Tuesday, October 27, 2015

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں زلزلہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں زلزلہ
====================

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مدینے میں نبی ﷺ کے زمانے میں کبھی زلزلہ نہیں آیا۔ زلزلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں آیا۔ مصنف وغیرہ میں مذکور ہے :
عن نافع عن صفية قالت : زلزلت الأرض على عهد عمر فخطب الناس فقال : لئن عادت لأخرجن من بين ظهرانيكم۔(روى ذلك ابن أبي شيبة في المصنف2/358)
ترجمہ : نافع نے صفیہ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا کہ عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں زمیں ہلادی گئی (زلزلہ آیا) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر دوبارہ زلزلہ آیا تو تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا۔
ابن الجوزی نے المنتظم میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ بیس ہجری کا ہے ۔




والله أعلم .


مکمل تحریر >>

علاج سے متعلق چند احادیث کا حکم




علاج سے متعلق چند احادیث کا حکم
=====================
مجھے علاج سے متعلق چند احادیث پہ مشتمل ایک امیج ملا ہے ، لوگوں کی معلومات کی خاطر ان احادیث کا حکم بیان کر دیتا ہوں۔ 

(1) كلوا التِّينَ ، فَلو قلتُ : إنَّ فاكِهَةً نزَلت منَ الجنَّةِ بلا عَجمٍ لقُلتُ هيَ التِّينُ وإنَّهُ يذهبُ بالبواسيرِ ، وينفعُ منَ النِّقرِسِ(ضعیف الجامع للالبانی: 4201)
مفہوم حدیث : انجیر کھاؤ ، اس سے بواسیر ختم ہوجاتا ہے اور جوڑوں میں مفید ہے ۔ 
حکم : اس روایت شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ 

(2) سنترے والی کوئی صحیح یا ضعیف روایت مجھے نہیں ملی۔ 

(3) ما كانَ يَكونُ برسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ قُرحةٌ ، ولا نَكْبةٌ إلَّا أمرَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ أن أضعَ علَيها الحنَّاءَ (صحیح الترمذی لالبانی : 2054)
مفہوم : نبی ﷺ کو کوئی کوئی تکلیف یا زخم پہنچتا تو آپ اس پر مہندی لگانے کا حکم دیتے ۔
حکم : اس روایت کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ 

(4)  إذا حُمَّ أحدُكم فلْيَسُنَّ عليه الماءُ الباردُ ثلاثَ لَيالٍ منَ السَّحَرِ( السلسلۃ الصحیحۃ : 1310
مفہوم: اگر کسی کو بخار لگ جائے تو اس پر تین راتوں تک (فجر کے وقت) پانی چھڑکا جائے ۔
حکم : اس روایت کو شیخ البانی نے سلسلہ صحیحہ میں ذکر کیا ہے ۔ 

(5) عليكم بالرُّمَّانِ فكلوهُ بشحمِهِ فإنَّهُ دِباغُ المعِدَةِ (الکامل فی الضعفاء 4/224)
مفہوم : تم انار کو اس کے چھلکے سمیت کھاؤ کیونکہ وہ معدے کی صفائی کرتا ہے ۔
حکم: یہ ضعیف روایت ہے ۔

(6)كلوا التمر على الريق فإنه يقتل الدود.(قال الألباني في سلسلة الأحاديث الضعيفة 1 / 403
مفہوم : نہار منہ کھجور کھاؤ کیونکہ یہ کیڑا کو مارتاہے ۔ 
حکم : یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک ضعیف ہے ۔ 

(7) عن عروة عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه و سلم-: «إن الخاصرة عرق الكلية، إذا تحرك آذى صاحبها، فداووها بالماء المحرق والعسل»(قال الشيخ الألباني: ضعيف، السلسلة الضعيفة 3/ 368، برقم 1223
مفہوم : پہلو کے درد کا سبب گردے کی نس ہے ، جب وہ حرکت کرتی ہے تو آدمی کو تکلیف ہوتی ہے ۔ اس کا علاج گرم پانی اور شہد سے کرو۔ 
حکم : یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک ضعیف ہے ۔ 


