Tuesday, May 31, 2016

رمضان کا استقبال کیسے کریں؟

رمضان کا استقبال کیسے کریں؟
================
تحریر: مقبول احمد سلفی
داعی /مرکزالدعوۃ والارشاد طائف،سعودی عرب

رمضان المبارک  کی آمد آمد  ہے ، ہر طرف مومن کے اندر اس کے تئیں اظہار مسرت ہے ۔ یہ وہ مبارک مہینہ  ہےجس کا انتظار مومن آدمی سال بھر کرتاہے کیونکہ یہ نیکی،برکت،بخشش،عنایت،توفیق،عبادت،زہد،تقوی،مروت،خاکساری،مساوات، صدقہ وخیرات،رضائے مولی،جنت کی بشارت،جہنم سے گلوخلاصی  کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ مقدس میں مومن کے اندرفکرآخرت کے ذریعہ رب سے ملاقات کی خواہش بیدار ہوتی ہے ۔سبحان اللہ اس قدر پاکیزہ ومحترم مہینہ ۔یہ رب کی طرف سے اس پر ایمان لانے والوں کے لئے عظیم تحفہ ہے ۔ اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ماہ عظیم الشان کا کیسے استقبال کریں اور کس عمدگی سے اس مہینے کے فیوض وبرکات سے اپنے دامن کو نیکیوں کے موتی بھرلیں؟
رمضان کا استقبال کیسے کریں؟
اپنے ذہن میں ذرا تصور پیدا کریں کہ جب آپ کے گھر کسی اعلی مہمان کی آمد ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟   آپ کا جواب ہوگا۔ہم بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں۔ گھرآنگن  کو خوب سجاتے ہیں، خود بھی ان کے لئے زینت اختیار کرتے ہیں، پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتاہے ، بچوں کے لب پہ نغمے،چہرے پہ خوشی کے آثار ہوتے ہیں۔ مہمان کی خاطرتواضع کےلئے ان گنت پرتکلف سامان تیار کئے جاتے ہیں۔ جب ایک مہمان کے لئے اس قدر تیاری تو مہمانوں میں سب سے اعلی اور رب کی طرف سے بھیجا ہوا مہمان ہو تو اس کی تیاری کس قدر پرزور ہونی چاہئے ؟  آئیے اس تیاری سے متعلق آپ کے لئے ایک مختصر خاکہ پیش کرتا ہوں ۔
(1)عظمت کا احساس
رمضان کا مہینہ بیحد عظیم ہے ، اس کی عظمت کا احساس اور قدرومنزلت کا لحاظ آمد رمضان سے قبل ہی ذہن ودماغ میں پیوست کرلیاجائے تاکہ جب رمضان میں داخل ہوں تو غفلت،سستی،بے اعتنائی،ناقدری،ناشکری، احسان فراموشی  اور صیام وقیام سے بے رغبتی کے اوصاف رذیلہ نہ پیدا ہوں۔
یہ اتنی عظمت وقدر والا مہینہ ہے کہ اس کی ایک رات کا نام ہی قدرومنزلت ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5) (سورة القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلة القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلةالقدرکیا ہے ۔لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ رمضان کی ایک رات ہی قدر کی رات ہے بلکہ اس کا ہردن اور ہررات قدرومنزلت کا حامل ہے ۔

(2) نعمت کا احساس
رمضان جہاں رب کا مہمان ہے وہیں اس کی طرف سے ایک عظیم نعمت بھی ہے ۔ عام طور سے انسان کو اس نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے جو حاصل ہوجاتی ہے لیکن جو نہیں مل پاتی اس کے لئے تڑپتا رہتا ہے ۔ ایک بینا کو آنکھ کی نعمت کا احساس کم ہوتا ہے اس لئے اس کا استعمال فلم بینی اور برائی کے مشاہدے میں کرتاہے ۔ اگر اسے یہ احساس ہو کہ یہ رب کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدرکرنی چاہئے تو کبھی اپنی آنکھ سے برائی کا ادراک نہ کرے ۔ بینا کی بنسبت اندھے کو آنکھ کی نعمت کا احساس زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ فرق ایمان میں کمی کا سبب ہے ۔ جس کا ایمان مضبوط ہوگا وہ ہرنعمت کی قدر کرے گا ۔ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم رمضان جیسے مقدس مہینے کی نعمت کا احساس کریں ۔ اور اس احساس کا تقاضہ ہے کہ اس نعمت پہ رب کی شکرگذاری ہوجیساکہ اللہ کا فرمان ہے ۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ(ابراهيم: 7)
ترجمہ: اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے, تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا اوراگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے : أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ{ابراہیم :28-29}
ترجمہ : کیا آپ نے انکی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ تعالی کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ،یعنی جہنم میں جسمیں یہ سب جائیں گے جوبدترین ٹھکانہ ہے ۔
نعمت میں رمضان جیسا مہینہ نصیب ہونے کی بھی نعمت ہے اور صحت وتندرستی  اس پہ مستزاد ہے۔ان نعمتوں کا احساس کیوں نہ کریں ، کہ ان نعمتوں کے بدلے ہمیں ہرقسم کی نیکی کی توفیق ملتی ہے ۔ روزہ،نماز،صدقہ،خیرات،دعا،ذکر،انابت الی اللہ ،توبہ،تلاوت، مغفرت،رحمت وغیرہ ان نعمتوں کی دین ہے ۔

