Sunday, October 30, 2016

غیرمسلم تہوار کی مٹھائی : تجزیاتی تحریر

غیرمسلم تہوار کی مٹھائی :  تجزیاتی تحریر
==================
مقبول احمد سلفی

غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔
(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔

پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی  ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں  سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
غیرمسلم تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں جنہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں ذکر کیا ہے ۔
ان میں سے ایک یہ ہے ۔
حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن أبيه ؛ أن امرأة سألت عائشة قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت : أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم۔
ترجمہ:قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہوئے کہا: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 87]
اس کی سند میں موجود قابوس بن ابی ظبیان پر ضعف کا حکم لگایا جاتا ہے جبکہ اسے کئی محدثین نے قابل حجت قرار دیا ہے ۔
(1) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اس کی توثیق کی ہے۔
(2) ابواحمد بن عدی نے "لاباس بہ" کہکر توثیق کی ہے۔
(3) علامہ ذہبی نے تاریخ الاسلام میں قابوس کو"حَسَنُ الْحَدِيثِ " کہا ہے ۔
(4) احمد بن سعید نے اسے "جائز الحدیث " کہاہے۔
(5) امام طبرانی نے ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہےاسے حسن کہا ہے۔
(6) امام ابن حجر نے اپنی کتاب "الداریہ فی تخریج احادیث الھدایہ" میں ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہے اس سے استدلال کیا ہے ۔
(7) امام ترمذی نے قابوس والی ایک روایت کو حسن کہا ہے ، روایت وحکم دیکھیں :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ: قُلْنَا لابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ}[الأحزاب: 4] مَا عَنَى بِذَلِكَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا يُصَلِّي؛ فَخَطَرَ خَطْرَةً؛ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَهُ: أَلاَ تَرَى أَنَّ لَهُ قَلْبَيْنِ، قَلْبًا مَعَكُمْ وَقَلْبًا مَعَهُمْ؟! فَأَنْزَلَ اللَّهُ:{مَاجَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ }[الأحزاب: 4].(ترمذی :3199)
قال ابوعیسی : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
گویا قابوس ترمذی کے نزدیک قابل حجت ہیں۔ ترمذی کی 3927 نمبر کی حدیث میں بھی قابوس موجود ہے، اس روایت کے متعلق امام ترمذی نے صرف قابوس کے والد ابوظبیان کا سلمان فارسی کے زمانہ نہ پانے کی بات ذکرکی ہے ۔
(8) احمد شاکر نے بھی ترمذی والی سند کو صحیح کہا ہے ۔(مسند أحمد: 4/132 )
اسی طرح دوسرا اثر دیکھیں :
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔
ترجمہ:ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]
اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ۔
حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة :أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔ (اعلام السنن 12/706 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)
مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔
تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے سے متعلق شیخ الاسلام کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہور شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کے معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے ۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔

مکمل تحریر >>

داؤد علیہ اور ان کی قوم

داؤد علیہ اور ان کی قوم
============

داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبئاء میں سے ہیں ، اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے بعد اسی قوم بنی اسرائیل کی طرف انہیں بھیجاجس کا ذکر قرآن میں ہے ۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى المَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللهِ(البقرہ : 246)
ترجمہ: کیا آپ نے موسی کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کسی کو ہمارا بادشاہ بنادیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں ۔
یہاں موسی علیہ السلام کے بعد کی قوم کا ذکر ہے جسے بنواسرائیل کے ذریعہ خطاب کیا جاریاہے گویا داؤد علیہ السلام کی قوم بنواسرائیل تھی ۔

داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے متعلق اسرائیلی روایات سے یہ بات منتقل ہوکر آئی ہے کہ ان کی قوم کافر تھی جبکہ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں نبیوں کی قوم مومن تھی ۔ 
مکمل تحریر >>

