Wednesday, August 31, 2016

حج افراد کا مسنون طریقہ

حج افراد کا مسنون طریقہ

مقبول احمد سلفی

احرام اور نیت :
حج کے مہینوں میں (شوال ،ذی قعدہ، ذی الحجہ) صرف حج کی نیت کریں گے ۔مکہ والے اگر حج افراد یا قران کریں تو اپنی رہائش سے ہی احرام باندھیں گے ۔احرام کے وقت غسل کرنا اور بدن پہ خوشبو لگانا مسنون ہے ۔ واضح رہے حج یا عمرے میں داخل ہونے کی نیت کرنے کواحرام کہاجاتاہے ۔نیت کے الفاظ زبان سے اس طرح کہے جائیں گے ۔" اللھم لبیک حجا"۔
احرام کی کوئی نماز مشروع نہیں ہے ،نمازکا وقت ہو تو نماز پڑھ کے احرام باندھیں یا احرام باندھنے کے بعد دو رکعت وضو کی سنت ادا کرسکتے ہیں۔
میقات سے تلبیہ پکارتے ہوئے حرم تک آئیں گے ۔ تلبیہ کے الفاظ یہ ہیں ۔
لبيك اللهم لبيك .لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك لبيك
(اے اللہ میں تیرے دربار میں حاضر ہوں ، باربار حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ، میں تیرے حضور حاضر ہوں ، ہر قسم کی حمد و ستائش کا تو ہی سزا ور ہے ، اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں اور بادشاہت تیری ہی ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ۔)
عورتوں کو خاموشی سے اور مردوں کو بلند آواز سے تلبیہ کہنا چاہئے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
حضرت سائب بن خلا د انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أتاني جبريلُ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فأمرني أن آمرَ أصحابي ومن معي أن يرفعوا أصواتَهم بالإِهلالِ أو قالَ بالتَّلبيةِ يريدُ أحدَهما( صحيح أبي داود:1814)
ترجمہ : میرے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ میں اپنے صحابہ اور ساتھیوں کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آوازیں بلند کریں ۔

حرم شریف:
مکہ پہنچ کر حرم شریف میں دایاں قدم رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھیں :
بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم , اللهم افتح لي أبواب رحمتك
حرم شریف میں داخل ہوکر طواف قدوم کریں اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت طواف کی سنت ادا کریں خواہ کوئی بھی وقت ہو۔ (یہ نماز ممنوع اوقات میں بھی پڑھ سکتے ہیں )۔ یہ طواف افراد کرنے والوں کے حق میں مستحب ہے  ( اہل مکہ کے لئے نہ تو طواف قدوم ہے اور نہ ہی طواف وداع)۔ افراد کرنے والا اگر طواف  قدوم چھوڑ دیتا ہے تو بھی حج کی صحت پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن طواف کرلے تو بڑے اجر وثواب کا کام ہے ۔ طواف کے بعد چاہیں تو آج ہی حج کی سعی بھی کرسکتے ہیں پھر دس ذی الحجہ کو صرف طواف افاضہ کرنا ہوگا سعی نہیں کرنی پڑے گی ۔ یعنی افراد کرنے والوں کے لئے تین صورتیں ہیں ۔
اولا: چاہیں تو صرف طواف قدوم کرلیں۔
ثانیا: چاہیں تو طواف  قدوم وسعی دونوں کرلیں۔
ثالثا: چاہیں تو طواف  قدوم وسعی دونوں چھوڑدیں۔
طواف میں دھیان دینے والی باتیں :
طواف میں اضطباع (دایاں کندھاکھلا اور بایاں ڈھکاہونا) ہونا چاہئے ،حجراسود سے طواف کی شروعات ہوگی، ہرمرتبہ حجراسود کے پاس دایاں ہاتھ اٹھاکربسم اللہ اکبر کہیں گے، شروع کے تین چکروں میں رمل مسنون ہے ، ہرچکرمیں تکبیر کے ساتھ رکن یمانی کا استلام کرنا چاہئےاگر ممکن ہوورنہ چھوڑدیں،رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان ہرچکر میں (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) پڑھناہے، بقیہ جگہوں پہ کوئی مخصوص دعا نہیں ہے جو چاہیں دعا کرسکتے ہیں۔ کتابوں میں موجودہرچکر کی مخصوص دعا بناوٹی ہے اس بناوٹ سے بچیں، دعا میں کتابوں یا طواف کرنے والے کسی قاری کی پیروی کرنا غلط ہے ۔ حجراسود کے پاس باربار ہاتھ اٹھانا یا دونوں ہاتھ اٹھانااور ہاتھوں کو چومنا غلط ہے ۔
سعی میں دھیان دینے والی باتیں :
سعی میں کندھانہیں کھولناہے، ابتداء صفا سے کرنی ہے مروہ پہ پہنچ کر ایک چکر ہوجاتاہے ۔ ہری بتی کے درمیان مردوں کو تیزی سے چلنا ہے ۔ سعی کی ساتوں چکر میں کوئی مخصوص دعا نہیں ہے جو جی میں آئے دعا کرسکتے ہیں۔ ہرمرتبہ صفا اور مروہ پہ تین تین دفعہ یہ دعا پڑھنی ہے :
'لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ، لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ أنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ' ۔
آخری مرتبہ مروہ پہ کچھ نہیں پڑھناہے ۔
مفرد طواف قدوم (چاہیں تو سعی بھی) کے بعد سے لیکر ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ تک احرام میں ہی باقی رہیں گے(اس کے بعد بھی مزید دو دن ،یوم النحرتک) ۔ اس دوران ممنوعات احرام کی پابندی کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے اس وجہ سے مفرد کو میں مشورہ دینا چاہتاہوں کہ وہ آٹھ ذی الحجہ کے قریب حج کا احرام باندھیں تاکہ زیادہ دنوں تک ممنوعات احرام کی پابندی نہ کرنی پڑے ۔

آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ)
اگر مفرد آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھتا ہے تو طواف وسعی کرکے یا بغیر طواف وسعی ظہرتک منی چلاجائے ۔اگر آٹھ سے پہلے ہی احرام باندھا تھا تو اسی احرام کی حالت میں منی چلا جائے ۔ منی پہنچ کر ظہر، عصر،مغرب،عشاء اور فجر کی نماز اپنے اپنے وقتوں پر قصر کے ساتھ پڑھے (اہل مکہ بھی قصرکرے)۔فجر کی نماز پڑھ کر سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف جائے ۔

نوذی الحجہ (یوم عرفہ)
اگر کسی وجہ سے مفرد آٹھ ذی الحجہ کو احرام نہیں باندھ سکا تو نو ذی الحجہ کو بھی باندھ سکتا ہے ۔ میقات (اہل مکہ اپنی رہائش ) سے احرام باندھ کر سیدھے عرفات چلا جائے ۔ (آٹھ ذی الحجہ کو منی جانا سنت  ہے اگریہ چھوٹ جائے تو حج صحیح ہے مگربلاکسی سبب قصدا منی جانا نہ چھوڑے )۔
عرفات پہنچ کر ظہر کے وقت ہی ایک اذان اور الگ الگ دو اقامت سے ظہر وعصر کی دو دو  رکعت نماز (جمع وقصر) ادا کرے۔نماز ادا کرکے غروب شمس تک دعاواستغفاراور ذکرواذکار میں مصروف رہے ۔ عرفہ کی بہترین  دعاجو نبی ﷺ نے سکھائی ہے (لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ  وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیر) اسے باربار پڑھے ۔
جب سورج ڈوب جائے تو مزدلفہ کے لئے روانہ ہو۔

عید کی رات
مزدلفہ پہنچ کر ایک اذان اور دو الگ الگ اقامت سے مغرب کی تین اور عشاء کی دو  رکعت (جمع وقصر) ادا کرے ۔ نماز ادا کرنے کے بعد اگلے دن اطمینان سے مناسک حج ادا کرنے کے لئے سو جائے ۔ فجر کی نماز ادا کرکے مشعر حرام کے پاس صبح روشن ہونے تک اذکار کرتا رہے ۔ سورج نکلنے سے پہلے پھرمنی ( جمرات) کی طرف روانہ ہو۔ معذور آدمی آدھی رات کو بھی نکل سکتا ہے۔

دس ذی الحجہ (یوم النحر)
آج یوم النحر(قربانی کادن) ہے ۔ اس دن  پہلے صرف ایک جمرہ (عقبہ) کو جو مکہ سے متصل ہے سات کنکری مارے ۔ کنکری ایک ایک کرکے اللہ اکبر کہتے ہوئے مارے۔ کنکر کو جمرہ میں لگنا یا کم ازکم حوض میں گرنا ضروری ہے ورنہ  کنکری شمار نہیں ہوگی۔
پھر بال منڈوالے یا چھوٹا کرلے اور احرام کھول دے (تحلل اول حاصل ہوا جس میں بیوی کے سوا سب کچھ حلال ہوگیا)۔ اس کے بعد حرم شریف جاکر طواف افاضہ کرے اور اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی کرلیا تھا تو آج سعی کی ضرورت نہیں  لیکن اگر پہلے سعی نہیں کی ہو تو طواف افاضہ کے ساتھ سعی بھی کرے گا۔ یہ طواف وسعی عام لباس میں کرنا ہے کیونکہ رمی جمرہ اور حلق/تقصیر کے بعد مفرد حلال ہوگیا۔تین کام کرنے (رمی، حلق،طواف یاسعی)  سے بیوی بھی حلال ہوجاتی ہے ۔
اگر ان کاموں کی ترتیب بدل جائے یعنی طواف وسعی کرلے پھر بعد میں کنکری مارے اور حلق کروائے تو کوئی حرج نہیں۔ طواف افاضہ آج نہ کرسکے تو ایام تشریق میں بھی کرسکتاہے۔ان کاموں سے فارغ ہوکر منی واپس آجائے ۔

