Thursday, September 29, 2016

فٹ پاتھ پہ قبضہ کرنا کیساہے ؟

فٹ پاتھ پہ قبضہ کرنا کیساہے ؟
=================
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر قبضہ کرکے کاروبار کرنا کیساہے اور ایسے کاروبار کی کمائی کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے ؟ براہ کرم اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔
  سائل : رئیس ممبرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حامداومصلیا اما بعد !
جو زمین کام میں استعمال ہو گوکہ عام زمین ہو مثلا راستے کی زمین یا فٹ پاتھ (پیدل چلنے والی زمین) اس پہ قبضہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ غیرآباد و بنجر زمین آباد کرنے سے ملکیت ثابت ہوجاتی ہے جیساکہ حدیث میں ہے :  یحییٰ بن عروہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن أحيا أرضًا ميتةً فَهيَ لَهُ ( صحيح أبي داود:3074)
ترجمہ: جو کوئی بنجر لاوارث زمین آباد کرے تو وہ اسی کی ہے ۔
آج کل ایک شرط اور بھی لگائی جاتی ہے وہ ہے حکومت کی طرف سے اجازت۔ اگر حکومت نے غیرآباد زمین کی آبادکاری کی اجازت دیدی تو پھر آباد کرنے سے ملکیت ہوجائے گی ۔
جہاں تک سوال فٹ پاتھ پہ قبضہ کرکے آمدنی حاصل کرنے کا تو ظاہر سی بات ہے جو زمین اس نے آباد نہیں کی ہے اور نہ ہی اس نے خریدی ہے اس پہ قبضہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ کسی زمین کو آباد کرنے کے لئے دو چیزیں مد نظر رکھنی ہے اولا: وہ کسی کی ملکیت نہ ہو ۔ ثانیا: اس زمین سے کوئی مصلحت نہ جڑی ہو۔مثلا راستہ، فٹ پاتھ، نہریں، کنواں،قبرستان وغیرہ انہیں مصلحت والی زمینوں میں سے جن سے عوام کا مفاد جڑا ہے ۔
لہذا فٹ پاتھ پہ قبضہ والی زمین ناجائز ہے اس کی کمائی بھی اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک وہ اپنا معاملہ قانونی اعتبار سے درست نہ کرلے ۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Tuesday, September 27, 2016

نماز تراویح سے متعلق حفاظ کرام کا سوال

نماز تراویح سے متعلق حفاظ کرام کا سوال
==================

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہمارے یہاں بعض جہلاء ان حفاظ کرام پر اعتراض وتنقید کرتے ہیں جو حفاظ کسی وجہ سے تراویح میں قرآن نہیں سناپاتے۔( سب کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہے۔)حالانکہ وہ حفاظ شب وروز فرائض وسنن میں قرآن کی تلاوت مع تجوید کا معمول بنائے ہوتے ہیں۔ تاکہ قرآن یاد رہے۔جہاں تک ہمارا علم ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف 3 دن باجماعت نماز تراویح پڑھائی۔ اس کے علاوہ ہزاروں صحابہ کرام تابعین عظام ومحدثین کرام حافظ قرآن ہوتے ہوئے نماز تراویح نہیں پڑھائی اور نہ ہی ان لوگوں نے نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے کو پیشہ کے طور پر اختیار کیاجیسا کہ آج کل حفاظ کرام رمضان سے قبل ذمہ داران مساجد سے ریٹ طے کرتے ہیں۔ جہاں پر ریٹ زیادہ ہوتا ہے اس مسجد کو ترجیح دیتے ہیں۔اس صورت میں سوال یہ ہیکہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھانا گناہ کا کام ہے ؟اور تراویح پڑھانے کیلئے ریٹ طےکرنا کہاں تک جائز ودرست ہے؟براہ کرم قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کرام سے رہنمائی فرمائیں۔نوازش ہوں گی۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حامدا ومصلیا اما بعد !
مذکورہ بالا سوال میں چند باتیں مرقوم ہیں ۔
(1) رمضان میں قرآن مجید ختم کرنا
(2) تراویح میں قرآن سنانے کو بطور پیشہ اختیار کرنا
(3) طے کرکے اجرت لینا
(4) حفاظ کا تراویح میں قرآن نہ سنانا

