Monday, November 30, 2015

سڑی گلی لاش کو کیسے دفن کیا جائے ؟

سڑی گلی لاش کو کیسے دفن کیا جائے ؟
================
کبھی کبھی بعض حالات میں لاش کی شکل بگڑ جاتی ہے ، اس میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے اور سڑگل جاتی ہے ۔ اکسڈنٹ ہونے سے کبھی لاش اس طرح کٹ جاتی ہے کہ جمع کرنا مشکل ہوجاتاہے ، اسی طرح میت کی سرکاری کاروائی کے باعث زیادہ دن رکھنے پہ سڑ گل جاتی ہے ۔ یا پھر لاش انجان جگہ پہ بہت دن بعد ملی ہو تو اس میں بھی تعفن پیدا ہوجاتا ہے ۔
ایسے حالات میں لاش کو کیسے غسل دیا جائے گا؟
ان حالات کی دو صورتیں ہیں ۔
(1) اگر لاش کٹ پٹ گئی ہو تو سارے اعضاء جمع کئے جائیں گے اور انہیں غسل دیا جائے گا۔
(2) اور اگر لاش سڑ گل گئی ہو اور غسل دینے کا امکان نہ ہو تو تیمم کیا جائے گا ۔

واللہ اعلم

کتبہ


مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

مسجد میں غیر مسلم کا داخل ہونا

مسجد میں غیر مسلم کا داخل ہونا
===============
مسجد میں ضرورت کے تحت غیرمسلم کا داخل ہونا جائز ہے ۔ نبی ﷺ نے ثمامہ بن اثال کو اسلام لانے سے پہلے مسجد نبوی میں رسی سے باندھا تھا۔ اسی طرح ثقیف اور نجران کا وفد اسلام لانے سے پہلے مسجد میں داخل ہواتھا۔
اس لئے کسی ضرورت کے تحت مسجد میں غیر مسلم داخل ہوسکتا ہے ۔
مثلا
مسجد کی مرمت اور اس کی اصلاح کے لئے
مسجد میں پانی پینے کی غرض سے
دینی لکچر اور پروگرام میں شریک ہونے کے لئے وغیرہ

اگر ساتھ میں انہیں مسجد کے آداب بتا دئے جائیں تو بہتر ہے تاکہ وہ مسجد کے تقدس کی پامالی نہ کرے مثلا ساتر لباس پہن کر مسجد آنا، مسجد میں گندگی نہ پھیلانا، یہاں گندی بات نہ کرنا وغیرہ

واللہ اعلم

کتبہ

مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

دوران خطبہ عصا پہ ٹیک لگانے کا حکم

دوران خطبہ عصا پہ ٹیک لگانے کا حکم
============
ائمہ نے خطبہ کے دوران عصا کا استعمال مستحب قرار دیا ہے ، لیکن اگر ضعیف کو عصا کی ضرورت ہو ٹیک لگانے کے لئے استعمال کرسکتا ہے ورنہ عصا کا استعمال ضروری نہیں ہے ۔
بعض حدیث سے عصا رکھنے کا ثبوت ملتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے :
حديث الحكم بن حزن أن النبي صلى الله عليه وسلم قام يوم الجمعة (متوكئا على عصا أو قوس فحمد الله وأثنى عليه...) إلى آخر الحديث .
یعنی نبی ﷺ جمعہ کے دن عصا یا کمان پہ ٹیک لگاکر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی ۔
یہ ابوداؤد کی حدیث ہے ، اسے شیخ البانی ؒ نے صحیح ابوداؤد میں حسن قرار دیا ہے ۔

واللہ اعلم

کتبہ

مقبول احمد سفلی
مکمل تحریر >>

Sunday, November 29, 2015

از راہ ِتفریح تاش، لڈو، شطرنج وغیرہ کھیلنا

از راہ ِتفریح تاش، لڈو، شطرنج وغیرہ کھیلنا
==================
سوال:نماز اور دیگر ذمہ داریوں کا خیال رکھتے ہوئے،جواکے بغیر از راہ ِتفریح تاش، لڈو، شطرنج وغیرہ کھیلنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: امام بیہقی ؒکی شعب الایمان میں حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ شطرنج عجمیوں کا جواہے اور حضرت ابوموسیٰ فرماتے ہیں :'' شطرنج گناہگار کا کھیل ہے۔'' دوسری روایت میں ہیکہ اس بارے میں جب ان سے دریافت کیا گیا توکہا: ''یہ باطل ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو پسند نہیںکرتا۔'' صحیح مسلم میں حدیث ہے:

