Wednesday, April 27, 2016

حوروں سے جماع

حوروں سے جماع
=================

مقبول احمد سلفی

متعدد نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ جنت کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مردوں کو اللہ تعالی حوروں سے شادی کرادے گا اور اہل جنت ان سے جماع کریں گے ۔
(1) اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ( الطور:20)
ترجمہ: اور ہم نے ان کے نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی (حوروں) سے کردئے ہیں۔

(2)ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ (يسين:55)
ترجمہ: جنتی لوگ آج کے دل اپنے (دلچسپ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہوں گے ۔


یہاں جنتی کے مشغلوں سے مراد کنواریوں کے پاس جانا ہے ۔

(3) ادخُلُوا الجَنَّةَ أَنتُم وَأَزوٰجُكُم تُحبَر‌ونَ ﴿الزخرف:70)
ترجمہ :تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

اسی طرح نبی ﷺ کے متعدد فرامین سے بھی یہ بات واضح ہے کہ اہل جنت حوروں سے جماع کریں گے ۔
(1) مسلم شریف کی حدیث ہے : وما في الجنةِ أعزبُ(صحیح مسلم :2834)
یعنی جنت میں کوئی بغیر جوڑے کے نہ ہوگا۔

(2) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس یہودی آئے اور پوچھا:اے ابا القاسم آپ کا یہ گمان ہے کہ جنت میں لوگ کھائیں اور پیئیں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نعَم ؛ والَّذي نَفسُ مُحمَّدٍ بيدِه ، إنَّ أحدَهم ليُعْطَى قوَّةَ مئةِ رجُلٍ ؛ في الأكلِ والشُّربِ والجِماعِ (صحيح الترغيب:3739)
ترجمہ :ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جنتی مردوں میں سے ہر ایک کو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے میں ایک سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔

(3)نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ أهْلَ الجنةِ إذا جَامَعُوا نِساءَهُمْ عادُوا أبْكارًا(صحيح الجامع:3351)
ترجمہ: جنتی جب اپنی بیویوں سے صحبت کرلیں گے تووہ پھرسے وہ کنواری (جیسی) ہوجائیگی۔

(4) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قِيلَ لَهُ : " أَنَطَأُ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، دَحْمًا دَحْمًا، فَإِذَا قَامَ عَنْهَا رَجَعَتْ مُطَهَّرَةً بكرا(السلسلة الصحيحة:3351)
ترجمہ : حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم جنت میں جماع بھی کریں گے ؟ توآپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ہاں !قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے خوب جوش سے صحبت کریں گے ، جب کھڑے ہوں گے تو وہ(حورآپ خود) پاک اور باکرہ ہوجائے گی۔


اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں جنت نصیب کرے ۔ آمین 
مکمل تحریر >>

بغیرولی کی شادی اور اس سے بچہ بچے کا حکم

بغیرولی کی شادی اور اس سے بچہ بچے کا حکم 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ۔ ایک شخص نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ۔ اور اس کی اولاد ہوگئی۔ نکاح اور اولاد سے متعلق شرعی نقطہ نظر سے رہنمائی فرمائیں۔
سائل۔شیخ منظور حسن۔کرلا

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد لله :
لڑکے کے لئے ولی کی شرط نہیں ہے ،لیکن لڑکی بغیرولی کی اجازت کے شادی نہیں کرسکتی ۔اگر بغیرولی کی اجازت کے شادی کرتی ہے تو وہ نکاح باطل ہے ۔ شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ" نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :
أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے.
حدیث کی روشنی میں ثابت ہواکہ مذکورہ شادی صحیح نہیں ہے اس لئے دونوں کے درمیان تفریق کی جائے اور پھرسے ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح پڑھایاجائے گا۔
اس نکاح سے پیداشدہ بچے باپ کی طرف منسوب ہوں گے کیونکہ نکاح کی وجہ سے مجامعت کا شبہ تھا اور یہ بچہ اسی شبہے والی مجامعت کا نتیجہ ہے۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Tuesday, April 26, 2016