تحقیق : مقبول احمد سلفی 


مکمل تحریر >>

برصغیر میں ختنہ پر تقریب کا اہتمام اور مروجہ رسومات

برصغیر میں ختنہ پر تقریب کا اہتمام اور مروجہ رسومات
================

ہندوستان و پاکستان میں عام طور پر غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں بچہ کے ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر بعض بُری رسومات دیکھنے میں آتی ہیں۔مثلاً ناچ رنگ و ڈھول، گانے باجے یا مجلس میلاد کا اہتمام، گھوڑے پر بچہ کو سوار کرا کر کسی مسجد یا بزرگ کے مزار تک لے جانا، بچہ کے سر پر پھول و سہرا باندھنا، نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے چہرے پرکالا ٹیکہ لگانا، منت کے طور پر لڑکے کے کان چھیدنا، سرخ و پیلے رنگ یا کالے رنگ کا دھاگا گلے میں لٹکانا یا بازو اور کمر پرباندھنا، کوئی سکہ یا ہڈی کا ٹکڑا یا لوہے یا چاندی یاسونے کا چاقو گلے میں لٹکانا، بچہ کے سر کے چاروں طرف روپیہ کئی بار گھما کر اس کا صدقہ اور بلائیں اتارنا، بچہ کے بازو پر امام ضامن باندھنا، کمر میں پٹہ اور تلوار لٹکانا، نیاز و فاتحہ کرنا اور اس کی شیرینی تقسیم کرنا وغیرہ، یہ سب غیر شرعی اور جاہلانہ رسوم و اختراعات ہیں۔ ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے2۔البتہ ختنہ کے موقع پراللہ کے نام پر ذبیحہ کرکے دوست و احباب اور اعزاء و اقرباء کی دعوت (جس کو طعام الغدیرہ یا طعام الختان بھی کہتے ہیں) کے اہتمام اور فقراء و مساکین میں اس کا صدقہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


منقول
مکمل تحریر >>

Monday, October 26, 2015

زلزلہ کے وقت کی دعا

زلزلہ کے وقت کی دعا
=============

مقبول احمد سلفی

زلزلہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ، اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو خبردار کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کے احکام کی طرف لوٹ جائے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرلے ۔ اگر پھر بھی وہی روش رہی تو اللہ اس سے دوگنا عذاب مسلط کردیتا ہے ۔
آج کل آئے دن زلزلے دیکھنے کو ملتے ہیں اور ایک ساتھ کئی کئی مقامات پہ بھی اور لمحوں میں لاکھوں کی تعداد صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں ہمیں کثرت سے توبہ و استغفار ، صدقہ، دعا اور ذکرالہی کرنا چاہئے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
 "فإذا رأيتم ذلك فافزعوا إلى ذكر الله ودعائه واستغفاره" (متفق عليه)
ترجمه: اگر تم اس طرح کی کوئ چيز دیکھو تو اللہ تعالی کے ذکر اوراس سے دعا واستغفار میں جلدی کیا کرو ۔

نبی ﷺ سے زلزلہ کے وقت کوئی خاص کرنا ثابت نہیں ہے ، ہم کوئی بھی دعا کرکے اللہ تعالی سے عافیت کا سوال کرسکتے ہیں ۔
بعض لوگ ایسے موقع سے عوام کو کچھ خاص دعائیں سکھاتے ہیں اور اسی کا ذکر کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔
(1) ان میں سے ایک دعا یہ ہے ۔
"أستغفرُ اللهَ الذي لا إلهُ إلَّا هو الحيُّ القيومُ و أتوبُ إليهِ" تین بار
یہ دعا نبی ﷺ سے ثابت ہے جیساکہ حدیث ہے ۔
مَنْ قال : أستغفرُ اللهَ الذي لا إلهُ إلَّا هو الحيُّ القيومُ و أتوبُ إليهِ ، ثلاثًا ، غُفِرَتْ لهُ ذنوبُهُ ، و إن كان فارًا مِنَ الزحفِ(السلسلۃ الصحیحہ :2727)

