Wednesday, November 30, 2016

مقتدی کیسے فاتحہ پڑھے ؟

مقتدی کیسے فاتحہ پڑھے ؟
============
مقتدی مندرجہ ذیل کسی طرح سے سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے ۔
٭ سکتات امام میں یعنی امام ایک آیت پڑھ لے تو مقتدی اسے پڑھے پھر امام دوسری آیت پڑھے تو مقتدی دوسری آیت پڑھے ۔مقتدی  اس طرح مکمل فاتحہ پڑھے ۔
٭ امام کے فاتحہ مکمل کرنے کے بعد مقتدی سورہ فاتحہ پڑھے ۔
٭ ایسا بھی کرنا درست ہے کہ مقتدی امام سے پہلے فاتحہ پڑھ لے تاکہ امام کے فاتحہ کی قرات بھی سننے کا موقع مل جائے ، اس عمل کا ثبوت اثر سے ملتا ہے ۔
ظاہر سی بات ہے یہ جہری نماز کے لئے ہے سری نماز میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔

کتبہ
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Tuesday, November 29, 2016

رشتہ داروں سے قطع تعلق –ایک سماجی قہر

رشتہ داروں سے قطع تعلق –ایک سماجی قہر
===================
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

یہ ایک اہم مسئلہ ہے ، لوگ آئے دن پوچھتے ہیں کہ میرے فلاں رشتے دار نے مجھ پہ زیادتی  کی ہے یا فلاں رشتہ دار کی طرف سے مجھے تکلیف پہنچ رہی وہ مجھ سے علیک سلیک بند کرچکے ہیں  بلکہ رشتہ بھی توڑچکے ہیں ۔صورت حال ایسی ہوکہ  رشتہ نبھانا مشکل ہو یعنی ایک طرف سے بیحد زیادتی ہے اس سے اپنی رشتہ داری کیسے نبھائی جاسکتی ہے یا یہاں ہمیں کیا کرنا چاہئے  ؟
یہ ایسے مسائل ہیں جن سے اکثر لوگ جوجھ رہے ہیں ، دراصل یہی مسائل گھروں کی تباہی ، گھریلوتنازعات، رشتے کے خون ، صلہ رحمی کےخاتمہ  اور فردوجماعت کی بربادی کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔
میں اپنی ناقص نظر سے یہ کہنا چاہتاہوں کہ ایسے مسائل میں اکثر یک طرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ زیادتی ہوتی ہے جو عام طور سے مشاہدے میں ہے اور منطق بھی یہی کہتی ہے کہ اگر ایک طرف سے ظلم وزیادتی ہو تو معاملہ شدت نہیں پکڑے گااور تنازع کی صورت نہیں اختیار کرے گا۔ اس کی مثال میں یہ واقعہ پیش کرنا سبق آموزہوگا۔
ساس وبہو کی نوک جھونک  کسے معلوم نہیں ۔ایک ساس ہمیشہ اپنی بہوکو کڑوی کسیلی کہا کرتی ، بہوروز ساس کی گالی اور طعنے سنا کرتی ۔ بہوایک دن مولوی صاحب کے پاس گئی اور کہی کہ ایسا کوئی تعویذ لکھ دیں جس سے ساس مجھے گالی نہ دے ۔ مولوی صاحب نے ایک تعویذ لکھ دیا اور کہا کہ جب ساس گالی دینے لگ جائے اس وقت یہ تعویذ منہ ڈال لینا اور کس کے منہ بند کرلینا ،خیال رہے منہ کھلنے نہ پائے ۔ بہو تعویذ لیکر گھر آگئی ۔ اب ہمیشہ کا معمول یہ تھا کہ ساس جب بھی گالی دینے لگ جاتی بہو منہ میں تعویذ لیکر منہ کو کس کے بند کرلیتی ۔ ایک دن ہوا، دو دن ہوا، روز بروز ساس کی گالیاں کم ہوتی گئیں ۔ یہاں تک کچھ دنوں کے بعد گالی نہ کے برابر تھی اور دھیرے دھیرے وہ گالی بھی ختم ہوگئی اور ساس وبہو میں الفت ومحبت پیدا ہوگئی ۔
کہیں میرے اس واقعہ سے یہ نہ سمجھ لیں کہ تعویذ نے اپنا کوئی اثر دکھایا /یا تعویذ استعمال کرنا  جائزہے ۔ نہیں یہاں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کوکوئی گالی دے اور آپ اپنا منہ بند رکھیں یعنی گالی کا جواب نہ دیں  تو معاملہ آگے نہیں بڑھے گا ، وہیں ختم ہوجائے گا۔
گالی گلوج دینا ، ظلم کرنا، کینہ کپٹ رکھنا، بغض وحسد کرنا، غرور وتمکنت کرنا، کسی کو حقارت سے دیکھنا، امیری پر اترانا، عہدہ ومنصب کا بڑکپن ظاہرکرنا، رشتہ داروں کو غریبی ، بیماری،یتیمی ، کم مائگی اور بے سروسامانی کی وجہ سے حقیر سمجھنا - یہ سب سماجی وبائیں ہیں  جو قہربن کر ہمارے سماج وسوسائٹی کے صالح عناصر کا خاتمہ کردیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسلام ان تمام باتوں سے روکتا ہے جن سے سماجی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مثالی معاشرہ کے لئے رکاوٹ بنتی ہیں۔ ہمیں اگر پاکیزہ اسلامی معاشرہ چاہئے تو وہاں سے مذکورہ وباؤں کو ختم کرنا ہوگا اور ان کی جگہ الفت ومحبت ، اخوت ومروت ، حسن ظن وحسن تعامل ، بلندکردارو پاکیزہ خیالات، صلہ رحمی و کنبہ پروری  ، اکرام واحترام ،نرمی وبردباری،احسان وسلوک ،انفاق وارمغان کو اپنانا،اوامرکی بجاآوری  کرنااور منہیات کا سد باب کرنا ہوگا۔
سماج میں صرف دوطرفہ ہی زیادتی نہیں ہے بلکہ بہت سی  یک طرفہ زیادتیاں بھی ہیں۔ ساس وبہو کے مسائل ، بھائی وبہن کے مسائل ،والدین کے مسائل ،زوجین کے مسائل ،  اولاد کے مسائل ، سسرالی مسائل ، گھریلومسائل ، رشتہ داروں کے مسائل ۔ ان مسائل میں بعض دفعہ ایک کی طرف سے دوسرے کے اوپر بہت زیادہ ظلم ہوتا ہے ، بلاکسی سبب کے زیادتی کی جاتی ہے ، دوسری طرف سے مکمل سکوت ہے ، کوئی جوابی کاروائی نہیں پھر بھی ایک طرف سے ستم بالائےستم ہوتے جارہاہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کوئی کتنا صبر کرے، صبر کی کیا انتہا ہے ؟ یا کیا ایسی صورت میں کسی رشتہ دار سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے ؟
میرا جواب یہ ہے کہ صورت حال کچھ بھی ہو اسلام نے اپنے رشتہ داروں سے کبھی بھی قطع تعلق کا حکم نہیں دیا ہے ۔ ہمارے رشتے دار ایک جسم کے مختلف اعضاء کی حیثیت سے ہیں ۔ اگر یہ الگ الگ ہوگئے تو جسم باقی نہیں بچے گا ٹکرا ٹکرا ہوجائے گا۔