ایام تشریق (رمی جمرات کے دن)
کم ازکم دو دن یا تین دن منی میں رات گذارنا واجب ہے ۔ ان دنوں میں تینوں جمرات(جمرہ صغری، جمرہ وسطی ، جمرہ عقبہ) کو بالترتیب سات سات کنکری مارنی ہے ۔ رمی کا  وقت ظہر سے شروع ہوتا ہے اور مغرب تک رہتا ہے ، مجبوری میں فجر تک مارسکتے ہیں۔ معذوریا بیمار کی طرف سے کوئی دوسرا  آدمی بھی کنکری مارسکتا ہے۔ پہلے جمرے کو کنکری مار کرقبلہ رخ ہوکر لمبی دعا کرنی چاہئے ، پھر دوسرے جمرے کو کنکری مار کر قبلہ رخ لمبی دعا کرےاور تیسرے جمرے کو کنکری مار کر(دعاکئے بغیر) چلا جائے۔
اگر کوئی چاہے تو گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کی کنکری مار کر واپس جاسکتا ہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے منی چھوڑدے اور تیرہ کو بھی کنکری مارتا ہے تو اچھا ہے ۔
تیرہ تاریخ کی کنکری مارنے کے بعد حج کا سارا کام ہوگیا ، اب صرف ایک کام باقی ہے جب مکہ سے اپنی رہائش یا اپنے وطن کو لوٹنا ہو تواس وقت طواف وداع کرے یہ واجب ہے۔اور طواف کی دو سنت ادا کرے۔ (حیض ونفاس والی عورت اور اہل مکہ کے لئے طواف وداع نہیں)
طواف افاضہ دس ذی الحجہ کو نہ کرسکا ہو تو ایام تشریق میں کسی دن کرلے ، ان دنوں میں بھی فرصت نہیں ملی تو رخصت ہوتے وقت طواف وداع کے ساتھ ایک ہی نیت میں کرلے ۔

ارکان ،واجبات اور ممنوعات کے احکام
حج کے ارکان
(1) احرام (حج کی نیت کرنا)(2) میدان عرفات میں ٹھہرنا(3) طواف افاضہ کرنا(4) صفا و مروہ کی سعی کرنا
حج کے واجبات
(1) میقات سے احرام باندھنا(2) سورج غروب ہونے تک عرفہ میں ٹھہرنا(3) عید کی رات مزدلفہ میں گذارنا(4) ایام تشریق کی راتیں منی میں بسر کرنا(5) جمرات کو کنکری مارنا(6) بال منڈوانا یا کٹوانا(7) طواف وداع کرنا(حیض و نفاس والی عورت کے لئے نہیں ہے )۔
ممنوعات احرام
حالت احرام میں نو کام ممنوع ہیں جنہیں محظورات احرام کہاجاتاہے ۔ (1)بال کاٹنا(2)ناخن کاٹنا(3)مردکو سلاہواکپڑا پہننا(4)خوشبولگانا(5)مردکاسرڈھانپنا(6)عقدنکاح کرنا(7)بیوی کو شہوت سے چمٹنا(8) جماع کرنا(9)شکار کرنا۔عورت کے لئے دستانہ  اور برقع ونقاب منع ہے تاہم اجنبی مردوں سے پردہ کرےگی۔
ارکان ،واجبات اور ممنوعات کے احکام
٭ اگر کسی نے حج کے چار ارکان میں سے کوئی ایک رکن بھی چھوڑ دیا تو حج صحیح نہیں ہوگا۔
٭مذکورہ  بالاسات واجبات میں سے کوئی ایک واجب چھوٹ جاتا ہے تو حج صحیح ہوگامگر ترک واجب پہ دم دینا ہوگا۔ دم کی طاقت نہ ہو تو دس روزہ رکھ لے ، تین ایام حج میں اور سات وطن واپس ہونے پہ ۔
٭جوشخص لاعلمی میں ممنوعات احرام  میں سےکسی کا ارتکاب کرلے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے ، لیکن اگر جان بوجھ کر ارتکاب کیا توفدیہ دینا ہوگا(گرایک سے لیکر پانچ تک میں سے کسی کا ارتکاب کیاہو)۔فدیہ میں یاتو تین روزہ یا ایک ذبیحہ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ شکار کرنے کی صورت میں اسی کے مثل جانور ذبح کرناہوگا۔عقدنکاح سے حج باطل ہوجاتاہے۔اگر تحلل اول سے پہلے جماع کرلے توعورت ومرد دونوں کا حج باطل ہوجائے گا اور اگر تحلل اول کے بعد طواف افاضہ سے پہلے جماع کرے تو حج صحیح ہوگامگر اس کا احرام ختم ہوجائے گا وہ حدود حرم سے باہر جاکر پھر سے احرام باندھے تاکہ طواف افاضہ کرسکے اور فدیہ میں ایک بکری ذبح کرے ۔ 

