Tuesday, February 28, 2017

انسانوں سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگنا

انسانوں سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگنا
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

لوگوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ سوال کرتے وقت اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں جیساکہ سائل کسی سے کہے اللہ کے نام پہ کچھ دیدو یا کوئی آدمی کہے کہ اللہ کے واسطے میرا یہ کام کردو یا مجھے فلاں چیز دیدو۔
اس قسم کے واسطہ سے متعلق دو قسم کی روایات موجود ہیں ۔ ایک قسم کی روایت میں اللہ کا نام وواسطہ دے کر مانگنے سے منع کیا گیا ہے تو دوسری قسم کی روایت میں اللہ کا نام لیکر مانگنے والے کو دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔

اللہ کے واسطے سے مانگنے کی دلیل :
پہلی دلیل : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
مَنِ استعاذَ باللَّهِ فأعيذوهُ ومن سألَ باللَّهِ فأعطوهُ ومَن دَعاكم فأجيبوهُ ومن صنعَ إليكُم معروفًا فَكافئوهُ فإن لم تجِدوا ما تُكافئونَه فادعوا لَه حتَّى تَروا أنَّكُم قد كافأتُموهُ(صحيح أبي داود:1672)
ترجمہ: جو شخص تم سے اللہ تعالی کے واسطے سے پناہ مانگے اسے پناہ دو ، اور جو کوئی اللہ تعالی کےنام سے سوال کرے اس کو دو ، اور جو تمہیں دعوت دے اس کی دعوت  قبول کرو ، اور جو تمہارے ساتھ کوئی احسان کرے اس کا بدلہ دو ، اور اگر کوئی ایسی چیز نہ ملے جس سے بدلہ دو تو اس کے لئے دعا کرتے رہو ، یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ اس کے احسان کا بدلہ پورا دے دیا  ۔
دوسری دلیل : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ألا أخبرُكُم بِخَيرِ النَّاسِ؟ رجلٌ مُمسِكٌ بعَنانِ فرسِهِ في سبيلِ اللَّهِ. ألا أخبرُكُم بالَّذي يَتلوهُ؟ رجلٌ معتزِلٌ في غُنَيْمةٍ يؤدِّي حقَّ اللَّهِ فيها. ألا أخبرُكُم بِشرِّ النَّاسِ؟ رجلٌ يُسأَلُ باللَّهِ ولا يُعطي بِهِ(صحيح الترمذي:1652)
ترجمہ: کیا میں تم لوگوں کو سب سے بہتر آدمی کے بارے میں نہ بتا دوں؟ یہ وہ آدمی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے رہے، کیا میں تم لوگوں کو اس آدمی کے بارے میں نہ بتا دوں جو مرتبہ میں اس کے بعد ہے؟ یہ وہ آدمی ہے جو لوگوں سے الگ ہو کر اپنی بکریوں کے درمیان رہ کر اللہ کا حق ادا کرتا رہے، کیا میں تم کو بدترین آدمی کے بارے میں نہ بتا دوں؟ یہ وہ آدمی ہے جس سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جائے اور وہ نہ دے۔

اللہ کے واسطے سے نہ مانگنے کی دلیل :
ابوموسی عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ملعونٌ من سأل بوجهِ اللهِ ، و ملعونٌ من يسألُ بوجهِ اللهِ ثم منع سائلَه مالم يسألُه هجرًا(السلسلة الصحيحة:2290)
ترجمہ: ملعون ہے وہ شخص جو اللہ کے واسطے سے سوال کرے اور ملعون ہے وہ جس سے اللہ کے واسطے سے کیا جائے اور وہ نہ دے جب تک کہ اس سے قبیح چیز کے بارے میں سوال نہ کیا جائے ۔

دونوں  قسم کی روایات سے مستنبط مسائل
٭ان دونوں قسم کی روایات کو جمع کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کسی کو کسی سے کچھ مانگنا ہو تو اللہ کا واسطہ دے کر نہ مانگے کیونکہ اگر اللہ کے واسطے سے سوال کرتا ہے اور جس سے مانگا جارہاہے اس نے انکار کردیا تو اس میں اللہ کے اسماء کی توہین ہے ۔ خاص طور سے اس آدمی سے تو مزید پرہیز کرنا چاہئے جس کے یہاں اللہ تعالی کے  اسمائے حسنی کی قدرو منزلت نہیں یا جو انکار کرنے والا ہو۔  
٭ اگر کوئی اللہ کا واسطہ دے کر جائز چیز طلب کرے تو اگلے آدمی کو اس کی طلب پوری کرنی چاہئے تاکہ اللہ کے نام کی اہانت نہ ہو۔
٭ اللہ کے نام سے طلب کرنے والا اپنا حق طلب کررہاہے تو یہ اس کا حق ہے اگلے کو چاہئے کہ اس کی مانگ پوری کرے مثلا قرض دینے والا کہے اللہ کے واسطے میرا  دیا ہواپیسہ واپس کردو،فقیر کہے اللہ کے واسطے مجھے صدقہ وخیرات دو،مظلوم کہے اللہ کے واسطے  مجھے دشمن سے بچاؤ،ضرورتمند کہے اللہ کے واسطے فلاں کام میں  میری مدد کرو۔
٭اللہ کے واسطے سے معصیت کی چیز طلب نہ کرے اور کسی سے طلب کی جائے تو اس کی مانگ پوری نہ کرے ۔
٭  ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کے واسطے سے صرف جنت کا سوال کرو، وہ ضعیف ہے ۔ لا يُسألُ بوجهِ اللهِ إلا الجنةُ.(ضعيف أبي داود:1671) (ترجمہ: اللہ سے صرف جنت کا سوال کیا جائے گا۔ )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کا واسطہ دے کر مانگنے میں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ مراد پوری نہ ہونے پر اللہ کے نام کی بے ادبی ہوتی ہے ، اگر کسی نے آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرلیا اس حال میں کہ  اس کا سوال جائز ہواور دینے والا اس پر قادر بھی ہوتوسائل کو مایوس نہیں کرنا چاہئے ۔
مکمل تحریر >>