(3) انابت الی اللہ
جب ہم نے اپنے دل میں مہمان کی عظمت بحال کرلی، اس عظیم نعمت کی قدرومنزلت کا بھی احساس کرلیا تو اب ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ دنیا سے رخ موڑ کے اللہ کی طرف لوٹ جائیں ۔ "انابت الی اللہ" عظمت اور نعمت کے احساس میں مزید قوت پیدا کرے گی۔ اللہ کی طرف لوٹنا صرف رمضان کے لئے نہیں ہے بلکہ مومن کی زندگی ہمیشہ اللہ کے حوالے اور اس کی مرضی کے حساب سے گذرنی چاہئے ۔ یہاں صرف بطور تذکیر ذکر کیا جارہاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو بندہ رب سے دور ہوکر روزہ کے نام پہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرے ۔ اگر ایسا ہے تو روزے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ پہلے رب کی طرف لوٹیں ، اس سے تعلق جوڑیں اور اس کو راضی کریں پھر ہماری ساری نیکی قبول ہوں گی ۔
انابت الی اللہ سے میری مراد، ہم رب پر صحیح طور ایمان لائیں، ایمان باللہ کو مضبوط کریں، عبادت کو اللہ کے لئے خالص کریں، رب پہ مکمل اعتماد کریں، اللہ کو سارے جہاں کا حاکم مانیں، خود کو اس کا فقیر اور محتاج جانیں ، کسی غریب ومسکین کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں ،ناداروں کی اعانت کریں،بیماری ومصیبت میں اسی کی طرف رجوع کریں۔ یہ ساری باتیں انابت الی اللہ میں داخل ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں،روزہ بھی رکھتے ہیں، لمبے لمبے قیام اللیل کرتے ہیں مگر غیراللہ کوپکارتے ہیں، اللہ کو چھوڑ کو اوروں کو مشکل کشا سمجھتے ہیں ۔ بیماری اور مصیبت میں مردوں سے استغاثہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا روزہ کیسے قبول ہوگا؟ گویا ایسے عقیدے والوں کا مکمل رمضان اور اس کی نیکیاں ضائع ہوگئیں۔ اللہ تعالی کا فرمان لاریب ہے ۔
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الزمر:65)
ترجمہ : یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔
اس لئے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں۔

(4) پیش قدمی
اس کے دو پہلو ہیں ۔ (الف)منکر سے اجتناب (ب) معروف کی رغبت
(الف) منکر سے اجتناب: رمضان کے استقبال میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے گذشتہ گناہوں سے سچی توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرلیں۔ دیکھا جاتا ہے لوگ ایک طرف نیکی کرتے ہیں تو دوسری طرف بدی کرتے ہیں ۔ اس طرح اعمال کا ذخیرہ نہیں بن پاتا بلکہ بدی کے سمندر میں ہماری نیکیاں ڈوب جاتی ہیں ۔ ویسے بھی ہمارے پاس نیکی کی کمی ہے وہ بھی ضائع ہوجائے تو نیکی کرنے کا فائدہ کیا؟ اس لئے نیکی کو اگر بچانا چاہتے ہیں اور رمضان المبارک کی برکتوں، رحمتوں، نعمتوں، بخششوں اور نیکیوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بدی سے مکمل اجتناب کرنا پڑے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (التوبة:53)
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی بھی طرح خرچ کروقبول تو ہرگز نہ کیا جائے گا، یقینا تم فاسق لوگ ہو۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی فسق وفجور اور ناپسندیدگی سے خرچ کرنےکی وجہ سے صدقہ کو قبول نہیں کرتا۔
اورحدیث میں ہے صحابہ بیان کرتے ہیں :
كنا معَ بُرَيدَةَ في يومٍ ذي غَيمٍ، فقال : بَكِّروا بالصلاةِ، فإن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : مَن ترَك صلاةَ العصرِ حَبِط عملُه(صحيح البخاري:594)
کہ ہم لوگ بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی غزوۂ میں بارش والے دن تھے تو انہوں نے کہا کہ نماز عصر جلدی پڑھو، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو اس کا (نیک) عمل ضائع ہو جاتا ہے۔
جو آدمی عبادت بھی کرے اور گناہ کا کام بھی کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا نیک عمل مردود ہے ۔" إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ "(العنکبوت :45)
اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بےحیائی وبرائی کے کام سے روکتی ہے توجونمازیا روزہ بے حیائی سے نہ روکے وہ اللہ کے یہاں قابل رد ہے ۔
(ب)  معروف کی رغبت
رمضان بھلائی کمانے کے واسطے ہے ، اللہ تعالی مومنوں کو متعدد طریقے سے اس مہینے میں بھلائی سے نوازتاہے ، ہمیں ان بھلائیوں کے حصول کی خاطر رمضان سے پہلے ہی کمربستہ ہوجانا چاہئے اور مواقع حسنات سے مستفید ہونے کے لئے برضا ورغبت ایک خاکہ تیار کرنا چاہئے تاکہ ہرقسم کی بھلائیاں سمیٹ سکیں ۔ سمجھ کر قرآن پڑھنے کا اہتمام(کم از کم ایک ختم) ، پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات ، صدقہ وخیرات، ذکرواذکار، دعاومناجات، طلب عفوودرگذر، قیام اللیل کا خاص خیال،روزے کے مسائل کی معرفت بشمول  رمضان کے مستحب اعمال، دروس وبیانات میں شرکت، اعمال صالحہ پہ محنت ومشقت اور زہدوتقوی سے مسلح ہونے کا مکمل خاکہ ترتیب دیں اور اس خاکے کے مطابق رمضان المبارک کا روحانی ومقدس مہینہ گذاریں ۔
رمضان میں ہرچیز کا ثواب دوچندہوجاتا ہے اور روزے کی حالت میں کارثواب کرنا مزید اضافہ حسنات کا باعث ہے ، اس لئے اس موسم میں معمولی نیکی بھی گرانقدر ہے خواہ مسکواک کی سنت ہی کیوں نہ ہو۔ ہر نماز کے لئے مسکواک کرنا، اذان کا انتظار کرنا بلکہ پہلے سے مسجد میں حاضررہنا،تراویح میں پیش پیش رہنا، نیکی کی طرف دوسروں کو دعوت دینا، دروس ومحاضرات کا اہتمام کرنا،منکر ات کے خلاف مہم جوئی کرنا اور صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرنا سبھی ہمارے خاکے کا حصہ ہوں۔