حج کرنے والوں کے لئے چند تنبیہات
·        جیساکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مکہ والےصرف حج افراد کرسکتے ہیں غلط ہے وہ لوگ بھی تینوں قسم کا حج کرسکتے ہیں البتہ یہ جب حج قران یا تمتع کریں تو انہیں قربانی نہیں دینی ہے ۔
·        مکہ والے حج افراد یا قران میں اپنی رہائش سے ہی احرام باندھیں گے ۔
·        حج کی تین قسموں میں  افراد میں قربانی نہیں دینی  پڑتی ہے ۔
·        حج قران کا بھی یہی طریقہ ہے ، اس لئے جو حج قران کرنا چاہتے ہوں وہ اسی طرح حج قران کرے جیساکہ اس میں حج افراد کا طریقہ بتایاگیا ہے بس نیت کا فرق ہے ، نیت اس طرح کریں" اللھم لبیک حجا وعمرۃ"۔نیز قران کرنے والا قربانی بھی دے۔
·        حج میں مدینہ جانا ضروری نہیں ہے یعنی زیارت مدینہ  کا تعلق حج سے نہیں ہے ،پھر بھی اگر باہری ملک والے زیارت بھی کرنا چاہتے ہوں تو اچھاہے کیونکہ انہیں ایک بار ہی یہاں آنے کا موقع ملتاہے ۔ زیارت کا طریقہ جاننے کے لئے میرے بلاگ پہ جائیں اور سرچ میں زیارت مسجد نبوی لکھیں۔بلاگ کا نام: www.maquboolahmad.blogspot.com


مکمل تحریر >>

Tuesday, August 30, 2016

طوفان وسیلاب کے وقت اذان کا حکم

طوفان وسیلاب کے وقت اذان کا حکم
===============
سوال کیا جب کوئی بھی طوفان یا کوئی بھی سیلاب وغیرہ آئےاس وقت میں نے سنا ہے اذان دینے سے دور ہو جاتے ہیں کیا یہ درست ہے کوئی دلیل ہو تو بتائیں۔ جزاک اللہ خیر ۔


اذان پنچ وقتہ نمازوں اور جمعہ کے لئے حکم ہوا ہے۔ نیز بچے کی پیدائش پہ دائیں کان میں بھی مشروع ہے ۔ باقی اور کسی جگہ اذان دینے کا ذکر نہیں ملتا ۔ اگر طوفان آئے، سیلاب آئے یا زلزلہ وغیرہ (جوکہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)تو اس وقت توبہ واستغفار، ذکر واذکار، مصیبت کی دعائیں اور نماز پڑھنا چاہئے ۔


واللہ اعلم
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Monday, August 29, 2016

حدیث : اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب۔۔۔ کی شرح

حدیث : اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب۔۔۔ کی شرح
صحیحین کی روایت ہےنبی ﷺ کا فرمان ہے : من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا( صحيح البخاري:2840 و صحيح مسلم : 1153)
ترجمہ : جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔

اس حدیث میں چند مسائل ہیں۔
(1) صوم سے مراد : اس صوم سے مراد نفلی روزہ ہے ۔

(2)فی سبیل اللہ سے مراد:
سبیل اللہ سے کیا مراد ہے ؟ اس سے متعلق علماء میں دو رائیں ہیں ۔ پہلی رائے جہاد ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن عثیمینؒ بھی ہیں۔ دوسری رائے اللہ کی خوشنودی ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن بازؒ ہیں۔
ویسے سبیل اللہ کا عام طور سے اطلاق جہاد پر ہی ہوتا ہے ساتھ ہی بسااوقات طاعت کے کاموں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اس وجہ سے یہاں عام معنی یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طور پر مراد لینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنا معنی ہوگا۔

(3) لفظ بعد بخاری کا لفظ ہے ، مسلم میں باعد کا لفظ ہے ۔ اس کا معنی ہے دور کرنے کے یعنی جہنم سے دور کرنا ۔