آئیے ایک نظر رشتے داری سے متعلق اسلامی احکام دیکھتے ہیں ۔
اولا: اسلام نے ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیایعنی رشتہ داروں سے رشتہ قائم کئے رکھیں ۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ومن كان يؤمن بًالله واليوم الآخر فليصل رحمه (صحيح البخاري:6138)
ترجمہ: جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔

ثانیا: صلہ رحمی کی ترغیب کے ساتھ اجر کا وعدہ کیاگیا کیونکہ کبھی کبھار آدمی نفس کی پیروی میں آکر اپنے رشتہ داروں سے مقاطعہ کرلیتا ہے، ایسے لوگوں کو صبر اور ایذاء برداشت کرنے کا اجر نیکی کی طرف راغب کرے گا۔ اس سے متعلق بہت ساری احادیث ہیں چند ایک آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔
(1) نبی ﷺ نے فرمایا:
أَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ إيمانٌ بالله ، ثم صِلَةُ الرَّحِمِ ، ثم الأمرُ بالمعروفِ و النَّهيُ عن المنكرِ . (صحيح الجامع:166)
ترجمہ: اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اس پر ایمان لانا، پھرصلہ رحمی کرنا، پھر بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من سَرَّهُ أن يُبسطَ له في رزقِه ، أو يُنسأَ له في أَثَرِهِ ، فليَصِلْ رحِمَه( صحيح البخاري:2067)
ترجمہ: جو شخص اپنے رزق میں وسعت اور عمر میں اضافہ پسند کرے وہ صلہ رحمی کرے ۔
(3)ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن رجلًا قال للنبيِّ صلى الله عليه وسلم : أَخْبِرْني بعملٍ يُدْخِلُني الجنةَ . قال : ما له ؟ ما له ؟ وقال النبيُّ صلى الله عليه وسلم : أَرَبٌ ما له ! تَعْبُدُ اللهَ ولا تُشْرِكْ به شيئًا ، وتُقِيمُ الصلاةَ ، وتُؤْتِي الزكاةَ ، وتَصِلُ الرَّحَمَ .(صحيح البخاري:1396)
ترجمہ:ایک آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کیا ، آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ ( سنو ) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰة دو اور صلہ رحمی کرو۔

ثالثا: دوسری طرف جو لوگ صلہ رحمی نہیں کرتے ، رشتہ داریاں توڑتے ہیں انہیں ڈرایاگیا، سزائیں سنائی گئیں تاکہ دل میں خوف پیدا ہواور قطع تعلق سے رک جائے ۔
(1)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وأبغضُ الأعمالِ إلى اللهِ الإشراكُ باللهِ ثم قطيعةُ الرَّحِمِ( صحيح الجامع:166)
ترجمہ: اوراللہ کے نزدیک سب سے بُرا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔
(2)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما من ذنبٌ أجدرُ أن يُعجِّلَ اللهُ لصاحبِه العقوبةَ في الدنيا مع ما يدَّخِرُ له في الآخرةِ من البغيِ وقطيعةِ الرحمِ(صحيح ابن ماجه:3413)
ترجمہ: کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس کا کرنے والا دنیا میں ہی اس کا زیادہ سزا وار ہو اور آخرت میں بھی یہ سزا اسے ملے گی سوائے ظلم اور رشتہ توڑنے کے۔
(3)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ أعمالَ بَني آدمَ تُعْرَضُ كلَّ خميسٍ ليلةَ الجمعةِ ، فلا يُقْبَلُ عملُ قاطعِ رحمٍ(صحيح الترغيب:2538)
ترجمہ: اولاد آدم کے اعمال جمعرات کی شام اور جمعہ کو اللہ تعالیٰ کو پیش کئے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ رشتہ توڑنے والے شخص کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔
(4)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يدخلُ الجنةَ قاطعُ رحمٍ(صحيح مسلم:2556)
ترجمہ: جنت میں رشتہ توڑنے اور کاٹنے والا نہ جائے گا۔

رابعا: بشر ہونے کے ناطے انسان جذبات میں آسکتا ہے ، غصہ کے عالم میں کسی  سے رشتہ توڑ سکتا ہے ۔ اگر ایسا کبھی ہوجائے تو ایک مومن کو دوسرے مومن سے خواہ رشتہ دار ہوں یا عام مسلمان تین دن سے زیادہ قطع کلام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ قطع کلام اور قطع تعلق میں بہت فرق ہے ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی سے تین دن تک قطع کلام کرسکتے ہیں مگر قطع تعلق کبھی نہیں کرسکتے ۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحلُّ لمسلمٍ أن يَهْجرَ أخاهُ فوقَ ثلاثِ ليالٍ ، يلتقيانِ فيُعرِضُ هذا ويُعرِضُ هذا ، وخيرُهُما الَّذي يبدأُ بالسَّلامِ(صحيح مسلم:2560)
ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے رکھے وہ دونوں ملیں تو یہ اس طرف منہ پھیر لے اور وہ (اس طرف) منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔

خامسا: رشتہ توڑنا موجب جہنم ہے ،لہذا کوئی کسی سے رشتہ نہ توڑے ،یہی وجہ ہے کہ دولوگوں میں قطع تعلق ہو تود وسرے مسلمان ان دونوں بھائیوں کو آپس میں ملانے کی غرض سے جھوٹ بول سکتے ہیں ۔
سیدہ ام کلثو بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں : میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کی کہیں اجازت دی ہو مگر تین مواقع پر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
لا أعدُّه كاذبًا الرجلُ يصلحُ بين الناسِ يقولُ القولَ ولا يريدُ به إلا الإصلاحَ ، والرجلُ يقولُ في الحربِ ، والرجلُ يحدثُ امرأتَه ، والمرأةُ تحدثُ زوجَها.(صحيح أبي داود:4921)
ترجمہ: میں ایسے آدمی کو جھوٹا شمار نہیں کرتا جو لوگوں میں صلح کرانے کی غرض سے کوئی بات بناتا ہو اور اس کا مقصد سوائے صلح اور اصلاح کے کچھ نہ ہو ، اور جو شخص لڑائی میں کوئی بات بنائے اور شوہر جو اپنی بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر کے سامنے کوئی بات بنائے ۔