بنیادی بات یہ سمجھیں کہ  رمضان میں قرآن پڑھنے کی اور قیام کرنے کی بڑی فضیلت ثابت ہے اس وجہ سے عہدنبوی سے لیکر آج تک مومن بندے رمضان میں قرآن کی تلاوت اور تراویح کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے لئے باقاعدے امام متعین کئے ۔ بذات خود نبی ﷺ نے تین دن باجماعت تراویح پڑھائی جس کی طرف سوال میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ عہد نبوی میں صرف تین دن تراویح ہوئی بلکہ آپ نے ﷺ نے کہیں امت پر فرض نہ کردی جائے اس خوف سے جماعت کے ساتھ تین دن سے زیادہ تراویح نہیں پڑھائی ۔ صحابہ کرام منفردا رمضان بھرتراویح پڑھتے رہے یہاں تک کہ عہد عمر میں جماعت کی شکل دی گئی ۔
أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في رمضان ؟ . فقالتْ : ما كان يزيدُ في رمضانَ ولا في غيرهِ على إحدى عشرةَ ركعةً،يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عَن حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عنْ حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يصلي ثلاثًا . فقُلْت : يا رسولَ اللهِ، أتنامُ قبلَ أن توتِرَ ؟ . قال : ( يا عائشةُ، إنْ عَيْنَيَّ تنامانِ ولا ينامُ قُلْبي ) .(صحيح البخاري:2013)
ترجمہ: راوی حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
اس حدیث میں جہاں اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی ﷺ رمضان بھر تراویح (قیام اللیل) کیا کرتے تھے وہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ آپ کا قیام بہت لمبا ہوا کرتا تھا۔ رمضان میں قیام کی فضیلت کا بیحد ثواب ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے نبی ﷺ نے یا صحابہ کرام نے رمضان میں قیام چھوڑدیا ہو؟
زیاد بن علاقہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا:
إنْ كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ليقومُ لِيُصلِّي حتى تَرِمُ قدماهُ ، أو ساقاهُ . فيُقالُ لهُ ، فيقولُ : أفلا أكونُ عبدًا شكورًا .(صحيح البخاري:1130)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا ( یہ کہا کہ ) پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے "کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں"۔
اس کیفیت سے رمضان بھر قیام کیا جائے تو بالیقین قرآن ختم ہوجائے گا۔ مزید برآں نبی ﷺ سے رمضان میں مکمل قرآن ختم کرنا بھی ثابت ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
كان يَعرِضُ على النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم القرآنَ كلَّ عامٍ مرَّةً، فعرَضَ عليهِ مرَّتينِ في العامِ الذي قُبِضَ فيه، وكان يَعْتَكِفُ كلَّ عامٍ عَشرًا، فاعْتَكَفَ عِشرينَ في العامِ الذي قُبِضَ فيهِ.(صحيح البخاري:4998)
ترجمہ: جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔
بہرکیف ! تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری نہیں ہے مستحسن ہے ۔ ختم کرنے کے چکرمیں بہت سارے حفاظ بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں ۔ کتنے تو صفحات کے صفحات چھوڑدیتے ہیں ۔ جو بہترین حافظ قرآن ہو اور تراویح میں شامل لوگ لمبے قیام کی طاقت رکھنے والے ہوں تو اچھا ہے کہ ختم کرلیا جائے ۔ قرآن ختم کرنے کے لئے تراویح کی نماز ہی شرط نہیں ہے انفرادی طور پر نماز سے باہرجتنا ممکن ہو ایک دو ختم الگ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
تراویح  میں قرآن سنانے پہ اجرت لینا جائز ومباح ہے جیساکہ بخاری شریف کی روایت ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ أحقَّ ما أخَذْتُمْ عليهِ أجرًا كتابُ اللهِ(صحيح البخاري:5737)
ترجمہ: بے شک بہت ہی لائق چیز جس پر تم مذدوری حاصل کرو،اللہ کی کتاب ہے۔
ائمہ ومحدثین نے بھی قرآن کی تعلیم، اذان، خطابت وغیرہ پہ اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے  البتہ یہاں ایک امر قابل مذمت ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے کو اس طور پیشہ بنانا کہ جہاں سب سے زیادہ اجرت ملے وہیں تراویح پڑھائیں ۔ اجرت طے کرنے تک تو معاملہ  ٹھیک ہے مگر اس  طرح حرص مال کی پیشہ وری قیام اللیل جیسی عظیم نفلی عبادت میں خشوع وخضوع پر منفی اثر ڈالنے والی ہے ۔ ساتھ ہی عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی  بھی ہے ۔اس سےغریب ومسکین بستی والے حفاظ کا رونا روئیں گے ۔ اس لئے خدارا اجرت کے معاملہ میں تقوی اختیار کریں ۔
رہا مسئلہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھا نا۔گوکہ تراویح نہ پڑھانے سے گنہگار نہیں ہوگالیکن  سارے حفاظ ایسا ہی سوچ لے تو پھر تراویح کون پڑھائے گا؟
آپ نے قرآن حفظ کیا ہے یہ بڑے درجے کا کام ہے ۔ اس قرآن سے دوسروں کو مستفیدکریں ،دیکھیں نبی ﷺ قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خيرُكم مَن تعلَّم القرآنَ وعلَّمه(صحيح البخاري:5027)
ترجمہ : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے ۔
بہت ساری غریب بستیاں ایسی ہیں جنہیں حافظ قرآن میسر نہیں ہوتا تو مجبورا سورہ تروایح(تراویح میں چھوٹی چھوٹی سورت پڑھنا اسے لوگ سورہ تراویح کہتے ہیں) پڑھتے ہیں ایسی جگہوں کو تلاش کرکے تطوعا تراویح پڑھانا نہایت اجر والا کام ہے ۔ اور میرے خیال سے اگر اجرت نہ بھی طے کی جائے پھر بھی رمضان المبارک میں لوگ فیاض ہوتے ہیں حافظ قرآن کو ضرور نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔
حفاظ کرام سے ایک دو باتیں یہ عرض کرنی ہے کہ قرآن کے حفط کو صرف تراویح تک محدود نہ رکھیں بلکہ اگر امام مسجد ہیں تو نماز وں میں پورے قرآن سے تلاوت کرتے رہا کریں ، اگر امام نہیں ہیں تو اپنی سنت ،نفل، قیام اور دیگر تلاوت میں پورے قرآن سے پڑھا کریں اس طرح سے آپ کا حفظ ہمیشہ تازہ رہے گا اور قرآن بھولنے سے بچیں گے ۔ ساتھ  ہی قرآن  کا معنی ومفہوم بھی جاننے کی کوشش کریں تاکہ آپ مسجد میں تراویح کے ساتھ لوگوں کو قرآن کا درس بھی دے سکیں اور اگر آپ کو کوئی امام سمجھ کر قرآن سے کچھ سوال کرے تو اس کا جواب بھی دے سکیں ۔  اللہ تعالی ہم سب کو عمل وعمل کی توفیق دے اورقرآن کی تعلیم عام کرنے میں اخلاص پیدا کردے ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی

داعی ومبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
مکمل تحریر >>

محرم الحرام اور عاشوراء کا روزہ

محرم الحرام اور عاشوراء کا روزہ
مقبول احمد سلفی
اللہ تعالی نے ابتدائے آفرینش سے  چار مہینوں کو حرمت والا قرار دیا ہے وہ ہیں ۔ ذی قعدہ ، ذی الحجہ ،محرم اور رجب ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (التوبة:36)
ترجمہ : مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ۔ یہی درست دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرواور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے ۔
فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الہی ہے ۔ یعنی ابتدائے آفرینش سے ہی اللہ تعالی نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے ۔ اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے اس طرح  فرمایا ہے کہ "زمانہ گھوم گھماکر پھراسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی ۔ سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں چار حرمت والے ہیں ، تین پے درپے ۔ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر،جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے (صحیح بخاری-کتاب التفسیر،سورہ توبہ وصحیح مسلم ،کتاب القسامۃ ،باب تغلیظ تحریم الدماء۔۔۔)زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب ،مشرکین عرب مہینوں میں جو تقدیم وتاخیر کرتے تھے اس کا خاتمہ ہوگیا۔ (تفسیر احسن البیان )
ادب واحترام کی وجہ سے اس مہینے کو محرم کہاجاتا ہے ۔ اس میں جنگ وجدال ، فتنہ وفساد، ظلم وبربریت ، لڑائی وجھگڑا کرنا بالخصوص منع ہے ۔ اس ممانعت کی پاسداری زمانہ جہالت سے بلکہ تخلیق کائنات سے چلی آرہی ہے ۔یہ مہینہ حرمت والے مہینے میں سب سے افضل ہے ۔
محرم الحرام اور بدعات کا طوفان : یہ مہینہ ادب واحترام والا ہونے کے باوجود صوفیوں اور بدعتیوں نے سوگ منانے اور کھانے پینے کےسیکڑوں گمراہ  راستے ایجاد کرلئے ۔ شہادت حسین کا ماتم، تعزیہ کے نام پہ عزاداری، نوحہ وزاری،قوالی ومرثیہ ،دیگیں اور سبیلیں ، نحوست وعزا کا اظہار، شہداء کی نذرونیاز، جسم لہولہان کرنا، عورتوں ومردوں کا اختلاط اور ناچ گانے ، ڈھول تماشے وغیرہ سارے کام نوایجاد  اوربدعات کے قبیل سے ہیں ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ احترام والے مہینے کا احترام کرے جس طرح اہل زمانہ نے کیاہے ۔ اللہ کے حدود کی پامالی عذاب کا پیش خیمہ ہے ۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو دین کی صحیح سمجھ دے کہیں ایسا نہ ہوکہ  ان بدعات کے ارتکاب سے اللہ امت پر عذاب عام کردے ۔ الحفظ والاماں
اس مہینے کے بے شمار فضائل ہیں یہاں صرف ایک اہم فضیلت کا ذکر کیاجاتا ہے وہ ہے محرم میں روزہ رکھنا بالخصوص عاشوراء کا ۔

