف وانتشارپھیلانے ، نفرت ودشمنی کو ہوادینے سے منع کیاہے اور الفت ومحبت، اتحاد واتفاق اور بھائی چارہ کو قائم کرنے اور اسے بڑھانے کا حکم دیا ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جہاں عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں یگانگت کی فضاقائم رکھے وہیں گفتاروکردار کے ذریعہ علماء کی بھی ذمہ داری ہے کہ اتحاد ملت کا دامن تھامے رہے ،اس کے لئے جو بھی جائز صورت اپنانی پڑے اپنائے خواہ تنظیمی شکل ہویا  خلافت کا قیام ۔
جولوگ دین میں تفرقہ پھیلاتے ہیں یا تفرقہ بازی کا حصہ بنتے ہیں خواہ علماء ہوں  یا عوام دونوں ہی  اتحاداسلامی کے دشمن ،تعلیمات اسلامیہ کے مخالف اور اللہ ، اس کے رسول کے باغی ہیں ۔
آج دین ومسلک کے نام پر  ہمارے اختلاف نے عوام کو بڑے مشکلات میں ڈال رکھاہے ، عام آدمی صحیح دین کوسمجھنے سے قاصر ہے ،  دین پر عمل کرنے کے لئے بہت سارے مسائل میں تذبذب کا شکار ہے حتی کہ عبادات کی انجام دہی میں اس قدر کٹھنائی کا سامنا کررہی ہے کہ اکثر یت تو عبادت سے ہی روگراں ہوگئی ہے ۔ ایک دوسرے کی تکفیر کرنا، ایک دوسرے سےنفرت وبغض رکھنا ،ایک دوسرے کے خلاف  مکروفریب کرنا، دوسرے مسلک والوں کی مسجدوں ، قبرستانوں اور مدارس پر قبضہ کرنا، اپنی عبادت گاہوں ، کتابوں ، اماموں اور عقائدونظریات کو تقسیم وخاص  کرلینا، شادی بیاہ اورلین دین میں مسلکی منافرت برتنا، بے قصورمسلمانوں پر جوٹھے الزامات لگانا اور ان  پرجوٹھے مقدمات درج کراکےہراساں وپریشاں کرنا بلکہ اس پر فخر کرنا اور مزے لینا، ایک دوسرے کے مکاتب ومدراس کے خلاف سازش رچنا ، انہیں بند کرنے کی ناروا کوشش کرنا، مخلص دعاۃ ومبلغین کے خلاف پروپیگنڈے کرنا، اسلاف وبزرگان دین کے متعلق ہرزہ سرائی کرنا،  اپنے اپنے مسلکی قوت وشان بڑھانا اور اس کے لئے جائز وناجائز ہرقسم کے ذرائع استعمال کرنا ، مسلکی عصبیت ، مسلکی انارکی ، مسلکی تنازع ، مسلکی تشددوفساد مچانا مسلمانوں میں بطور خاص ہندوپاک، نیپال، بنگلہ دیش وغیرہ میں عام ہے ۔
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین کے دور میں بھی اختلاف کا نمونہ ملتا ہے مگر وہ اختلاف نصوص آیات واحادیث میں فہم وبصیرت کا اختلاف ہے جس کا امکان کل بھی تھا ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ۔ صحابہ کرا م اور تابعین عظام دین پر عمل کرنے کے لئے نبی ﷺ کی سنت تلاش کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے ۔ صحابہ کے بعد تابعین  واتباع تابعین کا بھی یہی منہج رہاہے۔ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کا باعث یا تو  نص کی عدم معرفت یا نص میں فہم کا اختلاف ہے ۔ یہ اختلاف ہوتے ہوئے بھی ائمہ کے دور میں تفرقہ بازی نہیں تھی ۔ آج لوگوں نے ان کے نام پر الگ الگ فرقہ بنارکھا ہے اور ان ائمہ کے اختلاف کو بنیاد کر آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر میں مبتلا ہیں ۔ جہاں تک کسی امام سے نص کی عدم معرفت کی وجہ سے  کسی مسئلہ میں خطا ہوئی تو اس خطا کو چھوڑ دی جائے گی اور یہ خطا جوآج ہمیں اختلاف نظر آرہی ہے دراصل اس وقت کے لحاظ سے اس امام کا اجتہاد تھا جو انہوں نے اللہ کی دی ہوئی دینی بصیرت کی بنیاد پراخذ کیا تھا ، ان کے سامنے کوئی خاص مسلک ، کوئی خاص دنیاوی غرض یا کوئی شخصیت پرستی نہیں تھی ، وہ ہم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے تھے ، اپنی زبان سے وہی بات کہتے جو وہ اپنی دینی بصیرت سے حق سمجھتے تھے ۔ آج دلیل واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگ امام کی بشری  خطاؤں پہ مصر ہیں اور یہ اصرا ر اس قدد شدید ہے کہ آپس میں جدل وجدال کا ماحول بناہوا ہے ۔ اور جہاں پر ائمہ سے نص کی معرفت کے باوجود  فہم وبصیرت میں اختلاف ہوا تو اس اختلاف کو کتاب وسنت پر لوٹایا جائے جو موافق ہو اسے اختیار کیا جائے جو مخالف ہو چھوڑ دیا ہے ۔ اس سے کسی امام کی اہانت مقصود نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے حق میں کسر شان شمار ہوگی ۔ چاروں ائمہ ہمارے ہی ہیں ،کسی غیر کے نہیں ہیں ۔ ہم ان سے بہت محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ان کی خطا یا اختلاف پہ گرفت نہ کی جائے اور نہ ہی ان کے نام پہ فرقہ بنایا جائے ۔ مجتہد ہونے کے ناطے ان سے جو خطا یا اختلاف ہوا  وہ اللہ کے نزدیک اجر کا باعث ہے لیکن ہم جان بوجھ کر ان کے اختلاف کو ہوا دیں ، ان کے اختلاف کی بنیاد پر   ائمہ کو چار حصوں اور چار فرقوں میں تقسیم کردیں اور ان کی بشری خطا کو بھی جبرا صحیح ثابت کریں یہ مذموم ہے ۔ یہی تفرقہ بازی کی جڑ ہے ۔معلوم یہ ہوا کہ نصوص  میں فہم وتدبر سے جو مختلف معانی اخذ ہوں وہ مذموم نہیں بلکہ مختلف معانی کو بنیاد بناکر تفرقہ بازی کرنا یہ مذموم ہے ۔ یقین جانئے اگر آج بھی امت اس نقطہ نظر ہی جمع ہوجائے تو سارے فرقے مٹ سکتے ہیں کیونکہ اسلام ایک طریقہ حیات اور دستور زندگی کا نام ہے اس میں تفرقہ باز ی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔
ہمیں  اگر امام ابوحنیفہ ؒ سے محبت ہے  تو محبت کا ظہار کرسکتے ہیں ، فرط محبت میں نسبت بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ کوئی امام مالک سے فرط محبت کے طور پر اپنے نام کے ساتھ مالکی لکھے۔ لوگوں کا صدیقی ، فاروقی اور عثمانی لکھنا بھی بطور محبت ہے ۔ کوئی کسی مدرسے سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی محبت میں خو د کو اس طرف انتساب کرتا ہے ۔  محبت کے اظہار کے لئے  کی اچھی نسبتوں میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر نسبت کا مطلب الگ فرقہ بنانا ہے تو مذموم ہے خواہ  نسبت کسی شخص کے نام پر ہو، ادارے کے نام پر یا قوم وعلاقہ کے نام پر ہو۔