«من لعب بالنرد شير فکأنما صبغ يده في لحم خنزير ودمه» (حدیث۵۸۵۶) ''جو نرد شیر سے کھیلا،گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور اس کے خون میں ڈبو دیا۔ ''

اور امام مالک نے شطرنج کے کھیل کو گمراہی قرار دیا ہے۔ ( مرقاۃ :۷؍۳۳۸)

امام منذری فرماتے ہیں کہ ذھب جمهور العلماء إلی أن اللعب بالنرد حرام یعنی ''جمہور علماء کے نزدیک نرد سے کھیل حرام ہے۔'' (مرقاۃ:۸؍۳۳۳)


لہٰذا ایسے کھیلوں سے اجتناب ضروری ہے۔ منقول
مکمل تحریر >>

تلبینہ ایک مفید غذا ہے

تلبینہ ایک مفید غذا ہے
===========

مقبول احمد سلفی

تلبینہ کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے ، ان میں بخاری اور مسلم بھی ہیں۔ یہ ایک غذا ہے جو سوپ کی طرح  ہوتا ہے، جو آٹے اور چھان سے بنایا جاتا ہے، بسا اوقات اس میں شہد ملایا جاتا ہے، اسے تلبینہ اس لئے کہتے ہیں کہ اسکا رنگ دودھ جیسا سفید اور  دودھ ہی کی طرح پتلا ہوتا ہے۔بعض لوگ اسے جو کی کھیر بھی کہہ سکتے ہیں۔

طبی اعتبار سے اس کے متعدد فوائد بیان کئے جاتے ہیں ۔
یہ غذا غم ، مایوسی، کمردرد، خون میں ہیموگلوبن کی شدید کمی، پڑهنے والے بچوں میں حافظہ کی کمزوری، بهوک کی کمی، وزن کی کمی،کولیسٹرول کی زیادتی،ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر لیول کے اضافہ، امراض دل،انتڑیوں ،معدہ کے ورم ،السرکینسر،قوت مدافعت کی کمی،جسمانی کمزوری ،ذہنی امراض، دماغی امراض،جگر ، پٹھے کے اعصاب اور نڈھالی کے علاوہ دیگر بے شمار امراض میں مفید ہےاور یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جو میں دودھ سے زیادہ کیلشیم اور پالک سے زیادہ فولاد پایا جاتا ہےاس وجہ سے تلبینہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
تلبینہ سے متعلق چند احادیث دیکھیں :
(1)عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ مِنْ أَهْلِهَا فَاجْتَمَعَ لِذَلِكَ النِّسَاءُ ، ثُمَّ تَفَرَّقْنَ إِلا أَهْلَهَا وَخَاصَّتَهَا ،أَمَرَتْ بِبُرْمَةٍ مِنْ تَلْبِينَةٍ فَطُبِخَتْ ، ثُمَّ صُنِعَ ثَرِيدٌ فَصُبَّتْ التَّلْبِينَةُ عَلَيْهَا ، ثُمَّ قَالَتْ : كُلْنَ مِنْهَا ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول :التَّلْبِينَةُ مُجِمَّةٌ لِفُؤَادِ الْمَرِيضِ ، تَذْهَبُ بِبَعْضِ الْحُزْنِ (رواه البخاري:5101 و مسلم:2216 ) .
ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث  ہے کہ اگر ان کے خاندان میں فوتیدگی ہو جاتی تو اس  گھر میں خواتین جمع  ہو کر  [تعزیت کرتیں اور ]پھر اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتیں، صرف میت کے گھر والے اور انتہائی قریبی لوگ  رہ جاتے، تو وہ تلبینہ [دلیہ] بنانے کا حکم کرتیں، تو دلیہ بنایا جاتا، اور پھر ثرید [چوری] بنا کر اس پر تلبینہ ڈال دیا جاتا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: اہل میت کی خواتین  کو اس میں سے کھانے  کا  کہتی، اور انہیں بتلاتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: تلبینہ  مریض کے دل کی ڈھارس باندھنے کیلئے اچھا ہے، اس سے غم میں کچھ کمی آتی ہے۔