(5) بہتر تبدیلی
استقبال رمضان کے لئے خود کو مکمل تیار کریں، نیکی کا جذبہ وافر مقدار میں ہواور اپنے اندر اچھائی کے تئیں ابھی سے ہی بدلاؤ نظر آئے ۔ پہلے سے زیادہ سچائی اور نیکی کی راہ اختیار کرے ۔ رمضان چونکہ رمضان ہے اس لئے اس سے قبل ہی بہتری  کااظہارشروع ہونے لگ جائے ۔ تقوی کے اسباب اپنائے اور خود کو متقی انسان بنانے پہ عبادت کے ذریعہ جہد کرنے کا مخلصانہ جذبہ بیدار کرے ۔ یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اپنے اندر بہتری پیداکرنے کی خوبی اور خاصہ صرف رمضان کے لئے نہیں بلکہ سال بھر کے لئے پیدا کرے ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رمضان کے نمازی ہواکرتے ہیں اور رمضان رخصت ہوتے ہی نماز سے بلکہ یہ کہیں اللہ سے ہی غافل ہوجاتے ہیں ۔اس لئے ابھی سے ہی یہ راہ مہیارہے کہ اچھائی کے لئے بدلاؤ مہینہ بھر کے لئے نہیں سال بھر بلکہ زندگی بھر کے لئے ہو۔ اسی طرح کا بدلاؤ رمضان کے سارے اعمال کو اللہ کے حضور شرف قبولیت سے نوازے گا اورآپ کی اخروی زندگی کو بہتر سے بہترکرے گا ۔
آخری پیغام
رمضان کے استقبال کے لئے کوئی خاص دعا، خاص عبادت  وروزہ یا کوئی مخصوص ومتعین  طریقہ شریعت میں وارد نہیں ہواہے ۔ حدیث میں رمضان کے استقبال میں ایک دو دن پہلے کا روزہ رکھنا منع ہے ۔ لہذا دین میں کسی طرح کی بدعت کے ارتکاب سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔

اللہ تعالی ہمیں رمضان کا بہترین استقبال کرنے ، اس مہینے سے ہرطرح کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے اور رمضان میں بکثرت اعمال صالحہ انجام دینے  کی توفیق دے اور ان اعمال کو آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین


مکمل تحریر >>

Monday, May 30, 2016

بڑے بھائی کا حق حدیث کی تحقیق

بڑے بھائی کا حق حدیث کی تحقیق
==================

مقبول احمد سلفی

ایک روایت آتی ہے جو سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا :بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ایسا ہے جیسا کہ باپ کا حق بیٹے پر۔
اس معنی کی دو روایتیں ہیں ۔
پہلی روایت : حق كبير الإخوة على صغيرهم كحقّ الوالد على ولده " (المراسیل لابی داؤد، بیہقی، مشکوۃ ، جامع صغیر)
دوسری روایت : الأكبر من الإخوة بمنزلة الأب ( بیہقی ، مجمع الزوائد، طبرانی).

پہلی روایت کا حکم :
اس روایت میں محمد بن صائب نام کے راوی ضعیف ہیں۔
٭ اسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں ذکر کیا ہے اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے ۔
٭ عراقی نے کہا اس کی سند ضعیف ہے ۔
٭ ذہبی نے الضعفاء میں اسے ضعیف کہا۔
٭ علامہ البانی نے بھی ضعیف کہا۔ (دیکھیں: ضعيف الجامع:2736، السلسلة الضعيفة:1878،تخريج مشكاة المصابيح:4874)

دوسری روایت کا حکم :
٭ ہیثمی نے کہا اس کی سند میں واقدی نام کا راوی ضعیف ہے ۔(مجمع الزوائد 8/152)
٭ ابن عدی نے الکامل فی الضعفاء میں اسے غیرمحفوظ قرار دیا ہے ۔ (7/482)
٭ البانی صاحب نے اسے موضوع قرار دیا ہے ۔ دیکھیں (السلسلة الضعيفة:3370، ضعيف الجامع:2288)
مکمل تحریر >>

Saturday, May 28, 2016

حدیث "إذا انتصف شعبان فلا تصوموا" کی تحقیق

حدیث "إذا انتصف شعبان فلا تصوموا" کی تحقیق
=================
مقبول احمد سلفی

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ العَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا بَقِيَ نِصْف ٌمِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا»
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو(سنن الترمذي : 738)
ترمذی شریف کی اس روایت " إِذَا بَقِيَ نِصْف ٌمِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا" پر جہاں بعض محدثین نے صحت کا حکم لگایا ہے وہیں ان محدثین سے بھی بڑھ کر علم والے محدثین نے ضعف کا بھی حکم لگایا ہے جن میں عبدالرحمن بن مهدي، أحمد، ابن معين، أبو زرعة، اثرم،ابن الجوزي، ذهبي ،ابن رجب، بیہقی اور طحاوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ہیں۔
حدیث کے ضعیف ( منکر) ہونے کی  تین علتیں ہیں ۔
(1) پہلی علت : علاء کا تفرد ہے ۔اس علت کی طرف ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ بعض محدثین نے کہا کہ یہ روایت مسلم کی شرط پہ ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام مسلم نے ان کی کئی روایات لی ہیں مگر تفرد کی وجہ سے اس روایت کو صحیح مسلم میں جگہ نہیں دی ۔
٭ترمذی ؒنے کہا "حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ" کہ ابوھریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ہم اسے انہیں الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں ۔ (سنن الترمذی 3/106)
٭ابوداؤد ؒنے کہا "وَلَمْ يَجِئ بِهِ غَيرُ العَلَاءِ عَنْ أَبِيْه" کہ علاء عن ابیہ کے علاوہ دوسرے طریق سے نہیں آئی ہے۔ (سنن ابوداؤد 1/713)
٭نسائی ؒنے کہا "لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ" کہ ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس حدیث کو علاء بن عبدالرحمن کے علاوہ طریق سے روایت کیا ہو۔ (السنن الکبری 3/254)

(2) دوسری علت : یہ حدیث صحیح احادیث کے معارض ہے بلکہ صحیحین میں موجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے معارض ہے۔ آپ فرماتی ہیں۔
لَمْ يَكُنِ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ.(متفق عليه )
کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس تعارض کو ان محدثین نے دفع کرنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے ترمذی کی مذکورہ بالا روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔

(3) تیسری علت : گوکہ بعض محدثین نے علاء بن عبدالرحمن کی توثیق کی ہے مگر وہ مطلقا ثقہ نہیں ہیں۔ان سے وہم سرزد ہوجاتا ہے اس وجہ سے وہ متکلم فیہ ہیں۔
ابن معین ؒنے حرج کرتے ہوئے کہا "ليس حديثه بحجة" یعنی ان کی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔ [التهذيب :346/3].
حافظ ابن حجرؒنے تقریب میں کہا "صَدُوقٌ لَهُ أَوْهَامْ" کہ صدوق ہیں مگر ان کے پاس اوہام بھی ہیں۔
منذری ؒنے  ابوداؤد والی روایت پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد نے جو علاء بن عبدالرحمن کی جہت سے منکر کا حکم لگایا ہے اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ علاء کے متعلق اس فن کے علماء نے کلام کیا ہے۔ اس حدیث میں ان سے تفرد واقع ہوا ہے ۔ (مختصر سنن أبي داود (224/3)  مطبوع مع تهذيب السنن

اب اس روایت کے متعلق محدثین کے بعض اقوال ملاحظہ فرمائیں ۔
 (1) خلیلی ؒنے علاء کے متعلق کہا کہ وہ حدیث  " إذَا كَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَان فَلَا تَصُومُوا" میں منفرد ہیں ۔ امام مسلم نے ان کی مشاہیر والی روایات لی ہیں اس شاذ کے علاوہ ۔ (تهذيب التهذيب :8/187)

(2) ابن الجوزیؒ نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ امام مسلم نے علاء سے اپنی صحیح میں بہت سی حدیث لی ہیں اور اس کواور اس جیسی مشابہ کو چھوڑ دیا جن میں علاء عن ابیہ سے تفرد ہوا ہے۔ (الموضوعات : 1/33)

(3) حافظ ابن کثیر ؒ کا کہنا ہے کہ جمہور علماء کہتےہيں کہ : نصف شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنا جائز ہیں ، اوراس کی نہی میں وارد شدہ حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا ہے ، امام احمد اورابن معین کا کہنا ہے کہ یہ منکر ہے ۔بیہقی نے اس باب کی حدیث کو ضعیف کہا ہے اور کہا کہ اس سلسلے میں رخصت ہے کیونکہ علاء سے صحیح حدیث موجود ہے اور اسی طرح اس سے پہلے طحاوی نے بھی کیا ہے۔ (فتح الباری :4/129)

(4) ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام احمد نے اس حدیث کے بارے میں  کہا ہے کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ، ہم نے اس کے بارےمیں عبدالرحمن بن مہدی سے پوچھا توانہوں نے اسے صحیح قرار دیا اورنہ ہی اسے میرے لیےبیان ہی کیا ، بلکہ اس سے بچتے تھے ۔
امام احمد کہتےہیں : علاء ثقہ ہے اس کی احادیث میں سوائے اس حدیث کے انکار نہيں ۔( المغنی)

(5) اثرم نے کہا پوری احادیث اس کے مخالف ہیں۔(لطائف المعارف :142)

(6) ابن رجب نے کہا کہ اس حدیث کی صحت وعمل کے متعلق اختلاف ہے ۔ جنہوں نے تصحیح کی وہ ترمذی، ابن حبان،حاکم،طحاوی اور ابن عبدالبرہیں۔ اور جنہوں نے اس حدیث پر کلام کیا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں ۔ ان لوگوں نے حدیث کو منکر کہا ہے ۔ وہ ہیں عبدالرحمن بن مہدی،امام احمد،ابوزرعہ رازی،اثرم ۔ (لطائف المعارف ص: 135)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث "إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاَ تَصُومُوا" منکر ہے اور اول سے آخر شعبان کے اکثر روزے رکھنا مستحب ہے جیساکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, May 24, 2016

نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا حکم


نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف -مسرہ


بعض حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ پندرہ شعبان کے بعد روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور بعض احادیث نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے پہ دلالت کرتی ہیں جن کی بدولت عام آدمی کو یہ الجھن ہے کہ صحیح موقف کیا ہے  یعنی پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں رکھ سکتے ہیں ؟

