Saturday, December 31, 2016

اللہ کی مدد کیسے حاصل ہوگی ؟

اللہ کی مدد کیسے حاصل ہوگی ؟
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف


آج ہم طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔ نجی پریشانی،گھریلوپریشانی، سماجی پریشانی، معاشی پریشانی، قدرتی پریشانی ۔اس قسم کی سیکڑوں دیناوی پریشانیوں کے شکار ہیں جیسے لگتا ہےزندگی پریشانیوں کا مجموعہ ہے اورہم اللہ کی طرف سے خاص مہربانی اور نصرت وامداد سے محروم ہوگئے ہیں۔دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ، امداد طلب کرتے ہیں مگر امداد نہیں آتی ، آواز لگاتے ہیں مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا ۔آخر اس کے کیا وجوہات ہیں اور کن اسباب کی وجہ سے ہمارا یہ براحال ہے ؟
اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ساری پریشانیوں، مشکلوں، بیماریوں، مصیبتوں، دکھوں، غموں، دقتوں اور نقمتوں کا حل موجود ہے ۔ اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنے سے غربت دور ہوسکتی ہے ، بیماری کا علاج ہوسکتاہے، پریشانی کا حل ہوسکتا ہے، غموں کا اختتام ہوسکتاہے، دعائیں قبول ہوسکتی ہیں، مراد پوری ہوسکتی ہے، قسمت سنور سکتی ہے ، بگڑی بن سکتی ہے ۔ہماری پریشانیوں بتلاتی ہیں کہ ہم نے اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنا چھوڑدیا ہے ورنہ یہ دن نہ دیکھتے پڑتے ۔
ایک مومن کا اس بات پر ایمان ہونا چاہئے کہ ہمارا اصل مددگار صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ،اس کے علاوہ کوئی مدد گار نہیں جیساکہ خود کلام رب اس کی گواہی دیتا ہے ۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (آل عمران:126)
ترجمہ: اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے ۔
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الہی ہے :
بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ (آل عمران :150)
ترجمہ: بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگارہے۔
جس کا مددگار اللہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچاسکتی ، یہ ضمانت بھی اللہ تعالی نے خود دی ہے ،فرمان پروردگار ہے :
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا ،اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
یہاں ایک مومن کو یہ عقیدہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جو لوگ غیراللہ کو مدد کے لئے پکارتے ہیں ایسے لوگ شرک وکفر میں مبتلا ہیں۔ دراصل یہ بڑی وجہ ہے جس سے اللہ کی مدد آنی بند ہوگئی ۔ اور جنہیں اللہ کے علاوہ مدد کے لئے پکارا جاتا ہے وہ تو ہماری کچھ مدد نہیں کرسکتے بلکہ وہ اپنے آپ کی مدد کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ (الاعراف :197)
ترجمہ: اور تم جن لوگوں کو اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔
اب یہاں ان اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے یا یہ کہیں جن کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ۔
(1) اللہ پر صحیح ایمان : جو لوگ اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے وہ اس کی طرف سے مدد کے مستحق بن جاتے ہیں یعنی اللہ ایسے لوگوں کا مددگار بن جاتا ہے اور ایسے ایمان داروں کی مدد کرنا اللہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم:47)
ترجمہ: اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (الحج :38)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی سچے مومن کی (دشمنوں کے مقابلے میں) مدافعت کرتا ہے ، کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالی کو ہرگز پسند نہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (غافر:51)
ترجمہ: یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ۔
آج ایمان کے دعویداروں کی بہتات ہے مگراکثرلوگ شرک کے دلدل میں پھنسے ہیں ، رب پر صحیح سے ایمان نہیں لاتے ، یا ایمان لاکر شرک وبدعت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے نصرت الہی بند ہوگئی ۔
رب العزت کا فرمان ہے : وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (یوسف:106)
ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں۔
(2) عمل میں اخلاص : ہماری جدوجہد اور عمل میں اخلاص وللہیت ہو تو نصرت الہی کا حصول ہوگا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّما يَنصرُ اللَّهُ هذِهِ الأمَّةَ بضَعيفِها، بدَعوتِهِم وصَلاتِهِم ، وإخلاصِهِم(صحيح النسائي:3178)
ترجمہ: بیشک اللہ اس امت کی مدد کرتا ہے کمزور لوگوں کی وجہ سے ، ان کی دعاوں ، ان کی عبادت اور ان کے اخلاص کی وجہ سے ۔
اس حدیث میں نصرت الہی کے تین اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔ دعا، نماز، اخلاص ۔
ہمارے عملوں میں اخلاص کا فقدان ہے جو اللہ کی ناراضگی اور اس کی نصرت سے محرومی کا سبب بناہوا ہے ۔ اولا عملوں میں کوتاہی اس پر مستزاد اخلاص کی کمی یا فقدان ۔ شہرت، ریا ، دنیا طلبی نے ہمارے عملوں کو اکارت کردیا اور ساتھ ساتھ نصرت الہی سے محروم بھی ہوگئے ۔
(3) دعا : دعا مومن کا ہتھیار ہے جو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے ، سفر میں ہویا حضر میں ، حالت جنگ ہویا حالت امن ، مصائب ومشکلات ہوں یا خوشحالی ، ہرموقع پر مومن دعا کے ذریعہ رب کی رضامندی اور مدد طلب کرتا ہے ۔ سیرت نبوی ﷺ سے اس کی ایک مثال دیکھیں ۔
بدر کا میدان ہے ، ایک طرف نہتھے 313 مسلمان ،دوسری طرف ہتھیاروں سے لیس ایک ہزار کا لشکر کفر۔آپ ﷺ نے بڑی جماعت کے مقابلے میں اپنی چھوٹی جماعت کو دیکھا تو اللہ تعالی سے نصرت کی دعا کی ۔ مسلم شریف کے الفاظ ہیں :
اللهمَّ ! إن تهلِك هذه العصابةُ من أهلِ الإسلامِ لا تُعبدُ في الأرض(صحيح مسلم:1763)
ترجمہ: اے اللہ ! مسلمانوں کی یہ جماعت اگر ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ ہوگا۔