 محرم الحرام اور عاشوراء کے روزے

(1) محرم کے اکثرروزے کی فضیلت : محرم کے مہینے میں پورے مہینے کا روزہ رکھنا جائز  ہے اور بعض فقہاء نے ذکر بھی کیا ہے پورے محرم کا روزہ رکھنا چاہئے، مگر نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ۔رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں اکثردن کا روزہ رکھتے تھے ۔
اس لئے تمام نصوص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گاکہ حدیث :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم وافضل الصلوۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل (اخرجہ مسلم ص ۳۶۸ ج۱، ایضا ابو داؤد، الترمذی، النسائی)
ترجمہ : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
محرم کے زیادہ تر روزہ رکھنے پہ محمول کی جائے گی نہ کہ پورے محرم کے روزے پہ ۔
٭شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس حدیث سے محرم کے ابتدائی دس روزے مراد لئے ہیں۔
٭ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا پورے محرم کا روزہ رکھنے والا بدعتی کہلائے ؟ توآپ نے کہا نہیں ، لیکن نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے اور شعبان کا اکثر و بیشتر روزہ رکھتے تھے ۔ (کلام کا اختصار)
٭ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ، لہذا یہ حدیث محرم میں بکثرت روزہ رکھنے پہ محمول ہوگی نہ پورے مہینے پہ ۔
 (2) صرف دسویں محرم کے روزے کی فضیلت :نبی ﷺ نے دسویں محرم کا روزہ رکھا ہے ، آپ نے اس روزے کا برا اجر ذکرفرمایاہے ۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کے متعلق سوال کیے گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:انی احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ۔ (صحیح مسلم:1162) .
ترجمہ :مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری و مسلم)
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
اس لئے نبی ﷺ نے خود بھی دسویں محرم کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
كان يومُ عاشوراءَ تصومُه قريشٌ في الجاهليةِ، وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُه، فلما قَدِمَ المدينةَ صامه وأمَر بصيامِه، فلما فُرِضَ رمضانُ ترك يومَ عاشوراءَ، فمَن شاء صامه ومَن شاء ترَكَه .(صحيح البخاري:2002)
ترجمہ : قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
(3) صرف نومحرم کا روزہ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں:
حين صام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ عاشوراءَ وأمرَ بصيامِه ، قالوا : يا رسولَ الله ! إنه يومٌ تُعظِمُه اليهودُ والنصارى . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : فإذا كان العامُ المُقبلُ إن شاءَ اللهُ ، صُمْنا اليومَ التاسعَ . قال : فلمْ يأتِ العامُ المُقبلُ ، حتى تُوفِّيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ .(صحيح مسلم:1134)
ترجمہ: جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اوردوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام انہیں کہنے لگے یہودی اورعیسائي تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے , آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے ، ابن عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ۔
(4) نو اور دس یا دس اور گیارہ  محرم کا روزہ رکھنا: بعض روایات میں عاشوراء کو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں ملانے کا ذکر ملتا ہے ۔ روایت دیکھیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عہنما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صوموا يومَ عاشوراءَ ، وخالفوا فيه اليهودَ ، صوموا قبلَه يومًا ، و بعدَه يومًا۔
ترجمہ: عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو۔
اس روایت کو شیخ البانی اور علامہ شوکانی وغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں (ضعيف الجامع: 3506، نيل الأوطار 4/330 )
ایک دوسری حدیث میں واء کی بجائے او کا ذکر ہے ۔
صوموا يومَ عاشوراءَ وخالِفوا اليَهودَ ، صوموا قبلَهُ يومًا أو بعدَهُ يومًا۔
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ( صحيح ابن خزيمة:2095)
اسی طرح ایک اور روایت اس طرح کی ملتی ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
لئن بقيتُ لآمُرَنَّ بصيامِ يومٍ قبلَه أو يومٍ بعدَه . يومِ عاشوراءَ۔
ترجمہ : اگر میں (اگلے سال ) زندہ رہا تو میں عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں روزہ رکھنے کا حکم دوں گا۔
اسے شیخ البانی نے منکر کہاہے ۔ ( السلسلة الضعيفة:4297)
روزوں کے متعلق مذکورہ چارووں اقسام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محرم میں دو قسم کا روزہ رکھنا بڑے اجروثواب کا کام ہے ۔
ایک تو عمومی طور پر بکثرت روزہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس میں روزہ رکھنا رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔ دوسرا عاشوراء کا روزہ ۔ عاشوراء کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ کون سا روزہ رکھنا افضل ہے ؟
اس سلسلہ میں سب سے عمدہ قول یہ ہے کہ نومحرم اوریوم عاشوراء یعنی دس محرم دونوں کا روزہ رکھنا افضل ہے  اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اورنو محرم کا روزہ رکھنے کی نیت کی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جونومحرم کے روزے کا ارادہ اورقصد کیا اس کے معنی میں احتمال ہے کہ صرف نو پرہی منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ دس کا بھی اضافہ کیا جائے گا ، یا تو اس کی احتیاط کےلیے یا پھر یھود ونصاری کی مخالفت کی وجہ سے  اوریہی راجح ہے جو مسلم کی بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ (فتح الباری: 4 / 245 ) ۔
تاہم اکیلے دس محرم یا اکیلے نو محرم کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے جیساکہ دلیل سے ثابت ہے ۔ رہا نو اور دس یا دس اور گیارہ یا نو ،دس اور گیارہ تو علماء نے ان صورتوں کو بھی جائز کہاہے کیونکہ اس مسئلہ کی روایات میں ضعف ہلکا ہے ۔ میری نظر میں نو اور دس محرم کا روزہ رکھنا بہتر وافضل ہے ۔
عاشوراء کے دیگر مسائل
(1)  نو یا دس محرم کا اکیلا روزہ ہفتہ یا جمعہ کو پڑجائے تو اس دن اکیلا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ عرفہ کا روزہ ۔
(2) اگر کسی کے اوپر رمضان کا روزہ قضا ہو وہ بھی عاشوراء کا روزہ رکھ سکتا ہے کیونکہ قضا کے لئے بالفور روزہ رکھنا ضروری نہیں ہے ۔
