Thursday, December 31, 2015

آپ کے سوالوں کےجواب

آپ کے سوالوں کےجواب
==============

(1) سوال : فاتحہ کیا ہوا کھانا کیسا ہے ؟
جواب :آج کل فاتحہ خوانی کی رسم بالکل تقریب کی شکل اختیار کرلیا ہے ، اس کا ثبوت نبی ﷺ اور اصحاب نبی سے نہیں ملتا جس کی وجہ یہ بدعت قرار پائے گی ۔ اس لحاظ سے اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔

(2) سوال: ہندو کے گھر کا کھانا کھاسکتے ہیں جبکہ وہاں حرام مال کا پکا ہوتا ہے ؟
جواب : وہ ہندو جو حرام کاروبار کرتا ہو اس حرام کمائی سے دعوت کھلائے تو نہیں کھانا چاہئے مگر سبھی ہندو حرام کاروبار نہیں کرتے ۔ تو اگر ایسا ہندو دعوت کرے جس کی کمائی حرام ذرائع کا نہ ہوتو اس کی دعوت میں شرکت کرسکتے ہیں ۔ یاد رہے یہ دعوت ہندؤں کی مذہبی نہ ہو اور نہ ہی کھانے میں حرام اشیاء کا اہتمام کیا ہو۔

(3) سوال : جب ہم سفر پہ ہوں اور جمعہ کی نماز ادا کرنی ہو تو تحیۃ المسجد واجب ہوگی کیونکہ جمعہ کے دن اس کی سخت تاکید وارد ہے ؟
جواب : مسافر پہ جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے لیکن اگر جمعہ پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ۔ تحیہ المسجد کا حکم سنت ہے اور اس کا تعلق جمعہ سے نہیں ہے بلکہ مسجد سے ہے جب بھی مسجد آئے تو تحیۃ المسجد پڑھنا چاہئے چاہے جمعہ کا دن ہو یا کوئی اور دن و وقت ۔

(4) سوال : کیا کھڑا ہوکر پانی پینا حرام ہے جیساکہ ایک حدیث میں سخت ممانعت پاتا ہوں؟
جواب : ضرورتا کھڑے ہوکر پانی پینا جائز ہے  اور رسول اللہ ﷺ سے  کھڑے ہوکر پینا ثابت ہے مگر عادتا کھڑے ہوکر پانی پینا نہیں چاہئے ۔

(5) سوال : عربی کے کون کون سے مہینے میں عمرہ کرنا افضل ہے ؟
جواب : ایک حج کا عمرہ ہے جو حج کے مہینوں میں ادا کیا جاتا ہے اس کا تعلق حج سے ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ثواب ملتا ہے ۔ بقیہ مہینوں میں عمرہ کرنا برابر ہے۔ بعض لوگ رجب کے مہینے میں عمرہ کرنا افضل مشہور کئے ہوئے ہیں مگر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

(6) سوال : مسجد میں سنت یا نفل نماز پڑھتے ہوئے فرض نماز کی اقامت ہوجائے تو اس حالت میں کیا کریں؟
جواب: نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جب فرض نماز کی اقامت ہوجائے تو کوئی نماز نہیں ۔ اس لئے ہمیں اس حالت میں اپنی نماز توڑکے فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ۔

(7) اہل تشیع کن دلائل کی بنیاد پہ قیام میں ارسال(ہاتھ نہ باندھنا) کرتے ہیں ؟
جواب : اہل شیع نماز میں ارسال کرنے سے متعلق ضعیف  و موضوع روایات پیش کرتے ہیں ۔ ہمیں شیعہ کے عمل سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ہمارے لئے محمد عربی ﷺ کا عمل ہی نمونہ ہےجو صحیح احادیث سے ثابت ہو ۔ آپ ﷺ نماز میں قیام کی حالت میں سینے پہ ہاتھ باندھا کرتے تھے ۔

(8) سوال : کیا ہر رکعت کے شروع میں تعوذ و تسمیہ کا پڑھنا ضروری ہے یا صرف تسمیہ کافی ہے ؟
جواب : تعوذ و تسمیہ سورہ فاتحہ کے شروع میں پہلی رکعت میں پڑھنا سنت ہے اوردیگر رکعتوں میں نہیں پڑھنا ہے ۔لیکن اگر کوئی ہر رکعت میں تعوذ و تسمیہ پڑھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ہاں اگرکسی رکعت میں کوئی مستقل سورت پڑھے تووہاں تسمیہ پڑھنا مشروع ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

واٹس اپ گروپ "علم دین " کے سوالات اورمقبول احمد سلفی کے جواب




مکمل تحریر >>

Wednesday, December 30, 2015

مقتدیوں کا بعض قرآنی آیات کا جواب دینا

مقتدیوں کا بعض قرآنی آیات کا جواب دینا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)