رب نے دعا قبول کرلی اور قرآن کی آیت نازل کرکے نصرت کی بشارت سنائی ۔
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (الانفال:9)
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔
آج ہماری دعاؤں کی عدم قبولیت میں تین عوامل کا زیادہ دخل ہے ، اخلاص کا فقدان، بدعملی اور حرام معیشت ۔ ان تین منفی عوامل کو دور کردیا جائے تو دعائیں بلاشبہ قبول ہوں گی۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ غیراللہ سے امداد طلب کرتا ہے جو سراسر شرک ہے ، اس حال میں مرنا موجب جہنم ہے ۔ دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لئے ہے ، آج مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ نے(جن کی اکثریت ہے) مشرکوں کی طرح غیراللہ کی پکار لگاکے دنیا سے امن وامان اور نصرت الہی کو روک رکھا ہے۔ ایسے گمراہ مسلمانوں کی اصلاح قلیل سچے مومن کے سر ہے ۔
(4) نماز : رب کی خالص عبادت مومن کی زندگی اور مقصد حیات ہے ،اس دعوت کولے کرتمام انبیاء آئے، نبی ﷺ نے مکی دور میں جوتیرہ سال پر محیط پر اسی دعوت پہ کڑی محنت کی ۔ نماز مومن سے کسی بھی حال میں معاف نہیں ،میدان جنگ میں جہاں ایک لمحہ دوسری جانب التفات کا موقع نہیں نماز کے وقت میں نماز قائم کرناہے یعنی وقت نماز کو بھی مؤخر نہیں کرسکتے اور کیونکر معاف ہو یہ تو مقصد حیات ہے ۔ نبی ﷺ فرائض کے علاوہ سنن کی ادائیگی اس قدر کرتے کہ پاؤں میں ورم آجاتا۔ آپ ﷺ ہرپریشان کن معاملہ میں نماز کا سہارا لیتے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مصائب کے مواقع پر نماز کا حکم ہے، بارش کی نماز، سورج اور چاند گرہن کی نماز، اور زلزلہ کی نماز وغیرہ۔
لہذا ہم نماز کے ذریعہ رب سے استغاثہ کریں ۔ اللہ کا حکم ہے : وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرة:45)
ترجمہ: اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو ،یہ چیز شاق ہے مگر ڈرنے والوں پر۔
(5) صبر: مصائب پر صبرکرنے سے بھی اللہ کی مدد آتی ہے ،جزع فزع کرنا نصرت الہی کے منافی ہے ۔ اس سلسلے میں صبر ایوب اعلی نمونہ ہے ۔ جو مومن صبر کے ساتھ رب ہی کو پکارتاہے اور اسی سے امداد طلب کرتا ہے اسے اللہ تعالی ہربلا سے نجات دیتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اللہ لگا رہتا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ(البقرۃ:153)
ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو،اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔
(6) اللہ ہی پر توکل : انسان بے صبرا ہے ، تھوڑی سی مصیبت آتی ہے گھبرا جاتا ہے اور رب سے نجات مانگنے کی بجائے غیروں سے امداد طلب کرنے لگ جاتا ہے اور اسی پر توکل کربیٹھتاہے ۔ اگر کوئی مصیبت غیراللہ کے درپرجانے سے ٹھیک ہوجائے تو اعتماد میں مزید پختگی آجاتی ہے اور دوسروں کو بھی غیراللہ کے درپر جانے کی دعوت دیتاہے ۔ یہاں ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ جو بھی جس دربار پہ بھی جائے اور جس سے بھی مانگے دینے والا صرف اللہ ہے ، آپ قبر پہ سوال کرکے یہ نہ سمجھیں ہمیں قبر والے نے دیا ہے ، دیتا تو اللہ ہی ہے چاہے آپ جائز طریقے سے مانگیں یا ناجائز طریقے سے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جائز طریقے سے مانگنے سے اللہ بخوشی دیتا ہے اور ناجائز طریقے سے مانگنے سے کبھی کبھی اللہ دے تو دیتا ہے بدلے میں اس کا ایمان چھین لیتا ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو لوگ پتھروں سے مانگتے ہیں ، مورتی بناکراس سے مانگتے ہیں ، ان کی بھی عقیدت یہی ہوتی ہے کہ ہمیں مورتیوں نے دیا ہے ۔
مسلمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے ،یہ عبادت کے قبیل سے ہے اور توکل نصرت الہی کا سبب ہے ۔
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا ،اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ رب کا فرمان ہے : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران:159)
ترجمہ: پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالی پر بھروسہ کریں ، بیشک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سےمحبت کرتا ہے ۔
یہ چند مثبت عوامل تھے جن سے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگی میں اللہ کی نصرت وتائیدحاصل ہوتی ہے ۔ نیز منفی عوامل سے گریزکرنا پڑے گا جن کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں مشکل ہے ۔ بطور خلاصہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم شرک وبدعت، فسق وفجور، اعمال قبیحہ ، فتنہ وفساد، ظلم وفساد، کفرونفاق اور حرام خوری(رشوت، سود، غبن، چوری، حرام پیشہ)وغیرہ سے بچیں اور اسلام کے سایہ تلے زندگی بسر کریں یعنی دین کو پوری طرح قائم کریں ،اللہ کا وعدہ ہے وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (محمد:7)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین ) کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
اجتماعی زندگی میں فتح ونصرت کے لئے مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ مزید چند کام کرنے کی ضرروت ہے۔ ان میں سے ایک تمام مسلمانوں میں اتحاد(افتراق سے دوری)،دوسرا باہم مشاورت،تیسرامادی وسائل کی فراہمی (مجرب لشکر،جدید اسلحے، کارگردفاعی قوت) ،چوتھاعملی اقدام(جمود کا سدباب) اور پانچواں مسلک پرستی کاخاتمہ بالفاظ دیگر شریعت الہیہ کا نفاذ۔
سوچنے کا مقام ہے آج امریکہ پچاس ریاستوں کو ملاکر سپرپاور بناہواہے جبکہ ہمارے پاس 57 مسلم ممالک ہیں ہم کیوں نہیں سپرپاور؟ جبکہ مادی قوت کی بھی ہمارے پاس کمی نہیں۔
یاخیرالناصرین! قدم قدم پر تیری نصرت وتائیدکی ضرورت ہے تو ہمیں اپنی نصرت سے نوازدے، مسلم قوم ظالموں کے نرغے میں ہیں غیبی مدد کے ذریعہ توان کی حفاظت فرما اور دنیا میں دوبارہ ہمیں کافروں پرغلبہ دے ۔آمین
مکمل تحریر >>