(3) اکثر جگہوں پہ عیسوی تاریخ رائج ہے جس کی وجہ سے کہیں کہیں لوگوں کو رات میں عربی تاریخ کا علم نہیں ہوپاتا ایسے لوگ فجر کے بعد دن میں بھی عاشوراء کی نیت کرسکتے ہیں کیونکہ نفلی روزہ میں نبی ﷺ سے دن میں بھی روزہ کی نیت کرنی ثابت ہے شرط یہ ہے کہ فجر کے بعد کچھ کھایاپیا نہ ہو۔
(4) مسافر کو اگر روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہوتو عاشوراء کا روزہ رکھنا اولی ہے تاکہ اس کی فضیلت پاسکے ۔
(5) قضا روزے اور عاشوراء کو ایک نیت میں اکٹھا کرسکتے ہیں مگر افضل صورت یہی ہے کہ قضا الگ رکھے جائیں اور عاشوراء الگ ۔
(6) اگر عاشوراء سوموار یا جمعرات کو آجائے تو اس سومواروجمعرات کی نیت سے عاشوراء کو بھی ملاسکتے ہیں ۔
(7) کفارات  کا روزہ(جوکہ واجبی ہے) عاشوراء کے ساتھ ایک نیت میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ کفارات کی نیت سے عاشوراء کا اجر نہیں ملے گا۔ بعض اہل علم نے دونوں کا جمع کرنے کا بھی ذکر کیا ہے ۔
(8) عاشواء کی بعد میں قضا نہیں ہے اس لئے جس سے یہ روزہ چھوٹ جائے وہ اس کی قضا نہ کرے ۔
(9) جس کی نیت عاشوراء کا روزہ رکھنے کی تھی مگر کسی عذر کی وجہ سے نہیں رکھ سکا تو اللہ کا فضل وسیع ہے وہ نیت کے حساب سے بھی اجر دیتا ہے ۔ مثلا کوئی عین وقت پر بیمار پڑگیا  یا عورت کو حیض یا نفاس کا خون آگیا وغیرہ ۔
(10) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ طہارت ، نماز، رمضان کا روزہ ، صوم عرفہ اور صوم عاشوراء سے صرف گناہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں ۔
صوم عاشوراء کے منفی امور
احادیث کی روشنی میں ظاہر ہے کہ  اس مہینے میں صرف روزے کا ذکر ملتا ہے مگراس کے برخلاف بدعتیوں نے کھانے پینے کے مختلف بدعتی دروازے کھول رکھے ہیں ، خود بھی اجر سے محروم ہوکر بدعت کی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سادے عوام کو بھی فتنہ میں مبتلا کررکھے ہیں ۔
بدعتیوں کا کہنا ہے کہ شہداء کربلا پہ پانی بند ہونے کی یاد میں سبیل لگانا اور ان کی ارواح کے لئے فاتحہ کے ذریعہ ایصال ثواب کرنا چاہئے  ۔ یہ سراسر بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے  اور ہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کا عاشوراء میں اچھے اچھے پکوان بنانے کھانے سے اجتناب کرکے اس دن کا روزہ رکھنا چاہئے ۔
عاشوراء سے متعلق ضعیف وموضوع روایات
(1) إنَّ اللهَ خلق السماواتِ والأرضَ يومَ عاشوراءَ (موضوع)
ترجمہ : نے شک اللہ نے عاشوراء کے دن زمین وآسمان کو پیدا کیا۔
(2) مَنِ اكتحلَ بالإثمدِ يومَ عاشوراءَ لم يرمَدْ أبدًا۔ موضوع( السلسلة الضعيفة:624)
ترجمہ: جس نے یوم عاشوراء کو سرمہ لگایا تو اسے کبھی تکلیف نہیں ہوگی۔
(3) من صام يومَ عاشوراءَ كتب اللهُ له عبادةَ ستِّين سنةً بصيامِها وقيامِها-موضوع
(موضوعات ابن الجوزي2/570)
ترجمہ: جس نے یوم عاشوراء کو روزہ رکھا اللہ اس کے لئے ساٹھ سال روزے اور قیام کا اجر لکھے گا۔
(4) مَن وَسَّعَ على عِيَالِهِ في يومِ عاشوراءَ ، وَسَّعَ اللهُ عليه في سَنَتِهِ كلِّها-ضعیف(ضعيف الجامع: 5873)
ترجمہ: جوشخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر فراخی سے خرچ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کو فراخی عطا فرمائے گا۔
(5) إن آدم تاب الله عليه يوم عاشوراء ، ونوحاً نجاه الله يوم عاشوراء وإبراهيم نجاه الله من النار يوم عاشوراء ويونس أخرجه الله من بطن الحوت يوم عاشوراء ويعقوب اجتمع بيوسف يوم عاشوراء والتوراة نزلت يوم عاشوراء ۔
ترجمہ: یوم عاشوراء کو آدم علیہ السلام نے توبہ کی، اور نوح علیہ السلام کو اللہ نے یوم عاشوراء کو نجات دی، اور ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے عاشوراء کو آگ سے نجات دی ، اور یونس علیہ السلام کو اللہ نے مچھلی کے پیٹ سے عاشوراء کو نکالا، اور یعقوب و یوسف علیہما السلام عاشوراء کو ملے اور تورات عاشوراء کو نازل ہوئی ۔
اس قسم کی ساری روایات ضعیف وموضوع ہیں ۔
(6) أن أعرابيًّا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم عرفة ويوم عاشوراء، فقال: يوم عاشوراء يكفر العام الذي قبله والذي بعده، ويوم عرفة يكفر العام الذي قبله۔(رواہ ابویعلی الموصلی بسند ضعیف : اتحاف الخیرہ 3/84)
ترجمہ : ایک دیہاتی نے نبی ﷺ سے عرفہ اور عاشوراء کے روزہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: عاشوراء سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ اور عرفہ سے ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔
٭ یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند و متن دونوں میں خرابی ہے ۔
(7) من صلَّى يومَ عاشوراءَ ما بين الظُّهرِ والعصرِ أربعين ركعةً يقرأُ في كلِّ ركعةٍ بفاتحةِ الكتابِ مرَّةً ، وآيةِ الكرسيِّ عشرَ مرَّاتٍ ، و{ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} إحدَى عشرةَ مرَّةً ، والمُعوِّذَتْين خمسَ مرَّاتٍ ، فإذا سلَّم استغفرَ سبعين مرَّةً أعطاه اللهُ في الفردوسِ قُبَّةً بيضاءَ ، فيها بيتٌ من زمردُّةٍ خضراءَ ، سعةُ ذلك البيتِ مثلُ الدُّنيا ثلاثَ مرَّاتٍ ، وفي ذلك البيتِ سريرٌ من نورٍ ، قوائمُ السَّريرِ من العنبرِ الأشهبِ على ذلك السَّريرِ ألفُ فراشٍ من الزَّعفرانِ- موضوع (موضوعات ابن الجوزي: 2/433)
یہ خود ساختہ نمازکا طریقہ ہے کہ جس نے عاشوراء کے دن ظہروعصر کے درمیان چالیس رکعت پڑھی ۔ ہررکعت میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ، دس مرتبہ آیۃ الکرسی، { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} گیارہ مرتبہ، معوذتین پانچ مرتبہ میں پڑھے ۔ اور جب سلام پھیرے تو ستر مرتبہ استغفار کرے تو اللہ یہ وہ محل سے نوازے گا ۔ یہ گھڑی ہوئی روایت ہے ۔
(8) ومن أشبع أهل بيت مساكين يوم عاشوراء مر على الصراط كالبرق الخاطف ومن تصدق بصدقة فكأنما لم يرد سائلا قط ومن اغتسل يوم عاشوراء لم يمرض إلا مرض الموت۔ موضوع
ترجمہ : جس نے اہل بیت کے مساکین کو عاشوراء کے دن کھلایا وہ پل صراط پہ بجلی کی رفتار سے گذرے گا اور جس نے صدقہ کیا وہ محتاج نہیں ہوگا اور جس نے عاشوراء کو غسل کیا اسے موت کے مرض کے علاوہ کوئی مرض لاحق نہیں ہوگا۔
(9) ما من عبد يبكي يوم قتل الحسين يعني يوم عاشوراء إلا كان يوم القيامة مع أولي العزم من الرسل۔موضوع
ترجمہ : جو کوئی قتل حسین کے دن یعنی عاشوراء کو روئے گا وہ قیامت کے دن اولوالعزم پیغمبروں کے ساتھ ہوگا۔
(10) من صام يوم عاشوراء أعطى ثواب عشرة آلاف ملك- موضوع
ترجمہ : یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے والے کو دس ہزار فرشتوں کا ثواب دیا جائے گا۔