کتبہ
مقبول احمد سلفی

مکمل تحریر >>

Monday, March 27, 2017

جمعہ کی فضیلت

جمعہ کی فضیلت
=======

إنَّ اللهَ : يَبعثُ الأيامَ يومَ القيامةِ على هيئَتِها ، ويبعثُ الجُمعةَ زهْراءَ مُنِيرةً لأهلِها ، فيَحُفُّونَ بِها كالعرُوسِ تُهدَى إلى كرِيمِها تُضِيءُ لهمْ ، يَمشونَ في ضَوْئِها ، ألوانُهمْ كالثَّلجِ بَياضًا ، رِياحُهمْ تَسطَعُ كالمِسكِ ، يَخوضُونَ في جِبالِ الكافورِ ، يَنظرُ إليهِمُ الثَّقلانِ ما يُطْرِقُونَ تعجُّبًا ، حتى يَدخلوا الجنةَ ، لا يُخالِطُهمْ أحدٌ إلَّا المؤذِّنونَ المحتسِبونَ(صحيح الجامع:1872)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ہفتے کے دنوں کو ان کی مخصوص شکل میں اٹھائے گااور جمعہ کا دن حسین اور چمکدار ہو گا اہل جمعہ اس کو ایسے گھیر لیں گےجیسے دلہن کو دولہا کی طرف رخصت کرتےوقت گھیر لیا جاتا ہےتو جمعہ کا دن اپنےجمعہ والوں کے لئے روشنی کر دے گا اور وہ اس کی روشنی میں چل رہے ہونگےاور ان لوگوں کے رنگ برف کی طرح سفید ہونگے جو جمعہ کا اہتمام کرتے ہیںتو جمعہ کی روشنی سےجمعہ والوں کے چہرے سفید ہو جائیں گے ان کی خوشبوکستوری کی طرح مہک رہی ہو گی ایسے جیسے کافور کے پہاڑوں میں گھسے ہوئے ہونگے جن وانس انہیں دیکھ رہے ہونگے اور وہ خود بھی تعجب کی وجہ سے اپنی نگاہ نیچی نہیں کریں گے اور جنت میں داخل ہو جائیں گےاور ثواب کی نیت سے اذان دینے والونکے علاوہ کوئی بھی ان کے مقام اور مرتبہ کو نہیں پائے گا۔