سادسا: آخری مرحلے میں یہ آتا ہے کہ آدمی دوسری طرف سے تکلیف جھیلتا ہے اور اس تکلیف پر صبر کرتا اور خاموشی اختیار کرتا ہے دراصل ایک مومن سے یہی مطلوب ہے جو صبر کا دامن چھوڑدیتے ہیں اور قطع تعلق کا راستہ اپناتےہیں وہ غلط کرتے ہیں انہیں نبی کریم ﷺ کی اس حدیث پر عمل کرنا چاہئے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:
أنَّ رجلًا قال : يا رسولَ اللهِ ! إنَّ لي قرابةً . أصِلُهم ويقطَعوني . وأُحسِنُ إليهم ويُسيئون إليَّ . وأحلمُ عنهم ويجهلون عليَّ . فقال " لئن كنتَ كما قلتَ، فكأنما تُسِفُّهمُ المَلَّ . ولا يزال معك من اللهِ ظهيرٌ عليهم ، ما دمتَ على ذلك " .(صحيح مسلم:2558)
ترجمہ: میرے رشتہ دار ہیں لیکن ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں وہ لوگ قطع رحمی سے کام لیتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں، میں بردباری کا معاملہ کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ زیادتی کا معاملہ کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہا، تو گویا ان پر قوموں کا افسوس ہے، جب تک تم اپنی اسی حالت پر رہوگے اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی۔
آخر میں خلاصہ کے طور پر یہ کہنا چاہتاہوں کہ جہاں ایک ساتھ کئی افراد رہتے ہیں وہاں آوازپیدا ہونا فطری امر ہے ۔ کسی بات پر اختلاف ہوجائے گا، کسی بات  سے رنجش ہوسکتی ہے ، کبھی یونہی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ، کبھی کسی کے بہکاوے کے شکار ہوسکتے ہیں ۔ ہمارے لئے یہ مناسب ہے کہ جہاں زیادتی ہوجائے وہاں کسی ثالث کے ذریعہ معاملہ حل کرلیں ، جہاں غلط فہمی اور بہکاوے کا امکان ہو وہاں بغیر ثبوت کے کوئی بات تسلیم نہ کریں اور اپنے رشتہ دار کے متعلق حسن ظن ہی رکھیں ، اگر جھگڑالرائی کی نوبت آجائے تو آپس میں صلح وصفائی کرلیں ، حقوق کا معاملہ ہوتو پنچایت کرکے حقوق طلب کریں مگر ہمیں کسی بھی صورت میں کسی بھائی سے قطع تعلق نہیں کرنا ہے خواہ ستم پر ستم کرے ۔ جو صبر کا دامن تھامے گا اور کسی رشتہ دار کی طرف سے ایذاء برداشت کرے گا اللہ اس کے ساتھ ہے اور اس وقت تک اس کے  نامہ اعمال میں اجر لکھتا رہے گاجب تک زیادتی پر صبر کرتا رہے گا۔

نوٹ : رشتہ داروں سے قطع تعلق –ایک سماجی قہر ہے ، اس لئے جو لوگ رسائل وجرائد اور اخبارات والے ہیں ان سے گذارش ہے کہ اس مضمون کو اپنے شمارے میں جگہ دیں ، آپ کو اگر ورڈ فائل چاہئے تو مجھے ایمیل فراہم کریں بھیج دیتاہوں ۔ دیگر احباب سے اسے شیئر کرنے کی التماس ہے ۔
مکمل تحریر >>

Monday, November 28, 2016

کیا والدین کے لئے دعا ترک کرنا قطع رزق کاسبب ہے ؟

کیا والدین کے لئے دعا ترک کرنا قطع رزق  کاسبب ہے ؟
==================
مقبول احمد سلفی

والدین جب باحیات ہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے اور دعائیں بھی دینی چاہئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْٓا إِلَّآ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًاط إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا [الاسرا:۲۳۔ ۲۴]
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا پہلو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا ،اے میرے رب! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میری بچپن میں پرورش کی ہے۔
اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ والدین کے لئے دعا کرنا احسان وسلوک میں سے ہے ۔
 اور جب والدین فوت ہوجائیں تو رفع درجات اور طلب مغفرت کے لئے  بطور خاص دعا کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (الإسراء:24)
ترجمہ : اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ(ابراہیم : 41)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! مجھے، میرے والدین اور سب ایمان والوں کو اس دن معاف فرمانا جس دن حساب لیا جائے گا۔
جناب ابواسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أن رجلًا قال : يا رسولَ اللهِ هل بقِيَ من برِّ أبويَ شيءٌ أبرُّهما به بعدَ موتِهما؟ قال: نعم، الصلاةُ عليهما والاستغفارُ لهما وإنفاذُ عهدِهما من بعدِهما وإكرامُ صديقِهما وصلةُ الرحمِ التي لا تُوصَلُ إلا بهما(مجموع فتاوى ابن باز251/13)
ترجمہ: کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا  اے  اللہ کے رسول! میرے والدین کے مرجانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہے، ان کے لئے دعا اور استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت و اقرار کو نافذ کرنا، جو رشتے انہیں کی وجہ سے جڑتے ہیں، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی خاطر مدارات کرنا (ان حسن سلوک کی یہ مختلف صورتیں ہیں) ۔
٭ اس روایت کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر شیخ ابن باز نے کہا کہ اس کے راوی علی بن عبید کو ابن حبان نے ثقہ اور حافظ ابن حجر نے مقبول کہا ہے اور اس کے لئے شواہد ہیں جواس کی صحت پہ دلالت کرتے ہیں ۔ (حاشية بلوغ المرام لابن باز:779)
اسی طرح  مسلم شریف کی مندرجہ ذیل حدیث بھی دلالت کرتی ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له( صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں ہیں (جن کا فائدہ اسے مرنے کے بعد جاری رہتا ہے) صدقہ جاریہ۔علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔
البتہ جس حدیث کو بنیاد بناکر کہاجاتا ہے کہ  وفات کے بعد والدین کے لئے دعا ترک کردینے سے روزی منقطع ہوجاتی ہے وہ حدیث باطل ومردود ہے ۔
عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :إِذَا تَرَكَ الْعَبْدُ الدُّعَاءَ لِلْوَالِدَيْنِ ؛ فَإِنَّهُ يَنْقَطِعُ عَلَى الْوَلد الرِّزْقُ فِي الدُّنْيَا.(دیلمی)
ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بندہ والدین کے لئے دعاکرنا ترک کردیتا ہے تو اولاد پر دنیاوی رزق منقطع ہوجاتا ہے ۔
*
سیوطی رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے (اللآلئ المصنوعة:2/250) ـ
٭ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے صحیح نہیں کہا ہے ۔(موضوعات ابن الجوزي:3/284)
٭علامہ  شوکانی نے کہا اس کی سند میں متہم راوی ہے (الفوائد المجموعة:231(
*علامہ  ذہبی نے کہا اس میں جویباری ہے (ترتیب الموضوعات : 247)
احمد بن خالد جویباری احادیث گھڑنے میں مشہور ہے ،امام ذہبی نے کہا ہے کہ جھوٹ گھڑنے میں جویباری کی مثال دی جاتی ہے ۔ (ميزان الاعتدال:1/107) .
بہرکیف ! یہ روایت باطل ہے ، اس سے استدلال نہیں کیاجائے گالیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ والدین کے لئے دعاکرنا جیساکہ اوپر نصوص سے واضح ہے حسن سلوک میں داخل ہے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق میں کشادگی کا سبب ہے ۔
واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