Thursday, December 29, 2016

دفن کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا

دفن کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا
=============
مقبول احمد سلفی

میت کی تدفین کے بعد قبر پر پانی  ڈالنا مستحب ہے، اس سلسلے میں متعدد احادیث ملتی ہیں ۔ نبی ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ کی قبر پر پانی ڈالا، اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر بھی پانی چھڑکا۔ اسی طرح عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہا کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم دیا۔ بلال بن رباح نے نبی ﷺ کی قبر پہ پانی چھڑکا تھا۔ اس قسم کی روایات ملتی ہیں ۔ ان ساری روایتوں کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا تھا ،بعد میں ایک صحیح روایت ملی توشیخ نے  کہا:
في رش القبر أحاديث كثيرة ، ولكنها معلولة - كما بينت ذلك في "الإرواء" (3/205 - 206) . ثم وجدت في "أوسط الطبراني" حديثاً بإسناد قوي في رشه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لقبر ابنه إبراهيم ، فخرجته في "الصحيحة" (3045) " انتهى من " سلسلة الأحاديث الضعيفة " (13/994) .
ترجمہ: قبر پر پانی چھڑکنے سے متعلق بہت احادیث ملتی ہیں مگر کوئی بھی علت سے خالی نہیں جیساکہ میں نے ارواء الغلیل میں بیان کیا ہے ۔ پھر میں نے طبرانی اوسط میں ایک حدیث پائی جو قوی سند سے ہے ،وہ ہے نبی ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا تھا۔ تو میں نے اس حدیث کی تخریج سلسلہ صحیحہ میں کی ۔ (حوالہ : سلسلہ ضعیفہ :13/994)
طبرانی اوسط کی روایت یہ ہے :
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم رش على قبر ابنه إبراهيم‏.‏(رواه الطبراني في الأوسط)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا۔
اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے۔
اس روایت کے متعلق ہیثمی نے کہا کہ اس کے سارے رجال صحیحین کے ہیں سوائے شیخ طبرانی کے ۔
اس لئے یہ کہا جائے گا کہ قبر پر پانی چھڑکنا مستحب و مسنون ہے، اس جانب بہت سے اہل علم بھی گئے ہیں ان میں شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ بھی ہیں ۔

قبر پر پانی چھڑکنے سے متعلق چند مسائل
قبر پر پانی چھڑکنے سے متعلق چند باتیں دھیان میں رکھنا ضرروی ہیں ۔
(1) قبر پر پانی چھڑکنا دفن کے فوراً بعد ہو تاکہ پانی چھڑکنے کے جو فوائد ہیں وہ حاصل ہوسکیں ۔ پانی چھڑکنے کے چند فوائد یہ ہیں ۔
٭ دھول مٹی بیٹھ جائے ۔
٭ ہوا کے جھونکھوں سے قبر کی حفاظت ہو۔
٭ میت سے آنے والی بدبو کو روک سکے کیونکہ ہوسکتا ہے کسی درندہ کو یہ محسوس ہو اور وہ میت کو چیرپھاڑ کرے۔
(2) دفن کے بعد پانی ڈالنا ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے ، نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں ۔
(3) بعض لوگ ہر زیارت کے وقت قبر پہ پانی ڈالتے ہیں یہ بدعت ہے ۔
(4) بعض لوگ پانی کے ساتھ قبر کی لپائی پوتائی کرتے ہیں ، اس پر پھول چڑھاتے ہیں ، اگربتی جلاتے ہیں ، ٹہنیاں گاڑتے ہیں ، یہ سارے ناجائز اعمال ہیں ۔ ان سے بچیں۔
(5) کچھ لوگ پانی کے ساتھ قبر پرپرندوں کے لئے دانہ ڈالتے ہیں ، ممکن ہو اس عمل سے میت کو صدقہ کا ثواب پہنچانے کی نیت ہو یہ بھی مردود عمل ہے ۔
(6) بعض لوگ خاص مواقع پر پانی ڈالتے ہیں مثلا عاشوراء،ربیع الاول ، رجب اور پندرہویں شعبان وغیرہ پہ ایسا کرتے ہیں سو یہ بھی بدعت ہے کیونکہ پانی ڈالنے کا کوئی وقت متعین نہیں ہے ۔
(7) اگر مٹی دھنس جائے اور لاش نظر آنے یا اس کی اہانت کا اندیشہ ہو تو بعد میں بھی مٹی ڈال کر پانی چھڑکا جاسکتا ہے ۔
(8) بدعتیوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ قبر پر پانی چھڑکنے سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے یا اس کو ٹھنڈک ملتی ہے ۔ یہ سراسر باطل عقیدہ ہے ،اس عقیدہ سے مسلمان توبہ کرے ۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, December 28, 2016