(2) اسی طرح قرآن کی یہ آیت :
فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ(یوسف: 64)

ان کے علاوہ کئی ایک اذکار بیان کئے جاتے ہیں ، کچھ تو مسنون ہوتے ہیں اور کچھ من گھرنت ، حاصل کلام یہ ہے کہ زلزلہ کے وقت کوئی بھی دعا پڑھی جاسکتی ہے ، کسی دعا کو خاص کرنا صحیح نہیں ہے خصوصا جو دعا نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو اسے آپ ﷺ کی طرف منسوب کرنا باعث گناہ ہے ۔
لہذا قرآن و حدیث سے ثابت شدہ دعائیں پڑھیں یا اپنی زبان میں اللہ تعالی سے دعا و استغفار کریں اور اگر کوئی دعائیہ کلام ہو جو نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو اسے بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس کا انتساب نبی ﷺ کی طرف کرنا جائز نہیں ہے ۔

واللہ اعلم 




مکمل تحریر >>

کسی خاص آدمی کی طرف مسجد کی نسبت

کسی خاص آدمی کی طرف مسجد کی نسبت
===============
مقبول احمد سلفی

بعض اہل علم نے کسی معین شخص کے نام سے مسجد بنانے یا اس کی طرف مسجد کو منسوب کرنا مکروہ قرار دیا ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک مسجد کا انتساب کسی فرد معین کی طرف کرنا جائز ہے بلکہ ایک مسجد کو دوسرے مساجد سے ممیز کرنے کے لئے انبیاء کرام ، علمائے عظام، متقین و صالحین یا قبائل کی طرف منسوب کرنے میں جمہور کے نزدیک وسعت خیالی پائی جاتی ہے اور اس میں صراحۃ علت قادحہ نہیں پائی جاتی ۔
قرآن کریم میں موجود ہے َ
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُو مَعَ اللَّهِ أَحَداً}[الجن:18].
ترجمہ : اور یہ مساجد اللہ کے گھر ہیں ، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔
اس لئے واقعتا مساجد اللہ کا گھر اور اللہ کی ملکیت ہیں مگر تعارف کے لئے مسجد کو کسی فرد کی طرف منسوب کرنا یا مسجد بنانے والے کی طرف انتساب کرنا تاکہ لوگ اسے دعا دیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اور اس کے جواز کے دلائل بھی ملتے ہیں ، چنانچہ مساجد کے متعلق تحقیق کرنے سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں۔
(1) مسجد بنانے والے کی طرف انتساب : یہ جائز ہے جیساکہ مدینہ طیبہ کی مسجد نبی ﷺ کے نام سے موسوم ہے ۔
(2) قبائل یا جماعت کی طرف انتساب: یہ بھی جائز ہے مثلا مسجد قبا جو مدینے میں ہے ، مسجد بنی زریق جس کا ذکر صحیحین میں ہے اور مسجد السوق جس کا ذکر ترجمۃ البخاری میں ہے ۔
(3) مسجد کا کسی وصف کی طرف انتساب : یہ بھی جائز ہے مثلا المسجد الحرام اور المسجد الاقصی وغیرہ
(4) مسجد کا غیر حقیقی نام کی طرف انتساب: یہ اس زمانے میں بکثرت موجود ہے کیونکہ مساجد کی بتہات ہوگئی ہے ، ایک ہی بستی میں کئی کئی مساجد ہیں ۔ مثلا مسجد ابوبکر، مسجد عمر، مسجد عثمان ارو مسجد علی رضی اللہ عنہم ۔
(5) اللہ کی طرف مسجد کا انتساب: مسجد کو اللہ کی طرف منسوب کرنا بھی آج کل پایا جاتا ہے جیساکہ مسجد القدوس، مسجد السلام، مسجدالرحمن ، حالانکہ مساجد اللہ ہی کے گھر ہیں اسے اختصاص سے ذکر کرنے کا قرون مفضلہ میں ثبوت نہیں ملتا اس لئے اس سے بچنا اولی ہے ۔
(6) کسی بدعتی کی طرف انتساب: یہ قطعی جائز نہیں کہ مسجد کو کسی بدعتی یا فاسق و فاجر کی طرف منسوب کیا جائے کیونکہ اللہ کا گھر ہر عیب سے پاک ہے اور پھر اس میں ان کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے اور عوام کو ان کے مسلک و عقیدہ سے دھوکہ ہوسکتا ہے ۔