Saturday, November 26, 2016

مسلم پرسنل لا ء اور یکساں سول کوڈ پہ ہمارا موقف

مسلم پرسنل لا ء اور یکساں سول کوڈ پہ ہمارا موقف
مقبول احمد سلفی /داعی اسلامک دعوہ سنٹر-طائف
اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام امور کی طرف رہنمائی کی ہے ،اس نے ہمیں عائلی قانون اور پرسنل لا ءبھی دیا ہے ۔ہمارا یہ پرسنل لا ءانسانوں کا وضع کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ کا بنایا ہواقانون ہے ، ہم مسلمان اللہ کے فطری قانون یعنی پرسنل لاء کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے یا اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی برداشت نہیں کرسکتے یا کوئی مسلم پرسنل لاء کی جگہ یکساں سول کوڈ کی بات کرے تو قطعی اسے منظور نہیں کرسکتے ۔ اللہ کا حکم ہے : الا لہ الخلق والامر تبارک اللہ رب العالمین(الاعراف:54)
ترجمہ: یاد رکھواللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا،بڑی خوبیوں سے بھرا ہواہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔
یہاں سب سے پہلے  ایک اہم چیز جان لیں کیونکہ میں نے اکثریت کو اس سے غافل دیکھا ہے ۔جب میں نے این ڈی ٹی وی پہ طلاق ثلاثہ کا ایک ڈیبیٹ دیکھا جس میں نئی دنیا کاایڈیٹر شاہد صدیقی نے بیان دیا ہے کہ مسلم پرسنل لا ء انگریزوں کا بنایاہواقانون ہے تو مجھے کافی دکھ ہوا اور ایسے صحافی کی جہالت پہ بہت افسوس بھی ہوا۔اس لئے میں چاہتاہوں کہ آپ کو ایک اہم جانکاری دیتا چلوں ۔
مسلم پرسنل لاء : مسلم قوم کے معنی میں،پرسنل کا معنی شخصی وذاتی اور لاء کا معنی ہے قانون یعنی مسلمانوں کا شخصی قانون۔ اس سے مراد ہمارے خاندانی اور عائلی زندگی کے مسائل ۔ اس کے دائرے میں نکاح،طلاق،عدت،نان ونفقہ،خلع،ظہار،ایلاء،فسخ،مہر،حق پرورش، ولایت، میراث،رضاعت، حضانت، وصیت،ہبہ،والدین،اولاد اور زوجین کے حقوق،تعددازدواج ،شفعہ،وقف وغیرہ جو عائلی امور ہیں اس میں سب داخل ہیں۔اسی کو اردو میں اسلامی عائلی قانون، عربی میں احوال شخصیہ اور انگریزی میں مسلم پرسنل لاءکہاجاتا ہے ۔
تو مسلم پرسنل لاء ہمارا شرعی عائلی قانون ہے ۔ اور ایک ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ، اس کا پورا نام آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے ۔یہ ایک تنظیم ہے جومسلم پرسنل لاء( جوکہ ہمارا عائلی قانون ہے) اس کے تحفظ کے لئے تمام مسلمانوں نے مل کر قائم کیا ہے۔ 1973 میں یہ بورڈ قائم ہوا، اب تک اس بورڈ کے چوالیس سال ہوگئے ،شروع سے آج تک اس پہ حنفیت کی اجارہ داری رہی ۔ بورڈ کی ذیلی شاخیں،اس کا سہ ماہی رسالہ "خبرنامہ"سب فقہ حنفی کی ترجمانی میں منہمک ہیں ۔ اس بورڈ نے عائلی قانون پہ ایک مجموعہ ترتیب دیا ہے "مجموعہ قوانین اسلامی"کے نام سے جو خالص فقہ حنفی کی روشنی میں ہے ۔جب کورٹ  میں مسلمانوں کا کوئی مقدمہ کیا جاتا ہے تومسلم وکلاء اسی مجموعہ کی روشنی میں اپنا بیان دیتے ہیں۔ یہ بورڈ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانتا ہے جو کہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے ،اسی طرح حلالہ  کوبھی تسلیم کرتاہے جوکہ ایک لعنتی فعل ہے ۔ بورڈ کے اس موقف سے ہم اتفاق نہیں رکھتے ۔باوجود کہ یہ بورڈ حنفیت کا شکارہے جبکہ اس بورڈ پہ سارے مسلمانوں کا حق ہےپھربھی ہم مسلمان اس کے ساتھ ہیں البتہ اس بورڈ کے جو مسائل قرآن وحدیث کے خلاف ہیں  مثلا طلاق ثلاثہ اور حلالہ تو ہم ان  مسائل میں اس  بورڈکے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے ۔
خلاصہ یہ کہ مسلم پرسنل لاء ہمارا شرعی عائلی قانون ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ ایک تنظیم کا نام ہے جودراصل مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لئے ہی قائم کیاگیاہے۔کتاب وسنت سے مخالف مسائل میں ہم بورڈ کے ساتھ نہیں لیکن مجموعی اعتبار سے اس بورڈ کے ساتھ ہیں ۔  
یہاں اب یکساں سول کوڈ کا مفہوم بھی واضح کرتاچلوں۔
 ہندوستانی قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں ۔
(1) دیوان سے متعلق قانون کو سول کوڈکہاجاتاہے۔
(2) جرم کی سزا اور بعض انتظامی امور سے متعلق  قانون کوکریمنل کوڈکہاجاتاہے۔
دوسری قسم میں تمام ملک والوں کے لئے یکساں قانون ہے ،رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں رکھی گئی ہے البتہ پہلی قسم سول کوڈ جس کا تعلق معاشرتی ،تمدنی اور معاملاتی مسائل سے ہے اس کا ایک حصہ پرسنل لا ءہے ۔ اس کے تحت بعض اقلیتوں جن میں مسلمان بھی داخل ہیں اختیار ہے کہ نکاح ،طلاق ،عدت، خلع،وقف،میراث وغیرہ سے متعلق  کورٹ میں اگر مقدمہ کیا گیا اور دونوں فریق مسلمان ہیں تواسلام کے مطابق فیصلہ ہوگااسی کا نام مسلم پرسنل لاءہے ۔
دولفظوں میں یہاں یہ جان لیں کہ  بھارتیہ لا ءکمیشن چاہتی ہے کہ ہندوستان میں ایک جیسا قانون نافذ ہویعنی کسی مذہب کے ماننے والے کاکوئی قانون نہ ہوگا،سب کے لئے نکاح ووراثت  وغیرہ کا قانون ایک جیسا ہوگاخواہ وہ قانون کسی کے مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے پانچ سوسال حکومت کی اس دوران کسی ہندو کو مسلم پرسنل لا ءیا یکساں کوڈ کا پابند نہیں بنایا گیا بلکہ ہندو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرتے تھے ۔اسی طرح انگریز کے ایک سو پچہترسالہ(175) نظام حکومت میں ہندوکو ہندوپرسنل لاء اورمسلم کو مسلم پرسنل لا ءپر عمل کرنے کی آزادی رہی  مگر ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے پرسنل لا ءمیں بارہا مداخلت کی کوشش کی گئی بلکہ آزادی سے پہلے سے ہی مسلمانوں کو اپنے پرسنل لا ءکے متعلق کافی تشویش لاحق تھی ۔ اس لئے اس تشویش کو ختم کرنے کی غرض سے 1931 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک قرار داد منظور کیا کہ آزاد ہندوستان میں پرسنل لا ءکوخصوصی تحفظ دیا جائے مگرآزادی سے لیکر آج تک مسلم پرسنل لا ءکو کوئی خصوصی تحفظ فراہم نہیں ہوسکا ، آئے روزمسلم پرسنل لا ءمیں مداخلت اور یکساں سول کوڈ کی بات اٹھاکرمسلمانوں میں بے چینی پھیلائی جاتی ہے جبکہ دستورہند کے دفعہ (25) کی روشنی میں ہرمذہب والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے ۔  