بعض جگہوں پہ مقتدی قرآن کی بعض آیات کا جواب دیتے ہیں ، اور بعض جگہ یہ عمل نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں میں یہ بات جاننے کی فکر ہے کہ صحیح کیا ہے ؟ قرآنی آیات کا جواب دیا جائے گا یا نہیں دیا جائے گا؟
آئیے ان آیات کی طرف چلتے ہیں جن کا نماز میں بعض جگہوں پہ جواب دیا جاتا ہے ۔
(1) اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جب امام "غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین" کہے تو مقتدی آمین کہے ۔ اختلاف آہستہ اور زور سے کہنے میں ہے ۔ دلائل سے زور سے آمین کہنا ثابت ہے ۔ دلیل :
عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ ﷺ قال إذا أمن الإمامفأمنوا، فانہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (صحیح بخاری مع الفتح 2 / 262)
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نےفرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لئے کہ فرشتے بھی آمین کہتےہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیےجائیں گے۔
وضاحت : اس حدیث پہ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے" باب جھرالإمام بالتأمین "یعنی یہ باب ہے امام کے آمین بالجہر کہنے کا ۔اس حدیث سےپتہ چلا کہ جب امام زور سے آمین کہے گا تو مقتدی اسے سن کے وہ بھی زور سے آمین کہےگا۔
(2) رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَارَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّاوَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔[البقرة:286]
جب امام قرآن کی اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو بعض لوگ آمین کہتےہیں مگر کسی حدیث سے یہاں مقتدی کا آمین کہنا ثابت نہیں ہے ، اس لئے یہاں آمین نہیں کہا جائے گا۔
(3) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُون (مرسلات :50)
سورہ مرسلات کی آخری آیت پہ "آمنا باللہ" کہنے سے متعلق حدیث وارد ہے مگر وہ ضعیف ہے۔ روایت اس طرح ہے ۔
مَن قَرأَ منكُم ( وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ) فانتَهَى إلى آخرِها ( أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ) فليقل بلى وأَنا على ذلِكَ منَ الشَّاهدينَ ومن قرأَ ( لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ ) فانتَهَى إلى (أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى ) فليقُلْ بلَى ومَن قرأَ ( والْمُرْسَلاتِ ) فبلغَ ( فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ) فليقُل آمنَّا باللَّهِ۔
ترجمہ: تم میں سے جو "وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ" پڑھےاور اس آیت پہ پہنچے "أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ" تو وہکہے"بلى وأَنا على ذلِكَ منَ الشَّاهدينَ" ۔ اور جو"لَا أُقْسِمُبِيَوْمِ الْقِيَامَةِ" کی تلاوت کرے اور اس آیت "أَلَيْسَ ذَلِكَبِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى" پہ پہنچے تو وہ کہے"بلَى"۔ اور جو مرسلات کی تلاوت کرے اور یہاں پہنچے"فَبِأَيِّحَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ" تو کہے "آمنَّا باللَّهِ"۔
٭اسے شیخ البانی نے ضعیف الجامع اور ضعیف ابوداؤد میں ذکر کیا ہے ۔
(4) أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى۔(سورة القيامة:40)
اس آیت کے جواب میں" سبحانک فبلی کہنے" کا ثبوت ملتا ہے۔ روایت یہ ہے ۔
كانَ رجلٌ يصلِّي فوقَ بيتِهِ وَكانَ إذا قرأَ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى قالَ سبحانَكَ فبلى فسألوهُ عن ذلِكَ فقالَ سمعتُهُ من رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ۔
ترجمہ: ایک آدمی اپنے گھر کی چھت پہ نماز پڑھ رہا تھا ، جب اس نے"أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى" کی تلاوت کی تو کہا"سبحانَكَ فبلى'۔ پس لوگوں نے اس سے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے کہاکہ یہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ۔
اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحیح ابوداؤد: 884)
اس حدیث سے مقتدی کا جواب دینا ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امام یامنفردکے متعلق ہے ۔
(5) سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى(سورہ الاعلی:1)
اس کے جواب میں "سبحان ربی الاعلی "کہنے کی دلیل ملتی ہے،روایت دیکھیں :
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ إذا قرأَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى قالَ سبحانَ ربِّيَ الأعلى
ترجمہ: نبی ﷺ جب "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی تلاوت کرتے تو آپ کہتے "سبحانَ ربِّيَ الأعلى"۔
اس کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحٰح ابوداؤد: 883)
اس حدیث سے بھی امام / منفرد کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے ۔
(6) سورہ غاشیہ کے آخر میں" اللهم حاسبني حساباً يسيراً "پڑھنےسےمتعلق کوئی روایت نبی ﷺ سےمجھے نہیں ملی ۔
ایک روایت اس طرح آتی ہے :سیدہ عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں :كان النبي، صلى الله عليه وسلم ، يقول في بعض صلاته: "اللهم حاسبني حساباً يسيراً".فقالت عائشةرضي الله عنها:ما الحساب اليسير؟قال:أن ينظر في كتابه فيتجاوز عنه (رواه أحمد وقال الألباني : إسناده جيد)
ترجمہ : نبی کریمﷺ اپنی بعض نمازوں میں"اللهم حاسبني حساباًيسيرا" پڑھا کرتے تھے۔سیدہ عائشہ نے دریافت کیا کہ آسان حساب سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا:اللہ اعمال نامہ کو دیکھے اور بندے سے درگزر کردے۔
اس حدیث سے بس یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک دعا ہے جسے نبی ﷺ اپنی بعض نمازوں میں پڑھا کرتےتھے، اسے سورہ غاشیہ یا اس کی آخری آیت" إن إليناإيابهم، ثم إن علينا حسابهم"سے خاص کرنا صحیح نہیں ہے ۔
(7) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ(سورہ رحمن)
اس آیت کے جواب سے متعلق حسن درجے کی ایک روایت ہے جس میں "لا بشَيءٍمن نِعَمِكَ ربَّنا نُكَذِّبُ فلَكَ الحمدُ" کہنا مذکور ہے ۔ روایتدیکھیں :
خرجَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ على أَصحابِهِ،فقرأَ عليهم سورةَ الرَّحمنِ من أوَّلِها إلى آخرِها فسَكَتوا فقالَ: لقد قرأتُهاعلى الجنِّ ليلةَ الجنِّ فَكانوا أحسَنَ مردودًا منكم، كنتُ كلَّما أتيتُ علىقولِهِ فَبِأيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ قالوا: لا بشَيءٍمن نِعَمِكَربَّنا نُكَذِّبُ فلَكَ الحمدُ
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پر سورہ رحمن شروع سے آخر تک پڑھیاور صحابہ خاموش رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورہ میں نے جنوں والی رات جنوں پر پڑھی،وہ تم سے اچھا جواب دیتے تھے۔جب ہر بار میں اس آیت پر پہنچتا تھا"فبای الا ء ربکما تکذبن "تو وہ جواب میں کہتے"لا بشیء من نعمک ربنا تکذب فلک الحمد"(اے ہمارے رب تیری نعمتوں میں سے ہم کسی چیز کو نہیں چھٹلاتے ۔ پس تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں)۔
یہ روایت شیخ البانی ؒ کے نزدیک حسن ہے ۔ (صحیح الترمذی : 3291)
اس روایت میں نماز کا ذکر نہیں ہے ، لہذا اسے نماز سے خاص نہیں کیاجائے گا بلکہ عام حالات پہ محمول کیا جائے گا۔
(8) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ۔(سورہ التین: 8)
اس کے جواب میں "بلى.وأنا على ذلك من الشاهدين" کہنے کی روایت آئی ہے مگر وہ قابل استدلال نہیں ہے جیساکہ تین نمبر میں بتلایا گیا ہے ۔

خلاصہ کلام:
٭مذکورہ بالا کلام کی روشنی میں سورہ فاتحہ کے آخر میں آمین کہنےکے سوا مقتدی کے لئے قرآن کی کسی آیت کا جواب دینا ثابت نہیں ہے۔
٭ مقتدی کو نماز میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ پڑھنے سے منع کیا گیاہے ۔
٭جن بعض صحیح روایات سے قرآن کی بعض آیات کا جواب دینا ثابت ہے وہ سب امام کے لئے ہے ۔
٭مسلم شریف میں ہے کہ نبی ﷺتسبیح والی آیت پڑھتے توتسبیح فرماتے،دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اورجب تعوذ والی آیت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتےتھے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ ثُمَّ مَضَى فَقُلْتُ يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ فَمَضَى فَقُلْتُ يَرْكَعُ بِهَا ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَاتَسْبِيحٌ سَبَّحَ وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍتَعَوَّذَ۔(مسلم:772)
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ شروع فرمائی، میں نے دل میں کہا: سو آیات پر ایک رکعت فرمائیں گے، لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ ایک رکعت میں پوری سورت پڑھیں گے لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ سورہ مکمل کرکے رکوع فرمائیں گے لیکن آپ نے اس کےبعد سورہ نساء شروع کی، اورپھر سورہ آل عمران شروع کردی اور اسے بھی مکمل کیا، آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہے تھے، آپ جب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں تسبیح ہوتو اللہ کی پاکی بیان فرماتے، اور جب کسی سوال والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے اور جب پناہ والی آیت سے گذرتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے۔
یہ حدیث بتلارہی ہے کہ آپ کی نماز فرضی نہیں تھی بلکہ نفلی تھی۔
٭نفل نماز میں امام یا مقتدی بھی قرآنی آیات کا جواب دے سکتا ہے جيساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے لیکن فرض نماز میں ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ فرض نماز میں اگرآپ ﷺ قرآنی آیات کا جواب دیتے تو صحابہ کرام سے حرف حرف وہ باتیں منقول ہوتیں مگرایسا نہیں ہے ۔

واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

دوران نماز کپڑے سمیٹنا

دوران نماز کپڑے سمیٹنا
📼📼📼📼📼📼📼📼

نماز میں آستین چڑهانے سے متعلق دو باتوں کا خلاصہ ......
1آستین فولڈ کرکے نماز پڑهنا
2ٹخنہ سے اوپر کر کے نماز پڑهنا..
پہلی بات یہ کہ حدیث میں آستین چڑهاکر نماز پڑهنے کی ممانعت نہیں آئی ہے بلکہ نماز کی حالت میں آستین سمیٹنے کی ممانعت ہے. اور یہ حدیث صحیح ہے.
دوسری بات یہ کہ ٹخنہ سے نیچے کپڑا پہننا منع ہے ، اور نماز کی حالت میں بهی...اس سے متعلق بهی بہت ساری صحیح احادیث ہیں..
کچه تفاصیل......
🔳ایک نمازی کے لئے دوران نماز اپنے کپڑے وغیرہ موڑنا یا درست کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی للہ علیہ وسلم سے منقول ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اپنے بالوں اور کپڑوں سے منع کیا گیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی ایک دوسری حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے سات پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اپنے بال اور کپڑوں كو سدھارنے سے منع کیا گیا ہے۔
🔳مردوں کے لئے ایسے لمبے کپڑوں کا پہننا جو ٹخنوں سے نیچے پہنچتے ہوں، حرام ہے۔ چاہے وہ کپڑا قمیص ہو یا پاجامہ ہو یا پتلون ہو، اور چاہے اسبال کرنے والے کی نیت تکبر کی ہو یا نہ ہو؛ اس لئے کہ نبي صلى الله عليه وسلم کا یہ عمومی ارشاد ہے کہ: تہبند کا جو حصہ ٹخنے سے نیچے ہوا وہ جہنم میں ہوگا.
اس کی بخاری نے اپنی صحيح میں،اور امام احمد نے اپنے مسند میں ذکر کیا ہے۔
نیز اس لئے کہ نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ: تین لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرم کرے گا، اور نہ ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے: وہ جو اپنا تہبند ٹخنوں سے نيچے لٹکاتا ہے، اور وہ جو کچھ
ـ دے کر احسان جتلاتا ہے، اور وہ جو جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کو فروغ دیتا ہے۔
اس کی تخریج امام مسلم نے (اپنی صحیح میں: ج 1 ص 102) اور امام احمد نے (مسند) میں کی ہے۔
اس بناء پر اس کے لئے جائز نہیں کہ اسبال [ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننا] کرتے ہوئے نماز پڑھے، بلکہ اس پر یہ واجب ہے کہ اس کو بدل کر ایسے کپڑے پہنے جو ٹخنوں کے اوپر آدھی پنڈلی تک رہیں، اگر ایسا نہیں کرسکتا تو نماز میں داخل ہونے سے پہلے اس پر واجب ہے کہ پتلون کو اوپر کرلے، اس طرح کہ ٹخنوں سے اوپر ہوجائے۔لیکن اگر وہ اسبال کی حالت میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہوجائے گی، لیکن حرام کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا، اور اس کے اوپر یہ واجب ہے کہ اس عمل سے سچی توبہ کرے اور نماز کے دوران پتلون کو ہٹانا یا اسے اوپر کرنا مکروہ ہے، اور اسی طرح آستین کو ہٹانا مکروہ ہے کیونکہ صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں، اور کپڑے اور بال کو نہ سميٹوں۔ اور ہٹانے سے مراد اسے سکوڑنا اور موڑنا ہے، تاکہ زمین میں اس کی نماز کی جگہ میں نہ پڑے، اور اس حکم میں شماغ اور دوسرے کپڑوں کو ہٹانا بھی داخل ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد

💫مقبول احمد سلفی
➖➖➖➖➖➖➖➖
أعلى النموذج


مکمل تحریر >>

Tuesday, December 29, 2015

نماز میں آنکھیں بند کرنا

نماز میں آنکھیں بند کرنا
==============
مقبول احمد سلفی

نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے لیکن اگر ضرورت ہو تو بند کی جا سکتی ہیں مگر بغیر ضرورت نماز میں آنکھیں بند کرنا اہل علم کے نزدیک مکروہ ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے اور ہمارے لئے نبی ﷺ کا عمل ہی نمونہ ہے ۔ 

آنکھیں کھول کر نماز پڑھنے پڑھنے کی چند دلیلیں :

(1)عن أَنَس بْن مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلَاتِهِمْ فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى قَالَ : لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْز(بحاري:750)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راویت ہے انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لوگوں کو کیا ہوا وہ نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بڑی سختی سے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو اس سے باز آنا چاہئے یا پھر ان کی بینائی کو اچک لیا جائے گا۔
استدلال : اس حدیث سے پتہ چلتا ہے نماز میں آسمان کی طرف دیکھنا منع ہے یعنی نیچے (سجدہ کی جگہ/امام کی جانب) دیکھا جائےاور یہ دیکھنا آنکھ کھولے بغیر نہیں ہوسکتا۔

(2)عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في خميصة لها أعلام فقال ‏:شغلتني أعلام هذه، اذهبوا بها إلى أبي جهم وأتوني بأنبجانية‏‏‏. (بخاری:752)‏
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے نقش و نگار نے مجھے غافل کر دیا۔ اسے لے جا کر ابوجہم کو واپس کر دو اور ان سے بجائے اس کے سادی چادر مانگ لاؤ۔
استدلال : اس حدیث سے پتہ چلا کہ  آپ ﷺ کی نظر دھاری دار چادر پہ پڑنے کی وجہ سے نماز سے غافل ہوگئے گویا نماز میں آپ کی آنکھیں کھولی تھیں تبھی تو آپ کی نظر چادر پہ پڑی۔

(3)عن أبي معمر، قال قلنا لخباب أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الظهر والعصر قال نعم‏.‏ قلنا بم كنتم تعرفون ذاك قال باضطراب لحيته‏.(بخاری : 476)‏
ترجمہ :ابومعمر سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ہم نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ صحابی سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی رکعتوں میں ( فاتحہ کے سوا ) اور کچھ قرات کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں۔ ہم نے عرض کی کہ آپ لوگ یہ بات کس طرح سمجھ جاتے تھے۔ فرمایا کہ آپ کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔
استدلال : اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابی نماز میں آنکھیں کھولے رکھتے تھے جبھی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک کو نماز میں ہلتے ہوئے دیکھا۔
اس سلسلے میں بے شمار دلائل ہیں جن کا یہاں احاطہ مشکل ہے مگر کوئی ایک بھی روایت نماز میں آنکھیں بند کرنے کے متعلق نہیں آئی ہے ۔
نماز میں آنکھیں بند کرنے کی ممانعت سے متعلق اس طرح کی ایک روایت آئی ہے ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن النَّضْرِ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ مُصْعَبُ بن سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بن أَعْيَنَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلاةِ فَلا يَغْمِضْ عَيْنَيْهِ.
(معجم الطبراني)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی نماز کے لئے کھڑا ہو تو وہ اپنی آنکھیں بند نہ کرے ۔
٭طبرانی کی اس روایت کو شیخ البانیؒ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ (ضعیف الجامع :617)
ایک اور بات : اہل علم نے نماز میں آنکھیں بند کرنے کو یہودی کا عمل قرار دیا ہے ، اس لئے ان کی مخالفت میں آنکھیں کھولی جائیں نہ کہ بند کی جائیں ۔
اس سے متعلق ابن القیم ؒ کا ایک بہترین قول ہے ۔
أن الإنسان إذا كان أكثر خشوعاً بتفتيح العينين فهو أولى ، وإن كان أخشع له تغميض العينين لوجود ما يشغله عن الصلاة من تزويق وزخرفة فإنه لا يكره قطعاً بل القول باستحباب التغميض أقرب إلى مقاصد الشرع وأصوله من القول بالكراهة . ( زاد المعاد 1/283 )
یعنی اگر آنکھیں کھول کر نماز ادا کرنا خشوع میں مخل نہیں ہے تو آنکھیں کھول کر نماز ادا کرنا افضل ہوگا ،ہاں اگر قبلہ کے سامنے زینت وزیبائش اور آرائش کی وجہ سے نماز کا خشوع وخضوع متاثر ہورہا ہو توآنکھیں بند کرنا قطعاً مکروہ نہیں ہوگا، بلکہ ایسی حالت میں مستحب کہنا اصول شریعت کے زیادہ قریب ہے ۔
خلاصۃً یہ کہیں گے کہ نماز کی اصل آنکھ کھول کرکے ہی ہے یعنی ہم آنکھیں کھول کے نماز پڑھیں گے ۔ قیام اور رکوع کی حالت میں سجدے کی جگہ نظر ہو ۔سجدے میں معروف ہےاور قعدہ میں تشہد کی انگلی پہ ۔ اور اگر کسی سبب آنکھیں بند کرنے کی حاجت پیش آئے تو آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں ۔