Monday, February 27, 2017

قبر میں ماں اور بچہ زندہ ہونےسے متعلق منکر روایت

قبر میں ماں اور بچہ زندہ ہونےسے متعلق  منکر روایت

مقبول احمد سلفی

حضرت سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میرے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگو ں کے درمیان جلوہ فرماتھےکہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے اپنے بچے کو کندھوں پر بٹھا رکھا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا : ''جتنی مشابہت ان دونوں میں پائی جارہی ہے میں نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں نہیں دیکھی۔''یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے اس بچے کا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے، اس کی ماں کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' پوراواقعہ بیان کرو۔'' وہ شخص عرض کرنے لگا:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی،میں نے جاتےوقت دعا کی :''اے اللہ عزوجل! میری زوجہ کے پیٹ میں جو حمل ہے میں اُسے تیرے حوالے کرتاہوں، تُوہی اس کی حفاظت فرمانا۔ ''یہ دعا کر کے میں جہاد کے لئے روانہ ہوگیا جب میں واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے ،مجھے بہت افسوس ہوا ۔ایک رات میں نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا :''مجھے میری بیوی کی قبر پر لے چلو۔'' چنا نچہ ہم جنت البقیع میں پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی۔جب ہم وہاں پہنچے تودیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں باہر آرہی ہیں۔میں نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا :'' یہ رو شنی کیسی ہے؟'' اس نے جواب دیا: ''اس قبر سے ہر رات اسی طر ح روشنی ظاہر ہوتی ہے ،نہ جانے اس میں کیا راز ہے؟'' جب میں نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو ں گا ۔'' چنانچہ میں نے پھاؤڑا منگوایا ابھی قبر کھود نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں نے اس میں جھانکا تو اللہ عزوجل کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں کی گو د میں بیٹھا کھیل رہا تھا جب میں قبر میں اُتر ا تو کسی ندادینے والے نے ندادی :'' تُو نے جو امانت اللہ عزوجل کے پا س رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے ، جا! اپنے بچے کو لے جا، اگر تُواس کی ماں کو بھی اللہ عزوجل کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی صحیح وسلامت پاتا ۔''پس میں نے اپنے بچے کو اٹھا یا اور قبر سے باہر نکالا جیسے ہی میں قبر سے باہر نکلا قبر پہلے کی طر ح دوبارہ بند ہوگئی۔)
 (عُیُوْنُ الْحِکَایَات )حصہ اوّل ( مؤلف امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی المتوفیٰ ۵۹۷ ھ)
تبصرہ بر واقعہ :
یہ واقعہ لوگوں میں کافی پھیلایا گیا ہے ، اسے وہ لوگ پھیلارہے ہیں جوکتاب وسنت کی اصل تعلیم سے بے بہرہ ہیں ، بطور خاص دین میں غلو کرنے والے صوفی لوگ جن کا  مذہب  صوفیت اور کشف وکرامات  پرہی مبنی ہے ۔ اس واقعہ کو امام طبرانی نے اپنی کتاب الدعاء میں ذکر کیا ہے ۔ یہاں سند ومتن کے ساتھ پیش ہے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْمُؤَدِّبُ ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْعَطَّارُ ، ثنا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : بَيْنَمَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَعْرِضُ النَّاسَ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مَعَهُ ابْنُهُ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : " مَا رَأَيْتُ غُرَابًا بِغُرَابٍ أَشْبَهَ بِهَذَا مِنْكَ ، قَالَ : أَمَا وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، مَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ إِلا مَيِّتَةً ، فَاسْتَوَى لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقَالَ : وَيْحَكَ حَدِّثْنِي ، قَالَ : خَرَجْتُ فِي غَزَاةٍ ، وَأُمُّهُ حَامِلٌ بِهِ ، فَقَالَتْ : تَخْرُجُ وَتَدَعُنِي عَلَى هَذِهِ الْحَالَةِ حَامِلا مُثْقَلا ، فَقُلْتُ : أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ مَا فِي بَطْنِكِ ، قَالَ : فَغِبْتُ ، ثُمَّ قَدِمْتُ ، فَإِذَا بابي مُغْلَقٌ ، فَقُلْتُ : فُلانَةُ ، فَقَالُوا : مَاتَتْ ، فَذَهَبْتُ إِلَى قَبْرِهَا فَبَكَيْتُ عِنْدَهُ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ اللَّيْلِ قَعَدْتُ مَعَ بَنِي عَمِّي أَتَحَدَّثُ ، وَلَيْسَ يَسْتُرُنَا مِنَ الْبَقِيعِ شَيْءٌ ، فَارْتَفَعَتْ لِي نَارٌ بَيْنَ الْقُبُورِ ، فَقُلْتُ لِبَنِي عَمِّي : مَا هَذِهِ النَّارُ ؟ فَتَفَرَّقُوا عَنِّي ، فَأَتَيْتُ أَقْرَبَهُمْ مِنِّي ، فَسَأَلْتُهُ ، فَقَالَ : نَرَى عَلَى قَبْرِ فُلانَةَ كُلَّ لَيْلَةٍ نَارًا ، فَقُلْتُ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَصَوَّامَةً قَوَّامَةً عَفِيفَةً مُسْلِمَةً ، انْطَلِقْ بِنَا ، فَأَخَذْتُ الْفَأْسَ ، فَإِذَا الْقَبْرُ مُنْفَرِجٌ ، وَهِيَ جَالِسَةٌ ، وَهَذَا يَدِبُّ حَوْلَهَا ، وَنَادَى مُنَادٍ : أَلا أَيُّهَا الْمُسْتَوْدِعُ رَبَّهُ وَدِيعَتَهُ خُذْ وَدِيعَتَكَ ، أَمَا وَاللَّهِ لَوِ اسْتَوْدَعْتَ أُمَّهُ لَوَجَدْتَهَا ، فَأَخَذْتُهُ وَعَادَ الْقَبْرُ كَمَا كَانَ فَهُوَ وَاللَّهِ هَذَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ " .( الدعاء للطبراني, حديث رقم : 756(
دکتور محمد سعید بن محمد حسن البخاری نے کتاب الدعاء کے احادیث کی تخریج کی ہے ، اس میں انہوں نے بتلایا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں عبید بن اسحاق العطار ضعیف ہے ۔ (کتاب الدعاء : تحقیق و تدقیق دکتور محمد سعید بن محمد حسن البخاری ص : 1183)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے غریب موقوف کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کے رواۃ سارے ثقہ ہیں سوائے عبید بن اسحاق کے ۔(الفتوحات الربانیہ 5/114)

تو اس روایت کے ایک راوی عبید بن اسحاق العطار کے ضعیف ہونے کی وجہ سے یہ روایت ناقابل استدلال ہے ۔ اس راوی کو ابن حجر رحمہ اللہ ، دار قطنی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ اور یحی بن معین رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔ بعض محدثین نے کذاب ، بعض نے منکر روایت کرنے والا اور بعض نے باطل روایت کرنے والا کہا ہے ۔ 
مکمل تحریر >>

Sunday, February 26, 2017

حدیث : اللہ کى ناپسند حلال چیز طلاق

حدیث : اللہ کى ناپسند حلال چیز طلا ق

مقبول احمد سلفی

اس حدیث کے متعلق یہی مشہور ہے کہ یہ مرسل روايت ہے مگر ابودوؤد نے پہلی روایت مرسل اور دوسری روایت موصولا ذکر کیا ہے ۔ دونوں روایت مع سند دیکھیں :
(1) حدثنا أحمد بن يونس حدثنا معرف عن محارب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحل الله شيئا أبغض إليه من الطلاق۔ (ابوداؤد: 2177)
ترجمہ : محارب سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالی کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔
(2) حدثنا كثير بن عبيد حدثنا محمد بن خالد عن معرف بن واصل عن محارب بن دثار عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق ۔ (ابوداؤد: 2178)
ترجمہ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں یہ روایت مرسلا وارد ہے وہیں متصلا بھی مذکور ہے۔
روایت کا حکم : اس روایت کے حکم کے سلسلے میں کافی اختلاف ہے۔ اکثر نے ضعف کا حکم لگایا ہے مگر بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ درجہ صحت سے گرجاتی ہے مگر درجہ حسن سے نہیں کیونکہ اس کا شاہد ہے ۔
ابن الجوزی نے العلل میں راوی عبيد الله بن الوليد الوصافي کو معلول قرار دیا ہے ، وہ ابوداؤد کی پہلی حدیث ہے اور دوسری حدیث 2178 والی میں یہ راوی موجود نہیں ہے ۔ اس صورت میں مرسل روایت اس کی مؤید بن جائے گی ۔
شیخ ابن بازؒ نے عبداللہ بن عمر والی روایت " أبغضُ الحلالِ إلى اللهِ الطلاقُ" کے متعلق لکھا ہے کہ یہ مرسل روایت کی گئی ہے مگر راحج یہ ہے کہ متصل ہے اور اس کی سند جید و قوی ہے ۔ دیکھیں : (حاشية بلوغ المرام لابن باز: 612)
حدیث کا معنی : بعض اہل علم نے اس حدیث پہ معنی کی وجہ سے کلام کیا ہے کہ ایک وقت میں کوئی چیز حلال بھی ہو اور ناپسندیدہ بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟
حقیقت میں اس کا معنی بالکل درست ہے اور اس میں کوئی نکارت نہیں ہے۔
یعنی اللہ تعالی کی بندوں پہ مہربانی ہے کہ طلاق کو ناپسند کیا ہے بغیر کسی سبب کے دینے سے مگر طلاق دینا شرعی عذر کی بنا پہ جائز ٹھہرایا ہے ۔
خطابی نے کہا کہ کراہت نفس طلاق سے نہیں ہے بلکہ ان اسباب سے ہے جو طلاق میں واقع ہونے کی طرف لے جاتے ہیں ۔ وہ ہیں سوء معاشرت اور غیرہمہ ہنگی جو طلاق کا سبب بنتی ہیں ۔
اس حدیث کا معنی بھی درست ہے اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے ۔
خيرُ البقاعِ المساجدُ ، و شرُّ البقاعِ الأسواقُ (صحيح الجامع للالباني : 3271)
ترجمہ : سب سے بہترین جگہ مسجد ہے اور بدترین جگہ بازار ہے۔
بازار جانا منع نہیں ہے پھر بھی اللہ تعالی کے نزدیک بدترین جگہ ہے ۔
میں نصیحت کرتا ہوں کہ میاں بو ی کو شادی کے بعد اچھی زندگی بسرکرنا چاہئے اور ان تمام اسباب سے بچنا چاہئے جو طلاق کی طرف لے جاتے ہیں ۔