ان کے علاوہ بھی بہت سی ضعیف وموضوع روایات بیان کی جاتی ہیں جن کے حصر کا یہ مقام نہیں ۔ 
مکمل تحریر >>

Sunday, September 25, 2016

مسلم شریف کے حوالے سے حدیث کے نام پہ ایک جھوٹی بات


مسلم شریف کے حوالے سے حدیث کے نام پہ ایک جھوٹی بات
========================
لوگوں میں یہ بات حدیث کے طور پر گردش کرہی ہے کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر جھک جانے (عاجزی اختیار کرنے) سے تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا(صحیح مسلم حدیث # 784)

یہ بات حدیث کی کسی بھی کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ اس میں جو حوالہ دیا گیا ہے وہ کسی فتنہ پرور کی شرپسندی ہے تاکہ لوگ اس حوالہ سے دھوکہ کھاکر اسے حدیث سمجھ لیں ۔ آج حدیث تلاش کرنا بھی آسان ہوگیا ہے اس وجہ سے عام آدمی بھی بآسانی حدیث نمبر کے ساتھ جان سکتا ہے کہ یہ سراسر جھوٹی بات ہے ۔
آپ سب کو اس کا ایک طریقہ بتلاتا ہوں ۔ نیچے والے لنک پہ کلک کریں ۔
اس پہ کلک کرکے جہاں صحیح البخاری لکھا ہواہے وہاں صحیح مسلم سلکٹ کریں اور پھر نیچے حدیث نمبر ڈالیں دیکھیں آپ کے سامنے کون سی حدیث آتی ہے ۔ اسی وقت آپ کو مذکورہ جھوٹی روایت کا علم ہوجائے گا۔


آپ کا بھائی
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

ایسے شخص کی طرف سے قربانی دینے کا حکم جس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے

ایسے شخص کی طرف سے قربانی دینے کا حکم جس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے
===================

عقیقہ اور قربانی دونوں سنت مؤکدہ کے حکم میں ہے یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے اور یہی موقف راحج ہے جیساکہ دلائل سے واضح ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من وُلِدَ لهُ ولدٌ فأحبَّ أن يَنسُكَ عنهُ فلينسُكْ( صحيح أبي داود:2842)
ترجمہ: جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےقربانی (عقیقہ  )کرنا چاہتا ہو تو کرے ۔
یہاں احب کا لفظ بتلارہاہے کہ عقیقہ واجب نہیں ہے اس سے بعض اہل علم نے استحباب کا حکم اخذ کیاہے جبکہ دیگر احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے سنت مؤکدہ کا حکم راحج لگتا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا رأيتم هلالَ ذي الحجةِ ، وأراد أحدكم أن يُضحِّي ، فليُمسك عن شعرِهِ وأظفارِهِ(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
اس حدیث میں "من اراد" کا لفظ اختیاری ہے یعنی جو قربانی کرنا چاہے گویا قربانی واجبی نہیں اختیاری ہے اس حدیث اور اس سے متعلق دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے ۔
اب یہاں مسئلہ درپیش ہے کہ بچپن میں جس کا عقیقہ نہیں ہوا اس کی طرف سے قربانی دے سکتے ہیں کہ نہیں ؟
اس سوال کے جواب میں کہنا چاہوں گا چونکہ عقیقہ بڑی عمر میں بھی دیا جاسکتا ہے، علماء نے اس کی وضاحت کی ہے ۔ اس وجہ سے اگر قربانی کرنے والے کے پاس وسعت ہو تو ساتھ میں عقیقہ بھی دیدے تاکہ دونوں سنتیں پوری ہوجائیں لیکن اگر مالی وسعت نہ ہو تو بہرحال قربانی کا وقت ہے اس وجہ سے قربانی دینا ہی اولی ہے ۔ اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں کہ بچپن میں اس کا عقیقہ نہیں ہوا تھا ۔
عقیقہ چونکہ سنت مؤکدہ ہے اس وجہ سے ضروری نہیں ہے کہ پہلے عقیقہ دینا واجب ہے تبھی قربانی دے سکتے یعنی بغیر عقیقہ کئے بھی قربانی دے سکتے ہیں ۔