بعض علماء کے موقف و آرا:

٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے :"  بَاب هَلْ يُقَال مَسْجِد بَنِي فُلاں" پھر ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بنی زریق ذکر کرتے ہیں۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی روشنی میں مسجد بنانے والے یا نماز پڑھنے والے کی طرف انتساب کو جائز قرار دیا ہے ۔
٭ ابن العربی میں احکام القرآن میں کہا کہ گرچہ مساجد اللہ کا گھر ہیں مگر یہاں غیر کی طرف انتساب تعارف کے لئے ہے یعنی کہا جائے گا مسجد فلاں
٭ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ تعارف کے طور پر مسجد فلاں یا مسجد بنی فلاں کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔

خلاصہ کلام مسجد کو اس کے بنانے والے کی طرف منسوب کرنا جائز ہے ۔


واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

Saturday, October 24, 2015

مقلدین کے چند شبہات کا رد

مقلدین کے چند شبہات کا رد
================

اعداد : مقبول احمد سلفی

(1) شہ : اہل حدیث میں بھی کئی فرقے ہیں مثلا البانی، مسعودی،اور داؤدی وغیرہ ، ان میں سے ایک ہی حق پر ہوگا دوسرا جہنمی
جواب : اہل حدیث ایک منہج ہے اس کا نصب العین کتاب و سنت ہے اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے-
اگر اہل حدیث دینی کام کے لئے کوئی ادارہ کھولے یا کسی نام سے مدرسہ چلائے تو اس سے جماعت سے باہر نہیں ہوجاتا کیونکہ اس کے ادارے یا مدرسے کا منہج کتاب وسنت ہی ہوتا ہے ۔ فرقے تو اصل میں حنفیوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کے منہج وعقائد میں شدید اختلاف بھی پایا جاتا ہے جیسے حنفی ، دیوبندی، حیاتی ، مماتی ، جماعتی ، صوفی، نقشبندی ، سہروردی ، چشتی، قادری وغیرہ ۔

(2) شبہ : ان اللّٰہ یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا (رواہ ابوداؤد وصححہ البانی )
یعنی ہر صدی میں ایک مجدد ہوگا۔
جواب : اس حدیث کو لیکر مقلدوں نے قطب و ابدال اور کراماتی اشخاص کو دین کا مجدد قرار دے کر ان کے اقوال خالص اسلام میں داخل کردئے اور عام مسلمانوں کو اصل دین سے منحرف کردیا۔ حالانکہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر صدی میں ایک خاص آدمی مجدد بن کر پیدا ہوگابلکہ اس کا مطلب یہ ہے ہر صدی کا مجدد شخص واحد ہی نہیں بلکہ جماعت ہے، یعنی کبھی فرد بھی ہوسکتا اور کبھی جماعت ۔ لہذا صدی بصدی شخص معین کو صدی کا مجدد قرار دینا دھوکہ ہے ۔