مکمل تحریر >>

نبی ﷺ کے فضائل سے متعلق چند باتوں کی تحقیق

نبی ﷺ کے فضائل سے متعلق چند باتوں کی تحقیق

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

نبی ﷺ کی شان سب سے نرالی ہے ، قرآن وحدیث کے متعدد نصوص سے آپ ﷺ کے بے شمار فضائل اور لاجواب وبے مثال شان وشوکت کا اندازہ لگتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں ایسے پہلے آدمی ہیں جنہیں  اللہ تعالی یہ بلندمقام ومرتبہ دیا۔ آپ کی رفعت شان کے باوجود آپ ایک بشر ہیں ۔ ایک بشر ہونے کے ناطے آپ میں ویسے ہی بشری اوصاف تھے جو ایک انسان میں پائے جاتے ہیں ۔ ہاں آپ بعض بشری اوصاف میں انسانوں سے ممتاز ہیں جوصحیح دلیل سے ثابت ہیں۔ مثلا آپ کا پسینہ بیحد خوشبودار تھا۔
آپ ﷺ کی شان میں غلو کرنے والوں نے وہ باتیں بھی آپ کی طرف منسوب کردی جو بشری اوصاف سے اوپر ہیں اور جن کی کوئی  صحیح دلیل وارد نہیں ہے ۔ اس قسم کی باتوں کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
لا تُطْروني ، كما أطْرَتِ النصارى ابنَ مريمَ ، فإنما أنا عبدُه ، فقولوا : عبدُ اللهِ ورسولُه(صحيح البخاري:3445)
ترجمہ: مجھے میرے مرتبے سےزیادہ  نہ بڑھا ؤ جس طرح نصاری نے عیسی کے مرتبے کو بڑھادیا۔میں تو صرف اللہ کابندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق )کہ میں اللہ کابندہ اوراس کارسول ہوں۔
سطور ذیل میں چند باتوں کی تحقیق پیش کی جاتی ہے جو نبی ﷺ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ۔
پہلی بات : نبی ﷺ کو کبھی اونگھ نہیں آتی تھی ۔
جواب :  نیند انسان کی ضرورت اور ان کا خاصہ ہے ، اس لئے نبی ﷺ بھی سوتے اور جاگتے بلکہ آپ ﷺ نے  ہمارےلئے سونے  اور جاگنے کا بہترین اسوہ پیش کیا ہے جس میں  جلدی سونے ، سوتے وقت اذکار پڑھنے،دائیں کروٹ سونے ، جلدی بیدار ہونے ،بیدارہوتے وقت دعا پڑھنے کے آداب سکھلائے ہیں ۔ بخاری شریف کی مشہور حدیث ہے جس میں تین قسم کے افراد میں سے ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھتا رہوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھتا رہوں گا، تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا ،شادی نہیں کروں گا۔ جب یہ باتیں نبی ﷺ کو معلوم ہوئیں تو آپ نے فرمایا:
أما واللهِ إني لأخشاكم للهِ وأتقاكم له ، لكني أصومُ وأُفطِرُ ، وأُصلِّي وأرقُدُ ، وأتزوَّجُ النساءَ ، فمَن رغِب عن سُنَّتي فليس مني(صحيح البخاري:5063)
ترجمہ: سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
اونگھ بھی نیند کے قبیل سے ہے ، لہذا نبی ﷺ انسان کی طرح ہی سوتے تھے اور آپ کو اونگھ بھی آتی تھی ۔ حدیث میں اونگھ کی بھی صراحت موجود ہے۔ایک بار آپ نے فجر کی نماز کے بعد صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:
أما إنِّي سأحدِّثُكُم ما حبسَني عنكمُ الغداةَ: أنِّي قمتُ منَ اللَّيلِ فتوضَّأتُ فصلَّيتُ ما قُدِّرَ لي فنعَستُ في صلاتي فاستثقلتُ، فإذا أَنا بربِّي تبارَكَ وتعالى في أحسَنِ صورةٍ،(صحيح الترمذي:3235)
ترجمہ: میں آپ لوگوں کو بتاؤں گا کہ فجرمیں بروقت مجھے تم لوگوں کے پاس مسجد میں پہنچنے سے کس چیز نے روک لیا، میں رات میں اٹھا، وضوکیا، (تہجد کی) نماز پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں نماز میں اونگھنے لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آگئی، اچانک کیا دیکھتاہوں کہ میں اپنے بزرگ وبرتر رب کے ساتھ ہوں و ہ بہتر صورت وشکل میں ہے۔
اللہ کی ذات ہی تن تنہا ایسی ہے جسے  کبھی اونگھ نہیں آتی ۔ فرمان رب العالمین ہے :
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ(آية الكرسى)
ترجمہ: اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اورسب کاتھامنے والا ہے ، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند۔
دوسری بات : آپ کے جسم پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی ۔
مکھی انسانی سماج کا حصہ ہے ۔ جہاں انسان رہتے سہتے ہیں وہاں مکھیاں بھی عام طور سے پائی جاتی ہیں ۔خاص طور سے کھاتے پیتے وقت مکھیاں آجایا کرتی ہیں ۔ اس لئے نبی ﷺ نے مکھی سے متعلق ارشاد فرمایاہے :
إذا وقَع الذُّبابُ في شَرابِ أحدِكم فلْيَغمِسْه ثم لْيَنزِعْه ، فإنَّ في إحدى جَناحَيه داءً والأخرى شِفاءً .( صحيح البخاري:3320)
جب مکھی کسی کے پینے ( یا کھانے کی چیز ) میں پڑجائے تو اسے ڈبودے اور پھر نکال کر پھینک دے  کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور اس کے دوسرے ( پر ) میں شفا ہوتی ہے ۔
مکھی کبھی جسم پر، کبھی دیوار پر تو کبھی کھانے پر بیٹھ جایا کرتی ہے ، کوئی بعید نہیں کہ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر بھی بیٹھ  جاتی ہو کیونکہ آپ بھی بشر تھے ، آپ بھی کھاتے پیتے تھے اور انسانی سماج میں رہتے تھے ۔ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر مکھی نہ بیٹھنے کی کوئی صحیح  دلیل نہیں۔اگر آپ ﷺ کے لئے مکھی سے متعلق کوئی خصوصیت تھی تو ضرور آپ ہمیں اس سے متعلق رہنمائی فرماتے یا آپ کے پیارے اصحاب جو آپ سے سدا  چمٹے رہتے اور آپ کے ادنی واعلی اوصاف بیان کرتے تھے وہ ضرور ہمیں اس سلسلے میں آگاہ کرتے مگر ایسی کوئی بات نہ نبی ﷺ سے اور نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ہے البتہ اس سلسلے میں علماء کے بعض اقوال  ملتے ہیں مگر کسی صحیح نص سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے یہ اقوال تسلیم نہیں کئے جائیں گے۔  
اقوال کے علاوہ ایک  وجہ غلوکرنے والے کی طرف سے ہے جو نبی ﷺ کونورمجسم مانتے ہیں اور نورمجسم کے جسم پر مکھی کا بیٹھنا قادح مانتے ہیں، اس لئے نبی ﷺ کے جسم پر مکھی بیٹھنے کا انکار کرتے ہیں ۔آپ یہ جان لیں کہ نبی ﷺ نہ تو نور مجسم ہیں اور نہ ہی بشر سے الگ کوئی دوسری مخلوق ہیں ۔ بلاشبہ آپ بشر ہی ہیں اور جب آپ بشر ہیں تو آپ میں بشری اوصاف ہی تسلیم کئے جائیں  گے الا یہ کہ آپ کی کسی خصوصیت کی الگ سے کوئی دلیل آئی ہو۔
لوگوں  کے لئے ایک وجہ یہ بھی ہے جس سے نبی ﷺ کے جسم پر مکھی بیٹھنے کا انکار کیا ہے کہ یہ گندگی پر بیٹھتی ہے اورگندی چیز نبی ﷺ کے جسم کو نہیں لگ سکتی ۔
اولا : مکھی صرف گندگی ہی پر نہیں بیٹھتی ،اگر ایسا ہے تو  پھر دیوار پر، کھانے پر، پانی پر، انسان پرکیوں بیٹھتی ہے جبکہ یہ سب گندگی تو نہیں؟
ثانیا: مکھی گندی چیز پر بیٹھنے سے نجس ہوجاتی ہے تو نبی ﷺ کبھی بھی یہ نہ فرماتے کہ مشروب میں مکھی گرجائے تو مزید اس میں ڈبودو اور پھر پیو بلکہ فرماتے مشروب میں مکھی گرنے سے نجس ہوگیا اسے پھیک دو۔