بھارت ماتا کی جے بولنا کیسا ہے؟

بھارت ماتا کی جے بولنا کیسا ہے؟
===================
مقبول احمد سلفی


"بھارت ماتا کی جے" جیسے لگتا ہے ہندوستان زندہ باد کا نعرہ ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔
اس نعرے میں تین الفاظ ہیں ۔
پہلا لفظ : بھارت زمین کے معنی میں
دوسرا لفظ : ماتا بھگوان کے معنی میں
تیسرا لفظ : جے رب اور نعرہ کے معنی میں
ہندؤں کے عقیدے کے مطابق زمین بھی اس کے یہاں معبود ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے ۔ ہندو مانتے ہیں کہ زمین ہمارا معبود ہے ۔ یہ ہمیں کھانا دیتی ہے ، رہنے کے لئے جگہ دیتی ہے بلکہ دنیا میں جتنی چیزیں دکھتی ہیں سب اسی کی دین ہے ۔ اس عقیدے کے طور پہ ہندؤں کے یہاں "تھرتی ماتا"کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ بھارت ماتا اسی دھرتی ماتا کا متبادل لفظ ہے ۔ گویا لفظ ماتا ان کے یہاں معبود کی اصطلاح ہے مثلا گئوماتا، کالی ماتا اور درگا ماتا وغیرہ
وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے میں معنوی یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ وندے ماترم کا معنی ہے " اے ماں! ہم تیرے پجاری ہیں"۔ اس سے خطاب زمین کو ہوتا ہے۔یہی معنی ومفہوم بھارت ماتا کی جے سے نکلتاہے ۔
اسلامی عقیدے کی روشنی میں زمین مخلوق ہے اور اس کا خالق اللہ تعالی ہے ۔ ہم مسلمان مخلوق کو خالق کے درجہ کبھی بھی نہیں دے سکتے ۔ بے شک ہم مسلمان ہندوستان زندہ باد کے نعرہ لگاسکتے ہیں ، ہمارے بھی دل میں وطن سے محبت ہے اور اس کا اظہارہمیشہ سے کئے اور کرتے رہیں گے ۔ اسی حب الوطنی کے جذبے سے بے مثال قربانی کے ذریعہ ہم نے انگریزوں کے قبضے سے وطن آزاد کرایا۔ لیکن ہم مسلمان اپنی زبان پہ شرک و کفرپہ مشتمل الفاظ کبھی نہیں لاسکتے ہیں اس کے لئے ہمیں جو بھی برداشت کرنا پڑے منظور و گوارا ہے ۔


ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا




مکمل تحریر >>

Monday, April 25, 2016

عورتوں کا چوڑی دار لباس پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہےاور مرد کا کیا حکم ہے؟

عورتوں کا چوڑی دارلباس پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہےاور مرد کا کیا حکم ہے؟
========================
عورت ہو یا مرد ان کا لباس صرف نماز ہی نہیں عام حالات میں بھی ڈھیلا ڈھالاہوناچاہئے اور جب نماز پڑھ رہے ہوں تو اس کی مزید اہمیت بڑھ جاتی تاکہ آسانی سے نماز کے ارکان ادا کرسکیں۔
چست یا چوڑی دار لباس مرد سے زیادہ عورت کے لئے فتنے کا باعث ہے لہذا عورت کو خاص طورسے فتنہ کے اس سبب سے بچنا چاہئے ۔
نماز میں سترڈھالنا واجب ہے ، اگر ستر ڈھانپاہواہے تو چوڑی دار کپڑے میں بھی نماز صحیح ہے مگر واضح رہے عورت ہو یا مرد ساتر اور ڈھیلالباس استعمال کرے ۔


واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

طلاق والی عورت کی عدت

طلاق والی عورت کی عدت 
Assala mo Alaikum shaikh ek sawal hai
Ek Aourat hai jin ka Apne Sauhar se Talaq hua hai Ab wo dusri shadi karna chahti hai to kia masla hoga un ke iddat ka kitne din iddat guzare gi Aour kitne din bad shadi karegi woh Aourat dusre Shaks se
Jawab quran wa hadeth ki roshni me de dijiye shaikg bht meharbani hogi..