(2)وعن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ تَأْمُرُ بِالتَّلْبِينِ لِلْمَرِيضِ وَلِلْمَحْزُونِ عَلَى الْهَالِكِ ، وَكَانَتْ تَقُولُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:إِنَّ التَّلْبِينَةَ تُجِمُّ فُؤَادَ الْمَرِيضِ ، وَتَذْهَبُ بِبَعْضِ الْحُزْنِ (رواه البخاري :5365 و مسلم :2216 ) .
ترجمہ :حضرت عائشہ رضى اللہ عنها بیماروں اور ایسے افراد جو کسی میت کے غم سے دوچار ہوں، کو تلبینہ کهانے کی تلقین فرمایا کرتی تهیں اور فرمایا کرتیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تلبینہ مریض کے دل کو آرام دیتا ہے، اسے چست بناتا ہے اور اسکے غم اور دکھ کو دور کرتا ہے-

(3)كان إذا أخذ أهلَه الوَعَكُ أمر بالحساءِ فصُنِعَ ، ثمَّ أمرهم فحَسَوْا ، و كان يقول : إنَّهُ ليرتو فؤادَ الحزينِ ، و يَسْرُو عن فؤادِ السقيمِ ، كما تَسْرُو إحداكُنَّ الوسخَ بالماءِ عن وجهِها۔(مشکوۃ)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا کہ اس کیلئے تلبینہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ تلبینہ بیمار کے دل سے غم کو اُتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو یوں اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کراس سے گندگی اُتار دیتا ہے۔
٭ شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔(صحیح الجامع : 4646)

(4) أنها كانت تأمُرُ بالتَّلبينَةِ وتقولُ : هو البَغيضُ النافعُ ۔( بخاری: 5690)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار کیلئے تلبینہ تیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگرچہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن وہ اس کیلئے ازحد مفید ہے۔
اس سلسلے میں بعض ضعیف روایات بھی ہیں مگر مذکورہ بالا ساری احادیث صحیح ہیں۔ اس تمام احادیث سے تلبینہ کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ، ابن القیم ؒ لکھتے ہیں کہ اگر تم تلبینہ کی فضیلت جاننا چاہتے ہو تو جوکا پانی (ماء الشعیر) کی فضیلت جان لو۔
ماءالشعیر اور تلبینہ میں فرق یہ ہے کہ ماءالشعیر میں جو مسلم پکایا جاتا ہے اور تلبینہ میں جو کا آٹا پکایا جاتا ہے اور تلبینہ ماءالشعیر سے زیادہ مفید ہے اس لیے کہ پیسنے کی وجہ سے جو کی خاصیت نمایاں ہوجاتی ہے۔
جدید طب کی روشنی میں متعدد فوائد کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، حدیث کی روشنی میں ایک اہم بات جو کہ صحیحین کی حدیث میں مذکور ہے وہ آپ ﷺ کا قول ”مجمتة لفواد المریض“جس کے معنی مریض کے لیے آرام دہ یعنی تلبینہ مریض کے دل کے لئے فرحت بخش ہے۔
کہا جاتا ہے کہ غم و حزن سے مزاج اور روح میں تبرید پیدا ہوتی ہے اور حرارت غریزی کو کمزور کردیتا ہے اس لئے کہ حرارت غریزی کی دوش بردار روح قلب کی جانب سے مائل ہوتی ہے جو روح کا منشا و مولد ہے اور یہ تلبینہ حرارت غریزہ کے مادہ میں اضافہ کرکے اس کو تقویت بخشتا ہے اس طرح سے غم و حزن کے اکثر اسباب و عوارض کو زائل کردیتا ہے۔
اور کسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض مفرح دوائیں ہوتی ہیں جن سے طبیعت خوش اور رنج و غم دور ہوجاتا ہےان میں سے یہ بھی ہے  ۔