واللہ اعلم


مکمل تحریر >>

قبر پہ چادر چڑھانا

قبر پہ چادر چڑھانا


بعض قبوری حضرات قبر پہ چادر چڑھانے کے جواز میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں جو مسلم اور ترمذی وغیرہ میں ہے ۔ ترمذی شریف میں حدیث اس طرح ہے ، اردو ترجمہ:
"عثمان بن فرقدکہتے ہیں کہ میں نے جعفربن محمدسے سناوہ اپنے باپ سے روایت کررہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ ﷺکی قبر بغلی بنائی ، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ ﷺ کے مولی ٰشقران ہیں،جعفر کہتے ہیں:اورمجھے عبید اللہ بن ابی رافع نے خبردی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا: اللہ کی قسم! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر بچھائی تھی"۔
حدیث کی وضاحت  : یہ چادرجھالردارتھی جسے شقران نے قبرمیں نبی اکرمﷺ کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کرسکے خود شقران کا بیان ہے کہ '' كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول الله ﷺ'' امام شافعی اوران کے اصحاب اور دیگربہت سے علماء نے قبرمیں کوئی چادریاتکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اوریہی جمہور کاقول ہے اوراس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایساکرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اورصحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا اورواقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کاعلم ہواتوانھوں نے اُسے نکلوا دیا تھا ، ابن عبدالبرنے قطعیت کے ساتھ ذکرکیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابرکرنے سے پہلے یہ چادرنکال دی گئی تھی اورابن سعدنے طبقات ۲/۲۹۹میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص ہے اورحسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادربچھائی گئی تھی جسے آپ ﷺ اوڑھتے تھے اورحسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ ''قال رسول الله ﷺ فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط على أجساد الأنبياء'' ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادرنکال دی گئی تھی اوراگریہ مان بھی لیاجائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ماناجائے گا دوسروں کے لیے ایساکرنا درست نہیں۔
اور جو لوگ اس حدیث سے قبر پہ چادر چڑھانے کی دلیل لیتے ہیں وہ عقل کے اندھے ہیں ، اس روایت میں قبر کے اوپر نہیں بلکہ قبر کے نیچے چادر رکھی گئی تھی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے ۔

ترتیب و پیشکش: مقبول احمد سلفی

مکمل تحریر >>

نئے سال کی دعا

نئے سال کی دعا
================
قال: حدثنا محمد بن علي الصائغ، قال: نا مهدي بن جعفر الرملي، قال: نا رشدين بن سعد، عن أبي عقيل زهرة بن معبد، عن جده عبد الله بن هشام، قال: كان أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر: (اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان).(رواه الطبراني في الأوسط :6241)
ترجمہ : عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے سال یا مہینے کی آمد پہ "اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان"
(اس سال کو ہمارے اوپر امن ، ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور شیطان کے بچاؤاور رحمن کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما)۔

روایت کا درجہ : اس روایت کو بیان کرکے طبرانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث عبداللہ بن ہشام کے ذریعہ اسی سند سے مروی ہے ، اور اس میں رشدین بن سعد کا تفرد واقع ہوا ہے ۔
اس حدیث میں رشدین بن سعد سے تفرد ہوا ہے اور رشدین محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں ۔
٭ ابن حجرؒ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (الفتوحات الربانية 4/333)
٭ذہبی ؒ نے اسے سئ الحفظ کہا ہے ۔
٭شیخ البانی نے بھی اسے ضعیف کہا ۔ [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ( ج 8 / ص 6 حديث رقم 3504) ] .
خلاصہ یہ ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔


مکمل تحریر >>

Monday, December 28, 2015

ایک جھوٹی روایت

ایک جھوٹی روایت
===========
لوگوں کو ایک جھوٹی روایت بیان کی جارہی ہے ۔ روایت اس طرح ہے ۔
روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال لفاطمة رضي الله عنها: ما من مؤمن ولا مؤمنة يقول بعد الوتر ثلاث مرات سبوح قدوس ربنا رب الملائكة والروح ثم يسجد ويقول في سجوده خمس مرات كذلك، ثم يرفع رأسه ويقرأ آية الكرسي مرة واحدة ويقول خمس مرات كذلك سبوح قدوس .. الخ والذي نفس محمد بيده لا يقوم من مقامه حتى يغفر الله له، ويعطيه ثواب مائة حجة ومائة عمرة ويعطيه ثواب الشهداء ويبعث له ألف ملك يكتبون له الحسنات، وكأنما أعتق مائة رقبة، واستجاب الله دعاءه، ويُشفع يوم القيامة في سبعين من أهل النار، وإذا مات مات شهيداً.(خزينة الأسرار الكاتب محمد حقي النازلي)
ترجمہ : روایت کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا جو مسلمان مرد یا عورت وتر کے بعد تین بار سبوح قدوس ربنا رب الملائكة والروح پڑھے پھر سجدہ کرےاور اپنے سجدوں میں پانچ مرتبہ ایسا ہی کہے پھر اپنا سر اٹھائے اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھے اورپانچ مرتبہ ایسا ہی سبوح قدوس۔۔۔۔۔ الخ پڑھے ۔ تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی وہاں سے اٹھنے سے پہلے مغفرت فرما دے گا۔ ایک سو حج اور ایک سو عمروں کا ثواب دے گا۔ اس کی طرف اللہ تعالیٰ ایک ہزار فرشتے بھیجے گا جو اس کیلئے نیکیاں لکھنی شروع کر دینگے، اور سو غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔اس کی دعا قبول ہوگی۔ قیامت کے دن ساٹھ اہل جہنم کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔ جب مرے گا تو شہادت کی موت مرے گا۔

یہ روایت کسی بھی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ اور یہ جھوٹی روایت ہے جسے بغیر سند کےنبی ﷺ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے ۔ لہذا اس پہ اعمتاد نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے بیان کیا جائے ۔




مکمل تحریر >>

کسی انجان جگہ لڑکی کی لاش ملے

کسی انجان جگہ لڑکی کی لاش ملے
=================
اگر صحراء یا انجان جگہ کسی عورت کی لاش ملے توظاہری آثاروعلامات سے مسلم یا غیرمسلم ہونے کا اندازہ لگایا جائے گا ، اگر اس سے پتہ نہ چلے تو پھرعلاقہ دیکھا جائے گا کہ مسلم کا علاقہ ہے یا غیر مسلم کا ۔ اگر پھر بھی معاملہ مشکوک ہو انسان ہونے کے ناطے بغیر جنازہ کے کسی جگہ گڑھا کھودکر دفن کردیا جائے گا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب فوت ہو گئے تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپ کا بوڑھا چچا فوت ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اسے دفن کر آؤ اور میرے پاس آنے تک کوئی کام نہ کرنا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں دفنا کر حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: جاؤ غسل کر کے آؤ اور میرے پاس آنے تک کوئی کام نہ کرنا۔ میں غسل کر کے دوبارہ حاضر ہوا تو نبی نے میرے حق میں ایسی دعا فرمائی جو مجھے سرخ اور کالے اونٹوں سے بھی زیادہ خوش کر دینے والی تھی۔
(احمد:۸۰۷،۱۰۷۴، ابوداؤد:۲/۷۰، نسائی:۱/۲۸۲، بیہقی:۳/۳۹۸)
ویسے اس ترقی یافتہ دور میں طبی سہولیات بھی میسر ہیں ، جیسے ڈی این اے ٹسٹ، فنگر پرنٹس، باڈی اسکین، بلڈ گروپ ٹسٹ وغیرہ۔ جب معاملہ زیادہ گمبھیر ہو تو جدید طب کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔
کتبہ

مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

فقرسے متعلق عوام میں پھیلی 40 غلط فہمیاں


فقر سے متعلق عوام میں پھیلی 40 غلط فہمیاں
مقبول احمد سلفی

سوشل میڈیا پہ کئی مہینوں سے ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ 40 باتوں سے گھر میں غربت آتى
ہے۔ آئیے ان باتوں کی طرف چلتے ہیں۔
(1)غسل کھانے میں پیشاب کرنا:
حمام میں پیشاب کرنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے مگر اس وقت کے حمام مٹی کے ہوتے تھے مگر آجکل کا حمام پکا ہوتا ہے ، اس لئے اس میں پیشاب کرنا جائز ہے ۔ اور یہ نبی ﷺ کے فرمان میں نہیں ہے کہ حمام میں پیشاب کرنے سے
غربت آتی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے مگر یہ جھوٹ ہے ۔

(2)ٹوٹي ہوئی كنگھي سے كنگا کرنا:
آپ ﷺ کا حکم ہے : ''جس کے بال ہوں وہ ان کی عزت کرے۔'' (ابو دائود ، کتاب الترجل)۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ بالوں کی زینت کے لئے کنگھی کرنی چاہئےچاہے کنگھی ٹوٹی ہو یا سالم ، اگر کام لائق ہے تو کنگھی کریں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی اس کے کرنے سے غریبی آتی ہے ۔
(3)ٹوٹا هوا سامان استعمال کرنا: ٹوٹا ہوا سامان کام کے لائق ہو تو اس کا استعمال جائز ہے ۔
حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنھم کے لئے ایک چوڑے برتن میں کھانا لائیں۔(اتنے میں) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آگئیں۔ انہوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور ان کے پاس ایک پتھر تھا۔ انہوں نے پتھر مار کر برتن توڑدیا۔ نبی اکرمﷺ نے برتن کو دونوں ٹکڑوں کو ملا کر رکھا اور دوبار فرمایا:"کھاؤ ، تمہاری ماں کو غیرت آگئی تھی"۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا برتن لے کر حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا کے ہاں بھیج دیا اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا کا(ٹوٹا ہوا) برتن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو دے دیا۔سنن النسائی:3966)
٭علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔(صحیح سنن النسائی:3693)

(4)گھر میں كوڑا کرکٹ رکھنا:
 گھر کا کوڑا کرکٹ گھر کے کسی کونے میں جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جب زیادہ ہوجائے تو پھینک دے ۔ اس میں ایک احتیاط یہ ہونا چاہئے کہ کھانے پینے کی بچی ہوئی زائد چیزیں ضائع نہ کرے بلکہ کسی کو دیدے ۔ گھر میں کوڑا رکھنے سے غریبی آتی ہے یہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جھوٹی بات ہے ۔

(5) رشتےدارو سے بدسلوکی کرنا:
ایسا کوئی خاص فرمان نبوی نہیں ہے کہ رشتے داروں سے بدسلوکی غربت کا سبب ہے ، لیکن بہت سارے ایسے نصوص ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معصیت اور گناہ کے کام سے زرق میں تنگی ہوتی ہے ۔

(6)بائیں پیر سے پیجاما پہننا:
ممکن اس سے مراد ہو پاجامہ پہننے میں بائیں جانب سے شروع کرنا۔ نبی ﷺ شرف والا کام دائیں سے پسند فرماتے تھے ، اس بنا پر دائیں جانب سے پاجامہ پہننا بہتر ہے مگر کسی نے بائیں سے پہن لیا تو کوئی معصیت نہیں ہےاور نہ ہی یہ فقر و فاقہ کا سبب بنے گا۔

(7)مغرب عشاء کے درمیان سونا:
مغرب اور عشاء کے درمیان سونا مکروہ ہے ، اس کا سبب عشاء کی نماز فوت ہوجاناہےاس لئے نبی ﷺ عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد بات کرنا ناپسند فرماتے تھے۔ اگر کوئی عادتا نہیں ضرورتا کبھی سو جائے تو وہ عشاء کی نماز آدھی رات سے پہلے کبھی بھی پڑھ لے ۔

(8)مہمان آنے پر ناراض ہونا:
اسلام نے مہمان کی خاطر داری پہ ابھارا ہے ، لہذا کسی مہمان کی آمد پہ ناراضگی کا اظہار نہ کرے۔ مہمان نوازی باہر سے آنے والے مسافر کے واسطے واجب ہے اور جو مقیم ہو اس کی ضیافت احسان و سلوک کے درجے میں ہے۔ جس نے ضیافت میں احسان کو چھوڑا اس پہ گناہ نہیں مگر واجبی ضیافت کے ترک پہ معصیت آئے گی۔

(9) آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا:
اسے بے وقوفی، حماقت ، ناسمجھی اور فاش غلطی کہہ سکتے ہیں۔

(10)دانت سے روٹی کاٹ کر کھانا:
دانت سے روٹی کاٹ کر کھانے سے غریبی نہیں آتی ، اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کوئی مالدار ہی نہیں ہوتا کیونکہ دانتوں سے کاٹ کرہی لوگ بڑے ہوتے ہیں۔ روٹی تو ہاتھ سے بھی توڑی جاسکتی ہے مگر ایسی بھی بہت چیزیں ہیں جنہیں اکثر دانت سے ہی کاٹ کر کھایا جاتا ہے ۔ آج انگریزی اسٹائل آیا ہے اور دیہاتوں میں تو نہیں شہروں میں کھانے کے ساتھ چاقو رکھ دیتے ہیں جبکہ آج سے پہلے یہ اسٹائل نہیں چلتا تھا۔

(11)چالیس دن سے زیادہ زیر ناف کے بال رکھنا:
چالیس دن کے اندر زیر ناف مونڈ لینا چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہی حد مقرر کی ہے جو اس سے زیادہ تاخیر کرتے ہیں وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔

(12)دانت سے ناخن کاٹنا:
اسلام میں کہیں دانتوں سے ناخن کاٹنے کی ممانعت وارد نہیں ہے، لیکن چونکہ اسلام حفظان صحت پہ دھیان دلاتا ہے ۔ اس لئے اگر دانٹ سے ناخن کاٹنے میں کوئی طبی نقصان کا پہلو نکلتا ہو تو اس سے پرہیز کیا جائے اور اگر اس میں نقصان نہیں تو بھی دانت سے ناخن کاٹنا صحیح نہیں لگتا کیونکہ ناخن میں گندگی ہوتی ہے اور گندی چیز کو منہ سے پکڑنا اور دانتوں سے کاٹنا صحیح نہیں ہے،خصوصا لوگوں کے سامنے ۔

(13) کھڑے کھڑے پیجاما پہننا:
پاجامہ کھڑے اور پڑے دونوں پہن سکتے ہیں ، آپ کو جو سہولت ہو وہ اختیار کریں۔ اور کسی پہ کوئی گناہ کوئی فقر نہیں شریعت کی جانب سے ۔

(14)عورتوں کا کھڑے کھڑے بال باندھنا:
یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس میں ایک ہی بات اہم ہے کہ عورت اجنبی مرد کے سامنے بال نہ باندھے ۔ باقی وہ کھڑے ہوکر ، بیٹھ کر اور سو کر کسی بھی طرح بال باندھ سکتی ہے ۔

(15)پھٹے ہوئے کپڑے جسم پر سینا:
پھٹے ہوئے کپڑے جسم پہ ہوتے ہوئے رفو کرنا آسان ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اتارنے کی ضرورت پڑے تو بہرصورت اسے اتارنا ہی ہوگا۔

(16)صبح سورج نکلنے تک سونا:
انسان کو چاہئے کہ وہ صبح سویرے بیدار ہو، فجر کی نماز پڑھے اور پھر روزی کی تلاش میں نکلے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : مَن صَلَّى الصُّبحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ (مسلم : 657)
ترجمہ: جس نے فجر کی نماز پڑھی وہ اللہ کے امان میں آگیا۔
جو بندہ نماز چھوڑ کر روزانہ تاخیر سے اٹھے اس کی قسمت  میں بربادی ہی بربادی ہے کیونکہ اس نے اپنے رب سے امان اٹھا لیا، اس کے ساتھ کبھی بھی اور کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔

(17)درخت کے نیچے پیشاب کرنا:
کسی بھی چیز کے سایہ میں خواہ درخت کا ہو یا کسی اور کا اس کے نیچے پیشاب و پاخانے سے منع کیا گیا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
اتقوا اللاّعِنَيْن، الذي يتخلى في طريق الناس أو في ظلهم. (مسلم)
ترجمہ : لعنت کا سبب بننے والی دوباتوں سے بچو، ایک یہ کہ آدمی لوگوں کے راستے میں قضائے حاجت کرے ، دوسرے یہ کہ ان کے سائے کی جگہ میں ایسا کرے۔
طبرانی نے معجم الاوسط میں پھلدار درخت کے نیچے قضائے حاجت کی ممانعت والی روایت ذکر کی ہے ، یہ روایت ضعیف ہے ۔ پھلدار درخت سایہ والی مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں ہے کیونکہ عام طور سے ہردرخت کا سایہ ہوتا ہے ۔ لیکن جو درخت عام ہو اور ویسے ہی بلاضرورت آبادی سے دور سنسان جگہ پہ پڑا ہو تو اس کے نیچے قضائے حاجت میں کوئی حرج نہیں۔

(18)  بیت الخلا میں باتیں کرنا:
قضائے حاجت کے وقت بات کرنا منع ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا يخرجُ الرجلانِ يضربانِ الغائطَ كاشفَينِ عن عوراتِهما يتحدَّثانِ ، فإنَّ اللهَ يمقُتُ على ذلك(صحیح الترغیب للالبانی: 155)
ترجمہ : ”دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں“۔
یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل گھروں میں حمام بناہوتا ہے تو کیا اس میں باتیں کرنا جائز ہے ؟
حدیث کی رو سے اس حالت میں کلام منع ہے جب دوآدمی ننگے ہوکر ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بات کرے لیکن حمام میں بات کرنے کی ممانعت پہ کوئی دلیل نہیں ہے ۔ پھر بھی بہتر صورت یہی ہے کہ حمام میں قضائے حاجت کرتے وقت بات نہ کرے لیکن ضرورت پڑے یا پھر قضائے حاجت سے پہلے حمام میں داخل ہوتے وقت بات کرسکتا ہے ۔

(19) الٹا سونا:
پیٹ کے بل سونا ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے، اس کی کراہت کی وجوہات میں جہنمیوں کے سونے کی مشابہت اور جسمانی نقصان وغیرہ ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :{يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ} ( سورة القمر : 48) 
ترجمہ: جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا)دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"إِنَّ ھٰذِہِ ضِجْعَۃٌ یُبْغِضُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی یَعْنِی الْاَضْطِجَاعُ عَلَی الْبَطَنِ"۔(صحیح الجامع الصغیر:2271)
ترجمہ : ’’ یقینا اس طرح لیٹنے کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے یعنی پیٹ کے بل (اوندھا)لیٹنا۔‘‘
الاضطجاع علی البطن: … یعنی ایسے سونا کہ پیٹ زمین کی طرف اور پشت اوپر کی طرف ہو،
اس لئے کسی کو پیٹ کے بل نہیں سوناچاہئے مگر ایسا سونے سے غریبی آتی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

(20)قبرستان میں هنسنا:
قبرستان ایسی جگہ ہے جہاں جاکرآخرت یاد کرنی چاہئے اس لئے وہاں ہنسنا ناسندیدہ عمل ہے ۔ وہاں بات کرتے ہوئے یا یوں ہی ہنسی آگئی تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور اس سے رزق پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

(21)پینے کا پانی رات میں کھلا رکھنا:
 کھانے پینے کا برتن رات میں کھلا رکھنے سے غربت نہیں آتی ، البتہ سوتے وقت غداء والا برتن ڈھک دیا جائے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أطفِئوا المصابيحَ إذا رقدتُم ، وغلِّقوا الأبوابَ ، وأوكوا الأسقِيةَ ، وخَمِّروا الطَّعامَ والشَّرابَ - وأحسَبُه قالَ - ولو بِعودٍ تعرُضُه عليهِ(صحيح البخاري: 5624)
ترجمہ : رات میں جب سونے لگو تو چراغ بھجادیا کرو ،دروازے بند کردیا کرو ، مشکیزے کا منھ باندھ د یاکرو ،کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ دیا کرو ، اگرڈھکنے کیلئے کوئی چیز نہ ملے تو (بسم اللہ کہکر )کوئی لکڑی ہی چوڑائی میں رکھ دو۔
ایک دوسری روایت اس طرح ہے :
غطُّوا الإناءَ . وأوكوا السِّقاءَ . فإنَّ في السَّنةِ ليلةً ينزلُ فيها وباءٌ . لا يمرُّ بإناءٍ ليسَ عليهِ غطاءٌ ، أو سقاءٍ ليسَ عليهِ وِكاءٌ ، إلَّا نزلَ فيهِ من ذلِكَ الوباءِ . صحيح مسلم: 2014)
ترجمہ : نبی ﷺ نے فرمایا: برتن ڈھک دو، مشکیزے کا منہ بند کرو، اس لئے کہ سال میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں بلا نازل ہوتی ہے ، اور جس چیز کا منہ بند نہ ہو اور جو برتن ڈھکا ہوا نہ ہو اس میں یہ وبا اتر پڑتی ہے۔
برتن کھلاچھوڑنے سے غریبی آنے والی بات شیعہ کتب سے منقول ہے ، اس کی کتاب میں لکھا ہے کہ بیس خصلتیں ایسی ہیں جن سے رزق میں کمی آتی ہے ، ان میں سے ایک پانی کے برتن کا ڈھکنا کھلا رکھنا ہے ۔ (بحار الأنواراز محمد باقر مجلسی ج 73، ص 314 ح1)

(22)رات میں سوالي کو کچھ نہ دینا:
یہ بات بھی شیعہ کتب سے آئی ہے ، اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
رات ہو یا دن سائل کو اگر دینے کے لئے کچھ ہے تو دینا چاہئے کیونکہ اللہ کاتعالی کا فرمان ہے
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ( الذاریات : 19(
ترجمہ : اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا۔
قرآن کی آیت "وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ " (حشر:9)سے پتہ چلتا ہے کہ رات کے وقت ہی آپ ﷺ کے پاس ایک سائل آیا تھا مگر آپ کے پاس کچھ نہیں تھا تو آپ نے انہیں کچھ نہیں دیا اوراس سائل کی ضیافت دوسرے صحابی کے ذمہ لگائی ۔

(23)برے خیالات کرنا:
انسان گناہوں کا پتلہ ہے ، اس سے ہمیشہ غلطی ہوتی رہتی ہے ۔ اس کے دماغ میں برے خیالات آتے رہتے ہیں ۔ ایک مسلم کا کام ہے کہ وہ ان برے خیالات سے توبہ کرتا رہے اور انہیں عملی جامہ پہنانے سے بچے ۔ اللہ تعالی اپنے بندوں پہ بہت مہربان ہے وہ بندوں کےدل میں پیدا ہونے والے برے خیالات پہ پکڑ نہیں کرتا جب تک کہ اسے عملی جامہ نہ پہنا دے ۔
إنَّ اللهَ تجاوزَ عنْ أمتي ما حدَّثتْ بهِ أنفسَها ، ما لمْ تعملْ أو تتكلمْ(صحيح البخاري:5269)
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے میری امت کے ان وسوسوں سے درگزر فرمایا ہے جو سینوں میں پیدا ہوتے ہیں ، جب تک لوگ ان پر عمل نہ کریں یا زبانی اظہار نہ کریں۔
اس لئے یہ بات کہنا غلط ہے کہ برے خیالات سے غریبی آتی ہے ، البتہ ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ برائی اور فحش کام کرنے سے غربت آسکتی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ( سورۃ البقرۃ: 268)
ترجمہ : شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔

 (24) بغیر وضو کے قرآن مجید پڑھنا:
افضل یہی ہے کہ وضو کرکے قرآن کی تلاوت کرے لیکن بغیر وضو کے بھی مصحف سے تلاوت کرنا جائز ہے ، اس لئے یہ بات کہنا مبنی بر غلط ہے کہ بغیر وضو کے قرآن مجید پڑھنے سے فقر آتا ہے ۔


(25) استنجا کرتے وقت باتیں کرنا:
 آج کل گھروں میں بیت الخلا بنے ہوتے ہیں اور آدمی پردے میں ہوتا ہے ، اس لئے ضرورت کے تحت استنجا اورقضائے حاجت کے وقت کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اس سلسلے میں ایک حدیث آتی ہے :
لا يَخرجِ الرَّجلانِ يَضربانِ الغائطَ ، كاشفَينِ عَن عورتِهِما يتحدَّثانِ فإنَّ اللَّهَ يمقُتُ علَى ذلِكَ( السلسلۃ الصحيحة : 7 / 321 )
ترجمہ : دو مردوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیت الخلاء کے لئے نکلیں ، تو اپنی اپنی شرمگاہ کھلی رکھـ کر آپس میں باتیں کرنے لگیں، کیونکہ اللہ تعالی اس عمل سے ناراض ہوتا ہے۔
اس حدیث میں قضائے حاجت کے وقت بات کرنے کی ممانعت دوباتوں کے ساتھ ہے ۔
اولا: دونوں بات کرنے والے آدمی اپنی شرمگاہ کھولے ہوئے ہوں ۔
ثانیا: وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔
یونہی استنجا اورقضائے حاجت کے وقت بات کرنا مکروہ ہے مگر ضرورت کے تحت بات کرسکتے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین ؒ سے سوال کیا گیا کہ قضائے حاجت سے پہلے حمام کے اندر بات کرنے کا کیا حکم ہے ؟
توشیخ نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، خصوصا جب ضرورت درپیش ہو، کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی صراحت نہیں ہے سوائے اس صورت کے جب دوآدمی ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کے پاخانہ کرے اور دونوں باتیں کرے ۔اور مجرد قضائے حاجت والی جگہ کے اندر سے کلام کرنے کی ممانعت نہیں ہے ۔

(26)ہاتھ دھوئے بغیر کھانا كھانا:
 کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا ضروری نہیں ہے ، روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے ہاتھ دھوئے بغیر بھی کھانا کھایا ہے ۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے سوائے ایک روایت کے جو نسائی میں ہے ۔
عن أم المؤمنين عائشة –رضي الله عنها- أن رسول الله –صلى الله عليه وسلم – كان إذا أراد أن ينام وهو جنب توضأ ، وإذا أراد أن يأكل غسل يديه۔(رواہ النسائي وصححه الألباني )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی سونے کا ارادہ کرتے اور آپ حالت جنابت میں ہوتے تو وضو کرتے اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
اس روایت میں مطلق ہاتھ دھونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ جنابت سے متعلق ہے ، اس لئے یہ کہا جائے گا کہ اگر ہاتھ میں گندگی لگی ہو تو کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا لینا چاہئے وگرنہ ضرورت نہیں ہے ۔ اور اس سے متعلق غربت والی بات جھوٹی ہے ۔

(27)اپنی اولاد کو كوسنا:
اولاد کی تربیت والدین کے ذمہ ہے ، ماں باپ بچوں کی تربیت کے لئے ڈانٹ سکتے ہیں ، کوس سکتے ہیں ، بلکہ مار بھی سکتے ہیں کیونکہ بچوں کے سلسلے میں اہم چیز ان کی تربیت ہے ۔
تربیت کی غرض سے بچوں کو مارنے کا حکم ہمیں اسلام نے دیا ہے :
مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ و هم أبناءُ سبعِ سِنِينَ ، واضرِبوهم عليها وهم أبناءُ عشرِ سِنِينَ ، وفَرِّقُوا بينهم في المضاجعِ( صحيح الجامع للالبانی : 5868)
ترجمہ : ’’جب تمہاری اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائے توانہیں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو (نماز میں کوتاہی کرنے پر) انہیں سزا دو، اور بچوں کے سونے میں تفریق کردو۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :باپوں اور ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو ادب سکھلائیں۔ طہارت اور نماز کی تعلیم دیں اور باشعور ہونے کے بعد(کوتاہی کی صورت میں)ان کی پٹائی کریں۔(شرح السنۃ:2/407)

(28)دروازے پر بیٹھنا:
دروازہ سے لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے، اس لئے ادب کا تقاضہ ہے کہ دروازے پہ نہ بیٹھا ، نبی ﷺ نے حکم فرمایاہے کہ راستے  کو حق دو۔
لیکر اگر اپنا گھر ہو ، لوگوں کی آمد و رفت نہیں ہو تو پھر اپنے گھر کے دروازے پہ بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ فرشتے جمعہ کے دن مسجد کے دروازے پہ کھڑے رہتے  ہیں ۔
إذا كان يومُ الجمعةِ كان على كلِّ بابٍ من أبوابِ المسجدِ ملائكةٌ يكتبون الأوَّلَ فالأوَّلَ . فإذا جلس الإمامُ طوَوْا الصُّحفَ وجاؤوا يستمعون الذِّكرَ .(صحيح مسلم: 850)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں(اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
دروازے پہ فرش بچھانے سے متعلق انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت :
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْ يُفْرَشَ عَلَى بَابِ الْبُيُوتِ، وَقَالَ: نَكِّبُوهُ عَنِ الْبَابِ شيئًا".(إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة)
اس کی سند میں موسى بن محمد بن إبراهيم التيمي ضعیف راوی ہے ، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے ۔

(29)لہسن پیاز کے چھلکے جلانا:
یہ بات بھی شیعہ سے منقول ہے ، ان کی کتاب جامع الاخبار میں مذکور ہے جسے بعض صوفیوں نے اپنی کتاب میں ذکر کردیا اور عوام میں مشہور ہوگئی ۔ اس بات کو ترکستان کے حنفی عالم برھان الدین زرنوجی نے اپنی کتاب "تَعْلِیْمُ الْمُتَعَلِّمِ طَرِیْقُ التَّعَلِّمِ" میں ذکر کیامگراسلام میں اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

(30)فقیر سے روٹی یا پھر اور کوئی چیز خریدنا:
یہ بات بھی شیعہ کی کتاب جامع الاخبار میں موجود ہے ۔
فقیر تو خود ہی محتاج ہوتا ہے وہ کیوں کسی سے کچھ بیچے گا اور اگر اس کے پاس کوئی قیمتی سامان ہے تو اسے بیچ سکتا ہے ۔ فقیر سے کچھ خریدنا فقر کا سبب ہو تو کوئی فقیر مالدار نہیں ہوسکتا اور فقیر سے خریدنے والا کوئی مالدار نہیں رہ سکتا ۔ عقل ونقل دونوں اعتبار سے یہ جھوٹی بات ہے ۔

(31)پھونک سے چراغ بجھانا:
یہ بات شیعہ کتاب جامع الاخبار سے منقول ہے جو ہمارے لئے حجت نہیں ہے ۔ چراغ تو پھونک سے ہی بجھایا جاتا ہے ، کوئی دوسرے طریقے سے بجھائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن پھونک سے چراغ بجھانا باعث فقرہے مبنی برغلط ہے ۔
نورخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