غموں کو دور کرنےسے متعلق ایک جھوٹی دعا


غموں کو دور کرنےسے متعلق ایک جھوٹی دعا
===============
مقبول احمد سلفی

لوگوں میں غم دور کرنے کے متعلق ایک دعا بہت گردش کررہی ہے ۔ وہ دعا اس طرح سے ہے ۔
"يا فارج الهم، ويا كاشف الغم، فرِّج همي, ويسِّر أمري, وارحم ضعفي، وقلَّة حيلتي, وارزقني من حيث لا أحتسب يا ربِّ العالمين"
ترجمہ: اے اللہ ! مشکلات کو دور کرنے والے اور بادل کو ہٹانے والے ، میرے غم کو دور کردے ، اور میرے معاملہ کو آسان کردے ،  میری کمزوری اور میرے وسائل کی کمی پر رحمت فرما ، اور مجھے ایسی جگہ سے عطا فرما جہاں سے میں گمان بھی نہ کروں، اے سارے جہاں کے پالنہار۔
اس میں یہ بھی ہے کہ جو اس دعا کو پڑھے اور دوسروں کو پہنچائے اللہ اس کے غموں کو دور کردیتا ہے ۔
اصل میں یہ حدیث ہی نہیں ہے، جھوٹی بات گھڑ کر نبی ﷺ کی طرف منسوب کردی گئی ہے۔ جو بات نبی ﷺ کی نہ ہو اسے آپ کی طرف منسوب کرنا موجب جہنم ہے ۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرمارہے تھے :
إنَّ كذبًا عليَّ ليس ككذِبٍ على أَحَدٍ ، من كذبَ عليَّ متعمدًا فليتبوَّأْ مقعدَهُ من النارِ (صحيح البخاري:1291)
ترجمہ: میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے جو شخص بھی جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
آج کل سوشل میڈیا پر اس طرح کی جھوٹی باتیں کافی نشر کی جاتی ہیں ، آپ کا یہ عذر پیش کرنا مقبول نہ ہوگا کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا اس لئے شیئر کردیا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ کوئی بات ہمارے پاس آئے تو پہلے اس کی تحقیق کریں یعنی علماء سے اس بابت معلوم کریں ، صحیح ہے تبھی شیئر کریں ورنہ غلط باتیں یا وہ باتیں جن کی آپ نے تحقیق نہ کی ہوں انہیں کہیں شیئر نہ کریں  اور اللہ کا خوف کھائیں ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : كفى بالمرءِ كذبًا أن يُحَدِّثَ بكلِّ ما سمِع(مقدمہ صحیح مسلم)
ترجمہ: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات یعنی بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دے۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ بغیر تحقیق کے کوئی بات دوسروں کو شیئر نہیں کریں۔
مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ غموں کو دور کرنے سے متعلق بہت ساری صحیح حدیث موجود ہیں تو پھر آدمی جھوٹی حدیث کا سہارا کیوں لیتا ہے اور کیوں اس قدر اسے شیئر کرتا ہے ؟ مجھ سے سیکڑوں بار اس سے متعلق پوچھا گیا، میں مختصرا کہہ دیا کرتا  یہ صحیح نہیں ہے ، آج کچھ تفصیل ذکر کردیاہوں تاکہ باربار لکھنا نہ پڑے اور دوسروں کو اس کے متعلق باخبر کیا جاسکے ۔
غم کو دور کرنے کی چند صحیح دعائیں :
(1) اللَّهمَّ إنِّي عَبدُك ، وابنُ عبدِك ، وابنُ أمتِك ، ناصِيَتي بيدِكَ ، ماضٍ فيَّ حكمُكَ ، عدْلٌ فيَّ قضاؤكَ ، أسألُكَ بكلِّ اسمٍ هوَ لكَ سمَّيتَ بهِ نفسَك ، أو أنزلْتَه في كتابِكَ ، أو علَّمتَه أحدًا من خلقِك ، أو استأثرتَ بهِ في علمِ الغيبِ عندَك ، أن تجعلَ القُرآنَ ربيعَ قلبي ، ونورَ صَدري ، وجَلاءَ حَزَني ، وذَهابَ هَمِّي ( صحيح الترغيب:1822)
ترجمہ: اے میرے اللہ ! میں تیرا بندہ ، تیرے بندے کا بیٹا ، تیری بندی کا بیٹا ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ،تیرا حکم مجھ پر جاری و ساری ہے ، میرے متعلق تیرا فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ میں تجھ سے تیرے سب اسماءِ حسنیٰ (کے وسیلے) سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات کے لئے رکھے ، یا کسی کتاب میں نازل کئے ، یا کسی مخلوق کو سکھائے یا اپنے پاس ہی رکھنے پسند کئے ، تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور سینے کا نور بنا دے اور اسے میرے غم و اندوہ کا مداوا بنا دے۔۔
جو یہ کلمات کہے کبھی اسے کوئی غم اور کوئی مایوسی لاحق نہیں ہوگی ۔
(2) اللهمَّ إني أعوذُ بك منَ الهمِّ والحزَنِ ، والعَجزِ والكسلِ ، والبُخلِ والجُبنِ ، وضلَعِ الدَّينِ ، وغلبَةِ الرجالِ( صحيح البخاري:2893)
ترجمہ: اے اللہ، میں غم او ر حزن سے، عاجزی اور کسل مندی سے، بخیلی اور بزدلی سے، قرض کی کثرت اور قرض داروں کے دباؤ سے تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں۔
(3) لا إلهَ إلا اللهُ العظيمُ الحليمُ، لا إلهَ إلا اللهُ ربُّ العرشِ العظيمِ، لا إلهَ إلا اللهُ ربُّ السماواتِ وربُّ الأرضِ، وربُّ العرشِ الكريمِ(صحيح البخاري:6346)
ترجمہ: نہیں ہے کوئی معبود برحق مگر اللہ وہ اکیلا ہے نہیں کوئی شریک اس کا ،اسی کی بادشاہت ہے اوراسی کے لیے ہر تعریف، اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
نبی ﷺ اسے غم کے وقت پڑھاکرتے تھے ۔
(4) اللَّهمَّ رحمتَك أَرجو فلا تَكِلني إلى نَفسِي طرفةَ عينٍ ، وأصلِح لي شَأني كلَّه لا إلَه إلَّا أنتَ(صحيح أبي داود:5090)
ترجمہ: اے اللہ میں تیری ہی رحمت کی امید کرتا ہوں، مجھے لحظہ بھر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر، میری مکمل حالت درست فرمادے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, December 27, 2016