ثالثا: مکھی نجس اور گندی چیز پر بھی بیٹھتی ہے مگر اس کی نجاست اس قدر نہیں ہوتی کہ وہ کسی سامان میں گرنے سے اسےنجس کردے جیسےزیادہ  پانی میں معمولی گندی چیز گرجائے مگر اس کا رنگ ، یا بو ، یا مزہ نہ بدلے تو پاک ہے ۔
رابعا: اگر مکھی پر واضح طور سے نجس چیز لگی نظر آرہی ہے اور وہ مشروب میں گر جائے تو اسے پھیک دے یا جسم پر بیٹھ جائے اور جسم سے بدبو ظاہر تو اس جگہ کو صاف کرلے ، یہ نظافت کا تقاضہ ہے ۔
طاہرالقادری نے اپنے ایک مضمون میں امام بخاری رحمہ اللہ کے خواب سے متعلق واقعہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے" حضور ﷺ کے جسم اقدس پر مکھیوں کا بیٹھنا" ۔ اس عنوان کے تحت نیچے امام بخاری ؒ کا خواب درج ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خواب دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ تشریف فرماہیں اور امام بخاری ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دے رہے ہیں ، کچھ مکھیاں حضورﷺ کی طرف جارہی ہیں ، آپ پنکھے سے بدن اقدس سے مکھیاں اڑا رہے ہیں ۔ آگے خواب کی تعبیرکا ذکر ہے ۔میں مزید آگے کچھ نہیں لکھنا چاہتا،مقصود کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
تیسری بات :  آپ ہمیشہ اپنے قریب کھڑے شخص سے ذرا لمبے رہتے تھے۔
جواب : انسانی سماج میں انسان کے قد تین قسم کے ہوتے ہیں ۔
(1)  کچھ لوگ لمبے ہوتے ہیں ۔
(2) کچھ لوگ درمیانہ ہوتے ہیں ۔
(3) کچھ لوگ پست قد ہوتے ہیں ۔
ان تینوں میں درمیانہ قد سب سے بہتر مانا جاتا ہے حالانکہ ساری تخلیق اللہ کی ہی ہے مگر اللہ نے نبی ﷺ کو ایسی قامت دی جو انسانی سماج میں  بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ربعةً ليسَ بالطَّويلِ ولا بالقَصيرِ حسنَ الجِسمِ أسمرَ اللَّونِ وَكانَ شعرُهُ ليسَ بجعدٍ ولا سَبطٍ ، إذا مشى يتوَكَّأُ(صحيح الترمذي:1754)
رسول اللہ ﷺ میانہ قدتھے ، آپ نہ لمبے تھے نہ کوتاہ قد، گندمی رنگ کے سڈول جسم والے تھے، آپ کے بال نہ گھنگھریالے تھے نہ سیدھے ،آپ جب چلتے تو پیراٹھاکرچلتے جیساکوئی اوپرسے نیچے اترتاہے ۔
جو صحابی یا جو انسان آپ سے قد میں لمبے ہوں گے ، ظاہر سی بات ہے کہ آپ ﷺ ان کے پاس بحیثیت جسم کچھ چھوٹے نظر آئیں گے ۔ اس  بات سے شان رسالت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی آپ کی عظمت ووقار پر کوئی حرف آتا ہے ۔ اس بات کو ایک انوکھی مثال سے سمجھاتا ہوں ۔ کچھ صحابہ کرام آپ ﷺ سے قد میں بڑے رہیں ہوں گے تو کچھ  عمر میں بھی  بڑے  رہے ہوں گے ۔ فضائل الصحابہ میں بسند صحیح یہ واقعہ مذکور ہے، رزین ؒسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا  عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟  پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ عمر میں کون بڑے ہیں ؟ تو حضرت  عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں مگر میں پہلے پیدا ہوا ہوں ۔ (فضائل الصحابہ لامام احمدبن حنبل ،حدیث رقم:1831)
اس واقعہ سے ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی قد میں یا عمر میں نبی ﷺ سے بڑا ہے تو اس سے وہ نبی ﷺ کے مقام ومرتبہ میں  بڑا نہیں ہو سکتا ، اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو اتنا بلند مقام دیا کہ کوئی اس کو چھو نہیں سکتا ۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرام بات کرنے میں حد درجہ ادب ملحوظ رکھتے تھے ، سائل کا مقصد عمرکے متعلق سوال تھا،جواب میں یہ کہہ سکتے تھے کہ میں نبی ﷺ سے عمر میں بڑا ہوں مگر انہوں نے کہا کہ بڑے تو نبی ﷺ ہی ہیں البتہ میں پہلے پیدا ہواہوں۔ سبحان اللہ ۔
جوتھی بات : آپکے فضلات  یعنی بول و براز کو زمین فورا کھالیتی تھی۔
جواب : یہ بات ایک گھڑی ہوئی روایت میں مذکور ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان إذا دخلَ الخلاءَ ثُمَّ خرجَ : دخلْتُ فلا أرى أثرَ شيءٍ ، إلَّا أَنِّي أَجِدُ رِيْحَ الطِّيبِ ، فذكرْتُ ذلكَ لهُ فقال : أما علِمْتَ أنَّا معشرَ الأنبياءِ نَبَتَتْ أَجْسامُنا على أَجْسادِ أهلِ الجنةِ ، فما خرجَ مِنَّا ابْتَلَعَتْهُ الأرضُ۔
ترجمہ: جب نبی ﷺ بیت الخلاء جاتے اور نکلتے تو میں اس میں داخل ہوتی اور  وہاں کسی چیز کا اثر نہیں پاتی البتہ وہاں خوشبوکا اثر پاتی۔ میں نے اس بات کا نبی ﷺ سے ذکر کیا توآپ نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتی ، ہم انبیاء کی جماعت ہیں ، ہمارے اجسام جنتیوں کے اجسام پر بنائے گئے ہیں ،ان سے جو کچھ بھی نکلتا ہے زمین اسے نگل لیتی ہے ۔
ابن عدی نے اس روایت کو الکامل فی الضعفا ء میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں حسین بن علوان ہے جس کی احادیث عام طور سے موضوع ہوتی ہیں اور یہ احادیث گھڑنے والا ہے ۔ ابن حبان نے بھی اسے موضوع کہا ہے ، ان کے علاوہ بہت سارے محدثین نے اس حدیث اور اس کے راوی حسین پر سخت جرح کی ہے ۔
اس گھڑی ہوئی حدیث کو بنیاد بناکر لوگوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے فضلات یعنی پیشاب وپاخانہ پاک ہے جبکہ اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح خون وپیشاب پینے والی روایات سے بھی آپ ﷺ کے فضلات کی پاکی پر استدلال کیا جاتا ہے مگر ان میں سے کوئی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ۔ گویا بشر ہونے کے سبب نبی ﷺ کے فضلات (پیشاب وپاخانہ) ناپاک ہیں ،اسی سبب آپ  ﷺ پیشاب وپاخانہ کرکے ان سے  پتھر،مٹی یا پانی سے پاکی حاصل کرتے  اورقضائےحاجت کے بعد نماز کے لئے وضو کرتے ۔ اس موضوع پہ میں نے  مفصل بحث کی ہے جو میرے بلاگ" مقبول احمدبلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام" پر دیکھا جاسکتا ہے ۔
پانچویں بات : نبی ﷺ کا جسمانی سایہ نہیں تھا۔
جواب :  آپ ﷺ کا ویسے ہی سایہ تھا جیسے ایک بشر کا ہوتا ہے ۔ قرآن وحدیث میں ایسے کئی دلائل موجود ہیں۔ انسانی سایہ کو نبی ﷺ نے نماز کے اوقات کےتعین کا معیار بنایا ہے ۔ اس انسانی سایہ میں آپ ﷺ، دیگر بشر سے مختلف نہیں ہیں ۔ایک تو بشر ہونے کی حیثیت سے آپ کے جسمانی سایہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا دوسرا یہ کہ احادیث میں بالخصوص آپ ﷺ کےجسمانی سایہ کا بھی ذکر ملتا ہے ۔مسند احمد اور مجمع الزوائد میں ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ زینب رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے پہلے نبی ﷺ کا سایہ دیکھا جو گھر میں گھس رہاتھا۔
اس موضوع پہ میں نے ایک بریلوی لڑکا محمد عبدالقیوم حیدر قریشی سے بحث ومباحثہ کیا اور وہ لاجواب ہوکر جواب دینے سے قاصر رہا ، اسے بھی میرے بلاگ پر جاکر پڑھ سکتے ہیں ۔

