Sunday, July 31, 2016

خرید وفروخت میں کمیشن لینے کا حکم

خرید وفروخت میں کمیشن لینے کا حکم
================
مقبول احمد سلفی
کمیشن جسے اردو اور عربی میں دلالی کہتے ہیں۔ عربی میں سمسرہ بھی کہتے ہیں ، اسی لفظ سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے۔ خرید و فروخت یا بازار کے حوالے سے دلالی کافی مشہور ہے ۔ دلال بائع اور مشتری کے درمیان سودا کرواتاہے۔ عموما دلالی کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب آدمی کو کسی چیز کے متعلق گہری معلومات نہ ہو۔ مگر دلالی میں بے راہ روی اور من مانی کی وجہ سے بلاضرورت افراد کو بھی پھنسا لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب سماج میں دلالی کو معیوب پیشہ تصور کیا جاتا ہے اور دلال سے گھن جاتا ہے ۔
امین بن کر دلالی کرنا کوئی معیوب نہیں ہے اور بائع اور مشتری میں سودا کرنے پہ طے شدہ اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں "بَاب أَجْرِ السَّمْسَرَةِ" کے تحت ذکر کیا ہے کہ ابن سیرین، عطاء اور حسن رحمہم اللہ اجمعین  دلالی کی اجرت  لینےمیں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔ اس باب کے تحت ابن سیرین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے ۔
إِذَا قَالَ بِعْهُ بِكَذَا فَمَا كَانَ مِنْ رِبْحٍ فَهُوَ لَكَ ، أَوْ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ .
ترجمہ: جب كوئى يہ كہے كہ: اسے اتنے ميں فروخت كريں، اور جو نفع ہو وہ آپ كا، يا نفع ميرے اور تيرے مابين، تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی بطور استشہاد ذکر کیا ہے ۔
لا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ : بِعْ هَذَا الثَّوْبَ فَمَا زَادَ عَلَى كَذَا وَكَذَا فَهُوَ لَكَ .
ترجمہ: ايسا كہنے ميں كوئى حرج نہيں: يہ كپڑا فروخت كرو، تو اتنى اتنى رقم سے زيادہ رقم آپ كى .
حدیث سے "الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ شُرُوطِهِمْ" (مسلمان اپنى شروط پر قائم رہتے ہيں) کا نص لائےہیں ۔
خلاصہ یہ کہ بائع اور مشتری کے درمیان سودا طے کرانے کی متفقہ اجرت بطور دلالی لی جاسکتی ہے ۔
اس کی نظیر تجارت کی قسم اجارہ میں بھی ملتی ہے ۔ اجارہ کہتے ہیں معاوضہ کے بدلے کسی کی خدمات حاصل کرنا ۔ دلالی میں بھی بائع و مشتری کے بیچ سودا پہ دلال اپنی خدمات کے بدلے طے شدہ اجرت لیتا ہے ۔

دلال کے لئے ضروری ہے کہ وہ سودا طے کرانے میں امین ہو، خریدار سے سامان کی وہی صفت بیان کرے جو اس سامان میں ہے اور اپنی اجرت سودا طے کرانے سے پہلے طے کرلے ۔ بائع کو کچھ قیمت اور مشتری کو کچھ قیمت بتاکر زیادہ مال ہڑپنا حرام ہے ۔ آج کل دلالی کی اجرت من مانی ہوگئی ہے بائع ومشتری کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ سراسر دھوکہ اور ناجائز ہے ۔ اسی طرح دلالی کے چکر میں سیدھے سادے عوام کو دھوکہ دینا ، جسے سودے کی ضرورت نہیں بھی ہوتی ہے اسے سیکڑوں لالچ دے کر دھوکے سے سودا کروادینا اسلامی تجارت کے منافی ہے اوراسے کسب معاش  کےحرام ذرائع میں شمار کیا جائے گا۔ اس لئے دلالی میں امانتداری لازم ہے ۔ 
مکمل تحریر >>

شیطانی خواب دیکھنایا شیطان کا نیند میں دبوچنا

شیطانی خواب  دیکھنایا شیطان کا نیند میں دبوچنا

==================
شیطان خواب میں آکر ابن آدم کو طرح سے ہراساں کرتا ہے ۔ اس کا ثبوت صحیح احادیث میں بھی ہے ۔
جیساکہ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے :نبی کریم صلى الله عليه وسلم كا فرمان ہے اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں، اور برے خواب شیطان کی طرف سے ۔ اگر کوئی شخص برا خواب دیکھے، تو وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک لے، اور شیطان سے اور جو برا خواب دیکھا ہے اس سے اللہ کی پناہ مانگ لے، پھر کروٹ بدلے، تو اس کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، اور وہ اپنا یہ خواب کسی کے سامنے بیان نہ کرے۔
اگر کسی کو برے خواب آتے ہیں یا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے دبوچتا ہے تو شیطان کے شر سے محفوظ ہونے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرے ۔
اللہ کی عبادت سے غافل نہ ہو، صبح وشام کے اذکام کی عادت ڈالے ، سوتے وقت کے اذکار نہ بھولے ۔اور سوتے ہوئے پیٹ یا پیٹھ کے بل نہ سوئے بلکہ دائیں کروٹ سوئے ۔ اسی طرح نماز کے بعد کے اذکار بھی پڑھے ۔ ساتھ ہی گھر کو شیطانی ہتھکنڈے سے محفوظ کرنے کے لئے گھر میں نمازوتلاوت جاری رکھے اور گھر سے گندی اشیاء باہر پھینک دے ۔
اس طرح سے اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے گا اور شیطان کی گرفت سے بچ سکیں گے ۔