Saturday, October 29, 2016

کیا غیراللہ کا ڈر شرک ہے ؟

کیا غیراللہ کا ڈر شرک ہے ؟

سوال :اللہ کے علاوہ دل میں کسی اور کا ڈر پیدا ہونے سے کیا شرک ہوجاتا ہے ؟
جواب :اللہ کا ڈراور اس کا خوف عبادت ہے ، بندہ جس قدر اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہوگا اللہ کا اتنا مقرب اور محبوب ہوگا ۔ اللہ تعالی نے انسان کو محض اس سے ڈرنے کا حکم دیا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [البقرة: 40].
ترجمہ: اور مجھ ہی سے ڈرو۔
اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب:70)
ترجمہ:اےایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو۔
ایک دوسری جگہ ارشادربانی ہے :
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا[المائدة: 44]
ترجمہ: اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچو۔
یہ ڈر اور خوف اللہ سے اپنی بساط بھر ہونا چاہئے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [آل عمران: 102]
ترجمہ:اےایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا[آل عمران: 102]
گویا ڈرنے کا مستحق محض اللہ تعالی ہے اس کے مقابلے میں کسی سے ڈرنا عبادت میں شرک کہلائے گا اس کی دو صورت بن سکتی ہیں ۔
پہلی صورت : بندوں سے ڈرکر دین پر عمل کرنا چھوڑدے ۔
دوسری صورت: غیراللہ سے اس طرح ڈرنا یا ڈرنے کا عقیدہ رکھناکہ وہ اللہ کے بغیر خود سے نقصان پہنچاسکتا ہے مثلا بت، ولی ، جن ، میت اور خیالی بھٹکتی ارواح وغیرہ
اس با ت ذکر اللہ تعالی نے قرآن میں انداز میں کیا ہے :
إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ[آل عمران: 175]
ترجمہ: یہ خبر دینے والا شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو۔
اس لئے کسی صورت میں اللہ کے علاوہ دل میں دوسروں کا ڈر نہیں پیدا کیا جائے گا ، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے ،اللہ کے حکم کے بغیر کوئی ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، فرمان الہی ہے :
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ‌ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌(سورة الأنعام:17)
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے  اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
خوف بے چینی کا نام ہے جو بندہ کے دل میں فرائض و واجبات میں کوتاہی اور معصیات کے ارتکاب پر پیدا ہوتی ہے ، اسی طرح بندہ طاعت کرکے عدم قبولیت کے خدشے سے بھی ڈرتارہتاہے ۔
ہاں طبعی خوف اس خوف سے مستثنی ہے ، وہ فطری چیز ہے ، سانپ کو دیکھ کر، درندوں کو دیکھ کر انسان ڈرجاتا ہے ۔ یہ ڈر اللہ کے مقابلے میں نہیں ہوتا ہے یہ محض فطرتا ایسا ہوتا ہے جیساکہ موسی علیہ السلام سانپ سے ڈرگئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ (النمل :10)
ترجمہ: تو اپنی لاٹھی ڈال دے ،موسی نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیرکر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا ،اے موسی! خوف نہ کھا،میرے حضور میں پیغمبرڈرا نہیں کرتے ۔
اللہ سے ڈرنے کا بدلہ جنت ہے ،اللہ کا فرمان ہے :
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى،فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى [النازعات: 40، 41]
ترجمہ: ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں خوف و خشیت کی صفت سے متصف کردے ۔ آمین
واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

بیٹھ کر نماز پڑھنے کی کیا وجوہات ہیں اور کیا نفل نماز بیٹھ کر پڑھنی چاہئے ؟

سوال : بیٹھ کر نماز پڑھنے کی کیا وجوہات ہیں اور کیا نفل نماز بیٹھ کر پڑھنی چاہئے ؟

جواب:  بیمار آدمی جب نماز میں کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھے تووہ بیٹھ کر نماز پڑھے۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی تکلیف تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صَلِّ قَائِماً فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِداً فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ (صحیح البخاری: 1117)
ترجمہ:کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر نماز ادا کر سکتے ہو۔
طاقت رکھتے ہوئے فرض نماز بیٹھ کر نہیں ادا کرسکتے ، ہاں اگر نفل نماز ہوتو قیام کی طاقت رکھنے کے باوجود بیٹھ کرپڑھنا جائز ہے اس صورت میں نماز کا آدھا ثواب ملے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صَلَاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ(صحيح ابن ماجه:1022)
ترجمہ: بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنی چاہئے کبھی کبھار پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں البتہ ہمیشہ ایسا کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ سے نفل نماز ہمیشہ بیٹھ کر پڑھنا ثابت نہیں ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اس میں آدھا اجر ہے ۔ جب نماز ہم اجر کے لئے پڑھ رہے ہیں تو کیوں نہ ہم مکمل اجر حاصل کریں ۔
واللہ ھوالموفق
کتبہ

مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

اہل کبائر کے لئے نبی ﷺ کی شفاعت

اہل کبائر کے لئے نبی ﷺ کی شفاعت
==================
مقبول احمد سلفی

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
شفاعتي لأهلِ الكبائرِ من أمَّتي(صحيح الترمذي:2436، صحيح أبي داود:4739،صحيح الجامع:3714، صحيح الترغيب:3649)
ترجمہ:میری امت میں جولوگ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوئے میری شفاعت ان کے لیے ہو گی۔
یہ صحیح حدیث ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ شرک اکبر، نقاق اکبراور کفراکبر سے پاک ہوں گے، گناہ کبیرہ کے شکار ہوں گے ان کے لئے نبی ﷺ کی شفاعت ہوگی ۔ اور وہ شفاعت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے جہنم سے نکالے جائیں گے ۔ اللہ تعالی بندوں کو حد سے زیادہ معاف کرنے والا ہے ، اس کی رحمت کی انتہا نہیں ۔
 یہاں ایک بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اللہ جہاں اپنے بندوں کو بے پناہ معاف کرنے والا ہے وہیں بے پناہ سزا دینے والا بھی ہے ۔ مذکورہ حدیث پر شفاعت کا بھروسہ کرکے گناہ کبیرہ کرنے والا سخت بھول کا شکار ہے ۔ احادیث میں معمولی گناہ پر بھی جہنم میں جانے کا ذکر ملتا ہے۔ گناہ کبیرہ کرتے کرتے کہیں کفر پر نہ موت ہوجائے اور جہنم ہمیشہ اس کا ٹھکانہ قرار پائے ۔ اس لئے اللہ کے عذاب سے بے خبر ہوجانے والا نقصان اٹھانے والا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فلا يأمن مكر الله إلا القوم الخاسرون[الأعراف: 99].
ترجمہ: کیا پس وہ اللہ کی اس پکڑ سے بے فکر ہوگئے ،سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔
اس لئے مسلم بندہ جہاں اللہ تعالی سے نیکی کرکےاس کی قبولیت اور اجر و ثواب کی  اللہ سے امید رکھے وہیں گناہ وجرم پر اس کی پکڑ سے بھی سدا خوف کھاتا رہے ۔
مکمل تحریر >>

مسلم مکان مالک کا اپنے مکان میں دیوالی منانے کی اجازت دینا کیسا ہے ؟

مسلم مکان مالک کا اپنے مکان میں دیوالی منانے کی اجازت دینا کیسا ہے ؟
جواب : اصلا مکان اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ کرایہ دار اس مکان میں رہائش پذیر ہوگا، اور ظاہرا کرایہ دار ہندو ہو تو وہ اپنے مذہبی امور کو انجام دے گا خواہ دیوالی ہو یا اور کوئی پوجا ۔ گھر میں بھی غیراللہ کی عبادت کرتا ہوگا، اس کی تصویر رکھا ہوگا۔ اگر مکان مالک نے کرایہ دار سے شروع میں ان کاموں کی ممانعت کی تھی تو اصولا صاحب مکان کو ان کے ان کاموں سے روکنے کا حق ہے ۔ اسلام ایسا مذہب ہے جو دوسروں کو اپنے اخلاق وکردار سے متاثر کرتا ہے ۔مسلمان مکان مالک کو چاہئے کہ اپنے ہندو کرایہ دار سے نرمی کا رویہ برتے اوراس کو اپنے اخلاقی رویہ کے ساتھ اسلام سے روشناس کرائے ۔ یعنی ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہندو پر اسلام پیش کرکے اپنی طرف سے حجت قائم کردے تاکہ وہ اللہ کے یہاں اس ذمہ داری سے بری ہوجائے ،ساتھ ہی قیامت میں وہ ہندو اللہ کے حضور اسلام نہ جاننے کا بہانہ نہ بناسکے ۔

کتبہ

مقبول احمد سلفی






مکمل تحریر >>

Thursday, October 27, 2016

رخصت ہوتے وقت کیا کہیں ؟

رخصت ہوتے وقت کیا کہیں ؟
==============

مقبول احمد سلفی

عام طور سے لوگوں میں ملتے وقت ہائی ہیلو اور جدا ہوتے وقت بائی بائی کہنے کا چلن ہے جو کہ مغرب سے منتقل ہوکرآیاہے ۔ ہم مسلم قوم ہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ملنے جلنےاور رخصت ہونے  کے آداب سکھلائے ہیں بلکہ شعبہائے حیات کے تمام امور سے آگاہ کیا ہے اس لئے  ہمیں کسی  معاملہ میں دوسری قوم کی نقالی کی ضرورت ہی نہیں ۔
اسلام کی تعلیم ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو سلام کریں ، اسی طرح جدا ہوتے وقت بھی سلام کے ذریعہ جدا ہوں یہ سب سے اچھا اور مبارک عمل ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا انتهى أحدُكم إلى المجلسِ فليسلِّم، فإذا أراد أن يقوم فلْيسلمْ ؛ فليستِ الأولى بأحقُّ من الآخرةِ(صحيح أبي داود:5208)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہیئے کہ سلام کہے اور جب وہاں سے اٹھنا چاہے تو بھی سلام کہے , پہلی دفعہ سلام کہنا دوسری دفعہ کے مقابلے میں کوئی زیادہ اہم نہیں ہے ۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ مجلس سے اٹھتے وقت یعنی جدا ہوتے وقت بھی سلام کرنا چاہئے ۔ سلام میں طرفین کے لئے اللہ کی سلامتی ہے وہ بھی سنت طریقہ سے ۔ پھر اس کے بعد دیگر الفاظ کہیں مثلا اللہ حافظ ، یا مزید دعا دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر کسی کو سفر پہ رخصت کررہے ہیں تو ان کو اس طرح سے دعا دینا مسنون ہے جیساکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو سفر کیلئے رخصت کرتے تو فرماتے : آؤ میں تمہیں ویسے ہی رخصت کروں جس طرح رسول اللہ ﷺ ہم کو رخصت کرتے تھے ۔ آپ ﷺ فرماتے تھے :
أستودعُ اللَّهَ دينَك وأمانتَك وخواتيمَ عملِك(صحيح الترمذي:3443)
ترجمہ: میں تمہارے دین اور تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔

اللہ تعالی ہمیں سنت پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

Wednesday, October 26, 2016

کیا اللہ تعالی علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ مدد کرتا ہے ؟


کیا اللہ تعالی علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ مدد کرتا ہے ؟
======================

مقبول احمد سلفی

شیعہ حضرات کے یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بہت غلو پایا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ حضرت علی کو مشکل کشا سمجھتے ہیں ۔ اپنے اس عقیدے سے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ضعیف و موضوع احادیث بیان کرتے ہیں ۔ کہیں تو وہ حدیث ہی نہیں مانتےیہاں تک کہ بخاری ومسلم کی بھی کوئی حدیث صحیح نہیں مانتے اور کہیں حدیث کے نام پر گھڑی ہوئی باتیں پھیلاتے ہیں ۔ کنزالعمال (علاء الدین علی متقی بن حسام الدین برہان پوری متوفی:975) سے ضعیف حدیث لےکر لوگوں کو بتلاتے ہیں کہ دیکھو یہاں اللہ کا حضرت علی کے ذریعہ مدد کرنا لکھا ہے ۔
کنزالعمال میں وارد حضرت علی سے متعلق روایت کا مختصر حکم آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔
اللہ کا حضرت علی کے ذریعہ مدد اور تائید والی روایت چند طرق سے مروی ہے مثلا ابوالحمراء ھلال بن حارث اور جابر بن عبداللہ وغیرہ ان کے علاوہ بھی دیگر طریق مثلا ابوھریرہ ،انس بن مالک،ذکوان اور عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہم سے مروی ہے مگر سارے طرق میں ضعف ہے ۔
(1) ابوالحمراء والی روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔( السلسلة الضعيفة:4902)
علامہ ذہبی نے کہا کہ اس کو گھڑنے والا احمد بن حسین کوفی ہے ۔(تلخيص العلل المتناهية:79)
(2) جابر بن عبداللہ والی روایت کو ابن الجوزی نے صحیح نہیں قراردیا ۔(العلل المتناهية:1/237 )
اس میں ایک شیعہ راوی اشعث متکلم فیہ ہے ۔(ميزان الاعتدال:1/269)
(3) ابوھریرہ والی روایت میں عباس بن بکار منکرالحدیث ہے ۔( لسان الميزان:4/403)
(4) انس بن والی روایت کو علامہ ذہبی نے مختلق کہا ہے ۔(ميزان الاعتدال:1/530)
(5) ذکوان والے طریق کو علامہ ذہبی نے باطل قرار دیا ہے ۔(ميزان الاعتدال:2/382 )
(6) عبداللہ بن عباس والی روایت کے متعلق حافظ ابن کثیر نے کہا کہ اس میں محمد بن أبي الزعيزعة منکر روایت کرنے والا ہے ۔(لسان الميزان:7/137)

خلاصہ یہ کہ یہ روایت کسی بھی جہت سے قابل استدلال نہیں ہے یہ ضعیف وموضوع ہے ۔ 
مکمل تحریر >>

Tuesday, October 25, 2016

جھوٹی روایت "جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھوتو قتل کردو"


جھوٹی روایت "جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھوتو قتل کردو"
======================
مقبول احمد سلفی