پہلے ممانعت والی حدیث دیکھیں :
مختلف کتب احادیث میں الفاظ کے اختلاف کے ساتھ نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت وارد ہے ۔ وہ احادیث باختلاف الفاظ اس طرح ہیں ۔
(1)إذا كان النصف من شعبان فأمسكوا عن الصوم حتى يكون رمضان(أحمد وابن أبي شيبة)
ترجمہ : جب نصف شعبان ہوجائے تو رمضان تک روزہ رکھنے رکھنے سے رک جاؤ۔
(2)إذا انتصف شعبان فلا تصوموا (أبو داود والبيهقي )
ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو روزہ مت رکھو۔
(3)لا صومَ بعدَ النِّصفِ مِن شعبانَ حتَّى يجيءَ شهرُ رمضانَ(ابن حبان)
ترجمہ: نصف شعبان کے بعد کوئی روزہ نہیں یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ آجائے۔
(4)إذا كان النصف من شعبان فأفطروا(ابنِ عديٍّ)
ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو (روزہ چھوڑدو) افطار کرو۔
(5)إذا انتصف شعبان فكفوا عن الصوم( النسائي)
ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو روزہ سے رک جاؤ۔
(6)إذَا مضَى النِّصفُ مِن شعبانَ فأمسِكُوا عنِ الصِّيامِ حتَّى يدخلَ رمضانُ(بیہقی)
ترجمہ: جب نصف شعبان گذرجائے تو روزہ رکھنے سے رک جاؤ یہاں تک کہ رمضان داخل ہوجائے ۔
(7)إذا بقي نصف شعبان فلا تصوموا(الترمذي)
ترجمہ: جب نصف شعبان باقی بچ جائے تو روزہ مت رکھو۔
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ یہ روایات تھیں ۔ اس باب کی روایات کو صحیح بھی قرار دینے والے محدثین ہیں اور ضعیف بھی قرار دینے والے ہیں ۔
صحیح قرار دینے والوں میں حافظ ابن حجر، امام ترمذی ، امام ابن حبان،امام طحاوی ، ابوعوانہ،امام ابن عبدالبر،امام ابن حزم،علامہ احمد شاکر، علامہ البانی ، علامہ ابن باز ، شعیب ارناؤط  اور صاحب تحفۃ الاحوذی وغیرہ ہیں اور ضعیف کہنے والوں میں ابن الجوزی،دارقطنی،ابن عدی، ضیاء مقدسی،سخاوی ، نسائی اور ابن عثیمین وغیرہ ہیں ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان روایات کو غیرمحفوظ کہا ہے اور متعدد جگہوں پر منکر قرار دیا ہے ، ابوداد بحی منکر قرار دیتے ہیں اور ابن رجب نے شاذ اور صحیح حدیث کے خلاف کہا ہے ۔ ان روایات میں نکارت اور علتین پاتی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انہیں منکر کہنا زیادہ مناسب  معلوم ہوتا ہے ۔
اب ان روایات کو دیکھیں جن سے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا جواز نکلتا ہے ۔
پہلی دلیل :
حديث أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم، أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصم ذلك اليوم.(صحيح البخاري:1914)
ترجمہ: رمضان المبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو ، لیکن وہ شخص جوپہلے روزہ رکھتا رہا ہے اسے روزہ رکھ لینا چاہیے ۔
فائدہ : یہ روایت رمضان سے ایک دو دن پہلے یعنی نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے پہ دلالت کرتی ہے۔
دوسری دلیل :
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
فائدہ : اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ پورے شعبان کا نہیں بلکہ شعبان کا تقریبا اکثر روزہ رکھا کرتے تھے ۔ اور اکثر روزہ میں نصف شعبان کا روزہ بھی داخل ہے ۔
تیسری دلیل :
عن عِمرانَ بنِ الحُصَيْنِ أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قال لرجلٍ " هل صُمتَ من سَرَرِ هذا الشهرِ شيئًا ؟ " قال : لا . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ : " فإذا أفطرتَ من رمضانَ ، فصُمْ يومَينِ مكانَه " .(صحيح مسلم:1161)
ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوفرمایا : کیا تو نے اس مہینہ کے آخرمیں کوئي روزہ رکھا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا : نہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تو افطار کرے رمضان سے پس تو اس کی جگہ دو روزے رکھ لے ؟
فائدہ : یہ اصل میں ایک صحابی کو نبی ﷺ نے حکم دیا جن کی عادت ہمیشہ روزہ رکھنے کی تھی یا نذر کا روزہ تھا ۔ شعبان کے آخر میں نہ رکھ سکنے کی وجہ سے بعد رمضان کےبعد اس کو پورا کرنے کا حکم دیا۔
ایک طرف ممانعت والی روایات میں علتیں ہیں تو دوسری طرف جواز والی روایات صحیحین کے ہیں ، اس ناحیہ سے جواز کو ترجیح ملتا ہے اور اگر نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت والی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس بنا پر یہ کہا جائے گا کہ اس ممانعت سے چند لوگ مستثنی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا۔
(2) جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردئے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا۔
(3)اس سے رمضان کی قضاء اور نذر میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
(4) نبی ﷺ کی اتباع میں شعبان کا اکثر روزہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس حال میں کہ رمضان کے روزے کے لئے کمزور نہ ہوجائے ۔
مکمل تحریر >>

Monday, May 23, 2016

بیماری کی وجہ سے اگر ماہانہ روزہ چھوٹ جائے

بیماری کی وجہ سے اگر ماہانہ روزہ چھوٹ جائے

Agar koi Shaksh har mahine ek roza rakhta ho aur wo Shaksh kisi bimari ki wajah is mahine 15 shaban se pahle roza nahi rakh paya ho to keya wo 15 Shaban ke bad roza rakh sakta hai ???

اگر کسی کو مہینے کے اعتبار سے روزہ رکھنا ہو تو ایک روزہ نہیں بلکہ تین روزہ رکھنا چاہئے جسے ایام بیض کہتے ہیں ۔ اور وہ 13،14،اور 15 کا روزہ ہے ۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : أوصاني خليلي بثلاث لا أدعهن حتى أموت : صوم ثلاثة أيام من كل شهر ، وصلاة الضحى ، ونوم على وتر . (رواه البخاري:1124ومسلم:721) .
ترجمہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے تين چيزوں كى وصيت فرمائى، كہ موت تک ان پر عمل كرتا رہوں، ہر ماہ تين روزے ركھنا، چاشت كى نماز ادا كرنا اور وتر ادا كركے سونا۔

اگر ایام بیض کا روزہ رکھنے والا آدمی کسی مہینے کی تیسرہ چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ نہ رکھ سکے تو مہینے کے آخر میں رکھ لے ۔
ہاں اگر ایک روزہ رکھنا ہو تو ہفتے والا روزہ رکھا جاسکتا ہے جو کہ سوموار اور جمعرات کا ہے ۔ چاہے تو ان میں سے ایک بھی رکھ سکتا ہے اور چاہے تو ہفتہ واری ان دونوں روزہ کا اہتمام کرے ۔