یکساں سول کوڈ اور آئین ہند: آئین ہند کے دفعہ (44) میں یوں لکھا گیا ہے کہ ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں یکساں شہری قانون ہو۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آزادی سے ہی ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کی جارہی ہے جو سراسر اسلام سے متصادم ہے اور دفعہ (25) کے مخالف بھی ۔
یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا بہانہ : کامن سول کوڈ کے نفاذ کی اصل وجہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے مگر بہانے کے طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ یکساں سول کوڈ سے قومی یک جہتی پیدا ہوگی اور یورپ کی مثال کی  پیش کی جاتی ہے کہ جب وہاں تمام اقوام کے لئے یکساں قانون ہوسکتا ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں؟
ہندوستان کثیرالمذاہب اور مختلف تہذیب وثقافت کا حامل ہے جس کی نظیرنہ یورپ میں ہے نہ افریقہ میں ۔ یہاں یکساں سول کوڈ کی بات کرنا پاگل پنی ہوگی ۔ اس سے قومی یک جہتی نہیں فرقہ وارانہ فساد پھیلے گا جو ملک وقوم کو تباہ وبرباد کردے گا۔
یکساں سول کوڈ کے تدریجی مراحل اور مسلم پرسنل لاء میں مداخلت: ملک میں شروع سے یکساں سول کوڈ کی بات کی گئی اس وجہ سے مسلم دشمن پارٹی اور حکومت اس قانون کو نافذکرنے کے لئے ہمیشہ راہ ہموار کرتی رہی ۔ 1950 میں جب ہندو کوڈ بل پاس کیا گیا تو اس وقت کے وزیر قانون مسٹر یائسکر نے کہا تھا کہ ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام اقوام پر نافذ کی جائے گی ۔ 1963میں مرکزی حکومت نے مسلم پرسنل لا میں اصلاح کے لئے کمیشن بٹھایایہاں تک کہ 1972 میں متبنی کا اسلام مخالف بل پاس ہوا۔متبنی بل کی رو سے اگر کسی کوئی بچہ گود لیا تو اسے اصل اولاد کی حیثیت حاصل ہوگی اورمیراث میں برابرکا شریک ہوگا۔مسلمانوں نے اس کے خلاف ملک گیرآواز اٹھائی بالآخر جنتا پارٹی کی حکومت میں 1978 کو یہ بل مسترد کیا گیا۔پھرپانچ ماہ بعد کانگریس کی حکومت میں 1978 ہی کودوبارہ یہ بل پیش کیا گیا مگر منظور نہ ہوسکا۔ 1985 میں شاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ جس مرد نے اپنی بیوی کو طلاق دیا ہے اسے عدت کے بعد بھی  دوسری شادی ہونے تک نان ونفقہ برداشت کرنا پڑےگا۔مسلمانوں کے جدوجہد سے ایک سال بعد 1986کو یہ قرارداد ختم ہوئی ۔
کچھ دنوں پہلے اتراکھنڈکی سائرہ بانوجسے اس کے شوہرنے بذریعہ خط تین طلاق دیاتھااس کے رد عمل میں اس نے سپریم کورٹ میں تین طلاق اور حلالہ کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے ۔سائرہ بانو کے اس اقدام سے ملک میں ایک بار پھر یکساں سول کوڈ کی بات بڑے شدومد سے اٹھنی شروع ہوگئی ہے ۔حکومت کو ایک بار پھریکساں سول کوڈ کے نفاذ کا بہانہ مل گیا۔ عوامی سطح پر یکساں کوڈ کے متعلق کانفرنسیں ہورہیں ،کہیں پر ہندومسلمان سارے اس کے متعلق سیمنار کررہے ہیں۔ پورے ملک میں ایک بار پھر بے چینی کی لہر پھیل گئی ہے ۔
یکساں سول کوڈ کے پیچھے حکومت کا مقصد: حکومت اس قسم کا موقع تلاش کررہی ہےکہ کس طرح یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا جواز فراہم کیا جاسکے ۔یکساں سول کوڈ اسلام دشمن کوڈ ہے اسے ہم مسلمان کسی بھی قیمت پر تسلیم نہیں کریں گے جولوگ اسے نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ،اس کے پیچھے ان کا مقصد مسلمانوں کو اپنے دین سے دور کرناہے، کفروالحاد کو مسلمانوں میں داخل کرنا ہے تاکہ مسلمان اپنا ایمان واسلام کھوبیٹھے، ان میں اور ہندوقوم میں کوئی فرق نہ رہ جائے ۔گویا یکساں سول کوڈ مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ایک گہری شازش ہے ۔مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے کفار کو خطرہ لاحق ہے اس لئے وہ کبھی ہمارے اوپر زبردستی فیملی پلاننگ تھوپنا چاہتے ہیں تو کبھی فرقہ پرستی کو ہوادے کرمسلمانوں کا قتل عام کررہےہیں جیسے گجرات میں کیا۔ آج ہندوتو کاایجنڈا مسلمانوں کو ہندو بنانے کا ہے ۔وی ایچ پی اوربجرنگ دل کا دعوی ہے کہ 2020 تک ہم سارے مسلمانوں کو ہندو بنادیں گے ۔ بی جے پی جو ان جیسے تمام متشدد ہندو تنظیموں کی سرپرستی کررہی ہے ا س نے بھی ہندوتوکے اس مقصد کی برآوری کے لئے اپنے ایجنڈے میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ رکھا ہے ۔ اور جب سے یہ حکومت برسرے اقتدار ہوئی ہے اسی وقت سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی پوری کوشش کررہی ہے ۔گجرات ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو باقاعدہ حکم دے دیا ہےکہ وہ یکساں سول کوڈ نافذ کرے ۔