(4) سبعین خریف : خریف سے مراد سال ہے ، اس طرح اس کا معنی ہوگا ستر سال ۔

(5) الفاظ کا اختلاف: اس روایت میں سبعین خریف کا لفط ہے جبکہ اس کے برخلاف دوسری صحیح روایات میں سوسال اور اس سے زیادہ بھی آیا ہے ۔
سوسال والی روایت :
من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ باعدَ اللَّهُ منهُ جَهَنَّمَ مَسيرةَ مائةِ عامٍ(صحيح النسائي:2253)
ترجمہ : جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اسے جہنم سے سوسال کی مسافت کے قریب دور کردیتا ہے ۔
٭شیخ البانی نے اسے صحیح النسائی میں حسن قرار دیا ہے ۔
پانچ سو سال والی روایت :
من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ جعلَ اللَّهُ بينَهُ وبينَ النَّارِ خَندقًا كما بينَ السَّماءِ والأرضِ(صحيح الترمذي:1624)
ترجمہ : جو آدمی اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ سے رہے، اس کے لیے اللہ رب العزت اس کے اور جہنم کے درمیان خندق یعنی گڑھا کھود دیتا ہے، جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہوتی ہے۔
٭ شیخ البانی نے اسے صحیح الترمذی میں حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
٭ یہاں پانچ سو سال کا معنی اس طرح بنتا ہے کہ زمیں سے لیکر آسمان تک کی دوری پانچ سو سال ہے ۔
ان مختلف مسافت کا علماء نے کئی ایک جواب دیا ہے۔
پہلا جواب : سبعین سے مراد کثرت ہے یعنی اللہ تعالی بندے کو جہنم سے بہت دور کردے گا ۔ یہ واضح رہے کہ عرب میں سبعین کا استعمال مبالغہ کے لئے ہوتا ہے۔
دوسرا جواب : روزے کی مشقت وشدت کے اعتبار سے درجے کا فرق ہے ۔
تیسرا جواب : ستر کا سو یا پانچ سو سےکوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ آسمان کی اکثر مسافت پانچ سو ہے جبکہ اقل سترسال ۔اس طرح ستر اور سو پانچ سو میں داخل ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب 
مکمل تحریر >>

Sunday, August 28, 2016

عرفہ کا روزہ : ایک تحقیقی جائزہ

عرفہ کا روزہ  : ایک تحقیقی جائزہ

مقبو ل احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ، طائف(سعودی عرب)

احادیث میں یوم عرفہ کی  بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہےجس دن اللہ تعالی عرفات میں  وقوف کرنے والوں پر فخر کرتاہے اور کثرت سے انہیں جہنم سے رستگاری دیتا ہے  تود وسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملاہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
 چنانچہ ابوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صیام عرفہ  کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
يُكفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: یہ گذرے ہوئے  اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ۔
اس روزے سے متعلق آج سے پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن (میڈیاکی وجہ سے ایک گھرآنگن )کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیداہوگیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھاجائے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ  یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفات  والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہرملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9/ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روزہ کے سلسلہ اسلامی احکام کیا ہیں تب آپ خود بات واضح ہوجائے گی ۔
ایک بنیادی بات :
اس سے قبل کہ روزہ سے متعلق اسلامی ضابطہ کودیکھا جائے پہلے ایک بنیادی بات یہ جان لیں کہ یوم عرفہ دن کو کہتے ہیں اور وقوف عرفات حاجیوں کے میدان  عرفات میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں گویا  یوم عرفہ اور وقوف عرفات دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں جو قمری حساب سے نو ذوالحجہ کو کہتے ہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے ۔ان دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ یوم عرفہ کو یوم عرفات کہتے ہیں جوکہ سراسر مبنی برغلط ہے۔
روزہ سے متعلق اسلام کے دو اہم قاعدے ہیں ۔
اسلام میں  روزہ سے متعلق کئی قواعد وضوابط ہیں مگر ان میں دواہم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلا قاعدہ : رویت ہلال کا ہے یعنی روزہ رکھنے میں چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگاجسے عربی میں قمری نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔
بخاری شریف میں آپ ﷺ کا حکم ہے ۔
صوموا لرؤيَتِهِ وأفطِروا لرؤيتِهِ ، فإنْ غبِّيَ عليكم فأكملوا عدةَ شعبانَ ثلاثينَ(صحيح البخاري:1909)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔
یہ حدیث روزہ سے متعلق عام ہے خواہ کوئی بھی روزہ ہو اس میں یہی حکم لگے گا یعنی روزہ میں اپنے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ رمضان كا روزہ رکھنے کے لئے چاند دیکھا جاتا ہے نہ کہ سعودی عرب کواوراسی طرح جب افطارکیاجاتاہے تو اس وقت بھی سورج  ہی ڈوبنے کا انتظار کیاجاتا ہے ۔
دوسرا قاعدہ : اختلاف مطالع کا ہے ۔
 ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ دلیل :
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نےچاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے ، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔
صحیح مسلم کا باب : باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ
ترمذی کا باب : باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ
نسائی کا باب: باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ 
ان دونوں اصولوں کی روشنی میں عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے 9/ذی الحجہ کو رکھا جائے گا۔ یہی بات دلائل کی رو سے ثابت ہوتی ہے۔
اگر روزے سے متعلق رویت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائے گا ، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی افطار کرسکتاہے ۔ ایسے ہی اختلاف مطالع  کا اعتبار نہ کرنے سے مسلمانوں کے روزے ،نماز،قربانی،  عیدیں اور دیگر عبادات کی انجام دہی مشکل ہوجائے گی ۔

عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب
پہلا اشکال : جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفات کے دن ہی پوری دنیا کے  مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں گے۔
یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔
پہلی وجہ : قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپرہوچکا ہے ، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جوکہ موجود نہیں ۔
دوسری وجہ :  مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو۔ مثلا "ایام تشریق "حج کی قربانی کی  وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں۔ جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہوجاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی "ایام تشریق" سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔
قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر /عیدالاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ گویا عرفہ ایک نسبت  ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہوگا۔
تیسری وجہ:  اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق   بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں ، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے  تاریخ کے ساتھ 9/ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جوکہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے،اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نوذو الحجہ کو رکھاجائے گا ۔
چوتھی وجہ :  اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتااور اوپر فرق واضح کیا گیا ہے کہ یوم عرفہ الگ ہے اور وقوف عرفات الگ ہے۔
پانچویں وجہ :  اگر یہ وقوف عرفات کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع  ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔
چھٹی وجہ :  وقوف عرفات کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔یہ وقت روزہ کے واسطےسعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے۔گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی وقمری کا اعتبار ہوا۔ اس بناپر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگاسکتے ہیں وقوف کا نہیں۔
ساتویں وجہ : سعودی والوں کے لئے بھی عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے ، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفات کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل  حجاج کرام  سے ہی ملتی ہے ، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ )سے حج شروع کرتے ہیں ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلاجائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ." (سورة البقرة: 189)
ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔

دوسرا اشکال :
 قائلین وقوف عرفات کا ایک اشکال یہ ہے کہ  احادیث میں  یوم عرفہ کی بڑی فضیلت واردہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفات کے وقوف پہ ہی  پوری دنیا میں یہ روزہ رکھا جائے گا۔
یہ بات صحیح ہے کہ  یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفات پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفات کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیاوالوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔اور اس بات پہ حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن ہے پھرسب کو اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی ؟تب تو کئی ایام ہوجائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگرسارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر ، ہندوپاک میں ایک دن بعد شب قدر ، مراکش ولیبیا میں سعودی سے ایک دن پہلے،رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہرملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہوکر رکھتے ہیں۔

تیسرا اشکال : بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔
الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ(صحيح الترمذي:697)
ترجمہ: روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں  ۔ اس میں اتحاد ہے۔
اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیاجائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں  ، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں  عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی  بات ہے وقوف عرفات پہ روزہ رکھنے کے قائلین  بھی اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے  روزہ پرہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟
اس حدیث کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ  روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبرہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔

چوتھا اشکال : ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے کےلوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفات کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نوذو الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھےتو لاعلمی کی وجہ سےوہ معذور تھے اب زمانہ ترقی کرگیا ہےاور وقوف عرفات سب کو معلوم ہوجاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہوگیا۔
اولا: آج بھی پوری دنیا میں ہرکس وناکس کومیڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہوپاتا ، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔مثلا کوئی مسلمان جیل میں قید ہے جہاں اسے موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے وہ عرفہ کاروزہ رکھنا چاہتا ہے ،ترقیاتی دور میں  ایسے بے سہولت قیدی مسلمان شخص کے لئے نو ذوالحجہ کے حساب سے ہی روزہ رکھنا ممکن ہے ۔
ثانیا : اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہوجائے تو تب آپ کیا کہیں گے  کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہوگئے؟ ۔یا وہ گاؤں ودیہات والے جہاں میڈیا کی خبریں نہیں پہنچ پاتیں کیا وہ ابھی بھی معذور ہیں ؟  یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے ۔اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتاہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے؟۔ لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیرمیڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہاہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے نظام شمسی اور نظام قمری سے رمضان کا روزہ ، ایام بیض ، عاشواء اور عرفہ کا روزہ  معلوم ہوتا رہے گا۔