تاریخ کے حوالے سے نبی ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہوئے شیعہ یہ جھوٹ پھیلاتا ہے نعوذباللہ ثم نعوذباللہ "جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھوتو قتل کردو"۔
بہت ساری کتب تاریخ اور جرح کی کتابوں کا حوالہ دے کرشیعہ روایت نقل کرتے ہیں جس کا متن اس طرح سے ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :اذا رایتم معاویہ علی منبرفاقتلوہ۔
ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے "جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کر دینا"۔
حالانکہ علماء ومحدثین نے ان کتابوں میں اس روایت کو جھوٹی اور من گھڑت لکھا ہے اسى جھوٹ کو واضح کرنے کے لئے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
اس روایت کے متعلق محدثین ومحققین کا حکم دیکھیں آپ کواسکے کذب ووضع کااندازہ ہوجائے گا۔
(1) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ روایت کذب وموضوع ہے ۔(منهاج السنة:4/378)
(2) ایوب سختیانی نے کہا یہ کذب ہے ۔(تهذيب التهذيب:8/74)
(3) عقیلی نے اسے منکر قرار دیا ہے ۔(تهذيب التهذيب: 2/428)
(4) ابن حبان نے کہا کہ اس کی سند میں حکم بن ظہیرنام کا راوی ہے جو صحابہ کرام کو گالیاں دینے والا ہے اور ثقہ راویوں سے گھڑی ہوئی چیزیں بیان کرتا ہے ۔ ( المجروحين:1/304 )
(5) ابن عدی نے اسے غیرمحفوظ قرار دیا ہے ۔(الكامل في الضعفاء:2/491)
(6) ابن القیسرانی نے کہا کہ اس میں حکم بن ظہیرالفزاری ہے جو حدیثیں وضع کرنے والا ہے اس سے یہ بات عباد بن یعقوب الرواجنی نے چوری کی ہے جو غالی قسم کا رافضی ہے ۔ (معرفة التذكرة:92)
(7) ابن الجوزی نے اسے موضوع قرار دیا ہے ۔( وضوعات ابن الجوزي: 2/266)
(8) امام ذھبی نے کہا اس میں حکم بن ظہیر پر کلام ہے ۔( ميزان الاعتدال:1/572)
(8) علامہ ابن کثیر نے کہا یہ بلاشک جھوٹ ہے ۔( البداية والنهاية: 8/135)
(9) علامہ شوکانی نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے ۔( الفوائد المجموعة:407)
(10) شیخ ناصرالدین البانی اسے موضوع قرار دیتے ہیں ۔(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة: 4930)
ان کے علاوہ بے شمار اہل علم نے اس روایت کو جھوٹی قرار دیا ہے ۔ اس لئے کسی مسلمان کے لئے روا نہیں کہ اس  جھوٹی بات کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرے ۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ نے کتابت وحی پر امین بنایا تھا ، اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے ، ان کے متعلق یہ لعنت اللہ توبہ ۔ یہ شیعی دجل وفریب اور کذب وافتراء ہے ۔ اگر یہ بات سچ ہوتی تو امیر معاویہ ضرور قتل کردئے گئے ہوتے ۔
ایک طرف شیعہ آل بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں اور بیجا حد تک آل بیت کی محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسری طرف اصحاب محمد ﷺ کو مشق ستم بناتے ہیں ، لعن وطعن اور سب وشتم کرتے ہیں ۔  یہ کیسی ستم ظریقی ہے۔
کیا آپ نے سوچا کہ شیعہ صحابہ کرام کو کیوں گالی دیتے ہیں ؟ اس سے متعلق امام مالک رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شیعہ ایسی قوم ہے جس نے نبی ﷺ پر طعن کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں کومیاب نہیں ہوئے تو صحابہ پر طعن وتشنیع کرنے لگے تاکہ کہنے والا آپ کے متعلق یہ کہے براآدمی تھا ان کے ساتھی بھی برے تھے ، اگر اچھے آدمی ہوتے تو ان کے ساتھی بھی اچھے ہوتے ۔ (صواعق: 1405)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صحابہ کرام کے متعلق تحریرکیا ہے کہ خیرالقرون اصحاب جنہیں نبی ﷺ کی رقافت نصیب ہوئی ہے ان پر طعن کرنا دراصل رسول اللہ ﷺ پر طعن کرنا ہے ۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیہ 4/429)
اسلئے مسلمانوں ! امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ   یا قصہ کربلا کے پس منظر میں یا بغیر کسی پس منظر کے کسی مسلمان  کے متعلق خاص طور سے صحابہ  کرام کے متعلق کچھ غلط بات کہنا ہمارے ایمان وعمل صالح کے لئے قدح ہے ۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں۔ 