واللہ اعلم

مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Thursday, May 19, 2016

حدیث : بچوں کی پانچ عادتیں محبوب؟

حدیث : بچوں کی پانچ عادتیں محبوب؟
================
مقبول احمد سلفی


لوگوں میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ نبی ﷺ کو بچوں کی پانچ عادتیں محبوب تھیں۔
روایت کا متن اس طرح سے ہے :
إنِّي‌ أُحِبُّ مِنَ الصِّبْيَانِ خَمْسَةَ خِصَالٍ: الاَوَّلُ أَنَّهُمْ البَاكُونَ، الثَّانِي‌: عَلَي‌ التُّرَابِ يَجْتَمِعُونَ، الثَّالِثُ: يَخْتَصِمُونَ مِنْ غَيْرِ حِقْدٍ، الرَّابِـعُ: لاَ يَدَّخِرُونَ لِغَدٍ، الخَامِسُ: يَعْمُرُونَ ثُمَّ يُخْرِبُونَ.
مفہوم روایت :
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے بچوں کی پانچ عادتیں بہت پسند ہیں۔
(1)وہ رو کر مانگتے ہیں اور اپنی بات منوالیتے ہیں۔
(2)وہ مٹی سے کھیلتے ہیں اور غرور تکبر خاک میں ملادیتے ہیں۔
(3)جو مل جائے کھا لیتے ہیں زیادہ جمع یا ذخیرہ کرنے کی ہوس نہیں رکھتے
(4)لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں اور پھر صلح کرلیتے ہیں یعنی دل میں حسد ، بغض اور کینہ نہیں رکھتے۔
(5)مٹی کے گھر بناتے ہیں۔ کھیل کر گرادیتے ہیں یعنی وہ بتاتے ہیں کہ یہ دنیا باقی رہنے والی نہیں بلکہ ختم ہوجانے والی ہے۔
یہ بات حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے یہاں تک کہ ضعیف و موضوع میں بھی نہیں ۔ تب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کہاں سے لوگوں میں مشہور ہوگئی ؟
میں اس کا بہت پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ یہ بات شیعہ کی کتاب میں موجود ہے وہ لوگ اسے نبی ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرتے ہیں جبکہ نبی ﷺ سے ایسی بات ثابت نہیں ہے ۔
یہ بات مشہور شیعہ عالم سید نعمت اللہ جزائزی جو کہ شیعہ کے درمیان سید جزائری سے معروف ہے اس کی کتاب زَهْرُ الرَّبيع میں صفحہ 259 پہ مذکورہے ۔ پھر وہاں سے دیگر شیعہ کتب میں نقل کی گئی ۔ یہاں تک کہ شوسل میڈیا ٹویٹر، فیس بوک وغیرہ کی شیعہ آئی ذیز پہ بھی خوب نشر کی گئی ہے ۔


اللہ کی پناہ


مکمل تحریر >>

Wednesday, May 18, 2016

منشیات شرعی وطبی نقطہ نظرسے

منشیات شرعی وطبی نقطہ نظرسے

مقبول احمد سلفی
دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف(مسرہ) سعودی عرب