جان ومال میں برکت سے متعلق ایک ذکر کا حکم

جان ومال میں برکت سے متعلق ایک ذکر کا حکم
=================
مقبول احمد سلفی

جان و مال میں برکت کے لئے یہ کلمات کہے جاتے ہیں :
((تَوَكَّلْتُ‏ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لا يَمُوتُ‏ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَداً وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً))
ترجمہ: بھروسہ اس ذات پر جو زندہ ہے، جسے موت نہیں آئے گی اور تعریف اس اللہ کی جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ حکومت میں اس کا کوئی شریک ہے اور ذلت کے موقع پر اس کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے اور اسی کی بڑائی بیان کرو۔

یہ کلمات ایک حدیث میں وارد ہیں وہ حدیث متن و ترجمہ کے ساتھ نیچے درج کیا جاتا ہے ۔
عن أبي هريرة قال : خرجت أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم ويدي في يده ، فأتى على رجل رث الهيئة ، فقال : " أي فلان ، ما بلغ بك ما أرى ؟ " . قال : السقم والضر يا رسول الله . قال : " ألا أعلمك كلمات تذهب عنك السقم والضر ؟ " . قال : لا قال : ما يسرني بها أن شهدت معك بدرا أو أحدا . قال : فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال : " وهل يدرك أهل بدر وأهل أحد ما يدرك الفقير القانع ؟ " . قال : فقال أبو هريرة : يا رسول الله ، إياي فعلمني قال : فقل يا أبا هريرة : " توكلت على الحي الذي لا يموت ، الحمد لله الذي لم يتخذ ولدا ، ولم يكن له شريك في الملك ، ولم يكن له ولي من الذل ، وكبره تكبيرا " . قال : فأتى علي رسول الله وقد حسنت حالي ، قال : فقال لي : " مهيم " . قال : قلت : يا رسول الله ، لم أزل أقول الكلمات التي علمتني .
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا ، میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا کہ ایک برا حال شخص سے ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا بات ہے؟ ایسی حالت کیوں ہے؟ اس نے کہا تنگدستی اور امراض کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم کو ایسے کلمات نہ بتادوں کہ تم ان کو پڑھو تو تنگدستی اور بیماری دور ہو جائے۔ تواس نے کہا نہیں ، کہاکہ مجھے اس بات سے آسانی نہیں ہے کہ میں آپ کے ساتھ بدر اور احد میں شریک رہا۔ تو آپ ﷺ ہنسے اور فرمایا: وہ کیا پریشانی اہل بدر اور اور اہل احد کو لاحق ہوئی جو قناعت کرنے والے فقیر کو لاحق ہوتی ہے ؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول!وہ کلمات ہمیں بھی سکھا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑھو:
"تَوَ کَّلتُ عَلَی الحَیِِّ الَّذِی لَایَمُوتُ وَالحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَم یَتَّحِذ وَلَدًا وَّلَم یَکُن لَّہ شَرِیک فِی المُلکِ وَلَم یَکُن لَّہ وَلِیّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبّرِہُ تَکبِیرًا"
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی اس حال میں کہ میری حالت اچھی ہوگئی تھی ۔ تو آپ نے مجھ سے پوچھا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں اس دن  سےوہ کلمات پڑھ رہاہوں جو آپ نے مجھے سکھایا تھا۔

اس حدیث میں "والحمد للہ" سے لیکر آخر تک قرآن کی آیت ہے جو سورہ اسراء آیت نمبر 111 ہے ، بس اس حدیث میں واؤ کے بعد قل کا لفظ نہیں ہے۔ اس آیت کو آیت العز کہا جاتا ہے۔
تخریج وحکم :
٭اس حدیث کو ابویعلی (6671) اور ابن السني (546) نے بیان کیا ہے ۔
٭ اس روایت کو علامہ ابن کثیر نے ذکرکرکے کہا اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں نکارت ہے ۔(تفسير القرآن: 5/129 )
٭ اس کی سند میں موسی بن عبیدۃ ہیں جوکہ بہت ضعیف ہیں ، اسے حافظ ابن حجر نے بھی ضیعف کہا ہے۔ (المطالب العالية:2/ 335).
٭ ہیثمی نے بھی اس کے راوی موسی بن عبیدۃ الربذی کو ضعیف کہا ہے ۔(مجمع الزوائد: 7/55)
٭ بوصیری نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے ۔ (إتحاف الخيرة المهرة:7/441)
٭ اس ذکر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے بلکہ معضل کہا جو مرسل اور منقطع سے بھی زیادہ ضعیف ہوتی ہے ۔ (ضعيف الترغيب للالبانی : 1153)