تلبینہ بنانے کا طریقہ
دو لیٹر دودھ آگ پہ اچھی طرح ابال لیں ،  اس میں میٹھے کے طور پہ شہد یا کھجور کا استعمال کرسکتے ہیں۔ کجھور ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر دن میں تلبینہ بنانا ہو تو رات میں ہی کھجور کو تھوڑے سے نیم گرم پانی میں بھگودیں تاکہ دن ہونے تک وہ نرم ہوجائے اور شیرہ کی شکل اختیار کرلے ۔دو لیٹر دودھ کے لئے دس پندرہ عدد کھجور کافی ہے ۔
 دودھ ابل جانے کے بعد اس میں لگ بھگ دوسو گرام جو(شعیر)بغیر چھلکے والا ڈالیں۔  اگر خوشبو چاہئے توساتھ میں  چند عدد الائچی بھی ڈال دیں ۔ جو اور الائچی ڈال کر بیس سے پچیس منٹ تک دودھ کے ساتھ مسلسل ہلاتے رہنا ہے تاوقتیکہ دودھ کا پانی خشک ہوجائے اور گاڑھا ہوجائے ۔ پھر اس میں شہدڈالنا ہو ذائقہ کے مطابق شہد ڈال دیں  یا کھجور ڈالنا ہو تو رات والا بھگویا ہوا کھجور ڈال  دیں اور مزید دس منٹ کے آس پاس آگ ہلکی کرکے پکنے دیں اور اچھی طرح بھون لیں تلبینہ تیار ہوجائےگا۔ اب کچھ لوگ اوپری پرت پہ کاجو یا بادام کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر رکھ دیتے ہیں اس میں ذائقہ اور بھی بڑھ جاتا ہے ۔

بر ت کے دیکھیں ۔






مکمل تحریر >>

حمل میں دو طلاق دی پھر رجوع کرلیا




سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ہذا کے سلسلے میں کہ سنبل حنیف (حالیہ مقیم امریکہ) کے شوہر فواد مجید نے آج سے تقریبا چار ماہ قبل حالت حمل میں ایک ساتھ دو طلاقیں دی ، پھر دودن بعد شوہر نے رجوع کرلیا۔ اور ہفتہ دن بعد اس سلسلے میں فتوی منگاکر اطمینان بھی کرلیا گیا۔ پھر دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی ایک ساتھ پہلے کی طرح زندگی بسر کرنے لگے ۔ درمیان میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں آئی ۔ اس وقت کچھ دنوں سے فواد مجید کے والد جو امریکہ میں ہی مقیم ہیں کہنے لگے کہ میں نے پاکستان سے فتوی منگایا ہے جس کی روشنی میں میان بیوی کے درمیان طلاق ہوچکی ہے ، اب یہ دونوں اکٹھا نہیں رہ سکتے کہہ کر میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے کے لئے زبردستی کر رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حل ہے ؟
سائل : راجہ کمال پاکستان کمیونٹی طائف ، سعودی عرب
الجواب بعون الوھاب بشرط صحۃ السوال
صورت مذکورہ کی روشنی میں سنبل حنیف کو حالت حمل میں دی گئی دو طلاقوں میں سے ایک ہی طلاق واقع ہوئی تھی کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے گرچہ دو یا تین طلاق دی گئی ہو۔
حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اس کی دلیل:
«عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ وَهِیَ حَائِضٌ ، فَذَکَرَ «عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ» ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ،فَقَالَ «لَهُ»: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِیَ طَاهِرٌ أَوْ حَامِلٌ» (نسائى)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی پس یہ بات حضرت عمر نے نبیﷺ کو بتائی تو رسول اللہﷺنے عمر کو فرمایا کہ اسے حکم دیں کہ وہ رجوع کرے پھر حالت طہر یا حمل میں طلاق دے۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( صحیح النسائی : 12244)
ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ، اس کی دلیل : اللہ تعالی کا فرمان:
الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان (سورہ بقرہ : 229)
ترحمہ: طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد پھر نیکی کے ساتھ لوٹا کے رکھنا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑدینا ہے-
یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ ایک  وقت میں ایک ہی طلاق ہوگی، نہ دو، نہ تین کیونکہ "مرّتان" کا اطلاق "مرۃ بعد مرۃ" یکے بعد دیگرے پر ہوتا ہے۔
سيدنا رکانہ بن عبد یزید  نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس  فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ  نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد)
یہاں یہ بھی واضح رہے گوکہ اس مسئلہ میں فقہاءکے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے مگر راحج یہی ہے کہ اگر شوہر عدت کے دوران دوسری اور تیسری طلاق دے تو ایک ہی طلاق مانی جائے گی ۔
جیساکہ سوال میں ذکر ہے کہ شوہر فواد مجید نے بیوی سے دو دن بعد رجوع کرلیا تھا اس لئے اب میاں بیوی کے درمیان کوئی معاملہ نہیں ہے ، بیوی ابھی بھی فواد مجیدکی  زوجیت میں باقی ہے۔ فواد مجید کے والد کا طلاق کا بہانہ بناکر میاں بیوی میں زبردستی جدائی کرنے کی کوشش کرنا از قبیل شرع حرام ہے ، انہیں اس کام سے باز آنا چاہئے ۔
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ /مقبول احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف مسرہ