آپ کا بھائی
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

ککڑی اور تر کجھور

ککڑی اور تر کجھور
=============
مقبول احمد سلفی
کھجور کے بے شمار فوائد ہیں اور اگر تر ہوتو فوائد مزید بڑھ جاتے ہیں ۔ طب نبوی میں ترکجھور کے ساتھ ککڑی کا استعمال ملتا ہے ۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے نبی ﷺ ککڑی اور ترکجھور ایک ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يأكل القِثَّاءَ بالرُّطَبِ(صحيح مسلم:2043)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کے ساتھ ککڑی کھاتے ہوئے دیکھا۔
ککڑی جو کھیرے کی شکل میں ہوتا ہے موجودہ طب میں بھی اس کے بڑے فوائد کا ذکر ہے ۔ یہ وہی ککڑی ہے جس کا مطالبہ بنواسرائیل نے موسی علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالی سے کیا تھا۔
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْر(البقرۃ:61)
ترجمہ: اور جب تم نے کہا اے موسی ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہوسکے گا ، اس لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور  پیاز دے ۔ آپ نے فرمایا: بہتر چیز کے بدلے ادنی چیز کیوں طلب کرتے ہو۔
ککڑی کا  تر کجھور کے ساتھ استعمال جو نبی ﷺ کا عمل تھا یقینا جسمانی اعتبار سے مقوی اور صحت بخش ہے جس کی صراحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے ۔
كانَت أمِّي تعالِجُني للسُّمنةِ، تريدُ أن تُدْخِلَني على رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ: فما استقامَ لَها ذلِكَ، حتَّى أَكَلتُ القثَّاءَ، بالرُّطَبِ، فسَمِنْتُ، كأحسَنِ سِمنةٍ۔(صحيح ابن ماجه:2701)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میری والدہ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس رخصت کرنے کا ارادہ کیا تو میرے دبلے پن کا علاج کرنے لگیں مگر کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ تو پھر میں نے ترکھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو میں معتدل جسم والی ہوگئی۔

گرمی کے موسم میں عام طور سے ککڑی پائی جاتی ہے ہمیں اس کا استعمال کرنا چاہئے ، ساتھ ہی ترکجھور شامل کرلیں تاکہ منفعت بخش ہوجائے ۔

مکمل تحریر >>

Saturday, July 30, 2016

امام سے پہلے قربانی دینا

امام سے پہلے قربانی دینا
===============
مقبول احمد سلفی

مسلم شریف کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ امام کی قربانی سے پہلے لوگوں کو قربانی نہیں دینی چاہئے ۔ حدیث اس طرح ہے ۔
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر بالمدينة فتقدم رجال فنحروا وظنوا أن النبي صلى الله عليه وسلم قد نحر، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم من كان نحر قبله أن يعيد بنحر آخر ولا ينحروا حتى ينحر النبي صلى الله عليه وسلم.(صحيح مسلم :1964)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر کو مدینہ میں ہم لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی۔ تو کئی لوگوں نے آتے ہی قربانی کرلی اور یہ سمجھے کہ آپ ﷺ نے بھی قربانی کرلی ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس نے آپ ﷺ سے پہلے قربانی کر لی ہے وہ دوبارہ قربانی کرے اور جب تک رسول اللہ ﷺ قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو۔
کسی بھی مسئلے میں فیصلہ تمام نصوص کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ۔ جب ہم دیگر نصوص کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے قربانی کا وقت نماز عید ختم ہونے کے بعد شروع ہوجاتا ہے ۔ اس وجہ سے امام کی قربانی سے پہلے یا خطبہ ختم ہونے سے پہلے قربانی دینا جائز ہے ۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں ان میں سے چند آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔

(1) من ذبح قبلَ أن يصلي فليذبحْ أخرى مكانَها ، ومن لم يذبحْ فليذبحْ باسمِ اللهِ.(صحيح البخاري:985)
ترجمہ : جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کی وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے نہیں کی وہ بسم اللہ کرکے قربانی کرے ۔

(2) مَن ذَبَحَ قبلَ الصلاةِ إنَّما يَذبَحُ لِنَفسِهِ، ومَن ذبحَ بعدَ الصلاةِ فقَد تم نُسُكُه وأصابَ سُنَّةَ المُسلِمينَ .(صحيح البخاري:5556)
ترجمہ : جس نے نماز سے پہلے قربانی کی اس نے اپنے نفس کے لئے قربانی کی اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی تو اس کی قربانی پوری ہوئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کو پالیا۔

(3) مَن صلَّى صلاتَنا ، ونَسَك نُسُكَنا ، فقد أصاب النُّسُكَ ، ومَن نَسَك قبلَ الصلاةِ فتلك شاةُ لحمٍ . (صحيح البخاري:983)
ترجمہ: جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی تو اس نے قربانی کو پالیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تووہ فقط بکری کا گوشت ہے ۔

مذکورہ بالا تمام ادلہ سے نمازعید کے فوارا بعد قربانی کرنے کا ثبوت ملتا ہے لہذا نمازعید ختم ہوتے قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

واللہ اعلم


مکمل تحریر >>

Thursday, July 28, 2016

یاودود کا مصنوعی ذکر

یاودود کا مصنوعی ذکر
=============
مقبول احمد سلفی

مجھ سے ایک بھائی نے ذکر کیا کہ انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک مولوی سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میاں بیوی میں کم جھگڑا ہونے اور محبت بڑھانے کے لئے ہرنماز کے بعد "یاودود" کثرت سے پڑھا کریں ۔ کیا یہ طریقہ قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح ہے؟ ۔