خلاصہ یہ ہے کہ ذکر کے یہ کلمات نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ۔

واللہ اعلم


مکمل تحریر >>

Monday, December 26, 2016

مسلمانوں کے موجودہ حالات –اسباب وعلاج

مسلمانوں کے موجودہ حالات –اسباب وعلاج
تحریر:مقبول احمد سلفی
داعی/اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

مسلمانوں کی موجودہ صورت حال بیحد افسوس ناک اور ناقابل تحریر ہے ۔ ہرجگہ مسلمان ظلم وزیادتی، خوف ودہشت، قتل وفساد، جبروتشدداورذلت وپستی کے شکار ہیں۔ کہیں پر داڑھی رکھنے پر پابندی، کہیں پراذان پر پابندی، کہیں پر تعمیرمسجدومدرسہ پر پابندی، کہیں پر حجاب پر پابندی، کہیں پر اسلامی ادارہ پر پابندی ،کہیں پر اسلامی فنکشن پر پابندی تو کہیں پر اسلامی قانون واسلامی شعائر پر پابندی پائی جاتی ہے گویا ہم اپنی پستی کی وجہ سے  چہار دانگ عالم میں مظلوم ومقہور ہیں ۔ان حالات سے نمٹنے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے کوئی عالمی اقدام نہیں ۔ یہ سب سے حیرت ناک ہے ۔
آج سے چند سالوں پہلے ہماری اپنی  الگ پہچان، اپنا الگ رعب ودبدبہ، اپنی الگ شان وشوکت ، اپنی الگ بے مثال زندگی  اور اپنا الگ خاص اسلامی طرہ امتیاز تھا۔کس قدر روشن اور تابناک تھا ہمارا ماضی ؟ کس قدر عروج پر ہم تھے؟ کیا ہی شان وشوکت تھی؟ کیا عظمت وسطوت تھی ؟ سب چلی گئی ۔اب چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا، پستی ہی پستی، ناکامی ہی ناکامی ، افسوس ہی افسوس، فریاد ہی فریاد۔
آخر کیا وجہ ہے کہ آج ذلت وپستی کے اس عمیق غار میں گرپڑے ہیں؟ وہ کون سے اسباب وعوامل ہیں جن کی وجہ سے ہماری یہ گت بنی ہوئی ہے ؟ گہرائی سے جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اپنے کئے کرائے کا نتیجہ ہے جنہیں چند نکات میں نیچے بیان کیا جاتا ہے ۔
ہماری ذلت وپستی کے اسباب
 (1) ترک قرآن :   قرآن نوروہدایت اور کامیابی وکامرانی کا سرچشمہ ہے ،اس کا ترک ہرقسم کی ذلت وناکامی کا سبب ہے آج ہماری پستی کی سب سے اہم وجہ قرآن کو ترک کردینا ہی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے : وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً ( الفرقان: 30).
ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے ،یہ بھی ہجران ہے ، اس پر ایمان نہ لانااور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غوروفکر نہ کرنااور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے ۔اسی طرح اس کو چھوڑ کرکسی اور کتاب کو ترجیح دینا ،یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑدینا ہےجس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے ۔(تفسیر احسن البیان)
ابن القیم  رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہجر قرآن کی چند اقسام ہیں ۔
٭ قرآن کو سننے اوراس پر ایمان لانے کو ترک کردینا
٭ قرآن پر عمل اورحلال وحرام کی جانکاری چھوڑدیناگرچہ اس کو پڑھتاہواور اس پر ایمان بھی لاتا ہو۔
٭  قرآن کو فیصل بناناترک کردینااور دین کے اصول وفروع میں اس سے فیصلہ ترک کردینا اور  اعتقاد رکھنا کہ  یہ یقین کا فائدہ نہیں دے گااور اس کے لفظی دلائل سے علم حاصل نہیں ہوگا۔
٭  قرآن میں فہم وتدبر کرنےاور اس کی معرفت  حاصل کرنے کو ترک کردینا
٭  ہر قسم کے قلبی امراض میں اس سے شفا اور علاج ترک کردینا اور غیروں سے بیماری میں شفا طلب کرنا اور قرآن سے علاج ترک کردینا۔
یہ پانچوں قسمیں قرآن کی مذکورہ آیت میں داخل ہیں ۔(الفوائد لابن القیم)  
(2) ایمان سے محرومی : اللہ تعالی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اگر تمہارے پاس ایمان رہا تو تم غالب رہوگے ۔ آخ ہماری پسپائی اس بات پہ غمازہے کہ ہم  ایمان سے محروم ہوگئے ۔اللہ کا فرمان ہے : وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران:139)
ترجمہ: تم نہ سستی کرواور نہ غمگین ہو ، تم ہی غالب رہوگے اگرتم ایمان والے رہو۔
اللہ تعالی اس آیت میں صحابہ کو خطاب کررہاہے کہ جنگ احد میں جو نقصان تمہیں لاحق ہوا اس سے غم نہ کھاؤ،اگر تم ایمان والے رہے تو تم ہی غالب رہوگے ۔ آج ہم کہنے کوتو مسلمان ہیں مگر ایمان کے تقاضے پورے نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے ذلت وخواری ہمارا مقدر بن گئی ۔
ایک چھوٹی سورت میں  اللہ نے کامیابی کے چار صفات ذکر کئے ہیں ،ان میں سے پہلی صفت ایمان ہے ۔
وَالْعَصْرِ ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ( العصر:1-3)
ترجمہ: بيشک سارے انسان گھاٹے میں ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور جنہوں نے آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی ۔
اگر ہم ان چاروں صفات (ایمان،عمل، دعوت،صبر)کو جمع کرلیں تو ہرقسم کی ناکامی ، ذلت اور ظلم سے بچ سکتے ہیں ۔