مکمل تحریر >>

Thursday, November 26, 2015

قرآن کی تعظیم برصغیر اور حرمین شریفین کے تناظر میں​

قرآن کی تعظیم برصغیر اور حرمین شریفین کے تناظر میں

تحریر: مقبول احمد سلفی


سوال : برصغیر پاک و ہند میں مصحف قرآن کے جو ”آداب“ ہمیں نظر آتے ہیں، وہ حرمین شریفین میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں نظر نہیں آتے؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا ہم اُنسے زیادہ آداب قرآن کے قائل ہیں یا وہ لوگ (خدا نخواستہ) قرآن کا ادب کرنے کے قائل نہیں ؟ سائل : یوسف ثانی پاکستان، سینئر رکن محدث فورم


الجواب بعون اللہ الوھاب

الحمد للہ

سب سے پہلے تو یہ علم میں رہے کہ ایک مسلمان کے لئے چاہے کہیں کا بھی ہو قرآن کی تعظیم واجب اور اس کی اہانت حرام ہے ۔ آپ نے کہا کہ برصغیر میں قرآن کا جو ادب نظر آتا ہےوہ حرمین شریفین میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟

اس بات کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟

چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ( الانعام : 19)
ترجمہ :آپ کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے ، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں، کیا تم سچ مچ یہی گواہی دوگے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا ۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں تمہارے شرک سے بیزارہوں۔ 

قرآن کے نزول کا مقصدمعرفت الہی ہےیعنی رب کی بندگی کے واسطے قرآن اتارا گیا یا یہ کہیں کہ قرآن اس لئے اتارا گیا تاکہ اس پہ عمل کیا جائے ۔
اب اس مقصد کے پس منظر میں برصغیر اور حرمین شریفین کے لوگوں میں قرآن کے آداب کا موازنہ پیش کرتا ہوں۔

برصغیر ہندوپاک کے آداب قرآنی :
٭ہمارے یہاں قرآن کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے ، اسی سبب یہاں قرآن کا سب سے زیادہ استعمال تعویذ کے لئےکیا جاتا ہے ۔
٭مردو خاتون اس تعویذ کو گلا، بازو، کمراور ران پہ باندھتے ہیں۔
٭قرآنی تعویذ لٹکاکر حمام تشریف لے جاتے ہیں۔
٭تعویذ کے ذریعہ قرآن کی آیات سے کھلواڑ کیا جاتاہے ، تعویذ پہ قرآنی آیات الٹے ،سلٹے، یا ابجد ی شکل میں لکھے جاتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کو الگ الگ بیماریوں کے لئے خاص کردیا گیا ہے۔
٭ قرآن کا دوسرا سب سے بڑا استعمال مکان ودوکان کی برکت اور میت کے ایصال ثواب کی غرض سے قرآن خوانی میں اجتماعی شکل میں کیا جاتا ہے جوکہ بدعت لاشکہ ہے ۔
٭قرآن کا ادب کرنے کے لئے اسے دھوکے پیا جاتا ہے اور اسے چوماچاٹا جاتا ہے ۔
٭قرآن کو خوبصورت جزدان میں پیک کرکے سب سے اوپری جگہ پہ رکھنے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اسے کم سے کم اتارا جائے گا اور کم سے کم پڑھا جائے گاکیونکہ اس میں مشقت کے ساتھ تکلف بھی ہے ، اس طرزعمل کو ہمارے یہاں سب بڑا ادب مانا جاتا ہے۔
٭قرآن کو نیچے رکھنا ، بغیر جزدان کے رکھنا، قرآن کو پیچھے رکھنا، قرآن کے پیچھے قرآن پڑھنا، ہاتھ میں اٹھا کے قرآن پڑھنا، ران پہ رکھ کے قرآن پڑھنا، اذان و اقامت کے دوران قرآن پڑھنا، سمجھ کر قرآن پڑھنایہ سب قرآن کی توہین سمجھی جاتی ہے ۔
٭ ہمیں برصغیرمیں قرآن کی بہت تعظیم نظر آتی ہے مگرحقیقت میں یہاں کے لوگ قرآنی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، اگر واقعی قرآن کا ہم ادب کرتے تو کبھی بھی ہمارے اندر غیراللہ سے فریاد، عبادت میں شرک اور قرآنی تعلیمات سے بے اعتنائی نہیں پائی جاتی ۔ 