"ودود" اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ہے اس کے معنی محبت کرنے کے ہیں ۔ صوفیوں کے یہاں " یاودود" کا ورد متعدد قسم کی محبت کے طور پہ کثرت سے مستعمل ہے ۔ بعض طرق کی طرف اشارہ کردیتا ہوں  جو ان کے یہاں معروف ہے تاکہ لوگوں پہ اس کی حقیقت منکشف ہوجائے ۔
(1) جوشخص ایک ہزار مرتبہ یَاوَدُوْدُ پڑھ کر کھانے پر دم کرے گا اور بیوی کے ساتھ بیٹھ کر وہ کھا ناکھا ئے گا تو ان شاء اللہ میاں بیوی کاجھگڑا ختم ہوجائے گا اور باہمی محبت پیدا ہوجائے گی۔
(2) جو شخص اس اسم مبارک کا ہزار بار ذکر کرے گا وہ اللہ سبحانہ وتعالی کامحبوب ہوجائے گا ۔
(3) زوجین کی محبت کے لئے اول آخر دوبار درودشریف اور یاودود دو ہزار بار چینی پریا اول آخر دوبار درودشریف اور یا ودود ایک ہزار بارنمک پر پڑھ کر مطلوب کانام لے کردم کریں اور مطلوب کو کھلائیں۔ باہم محبت میں اضافہ ہوگا ۔
(4) جس کا بیٹا برائیوں میں مبتلا ہووہ جمعہ کے بعد ایک ہزار ایک بار یہ اسم مبارک معطر ولطیف شیر ینی پرپڑھ کردم کرے اور دورکعت نماز ادا کرے اور وہ شیر ینی اس کو کھلا ئے ان شاء اللہ صالح ہوجائے گا ۔
(5)اس کا وردتسخیر کے لیے مفید ہے۔
(6) جوشخص کسی پریشانی میں پڑجائے یادشمنوں یا ڈاکوؤں کے نرغے میں آجائے وہ دورکعت نماز پڑھ کردعا کرے انشاء اللہ پریشانی دورہو جائے گی : دعایہ ہے ۔ اَللّٰھُمَّ یَاوَدُوْدُتین بار یَا ذَا الْعَرْشِ الْمَجِیْدُ یَا مُبْدِئُ یَا مُعِیْدُ یَا فَعَّالاً لِّمَا یُرِیْدُ اَسْءَلُکَ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ مَلَأَ اَرْ کَانَ عَرْشِکَ وَبِقُدْرَتِکَ الَّتِیْ قَدَرْتَ بِھَا عَلٰی جَمِیْعِ خَلْقِکَ وَبِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ءٍ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ یَاغِیَاثَ الْمُسْتَغْثِیْنَ اَغْثِنِیْ (اَغِثْنِیْ ۔ تین بار)۔
(6) جو دُلہن سُسرالی گھر میں پہلی بار داخل ہو تے وقت ایک سانس میں سات بار یَا وَدُوْدُ پڑھے گی اُسے سا ری زندگی اپنے میاں اور سُسرال سے پیا ر ملے گا ۔

مذکورہ بالا "یاودود" کے سارے اذکار خیالی اور مصنوعی ہیں ۔ دراصل انہیں وضع کرنے والے وہ پیشہ ورلوگ ہیں جنہوں نے جھاڑ پھونک کو کسب معاش اور شہرت کا ذریعہ بنایا۔ اس قسم کے بناوٹی اذکار سے پیشہ وروں نے تو خوب کمائی کی ۔ دولت اور جھوٹی شان کے محل تعمیر کئے مگر سادہ مسلمانوں کی زندگی تباہ کردی ۔ انہیں اللہ کی عبادت سے غافل کرکے ان بناوٹی اذکار پہ جھوٹا یقین دلوادیا۔  اللہ کی پناہ
ان میں سے کوئی بھی طریقہ و عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ پانچ نمبر میں جو ذکرہے اسے شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة: 5737)
اس لئے یہ شرعی طریقہ نہیں ہے ۔ اسلام نے جس بابت جو رہنمائی کی وہی فائدہ مند ہے اور مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ طریقہ پہ ہی عمل کرنا چاہئے ۔


مکمل تحریر >>

Wednesday, July 27, 2016

کسب معاش کے حرام ذرائع

کسب معاش کے حرام ذرائع
مقبول احمد سلفی / دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ،شمال طائف(مسرہ)