مکمل تحریر >>

Tuesday, February 21, 2017

حدیث: جس نے میری امت تک کوئی ایک بات پہنچائی" کی تحقیق

حدیث: جس نے میری امت تک کوئی ایک بات پہنچائی" کی تحقیق

حلیہ الاولیا کے حوالے سے یہ ایک حدیث باسند ومتن پیش ہے جس کا یہاں حکم بتلانا مقصود ہے۔
 حَدَّثَنَا أَبِي , ثنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , ثنا أَبِي , ثنا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ حَبِيبٍ , عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَحْيَى التَّيْمِيِّ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ طَاوسٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَدَّى إِلَى أُمَّتِي حَدِيثًا يُقِيمُ بِهِ سَنَةً أَوْ يَلْثُمُ بِهِ بِدْعَةً فَلَهُ الْجَنَّةُ(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم : حدیث نمبر:14990)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میری امت تک کوئی حدیث (بات) پہنچائی تاکہ اسے قائم کی جائے یا اس سے بدعت کو ختم کی جائے تو اس کے لئے جنت ہے ۔
روایت کا حکم :
٭اس حدیث کی سند میں دو مجہول راوی ہیں، ایک محمدبن ابراہیم ہروی اور دوسرے ان کے باپ ابراہیم ہروی ۔
٭ایک راوی کذاب ہے وہ اسماعیل بن یحی تیمی ہے۔ ابوالفتح ازری نے کہاکہ یہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک رکن ہے ، ابوعبداللہ حاکم نیساپوری اور ابوعلی حاکم نیساپوری نے اسے کذاب کہا، دار قطنی نے متروک کذاب کہا، ذہبی نے (کذاب)باطل حدیث بیان کرنے والا اور صالح بن محمد جزرہ نے حدیثیں گھڑنے والا کہا۔
٭ ایک راوی لیث بن ابوسلیم قرشی جن کا اصل نام لیث بن ایمن بن زنیم ہے یہ ضعیف ہے ۔ انہیں بیہقی، ابوحاتم رازی، احمد بن حنبل،احمد بن شعیب نسائی،ابراہیم بن یعقوب جورجانی،ابن حجر عسقلانی،ذہبی،محمد بن سعد،یحی بن معین اور یعقوب بن شیبہ دوسی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ۔
اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ حدیث دلیل پکڑنے کے لائق نہیں ہے ۔
ایک انتباہ : یہ حدیث سوشل میڈیا پر بھی گردش کررہی ہے ،اس میں کہیں پرحوالہ ترمذی شریف کا  بھی دیا گیا ہے جبکہ یہ حدیث ترمذی میں موجود نہیں ہے  اوراسی طرح  اس کے ترجمہ میں بھی  ایک غلطی ہے ۔ بدعت کا ترجمہ بدمذہبی کیا گیاہے جوکہ بریلوی ترجمہ ہے ۔یہ حضرات اپنے علاوہ بقیہ لوگوں کو بدمذہب کہتے ہیں اس لئے ترجمہ میں بھی بسااوقات اس طرح کی خیانت کرکے لوگوں کے دلوں میں شیطانی وسوسہ پیدا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے۔ آمین
کتبہ

مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

Monday, February 20, 2017

عورت کی بدخلقی پہ صبر سے متعلق حدیث کا حکم


عورت کی بدخلقی پہ صبر سے متعلق حدیث کا حکم

ایک حدیث احیاء علوم الدین میں پائی جاتی ہے ، وہ اس طرح سے آئی ہے ۔
من صبر على سوءِ خلقِ امرأتِه أعطاه اللهُ من الأجرِ مثلَ ما أعطى أيوبُ على بلائِه ، ومن صبرت على سوءِ خلقِ زوجِها أعطاها اللهُ مثلَ ثوابِ آسيةَ امرأةِ فرعونَ۔ (الاحیاء: 2/39)
ترجمہ: جس مرد نے بیوی کی بدخلقی پر صبر کیا اللہ تعالی اس کو اتنا ہی اجر دے گا جتنا ایوب علیہ السلام کو ان کی آزمائش پر دیا تھا اور جس عورت نے اپنے شوہر کی بدخلقی پر صبر کیا تو اللہ تعالی اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے اجرکے برابر ثواب دے گا۔
یہ حدیث امام غزالی کی کتاب احیاء علوم الدین میں موجود ہے، اس کتاب کے مخرج عراقی نے کہا کہ اس کی کوئی اصل نہیں ۔ یہی بات شیخ ناصرالدین البانی ؒ نے بھی کہی ہے ۔دیکھیں (السلسلة الضعيفة:627)
نوٹ : کسی نے اس حدیث کا امیج بناکر اس پہ بخاری ومسلم کا حوالہ دے دیا ہے ، اس لئے یہ بات دھیان رہے کہ یہ بخاری ومسلم میں موجود نہیں ہے ۔

مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

دفن کرنےکے مکروہ اوقات

دفن  کرنےکے مکروہ اوقات

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

تین اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا اور میت کو دفن کرنا منع ہے ۔ عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
ثلاثُ ساعاتٍ كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ينهانا أن نُصلِّيَ فيهنَّ . أو أن نَقبرَ فيهن موتانا : حين تطلعُ الشمسُ بازغةً حتى ترتفعَ . وحين يقومُ قائمُ الظهيرةِ حتى تميلَ الشمسُ . وحين تَضيَّفُ الشمسُ للغروبِ حتى تغربَ .(صحيح مسلم:831)
ترجمہ: تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺہمیں نمازپڑھنے سے یا اپنے مردوں کودفنانے سے منع فرماتے تھے,جس وقت سورج نکل رہا ہویہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے،جس وقت ٹھیک دوپہرہورہی ہویہاں تک کہ سورج ڈھل جائے اورجس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔
اس حدیث میں صلاۃ کا لفظ بھی وارد ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح میت کو ان تین وقتوں میں دفن کرنا منع ہے اسی طرح میت پر نماز جنازہ پڑھنا بھی منع ہے۔ اس طرح فجر کے بعد ، ظہر کے بعداورعصرکے بعد میت پر نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں اور دفن بھی کرسکتے ہیں ۔  
ایک اشکال اور اس کا حل :
ایک حدیث میں ہے کہ جب جنازہ آجائے تو تاخیر نہ کی جائے ،اس سے بعض علماء نے یہ دلیل پکڑی ہے کہ ہم میت کو کبھی بھی دفن کرسکتے ہیں یہاں تک کہ مکروہ اوقات میں بھی ۔ پہلے وہ حدیث دیکھیں :
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّ النبيَّ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - قال له : يا عَلِيُّ ! ثلاثٌ لا تؤخِّرْها : الصلاةُ إذا أَتَتْ ، والجَنازةُ إذا حَضَرَتْ ، والأَيِّمُ إذا وَجَدْتَ لها كُفْؤًا (مشکوۃ , ترمذی، بیہقی)
ترجمہ: نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:' علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نمازکو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کوجب آجائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)مل جائے۔
اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے ضعیف کہا ہے مگر اس کا معنی صحیح ہے ۔ (تخریج مشکوۃ المصابیح : 577)
اس حدیث کی روشنی میں چند باتیں ملحوظ رہے۔
اولا : تین اوقات میں دفن کی ممانعت واجبی نہیں ہے بلکہ کراہت کے درجے میں ہے کیونکہ وجوب کا قرینہ نہیں پایا جاتا۔
ثانیا: اگر وقت تنگ ہو اور میت کو دفن کرنےکی ضرورت ہو تومکروہ اوقات میں دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ثالثا: جان بوجھ کر مکروہ  اوقات میں دفن کرنا منع ہے ہاں تجہیز و تکفین میں تاخیر ہوگئی اور اب مزید تاخیر صحیح نہیں تو پھر ممنوع وقت میں دفن کرسکتے ہیں ۔
رابعا: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ میت ہونے کے بعد اس کی تدفین میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے بلکہ جلدی سے دفن کردینا چاہئے ۔ دوسری حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے ۔
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَسْرِعُواْ بالجنازةِ ، فإن تَكُ صالحةً فخيرٌ تُقَدِّمُونَهَا ، وإن يَكُ سِوَى ذلكَ ، فشَرٌّ تضعونَهُ عن رقابكم .(صحيح البخاري:1315)
ترجمہ: جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔
رات میں دفن کرنے کا حکم :
ایک حدیث میں رات میں دفن کرنے کی ممانعت وارد ہے ۔ وہ روایت   مندرجہ ذیل ہے ۔
مسلم شریف میں ہے :
فزجر النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أن يُقبرَ الرجلُ بالليلِ حتى يصلى عليهِ . إلا أن يضطرَ إنسانٌ إلى ذلك . وقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ " إذا كفَّنَ أحدكم أخاهُ فليُحْسِنْ كفنَه " .(صحيح مسلم:943)
ترجمہ: پس نبی ﷺ نے ڈانٹا کہ آدمی کو رات میں دفن کیا جائےالا یہ کہ انسان اس کے لئے مجبور ہوجائے ہاں اگر نماز جنازہ پڑھ لی گئی ہو تو چنداں حرج نہیں ہے۔ نیز نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بھائی کو کفن دو تو اچھے طریقے سے کفناؤ۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر رات میں نماز جنازہ یا کفن و دفن میں دقت ہو یعنی صحیح سے میت کی تجہیزوتدفین نہ ہونے کا خطرہ ہو تو رات میں دفن نہ کیا جائے لیکن اگر رات میں دفنانے کی سہولت ہو تو رات میں بھی دفن کرسکتے ہیں ۔ اس کی دلیل ملتی ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
مات إنسانٌ ، كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يعودُهُ ، فمات بالليلِ ، فدفنوهُ ليلًا ، فلمَّا أصبحَ أخبروهُ ، فقال : ما منعكم أن تُعَلِّمُوني . قالوا : كان الليلُ فكرهنا ، وكانت ظلمةٌ ، أن نَشُقَّ عليك ، فأتى قبرَهُ فصلَّى عليهِ .(صحيح البخاري:1247)
ترجمہ: ایک شخص کی وفات ہوگئی, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو جایا کرتے تھے, چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ جنازہ تیار ہوتے وقت ) مجھے بتانے میں ( کیا ) رکاوٹ تھی؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔
اور بہت سے صحابہ وصحابیات کو رات رات میں دفن کیا گیا ہے ۔ ابوبکررضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا رات میں ہی دفن کئے گئے ۔
مکمل تحریر >>