اب ہم حرمین شریفین میں نزول قرآن کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی آداب دیکھتے ہیں۔

٭حرمین والے اپنی مساجد میں بے شمار تعداد میں مصاحف رکھتے ہیں تاکہ ہرنمازی قرآن کی تلاوت کرسکے ، یہاں دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ لوگ جب بھی مسجد آتے ہیں، سنت و تحیہ المسجدپڑھنے کےبعد تلاوت قرآن میں لگ جاتے ہیں چاہے جماعت میں چند منٹ ہی کیوں نہ باقی ہو۔
٭حرمین شریفین کے لوگ قرآن کو ہمیشہ اپنی زندگی کا ایک حصہ بنائے رکھتے ہیں، اسی لئے تو ان کی جیب میں، گاڑی میں، دفترمیں اور مساجد و مدارس میں جہاں بھی رہے قرآن سے جڑے رہتے ہیں۔
٭ قرآن کو اتنی اونچی جگہ نہیں رکھتے کہ پڑھنے کے لئے سوبار سوچنا پڑے اور اتارنے کے لئے ٹیبل یا سیڑھی لگانی پڑے ۔
٭ برصغیر میں شاید بایدکوئی آفسوں میں قرآن پڑھتا ہوگامگر یہاں آفسوںمیں بھی قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے ۔
٭ قرآن کی تعظیم یہاں اس قدر ہے کہ مدرسوں سے فارغ ہوتے ہوتے بچے حافظ قرآن ہوجاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہہ لیں ایک عام سعودی کو جتنا قرآن یاد ہوتا ہے ہمارے یہاں کےاکثر عالمکو بھی اتنا یاد نہیں ہوتا۔
٭مساجد میں قرآن کا درس، اور تحفیظ کے بے شمار حلقات قائم کئے جاتے ہیں، ملکی پیمانے پہ تحفیظ القرآن الکریم کا ادارہ چلایا جاتاہے جس کی شاخیں پورے ملک میں پائی جاتی ہیں۔
٭ جب جس وقت موقع مل جائے ہاتھ میں قرآن اٹھاکرتلاوت شروع کردیتے ہیں، ریحل تلاشنےیاٹیبل ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔
٭یہاں اس قدر قرآن عام ہونے کے باوجود قرآن خوانی، قرآنی تعویذکے شرک وبدعات نہیں پائے جاتے، نہ ہی کوئی اسے چومتا اور پانی میں گھول کے پیتا ہےکیونکہ ایسا کرنا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے ۔ شرعی دم کے لئے قرآن کا بقدر ضرورت استعمال کیا جاتا ہے ۔
٭ یہاں قرآن پڑھاجاتاہے ، سمجھاجاتا ہے اور اس پہ عمل کیا جاتاہے ۔ اس لئے تو یہاں مزارتو کیا شرک کی بدبو بھی نہیں پائی جاتی ۔

ویسے تو اس قسم کی سیکڑوں مثالیں ہیں مگر یہاں میں چند باتوں کے ذکر پہ ہی اکتفا کرتاہوں اورفیصلہ آپ کے ذمہ چھوڑتا ہوں کہ کون قرآن کی سچی تعظیم کرتا ہے ، برصغیر کے لوگ یا حرمین شریفین والے ؟ 

اپنے خیالات کا اظہار ضرور فرمائیں۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, November 25, 2015

بلا وضو قرآن کی تلاوت

بلا وضو قرآن کی تلاوت
=============

دلائل کی روشنی میں قرآن بلا وضو پڑھنے کا جواز نکلتا ہے ، اور جہاں قرآن بغیر وضو کے اور بغیر چھوئے پڑھ سکتے ہیں ، وہیں بلاوضو قرآن چھوکر بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بلاوضو قرآن پڑھنے کے جوبھی دلائل ہیں ، ان میں چھونے کا ذکر نہیں ہے ۔ چلیں دیکھتے ہیں ، اس بات کی کیا حقیقت ہے ۔
صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث ہےجسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوئے ہوئے تھے، جب اُٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔
(صحیح بخاری مع الفتح ١۱/ ٣٤٣۳۴۳،۳۴۴٣٤٤)۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تلاوت کی اور وضو بعد میں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر دیکھیں : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَی وُضُوئٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاکَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ ۔
ترجمہ : محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضوکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا؟
حوالہ : موطاامام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت۔