مکمل تحریر >>

Sunday, March 26, 2017

نماز عصر کا ضیاع ، مال و اولاد کا ہی نہیں سارے نیک اعمال کا ضیاع ہے ۔

نماز عصر کا ضیاع ، مال و اولاد کا ہی نہیں سارے نیک  اعمال کا ضیاع ہے ۔

مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

ایک مسلمان کے اوپر دن ورات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں جنہیں اپنے اپنے وقتوں پر اد ا کرنا ہے ، ان کا تارک قرآن وحدیث کی روشنی میں کافر ہے ۔پنچ وقتہ نمازیں فریضہ ہونے کے ساتھ اپنے دامن  میں نمازی مومنوں کے لئےہزاروں فیوض وبرکات لئے ہوئے ہیں ۔دل کا سکون ، پریشانی کا حل ، بیماری سے شفا، آنکھوں کی ٹھنڈک ، مال ،اولاداور زندگی میں برکت ، گناہوں کی مغفرت، درجات کی بلندی، خالق ومالک کی قربت  اور اس کی نصرت ومہربانی،  شروفساد سے پناہ ، دنیا میں عزت وراحت اور آخرت میں کامیابی وکامرابی یہ سب اور ان کے علاوہ بے شمار خوبیاں نماز میں ہیں ۔ اس کا سب سے عظیم فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے دور کردے گا اور جنت ان کا ٹھکانہ بنائے گا۔
پنچ وقتہ نمازوں میں نماز عصر کا ایک خاص مقام ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اسے صلاۃ وسطی (درمیانی نماز)سے تعبیر کی گئی ہے اور اس پہ محافظت ومداومت کا الگ سے حکم دیا گیا ہے ۔اللہ کا فرمان ہے :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (البقرۃ:238)
ترجمہ: نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز(عصر) کی اور اللہ تعالٰی کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو ۔
مسلمانوں کی اکثریت اس کی اہمیت وفضیلت سے غافل اور اس کے ترک کے نقصان سے بے بہرا ہے ۔ اس مضمون میں مختصرا اسی پہلو کو اجاگر کیا جائے گا تاکہ نماز عصر کے تئیں ہمارے دل میں اشتیاق پیدا ہواور ہمیشہ اس کے ترک سے خوف کھاتے رہیں ۔ اس بات کے علم کے ساتھ کہ عصر کے ماسوا چار نمازیں بھی اپنی جگہ مسلم  اور فرض ہیں جنہیں ادا کئے بغیر ایک مسلم کے لئے کوئی چارہ کار نہیں ۔  
پہلے یہاں نماز عصر کے چند فضائل ملاحظہ فرمائیں تاکہ اس  کی ادائیگی کی فضیلت اور اسکے ترک سے نقصان کا بخوبی اندازہ ہوسکے ۔
(1)حضرت فضالہ لیثی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
علَّمَني رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فكان فيما عَلَّمَني: وحافِظْ على الصلواتِ الخمسِ. قال: قلتُ: إن هذه ساعاتٌ لي فيها أشغالٌ، فمُرْنِي بأمرٍ جامعٍ إذا أنا فعَلْتُه أجزَأَ عنِّي. فقال: حافِظْ على العَصْرَيْنِ، وما كانت مِن لُغَتِنا. فقلتُ وما العَصْرانِ؟ فقال: صلاةٌ قبلَ طلوع ِالشمسِ، وصلاةٌ قبلَ غروبِها.(صحيح أبي داود:428)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا: یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں، آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجئیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عصرین پر محافظت کرو ، عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نماز: ایک سورج نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے ( فجر اور عصر ) ۔
فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی نماز اور عصر کی نماز بہت ساری چیزوں سے کافی ہوجائے گی (اس کا یہ مطلب نہیں کہ بقیہ تین نمازیں ظہر،مغرب وعشاء نہیں پڑھنی ہے )۔
(2)جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إنَّكم ستُعرَضونَ على ربِّكم فترَونَه كما ترونَ هذا القمرَ لا تُضامونَ في رؤيتِه ، فإن استطعتُم أن لا تُغلَبوا على صلاةٍ قبلَ طُلوعِ الشَّمسِ وصلاةٍ قبل غروبِها فافعَلوا . ثمَّ قرأ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ(صحيح الترمذي:2551)
ترجمہ:تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ترجمہ: پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔
فائدہ : اس حدیث سے نماز فجر اور نمازعصر کے لئے شدت اہتمام کا پتہ چلتا ہے کہ کسی صورت یہ دونوں نمازیں چھوٹنے نہیں پائے ،نیز اسی طرح بقیہ تین نمازیں بھی ادا کرنی ہیں ۔
(3)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَتَعاقَبونَ فيكُم: ملائِكَةٌ بالليلِ وملائِكةٌ بالنهارِ، ويجتمعونَ في صلاةِ الفجرِ وصلاةِ العصرِ، ثم يَعْرُجُ الذينَ باتوا فيكُم، فيَسألُهُم وهو أعلَمُ بِهِم: كيفَ تَرَكتُم عِبادي ؟ فيقولون : تَرَكْناهُم وهُم يُصلونَ، وأتَيناهُم وهُم يُصلونَ .(صحيح البخاري:555)
ترجمہ:رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔  فجر اور عصر کی نمازوں میں (دونوں قسم کے فرشتوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔
فائدہ :  اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح فرشتہ اللہ کو نمازفجر پڑھنے والوں کی خبر دیتا ہے ویسے نماز عصر پڑھنے والوں کی بھی خبر دیتا ہے ،اس لئے فجروعصر کا اہتمام کریں تاکہ اللہ کے یہاں ہمارا ذکر جمیل ہو۔
(4)حضرت عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا :
لن يلجَ النارَ أحدٌ صلى قبل طلوعِ الشمسِ وقبل غروبها يعني الفجرَ والعصرَ(صحيح مسلم:634)
ترجمہ: وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا جو سورج نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے یعنی فجر اور عصر کی نمازیں ۔
فائدہ : ویسے نماز جہنم سے نجات دلانے والی ہے مگر یہاں فجر وعصر کا ذکرخاص اس نماز کی خاص فضیلت پر دال  ہے ۔
(5)ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
من صلى البرديْنِ دخل الجنةَ( صحيح مسلم:635)
ترجمہ: جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں (فجروعصر) پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
فائدہ : یہاں بھی بطور خاص دو نمازوں کی اہمیت کا ذکر ہے جو جنت میں لے جانے کا سبب ہے وہ ہے نماز فجروعصر۔
(6) حضرت جا بررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
إذا دخلَ الميِّتُ القبرَ ، مُثِّلَتِ الشَّمسُ عندَ غُروبِها ، فيجلسُ يمسحُ عَينَيهِ ، ويقولُ : دَعوني أصلِّي(صحيح ابن ماجه:4272)
ترجمہ: جب میت قبر میں پہنچتی ہے تو اسے سورج ڈوبتا نظر آ تا ہے ۔وہ آ نکھیں ملتا ہو ا اٹھا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑو نماز پڑ ھ لینے دو ۔