اسلام نے حصول معاش کے لئے قواعدوضوابط مرتب کیاہے، کسی بھی تاجریامعاشی مسابقت میں حصہ لینے والے کوآزادنہیں چھوڑاکہ جب چاہے اورجس طرح چاہے مال حاصل کر کے اپنی تجوری بھرتاچلاجائےاوردوسرے لوگ اس میدان میں پیچھے رہ جائیں یانقصان اٹھاتے رہیں بلکہ ہرایک کوحق عطاکیاگیاکہ معاش کے لئے کوشش کرے اور جائز قسم کا کوئی بھی ذریعہ معاش اختیار کرے جس میں دھوکہ، خیانت،سود،نقصان، رشوت، کالابازاری، قماربازی،حرام کاری اور بے ایمانی کا دخل نہ ہو۔ ساتھ ہی دو باتوں کا ضرور خیال کرنا چاہئے پہلی تو یہ کہ اگر ذریعہ آمدنی جائزہے تو کسی بھی پیشہ وعمل کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے اور دوسری یہ کہ اللہ تعالی پر روزی کے تئیں مکمل اعتماد کرکے دولت دنیا کی حرص لئے بغیر جائز طریقے سے کسب معاش میں جدوجہد کرنا چاہئے ۔ عام طور سے حصول زر میں ناجائز ذرائع اپنانے کی اہم وجہ حرص مال  ہوتی ہے ۔
ان بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سطور میں ان ذرائع کا ادراک کریں جو اسلامی نظام معیشت کے خلاف ہے ۔
سودی کاروبار:
سود قطعی طورپرحرام ہے ‘سود کو قرآن کریم نے اتناسنگین گناہ قراردیا ہے کہ کسی اور گناہ کو اتنا سنگین گناہ قرار نہیں دیا، شراب نوشی، خنزیر کھانا، زناکاری، بدکاری وغیرہ کے لیے قرآن کریم میں ایسی سخت وعید نہیں آئی جو سود کے لیے آئی ہے.
چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ(سورۃ البقرۃ:278/279)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو حصہ بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو، اگر تمہارے اندر ایمان ہے ۔اگر تم سود کو نہیں چھوڑو گے ، تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یعنی ان کے لیے اللہ کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے-
مسند امام احمد بن حنبل ،سنن دارقطنی ، مشکوة المصابیح اور زجاجة المصابیح میں حدیث پاک ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ غَسِیلِ الْمَلَائِکَۃِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِرْہَمٌ رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلَاثِینَ زَنْیَۃً -
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنھما (جن کے والد حضرت حنظلہ غسیل ملائکہ ہیں ) سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جانتے بوجھتے سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔
اس کی سند کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( تخريج مشكاة المصابيح:2754)
لہذا ایمان والوں کو ہر اس پیشے سے دور رہناہے جس میں سود کی آمیزش ہو ۔سودی کام پہ کسی کی مدد کرنا بھی ویسے ہی جیسے سودی کاروبار کرنا اس لئے سود پہ کسی طرح کا تعاون بھی نہیں پیش کرنا ہے ۔
جوا کا کاروبار کرنا:
جواایک مذموم کھیل ہے اس کھیل میں ایک کوزبردست خسارہ ہوتاہے جبکہ دوسرافریق بغیرکسی محنت وتعب کے بہت سارامال ومتاع جیت لیتاہے اس میں لوگ نہ جانے کیاکیاہارجاتے ہیں،مال و متاع،گھراوربیوی تک ہارکرشرمندگی اٹھاتے ہیں،یہی شرمندگی اگرابتداء ہی میں محسوس کرے توپھرجواکھیلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔جواایک طرح کانشہ ہوتاہے جوبمشکل ختم ہوتا ہے یہ نشہ اس وقت تک شیطان بن کراس کی کھوپڑی میں گھسارہتاہے جب تک کہ اس کی لٹیا نہ ڈوب جائے۔یہ ایک طرح کادھوکہ اورفریب کاری ہے اسلام میں فریب کاری توممنوع ہے ہی جواکی بھی منصوص طورپرحرمت ثابت ہے۔
یاایھاالذین اٰمنواانماالخمروالمیسروالانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون(المائدۃ : 90)
ترجمہ : اے ایمان والو!بات یہی ہے کہ شراب اورجوااورتھان اورفال نکالنے کے پانسے کے تیریہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہوتاکہ تم فلاحیاب ہو.
جواکی حرمت کے مندرجہ ذیل مقاصدہیں۔
۱۔اسلام چاہتاہے کہ اکتساب مال کے سلسلہ میں مسلمان سنن الٰہی کامتبع ہواورنتائج کو اسباب کے ذریعہ حاصل کرے اورجواجس کی ایک قسم لاٹری ہے انسان کوبخت واتفاق اورخالی آرزؤں پربھروسہ کرناسکھاتاہے جبکہ اسلام عمل،جدوجہداوران اسباب پربھروسہ کرناسکھاتاہے جنہیں اللہ نے پیدافرمایاہے اوران کواختیارکرنے کاحکم دیاہے۔
۲۔اسلام انسان کے مال کومحترم ٹھہراتاہے اوراس کے لینے کی جائزصورت یہ ہے کہ یا توجائزطریقہ پرلین دین ہویاکوئی شخص اپنی رضامندی سے ہبہ یاصدقہ کرے ۔رہاقمارکے ذریعہ مال حاصل کرناتووہ باطل طریقہ پرمال کھانے کے مترادف ہے۔
۳۔اس سے جواکھیلنے والوں کے درمیان بغض وعداوت پیداہوتی ہے اگرچہ وہ زبانی طورپر رضامندی کااظہارکرتے ہوں کیونکہ ان کامعاملہ ہمیشہ غالب اورمغلوب کے درمیان رہتا ہے اور جب مغلوب خاموشی اختیارکرتاہے تواس کی خاموشی غیظ وغضب لئے ہوئے ہوتی ہے کیونکہ وہ نقصان اٹھاچکاہوتاہے۔
۴۔بازی ہارجانے کی صورت میں مغلوب دوبارہ جواکھیلنے پرآمادہ ہوجاتاہے اس امیدپرکہ شایداب کی بارنقصان کی تلافی ہوگی،اسی طرح غالب کوغلبہ کی لذت دوبارہ بازی لگانے اورمزیدنفع بٹورنے پرآمادہ کرتی ہے۔
۵۔بنابریں یہ شوق جس طرح فردکے لئے خطرہ کاباعث ہے اسی طرح سماج کے لئے بھی خطرہ کاشدیدباعث ہے،یہ ایساشوق ہے جس میں محنت اورقوت کی بربادی ہے۔
غرض یہ کہ یہ کھیل جوئے بازوں کوبالکل معطل کرکے رکھ دیتاہے جوزندگی کی محنت سے تو فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داریوں کوادانہیں کرتے۔
قماربازہمیشہ اپنے رب کی عائدکردہ ذمہ داریوں سے غفلت برتتاہے نیزاپنے نفس اپنے خاندان اوراپنی ملی ذمہ داریوں سے بھی بے پرواہ ہوجاتاہے۔