یکساں سول کوڈ کی خرابیاں : ہندوستان مختلف اقوام وملل کا مجموعہ ہے ، اس ملک میں ہندو، مسلم،سکھ،یہودی، عیسائی،شیعہ ،قادیانی،بودھ،جین،پارسی سیکڑوں قومیں رہتی ہیں پھر ان قوموں میں بھی کئی کئی فرقے ہیں،ان سب قوموں اور فرقوں کا مذہبی طورطریقہ اور عائلی ومعاشرتی قانون الگ الگ ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جیساعائلی قانون ان ساری قوموں پر تھوپ دیا جائے ۔ نہ ہی اس کا امکان ہے اور نہ ہی یہ اقوام یکساں خاندانی قانون چاہیں گی ۔ اور اگر بالجبرنافذ بھی کردیا گیا تو ملک کی یک جہتی پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گی ، قوموں کے درمیان اختلاف وانتشار پھیلے گا،فرقہ پرستی کو ہوا ملے گی اور قتل وغارت گری کا بازارگرم ہوجائے گاکیونکہ یکساں سول کوڈ مذہب کے خلاف ہے ، یکساں سول کوڈ آئین ہندکے خلاف ہے، یکساں سول کوڈ ملک کی یک جہتی اور سالمیت کے خلاف ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مذہب کا لڑکا دوسرے مذہب کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے تو پورے سماج میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے ،قتل وخون تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ہندوستان مختلف قوم، مختلف تہذیب،مختلف زبان اور مختلف رنگ ونسل کا گہوارہ ہے یہی اس کا حسن ہے ۔یکساں سول کوڈ اس حسن کے خاتمہ کا نام ہے ۔یکساں سول کوڈ کے متعلق میری یہ حتمی رائے ہے کہ وہ کوڈ ہندوانہ ہوگاجیساکہ 1950 میں اس وقت کے وزیرقانون مسٹر یائسکرنے کہا تھا کہ آج جو اصلاحات ہندو قوانین میں کی جارہی ہیں وہ عنقریب ہندوستان کے تمام لوگوں پر نافذ کیا جائے گا۔ اس کی رو سے ہمیں صبح صبح اللہ کا نام لینے کی بجائے وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ گانا پڑے گا، سوریہ نمسکار کرنا ہوگا، گائے ، زمین ،سورج ،چاند،ستارے ساری چیزوں کو معبود ماننا پڑے گااور ان کی بھکتی کرنی پڑے گی ، اسپیشل میریج ایکٹ،انڈین سیکشین ایکٹ کے ماتحت کوئی کسی بھی مذہب میں بلاروک ٹوک شادی کرسکتا ہے پھراسلامی نکاح، طلاق،خلع، عدت،مہر،نان ونفقہ وغیرہ کا کوئی اسلامی تصور نہیں رہ جائے گا۔ لے پالک اصل اولاد مانی جائے گی ،میراث میں حصہ دارہوگا۔ہم جنسی کا فروغ ہوگا۔ اسلامی حجاب،عورتوں کے حقوق، مردوعورت کے درمیان فرق ساری چیزیں بے معنی ہوجائیں گی ۔ہمارے مذہبی ادارے، مقدس مقامات سب کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
اس لئے مسلمان ہونے کے ناطے کبھی بھی ہم یکساں سول کوڈ کو قبول نہیں کرسکتے ،اسے قبول کرکے ہم مسلمان ہی نہیں رہ سکتے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(النساء: 65)
ترجمہ: نہیں! تیرے رب کی قسم لوگ بالکل مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپ کو اپنے درمیان کے جھگڑوں میں فیصل تسلیم نہ کرلیں۔ پھر جو آپ فیصلہ کریں اس کے بارے اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور اسے دل وجان سے تسلیم کرلیں۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران:85)
ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَمَا آتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْہُ(الحشر:7)
ترجمہ: اور جو آپ ﷺ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔
سر کٹادیں گے مگر جس قانون سے اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے اس کے آگے سر نہیں جھکائیں گے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ ،انما الطاعۃ فی المعروف(صحیح مسلم: 1840)
ترجمہ: اللہ کی معصیت میں کسی قسم کی اطاعت قبول نہیں کی جائے گی ،اطاعت تو صرف بھلی باتوں میں ہے۔
حکومت ہند کو چاہئے کہ ملک میں ترقی کا کام کرے اور جن چیزوں سے ملک کھوکھلا ہورہاہے یا ملک میں تباہی پھیلی ہوئی ہے ان کا سد باب کرے ۔آج پورے ملک میں اسقاط حمل ،زنا،رشوت،قتل،گھوٹالہ،ناانصافی،ظلم،تشدد،بھوک مری،بے روزگاری،غریبی،خودکشی اور فرقہ پرستی عام ہے،حکومت کو ان چیزوں کی اصلاح کرنی چاہئے۔
اس وقت ملک میں کم ازکم بارہ کروڑ افراد بے روزگارہیں،جرائم کا سترفیصد حصہ بے روزگاری کی وجہ سے ہے۔ بھارت میں ہرایک گھنٹے کے بعد ایک عورت جہیز کی وجہ سے ماری جاتی ہے یا مرجاتی ہے ۔ ماں کے پیٹ میں ہرسات سکنڈ میں ایک بچے کا قتل ہوتاہے،بعض رپورٹ کے مطابق ہرروز 2000 بچیوں کا قتل کیاجارہاہے ۔ ایک سروے کے مطابق ہرپندر ہ منٹ پہ ایک زناہوتاہے اور ہمارامہان ملک ان دس بڑے ملکوں میں سے ایک ہے جہاں زنا کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ ہندوستان کی سواارب کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا چودہ فیصدہے لیکن ایک تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں بھیک مانگنے والا ہرچوتھا شخص مسلمان ہے ۔اسی طرح مسلمانوں پراس قدر مظالم ڈھائے جارہے ہیں کہ انہیں بغیرثبوت کے سالوں جیل میں قیدکردیاجاتا ہے ،جب ان کی آدھی عمر ختم ہوجاتی ہے ، ان کے بال بچے اور گھرپریوارتہس نہس ہوجاتے ہیں تو انہیں بری قرار دے کرجیل سے رہاکیاجاتاہے۔لگ بھگ پچیس فیصد مسلمان جیل میں بند ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہرچوتھا مسلمان جیل میں ہے۔ ہندوستان میں ہرآٹھ گھنٹے میں ایک کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہے ۔
حکومت ان جیسے مسائل کوحل کرنے کی کوشش کرے نہ کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذکرکے ہندوستانی کرائم میں مزید اضافہ کرے ۔ہم مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آئین ہند کے تحت ہمیں جو حقوق واختیارات ملے ہیں ان میں تصرف نہ کرنے دیں اور نہ ہی ہم کسی طور پر یکساں سول کوڈ کو منظور کریں گے ۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, November 22, 2016