واللہ اعلم


کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی اسلامی سنٹر طائف


مکمل تحریر >>

Saturday, September 24, 2016

ذکر " سبحانَ اللهِ والحمدُ للهِ ولا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ ولا حولَ ولا قوةَ إلا باللهِ العليِّ العظيمِ"

ذکر " سبحانَ اللهِ والحمدُ للهِ ولا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ ولا حولَ ولا قوةَ إلا باللهِ العليِّ العظيمِ"
========================
مقبول احمد سلفی

یہ بہت عظیم ذکر ہے اس کا اہتمام کرنا چاہئے نیزاس میں کمی وزیادتی کے ساتھ بھی مروی ہے وہ بھی دھیان رہے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ اس ذکر سے متعلق عدد کا ذکر کسی صحیح حدیث میں نہیں ملتا ۔

(1) سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ: إنِّي لا أستَطيعُ أن آخذَ منَ القرآنِ شيئًا فعلِّمني ما يُجزئُني منهُ، قالَ: قُل: سُبحانَ اللَّهِ، والحمدُ للَّهِ، ولا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، واللَّهُ أَكْبرُ، ولا حَولَ ولا قوَّةَ إلَّا باللَّهِ العليِّ العظيمِ، قالَ: يا رسولَ اللَّهِ، هذا للَّهِ عزَّ وجلَّ فَما لي، قالَ: قُل: اللَّهمَّ ارحَمني وارزُقني وعافِني واهدِني، فلمَّا قامَ قالَ: هَكَذا بيدِهِ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: أمَّا هذا فقد ملأَ يدَهُ منَ الخيرِ(صحيح أبي داود:832)
ترجمہ :ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں قرآن سے کچھ یاد نہیں کر سکتا ، مجھے کچھ سکھا دیجئیے جو میرے لیے ( قرآت قرآن سے ) کفایت کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله» پڑھا کرو ۔ “ اللہ پاک ہے ، اسی کی تعریف ہے ، اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ، اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔ برائیوں سے بچنا اور نیکی کی توفیق ملنا ، اللہ کے سوا کسی سے ممکن نہیں ۔ وہ عالی ہے عظمت والا ہے ۔ “ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! یہ تو اللہ کے لیے ہوا ، میرے لیے کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کہا کرو «اللهم ارحمني وارزقني وعافني واهدني» ” اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما ۔ مجھے رزق دے ، راحت و عافیت سے نواز اور ہدایت سے سرفراز فرما ۔ “ چنانچہ جب وہ کھڑا ہوا تو اپنے ہاتھوں سے ایسے اشارہ کیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس نے اپنے ہاتھ خیر سے بھر لیے ہیں۔

(2) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
من تعارَّ من الليلِ فقال حين يستيقظُ: لا إله إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له ، له الملكُ ، وله الحمدُ وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ ، سبحانَ اللهِ ، والحمدُ للهِ ، ولا إله إلا اللهُ ، واللهُ أكبرُ ، ولا حولَ ولا قوةَ إلا باللهِ ، ثم دعا: ربِّ اغفر لي استُجيبَ له ؛ فإن قام فتوضأَ ثم صلَّى قُبِلتْ صلاتَه.(صحيح أبي داود: 5060)
ترجمہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص نیند سے بیدار ہوا اور بیدار ہوتے ہی اس نے'' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ [وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ] وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلا حَوْلَ وَلاقُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ'' کہا پھر دعاکی کہ اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے (ولید کی روایت میں ہے،اور دعا کی) تو اس کی دعا قبول کی جائے گی، اور اگر وہ اُٹھا اور وضو کیا، پھرصلاۃ پڑھی تو اس کی صلاۃ مقبول ہوگی۔
٭ اس روایت میں العلی العظیم نہیں ہے ۔

(3) مَن قال حِينَ يأْوِي إلى فِراشِه : ( لا إِلهَ إلا اللهُ وحدَه لا شرِيكَ لهُ ، له المُلْكُ ، و له الحمدُ ، و هو على كلِّ شيءٍ قديرٌ ، لاحَوْلَ ولا قُوةَ إلا باللهِ العلىِّ العظيمِ ، سُبحانَ اللهِ ، والحمدُ للهِ ، ولا إلهَ إلا اللهُ ، واللهُ أكبرُ ) ؛ غُفِرَتْ له ذنوبُه أوخطايَاهُ – شَكَّ مِسْعرٌ – وإنْ كانت مِثلَ زَبَدِ البحرِ(صحيح الترغيب: 607)
ترجمہ: جو بستر پہ لیٹتے وقت یہ کلمات کہے "لا إِلهَ إلا اللهُ وحدَه لا شرِيكَ لهُ ، له المُلْكُ ، و له الحمدُ ، و هو على كلِّ شيءٍ قديرٌ ، لاحَوْلَ ولا قُوةَ إلا باللهِ العلىِّ العظيمِ ، سُبحانَ اللهِ ، والحمدُ للهِ ، ولا إلهَ إلا اللهُ ، واللهُ أكبرُ" تو اس کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔
٭ اس روایت میں ذکر میں زیادتی کے ساتھ سبحان اللہ کے کلمات سے پہلے لاحول ولاقوہ کے کلمات ہیں ۔