مذاہب عالم میں فوقیت وبرتری کا حامل دین صرف اسلام ہے جس میں شعبہائے حیات کے تمام ترپہلوؤں کو واشگاف کیا گیا ہے اور انسان کے لئے مہلک ترین عناصر کی طرف واضح اشارات کردئے گئے ہیں جو ایک عام ذہن کے لئے بھی قابل قبول ہے۔
انسانی زندگی کو متاثر اور بدترین نتیجہ خیز دہانے تک پہنچانے والے عناصر میں منشیات کا غیرمعمولی دخل ہے ۔یہ بنی  نوع آدم کے لئے سراپا سوہان روح ہے ۔ اس کے تلخ تجربات ومشاہدات کا دنیا کو اچھی طرح سے اندازہ ہوچکا ہے ۔ اس نے کتنے انسانوں کی خوشگوار شام پر آہ وزاری کی برسات کردی ، کتنے آباد گھروں میں ویرانی کا سماں پیدا کردیا، کتنے مہکتے پھولوں کومرجھاکرگلستاں کی شادابی ودلکشی پر اپنی سیاہ نشانیاں چھوڑ دی ۔ مذہب اسلام کا حتمی فیصلہ ہے کہ جن باتوں سے بھی اسلام اور مسلمانوں پہ حرف آتا ہواسے ممانعت کے دائرے میں رکھاہے۔ چونکہ منشیات سے انسانی جسم وروح کے لئے بگاڑ وفساد کا سبب بنتا ہے بلکہ بسااوقات آدمی کی جان بھی چلی جاتی ہے اس بناپر منشیات کا استعمال شریعت کی رو سے حرام ہے ۔
منشیات کا دائرہ کار:
منشیات یہ نشہ سے مشتق ہے جس کے لئے عربی زبان میں "خمر" کا لفظ عام طور سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خمر کی وضاحت بایں الفاظ کی ہے :
والخمرُ ما خامر العقلَ .(صحيح البخاري: 5581و صحيح مسلم:3032)
 یعنی خمر کا اطلاق ہرنشہ آورچیز پر ہوتا ہے ۔ اس کی تائید مسلم شریف کی ایک اور روایت سے ہوتی ہے ۔
 كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ خَمرٍ حرامٌ(صحيح مسلم:2003)
 کہ ہرنشہ آور چیز خمر کہلاتی ہے اور ہرقسم کا خمر حرام کردیا گیا ہے ۔
یہاں یہ اعتراض پیدا کرنا بے جاہوگاکہ گرکم مقدار میں نشہ والی اشیاء استعمال کرنے سے نشہ نہ پیدا ہونے پر اتنی مقدار پیناجائز ٹھہرے گا۔اس اعتراض کی گنجائش بایں طور نہیں ہے کہ نشہ کے سلسلے میں اسلام کا دوسر ا اصول یہ ہے ۔
ما أسكرَ كثيرُهُ ، فقليلُهُ حرامٌ(صحيح الترمذي:1865)
 جس کا زیادہ حصہ نشہ آور اور مفترہواس کا کم مقدار میں بھی استعمال کرنا حرام ہے ۔
مذکورہ تعریف کو اصول بنانے سے منشیات کے زمرے میں شراب، تمباکو،بیڑی،سگریٹ،گل،گٹکھا،گانجہ،بھنگ،چرس،کوکین، حقہ،افیم ،ہیروئین،وہسکی،سیمپین،بئر،ایل ایس ڈی،حشیش  اورمخدارت کی تمام اشیاء شامل ہیں۔
منشیات شریعت کی رو سے :
قرآن کریم کا ایک بڑا معجزہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ کم ہوتے ہیں مگر اپنے اندر بہت سارے معانی پوشیدہ رکھتے ہیں۔منشیات کے تعلق سے قرآن کریم میں "خمر"کا استعمال حکمت عملی سے کم نہیں جس نے قیامت تک پیدا ہونے والی ساری نشہ آور چیزوں کو حرمت میں شامل کرلیااور کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہ چھوڑی کہ شراب کے لئے حرمت ثابت ہے مگر بیڑی سگریٹ گٹکھا وغیرہ کے لئے حرمت منصوص نہیں۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدة:90)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں۔اان سے بالکل الگ رہوتاکہ تم فلاح یاب ہو۔
یہ آیت کریمہ منشیات کی ساری قسموں کو حرام ٹھہرانے کے لئے کافی ہے اور اس آیت سے علماء وفقہاء کی ایک جماعت نےچودہ طریقوں سے منشیات کی حرمت ثابت کیاہے ۔مثلا
(1) منشیات کے لئےرجس کا لفظ استعمال کیاگیااور ہرقسم کے "رجس" (گندی) چیز کا استعمال اسلام میں حرام ہے۔
(2) منشیات کو شیطانی عمل قرار دیا گیااور ہرشیطانی عمل حرام ہے۔
(3) منشیات سے اجتناب کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اجتناب اسی چیز سے کیاجاتا ہے جو شریعت کی نظرمیں حرام ہو۔
(4) فلاح کا انحصارترک منشیات پر ہےگویا منشیات کا استعمال حرام ہےورنہ فلاح کو ترک منشیات پہ موقوف نہ کیا جاتا۔ وغیرہ
نشہ کی حالت اسلام کی نظر میں اتنا مبغوض ہے کہ راس العباد(نماز) سے نشہ باز کوروک دیاگیاچنانچہ قرآن حکیم میں وارد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ(النساء :43)
ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہونماز کے قریب بھی نہ جاؤجب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔
اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ضرررساں اشیاء کو حرام ٹھہرانے میں غیرواضح الفاظ کا استعمال نہیں کرتاتاکہ مکلفین اعمال اس کے استعمال اورترک کے متعلق تردد میں رہے گرچہ ان ضرررساں اشیاء میں کچھ فائدہ کیوں نہ پوشیدہ ہو۔گویا اسلام نے خالص مفید اور بارآوراشیاء کو حلال ٹھہرایاہے اسی نکتہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ(البقرة:219)
ترجمہ: لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے ۔
حدیث کے شہ پاروں میں بھی منشیات کی حرمت کے بےشمار دلائل ہیں۔مثلا منشیات کو "مسکر" کہکراس کی حرمت کا اعلان کیا۔
 كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ مُسكِرٍ حَرامٌ(صحيح مسلم:2003)
ترجمہ: ہرنشہ آورچیز خمرہےاور ہرنشہ والی چیز حرام ہے ۔
اسی طرح مسلم کی دوسر ی روایت میں ہے ۔
ولا تشرَبوا مُسْكِرًا( صحيح مسلم:977)
ترجمہ:اور نشہ آورچیز کا استعمال مت کرو۔
آدمی جب بیماری سے دوچارہوتا ہے تو اپنے آپ کو موت کی دہلیز پرمحسوس کرتا ہے یعنی ہرآن اسے موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے ۔مریض اوراس کے رشتے دار کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو شفا مل جائے اور جب اضطراری حالت درپیش ہو اور خنزیر کی حاجت پڑجائے تو اسلام نے اس کی اجازت دی ہے پرموت وحیات کی کشمکش میں منشیات سے جان بچانے کی قطعی اجازت نہیں۔ایک صحابی طارق بن سوید الجعفی رضی اللہ عنہ نے شراب کو بطوردوا استعمال کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی تو آپ نے ان سے فرمایا:
إنه ليس بدواءٍ . ولكنه داءٌ (صحيح مسلم:1984)
کہ شراب دوا تو نہیں ہے مگر بیماری ضرور ہے یعنی یہ بیماری کا سبب بنتی ہے ۔ نشہ باز کے لئے بڑی سخت وعید یں ہیں ۔نشہ باز کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ یُقْبَلِ لَہُ صَلَاۃُ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَإِنْ عَادَ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلَاۃَ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَإِنْ عَادَ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلَاۃَ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَإِنْ عَادَ الرَّابِعَۃَ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلَاۃَ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ لَمْ یَتُبِ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَقَاہُ مِنْ نَھْرِ الْخَبَالِ۔ قِیْلَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمَا نَھْرُ الْخَبَالِ؟ قَالَ: نَھْرٌ مِنْ صَدِیْدِ أَھْلِ النَّارِ۔(صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۵۱۷)