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس کی عدت تین حیض ہے (اگرحاملہ نہیں)جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَالمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ (بقرہ:228)
ترجمہ: اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین حیض کی مدت اپنے آپ کو روکے رکھیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ کو طلاق کے بعد عدت کے تین حیض گزارنے کا حکم دیا{ سنن ابن ماجہ } ۔
یہ تین حیض خواہ تین مہینہ میں آئیں یا اس سے کم اور زیادہ مدت میں ،اعتبار حیض کا ہوگا۔
بہرکیف عدت گذرنے کے بعد وہ عورت دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے ۔


واللہ اعلم


مکمل تحریر >>

جھوٹ و غیبت کرنے اور لوڈو کھیلنے والے امام کے پیچھے نماز

جھوٹ و غیبت کرنے اور لوڈو کھیلنے والے امام کے پیچھے نماز
=====================
جھوٹ بولنے، کثرت سے تاش لوڈو کھیلنےاورغیبت کر نے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے کہ نہیں۔ اگر ہم ایسے لوگوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں توکیا ہماری نماز ہوجائے گی؟

ایسے آدمی کو مستقل امام بناناچاہئے جو نماز کے احکام کے ساتھ شریعت کا علم رکھتا ہو اور اس پہ عمل کرنے والا ہو، نیز قرآن بھی زیادہ اور اچھی طرح یاد ہو۔ ایسی خوبیوں والا امام جھوٹ، لوڈو اور غیبت سے دور رہے گا۔
اگر ایسے امام کے پیچھے کبھی کسی نے نماز پڑھ لی تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے ، اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں ساتھ ہی اگراس امام کی مستقل یہی حرکت رہی تو اسے معزول کرکے نیک امام کا انتخاب کرنا چاہئے ۔

کتبہ
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Sunday, April 24, 2016

کیا ماں اپنے بچے کو دودھ نہ پلانے سے گناہگارہوگی؟

کیا ماں اپنے بچے کو دودھ نہ پلانے سے گناہگارہوگی؟
=====================
مقبول احمد سلفی

یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے عوام طبقہ کم ہی جانتاہے ۔ بچے کو جب دودھ پینے کی ضرورت ہو تو اسے دودھ پلانا واجب ہے مگر یہ دودھ پلانا جوکہ نفقہ کے درجے میں ہے ماں کے ذمہ نہیں بلکہ باپ کے ذمہ ہے ۔باپ کے اوپر بچے کی پیدائش سے لیکر بلوغت تک نفقہ واجب ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(البقرة:233)
ترجمہ : اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو۔
٭ یہاں مولود لہ سے مراد باپ ہے ۔(دیکھیں :تفسیراحسن البیان )
زمانے سے شیرخواری کا پیشہ چلاآرہاتھا ، دوسری عورتیں بچوں کواجرت پہ دودھ پلاتی تھیں ، نبیﷺ کو حلیمہ نے دودھ پلایااور اسی سبب شریعت میں رضاعت کے احکام ملتے ہیں جبکہ آجکل یہ دستور ختم ساہوگیاہے۔ماں کا دودھ اپنے بچے کے لئے زیادہ مفیدہے اس بناپرعورت کو چاہئے کہ خود ہی بچے کو دودھ پلائے ۔ اللہ تعالی نے ایسا حکم بھی دیا ہے :
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ(البقرة:233)
ترجمہ: مائیں اپنی اولاد کو دوسال کامل دودھ پلائیں ۔
اس کام کے لئے عورت چاہے تو شوہر سے معاوضہ وصول کرسکتی ہے۔ ہاں دوحالتیں ایسی ہیں جن میں ماں کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے ۔
پہلی حالت : اس بچے کو کوئی دوسرا دودھ پلانے والا نہ ہو۔
دوسری حالت : کسی دوسری عورت کا دودھ قبول نہ کرتاہو۔
اگر ان حالات میں ماں نے اپنے بچے کو دودھ نہیں پلایا تو وہ گنہگار ہوگی ، یہی معنی صحیح ابن خزیمہ کی روایت کا ہے :
معراج سے متعلق لمبی سی حدیث کا ٹکرا ہے :
فإذا أنا بنساءٍ تنهشُ ثديَهُنَّ الحيَّاتُ . قلتُ : ما بالُ هؤلاءِ ؟ قيلَ : هؤلاءِ يمنعَنَ أولادَهنَّ ألبانَهنَّ (صحيح الترغيب:2393)
ترجمہ : پس آپ نے عورتوں کو دیکھا جن کی چھاتیوں کو سانپ نوچ رہے تھے ، میں نے کہا: ان کا کیا ماجراہے ؟ تو جواب دیا گیا۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں۔
٭ اس حدیث کو ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور صحیح قرار دیا ہے ، امام ذہبی نے اسے مسلم کی شرط پہ کہا ہے ۔ علامہ البانی اور ارناؤط نے بھی صحیح قرار دیا ہے ۔
جو عورت دوسری مرضعہ کے نہ ملنے یا کسی دوسری عورت کے پستان سے دودھ قبول نہ کرنے کی صورت میں اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کرتی ہے وہ گنہگار ہونے کے ساتھ قساوت قلبی کا شکار ہے ۔ ایسے سخت دلوں کے متعلق اللہ کا فرمان ہے :
فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ(الزمر:22)
ترجمہ : اور ہلاکت ہے ان پر جن کے دل یاد الہی سے (اثرنہیں لیتے بلکہ) سخت ہوگئے ہیں۔یہ وہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔
آج کل بازار سے بچوں کا دودھ لانا عام ہوگیا ہے ایسی عورتوں کو نصیحت کرتاہوں کہ چاہے شوہر کچھ دے یا نہ دے بچے کی اچھی صحت اور محبت پیداکرنے کے لئے اپنا دودھ پلائیں ، ان کا مستقبل بہترین ہوگا۔