فائد ہ : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب میت کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے اور فرشتے سوال کے لئےاسے اٹھاتے ہیں تو مومن میت كو محسوس ہوگا کہ سورج ڈوب رہا ہے اور وہ نمازعصر سے سویا رہ گیا اس لئے فرشتے سے کہے گا ہٹوپہلے  مجھے نماز عصرپڑھنے دو۔جو لوگ دنیا میں نماز عصر کا اہتمام کرتے رہے  ان شاء اللہ انہیں قبر میں بھی نماز کی فکر ہوگی گوکہ وہاں نماز نہیں پڑھنی ہے ۔
ان ساری احادیث سے عصر کی نماز کی بڑی تاکید اور بیحد اہمیت وفضیلت کا علم ہوتا ہے اس لئے مومن بندہ جہاں پانچوں نمازوں کا اہتمام کرے وہیں بطور خاص فجر کی نماز اور عصر کی نماز کاشدت اہتمام کرے ۔فجر بندوں پر نیند کی وجہ سے بھاری ہے تو عصر کام کاج میں مشغولیت کی وجہ سے ۔ اللہ کے نیک  بندے اپنے خالق کی عبادت کے لئے نیند سے بھی بیدار ہوتے ہیں اور کام کاج  بھی روک دیتے ہیں ۔
نماز عصر کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کے ترک کرنے کی وجہ سے اسی قدر سخت ترین وعید ہے ۔ ایک مرتبہ نبی ﷺ نماز عصر سے روک دئے گئے (آپ نے چھوڑا نہیں تھا ) تو جن کی طرف سے نماز عصر سے روک دئےگئے آپ نے انہیں بددعا دیدی ۔
عن عبدِاللهِ ؛ قال : حَبسَ المشركونَ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن صلاةِ العصرِ . حتى احمرَّتِ الشمسُ أوِ اصفرَّتْ . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ شغلونا عن الصلاةِ الوُسطى صلاةِ العصرِ . ملأ اللهُ أجوافَهم وقبورَهم نارًا أو قال حشا اللهُ أجوافَهم وقبورَهم نارًا(صحيح مسلم:628)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مشرکوں نے (جنگ میں مشغول رکھ کر) رسو ل اللہ ﷺ کو عصر کی نمازسے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :انھوں نےہمیں درمیانی نماز، عصرکی نماز سے مشغول رکھا ، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں میں آگ بھر دے ۔ یا فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔
اس حدیث کی روشنی میں ذرا اندازہ لگائیں کہ طائف میں آپ ﷺ پر بے پناہ ظلم ہوا، احد میں آپ کا دندان مبارک شہید کیا گیا ، آپ کو اور آپ کے اصحاب کو مکہ سے نکال دیا گیا مگر آپ نے بددعا نہیں مگر نماز عصر سے مشغول کردینے والوں کے حق میں بددعا دی ،اس لئے ہم نبی ﷺ کی محبت میں اس نماز سے ہم بھی اسی طرح محبت کریں اور کبھی کسی عذر کی بناپر چھوٹ جائے تو اسی طرح افسوس کا ظہار کریں ۔
جب نماز سے مشغول کردینے والوں کے حق میں رسالت مآب کی بددعا ہے تو جو مسلمان ہوکر اس نماز کو پڑھتے ہی نہیں اس کے حق میں کیا ہوگا؟ آئیے حدیث ملاحظہ کریں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
من فاتَتْه العصرُ فكأنما وَتِرَ أهلَه ومالَه(صحيح مسلم:626)
ترجمہ: جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کے اہل و عیال اور مال و دولت( سب کچھ) تباہ و برباد ہوگئے۔
اس حدیث کو پڑھیں اور اپنا محاسبہ کریں ، کیا ہماری غربت، بے چینی، بے برکتی، نافرمان اولاد یا  مال واولاد کی تباہی وبربادی کہیں نماز عصر چھوڑنے کے سبب تو نہیں ؟ اگر نمازوں سے غافل ہیں تو اللہ کی طرف رجوع کریں اور پنچ وقتہ نمازوں پہ محافظت کریں بطور خاص نماز عصر کا اہتمام کریں ۔
اس سے بھی زیادہ سخت وعیدنمازعصر چھوڑنے والوں کے لئے  ایک دوسری حدیث میں ہے جس میں سارے اعمال ہی ضائع ہوجانے کی خبر دی گئی ہے ۔
ابوالملیح سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كنا مع بُرَيْدَةَ في غَزوَةٍ، في يومٍ ذي غَيمٍ، فقال : بَكِّرُوا بصلاةِ العصرِ فإن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : من ترك صلاةَ العصرِ فقد حَبِطَ عملُه(صحيح البخاري:553)
ترجمہ: ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے۔ ابر و بارش کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا۔
یہاں نماز چھوڑنے سے مراد جان بوجھ کر نماز چھوڑنا ہے جیساکہ ایک دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے ۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن تَركَ صلاةَ العَصرِ مُتعمِّدًا فقد حَبِطَ عَمَلُهُ(صحيح الترغيب:479)
ترجمہ: جس نے جا ن بوجھ کرعصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع ہو گیا۔
متعدد احادیث ایسی ملتی ہیں جن میں بہت سارے کام پر سارے  اعمال ضائع ہونے کا ذکر ملتا ہے،یہاں میں  صرف قرآن کی روشنی میں بتلانا چاہتا ہوں کہ اسےکفر اور شرک کے مقابل میں گردانا گیا ہے یعنی نماز عصر کا ترک کرنا صریح کفر ہے اس سے سارا عمل ضائع ہوجاتا ہے جس طرح ایمان کے انکار (کفر) سے سارا عمل ضائع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَنْ يَكْفُرْ بِالإيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ في الآخِرَةِ مِنَ الخَاسِرينَ (المائدة:5)
ترجمہ: منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں ۔
اسی طرح تارک صلاۃ عصر کی سزا مشرکین کے برابر ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أُوحي إِلَيْكَ وَإِلَى الذينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الخَاسِرينَ(الزُّمَر:65)
ترجمہ: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا ۔
ان کے علاوہ قرآن میں نبی ﷺ کی آواز سے اونچی بولنے، کفر کرنے کے ساتھ مومنوں کو اللہ کی راہ سے روکنے اور رسول کی مخالفت کرنے، اللہ کی رضا کی راہ چھوڑکراس کی ناراضگی کی راہ چلنے ، اللہ کی نازل کردہ شریعت سے کراہت محسوس کرنے، رب کی آیات اور اس سے ملاقات کا انکار کرنے ،  مومنوں کے ساتھ نہ رہنےاور   دین سے پھرجانے پر سارے اعمال ضائع ہونے کی اللہ تعالی نے خبر دی ہے ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ  بقیہ نمازیں بھی جان بوجھ کر چھوڑنے سے نیکیاں رائیگاں ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ  بھی کفر ہے لیکن بطور خاص عصر کی نما ز کا ذکر اس کے تارک کے لئے شدید قسم کا گناہ اور بدترین قسم کی سزا کا ضامن ہے جبکہ دوسری طرف  اس  نمازکی محافظت کرنے والوں کے لئے عظیم اجروثواب ہے ۔
اے اللہ ! تو ہمیں پنچ وقتہ نمازی بنا اور اپنی توفیق سے نمازعصر  ترک کرنے سے بچا۔ آمین