ایسے لوگوں سے کچھ بعیدنہیں کہ وہ اپنے دین،اپنی عزت اوراپنے وطن کوبھی اپنے مفاد کی خاطربیچ دیں۔(اسلام میں حلال وحرام)
لاٹری بھی جواہی کی ایک قسم ہے مگربعض لوگوں نے اسے ضرورتاًجائزقراردیاہے یہ ان کی بڑی بھول ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ لاٹری جواکی ایک قسم ہی ہے اورجب یہ متحقق ہے کہ لاٹری جواکی قسم ہے توپھراس کی حرمت پرکوئی کلام نہیں۔اسکے ذریعہ کمائی ہوئی دولت بھی حرام ہوگی،اس کی بدولت آدمی اللہ کے عتاب سے نہیں بچ سکتا۔
شراب کا پیشہ اختیار کرنا:
شراب کو”ام الخبائث“کہاگیاہے کیونکہ آدمی شراب کی حالت میں کچھ بھی کرسکتاہے زنا کاری کاارتکاب کرسکتاہے، کسی کی حرمت پرڈاکہ زنی کرسکتاہےاوروہ خودکشی بھی کرسکتاہے۔مشہورواقعہ ہے،ایک آدمی کوتین کاموں میں سے کسی ایک کااختیاردیاگیاچاہے وہ شراب نوشی کرے یازناکری کرے یاایک آدمی کوموت کی گھاٹ اتاردے۔اس نے تین کام میں شراب نوشی کوپسندکیااوروہ جب پی لیاتونشہ کی حالت میں زناکاری کابھی ارتکاب کرلیااورآدمی کو بھی قتل کردیا۔اوریہ حقیقت ہے کہ اس سے بہت ساری خرابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، بیماریاں بھی وقوع پذیرہوتی ہیں،رسول اکرم ﷺنے اللہ کی طرف سے شراب کی حرمت کااعلان کردیاہے : كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ مُسكِرٍ حَرامٌ(صحيح مسلم:2003)
ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہے اورہرنشہ آورحرام ہے۔
إِنَّ اللهَ حَرَّمَ الخمرَ ، و حَرَّمَ المَيْتَةَ و ثمنَها ، و حَرَّمَ الخِنْزِيرَ و ثَمَنَهُ(صحيح الجامع: 1746)
ترجمہ: اللہ نے شراب حرام کیاہے ،مرداراوراس کی قیمت کوبھی حرام قراردیا،سوراوراس کی قیمت کوحرام قرار دیا ہے۔
لعن اللهُ الخمرَ ، وشارِبَها ، وساقِيَها ، وبائِعَها ، و مُبْتَاعَهَا ، وعاصرَهَا ، ومُعْتَصِرَها ، وحامِلَها ، و المحمولَةَ إليهِ ، وآكِلَ ثَمَنِها(صحيح الجامع: 5091)
ترجمہ: اللہ تعالی نے شراب پہ، اس کے پینے والے،پلانے والے۔اسے نچوڑنے والے،جس کے لیے نچوڑی گئی،اس کے بیچنے والے،خریدنے والے،اٹھانے والے،جس کی طرف اٹھائی گئی ہو،اوراس کی قیمت کھانے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔
شراب پینے سے جہاں اسلامی نقطہ نظرسے بہت ساری خرابیاں ہوتی ہیں وہیں طبی نقطہ نظرسے بھی آدمی متعددخرابیوں اوربیماریوں کاشکارہوتاہے مثلاً۔محنت کرنے کی صلاحیت ولیاقت ختم ہونے لگتی ہے۔مالی حالت خراب ترہوجاتی ہے۔خون کی رفتارکافی تیزہوجاتی ہے۔دل کی دھڑکن بندہوجاتی ہے۔آدمی اپناہوش کھوبیٹھتاہے اوراسے کسی چیزکاعلم نہیں رہ جاتا۔آدمی کے اندرگھبراہٹ پیداہوجاتی ہے۔خاندانی انتشاربڑھ جاتاہے۔دل سے متعلق امراض نمودارہوجاتے ہیں اوراسی شراب کے استعمال سے کینسربھی ہوجاتاہے۔
زناکاری کا دھندا کرنا:
زناکاری ایک بدترین کام ہے،اسلام نے اس فعل کوناجائزاورحرام بتلایا،جوبھی اس کا ارتکاب کرے گااس پراسلامی قانون کی روسے حدجاری کی جائیگی۔
اگروہ شادی شدہ ہے توسنگسارکیاجائے گااورغیرشادی شدہ ہے تواسے سوکوڑاماجائیگا اورایک سال کے لئے شہربدرکیاجائے گایہ قرآن کاحکم ہے۔
الزانیۃوالزانی فاجلدواکل واحدمنھماماءۃجلدۃ(النور:2)
ترجمہ:زناکارعورت اورمردمیں سے ہر ایک کوسوکوڑے لگاؤ۔
دوسری جگہ زناکاری پرضرب کاری لگاتے ہوئے قرآن گویاہے۔
ولاتقربوالزنی فانہ کان فاحشۃوساء سبیلا(الاسراء :32)
ترجمہ: خبردارزناکے قریب بھی نہ بھٹکناکیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اوربہت ہی بری راہ ہے۔
اوررسول اللہ ﷺنے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
إذا زنى الرجلُ خَرَجَ منه الإيمان ُ، كان عليه كالظُّلَّةِ ، فإذا انقَطَعَ رَجَعَ إليه الإيمانُ(صحيح أبي داود:4690)
ترجمہ : جب آدمی زناکاارتکاب کرتاہے تواس کے دل سے ایمان خارج ہوجاتاہے گویااس کے اوپرسایہ کی طرح رہتاہے اورجب اس سے بازآجاتاہے توایمان اسکی طرف لوٹ جاتاہے۔
آج زنا کے لائسنس والے اڈے چلتے ہیں ، اس سے خطیر رقم حاصل کی جاتی ہے ۔ میں مسلمانوں کو اس سنگین و بھیانک جرم کو بطور پیشہ اختیار کرنے سے دور رہنے کی صلاح دیتا ہو۔ زنا کاری سے جیسے دنیا اور آخرت تباہ ہوتی ہے ویسے ہی اس کی کمائی سے دونوں جہاں برباد ہوجائے گا۔
یتیم کا مال ہڑپنا:
رسول اللہ ﷺنے یتیم کی اچھی پرورش وپرداخت کرنے کی تلقین کی اوراس کی اچھی طرح خبرگیری کرنے والے کوجنت کی بشارت سنائی،ساتھ ہی  ان لوگوں کے لئے وعیدبھی سنائی جویتیم کے مال پرناجائزقبضہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں،ان کامال ہڑپ کرانہیں گھرسے بے گھر کردیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیاہے :ولاتقربوامال الیتیم الابالتی ھی احسن حتی  یبلغ اشدہ(الانعام:152)
ترجمہ : اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤمگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے۔
اوررسول اللہ ﷺنے فرمایا:أنا وَكافلُ اليتيمِ في الجنَّةِ هَكَذا . وأشارَ بالسَّبَّابةِ والوُسطى ، وفرَّجَ بينَهما شيئًا .(صحيح البخاري:5304)
ترجمہ: کہ میں اوریتیم کی پرورش وپرداخت کرنے والاجنت میں ایسے رہوں گاجیسے میرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اوردرمیانی انگلی۔
رشوت بازاری کرنا:
رشوت یہ ہے کہ مال صاحب اقتداریاسرکاری ملازم کوپیش کیاجائے تاکہ وہ اس کے حق میں یااس کے حریف کے خلاف فیصلہ یااس کاکام کرے،یااس کے حریف کے کام کومؤخرکردے ۔یہ بھی کسب معاش کے باطل طریقوں میں سے ہے،قرآن میں مذکورہے :ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوابھاالی الحکام لتاکلوافریقامن اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون۔(البقرۃ : 188)