Sunday, February 19, 2017

ایک مخلصانہ پیغام الیاس قادری ہے نام

ایک مخلصانہ پیغام الیاس قادری ہے نام

تحریر: مقبول احمد سلفی

دعوت اسلامی پاکستان کے مؤسس وبانی الیاس قادری بریلوی نے کہیں سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے ۔ ان کے پاس کوئی ڈگری نہیں مگر علم کے نام پر بڑے بڑے کارخانے چلا رہے ہیں ۔ سب سے بڑا کارخانہ تنظیم دعوت اسلامی ہے جس میں درس وتدریس، تصنیف وتالیف ،بحث وتحقیق، فتوی نویسی ، دعوت وتبلیغ ، کشف وکرامات ، روحانی علاج ومعالجہ، چلہ ومراقبہ، حلقہ ذکرجماعی، تعلیم تصوف، محفل وجد، مجلس عشاق ، بیعت وارادت اور مجلس مکتوبات وتعویذات عطاریہ جیسے علوم وفنون کے دریا بہتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے اس کارخانے میں سنتوں کی خدمت کے لئے 81 سے زائد شعبہ جات ہیں جن کی سرپرستی مفتی وقارالدین قادری کے اکلوتے خلیفہ ،ٹی ٹی ایس کے مصنوعی امیر(مصنوعی اس لئے کہ خود ان کی جماعت کے لوگ ہی کہتے ہیں کہ جب یہ بریلوی کے دوسرے اسٹیج پر کبھی نہیں دکھے نہ ہی کسی انتخاب کے ذریعہ انہیں امیر بنایا گیا تو امیر کیسے ہوگئےجبکہ پاکستان میں بریلویوں کی متعدد تنظیمیں ہیں)، علمی اسناد سے معدوم الیاس قادری کر رہے ہیں۔ اس امیرکے القاب پر ایک نظر ڈالیں تو ہم حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں گے ۔ لیجئے ملاحظہ ہو بلاسند امیر کے القاب ۔
(عالمِ نبیل، فاضلِ جلیل، عاشق رسول ِ مقبول۔ یاد گارِ اسلاف، نمونہء اسلاف۔ مبلغ اسلامِ رھبر قوم۔ عاشقِ مدینہ، فداے مدینہ۔ فداےء غوث الوَرٰی، فداےء سیدُنا امام احمد رضا،صاحبِ تقوٰی۔ مسلکِ اعلی حضرت کے عظیم ناشر و مبلغ وپاسبان و ترجمان۔ صاحبُ المجْدِ والجَاہ، فیضِ رساں،عمیمُ الجود والاِحسان۔امیر دعوت اسلامی، امیر اہلسنت محسن دین و ملت، ترجمانِ اھل سنت، مخدومِ اھل سنت،فخر اھلِ سنت۔نائبِ غوثِ اعظم،نائب اعلی حضرت،پیکرِ سنت، حامیِ سنت، ماحی بدعت، شیخ وقت، پیرِ طریقت،امیرملت وغیرھا۔)
باعتبارجہل مجھے تبلیغی جماعت کے امیر اور دعوت اسلامی کے امیر میں کوئی فرق نہیں لگتاہے ، جیسے وہ لوگوں میں تبلیغ کے نام پر اندھی تقلید اور نراجہل پھیلارہے ہیں ویسے ہی یہ امیر دعوت کے نام پر لوگوں میں جہل کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ۔ دعوت اسلامی اور مدنی چینل کے ذریعہ لوگوں میں پھیلائے جارہے شکوک وشبہات، جہل ونادانی، شرک وبدعات، ہندوانہ رسم ورواج، کفروالحاد، تصوف وطریقت، شرکیہ نعتین، نظمیں، تعلیمات وتعویذات کو دیکھ کر گمراہی کے بھیانک انجام سے ڈراتے ہوئے میں الیاس قادری صاحب کو سیدھے راستے پر آنے کا مخلصانہ پیغام دیتا ہوں ۔
(مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے انشاء الله عزوجل ۔۔۔۔الیاس قادری)
اگر الیاس قادری کے اس جملے میں ذرہ برابر بھی سچائی ہوگی تو میرے پیغام پہ غور کرتے ہوئے پہلے اپنی اصلاح کریں گے اور پھر ساری دنیائے بریلویت کی اصلاح کی فکر کریں گے ۔ اس امید کے ساتھ "فَوَ اللَّهِ لَأَنْ يُهْدَى بِكَ رَجُلٌ وَاحِدٌ خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ" ۔ (صحیح البخاری :2942)
ترجمہ: اللہ کی قسم (یاد رکھو )کہ اللہ تعالی تمہارے ذریعہ سے کسی کو ہدایت دیدے ، یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔
مزار پرستی : مدنی چینل کے سبب آج براہ راست گھرگھر شرک عام ہورہاہے ، لوگوں کی بھیڑ مسجدوں ے بجائے مزاروں پہ جمع ہونے لگی ہے ۔ مردوں استغاثہ، میت کے لئے نذرونیاز، نیک اعمال کے بجائے اموات کا وسیلہ، قبروں پہ چڑھاوے ، قبروں پہ چراغاں ، قبروں سے تبرک، قبروں کو سجدہ، قبروں پہ تعمیر، قبروں سے تجارت یعنی بریلویت کے سارے امور قبروں سے جڑے ہیں۔ کچھ بھی ہو قبروں سے حل کرنا ہے۔ ایک آدمی نے مجھے خبر دی ہے کہ جسے کسی لڑکی سے زنا کرنا ہواور لڑکی قابو نہیں آرہی ہوتو مزار پہ جاکر بابا سے مدد مانگی جاتی ہے ۔ فلم ہٹ نہیں ہورہی ہے ، کسی لڑکی سے عشق نہیں ہوپارہاہے ، کسی کے درمیان نفرت پیدا کرنی ہے ، کسی کی جائیدادودولت ہڑپنا ہے، ڈانس کلب اور فلمی دنیا میں نوکری نہیں مل پارہی ہے، نشے کی تجارت میں فائدہ نہیں ہورہاہے ۔ ان سبھی کاموں کے لئے مزار کا رخ کیا جاتا ہے اورعوام کی عقیدت ہے کہ بابا ان سارے کاموں کو حل کردیتے ہیں ۔اللہ کی پناہ۔
اسلام نے قبروں کو اونچی کرنےاور پکی کرنے سے منع ہے تاکہ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے ۔ بریلویوں نے قبریں پختہ اور اس پہ بلند عمارت بناکے اسےسجدہ گاہ اور تجارت کا مرکز بناڈالا۔ تو جہاں قبرپرستی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے وہیں مدنی چینل کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ یہاں سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنا چاہئے نہ کہ شرک وبدعات اور توہمات وباطل خیالات کی اشاعت کرنی چاہئے ۔
الیاس قادری کے خواب : قادری صاحب کے یہاں باقاعدہ خواب اور کشف وکرامات کا ایک مستقل شعبہ ہے جہاں لوگ اپنی مرضی سے جب چاہیں اور جیسے چاہیں خواب دیکھتے ہیں شرط یہ ہے کہ خواب قادری صاحب کے حق میں دیکھے جائیں ورنہ سخت عتاب ہے۔ مفتی ابوداؤد قادری نے الیاس قادری کے نام ایک مکتوب میں ان کی پول کھول دی ہے اور مخالفات بریلویہ پہ زبردست سرزنش کی ہے ۔اس مکتوب میں خواب سے متعلق لکھتے ہیں کہ امیر دعوت اسلامی کی تشہیر ونمائش کے لئے خوابوں اور کشف وکرامات کا بھی باقاعدہ شعبہ ہے جہاں سے بکثرت اور مسلسل اس قسم کی نمائشی چیزوں کی اشاعت ہوتی رہی ہے ۔دعوت اسلامی کے ایک مبلغ نے خواب دیکھا کہ حضور ﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا: الیاس قادری کو مجھ رحمۃ للعالمین کا سلام فرمانا اور ان سے کہنا کہ تم خود ابراہیم قادری کو گلے لگالو،جب الیاس قادری سے یہ خواب بیان کیا تو کہا اسے لوگوں میں بیان مت کرو ورنہ امت میں فساد پھیلے گاجب دعوت اسلامی کے اراکین میں یہ بات آئی تو کہا معاذاللہ کیا سرکارﷺ امت میں فساد ڈالنے کے لئے پیغام بھیج رہے ہیں؟