مکمل تحریر >>

نبی ﷺ پردرود وسلام اور ان کے مسائل

نبی ﷺ پردرود وسلام اور ان کے مسائل
====================
مقبول احمد سلفی

نبی ﷺ پہ درودوسلام کے تعلق سے لوگوں میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اس وجہ سےمیں مختصرا اس پہ روشنی ڈالنا مناسب سمجھتاہوں ۔
(1) نبی ﷺ پہ درود پڑھنے کا حکم: نبی ﷺ کے حقوق میں سے اطاعت ومحبت کے علاوہ آپ پر درودوسلام پڑھنا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کاحکم فرمایاہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا (الاحزاب: 56)
ترجمہ: بے شک میں (اللہ) اور میرے فرشتے درود اور سلام نبی پر بھیجتے ہیں۔اے ایمان والوں تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ درود وسلام بھیجو۔

(2) درود وسلام میں فرق:
درود یہ ہے : اللهم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید۔اللهم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید۔
سلام یہ ہے : السلام علیک ایهاالنبی و رحمة الله و برکاته
اللہ کے درود کا مطلب فرشتوں میں نبی ﷺ کی تعریف کرنا، فرشتوں کے درود کا مطلب نبی ﷺ کے حق میں رحمت وبرکت کی دعاکرنا اور انسانوں کے درود کا مطلب نبی ﷺ کےلئے رحمت وبرکت اور مغفرت کی دعا کرنا ہے ۔ اور لفظ سلام تو معروف ہے سلامتی کی دعا کرنا۔

(3) درود کی فضیلت :
چند احادیث ،،،،
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟ فَقَالَ : مَا شِئْتَ . قَالَ قُلْتُ الرُبُعَ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قُلْتُ النِّصْفَ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قَالَ قُلْتُ فَالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قُلْتُ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا ؟ قَالَ : إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ .(صحیح الترغیب:1670)
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔

فمَنْ كان أكثرَهُمْ عليَّ صَلاةً ، كان أَقْرَبَهُمْ مِنِّي مَنْزِلَةً ( صحيح الترغيب:1673)
ترجمہ: قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔

من صلَّى عليَّ واحدةً ، صلَّى اللهُ عليه عشرَ صلواتٍ ، و حطَّ عنه عشرَ خطيئاتٍ ، و رفعَ له عشرَ درجاتٍ(صحيح الجامع:6359)
ترجمہ: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔
اس کے برعکس جو نبی ﷺ کا نام آنے پردرود نہیں پڑھتا اسے بخیل کہا گیا ہے ۔
البخيلُ الَّذي مَن ذُكِرتُ عندَهُ فلم يصلِّ عليَّ(صحيح الترمذي:3546)
ترجمہ: بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اس نے مجھ پہ درود نہ پڑھا۔
بخاری کی حدیث میں ذکر ہے جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ نام کا سننے پہ درود نہ پڑھنے والوں کے حق میں بددعا کی تو آپ ﷺ نے منبر پہ آمین کہی ۔