مکمل تحریر >>

Sunday, October 23, 2016

کیا یزید کی ماں نے قتل حسین پہ روزہ کی منت کی تھی؟



کیا یزید کی ماں نے قتل حسین پہ روزہ کی منت کی تھی؟
مقبول احمد سلفی
شیعہ لوگ مسلمانوں میں یہ بات پھیلارہے ہیں کہ اسلام میں عاشوراء کے روزے کی کوئی اہمیت نہیں خواہ مخواہ ضعیف و موضوع روایات کو لیکر عاشوراء کا روزہ ثابت کیا جاتا ہے۔
(1)حقیقت یہ ہے کہ "یزید کی ماں نے منت مانگی تھی کہ اگر میرا بیٹا کامیاب ہوا اور امام حسین قتل ہوگئے تو میں ہر سال اس دن کا روزہ رکھا کروں گی اور آج تک اس سنت پر عمل کیاجارہاہے "۔
(2) بعض شیعہ یہ خبر پھیلاتے ہیں کہ "یزید کی ماں نے منت مانی تھی کہ اگر یزید کو حسین نے قتل کردیا تو میں 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھوں گی اور پھر اس نے روزه  رکھا جس کا یزید سے تعلق ہے وہ رکھ سکتا ہے 9 اور 10 محرم کا روزہ" ۔ اس کا حوالہ شیعہ نے دیا ہے کتاب :صحیح بخاری،باب:روزہ کے مسائل کابیان،حدیث نمبر2004، صفحہ نمبر:237،238۔۔
نعوذباللہ من ذلک اب دین کا اس طرح مذاق اڑایا جاتا ہے اور کیوں نہ اڑائے کہ بریلوی ,شیعہ کا پوری شد ومد کے ساتھ دیتا ہے اور اپنا بھائی مانتا ہے۔
اسلام میں عاشوراء کا روزہ ثابت ہے ، نبی ﷺ نے خود رکھا، صحابہ کرام کو رکھنے کا حکم دیا اور اس وقت سے مسلمان یہ روزہ رکھتے آرہے ہیں ۔ عاشوراء کا, واقعہ کربلا سے کوئی تعلق ہی نہیں ، یہ تو اس شیعی فتنے سے پچاس سال سے بھی پہلے سے موجود ہے جب نبی ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے آئے بلکہ اس ہجرت سے بھی پہلے سےعاشوراء کا ثبوت ملتا ہے وہ بھی کوئی ضعیف و موضوع روایت سے نہیں بلکہ اس کتاب حدیث سے جس کی صحت پر پوری امت کا اجماع ہے,حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
كان يومُ عاشوراءَ تصومُه قريشٌ في الجاهليةِ، وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُه، فلما قَدِمَ المدينةَ صامه وأمَر بصيامِه، فلما فُرِضَ رمضانُ ترك يومَ عاشوراءَ، فمَن شاء صامه ومَن شاء ترَكَه .(صحيح البخاري:2002)
ترجمہ : قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
گویا عاشوراء اسلام میں ایک ثابت شدہ امر ہے اس کا انکار کرنے والامنکرحدیث ہے ۔ رہ گیا یزید کی ماں کا منت ماننا تو یہ سراسر جھوٹ  اور یزید کی ماں پہ بہتان ہے کیونکہ یزید نے امام حسین کے قتل کا کبھی ارادہ کیا اور نہ ہی اس نے قتل کیا۔ویسے بھی یہ جھوٹ شیعہ کے الفاظ سے ہی ظاہر ہے ۔
اولا: یہ کہنا کہ اسلام میں عاشوراء کے روزہ کا کوئی تصور نہیں جبکہ اس کے متعلق بہت ساری صحیح احادیث موجود ہیں ، سارے مسلمانوں کو معلوم ہے اور شروع اسلام سے یہ روزہ رکھتے آرہے ہیں ۔
ثانیا: شق نمبر دو میں شیعہ نے جو حوالہ دیا ہے وہ شیعى فراڈ ہے جس طرح حسین رضی اللہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے یزید کے سر الزام لگایا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 2004 میں عاشوراء کے روزہ کا ذکر ہے۔ جس عاشوراء کا خود شیعہ انکار کرتا ہے اسی کا حوالہ بھی دیتا ہے ، کہاجاتا ہے کہ جب چور بھاگتا ہے تو کچھ نہ کچھ ثبوت چھوڑ جاتا ہے ۔ بخاری کی 2004 نمبر والی حدیث دیکھیں :
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَى قَالَ فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ (صحیح البخاری ، حدیث نمبر: 2004)
ترجمہ: ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سعید بن جبیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ ( دوسرے سال ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراءکے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن ( فرعون ) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے ( شریک مسرت ہونے میں ) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔
ثالثا: یزید کی ماں کو کیسے معلوم ہوا کہ نواور دس محرم کو حسین قتل ہوں گے تاکہ اس دن روزہ رکھے ، اور ہاں ایک شبہ اور ہے کہ قتل تو ایک دن ہوتا ہے یہ دو روزہ کس لئے ؟ ضرور دال میں کچھ کالاہے ۔
خلاصةً  یہ شیعى مکروفریب ہے اس کے ذریعہ عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، میں تمام مسلمانوں سے گذارش کرتا ہوں کہ اگر اس قسم کاکوئی مشکوک مواد سوشل میڈیا کے ذریعہ ملے تو فورا ًعلماء سے رابطہ کرکے اس کی حقیقت معلوم کریں اور بلاتحقیق کوئی پوسٹ شیئر نہ کریں ۔

اللہ تعالی ہمیں ہرقسم کے قتنے سے نجات دے ۔ آمین

مکمل تحریر >>

Thursday, October 20, 2016

مسافر کا مقیم کی جماعت کروانا

مسافر کا مقیم کی جماعت کروانا
===============
مقبول احمد سلفی
داعی/اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