اس اثر سے یہ پتا چلتا ہے کہ لوگوں میں قرآن بلاوضو نہ پڑھنے کی غلط فہمی پہلے سے پائی جاتی ہے ۔ اسی سبب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس جھوٹ کا انتساب مسیلمہ کی طرف کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے یہ بات جھوٹ ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تلاوت الگ چیز ہے اور چھونا الگ چیز ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ تلاوت ایک چیز ہے اور مس ایک چیز ہے مگر تلاوت کے حکم سے مس کا بھی جواز ملتا ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت کا ہمیں حکم ملا ہے اور تلاوت شامل ہے مس اور غیر مس دونوں کو ۔ اگربلاوضو چھوکر تلاوت کرنے کی ممانعت مانی جائے تو اس کے لئے صریح اور صحیح نص چاہئے ۔

ایک اور عقلی بات: قرآن پوری کائنات کے لئے آیا چاہے مسلم ہو یا کافر۔ اگر بغیر وضو کے چھونے کی ممانعت ہوتی تو مذہب اسلام پوری دنیا میں نہیں پھیل پاتا کیونکہ دین کا دارومدار قرآن پہ ہے ۔ اور آپ ﷺ نے غیرمسلم بادشاہوں کو خطوط لکھے جس میں قرآن کی آیات بھی تھیں ۔ اگر قرآن بغیر وضو کے چھونا منع ہوتا تو نبی ﷺ کبھی بھی غیرمسلم کو خط میں قرآنی آیات نہ لکھتے ۔


واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

Tuesday, November 24, 2015

حضرت لقمان کون تھے ؟

حضرت لقمان کون تھے ؟
=============

حضرت لقمان کے ناصحانہ کلام لوگوں میں بہت مشہور ہیں ، اس وجہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ اللہ کے نبی و رسول تھے ؟
جواب میں عرض کرنا چاہوں گا کہ واقعی لقمان کی باتیں بڑی حکیمانہ ہیں اس لئے لوگوں میں آپ لقمان حکیم سے معروف ہیں۔
جہاں تک آپ کے متعلق نبی ہونے کا سوال ہے تو اس میں اہل علم کا اختلاف پایا جاتاہے ، بعض اہل علم نبی کہتے ہیں جبکہ جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ آپ اللہ کے ولی ہیں ۔ اور یہی قول راحج ہے ۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ(سورہ لقمان:12)
ترجمہ: اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر کر ہر شکر کرنے وا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وه جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں وا ہے۔

جن بعض مفسرین نے نبی ہونا لکھا ہے ان سے اکثر مؤرخین، اہل سیر اور مفسرین اتفاق نہیں کرتے، اور یہ قرآن کے خلاف بھی ہے ۔ گویا حضرت لقمان نبی نہیں تھے بلکہ اللہ کے نیک بندہ اور ولی تھے ، اللہ تعالی نے آپ کو حمکت و دانائی سے نوازاتھا۔

واللہ اعلم

مقبول احمد سلفی

            
مکمل تحریر >>

اذان کے وقت بات کرنا

اذان کے وقت بات کرنا
==============
م
حترم جناب مقبول احمد صاحب السلام علیکم گذارش ہے کہ آپ کی ویب سائٹ بلاگ سے حاصل شدہ تصویر آپ کو ارسال کر رہا ہوں ،آپ سے گذارش ہے کہ قرآن و احادیث کے واضح حوالہ جات کی روشنی میں دوران اذان بات چیت ،درس و تدریس کی اجازت کے مسئلہ کے بارے میں اظہار خیال فرمائیں .