ترجمہ:اورایک دوسرے کا مال ناحق طریقہ سے نہ کھاؤ،نہ حاکموں کورشوت پہچاکرکسی کاکچھ مال ظلم وستم سے اپناکرلیاکرو حالانکہ تم جانتے ہو۔
اورنبی کریم ﷺنے فرمایا:لعنَ رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ الرَّاشي والمُرْتَشي في الحكمِ(صحيح الترمذي:1336)
ترجمہ: کسی بھی معاملہ میں رشوت دینے والے اوررشوت لینے والے دونوں پراللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں رشوت ستانی کی حرمت میں کوئی امرمشتبہ نہیں رہا،رشوت کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ حکام کے نزدیک جس کاکام پہلے ہوتاہے وہ مؤخرکردیاجاتاہے اوربعدوالے کام کومقدم کردیاجاتاہے اس سے دونوں فریق میں نزاع پیداہوجاتاہے اوراگرپہلے سے دونوں میں کشیدگی کامعاملہ ہوتوپھرباہمی نزاع کارنگ گاڑھاہوجاتاہے۔
یہاں ایک بات اورغورکرنے کی ہے کہ کچھ لوگ رشوت کوہدیہ کے طورپرپیش کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ رشوت ستانی میں داخل نہیں ہے بلکہ یہ توہدیہ ہے اوراسلام ہدیہ دینے کی کلی آزادی دیتاہے،یہ ایک قسم کی منافقانہ چال ہے اس سے اسلامی تعلیمات پرضرب پڑتی ہے،رشوت کانام ہدیہ رکھنے سے کبھی ہدیہ نہیں کہلائے گا،اگرکوئی زہرکوقندسمجھ کرپی جائے تویہ ضروری نہیں کہ اس کا ذائقہ میٹھاہوجائے اورنہ ہی اس کی موت کی کوئی ضمانت ہوگی۔
مال میں خیانت کرنا:
کسی کے مال میں خیانت کرکے اپنی معیشت بڑھانااوراپنے لئے سامان تعیش مہیاکرنا حر ام ہے،اس کوقرآن وحدیث دونوں نے مذموم ٹھہرایاہے قرآن کابیان ہے :فان امن بعضکم بعضافلیؤدالذی أوتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ(البقرۃ : 283)
ترجمہ: اگرآپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہوتوجسے امانت دی گئی ہے وہ اسے اداکردے اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتارہے جواس کارب ہے۔
اسی مفہوم کوقرآن نے دوسری جگہ بایں الفاظ بیان کیاہے :ومن یغلل یات بماغل یوم القیامۃثم توفی کل نفس ماکسبت(آل عمران :161)
ترجمہ: ہرخیانت کرنے والاخیانت کولئے ہوئے قیامت کے دن حاضرہوگاپھرہرشخص اپنے اعمال کاپوراپورابدلہ دیاجائے گا۔
اوررسول اللہ نے بھی اس کی مذمت بیان کی ہے اورخیانت کرنے والے کے متعلق یہ فرمایا: آيةُ المنافقِ ثلاثٌ : إذا حدَّثَ كذبَ ، وإذا وعَدَ أخلفَ ، وإذا اؤتُمِنَ خان.(صحيح البخاري:33)
ترجمہ:منافق کی تین نشانیاں ہیں پہلی نشانی یہ ہے کہ جب وہ کسی سے وعدہ کرتاہے تووعدہ خلافی کرتاہے اورتیسری نشانی یہ ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جاتی ہے توخیانت کرتاہے۔
دوسری حدیث ہے: منِ استعملناهُ على عملٍ فرزقناهُ رزقًا فما أخذَ بعدَ ذلِكَ فَهوَ غُلولٌ(صحيح أبي داود:2943(
ترجمہ: جس کو ہم نے کسی کام ہرمقررکردیااوراس کے معاش کابھی انتظام کردیااسکے بعد جوکچھ لے گاوہ خیانت ہوگی۔
اورخیانت کاانجام توواضح ہے اس کومزیدواضح کرنے کی ضرورت نہیں۔
چوری کرنا:
معیشت کے لئے یہ طریقہ بھی غلط ہے کہ آدمی کسی کے گھرپرشب خوں مارے اورمال و جائدادپرقبضہ جمالے،یارات کی تاریکی کافائدہ اٹھاکرلوگوں کامال لوٹے،ایسے شخص کواسلام مجرمین کی فہرست میں شمارکرتاہے اوراس پرحدجاری کرتاہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : والسارق والسارقۃفاقطعواایدیھماجزاء بماکسبانکالامن اللہ واللہ عزیزحکیم(المائدۃ : 38)
ترجمہ : چوری کرنے والے مرداورعورت کے ہاتھ کاٹ دیاکرویہ بدلہ ہے ا س کاجوانہوں نے کیا،عذاب اللہ کی طرف سے اوراللہ تعالیٰ قوت وحکمت والاہے۔
حدیث رسول میں اس کی صراحت ہے کہ کلائی سے ہاتھ کاٹاجائے گا،اس بارے میں رسول اللہ ﷺبہت سختی کرتے تھے کیونکہ چوری کرلینااوربات ہے اورچوری کاپیشہ اختیارکرلینایہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔جورہزنی اورقزاقی کواپنی صنعت وتجارت بنالے توپھراس سے کسی بھی خیرکی امیدبعیدازقیاس ہے،آپ ﷺکافرمان عالیشان ہے :والذي نفسي بيدِه ! لو أنَّ فاطمةَ بنتَ محمدٍ سرقت لقطعتُ يدَها (صحيح مسلم:1688(
ترجمہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،اگرمیری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تومیں اس کابھی ہاتھ کاٹ لیتا۔
اگرکسی شخص کویہ معلوم ہوجائے کہ فلاں مال چوری کاہے اورپھراس مال کوخریدلے توایسا شخص بھی گنہگارہوگا۔لہذا چوری کا مال بھی کسی سے جانتے بوجھتے نہیں خریدنا چاہئے ۔
رقص وسرود کا پیشہ اختیار کرنا:
موجودہ زمانے میں دولت حاصل کرنے کاایک اچھاراستہ لوگوں کویہ مل گیاہے کہ وہ رقص وسروکی بزم آرائیاں کرتے ہیں اس کے ذریعہ لوگوں کی جنسی خواہشات کاانتظام کرتے ہیں، غلط قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اورلبھانے والے اکٹنگ سے لوگوں کواپنی جانب مائل کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔
طرفہ تماشایہ کہ اسے ”فن“(Art)کانام دیاجاتاہے،ماتم ہے بے غیرت انسانوں پرجو معاشرہ کے تباہ کن عناصرکوترقی کاجزء لاینفک قراردیتے ہیں۔
اس کام میں فاحشہ عورتیں اورذلیل وخوارانسان دونوں مشترک ہیں،مگرصنف نازک کی کثرت ہوتی ہے۔عورتوں کی بہتات کاسبب بھی ظاہرہے ۔قرآن تواس کے قریب بھٹکنے سے بھی منع کرتاہے اورایساکام کرنااسے ذریعہ معاش بناناتودورکی:ومن الناس من یشتری لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیرعلم ویتخذھاھزوا،اولئک لھم عذاب مھین۔(لقمان :6)
ترجمہ: اوربعض لوگ ایسے بھی ہیں جولغو باتوں کومول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کواللہ کی راہ سے بہکائیں اوراسے ہنسی بنائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسواکرنے والاعذاب ہے۔