(3) شبہ : "سواد اعظم کی پیروی کرو کیونکہ جس نے شذوذ (مخالفت کرتے ہوئے جدا راستہ اختیار) کیا تو اسے آگ میں گرایا جائے گا۔" (ابن ماجہ:3950)
اس حدیث سے یہ شبہ پیدا کیا جاتا ہے کہ حنفی کی تعداد زیادہ ہے اس لئے حق پر ہے ۔
جواب : پہلی بات یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، یہ حدیث اور بھی طریقے سے مروی ہے سب میں ضعف ہے اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث دینی امر سے متعلق نہیں ہے اگر دینی امور سے ہو تو پھر ہر مسئلہ جس کو سوادِ اعظم صادر کرے دینی مسئلہ بن جائے گا اور یہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم کے قطعا منافی ہیں ۔
اور قرآن وحدیث کے دیگر نصوص بھی یہ معنی مراد لینے سے مانع ہیں۔
٭وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله(سورة الأنعام )مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے۔
٭و قلیل من عبادی الشکور (سورة سبا)میرے بندوں میں شکر گزار تھوڈے ہی ہوتے ہیں ۔
٭وإن كثيرا من الخلطاء ليبغي بعضهم على بعض إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وقليل ما هم۔(سورة ص)اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں ایسے لوگ تھوڈے ہی ہوتے ہیں (یعنی مومنین ، صالحین کی تعداد کم ہی ہوتی ہیں ۔
٭و إن کثیراً من الناس لفسقون.(سورة المائدة)بے شک کثیر لوگ فاسق ہوتے ہیں۔
اتبعوا ما أنزل إليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه أولياء قليلا ما تذكرون ۔ (سورة الأعراف)
قال أرأيتك هذا الذي كرمت علي لئن أخرتن إلى يوم القيامة لأحتنكن ذريته إلا قليلا ۔(سورة الإسراء)شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کرتا رہے گاالبتہ تھوڑے سے لوگ بچ جائیں گے ۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ ( إنما الناس كالإبل المائة لا تكاد تجد فيها راحلة ) سواری کے قابل نہ ملے یعنی ناقص لوگوں سے اکثریت ہوگی ۔( صحیح بخاری و مسلم )
اگر حنفی کی بات مان لی جائے تو
٭اس زمانے میں بریلویوں کی اکثریت ہیں پھر دیوبندیوں کو چاہیئے کہ بریلویوں میں شامل ہوجائے ۔
٭حنفی اپنی ابتداء میں کم رہے ہوں گے پھر دوسرے فرقے میں ضم کیوں نہیں ہوئے ؟
٭ بعد جب حنفی کی اکثریت ہوئی تو اپنے علاوہ مالکی شافعی اور حنبلی کو اپنے میں ضم ہونے کی دعوت کیوں نہیں دیتے ؟

(4) شبہ : مقلد کا ایک شبہ یہ بھی ہے کہ چودہ صدیوں میں اہل حدیث کی تفسیری ، اصولی اور حدیثی خدمات نہیں ہیں ۔
جواب : حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے متعلق تمام علوم و فنون پہ صرف اہل حدیث علماء کے ہی خدمات جلیلہ ہیں ، دوسروں کے تھوڑے ہیں۔ کیونکہ دین کی اصل فہم اہل الحدیث ہی رکھتے ہیں ، انہوں نے ہی دنیا کو حدیث اور اس کے علوم سے دنیا کو متعارف کرایا یہ کام کوئی مقلد اور قرآن و حدیث سے دور اندھی تقلید کرنے والا کیسے انجام دے سکتا ہے ؟