(3) اللہ کےا حکام اور سنت رسول کی نافرمانی : اللہ کی رحمت سے دوری کا ایک اہم سبب احکام اللہ اور احکام رسول سے روگردانی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ، كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (المائدۃ:78-79)
ترجمہ: نبی اسرائیل کے کافروں پر داؤد علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی ،اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے ، جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا تھا۔
آیت بتلارہی ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے لعنت کی وجہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنا ہے ۔آج کے مسلمانوں میں بھی بنی اسرائیل کی یہ صفات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالی کے غضب کے شکار ہوگئے اور رحمت الہی سے محروم کردئے گئے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (محمد:7)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
یہاں اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد کرنا ہے یعنی ہم اللہ کے دین پر چلیں گے تو اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا، کافروں پر غلبہ دے گا اور مصیبت وپریشانی سے نجات دے گا۔
(4) مسلک پرستی :  مسلکی اختلاف نے ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا بلکہ یہ کہیں جسم مسلم کو کاٹ کاٹ کر الگ کردیا۔ ہمارا سر الگ اور دھڑ الگ ہے ۔دشمنوں کے ہتھکنڈوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جس قدر مسلک پرستی نے دین اسلام اور قوت مسلم کوپہنچا۔ ایک دوسرے کو کافر قراردینا، ایک دوسرے مسلمان سے شادی بیاہ ، لین دین اور قطع تعلق کرنا، ایک دوسرے کو نیچااور غلط ثابت کرنے کے لئے تلوارونیزے اٹھانا  بلکہ کافروں سے بدترسلوک کرناآپس میں اس قدر شدید ہے  کہ یہودیت ونصرانیت کی دشمنی  ماندپڑگئی ۔ الحفظ والاماں
جب مسلمانوں میں متعدد فرقے پیدا ہوجائیں اور ہرفرقے کا مقصد اپنے خاص مسلک کی ترویج واشاعت اور دوسرے مسلک پر کیچڑ اچھالنا،اس کی توہین کرنا ہوتوپھر مسلمانوں میں خیروبھلائی ، اتحاداتفاق ، اخوت ومحبت  اور عظمت وسطوت کہاں سے ہوگی ؟  مسلک پرستی کی بیماری نے ہماری صفوں میں دراڑ پیدا کردیا، بھائی کو بھائی سے الگ کردیا، آپس میں ایک دوسرے کو دشمن بنادیا، مسلم قوم کی عظمت کو تارتار اور رعب ودبدبہ کو پارہ پارہ کردیا اورقوت دین اسلام کو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔
 (5) دنیا سے محبت : دنیا کی محبت نے ہمیں دین سے غافل کردیا، مقصد حیات بھلادیااورموت کا ڈر دل میں پیدا کردیا۔بے ایمانی، رشوت خوری، حرام کاری، قماربازی، شہوت رانی، کالابازاری ، جہل ونادانی ، کفروعصیاں اور دولت کی کثرت سے عیش وشہوت کی زندگی ہمارا مشغلہ بن گیا۔ یاد رکھیں جب تک دل سے دنیا کی محبت دور نہ ہوگی ہمارے اندر سے مذموم صفات کا خاتمہ ناممکن ہے ۔
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يُوشِكُ الأممُ أن تداعَى عليكم كما تداعَى الأكَلةُ إلى قصعتِها . فقال قائلٌ : ومن قلَّةٍ نحن يومئذٍ ؟ قال : بل أنتم يومئذٍ كثيرٌ ، ولكنَّكم غُثاءٌ كغُثاءُ السَّيلِ ، ولينزِعنَّ اللهُ من صدورِ عدوِّكم المهابةَ منكم ، وليقذِفَنَّ اللهُ في قلوبِكم الوهْنَ . فقال قائلٌ : يا رسولَ اللهِ ! وما الوهْنُ ؟ قال : حُبُّ الدُّنيا وكراهيةُ الموتِ(صحيح أبي داود:4297)
ترجمہ: قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے،لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ''وہن'' ڈال دے گا، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے ۔
شام، مصر،لبنان، عراق، فلسطین ،لیبیااور برما  وغیرہ کے حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کا مذکورہ فرمان صادق آرہا ہے۔ ایسا نہیں ہیں کہ ہم کمزور ہیں یا ہماری تعداد کم ہے بلکہ ہمارے اندر دنیا کی محبت پیدا ہوگئی جس نے دین سے غافل کردیا ، کثرت کے باوجود ہماری طاقت ختم ہوگئی اور ہم ریزہ ریزہ ہوگئے۔  
موجودہ صورت حال کا علاج
ان کے علاوہ بھی دیگر وجوہات ہیں ان میں یہی پانچوں سب سے اہم ہیں ۔ اگر ہم پھر سے اپنی عظمت رفتہ بحال کرنا چاہتے ہیں اور ذلت ورسوائی ختم کرنا چاہتے تو مذکورہ بالا کمزوریوں کی اصلاح کرنی پڑے گی اور ساتھ ساتھ دشمنوں سے نمٹنے ، ان کے ظلم کا خاتمہ کرنے ، ان پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے لئے تین اہم کام کرنے ہیں ۔
(1) سب سے پہلے ہمیں اپنے حالات کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا اور جن کمزوریوں کی وجہ سے نقصان اٹھارہے ہیں انہیں دور کرنا ہوگاکیونکہ اللہ کا فرمان ہے :