جس  طرح مسافر مقیم کے پیچھے نماز ادا کرسکتا ہے اسی طرح وہ مقیم کی جماعت بھی کرواسکتا ہے ۔ یہ بات دلائل سے واضح ہے  مگر کچھ لوگوں نے اس مسئلہ میں شدت برتی ہے اور ناسمجھی کی بنیاد پر مسافر کا مقیم کی جماعت کروانا غلط قرار دیا ہے ۔ پہلے دلائل دیکھیں جن سے مسافر کا مقیم کی جماعت کروانا ثابت ہوتا ہے پھر وارد ہونے والے اعتراض کا جواب بھی دیتاہوں۔
اس مسئلہ کو جاننے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا نبی ﷺ نے کسی مسلمان کو خواہ مسافر ہو یا مقیم ،چھوٹا ہو یا بڑا ، بیمار ہو یا صحت مند امامت کرنے سے منع کیا ہے ؟
جب قرآن وحدیث میں اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں تو پتہ چلتا ہے نبی ﷺ کا ایسا کوئی فرمان نہیں کہ اس قسم کے کسی مسلمان کو امامت کرنے سے روکا ہو۔ امامت کے لئے متفقہ شروط ہیں کہ جو مسلمان ہو، تمیز رکھنے والاہو(خواہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو)، قوم اسے پسند کرتی ہو وہ مسلمان امامت کراسکتا ہے  البتہ جو امامت کے زیادہ مستحق ہیں ان کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں ہے ۔
ابو مسعود (عقبہ بن عمرو) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
يَؤُمُّ القومَ أقرؤُهم لكتابِ اللهِ . فإن كانوا في القراءةِ سواءً . فأعلمُهم بالسُّنَّةِ . فإن كانوا في السُّنَّةِ سواءً . فأقدمُهم هجرةً . فإن كانوا في الهجرةِ سواءً ، فأقدمُهم سِلْمًا . ولا يَؤُمنَّ الرجلُ الرجلَ في سلطانِه . ولا يقعدُ في بيتِه على تَكرِمتِه إلا بإذنِه قال الأشجُّ في روايتِه ( مكان سِلمًا ) سِنًّا .(صحيح مسلم:673)
ترجمہ : لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو اسلام لانے میں پہلے ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت وحکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دے دے ۔ اشج نے کہا کہ "سلما" کی جگہ اس کی روایت میں سنا (عمر) کا لفظ آیاہے ۔
اس حدیث کی رو سے سب سے پہلے امامت کا مستحق سب سے زیادہ قرآن یاد رکھنے والا۔
اس کے بعد جسے سنت کا زیادہ علم ہو۔
اس کے بعد جنہوں نے پہلے ہجرت کی ہو۔
اس کے بعد جو پہلے مسلمان ہوا ہوبعض روایت کے اعتبار سے جن کی عمر زیادہ ہو۔
ان صفات کے حامل ،لوگوں کی امامت کراسکتے ہیں خواہ وہ مقیم ہو یا مسافر ۔ گویا اصلا امامت کرانے میں تمام مسلمان شامل ہیں اگر کوئی  مسافرکا مقیم کی امامت سے انکار کرے اس کے ذمہ شرع سے دلیل دینی لازم ہے ۔
فتح مکہ کے موقع سے نبی ﷺ نے مکہ  میں انیس دن قیام کیاتھا ان دنوں میں آپ نے قصر نماز پڑھی یعنی آپ نے بحیثیت مسافر لوگوں کی امامت کرائی اور اہل مکہ آپ کے پیچھے مکمل نماز پڑھتے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أقام النبيُّ صلى الله عليه وسلم تسعةَ عشرَ يَقْصُرُ ، فنحن إذا سافَرْنا تسعةَ عشرَ قصَرْنا ، وإن زَدْنا أَتْمَمْنا .(صحيح البخاري:1080)
ترجمہ: نبی ﷺ (فتح مکہ کے موقع سے ) انیس دن قیام کیا اور ان دنوں میں آپ نے قصر کیا تو جب ہم انیس دن کے لئے سفر کرتے تو ان دنوں میں قصر کرتے اور اگر اس سے زیادہ کا سفر کرتے تو مکمل (نماز) پڑھتے ۔
اس بات کی دلیل کہ نبی ﷺ قصر پڑھتے اور اپنے پیچھے نماز پڑھنے والے اہل مکہ کو اتمام کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
عن عمرانَ بنَ حصينٍ قال : غزوتُ مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم وشهدتُ معه الفتحَ ، فأقام بمكةَ ثمانيَ عشرةً لا يُصلِّي إلا ركعتيْنِ ، يقول : يا أهلَ البلدِ صلُّوا أربعًا فإنَّا قومٌ سَفْرٌ(ترمذی)
ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ عزوہ کیا اور آپ کے ساتھ فتح مکہ میں شامل ہواپس آپ ﷺ نے مکہ میں اٹھارہ دن قیام کیا ان دنوں دو دو رکعت نماز ادا کرتے رہے (یعنی قصرکرتے رہے) اور فرماتے : اے شہروالو! تم لوگ چار رکعت ادا کرو ، ہم لوگ مسافر ہیں۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں ترمذی نے اس حدیث کو شواہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے ۔ (التلخیص الحبیر:2/552)
٭ ابن حجر نے خود بھی اسے مشکوۃ کے مقدمہ میں حسن کہا ہے ۔ (تخريج مشكاة المصابيح:2/87)
 صحابہ کرام بھی نبی ﷺ کی اس سنت پہ  چلتے جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب مسافر کی حیثیت سے نماز پڑھاتے تو دو رکعت پڑھتے اور اہل مکہ کو اپنی نماز مکمل کرنے کا حکم دیتے ۔ اثر ملاحظہ ہو۔
وعن عمر أنه كان إذا قدم مكة صلى بهم ركعتين ، ثم قال : يا أهل مكة أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر . (رواه مالك في الموطأ ) .
ترجمہ: اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب مکہ آتے تو ان کو دو رکعتیں پڑھاتے پھر کہتے اے اہل مکہ ! تم اپنی نماز مکمل پڑھو کیونکہ ہم مسافر ہیں۔
٭ امام شوکانی رحمہ اس کے متعلق لکھتے ہیں"وأثر عمر رجال إسناده أئمة ثقات " یعنی عمر رضى اللہ تعالى كے اثر كى سند كے رجال ثقہ ہيں ملاحظہ کریں (نيل الاوطار :3 / 177)۔
٭ امام نووی رحمہ اللہ اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (المجموع:8/92)
٭ محمد امین شنقیطی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (أضواء البيان:5/281)
٭ علامہ عینی نے کہا کہ یہ اثر پانچ صحیح طرق سے مروی ہے ۔ ( نخب الافكار:6/355)
٭ علامہ ابن تیمیہ نے اسے صحیح کہا ہے ۔( مجموع الفتاوى:24/125 )