(5) شبہ : مقلد کا ایک شبہ یہ ہے کہ کیا اہل حدیث گھرانے کے سارے لوگ مجتہد ہوتے ہیں اگر نہیں تو وہ تقلید کرتے ہیں۔
جواب : دین پر عمل کرنے کے لئے سب کو مجتہد ہونے کی ضرورت نہیں ، دین نہایت آسان ہے ، ایک عام آدمی قرآن و حدیث کو سمجھ سکتا ہے اور ٹھیک ٹھیک عمل کرسکتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے ؛ دین آسان ہے ۔ دین کا جو مسئلہ مشکل ہو اسے جاننے والوں سے پوچھ لیا جائے ۔ اصل چیز ہے دلیل کی پیری کی جائے ۔

(6) شبہ : محدثین یا دیگرمتقدمین علماء کسی نی کسی کے ضرور مقلد رہے ہیں تو کیا یہ مشرک ہیں۔
جواب ؒ: محدثین کسی کے مقلد کبھی بھی نہیں رہے کیونکہ محدث ہونا اور تقلید کرنا ایسا ہی ہے جیسے آگ اور پانی کا اکٹھا ہونا۔ دیگر بعض علماء کے متعلق جو تقلیدی بات لکھی ملتی ہے وہ دراصل تقلید جامد نہیں ہے بلکہ بعض اہل علم خود کو اپنے استاد یا کسی بڑے عالم کی طرف منسوب کرتے تھے مگر ان کا منہج کتاب و سنت ہی ہوا کرتا تھا۔

(7) شبہ : حدیث کے کئی اقسام ہیں ، صحیح ، حسن ، ضعیف وغیرہ تو آپ کس قسم سے ہیں؟
جواب : مقلد واقعی جاہل ہی ہوتا ہے ورنہ ایسا سوال نہ کرتا۔ حدیث کی اقسام حدیث کو جانچ اور پرکھ کرنے کے لئے ہیں، جو حدیث صحیح کے اقسام سے ہو اس پر عمل کیا جائے گا اور جو ضعیف کے قبیل سے ہو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

(8) شبہ : امام بخاری کی حدیث ماننا تقلید ہے ۔
جواب : امام بخاری کی جمع کردہ احادیث کا مجموعہ صحیح بخاری کو ماننا تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ تقلید کہتے ہیں قبول قول ینافی الکتاب والسنۃ کو یعنی کتاب وسنت کے منافی کسی کی بات ماننا تقلید کہلاتا ہے جبکہ صحیح بخاری میں موجود روایات تو وحی الہی اور سنت مطہرہ ہی ہیں اور آدمی کو وحی الہی کی پیروی کا حکم ہوا ہے ۔

(9) حدیث میں صحابہ کی پیروی کا حکم ہے اور اہل حدیث کے نزدیک صحابہ کا قول و فعل حجت نہیں جوکہ حدیث کے خلاف ہے ۔
جواب :  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرو" (ترمذی:207/2
٭یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امور خلافت کی اقتداء کا حکم دیا ہے نہ کہ امور دین کی ۔
٭بہت سارے مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اختلاف کیا ہے جیسا کہ کتب حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں تو انہوں نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تقلید کیوں نہ کی؟ کیا آپ اس حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بغاوت کا فتوی لگا سکتے ہیں؟ 
٭ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مانعین زکاة سے جہاد کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہوا تھا لیکن جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دلائل دیے تو وہ مان گئےاور جہاد شروع کیا۔ کیا دلائل کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تقلید کہتے ہیں؟ 
٭اگر حقیقتاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مقلد تھے تو آج کے مقلدین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو چھوڑ کر آئمہ اربعہ کی تقلید کو کیوں واجب سمجھتے ہیں؟

(10) شبہ : نبی ﷺ نے حدیث پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے یا سنت پہ ؟
جواب : محدثین کے نزدیک سنت کی بھی اصطلاحی تعریف یہی ہے جو حدیث کی بیان ہوئی ہے (ارشاد الفحول للشوکانی مع تحقیق صبحی بن حلاق)
گویا سنت اور حدیث ایک ہی چیز کے دو مترادف نام ہے ، آپ ﷺ نے کا حکم سنت و حدیث دونوں کو شامل ہے اور دونوں ایک ہی ہیں ۔