پانچواں اشکال : اگرصوم یوم عرفہ کا مطلب  ہر ملک والے کے لئے اپنےاپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مان لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ صوم عرفہ ایک نہیں متعدد ہے ،اس وقت صوم یوم عرفہ نہیں بلکہ صوم ایام عرفہ ہوجائے گا جبکہ حدیث میں صوم یوم عرفہ آیا ہوا ہے۔
اس بات کا جواب اوپربھی گزرچکا ہے کہ شب قدر ایک ہے مگر ہرملک والے اپنے اپنے یہاں کے حساب سے اس ایک رات کوتلاش کرتے ہیں، یہ رات کہیں سعودی عرب سے پہلے آتی ہے تو کہیں اس کے بعد ، اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شب قدر متعدد ہے جبکہ قرآن وحدیث میں لیلۃ القدر یعنی قدر کی ایک رات کا لفظ آیا ہے ۔

قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ
(1)جب ایسے لوگوں سے کہا جائے  کہ بعض ممالک لیبیا ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے ، اس صورت میں وقوف عرفات ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟  عید کے دن روزہ منع ہے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
نهى النبيُّ صلى الله عليه وسلم عن صومِ يومِ الفطرِ والنحرِ( صحيح البخاري:1991)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔
تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہوجاتاہے ۔ روزہ سے متعلق اصول واحکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کرواکر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کردینا بڑی ناانصافی اور فہم نصوص میں قصورکا باعث ہے۔

(2)جب ان سے کہاجائے کہ آج سے سوسال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے( اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں)تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔
یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہوپاتا۔اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھاسوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ  وہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کااور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں۔
صوم عرفہ کو سمجھنے میں معاون تین  اہم نکتے : 
پہلانکتہ: اس میں کسی کواختلاف نہیں ہے کہ ستر اسی سال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے  نوذوالحجہ کوہی رکھتے تھے اور سلف کے یہاں صوم عرفہ نو ذوالحجہ کے روزہ کو ہی کہاجاتا ہے ،کوئی دوسری رائے نہیں ملتی ہے ۔ وقوف عرفات پہ پوری دنیاوالوں کو روزہ رکھنے والا موقف جدید ذہن کی اپج ہے ،سلف سے اس نظریہ کی تائیدنہیں ہوتی ۔ جب سلف کی فہم صوم عرفہ سے مراد نوذوالحجہ کا روزہ ہے اور ان کا تعامل بھی اس پہ رہا ہے تو اس موقف سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے میدان عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا تو یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے کیونکہ شریعت کا مسئلہ ہے ۔ ان کا صوم عرفہ کے لئے وقوف عرفات نہ تلاش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صوم عرفہ سے مراد نو ذوالحجہ کا روز ہ ہے اور کتاب وسنت کے نصوص کوسمجھنے کے لئےسلف کی فہم مقدم ہے۔
دوسرانکتہ :بعض ممالک میں سعودی عرب کے حساب سے دن ورات کا فرق پایاجاتا ہے یعنی سعودی عرب میں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے ۔ مثلا کیلی فورنیا سے سعودی عرب دس گھنٹے آگے ہے ،اگر سعودی عرب میں رات ہوگی تو وہاں دن اور وہاں دن ہوگا تو سعودی عرب میں رات ہوگی ۔ اسی طرح نیوزی لینڈ سعودی عرب سے نو گھنٹے آگے ہے ،یہاں بھی دونوں ملکوںمیں  دن ورات کا فرق ہے ۔ اس طرح بہت سے ممالک ہیں جنہیں ٹائیم زون کے ذریعہ دیکھاجاسکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن ممالک میں وقوف عرفات رات میں  پایا جاتا ہے وہ لوگ رات میں ہی روزہ رکھ لیں؟۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ روزہ دن میں رکھا جاتا ہے تب عرفات والے کہیں گے کہ رات گزارکرروزہ رکھ لیں ۔ پھر آپ کا دعوی وقوف عرفات کہاں چلا گیا؟جب وقوف عرفات نہیں تو پھر وہ روزہ نہیں ۔ اذا فات الشرط فات المشروط(جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی ختم ہوجائے گا)۔ نیز سعودی عرب سے دن ورات کے فرق کے ساتھ آگے چلنے والوں کے یہاں دن کو عید ہوگی اور عید کے دن روزہ ممنوع ہے ۔
تیسرا نکتہ: قائلین صوم عرفات جن ممالک والوں کے لئے عید کے دن روزہ ساقط ہونے کا حکم لگاتے ہیں ، اس پہلو پر قرآن وحدیث کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے مسئلہ میں پورے ملک والوں سے کبھی بھی حکم ساقط نہیں ہوگاجیساکہ احادیث سے معلوم ہے کہ بیماری، ضعیفی ،سفر، حیض ونفاس ، حمل ورضاعت  وغیرہ کی وجہ سے روزہ  چھوڑا جاسکتا ہے ، یہ صرف چند قسم کے معذور لوگ ہیں مگر کبھی بھی کوئی روزہ پورے ملک والوں سے ساقط نہیں ہوگا ۔