الیاس قادری کی بہن نے خواب دیکھا کہ ایک بار اس کے والدنوارانی چہرے والے ایک بزرگ کے ساتھ تشریف لائے ، میرا ہاتھ پکڑکر کہا بیٹی ! تم ان کو پہنچانتی ہو؟ یہ ہمارے میٹھے میٹھے مدنی آقا ﷺ ہیں ۔ پھر شہنشاہ رسالت مجھ پر شفقت کرنے لگے اور کہا تم نصیب دار ہو۔
اسی بہن نے ایک اور خواب سنا یاکہ بڑے بھائی جان نے مجھے خواب میں اپنی قبر کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا جب مجھے قبر میں رکھا گیا اور میری طرف عذاب بڑھا تو بھائی الیاس کا ایصال میرے عذاب کے درمیان حائل ہوگیا۔
ایک بارخود الیاس قادری نے خواب دیکھا ایک مجلس سجی ہوئی ہے ، جس میں صحابہ کرام حاضر خدمت ہیں، اعلی حضرت بھی حاضر خدمت ہیں ،آپ یعنی الیاس کے سر پر عمامہ ہے ۔حضور نے اعلی حضرت کے سرسے عمامہ اتارکر الیاس قادری کے سر پر رکھ دیا۔ نعوذباللہ من ذلک
الیاس قادری کی کتاب فیضان سنت میں مذکور ہے ایک شخص نے خواب دیکھا کہ حضور ﷺ الیاس عطار کے والد سے اس کا تعارف کرارہے ہیں ، الیاس عطار کے والد نے اس شخص سے کہا الیاس عطار کو کہنا اس کی امی نے بھی سلام بھیجا ہے ۔ اس واقعہ پر مفتی ابوداؤد قادری نے لکھا ہے کہ خواب دیکھنے والا فخر سے کہہ رہاہے کہ میں نے الیاس عطار کے والد سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی جبکہ فخر تو اسے حضور ﷺ سے مصافحہ کرکے کرنا چاہئے تھا۔ حضور ﷺ کو اس نے اہمیت نہیں دی ۔ مزید آگے لکھتے ہیں : کیا الیاس عطار کی امی کا سلام بھیجنا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ الیاس عطار منگھڑت خوابوں کے ذریعہ اپنے سارے خاندان کے تعلقات حضور ﷺ سے دکھانا چاہتے ہیں؟
یہ ہے الیاس قادری کااصل چہرہ ۔ عام قصے اور عام خوابوں میں کشش نہیں ہے اس لئے نبی ﷺ کی طرف منسوب کرکے جھوٹے خواب بیان کرکے خود کو امیراہلسنت کہلاتا ہے اور لوگوں میں اسی قسم کی جھوٹی باتیں نشر کرتا ہے ۔ ان کا مذہب جھوٹے خواب وخیال پہ مبنی ہے ، سنت کے نام پر بنے جھوٹے کارخانوں میں چیلے چمچوں کے ذریعہ باتیں گھڑتا ہے اور مدنی چینل کے ذریعہ دنیا میں عام کرکے سیدھے سادے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے ۔ الیاس قادری کو میرا پیغام ہے ہی قارئین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس گمراہ شخص کی گمراہی بند کریں ۔ ورنہ ابھی جوہے ،ہے ہی ، مرنے کے ان کے مریدین مصنوعی کارخانے سے نہ جانے کون کون سا خواب اور قصہ تراش تراش کرلائیں گے ۔ مزار کی بات ہی چھوڑیں ، ان کے سامنے شہبازقلندر کی درگاہ بھی پھیکی پڑجائے گی۔
پاکپتن میں واقع جنتی دروازے کے متعلق الیاس قادری ذکر کرتے ہیں کہ نظام الدین اولیاء نے نبی ﷺ کو بیداری میں خلفاء اربعہ کے ساتھ اس دروازے سے گزرتے دیکھا ۔ اصل میں یہ لوگ خود کو مصنوعی ولی بنانے کے لئے خواب نبی کا سہارا لیتے ہیں ، خواب کا سہار ا لینا بہت ہی آسان ہے ،نہ کوئی گواہی نہ ثبوت ۔ نبی کو خواب میں اس طرح پیغام دیتے سنا، نبی کو بیداری میں دیکھا ۔ عوام بھی کالانعام ، فورا مان لیا اور ولی کا درجہ دینے لگی ۔ اللہ ھو المستعان
الیاس قادری کی کرامات : خواب کی طرح الیاس قادی کی کرامت بھی گھڑی جاتی ہے ، فیکٹری اپنی ہے ، چیلے چمچے زرخرید غلام کی طرح ہیں، جیسی کرامت چاہئے گھڑ ڈالی اور الیاس قادری کی طرف منسوب کردیا۔ نہ جانے الیاس قادری کے مرنے کے بعد کرامات کا کیا طوفان برپا ہوگا ؟
ایک پیدائشی نابینا کے چہرے پر الیاس قادری نے اپنی نگاہ ولایت ڈالی اس کی آنکھ روشن ہوگئی ۔الیاس قادری کی کرامت سے موبائل بغیر الیکٹری اور چارجر کے آپ خود چارج ہونے لگتا ہے ۔ ایک مرتبہ الیاس قادری کا بیان جاری تھا ۔دوران بیان الیاس صاحب نے کہا ابھی بارش ہوگی مگر معمولی ہوگی لہذا کوئی فکرمند نہ ہو، لوگوں نے دیکھا مطلع صاف ہے ،کہیں بارش کے آثار نہیں مگر ولی کامل کی زبان مبارک سے نکلے الفاظ کی تائید میں بارش ہونے لگی ۔
اسی طرح دو مدنی منے کی کہانی ہے اسے کچڑا چننے والا کچھ سنگاکر بیہوش کرکے بوری میں ڈال کرلے بھاگا ۔ جب بچوں کو ہوش آیا تو دیکھا کچڑا والا ایک جگہ بیہوش پڑا ہے اور ایک سبزعمامے والا بزرگ جن کے چہرے پر نور برس رہاتھا اس نے بچے کو تسلی دی اورگھر چھوڑ دیا، بچے کی ماں حیران تھی وہ بزرگ کون تھاچنانچہ جب وہ سوتے وقت مکتبۃ المدینہ کی وی سی ڈی " عوامی وسوسے اور امیراہلسنت کے جوابات" لگایا اور شیخ طریقت امیراہلسنت ظاہرہوئے تو مدنی منے نے کہا یہی تو وہ بزرگ ہیں۔ ان کے والد صاحب بھی کرامت میں کچھ کم نہ تھے ۔ بیان کیاجاتا ہے کہ جب وہ قصیدہ غوثیہ پڑھتے تو چارپائی زمین سے بلندہوجاتی ۔
اس قسم کے واقعات گھڑ گھڑ کر عطاری لوگوں کے دلوں میں اپنے تئیں عقیدت بنارہاہے تاکہ دنیا میں بھی خودساختہ امیر اور باپاجانی بنارہے اور مرنے کے بعد تو مزار فکس ہے ہی۔