سوال : کیا دوران اذان تعلیم وتدریس کا عمل جاری رکھا جا سکتا ہے ؟اگر ہاں آیت قرآن یا حدیث یا صحابہ کے عمل کے بارے میں صحیح اسناد سے معلومات دیں تاکہ معاملہ کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
 آپ کی راہنمائی کا منتظر
 کے-مشتاق احمد اسلام آباد

الجواب بعون اللہ الوھاب

 اس میں کوئی شک نہیں کہ افضل یہی ہے کہ اذان کے وقت خاموشی اختیار کی جائے اور بغور اذان سنی جائے اور اس کا جواب دیا جائے ۔ مگر عقلی اور نقلی دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ ضرورتا اذان کے دوران بات کرنا جائز ہے ۔ مثلا درس و تدریس ہو، کسی کو ضرورتا مخاطب کرنا ہو یاکوئی کام سوپنا ہویا پھر کوئی کام ہی کیوں نہ ہو وغیرہ ۔

دلائل ملاحظہ ہوں۔

(1) اولا بات کرنا ایک جائز عمل ہےاس کی ممانعت کہاں کہاں ہے اسلام نے وضاحت کردی ہے ، اذان وہ مقام نہیں جہاں اسلام نے بات کرنے سے منع کیا ہو۔

(2) ثانیا اذان کے وقت بات کرنے کی صریح دلیل ملتی ہے ، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے : "باب الكلام في الأذان" یعنی باب : اذان کے دوران بات کرنے کے بیان میں
اور اس بات کے تحت مندرجہ ذیل نصوص ذکر کرتے ہیں۔

وتكلم سليمان بن صرد في أذانه. وقال الحسن لا بأس أن يضحك وهو يؤذن أو يقيم. ترجمہ : اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن أيوب، وعبد الحميد، صاحب الزيادي وعاصم الأحول عن عبد الله بن الحارث قال خطبنا ابن عباس في يوم ردغ، فلما بلغ المؤذن حى على الصلاة. فأمره أن ينادي الصلاة في الرحال. فنظر القوم بعضهم إلى بعض فقال فعل هذا من هو خير منه وإنها عزمة.
ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی اور عبدالحمید بن دینار صاحب الزیادی اور عاصم احول سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن حارث بصری سے، انھوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے اس سے الصلوٰۃ فی الرحال کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انھوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔
پہلے نص میں دوران اذان ہنسنے کا ذکر ہے ، یہ بھی ایک عمل ہے ، اتفاقا اگر کوئی دوران اذان ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح دوسرے نص میں دوران اذان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے باقاعدہ کلام ثابت ہے ۔ معلوم ہوا کہ ایسے خاص موقع پر دوران اذان کلام کرنا درست ہے۔

(3) ثالثا اذان ہوتے وقت اس کا جواب زبان حال سے دینا ہے ، اور کلام کا تعلق زبان قال سے ہے ۔ ایک آدمی بات کرتے ہوئے بھی اذان کا جواب دے سکتا ہے ۔

(4) اہل علم سے دوران اذان کلام کرنا بھی منقول ہے ، اور اس پہ جید علماء کے فتاوے بھی ہیں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اذان کے دوران اور اس کے بعد کلام کرنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مؤذن اور اس کا جواب دینے کے لئے  سنت یہ ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے۔ (کلام کا جزء)

(5) لوگوں میں اذان کے دوران بات کرنے کا خوف جھوٹی روایات منتشر ہونے کی وجہ سے ہے ۔جیساکہ لوگوں میں مشہور ہے :"اذان کے وقت بات کرنے موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا"۔ یہ جھوٹی بات ہے ، اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ :"اذان کے وقت بات کرنے والے پہ فرشتوں کی لعنت ہوتی ہے"۔ یہ بھی جھوٹی اور گھڑی ہوئی بات ہے ۔ اس لئے ان باتوں کو نبی ﷺ کی طرف قطعی منسوب نہ کریں۔

خلاصہ کلام ضرورت کے تحت دوران اذان بات کرسکتے ہیں مگر یاد رہے اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اذان ہوتے وقت فضول باتیں کی جائیں ۔ کتنے تعجب کی بات ہے لوگ اذان کے وقت بات کرنے سے ڈرتے ہیں مگر اس وقت برائی کرنے سے نہیں ڈرتے ، یا اذان کی پکار پہ مسجد کو نہیں جاتے جو کہ فریضہ ہے ۔
فاعتبروا یااولی الالباب

آپ کا بھائی
مقبول احمد سلفی

دفترتعاونی برائے دعوت و ارشاد شمال طائف (مسرہ) سعودی عرب
مکمل تحریر >>