مکمل تحریر >>

Saturday, March 25, 2017

ثیبہ کے لئے ولی کی اجازت

ثیبہ کے لئے ولی کی اجازت


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال:ايك مطلقہ لڑکی ہے وہ ایسے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے لڑکی جب اپنے باپ سے اجازت مانگتی ہے تو اسکے باپ  کہتے ہیں تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا ۔باپ کا یہ جملہ تیری مرضی۔۔۔۔۔۔۔ الخ کیا اس کو اجازت تسلیم کر سکتے ہیں؟
اور والثيب احق بنفسها( ثيبہ عورت تو اپنے نفس کی مالک ہوتی باپ اجازت دے یا نہ دے) اس حدیث کے مطابق کیا وہ شادی کر سکتی ہے۔؟
سائل : قمرالزماں خان،یوپی ۔انڈیا

وعليكم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ:
باپ کا یہ کہنا کہ "تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا"یہ اجازت پہ نہیں بلکہ  باپ کی سخت ناراضگی پہ دلالت کرتا ہے لہذا لڑکی اپنے بات کی وجہ ناراضگی ختم کرے اور اس شادی کے لئے ان کی اجازت حاصل کرے ورنہ شادی نہیں کرےکیونکہ شادی زندگی بھر کا معاملہ ہے ،ہوسکتا ہے جس نظریہ سے معاملہ کو باپ دیکھ رہاہے شاید لڑکی اس سے انجان ہواس لئے بیٹھ کر معاملہ کو حل کرے ۔ اور یہ یاد رہے کہ  لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ دونوں کو ولی کی اجازت لینی ہوگی۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ" نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
جہاں تک سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پہلے وہ حدیث دیکھیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه(صحيح مسلم:1421)
ترجمہ:  ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔
اس حدیث میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ثیبہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرسکتی ہے بلکہ اس بات کا ذکر ہے کہ جہاں ولی کا حق ہے وہیں ثیبہ کا بھی حق ہے اور اپنے نفس کے لئے ثیبہ ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ولی جبرا کہیں بھی اپنی مرضی سے شادی کردے ثیبہ کی اجازت ضروری ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت سے ثیبہ کے لئے  بھی ولی ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
اس روایت سے جہاں اس بات کا علم ہوتا ہے ولی بغیر ثیبہ کی اجازت کے شادی نہیں کرسکتا ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ ثیبہ کی شادی کے لئے ولی بھی ہونا چاہئے ۔
خلاصہ یہ ہواکہ ثیبہ کے لئے بھی ولی چاہئے وہ بغیر ولی کے کسی سے اپنا نکاح نہیں کرسکتی ہے اور ہاں چونکہ وہ اپنے نفس کے لئے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اس وجہ سے اگر ولی نےکہیں اس کا نکاح طے کیا اور ثیبہ نے انکار کردیا تو ولی اس پر جبر نہیں کرسکتا لیکن اگر لڑکی نے کہیں شادی کا ارادہ کیا اور ولی نے منع کردیا تو اس پر قاضی اصرار کرسکتا ہے اگر اصرار سے مان جائے تو پھر ثیبہ کی شادی کردی جائے گی جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ابوداؤد کی مندرجہ ذیل حدیث بھی اسی معنی میں لی جائے گی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ ليسَ للوليِّ معَ الثَّيِّبِ أمرٌ واليتيمةُ تستأمرُ وصمتُها إقرارُها(صحيح أبي داود:2100)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔

واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

Wednesday, March 22, 2017

منشیات کے دنیاوی اور اخروی نقصانات

منشیات کے دنیاوی اور اخروی نقصانات
 (ایک سبق آموز تحریر)
مقبول احمد سلفی
داعی اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

مذاہب عالم میں فوقیت وبرتری کا حامل دین صرف اسلام ہے جس میں شعبہائے حیات کے تمام ترپہلوؤں کو واشگاف کیا گیا ہے اور انسان کے لئے مہلک ترین عناصر کی طرف واضح اشارات کردئے گئے ہیں جو ایک عام ذہن کے لئے بھی قابل قبول ہیں۔
انسانی زندگی کو متاثر اور بدترین نتیجہ خیز دہانے تک پہنچانے والے عناصر میں منشیات کا غیرمعمولی دخل ہے ۔یہ بنی  نوع آدم کے لئے سراپا سوہان روح ہے ۔ اس کے تلخ تجربات ومشاہدات کا دنیا کو اچھی طرح سے اندازہ ہوچکا ہے ۔ اس نے کتنے انسانوں کی خوشگوار شام پر آہ وزاری کی برسات کردی ، کتنے آباد گھروں میں ویرانی کا سماں پیدا کردیا، کتنے مہکتے پھولوں کومرجھاکرگلستاں کی شادابی ودلکشی پر اپنی سیاہ نشانیاں چھوڑ دی ۔ مذہب اسلام  نے حفظان صحت پر بہت دھیان دلایا ہےجن کی وجہ سے جن اشیاء کے استعمال سے جسم وصحت پر برا اثر پڑتا ہے یا کسی طرح سے بھی جسمانی نقصان کا باعث ہے وہ ممنوع وناجائزہے ۔ چونکہ منشیات انسانی جسم وروح کے لئے بگاڑ وفساد کا سبب بنتا ہے بلکہ بسااوقات آدمی کی جان بھی چلی جاتی ہے اس بناپر منشیات کا استعمال شریعت کی رو سے حرام ہے خواہ وہ نشہ کسی قسم کا ہو۔ نبی ﷺ کا صاف صاف اعلان ہے :
 كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ مُسكِرٍ حَرامٌ(صحيح مسلم:2003)
ترجمہ: ہرنشہ آورچیز خمرہےاور ہرنشہ والی چیز حرام ہے ۔
منشیات  کے استعمال سے دنیا میں بھی بہت سارے گھاٹے اور نقصانات  اٹھانے پڑتے ہیں اور دینی اعتبار سے اس کا جو برا انجام ہے وہ اپنی جگہ پر۔دنیاوی خسارے اور نقصانات کا اندازہ اس امر سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے سیکڑوں امراض پیدا ہوتے ہیں جو انسانیت کے لئے سم قاتل ہیں ۔ شراب، تمباکو،بیڑی، سگریٹ،گٹکھا،گانجہ،چرس وغیرہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں حلق کی خرابی،جگرکی خرابی،امراض قلب،اسقاط حمل، قلت عمر،زخم معدہ،خون فاسد،تنفس کی خرابی،ہچکی،کھانسی،پھپھڑوں کی سوجن،کینسر،سردرد، بے خوابی،دیوانگی، ضعف اعصاب،فالج،مراق،ہارٹ اٹیک،ضعف بصارت،دمہ، ٹی وی،سل، خفقان،ضعف باہ،بواسیر،دائمی قبض،گردے کی خرابی،ذیابطیش وغیرہ اہم بیماریاں ہیں ۔ ان میں بعض ایسی بیماریاں ہیں جن کا انجام سرعت موت ہے ۔ اطباء کے قول کی روشنی میں تمباکو میں تین خطرناک قسم کے زہریلے اجزاء کی ملاوٹ ہوتی ہے ۔ ان اجزاء میں ایک روغنی اجزاء سے بناہوا نیکوٹین ہے ۔اگر اس روغن کو نکال کراس کا صرف ایک قطرہ کتے ،بلی یا کسی بھی جانور کو کھلایا جائے تو فورا وہ موت کے منہ میں چلا جائے گا۔
نشہ خوری اس قدر مرض مہلک ہے کہ نشہ خور عالم نشہ میں کوئی بھی حد پار سکتا ہے ۔ تصور کریں آپ کی نظر میں دنیا میں سب سے برا کام کیا ہوسکتا ہے ؟۔شاید آپ میری اس بات سے متفق ہوں گے کہ اپنی ماں بہن کے ساتھ زنا کرنا دنیا میں سب سے بدترین گناہ اور لوگوں کی نظر میں سب سے رذیل حرکت ہے ۔ نشے کا عادی ورسیا اس حد کو بھی پارکرجاتا ہے ۔ نشہ خوروں کے گھر میں عورتیں سہمی سہمی سی رہتی ہیں ، کہے تو کس سے ، سنائے تو کس کو؟ پھر بھی جو حالات وواقعات اخبارات وجرائد کی سرخیاں بنتے ہیں وہ ہماری نظروں کے سامنے ہیں ۔ میرے ہاتھ میں ایک چھوٹا عربی پمفلیٹ ہے ۔ اس میں نشہ خوروں کے بہت سے واقعات درج ہیں ان میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک نوجوان لڑکی گھر سے بھاگ کر مسجد کے امام صاحب کے پاس آتی ہے ۔ امام صاحب نے پوچھا کیا ہوا ؟تو لڑکی کہتی ہے کہ میرا باپ نشے کا عادی ہے اور مسلسل انیس دن سے مجھ سے بدفعلی کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ آج زیادہ خطرہ محسوس کررہی تھی تو بھاگ کر آپ کے پاس چلی آئی تاکہ  آپ میری کچھ مدد فرمائیں ۔
نشہ خوروں کے ایسے واقعات پڑھ کر آنکھوں سے خون کے ٹپکتے ہیں ۔ اے شرابیو!خدارا اپنے گھرکو، اپنے تن کو اور اپنی عاقبت کو اس طرح برباد نہ کرو۔