(4) درود وسلام کے افضل صیغے :
ابن ابی لیلہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے کعب بن عجرہ نے ملاقات کی اور کہا کیا میں تمہیں ہدیہ نہ کروں : رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا کہ سلام کیسے کریں ہمیں معلوم ہوگیا مگر آپ پر درود کیسے بھیجیں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرماہا: تم کہو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ(بخاري:3119 و مسلم :614)
تفصیل کے لئے علامہ البانی کی صفۃ صلاۃ النبی دیکھیں ۔

(5) درود کے ساتھ سلام پڑھنا: نبی ﷺ پہ درود بھیجتے وقت سلام کا بھی اضافہ کرنا چاہئے تاکہ درود کے ساتھ سلام بھی جمع ہوجائے اور یہ اللہ تعالی كاحکم بھی ہے ۔اس لئے درود ابراہیمی کا اہتمام کریں جس میں درود وسلام موجود ہے اور جسے خود نبی ﷺ نے پڑھنے کی تعلیم ہے ۔ نماز سے باہربھی ذکرنبی ﷺ پہ کم از کم کہے "صلی اللہ علیہ وسلم" ۔

(6) درود وسلام کے مواقع:
بعض جگہ درودوسلام کہنا واجب ہے ،ان میں آخری تشہد ہے ۔اس کے علاوہ وجوب کے متعلق اختلاف ہے تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ یہ نبی ﷺ کے حقوق میں سے ہےجہاں جہاں پڑھنے کا حکم ملاہے وہاں پڑھنا چاہئے ۔وہ مقامات ہیں: جمعہ کے دن بکثرت،نبی ﷺ کا ذکر کرنے، سننےیا لکھنے کے وقت، اذان کے بعد،مسجد میں داخل ہوتےاور نکلتے وقت،نمازجنازہ کی دوسری تکبیرپہ، خطبات یعنی عیدین و جمعہ اوراستسقاء وغیرہ کے وقت ، دعاکرتے وقت ، ہرمجلس میں جداہونے سے پہلےاور دعائےقنوت کے آخرمیں وغیرہ۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جلاء الافہام میں اکتالیس مقامات کا ذکر کیا ہے ۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ






مکمل تحریر >>

Saturday, April 23, 2016

اچھی نوکری کے لئے ایک کمپنی چھوڑکر دوسری کمپنی جوائن کرنا

اچھی نوکری کے لئے ایک کمپنی چھوڑکر دوسری کمپنی جوائن کرنا
==========================
رزق کون دیتا ہے؟                                                                                  
شیخ ایک شخص ایک کمپنی میں ملازم تھا۔چند ماہ بعد آمدنی کی کمی کی بناء پر اس کمپنی سے الگ ہوکر وہ شخص دوسری کمپنی میں کام کرنے لگا۔ پہلی والی کمپنی کے مالک کا کہنا ہیکہ تمہیں میری کمپنی میں ہی کام کرنا تھا۔ رزق تو اللہ دیتا ہے۔ تمہیں دوسری جگہ جانے کی کیا ضرورت ؟ تمہارا اللہ پر ایمان و عقیدہ نہیں ہے کیا؟ وغیرہ وغیرہ                                                                
شیخ آپ سے سوال ہیکہ کسی شخص نے  اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کوئی بہتر رقم والی ملازمت یا  اس کے لئے کوشش کرتا تو کیا اس کا یہ عمل شرعا غلط ہے۔ جب کہ وہ سابقہ کمپنی سے کوئی تحریری معاہدہ یا زبانی وعدہ بھی نہیں کیا ہےاور سابقہ کمپنی کے مالک کا اس شخص کو لعن طعن کرنا اور مختلف حیلے بہانے کے ذریعے بہتان والزام تراشی کرنا کہاں تک درست ہے؟                                         
براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔
سائلہ : مالیگاؤں
جواب :
روزی اللہ تعالی ہی دیتا ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں دیتا ، نہ دے سکتاہے ۔ مومن کو اس بات پہ ایمان لانے کے ساتھ اس ایمان کی روشنی میں روزی روٹی کے لئے تگ ودو کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی کافرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (الذاریات : 58(
ترجمہ : اللہ تعالی تو خودہی سب کا روزی رساں توانائی والااور زورآورہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
 يا عبادي كلكم جائع إلا من أطعمته ، فاستطعموني أُطعمكم ، يا عبادي كلكم عار إلا من كسوته ، فاستكسوني أكسكم(صحیح مسلم : 2577)
ترجمہ: اے میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو ، مگر جس کومیں کھلا دوں ، پس تم مجھ سے روزی مانگو ، میں تم کو روزی کھلاؤں گا اور اے میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو مگر جس کو میں پہنا دوں ، پس تم مجھ سے کپڑا مانگو ، میں تم کو کپڑا دوں گا۔
اس لئے ایک آدمی خوشحال زندگی گذارنے کے لئے اچھی سے اچھی نوکری کرسکتا ہے ۔ اس میں کوئی قباحت نہیں اور نہ ہی اسلام میں اس کی ممانعت آئی ہے ۔ صحیح احادیث میں  خوشحالی کے وقت کثرت سے دعاکرنے اور فقر(محتاجگی) سے اللہ کی پناہ مانگنے کا ذکرملتاہے  ۔
فقر سے بچنے کی دعا:
اللهم إني أعوذ بك من الكفر والفقر(صحیح ابوداؤد:5090)
ترجمہ: اے اللہ کفراور فقیری سے تیری پناہ مانگتاہوں۔
تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام میں بڑے بڑے مالدار تھے ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے متعلق اسدالغابہ اور مسند احمد وغیرہ میں صحیح سند سے مروی ہے :
وعن ايوب عن محمد أن عبدالرحمن بن عوف توفي وكان فيما ترك ذهب قطع بالفؤوس حتى مجلت أيدي الرجال منه (أحمد 104/6)
ترجمہ : محمد سے روایت ہے کہ جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کاانتقال ہوا تو آپ کے ترکہ میں حاصل ہونے والے سونے کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے۔
مذکورہ سوال کی روشنی میں عامل کا ایک کمپنی سے دوسری کمپنی میں اچھی سروس کی خاطر کام کرنا اس حال میں کہ سابقہ کمپنی سے کوئی معاہدہ نہیں تھا جائز ورواہے اور سابقہ کمپنی کا اپنے قدیم عامل کو اس سبب کے اس کے یہاں کام چھوڑدیا لعن طعن کرنا باعث گناہ ہے اس لئے اسےاس فعل سے باز آناچاہئے ۔
یہاں میں روزی روٹی میں کشادگی کے تعلق سے اسلام کا مختصر نظریہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔
(1) صرف حلال طریقے سے روزی کمائے اور حرام کمائی سے اجتناب کرے ۔
(2) خوشحالی کے لئے تگ ودو دنیا طلبی کے لئے نہیں بلکہ انسداد فقر کے لئے ہو۔
(2) ضرورت کے بقدر روزی حاصل کرنے کی کوشش کرے ، کیونکہ مال فتنہ ہے ۔ ضرورت سے زیادہ ہونے پہ مال کا استعمال بہت کم ہی لوگ صحیح جگہ پہ کرپاتے ہیں ۔
(4)جائزذرائع سے زیادہ سے زیادہ معیشت حاصل کی جاسکتی ہے مگر صحیح مصارف میں خرچ کرنے کی نیت سے ۔
(5) محنت کرنا ہمارا کام ہے روزی میں برکت دینا، کشادگی فراہم کرنا اللہ رب العزت کا کام ہے اس نیت سے کسب معاش کرےساتھ ہی فقر سےپناہ اور خوشحالی میں اللہ  کا شکربجالائے ۔  
(6) دولت کے حصول کے بعد مال کا حق ادا کرے یعنی زکوۃ اداکرےاوراس کے علاوہ جہاں صرف کرنا جائز ہوصرف وہیں صرف کرے۔
(6) ایسا نہیں ہے کہ اللہ سب کو مالدار ہی بنادے گا ، کسی کو غربت سے آزماتاہے اس لئے ایسے عالم میں ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے اور اللہ کی عبادت سے غافل نہیں ہوناچاہئے ۔

کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامی سنٹرشمال طائف(مسرہ) سعودی عرب