ایک اعتراض کا جواب :
زائروالی ایک روایت کی بنیاد پر بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مسافر مقیم کی امامت نہیں کراسکتا۔ روایت اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِذَا زَارَ أَحَدُكُمْ قَوْمًا، فَلا يُصَلِّيَنَّ بِهِمْ ۔(صحيح النسائي:786)
ترجمہ: مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: جب تم میں سے کوئی کسی قوم کی زیارت کے لئے جائے تو وہ انہیں ہرگز نماز نہ پڑھائے۔
اس روایت میں زائر(مہمان) کو مقیم کی جماعت کرانے سے منع کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ گھروالا ہی امامت کا زیادہ مستحق ہے تاہم اگر بستی والے اجازت دیدیں تو زائر بھی امامت کراسکتے ہیں۔ چنانچہ سب سے اوپر صحیح مسلم کی روایت میں اس بات کا ذکر موجود ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے "ولا يَؤُمنَّ الرجلُ الرجلَ في سلطانِه . ولا يقعدُ في بيتِه على تَكرِمتِه إلا بإذنِه " یعنی اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت وحکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دے دے ۔گویا اجازت ملنے پہ زائر مقیم کی امامت کراسکتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے بحیثیت زائرومہمان  گھروالوں کی امامت بھی کرائی ہے، صحیح بخاری کی حدیث ہے حضرت عتبان بن مالك رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں:
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أتاه في منزلِه، فقال :
كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے گھر تشريف لائے اور فرمانے لگے:أين تُحِبُّ أن أصليَ لك من بيتِك . قال : فأشَرْتُ له إلى مكانٍ، فكبَّر النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، وصفَفْنا خلفَه، فصلَّى ركعتين .(صحيح البخاري:424)
ترجمہ: آپ اپنے گھر كى كونسى جگہ پسند كرتے ہيں ميں وہاں نماز پڑھتا ہوں، چنانچہ ميں نے ايك جگہ كى طرف اشارہ كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تكبير كہى اور ہم نے ان كے پيچھے صف بنائى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں دو ركعت نماز پڑھائى۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسافر مقیم کی امامت کراسکتا ہے اور جس حدیث میں زائر کی امامت ممنوع ہے وہ بغیراجازت کی امامت ہے یعنی زائر بغیر اجازت جماعت نہ کرائے ، اجازت مل جائے تو امامت کراسکتا ہے ۔

واللہ اعلم 
مکمل تحریر >>