یہ ذکر مندرجہ ذیل عدد کے ساتھ یاتو ضعیف ہے یا موضوع ہے ۔
(1) چار مرتبہ والا باطل ہے (تبيين العجب: 31 )
(2)سات مرتبہ والا بھی ضعیف ہے ۔
(3) پندرہ مرتبہ (السلسلة الضعيفة: 5066)
(4)ستر مرتبہ (موضوعات ابن الجوزي: 2/417)
(5)سو مرتبہ والا شیعہ کے یہاں ہے۔ اس کا بڑا اجر بیان کیاجاتاہے اس سے باخبررہیں۔
مکمل تحریر >>

Thursday, September 22, 2016

گدھا اور اس کی خریدوفروخت کا حکم

گدھا اور اس کی  خریدوفروخت کا حکم
=================
مقبول احمد سلفی
پہلے یہ بات جان لی جائے کہ گدھا دو قسم کا ہے ۔
(1) جنگلی گدھا اسے عربی میں حمار وحشی کہتے ہیں اس کا کھانا حلال ہے ۔
جنگلی گدھا حلال ہونے کی دلیل : ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أنَّهُ كانَ معَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ ، حتى إذا كانَ ببعضِ طريقِ مكةَ ، تخَلَّفَ معَ أصحابٍ لهُ مُحْرِمِينَ ، وهوَ غَيرُ مُحْرِمٍ ، فَرَأَى حِمَارًا وحْشِيًّا ، فاستَوى على فرسِهِ ، فسألَ أصحابَهُ أنْ يُنَاوِلُوهُ سَوطَهُ فَأَبَوا ، فسأَلَهم رُمْحَهُ فَأَبَوا ، فَأَخذَهُ ثم شَدَّ على الحمَارِ فقَتَلهُ ، فأكَلَ منهُ بعضُ أصحابِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم وأبَى بعضٌ ، فلمَّا أدْرَكوا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ سأَلوهُ عن ذلكَ ، قالَ : ( إنمَا هي طُعْمَةٌ أطْعَمَكُمُوهَا اللهُ ) .(صحيح البخاري:2914)
ترجمہ: کہ ہم آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ( صلح حدیبیہ کے موقع پر ) مکہ کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے ، لشکر سے پیچھے رہ گئے ۔ خود قتادہ رضی اللہ عنہ نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا ۔ پھر انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور اپنے گھوڑے پر ( شکار کرنے کی نیت سے ) سوار ہو گئے ، اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے ( جو احرام باندھے ہوئے تھے ) کہا کہ کوڑا اٹھادیں انہوں نے اس سے انکار کیا ، پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا اس کے دینے سے انہوں نے انکار کیا ، آخر انہوں نے خود اسے اٹھایا اور گورخر پر جھپٹ پڑے اور اسے مارلیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض نے تو اس گورخر کا گوشت کھایا اور بعض نے اس کے کھانے سے ( احرام کے عذر کی بنا پر ) انکار کیا ۔ پھر جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو اس کے متعلق مسئلہ پوچھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانے کی چیز تھی جو اللہ نے تمہیں عطا کی ۔

 (2) پالتو گدھا اسے عربی میں حمار اھلی کہتے ہیں اس کا کھانا حرام ہے ۔
پالتو گدھا حرام ہونے کی دلیل : ابو ثعلبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
حرَّم رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لحومَ الحُمُرِ الأهليةِ(صحيح مسلم:1936)
ترجمہ : رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گھريلو گدھے كے گوشت كو حرام قرار ديا۔

جنگلی گدھا کی تجارت تو واضح ہے کہ یہ حلال جانور ہے البتہ پالتو گدھے کی خریدوفروخت پہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب حدیث میں آیا ہے کہ حرام چیز کی قیمت بھی حرام ہے جیساکہ یہ حدیث ہے ۔
إنَّ اللهَ إذا حرَّمَ على قومٍ أكْلَ شيءٍ حرَّمَ عليهم ثَمَنَهُ(صحيح الجامع:5107)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی جب کسی قوم پر کوئی چیزکھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت کی اس پر حرام کردیتا ہے ۔
تو پھر گدھے کی بیع وشراء کیسے جائز ہے ؟
پالتو گدھا سواری اور باربرداری کے لائق ہے ، نبی ﷺ نے اس کی سواری بھی کی اور اس سے فائدہ اٹھایاتو یہ ایسا جانور ہے جس سے فائدہ اٹھانا نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔اور جس جانور سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اس کی تجارت بھی جائز ہے ۔ حدیث میں قیمت کی حرمت کا جو مسئلہ ہے یہاں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گدھے کو کھانے کی نیت سے بیچنا  اور اس کی قیمت  لیناحرام ہے مگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے اس کی بیع جائز ہے جیساکہ حدیث کے الفاظ " لحومَ الحُمُرِ الأهليةِ " (گھریلو گدھے کا گوشت) سے بھی واضح ہے۔ اس پہ عہد رسول ﷺ سے آج تک مسلمانوں کا اجماع ہے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب 
مکمل تحریر >>