مکمل تحریر >>

Sunday, April 17, 2016

مسلمان عورت کا ساڑی،بندی اور سندور لگانا

مسلمان عورت کا ساڑی،بندی اور سندور لگانا
===================
مقبول احمد سلفی
مسلم خواتین میں ساڑی، بندی اور سندور کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی متعلق وضاحت ضروری معلوم ہوئی ۔
ساڑی : ہندوستان کے مختلف صوبوں اور مختلف قوموں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے،گوکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ہندوقوم کی ثقافت ہے مگرحقیقا اس کا کسی قوم کے مذہبی لباس سے تعلق نہیں ہے ، مختلف طبقات میں اس کا چلن عام ہے ۔ تاریخی اعتبار سے یہ مسلمان کی ثقافت معلوم ہوتی ہے ۔ عرب قوم  خصوصاافریقہ میں مسلم  خواتین عام لباس کے اوپر جسم کے خدوخال چھپانے کے لئےایک لباس مثل ساڑی  لپیٹ لیٹی تھیں۔افریقی ملک سوڈان میں اب بھی اس کا رواج ہے۔ بر وقت ہندوماحول میں ساڑی مختلف عریاں اشکال میں پہنی جاتی ہیں۔ مسلم خاتون  حجاب کی پاسداری کرتے ہوئے ساڑی پہن سکتی ہےاس شرط کے ساتھ کہ ہندوانہ  عریاں کلچر کی نقالی نہ ہو۔
بندی:  بندی یابندیا  یہ ہندوعورتوں کی خاص علامت ہے ۔ شروعاتی دور میں صندل یا سندور کا ٹیکہ ہواکرتاتھا، آج بھی  مندر کے پجاری اسی شکل میں پیشانی پہ مردوں کو ٹیکہ لگاتاہے۔ اس وقت مختلف قسم کی بندی بازار میں موجود ہے ،یہ سب ہندوتہذیب کا حصہ ہیں۔اس وجہ سے مسلم خاتون کو بندی سے پرہیز کرنا ہے۔
سندور:  سندور بھی ہندوقوم کا مذہبی شعار ہے ۔ ہندؤں کے یہاں مختلف مذہبی رسومات کی ادائیگی کے وقت سندور کا استعمال کیا جاتاہے مثلا شادی اور پوجا (ہولی) وغیرہ کی مناسبت سے ۔

افسوس کا مقام ہے کہ شادی بیاہ کے موقع سے مسلم عورتیں بھی  ہندوستان کے بعض علاقوں میں بندیا اور سندور کا استعمال کرتی اور اس کی قباحت سے بے خبر ہیں۔ ہم ایسی خواتین کو نصیحت کرتے ہیں کہ زینت کی بہت ساری چیزیں موجود ہیں آپ انہیں چیزوں کا استعمال کریں جنکا استعمال اسلامی رو سے جائز ہے ۔  
مکمل تحریر >>

Saturday, April 16, 2016

فیروز نام رکھنا کیساہے ؟

فیروز نام رکھنا کیساہے ؟
============
مقبول احمد سلفی
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فیروز نام رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ فیروز نامی ایرانی مجوسی نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ محض اس بنیاد پہ کہ اس نام کے آدمی نے مسلمان یا صحابی کا قتل کیا نام نہیں رکھاجاسکتا ہے اسلام میں ایسا قاعدہ کلیہ نہیں ہے ۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے تو عبدالرحمن نام رکھنا بھی غلط ٹھہرے گا کیونکہ عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ اور احادیث سے معلوم ہے کہ عبداللہ اور عبدالرحمن نام اللہ کو بہت پسند ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِكُمْ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ(صحیح مسلم :2132)
ترجمہ: دو نام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں یعنی عبداللہ اور عبدالرحمن.
فیروزدیلمی ایک جلیل القدر صحابی کا بھی نام آیا ہے، اس لئے اس نام کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں اگر کوئی قاتل کے نام کی نیت سے رکھے تو اس کو اسکی نیت کا ضرور پھل ملے گا۔
فیروز نام سے ایک انگوٹھی ملتی ہے اس کی نسبت اسی قاتل فیروز کی طرف ہے لہذا فیروز نامی انگوٹھی کا استعمال نہ کریں ۔

واللہ اعلم بالصواب


مکمل تحریر >>