مدینہ کا سفر: الیاس قادری کا سفر مدینہ بڑے عجیب وغریب انداز میں بیان کیا جاتا ہے ۔ خاکساری، رقت، اشک اور حب مدینہ کا وہ نقشہ کھیچا جاتا ہے کہ الیاس آدمی نہیں کوئی دوسری ہی مخلوق ہو۔ مکہ گیا تو کعبہ کو پیٹھ نہیں کی ، مدینہ آیا تو نزلہ کے باوجود ناک نہ سنکی بلکہ ہرلحاظ سے ادب ظاہرکیا۔بغیر چیل کے چلا ، مدینے کی گلیوں میں جھاڑولگانے کی سعادت حاصل کی بلکہ حرم مدنی میں بھی اجازت طلب کرکے جھاڑو لگایا۔ جب بریلوی شریف کے مزار پہ قادری کی حاضری ہوئی تھی تو زمین پر لوٹ پوٹ ہوکر مزار تک پہنچے ، حاضرین نے اس قدر حب اعلی حضرت دیکھ کر پورے بدن کا بوسہ لینا شروع کردیا۔ الیاس قادری کہتے ہیں مجھے اعلی حضرت کے ذریعہ میٹھے میٹھے ﷺ کی پہچان ہوئی ۔ بہرکیف ! مدینہ سے واپسی پر ایسےالوداعی اشعار کہے کہ آج بھی اس کا پڑھنے والا اشکبار ہوجاتا ہے ۔بیان کیا جاتاہے کہ حیدرآباد (باب الاسلام سندھ) کے مبلغ دعوتِ اسلامی عبدالقادر عطاری نے ایک بار خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لب ہائے مبارکہ جو جنبش ہوئی اور رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے:۔ الیاس قادری کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ جو تم نے الوداع تاجدارِ مدینہ والا قصیدہ لکھا ہے وہ ہمیں بہت پسند آیا ہے اور کہنا کہ اب کی بار جب مدینے آؤ تو کوئی نئی الوداع لکھنا اور ممکن نہ ہو تو وہی الوداع سنا دینا۔
یہ بریلوی حضرات اپنی خواہش کو دین کا نام دیتے ہیں اور خواہشات نفس پر چلنا سنت کی پیروی اور نبی ﷺ سے عشق ومحبت گردانتے ہیں ۔ صحیح سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا۔آج الیاس قادری اور ان کا ٹولہ ہوبہو اس قول کا مصداق ہے ۔اپنی خواہشات کو دین کا نام دے کر مزاراور مختلف قسم کے گورکھ دھندوں کے نذرانے کی کمائی ان کا مقصدحیات ہوگیا ہے۔
الیاس قادری کے اشعار میں شرک ، بیان میں شرک ، تصنیف میں شرک بلکہ اکثر اقوال وافعال میں شرک کی دعوت ، مخصوص چیلوں کے ذریعہ اپنی فضیلت سازی، عمامہ کی نمائش، عربی تمدن ومعاشرت کی نقالی کا فریب ، ضعیف وموضوع روایات کے ذریعہ اپنے مسلک کی تائیدکی جاتی ہے بلکہ جھوٹی جھوٹی باتیں گھڑ کر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے ۔محمد اویس عالم لاہوری نے "تعارف بانی دعوت اسلامی اور ان کی خدمات " کے نام سے پانچ حصوں میں خودساختہ امیر کے جھوٹےمناقب وفضائل اور جھوٹے خدمات کا ذکر کیا ہے جو ہماری ویب ڈاٹ کام پرموجود ہے ۔
میں نے جہاں تک الیاس قادری کو پہچانا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کی رمق دمق جھوٹے اور منگھڑت خواب پر مبنی ہے جس کی پول ان کی ہی جماعت کے مفتی ابوداؤد نےکھول کر رکھ دی ہے ۔جھوٹے خواب کے ذریعہ اپنی فضیلت، والد کی فضیلت، والدہ کی فضیلت ، بھائی اور بہن کی فیضلت بیان کرکے اپنے پورے خاندان کی نسبت رسول سے جوڑ لی اور لوگوں کے اذہاب وقلوب پر اپنی عقیدت کا مکر ڈال دیا ہے ۔ یہ آج جتنے بڑے ولی تصور کئے جاتے ہیں مرنے کے بعد اس کے سوگنے ولی وداتا بن جائیں گے اور آج جس قدر ان کے شان میں غلو کی جاتی ہے ، الیاس قادری موجود ہوتے ہوئے بھی کسی کو نہیں روکتے ،روکیں گے کہاں سے کیوں بناوٹ کا حکم اسی قادری فیکٹری سے صادر ہوتا ہے تو کیا حال ہوگا جب عالیشان بنگلے میں دفن کیا جائے گااور کمائی کے لئے سو کرشمائی کارخانے کھولے جائیں گے ؟۔
میں تو ایک خیرخواہ کی حیثیت سے نبی ﷺ کا یہ فرمان سنا نا دینا چاہتاہوں ، ہدایت دینے والا اللہ ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں ۔
من دعا إلى هدًى ، كان له من الأجرِ مثلُ أجورِ من تبِعه ، لا يُنقِصُ ذلك من أجورِهم شيئًا . ومن دعا إلى ضلالةٍ ، كان عليه من الإثمِ مثلُ آثامِ من تبِعه، لا يُنقِصُ ذلك من آثامِهم شيئا(صحیح مسلم:2674)
ترجمہ: جس نے کسی کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس کے لئے اتنا ہی اجروثواب ہے جتنا ہدایت کی اتباع کرنے والے کو ہے، اس کے اجر میں سے ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے کسی کو گمراہی کی طرف بلایا تو اس کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس کی گمراہی کی پیروی کرنے والے کے لئے ہے ، اس کے گناہ میں سے ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی۔
بالخصوص الیاس قادری اور بالعموم ان کے ماننے والے تمام لوگوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ امت کو گمراہ کرنے سے باز آجائیں، دین کے نام پر جہالت ، توحید کی جگہ شرک، سنت کی جگہ بدعت اور حقیقت کی جگہ مصنوعی خواب وخیال بیان کرنا چھوڑدیں۔ اللہ کے سامنے ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے ۔ آج لوگوں میں رسوا ہوجانے میں کوئی بات نہیں لیکن کل کی رسوائی بہت ذلت آمیزہے ۔ اس وقت کوئی پیرطریقت کام نہیں آئے گا۔ اگر کام آئے گا تو اعمال صالحہ ۔اگر روپیہ پیسہ ہی کمانا ہے تو اسلام کو رسوا وبدنام کرکے کیوں ؟ قبروں کی تجارت چھوڑیں ہزاروں راستے ہیں جن سے بآسانی پیسہ کمایاجاسکتا ہے گرپیسہ ہی زندگی کا مقصد ٹھہرا ہے ۔ دنیا کی چمک دمک بہت تھوڑے دنوں کی ہے پھر وہی قبر کا اندھیرا اوراس کے بعد کی سختیاں ہیں ۔ اس لئے دنیا کی بجائے آخرت کی فکر کریں اور اپنی اصلاح کے ساتھ لوگوں میں آپ حضرات نے جو غلط عقائدونظریات پھیلائے ہیں ان کی بیخ کنی کریں ۔ عقیدہ توحید ٹھیک کریں، جب تک عقائد میں اختلاف رہے گا مسلمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے چاہے لاکھ کوشش کرلیں۔
ساتھ ساتھ میں اللہ تعالی سے بالخصوص الیاس قادری کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہوں جس طرح اللہ کے رسول ﷺ نے دعا کی ۔
اللَّهمَّ أعزَّ الإسلامَ بأحبِّ هذينِ الرَّجُلَيْنِ إليكَ بأبي جَهْلٍ أو بعُمرَ بنِ الخطَّابِ قالَ: وَكانَ أحبَّهما إليهِ عمرُ(صحيح الترمذي:3681)
اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمربن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما,آپ ﷺ نے فرمایا: تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے۔
مکمل تحریر >>