نشہ کا استعمال دینی اعتبار سے بہت سے خسارے کا باعث ہے ۔ اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ(البقرة: 219)
ترجمہ: لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے ۔
یہ بڑے گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہرگناہ وشر کی چابھی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
اجتنِبوا الخمرَ ؛ فإنَّها مِفتاحُ كلِّ شرٍّ(صحيح الترغيب:2368)
ترجمہ: شراب نہ پی کیونکہ یہ ہر برائی کی چابی ہے۔
اس لئے اس کو ام الخبائث یعنی خبیث گناہوں کی جڑ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے  کیونکہ اس سے ہزاروں گناہوں کے دروازے کھلتے ہیں ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک سبق آموز واقعہ ذکر کرتے ہیں اس سے عبرت ونصیحت حاصل کریں اور شراب ونشہ کی خباثت سے توبہ کریں ۔
عن عثمانَ بنِ عفانَ قال : اجتنِبوا الخمرَ فإنها أمُّ الخبائثَ ، إنه كان رجلٌ ممن خلا قبلَكم تعبَّدَ ، فعلِقَتهُ امرأةٌ غوِيَّةٌ ، فأرسلتْ إليه جاريتَها ، فقالتْ له : إنَّا ندعوكَ للشهادةِ ، فانطلق مع جاريتِها ، فطفِقَت كلما دخل بابًا أغلقتْهُ دونَهُ ، حتَّى أفضَى إلى امرأةٍ وضيئةٍ ، عندها غلامٌ وباطيةُ خمرٍ ، فقالت : إني والله ما دعوتُكَ للشَّهادةِ ، ولكنْ دعوتُك لتقَعَ عليَّ ، أو تشربَ من هذه الخمرةِ كأسًا ، أو تقتلَ هذا الغلامَ ، قال : فاسقيني من هذا الخمرِ كأسًا ، فسقَتْهُ كأسًا ، قال : زيدوني ، فلم يرِمْ حتَّى وقع عليها ، وقتلَ النفسَ ، فاجتنِبوا الخمرَ ، فإنها واللهِ لا يجتمعُ الإيمانُ وإدمانُ الخمرِ ، إلَّا لَيوشكُ أنْ يُخرجَ أحدُهما صاحبَهُ !(صحيح النسائي:5682)
ترجمہ: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :شراب سے بچو کیونکہ یہ خباثتوں کی جڑ ہے، پہلے زمانہ میں ایک عابد انسان تھا۔ اسے ایک عورت نے اپنے دام فریب میں گرفتار کرنا چاہا اور ایک لونڈی کو اس شخص کے پاس اس بہانے سے بھیجا کہ میں تجھے گواہی کے لیے بلا رہی ہوں، تو وہ شخص اس لونڈی کے ساتھ چلا آیا۔ جب وہ شخص اندر جاتا تو وہ لونڈی مکان کے ہر دروازے کو بند کردیتی حتیٰ کہ وہ ایک عورت کے پاس پہنچا جو نہایت حسین وجمیل تھی اور اس عورت کے پاس ایک لڑکا اور شراب کا ایک برتن تھا۔ اس عورت نے کہا: خدا کی قسم! میں نے آپ کو گواہی کے لیے نہیں بلایا بلکہ اس لیے بلایا ہے تاکہ تو مجھ سے صحبت کرلے یا اس شراب میں سے ایک گلاس پیے یا اس لڑکے کو قتل کر ڈالے۔ وہ شخص بولا: مجھے اس شراب کا ایک گلاس پلا دو۔ اس عورت نے ایک گلاس اسے پلا دیا۔ جب اسے لطف آیا تو وہ بولا: اور دو، اور پھر وہاں سے نہ ہٹا جب تک کہ اس عورت سے صحبت نہ کرلی اور اس لڑکے کا ناحق خون نہ کرلیا۔ تو تم شراب سے بچو کیونکہ اللہ کی قسم شراب اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے حتیٰ کہ ایک دوسرے کو نکال دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ  ایسےخبیث آدمی کو جہنم میں زانی عورتوں کی شرمگاہ سے جاری ہونے والی نہر سے سیراب کیا جائے گا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : مَن مات مُدمِنًا للخمرِ سقاه اللهُ جلَّ وعلا مِن نهرِ الغُوطةِ قيل: وما نهرُ الغُوطةِ ؟ قال: نهرٌ يجري مِن فُروجِ المومِساتِ يُؤذي أهلَ النَّارِ ريحُ فُروجِهنَّ ۔(أخرجه ابن حبان :1380 و1381 والحاكم :4/146 وأحمد :4/399)
ترجمہ: ہمیشہ شراب پینے والاجو مرا اللہ تعالیٰ اس کو نہر غوطہ پلائے گا۔ پوچھا گیا کہ نہر غوطہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: زانیہ عورتوں کی شرمگاہوں سے جاری ہوئی نہر ہے ان کی بدبو سے دوزخیوں کو تکلیف دی جائے گی۔
اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح الاسناد کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ہیثمی نے اس کے رجال کو صحیح کہا ہے اور منذری نے صحیح یا حسن یا ان کے قریب بتلایا ہے ۔
اللہ کی پناہ ، جنہیں زانیہ عورت کی شرمگاہ سے جاری شدہ نہر سے سیراب ہونا ہے وہ شراب پئے ورنہ اس سےفورا توبہ کرلے ، پتہ نہیں موت کب اور کس عالم میں آئے؟۔ اللہ بہت معاف کرنے والا ہے ۔