امام جریرطبری فرماتے ہیں کہ ”لہوالحدیث“سے مرادغنا،رقص اورہروہ کھیل جس کے ذریعہ لوگوں کوگمراہ کیاجاتاہو۔
تفسیرجوناگڈھی میں ہے کہ ”لھوالحدیث“سے مرادگانابجانا،اس کاسازوسامان اورآلات،سازوموسیقی اورہروہ چیزہے جوانسانوں کوخیراورمعروف سے غافل کردے،اس میں رقص کہانیاں،افسانے،ڈرامے،ناول اورجنسی سنسنی خیزلٹریچر،رسالے اوربے حیائی کے پرچارک اخبارات سبھی آتے ہیں،اورجدیدترین ایجادات ریڈیو،ٹی وی،وی سی آر،ویڈیوفلمیں وغیرہ بھی۔مزیدلکھتے ہیں ”عہدرسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصدکے لئے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کادل گانے سناکربہلاتی رہیں تاکہ قرآن اوراسلام سے وہ دوررہیں،اس اعتبارسے گلوکارائیں بھی آجاتی ہیں جوآج کل فنکار،فلمی ستارہ اورثقافتی سفیراورپتہ نہیں کیسے کیسے مہذب،خوشنمااوردلفریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں“۔
قرآن کی دوسری آیت ہے:ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃفی الذین امنوالھم عذاب الیم فی الدنیاوالاخرۃ واللہ یعلم وانتم لاتعلمون۔(النور:19)
ترجمہ: جومسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومندرہتے ہیں ان کے لئے دنیاو آخرت میں دردناک عذاب ہے اللہ سب کچھ جانتاہے اورتم کچھ بھی نہیں جانتے۔
اس آیت میں بھی ”فاحشہ“سے مرادوہی ہے جومذکورہ آیت کے لفظ ”لھوالحدیث“سے مرادہے۔
نرخ چڑھنے پر مال فروخت کرنا:  
یہ بھی معیشت کے لئے غلط راہ ہے کہ تاجراس وقت کاانتظارکرے جب بازارمیں اشیاء کی قیمت بڑھنے لگے پھراپنے گھروں سے سامان بازارمیں لائے۔ایسے لوگوں کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ وہ محض گنہگارہے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ(صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: اورذخیرہ اندوزی کرنے والاگنہگارہے۔
بازارمیں مال درآمدکرنے والے کورزق دیاجاتاہے اورذخیرہ اندوزی کرنے والا رزق اور اس کی برکت سے محروم رہتا ہے ۔بڑے سے بڑاتاجرہویہ نہیں کہہ سکتاکہ اس کی روزی اس کے ہاتھ میں ہے اللہ چاہے تومشتری خودبخوددوکاندارتک پہنچ جائے،نہیں چاہے توکسی تاجرکایہ بس نہیں کہ مشتری کواپنی تجا رت گاہ تک کھینچ لائے اورجب یہ متعین ہوگیاکہ روزی دینے والااللہ ہی ہے اس کے سواکسی کے بس میں نہیں کہ روزی دے سکے توپھرتجارت میں امانتداری کامعاملہ کرناچاہئے،اس اما نت داری سے اللہ کی رضامندی بھی ملے گی اورخریدارمیں امانتداری کاشہرہ ہوگاجس سے خریدار پر اچھااثر پڑ ے گااورزیادہ مقدارمیں تجارت کامال فروخت ہوگا،ایسی صورت میں نرخ چڑھنے کا انتظارکرتے ہوئے مال روکے رہنااورضرورت مندلوگوں کوفاقوںپرمجبورکرناخصوصاًمعاشرہ کے غریب ومحتاج اورنادارقسم کے لوگوں پربھوک مری سی حالت وکیفیت طاری کردیناکہاں کی دانشمندی ہے اورکون دانشمنداس حماقت کی تصویب کرے گا؟اس لئے بہترصورت وہی ہے جس کواسلام نے پیش کیاہے۔
کسب محارم کے مہلک اثرات :
جیسے ہی معاشی بھاگ دوڑکی راہ ٹیڑھی ہوتی ہے معاشیات میں پیچ پڑنے لگتے ہیں اخلاقی گراوٹ پیداہوجاتی ہے،سماجی خرابیاں رونماہوجاتی ہیں،اسلام کی معاشی  حکمت ومصلحت کاخون ہونے لگتاہے،ساراکاسارامعاشرہ ضلالت کے عمیق غارپرپہنچ جاتاہے اس کے مزیدنقصانات اورمہلک اثرات پرغورکیجئے۔
(1)کسب معاش کیلئے باطل طریقے اختیارکرنے والوں کی دین ودنیادونوں بربادہو جاتی ہیں اوراس کاٹھکانہ جہنم ہوتاہے۔
(2)معاشرے میں چوروں اوررہزنوں کی زیادتی ہوجاتی ہے اورچوروں کاحوصلہ بڑھتا ہے۔
(3)جس نے کبھی چوری نہ کی ہو اس کے اندربھی چوری کرنے کاداعیہ پیداہونے لگتاہے۔
(4)کچھ ایسے بھی پیشے ہیں جن سے متعددامراض پیداہوتے ہیں جوآدمی کے لئے سم قاتل اورزہرہلاہل ہیں۔
(5)باطل طریقے سے مال حاصل کرنادراصل مال ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس کے بدلے آدمی اپنی عاقبت خراب کرتاہے۔
(6)بازاری حالت میں ابتری پھیل جاتی ہے اوراسکاسارانظام درھم برھم ہوجاتاہے۔
(7)زناکاری ویسے بھی بدترین خصلت ہے مزیداس سے انسانی نسل تباہ ہوجاتی ہے اوراسکے اثرات خاندان پربھی برے ثابت ہوتے ہیں۔
(8)بیع وشراء میں طرفین کے مابین باہمی رنجش وعداوت اوردائمی نفرت پیداہوجاتی ہے ۔               
(9)معاشرے میں غلط قسم کے عناصررواج پایاجاتے ہیں اورانہیں پھلنے پھولنے کا بہترین موقع مل جاتاہے۔
(10)حلت وحرمت کامعیارختم ہوجاتاہے اوربغیرکسی تفریق کے لوگ حصول رزق میں سرگرداں رہتے ہیں۔
(11)جنسی شہوت ابھرتی ہے اورصالح افراداس سے بہت زیادہ متاثرہوتے ہیں جوان کی ایمانی پہچان بھی مٹادیتی ہے۔
(12)اسلامی تعلیمات کے فروغ واشاعت میں ایک بڑی رکاوٹ پیداکردیتی ہے۔
حرام طریقے سے کمائے ہوئے مال کا حکم :
 لوگوں کی اکثریت حرام کمائی میں ملوث ہےجس کے بھیانک اثرات سماج وسوسائٹی پہ نمایاں ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت ہو اور اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہئے ؟ 
اگر مسلمان کو اپنے کئے پہ شرمندگی محسوس ہوجائے تو رب اس کے گناہ کو معاف کردیتا ہے سوائے حقوق العباد کے ۔ اگر ہم نے غبن، چوری، دھوکہ ، رشوت یا کسی دوسرے طریقے سے  مال لوٹا ہے تو توبہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے ۔حقوق العباد کی ادائیگی  کے بعد جو پیسہ حرام کمائی کا بچ جائے اسے محتاجوں میں صدقہ کردے ۔اگرحرام کمائی سے سامان خریدایا مکان بنایاہوتواسے بھی بیچ کر صدقہ کردینا چاہئے  الا یہ کہ وہ خود اس سامان کے لئے مضطرہو۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حرام طریقے سے مال کمانے سے بچائے اور رزق حلال کی توفیق بخشے ۔ آمین