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ (الشوری :30)
ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمادیتا ہے ۔
اس لئے اپنے اعمال کا جائزہ لےکر غلطی کی اصلاح کرنی ہے ، ساتھ  ہی یہ بات دھیان میں رہے کہ دین سے لاتعلقی تمام مصائب ومشکلات کی جڑ ہے ۔ آج ہماری مایوسی، آلام، مظالم، قتل وخون، ہرپریشانی کا سبب دین سے بیزاری اور لاتعلقی ہے ۔ ہمارے سامنے اس کی  قرآنی مثال  موجودہے جب بنی اسرائیل نے دین سے تغافل برتااور زمین میں فتنہ وفساد مچایا تو اللہ تعالی نے اس پر مجوسی کافروں کو مسلط کردیا جنہوں نے اس پر بیحد مظالم ڈھائے اور گھروں میں تباہی مچادی ۔ تو ہمیں بھی بنی اسرائیل کی اس مذموم صفت سے جو اس کی تباہی کا سبب بنی بچنا ہوگا اور دین اسلام سے گہرا تعلق پیدا کرنا ہوگا۔ صرف نام کے مسلمان بن کر دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے چہ جائیکہ ہاتھ میں توپ وبندوق ہو ، اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہمارے اندر" اصل اسلحہ "ایمانی قوت وطاقت موجود ہو۔
(2) اپنے حالات کو بہتر بنانے اور ظالموں سے مقابلہ کے لئے ہمیں بہترین فوج ، بہترین اسلحہ (زمانے کے لحاظ سے) اور کارگر قوت مدافعت کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے کلام سے ان باتوں کا اشارہ ملتا ہے ۔ فرمان الہی ہے : وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ( الانقال : 60)
ترجمہ: تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ تعالی کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ تعالی انہیں خوب جانتا ہے۔
نبی ﷺ کے زمانے میں جنگوں میں تیروتلوار، نیزے اور گھوڑے استعمال ہوتے تھے ، ابھی کی قوت وطاقت توپ ، بم ، ٹینک ، میزائل ، بندوق اور ماہر فوجی و جنگی طیارے وغیرہ ہیں ۔مقابلہ کے لئے ایمانی قوت کے ساتھ دنیاوی طاقت بھی چاہئے ۔
(3) ایک تیسرا اہم کام سارے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے ۔ جب تک ہم ایک نہیں ہوں گے پسپائی ہی مقدر ہوگی ۔ قوت وطاقت اور کامیابی وکامرانی کا راز اتحاد واتفاق میں مضمرہے ۔ اس بات کا اندازہ ایک چھوٹی سی مثال  سے لگاسکتے ہیں کہ ایک آدمی ایک لکڑی کو بآسانی توڑ سکتا ہے لیکن جب لکڑیوں کو جمع کرکے توڑے تو نہیں توڑسکتا  کیونکہ اب لکڑیاں متحد ہوگئیں۔ اسی لئے اللہ تعالی نے ہم سب کو مجتمع ہونے کا حکم دیا ہے ۔ فرمان رب العالمین ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران: 103)
ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ بازی نہ کرو۔
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں متعدد فرقے ہیں ان سارے فرقوں کو کیسے جمع کیا جائے ؟ واقعی یہ ایک دشوارکن مرحلہ ہے لیکن اس کا طریقہ  اور حل ہے ۔
اولا : آپسی تنازعات کو ختم کریں کیونکہ جب آپس میں ہی ہم ایک دوسرے کے دشمن رہیں گے تو ہمارے اصل دشمن ہمیں میں سے آدمی خرید کر ہمارے خلاف استعمال کرے گا اور کر بھی رہے ہیں ۔ آپسی اختلاف کمزوری کی بڑی وجہ ہے ۔ اللہ نے ہمیں آپس میں تنازع کرنے سے منع کیا ہے :
وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ(الانفال: 46)
ترجمہ: اور آپس میں تنازع نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ثانیا : ہم سب ایک عقیدہ بنائیں جو قرآن و حدیث کا عقیدہ ہواس میں مسلک کا ، ذات کا ، کسی خاص فقہ کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ یعنی شریعت الہیہ سے ثابت شدہ عقائد پر ایمان لائیں اور اپنے تمام تر مسائل و امور میں شریعت کی طرف ہی التفات کریں جیساکہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء : 59)
ترجمہ: تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ اگر تمہیں اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے ۔
ثالثا: عقیدہ میں یکسانیت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا مشن وہدف ایک ہواور وہ ہے اعلائے کلمۃ اللہ ۔
ہمارے یہاں یہ تینوں خرابیاں پائی جاتی ہیں ، آپسی تنازعات شدید ہیں ، قسم کے قسم کے عقائد پائے جاتے ہیں اور ہم میں متعدد فرقے پائے جاتے ہیں جن میں سب کے اہداف ومقاصد مختلف ہیں ، کوئی تقلید کو ہوا دے رہاہے ، کوئی بدعات کی نشر واشاعت میں لگاہے تو کوئی صوفیت کو پھیلانا مقصد زندگی بنالیا ہے ۔
 مذکورہ  بالا تین  اہم کام  اگر ہم کرلیں تو پھر سے ہماری شان وشوکت بحال ہوسکتی ہے ، ذلت وپستی سے ابھرسکتے ہیں اور اللہ کی طرف سے رحمتوں ، نصرتوں ، برکتوں کا نزول ہوسکتا ہے  اور دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑے گی ۔

اے اللہ ہم سب کو ایک کردے، نیک بنادے اور دشمنوں پر غلبہ عطا فرما۔ آمین 
مکمل تحریر >>