شرابی کی یہ درگت اس وجہ سے ہے کہ اس نے ام الخبائث کا ارتکاب کیا جو شیطانی عمل ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدة:90)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں۔اان سے بالکل الگ رہوتاکہ تم فلاح یاب ہو۔
اس شیطانی عمل پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت ہے ,انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لعنَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في الخمرةِ عشرةً عاصرَها ومعتصرَها وشاربَها وحاملَها والمحمولةَ إليهِ وساقيَها وبائعَها وآكلَ ثمنِها والمشتري لَها ، والمشتراةَ لَهُ(صحيح الترمذي: 1295)
ترجمہ: شراب کی وجہ سےدس آدمیوں پر لعنت بھیجی: اس کے نچوڑوانے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے لے جانے والے پر، اس کے منگوانے والے پر، اور جس کے لیے لے جائی جائے اس پر، اس کے پلانے والے پر، اور اس کے بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، اس کو خریدنے والے پر اور جس کے لیے خریدی گئی ہو اس پر۔
ذرا غور کریں ، شراب کی لعنت کس قدر بری ہے کہ نہ صرف پینے والے ملعون ہیں بلکہ ان سے جڑے مزید نو آدمی ملعون ہیں ۔
شراب پینے سے ایمان نکل جاتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا يزني الزَّاني حينَ يزني وهوَ مؤمِنٌ ولا يسرقُ السَّارقُ حينَ يسرقُ وهوَ مؤمنٌ ولا يشرَبُ الخمرَ حين يشربُها وهوَ مؤمنٌ (صحيح مسلم:57)
ترجمہ: زانی جب زنا کررہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اورچوری کے وقت چورمومن نہیں رہتا اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ بھی اس وقت مومن نہیں ہوتا ۔
شراب پینے سے چالیس دن عبادت قبول نہیں ہوتی ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الخَمرُ أُمُّ الخبائِثِ ، فَمن شَرِبَها لم تُقبلْ صلاتُه أربعينَ يومًا ، فإنْ ماتَ و هي في بَطنِه ماتَ مِيتةً جاهِليةٍ(صحيح الجامع:3344)
ترجمہ: شراب ام الخبائث ہے جو اسے پیتا ہے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی اور اگر وہ اس حال میں مرا کہ اس کے پیٹ میں شراب تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
شراب پینے سے کوڑے کی حد واجب ہوجاتی اور اگر چوتھی بار شراب پی لے تو قتل کا مستحق ہوجاتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من شربَ الخمرَ فاجلِدوهُ فإن عادَ في الرَّابعةِ فاقتُلوهُ(صحيح الترمذي:1444)
ترجمہ : جس نے شراب پیا تو اس کو کوڑے لگاؤ اور جس نے چوتھی بار شراب پیا اسے قتل کردو۔
یہی فرمان نبوی نسائی میں اس طرح ہے۔
مَن شربَ الخمرَ فاجلِدوهُ ، ثمَّ إن شربَ فاجلِدوهُ ، ثمَّ إن شرِبَ فاجلِدوهُ ، ثمَّ إن شرِبَ فاقتُلوهُ(صحيح النسائي:5677)
ترجمہ: جس نے شراب پی تو اسے کوڑے لگاؤ، اگر پھر پیئے تو کوڑے لگاؤ، اگر پھر پیئے تو کوڑے لگاؤ، اگر پھر پیئے تو اسے قتل کر ڈالو۔
دنیا میں شراب پینے والا آخرت کی شراب سے محروم ہوگا، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن شرِبَ الخمرَ في الدُّنيا ، ثمَّ لم يتُبْ منها ، حُرِمَها في الآخِرَةِ(صحيح البخاري:5575)
ترجمہ: جس نے دنیا میں شراب پی اور پھر اس نے توبہ نہیں کی تو آخرت میں وہ اس سے محروم رہے گا۔
ہمیشہ شراب پینے والا جہنم رسید کیا جائے گا، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ثلاثةٌ لا يَدخلُونَ الجنةَ أبدًا : الدَّيُّوثُ ، و الرَّجِلَةُ من النِّساءِ ، و مُدمِنُ الخمْرِ(صحيح الجامع:3062)
ترجمہ: تین شخص کبھی جنت میں داخل نہ ہونگے، ایک دیوث ـبے غیرت مرد)دوسرا مردانی شکل بنانے والی عورت اور تیسرا ہمیشہ شراب پینے والا۔
ان کے علاوہ بے شمار نقصانات ہیں جنہیں خوف طوالت کی وجہ سے ذکرنہیں کیا جارہاہے تاہم ایک مسلمان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور اسے نیکی پر ابھانے کے لئے اتنی باتیں ہی کافی ہیں ۔ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں نشہ آور چیزوں سے بچا ، ایسے لوگوں سے دور رکھ جو کسی بھی طور پر منشیات پر مدد کرتے ہیں اور ہمیں آخرت میں جنت نصیب فرماکر وہاں کی شراب سے سیراب کر۔ آمین
مکمل تحریر >>