مکمل تحریر >>

Monday, July 25, 2016

دادا کا بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا

دادا کا بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا

بچے کا عقیقہ اس کا داد ا کرسکتا ہے یا اس کے والدین کو ہی کرنا لازمی ہے ؟

بچے کا جو بھی سرپرست ہو وہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرسکتا ہے خواہ باپ ہو، ماں ہو، دادا ہو یا دادی ۔ اور یہ یاد رہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
نبی ﷺ نے اپنے نواسے حسن وحسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقیہ کیا تھا۔

واللہ اعلم

مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

Sunday, July 24, 2016

کیا عورت ننگے سر کھانا پکاسکتی اور اذان سن سکتی ہے ؟

کیا عورت ننگے سر کھانا پکاسکتی اور اذان سن سکتی ہے ؟
عورت اکیلے میں یا محرم کے سامنے اپنے بال کھلا رکھ سکتی ہے ، اسی طرح کھانا پکاتے ہوئے  یا اذان ہوتے وقت سر کھلا رہنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہاں غیرمحرم نہ ہو۔ اگر کوئی غیرمحرم ہے تو اس سے پردہ ( مکمل جسم بشمول سر اور چہرہ) کرنا ہے ۔

اگر کوئی ننگے سر کھانا پکانے اور اذان سننے کو غلط کہتا ہے تو اسے دلیل دینی ہوگی ۔ 
مکمل تحریر >>

کیا کعبہ کے غلاف کو چومنا شرک ہے ؟

کیا کعبہ کے غلاف کو چومنا شرک ہے ؟
دیوارکعبہ یا غلاف کعبہ چومنے کا عمل نہ تو نبیﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی آپﷺ کے پیارے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ۔ اس لئے یہ عمل بدعت کہلائے گا جیساکہ نبی ﷺکا فرمان ہے : من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد(مسلم)
ترجمہ: کسی نے ایسا کام کیا جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔
اگر کوئی غلاف کعبہ کو اس اعتقاد کے ساتھ چومتا ہے کہ غلاف کعبہ بذات خود برکت دیتا ہے تو پھر شرک ہوجائے گا اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے ، اس حال میں مرنے پہ کوئی بخشش نہیں۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

کیا بینک کے اے ٹی ایم مشین رکھنے کے لئے کرائے پہ زمین دینا جائز ہے ؟

کیا بینک کے اے ٹی ایم مشین رکھنے کے لئے کرائے پہ زمین دینا جائز ہے ؟
بینک اگر سود پہ قائم ہو تو اس سے کسی قسم کا معاملہ کرنا سود پہ تعاون ہے مثلا پیسہ جمع کرنا، نکالنا، قرض لینا ، بینک یا اے ٹی ایم کے لئے زمین دینا وغیرہ ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدۃ : 2)
ترجمہ: گناہ اور ظلم کے کام پہ مدد نہ کرو۔
لہذا اے ٹی ایم مشین کے لئے اپنی زمین کرائے پہ دینا جائز نہیں ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>