ترجمہ : '' جس نے شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں کرتا اور اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اگر دوبارہ لوٹا (شراب پی) تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں فرماتا اور اگر توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور اگر (تیسری مرتبہ) پھر لوٹا تو اللہ تعالیٰ پھر اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں فرماتا اور اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرلیتا ہے اور اگر چوتھی مرتبہ لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں فرماتا اور اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول نہیں فرماتا اور اسے نہر الخبال سے پلائے گا۔ کہا گیا: اے ابو عبدالرحمن! (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) نہر خبال کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جہنمیوں کی پیپ کی نہر ہے۔ ''
ایک دوسری روایت میں ہے '' جس نے شراب پی ،اللہ تعالیٰ اس سے چالیس راتیں راضی نہیں ہوتا ۔اگر وہ (اسی حالت میں) مرگیا تو کفر کی موت مرا اور اگر توبہ کرلی تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اگر دوبارہ یہ حرکت کی (شراب پی) تو اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اسے طینۃ الخبال سے پلائے۔ سیّدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! طینۃ الخبال کیا چیز ہے؟ فرمایا: جہنمیوں کی پیپ ہے۔ ''
( مسند احمد ح 27475) اس کی سند جید ہے ۔
 شراب نوشی سی ایمان نکل جاتا ہے ۔
لا يزني الزَّاني حينَ يزني وهوَ مؤمِنٌ ولا يسرقُ السَّارقُ حينَ يسرقُ وهوَ مؤمنٌ ولا يشرَبُ الخمرَ حين يشربُها وهوَ مؤمنٌ (صحيح مسلم:57)
ترجمہ: زانی جب زنا کررہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اورچوری کے وقت چورمومن نہیں رہتا اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ بھی اس وقت مومن نہیں ہوتا ۔
نشہ کی حرمت پہ تمام مکاتب فکر کے علماء کا اتفا ق ہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب میں بھی اس کی تباہ کاری کا تذکرہ ملتا ہے ۔ سائنسداں سے لیکر سبھی اطباء اس کو جسم کے لئے نقصان دہ بتلاتے ہیں۔ نشہ والی چیزوں کے پیکٹ پہ اس کی ہلاکت خیزی کا انتباہ ضرور ہوتا ہے جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ نشہ باتفاق مذاہب عالم ضرررساں ہے اس لئے اس کے حرام ہونے میں کوئی تردد نہیں ۔
ایک شبہ کا ازالہ :
مجھے اس بات پہ حیرت ہے کہ تمام اطباء منشیات کی ساری قسموں کو جسم کے لئے نقصان دہ بتلاتے ہیں جبکہ کچھ نشہ خور مولوی گل منجن،سورتی ،زردہ اور بیڑی سگریٹ وغیرہ کو جائز بتلاکر اپنے لئے نشہ خوری کی حلت کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔اس حال میں کہ قرآن وحدیث کے نصوص سے اس کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔علمائے اسلام نے نام لے لے کرمزید اس کو واضح کیا۔اس کے باجود بعض منشیات کی حرمت کا انکار کرنے والے کم علمی کے شکار یا نشہ خوری کو شہ دینے کی خاطر یہ حربہ اپنائے ہوئے ہیں۔ منشیات کو جہاں شیطانی کام قرار دیا گیا وہیں اسےرجس یعنی خبیث چیز بھی کہاگیا اور قرآن کی ایک دوسری آیت سے ہرخبیث چیز کو حرام کردیا گیا ہے ۔
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ(الاعراف : 157)
ترجمہ: اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں۔
اسی طرح یہ فضول خرچی کا بھی باعث ہے اور فضول خرچی پہ کوئی کلام ہی نہیں۔
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا (الاسراء :29)
ترجمہ: اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ ار نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے ۔
منشیات کی حرمت کے مصالح :
کسی بھی چیز کے استعمال یا ترک کے کچھ مصالح ہوا کرتے ہیں اور منشیات کی حرمت کے لئے جو مصلحتیں ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) نشہ ایک طرح کا اندھا پن ہے ،اس حالت میں آدمی قتل کا ارتکاب کرسکتا ہے اس لئےانسانی جان کے تحفظ کی خاطرقتل تک پہنچانے والے ذریعہ کا سد باب کیا گیا۔
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ(المائدہ: 32)
ترجمہ: جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہویا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیااور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا۔
 (2) عزت وآبرو اور مال ودولت کا تحفظ اسلام کی اساسی تعلیمات میں سے ہے اور نشہ کی حالت میں کوئی بعید نہیں کہ اسلام کی اساسی تعلیم پر آنچ آجائے ۔ اس بناپر نشہ کو حرام قراردیا گیا۔
كلُّ المسلمِ علَى المسلمِ حرامٌ ، دمُهُ ، ومالُهُ ، وَعِرْضُهُ( صحيح مسلم:2564)
ترجمہ: ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
 (3) نشہ کے عالم میں آدمی خودکشی جیساسنگین جرم کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے جوشریعت کی نظر میں حرام ہے ۔
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ (البقرۃ:195)
ترجمہ : اپنا ہاتھ ہلاکت میں مت ڈالو۔
 (4) اس حالت میں نشہ باز کے اندر دوسرے آدمی کے لئے عداوت ودشمنی کی آگ بھڑک سکتی ہے جو آپس میں ایک دوسرے لئے خون خرابے کا باعث ہے ۔
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ (المائدۃ:91)
ترجمہ: شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرادے اور اللہ تعالی کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔
منشیات طب کی روشنی میں :
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اور اس کے اندر حرف حرف  سچائی ہے ۔ اسلام نے جس چیز کو حرام کہہ دیا وہ انسانیت کے لئے بلاشک  نقصان دہ  ہوگا اور ایک مسلمان کے لئے اسلام کی حرمت کے بعد کسی دوسرے مذہب یا طبقہ سے حرمت کی تائید کرنے کی کوئی ضرروت نہیں ۔ہمارے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حلال کردہ حلال اور حرام کردہ حرام کافی شافی ہے ۔ پھر بھی برسبیل تذکرہ ہم یہ بتادیتے ہیں کہ طب کی روشنی میں بھی منشیات کے بے شمار نقصانات سامنے آئے ہیں جو شمار سے باہر ہیں ۔
منشیات سے پیدا ہونے والے امراض :
منشیات کی حقیقت کا اندازہ اس امر سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے سیکڑوں امراض پیدا ہوتے ہیں جو انسانیت کے لئے سم قاتل ہے ۔ شراب، تمباکو،بیڑی، سگریٹ،گٹکھا،گانجہ،چرس وغیرہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں حلق کی خرابی،جگرکی خرابی،امراض قلب،اسقاط حمل، قلت عمر،زخم معدہ،خون فاسد،تنفس کی خرابی،ہچکی،کھانسی،پھپھڑوں کی سوجن،کینسر،سردرد، بے خوابی،دیوانگی، ضعف اعصاب،فالج،مراق،ہارٹ اٹیک،ضعف بصارت،دمہ، ٹی وی،سل، خفقان،ضعف باہ،بواسیر،دائمی قبض،گردے کی خرابی،ذیابطیش وغیرہ اہم بیماریاں ہیں ۔ ان میں بعض ایسی بیماریاں ہیں جن ک انجام سرعت موت ہے ۔ اطباء کے قول کی روشنی میں تمباکو میں تین خطرناک قسم کے زہریلے اجزاء کی ملاوٹ ہوتی ہے ۔ ان اجزاء میں ایک روغنی اجزاء سے بناہوا نیکوٹین ہے ۔اگر اس روغن کو نکال کراس کا صرف ایک قطرہ کتے ،بلی یا کسی بھی جانور کو کھلایا جائے تو فورا وہ موت کے منہ میں چلا جائے گا۔
مذکورہ بیانات کی روشنی میں بالبداہت منشیات کی حرمت کا اندازہ ہوجاتا ہے لہذا اس حقیقت کا انکار کرنا ویسے ہی ہے جیسے سورج چاند ستارے کا انکار کرنا۔  


مکمل تحریر >>