نسوارکیاہے اورکیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟

نسوارکیاہے اورکیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
=====================
مقبول احمد سلفی

نسوار تمباکو کے پتے  کو پیس کربنائی ہوئی نشہ آورچیز ہے، اس میں چونا اور کوئلے کی بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ناک ، سانس یا انگلی کے ذریعہ اسے استعمال کیا جاتاہے ۔ جیسے تمباکو کھانا اور سگریٹ پینا حرام ہے ویسے ہی نسوار کا استعمال ہے ۔اگر آپ نسوار کے نقصانات کا جائزہ لیں گے تو آپ کو بھی اس کی خطرناکی کا  بخوبی علم ہوجائے گا۔
اسلام نے ہرنشہ آورچیزکو حرام قرار دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدة:90)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں۔اان سے بالکل الگ رہوتاکہ تم فلاح یاب ہو۔
یہ آیت کریمہ منشیات کی ساری قسموں کو حرام ٹھہرانے کے لئے کافی ہے اورمنشیات کے زمرے میں نسوار، شراب، تمباکو،بیڑی،سگریٹ،گل،گٹکھا،گانجہ،بھنگ،چرس،کوکین، حقہ،افیم ،ہیروئین،وہسکی،سیمپین،بئر،ایل ایس ڈی،حشیش اورمخدارت کی تمام اشیاء شامل ہیں۔
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ نسوار میں ہلکا نشہ پایا جاتا ہے ، یہ ایک بہانہ ہے، اسلام نے ہلکے پھلکے نشہ کو بھی حرام قرار دیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما أسكرَ كثيرُهُ ، فقليلُهُ حرامٌ(صحيح الترمذي:1865)
جس کا زیادہ حصہ نشہ آور اور مفترہواس کا کم مقدار میں بھی استعمال کرنا حرام ہے ۔
اس لئے نسوار کا استعمال ہرحال میں حرام ہے ۔ رہامسئلہ کیا نسوار سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسوار سے وضو ٹوٹنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی البتہ اس میں بو پائی جاتی ہے اور نبی ﷺ نے بو والی چیز کھاکر مسجد جانے سے منع کیا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے دوران فرمایا:
مَن أكلَ مِن هذه الشجرةِ - يعني: الثومَ- فلا يَقْرَبَنَّ مسجدَنا (صحيح البخاري:853)
ترجمہ: جو اس درخت یعنی لہسن سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔
ایک دوسری روایت میں مسجد نہ آنے کی وجہ بھی مذکور ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن أَكَلَ مِن هذِهِ الشَّجرةِ. قالَ : أوَّلَ يومٍ ( الثُّومِ ) ثمَّ قالَ: الثُّومِ والبصلِ والكرَّاثِ - فلا يقربنا في مساجدنا؛ فإنَّ الملائِكَةَ تتأذَّى ممَّا يتأذَّى منهُ الإنسُ(صحيح النسائي:706)
ترجمہ: جو آدمی یہ پودا (عطاء نے) پہلے دن (حدیث بیان کرتے ہوئے) کہا: لہسن، پھر (دوسرے موقع پر) کہا: لہسن اور پیاز اور گندنا (پیازی) کھائے تو وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ نسوار سے وضو تونہیں ٹوٹتاہے لیکن چونکہ یہ حرام چیز ہے اس لئے ایک نمازی کو اس کا استعمال قطعی نہیں کرنا چاہئے مزید برآں اس کا استعمال کرکے مسجد میں جانا دیگرنمازیوں اور فرشتوں کی تکلیف کا باعث بھی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کے استعمال سے بچائے اور جو بھائی اس میں ملوث ہیں انہیں توبہ کی توفیق دے ۔ آمین


مکمل تحریر >>

Monday, November 21, 2016

صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا

صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا
===============
مقبول احمد سلفی

یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ اگر اگلی صف مکمل ہوگئی ہواور پیچھے سے کوئی اکیلا نمازی آئے تو وہ صف کے پیچھے اکیلے کھڑا ہو یا پھر اگلی صف سے کسی کو پیچھے کھیچ لے ؟
بعض اہل علم نے اگلی صف سے آدمی کھیچنے کا فتوی دیا ہے تو بعض نے صف کے  پیچھے اکیلے کھڑے ہونے کا۔
یہاں پہلے اس بات کا ذکرکرنا مناسب ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے کھڑا ہونا حدیث کی رو سے منع ہے ۔
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانہوں نے کہا :
خرَجنا حتَّى قدِمنا علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ، فَبايعناهُ، وصلَّينا خلفَهُ، ثمَّ صلَّينا وَراءَهُ صلاةً أُخرى، فقَضى الصَّلاةَ، فرأى رجلًا فَردًا يصلِّي خلفَ الصَّفِّ، قالَ: فوقَفَ عليهِ نبيُّ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ حينَ انصَرفَ قالَ: استقبِلْ صلاتَكَ، لا صلاةَ للَّذي خَلفَ الصَّفِّ(صحيح ابن ماجه: 829)
ترجمہ: ہم( اپنے علاقے سے) روانہ ہوئے ( اور مدینہ منورہ تک سفر کیا) حتی کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے اور آپ ﷺ کی بیعت کی۔ ہم نے آپ ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کی، پھر آپ کے پیچھے ایک اور نماز پڑھی۔ آپ نے نماز مکمل کی تو دیکھا کہ ایک آدمی صف کے پیچھے اکیلا کھڑا نماز پڑھ رہا ہے۔( جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو) اللہ کے نبی ﷺ اس کے پاس گئے اور فرمایا:شروع سے نماز پڑھو۔ صف کے پیچھے( اکیلا کھڑے ہونے والے )کی کوئی نماز نہیں۔
اس حدیث میں ذکر ہے کہ ایک آدمی اکیلا صف کے پیچھے نماز پڑھا تو نبی ﷺ نے انہیں نماز دہرانے کا حکم دیاجو اس بات کی دلیل ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز نہیں ہوتی ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جب دو آدمی جماعت بناکر نماز ادا کررہے ہوں تو تیسرا آنے والا نمازی حسب سہولت یا تو امام کو آگے کردے گا یا مقتدی کو پیچھے کھیچ لے گا ان دونوں میں جوسہولت ہو اس پہ عمل کیا جاسکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے دو سے زیادہ کی جماعت ہے اور اگلی صف مکمل ہے توبعد میں آنے والا کیا کرے گا؟  
جن علماء نے کہا کہ اگلی صف سے آدمی کھیچ لے گا انہوں نے ایک امام اور ایک مقتدی پر قیاس کیامگر یہ قیاس صحیح نہیں معلوم ہوتاکیونکہ بھری ہوئی صف  سے ایک کو پیچھے کھیچنے سے صف میں نقص پیدا ہوتا ہےجبکہ دو لوگوں کی جماعت سے  ایک آدمی کھیچنے سے صف میں خلل اور نقص پیدا  نہیں ہوتا ہے  ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن وصلَ صفًّا وصلَهُ اللَّهُ ، ومَن قطعَ صفًّا قطعَهُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ(صحيح النسائي:818)
ترجمہ: جو کوئی صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے (اپنے ساتھ) ملائے گا اور جو صف کو کاٹے (توڑے) گا اللہ تعالیٰ اسے کاٹے (توڑے) گا۔
"من وصل صفا" کا معنی جو صف میں شامل ہوکر یا صف کے خلل کو پورا کرکے صف ملائے اور "ومن قطع صفا" کا معنی جوغائب ہوکر یا خلاکو پر نہ کرکے یا کوئی مانع چیزرکھ صف کاٹے ۔ (عون المعبود : 2/366)  
ہمیں جہاں ایک طرف یہ دیکھنا ہے کہ صفکے پیچھے  اکیلے نماز نہ پڑھی جائے وہیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگلی صف سے آدمی کھیچ کر صف میں نقص وخلل نہ پیدا ہو۔
اس وجہ سے  بعد میں آنے والا آدمی  اگر اکیلے ہواس حال میں کہ اگلی صف مکمل نظر آئے تو یہاں ایک صورت تو یہ ہے کہ اگراگلی صف کے اندر شامل ہونے کا امکان ہوتواگلی صف میں  شامل ہوجائے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر بغیر تشویش کے امام کے دائیں جانب کھڑا ہونے کا امکان ہوتو امام کے دائیں جانب کھڑا ہوجائے(کئی صفیں ہوں تو نمازیوں کے درمیان سے گذرنا تشویش کا باعث ہوگا) ۔تیسری صورت یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالادونوں صورتیں نظر نہ آئے تو صف کے پیچھے اکیلے کھڑا ہوجائے ،اس حال میں یہ آدمی معذور ہوگا اور اس کی نماز درست ہوگی ۔
صف بندی کی اصل یہ ہے کہ لوگ مل مل  کھڑے ہوں اس طرح کہ درمیان میں بالکل جگہ باقی نہ رہے گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ۔ پہلے پہلی صف مکمل کریں  پھر دوسری ، تیسری ۔ پہلی والی صفوں میں کسی طرح خلا باقی نہ رہے ، آخر ی صف میں خلا رہ جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں یعنی  صفوں میں نقص آخری صف میں ہونی چاہئے  نہ کہ اگلی صفوں میں۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أتمُّوا الصَّفَّ المقدَّمَ ثُمَّ الَّذي يليهِ فما كانَ من نقصٍ فليَكن في الصَّفِّ المؤخَّرِ(صحيح أبي داود: 671)
ترجمہ: پہلی صف کو مکمل کرو پھر جو اس کے ساتھ ملتی ہے اور جو کوئی نقص ہو پس وہ آخری صف میں ہو۔
خلاصہ یہ ہوا کہ جب آدمی مسجد میں آئے اور اگلی صف مکمل پائے پھربھی جگہ بناکراس صف میں شامل ہونے کی کوشش کرے ، اگر یہ ممکن نہ ہواور امام کے ساتھ دائیں جانب بآسانی کھڑے ہونے کا امکان ہوتو امام کے ساتھ کھڑا ہوجائے وگرنہ صف کے پیچھے اکیلے کھڑا ہوجائے ۔ اس حال میں مقتدی معذور ہے ۔ صف کے پیچھے اکیلی عورت کی نماز درست ہے ۔اس سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ مرد بھی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھے الا یہ کہ اگلی صف میں شامل ہونے کی گنجائش نہ ہو لیکن (اگر دو سے زیادہ  آدمی کی جماعت ہوتو)اگلی صف سے آدمی پیچھے کھیچنا صحیح نہیں ہے۔

واللہ اعلم 
مکمل تحریر >>