(32 )بسم اللہ پڑھے بغیر کھانا:
کھانا کھاتے وقت بسم اللہ کہنا واجب ہے ۔
عن أُمُّ كُلْثُومٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يَذْكُرَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ (صحيح سنن أبي داود:3202 ) .
ترجمہ : ام کلثوم عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے، اور اگر اللہ تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہے: بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ.
واقعی بسم اللہ کے بغیر کھانا کھانا باعث نقصان وخسران ہے ، اس کے کھانے میں شیطان شامل ہوجاتاہے اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ اللہ کے ذکر کے بغیرمستقل کھانا کھانے سے وہ کھانے  کی نعمت اور اس کی برکت سے محروم ہوجائے گا لیکن اگر بھولے سے ایسا ہوجائے تو اللہ تعالی نے بھول چوک کو معاف کردیاہے ۔

(33 )غلط قسم کھانا:
اسلام میں جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الكبائرُ : الإشراكُ باللهِ ، وعقوقُ الوالديْنِ ، أو قال : اليمينُ الغَموسُ(صحيح البخاري:6870)
ترجمہ: کبیرہ گناہ یہ ہیں:اللہ کے ساتھ شرک کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹی قسم کھانا۔
ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ، اس لئے ایک مسلمان کو قطعی طورپر جھوٹی قسم نہیں کھانا چاہئے ۔ اگر کسی نے سابقہ کسی معاملے پہ عمدا جھوٹی قسم کھائی ہے تو سچی توبہ کرے، اگر جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی کا حق مارا تو اس کو واپس کرے اور اگر آئندہ کسی کام کے نہ کرنے پہ قسم کھائی اور وہ کام کرلیا تو قسم کا کفارہ ادا کرے۔اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا اسی طرح ان مسکینوں کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن یعنی غلام یا باندی کوآزاد کرنا ہے۔ جسے یہ سب کچھ میسر نہ ہو تووہ تین دن روزہ رکھے۔

(34 )جوتا چپل الٹا دیکھ کر سیدھا نہیں کرنا:
اسلامی اعتبار سےاس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔نبی ﷺ کے زمانے میں بھی جوتا تھا مگر آپ ﷺ سے ، صحابہ کرام سے یا ائمہ اربعہ سے اس قسم کی کوئی بات منقول نہیں ہے ۔
ابن عقیل حنبلی ؒ نے کتاب الفنون میں لکھا ہے :
"والويل لمن رأوه أكب رغيفا على وجهه،أو ترك نعله مقلوبة ظهرها إلى السماء"۔(الآداب الشرعية1 /268-269)
ترجمہ : بربادی ہے اس کے لئے جس نے الٹی ہوئی روٹی دیکھی یا پلٹا ہوا جوتا جس کی پیٹھ آسمان کی طرف ہو اسے چھوڑدیا۔
اس کلام میں بہت سختی ہے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کلام کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔
نبی ﷺ جوتے میں نماز پڑھتے تھے ۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سوال کیا گیا ؟
أكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في نعليه؟ قال:نعم [رواه البخاري: 386]
ترجمہ:کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ، کہنے لگے ہاں۔
ظاہر سی بات ہے جوتے میں نماز پڑھتے ہوئے جوتا پلٹے گا ۔
اس لئے الٹے جوتے کے متعلق مذکورہ بالا باتیں کرنا ٹھیک نہیں ہے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ جوتے کے نچلے حصے میں گندگی لگی ہوتی ہے بنابریں الٹے جوتے کو پلٹ دیا جائے تاکہ لوگ اس سے گھن نہ محسوس کریں ۔

(35)حالات جنابت میں حجامت کرنا:
حالت جنابت میں مردوعورت کے لئے محض چند چیز ممنوع ہیں ، ان میں نماز،طواف ، مسجد میں قیام اور قرآن کی تلاوت وغیرہ ۔ بقیہ دیگرکام جنبی انجام دے سکتا ہے ۔ حالت جنابت میں حجامت کو باعث فقر بتلانا غیراسلامی نظریہ ہے ۔

(36 )مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا:
یہ بات بھی باطل ومردود ہے ۔ اس بات کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے ۔
طهّروا بيوتكم من نسيج العنكبوت ، فإنّ تركه في البيوت يورث الفقر .
ترجمہ : گھروں کو مکڑی کے جالوں سے صاف رکھا کرو کیونکہ مکڑی کے جالوں کا گھر میں ہونا افلاس کا باعث ہے۔
یہ بات تفسیر ثعلبی اور تفسیر قرطبی کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے مگر اس کی سند میں عبداللہ بن میمون القداح متروک متہم بالکذب راوی ہے ۔ " تهذيب التهذيب " (6 /44-45) .

(37 )رات کو جھاڑو لگانا:
رات ہو یا دن کسی بھی وقت جھاڑو لگاسکتے ہیں ، اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ ہی اس کام سے معصیت ہوتی ہے ۔ اس لئے رات کو جھاڑودینا تنگدستی کا سبب بتلانا توہم پرستی اور ضعف اعتقادی ہے ۔ مسلمانوں میں بریلوی طبقہ اس توہم کا شکار ہے ۔ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے ۔

(38 )اندھیرے میں کھانا:
ویسے اجالے میں کھائے تو اچھی ہے مگر کسی کو اجالامیسرنہ ہوسکے تو اندھیرے میں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ سورہ حشر میں ایک انصاری صحابی کا ذکر ہے جنہوں نے مہمان رسول ﷺکو اندھیرے میں مہمانی کرائی باوجودیکہ چراغ موجود تھا مگر انہوں نے بیوی کو چراغ بجھانے کہا تاکہ اندھیرے میں مہمان شکم سیر ہوکر کھائے اور میزبان بھوکا رہے ۔ اس منظر کو اللہ دیکھ رہا ہے اس نے آیت نازل کی :
ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة(الحشر:9)
ترجمہ : وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں گوخود کوکتنی ہی سخت حاجت ہو۔

(39 ) گھڑے میں منہ لگا کر پینا:
پانی کا کوئی بھی برتن ہو اگر منہ لگاکرپینا آسان ہو، اس کا حجم بڑا نہ ہویااس کا دہانہ کشادہ نہ ہوجس سے منہ میں مقدار سے زیادہ پانی جانے کا خطرہ ہوتو برتن سے منہ لگاکر پیاجاسکتا ہے ۔ متفق علیہ ایک روایت میں مشک سے منہ لگاکر پانی پینے کی ممانعت ہے ۔
وعن ابن عباس قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من قي السقاء(صحيح البخاری :5629 )
ترجمہ:اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشک کے دھانے سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے ۔
اس حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے مشک میں منہ لگاکر پانی پیا ہے۔
دخلَ عليَّ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فشرِبَ من في قربةٍ معلَّقةٍ قائمًافقمتُ إلى فيها فقطعتُهُ (صحيح الترمذي:1892)
ترجمہ: (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے لٹکی ہوئی مشک کے منہ سے پانی پیا، چنانچہ میں مشک کے منہ کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اور اس کو کاٹ لیا ۔
خلاصہ کے طورپہ یہ کہنا چاہوں گا کہ برتن چھوٹا ہو تو اس میں منہ لگاکر پانی پئیں ، بڑا ہو تو دوسرے چھوٹے برتن میں انڈیل کر پئیں اور اگر بڑے برتن سے پینے کی حاجت پڑجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

(40 )قرآن مجید نہ پڑھنا:

قرآن پڑھنے اور عمل کرنےکی کتاب ہے جو اس سے دوری اختیار کرتاہے وہ واقعی اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتاہے ۔ نبی ﷺ نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے اس سے ایمان میں زیادتی، علم وعمل میں پختگی اور زندگی کی تمام شئ میں برکت آتی ہے ۔ اس لئے قرآن پڑھنے کا معمول بنائیں اور سمجھ کر پڑھیں ۔جو بلاسمجھے پڑھتے ہیں وہ نزول قرآن کے مقصد سے بے خبراور تلاوت کے آداب سے ناواقف ہیں۔ 
مکمل تحریر >>