صوم عرفہ کے نام پہ دوروزے رکھنا:
صوم عرفہ کے متعلق دو قسم کے نظرئے پائے جانے کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی خلجان پیدا ہوگیا ہے،اس سبب بعض علماء لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دو روزہ رکھ لیا جائے تاکہ کوئی تردد باقی نہ رہے ،ایک اپنے ملک کے حساب سے اور ایک سعودی کے حساب سے ۔ یہ نظریہ بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ عرفہ کا ایک ہی روزہ ہےاس کے نام پہ دو رکھنا کیسے درست ہوگا ۔ کوئی پہلا روزہ رکھے گا تو نیت صوم عرفہ کی کرے گا اور دوسرا روزہ رکھے تو بھی نیت صوم عرفہ کی کرے گا یہاں ایک شخص کی طرف سے ایک روزہ کے بدلے دو نیت اور دو الگ الگ روزہ رکھنا پایا جاتا ہے جوکہ سنت کی مخالفت ہے ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے والے کو اپنے روزہ میں شک ہے اس لئے احتیاطا دوسرا روزہ بھی رکھ رہا ہے ۔ روزہ میں شک کرنا یا شک والے دن روزہ رکھنا دونوں ایک ہی بات معلوم ہوتی ہے اور بخاری شریف میں شک والے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب ہمارے پاس سلف کی فہم اور ان کا تعامل بغیر اختلاف کے موجود ہے تو پھر بلاشک عرفہ کا ایک روزہ اپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کو رکھنا چاہئے ۔  

اشکالات کا حل:عرفہ کا روزہ نہ کہ عرفات کا روزہ
وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا مثلا
٭ یہ بات صحیح ہے کہ سوسال پہلے لوگ اپنےملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھے مگر وقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذور تھے ،اب وہ عذر باقی نہ رہا۔اس بات سے لازم آتا ہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے ۔ اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم حدیث اور عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔ 
٭وقوف عرفات جس ملک میں عید کے دن ہوان لوگوں سے عرفہ کا روزہ  ساقط ہے۔ یہ بغیر دلیل کے سقوط ہے جسے کبھی تسلیم نہیں کیاجاسکتاہے۔
٭ جہاں وقوف عرفات رات میں پڑجائے وہ لوگ رات گزارکر روزہ رکھ لیں ۔ جب عرفہ کے روزہ کی فضیلت میدان عرفات میں حاجیوں کے وقوف سے معلق ہے تو پھر رات گزارکر روزہ رکھنے والوں کو وہ فضیلت نصیب نہیں ہوگی یعنی روزہ رکھ کے بھی ثواب نہیں ملے گا۔
٭ وقوف عرفات پہ روزہ ماننا برقی روابط سے حجاج کرام کا عرفات میں وقوف معلوم کرنے پرمنحصر ہے اور آج بھی یہ برقی سہولت سب جگہ اورسب کو میسر نہیں مثلا جیل میں قیدوہ مسلمان جس کے پاس یہ سہولت نہیں وہ یہ روزہ نہیں سکتا ۔  

وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے اس قسم کے  بہت سارے اشکالات پیدا ہوتے  ہیں جن کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے ،اور اس موقف سے بہت سارے  ملک کے لوگ یہ  روزہ اور اس کی فضیلت سے محروم ہورہے ہیں بلکہ یہ کہیں کہ جس ملک میں عید سعودی عرب سے ایک دن پہلے ہوتی ہے وہ ملک والے قیامت تک عرفہ کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کے یہاں ہمیشہ وقوف عرفات عید کے دن ہوا کرے گا اور عید کے دن روزہ رکھنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایاہے جبکہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ماننے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا ہے ،ہوبہو سلف کے عملی نمونہ کو اپنانا ہے۔ اس لئےاس تحقیقی مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر ملک والااپنے اپنے ملک کے حساب سے عرفہ کا روزہ نوذوالحجہ کو رکھے گا۔
مکمل تحریر >>