(11) شبہ : اگر تمہارا عمل صحیح حدیث پر ہے تو نماز میں سینے پہ ہاتھ باندھنے کے متعلق صحاح ستہ سے کوئی صحیح حدیث پیش کرو۔
جواب : بخاری شریف کے علاوہ صحاح کی دیگر کتابوں میں کئی دلائل ہیں ، بطور نمونہ بخاری شریف سے سینے پہ ہاتھ باندھنے کی ایک دلیل ملاحظہ ہو۔
عن سهل بن سعد، قال:كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة۔(بخاری کتاب الأذان:باب وضع الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر740)
ترجمہ : سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازمیںدائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع''پررکھنے کاحکم دیاہے اور''ذراع'' کہتے ہیں''کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ کو''۔
اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا بخاری کی یہ حدیث سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, October 21, 2015

کیا پورے محرم کا روزہ رکھنا مشروع ہے؟

کیا پورے محرم کا روزہ رکھنا مشروع ہے؟
===================

مقبول احمد سلفی

محرم کے مہینے میں پورے مہینے کا روزہ رکھنا جائز ہے اور بعض فقہاء نے ذکر بھی کیا ہے پورے محرم کا روزہ رکھنا چاہئے، مگر نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ۔رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں اکثردن کا روزہ رکھتے تھے ۔
اس لئے تمام نصوص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گاکہ حدیث :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم وافضل الصلوۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل (اخرجہ مسلم ص ۳۶۸ ج۱، ایضا ابو داؤد، الترمذی، النسائی)
ترجمہ : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
محرم کے زیادہ تر روزہ رکھنے پہ محمول کی جائے گی نہ کہ پورے محرم کے روزے پہ ۔
٭شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس حدیث سے محرم کے ابتدائی دس روزے مراد لئے ہیں۔
٭ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا پورے محرم کا روزہ رکھنے والا بدعتی کہلائے ؟ توآپ نے کہا نہیں ، لیکن نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے اور شعبان کا اکثر و بیشتر روزہ رکھتے تھے ۔ (کلام کا اختصار)
٭ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ، لہذا یہ حدیث محرم میں بکثرت روزہ رکھنے پہ محمول ہوگی نہ پورے مہینے پہ ۔



واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

انسانی اعضاء بیچنے کا حکم

انسانی اعضاء بیچنے کا حکم
============

مقبول احمد سلفی

شرعا جائز نہیں ہے کہ کسی آدمی اپنے بدن کا کوئی عضو فروخت کرے یعنی کنتی بھی مجبوری کیوں نہ ہوجائے اپنے جسم کا خون ، گوشت، آنکھ ، گردہ اور کوئی دوسرا حصہ نہیں بیچ سکتا ۔ اس کے متعدد وجوہات ہیں ۔
(1) پہلی بات تو یہ ہے کہ آدمی کی جس پہ ملکیت ہوتی ہے اسی کو بیچ سکتا ہے جبکہ اپنے بدن کے حصے اس کی ملکیت نہیں ہیں ، اس لئے انہیں بیچ نہیں سکتا۔
(2) انسان کے سارے اعضائے بدن قابل احترام و اکرام ہیں ، اور انہیں فروخت کرنا احترام کے منافی ہے ۔
(3) اگر انسانی اعضاء کی فروخت جائز ہوتا تو پھر انسان کو بے پناہ خطرہ لاحق ہوجاتا ۔
(4) انسان کو اللہ تعالی نے تکریم بخشا ہے :
{وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آَدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْاِيلً } [الإسراء:70]،
ترجمہ : اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی.
عضو فروخت کرنے میں انسان کی بے عزتی ہے ۔
(5) اسلام نے انسانی حفظان صحت کا بہترین نظام پیش کیا ہے ، وہ تو معمولی ہلاکت میں بھی پڑنے سے بچاتا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانی اعضاء کو فروخت کرکے اس کی صحت کو خطرے میں ڈال دے ۔
مذکورہ بالا چند اسباب ہمیں یہ بتلاتے ہیں کہ جسم کا سارا حصہ اپنی اصلی حالت میں ہی باقی رہے گا تاآنکہ موت آجائے ۔
لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ اعضائے بدن مثلا خون، آنکھ ، گردہ وغیرہ کا عطیہ کیا جاسکتا ہے ، اس کے چند احکام مندرجہ ذیل ہیں ۔
٭ایسے عضو کا عطیہ کیا جائے گاجس سے فائدہ زیادہ اور نقصان کم اور قابل تلافی ہو۔
٭ ایسے اعضاء کی منتقلی حرام ہے، جن پر زندگی کا دارو مدار ہے، مثلاً: زندہ انسان کے دل کو کسی دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنا۔
٭ایسا عضو بھی منتقل کرنا حرام ہے جس سے جسم کا ایک جزء یا ساری زندگی ہی معطل ہوجائے ۔
٭ میت کی اجازت سے وفات کے بعد اس کے جسم سے عضو لیا جاسکتا ہے ۔
٭ بیماری کے سبب کسی عضو کو ہٹا دینے پر اسے دوسرے کو فائدہ اٹھانے کے لئے دیا جاسکتا ہے ۔
جسم کا عضو عطیہ کرنا بیچنے کے مترادف نہیں اور نہ ہی تکریم انسانی کے خلاف ہے بلکہ یہ تو دوسرے ضرورت مند مسلمان بھائی کی تکریم و تعاون ہے ۔


واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق بیس رکعت تراویح والی روایت کا جائزہ




حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق بیس رکعت تراویح والی روایت کا جائزہ
===================


حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے بیس تراویح ثابت نہیں اور نہ ہی ان کے دورِ خلافت میں یہ صحابہ کا معمول رہا بلکہ حضرت عمرؓ نے سب کو جمع کر کے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ موطا امام مالک میں ہے۔


«عَنْ مُّحَمَدَّ بْنِ يُوْسُفَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ أنَّه قَالَ أمَرَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ اُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَّتَمِيْمًا الدَّارِيَّ أنْ يَّقُوْمَا لِلنَّاسِ بِإحْدٰي عَشَرَةَ َكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَءُ بِالْمِئِيْنِ حَتّٰي كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلٰي الْعِصِيِّ مِنْ طُوْلِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إلَّا فِيْ فُروْعِ الْفَجْرِ»


سائب بن یزید فرماتے ہیں خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ قاری مئین سورتیں پڑھتا یہاں تک کہ ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے اور ہم پو پھٹنے کے قریب (گھروں کو) واپس ہوتے۔


محدث شام شیخ البانی فرماتے ہیں:« قُلْتُ: َھٰذَا سَنَدٌ صَحِيْحٌ جِدًّا فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ شَيْخ مَالِكٍ ثِقَةٌ اِّتفَاقًا وَّاحْتَجَّ بِه الشَّيْخَانِ وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيْدَ صَحَابِيٌّ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ (ﷺ) وَھُوَ صَغِيْرٌ »


اس روایت کی سند بہت صحیح ہے کیونکہ محمد بن یوسف شیخ امام مالک بالاتفاق ثقہ ہے اور شیخین (بخاری مسلم) نے اس سے حجت لی ہے اور سائب بن یزید صحابی ہے جس نے بچپن میں نبی ﷺ کے ساتھ حج کیا تھا۔


حضرت عمرؓ کا یہ فرمان حضرت عائشہؓ و جابرؓ کی پہلے بیان کردہ احادیث کے عین موافق ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک مسنون گیارہ رکعت ہی ہیں جس پر آپ نے لوگوں کو جمع کیا۔


اور بیس رکعت والی روایات ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث کے خلاف ہے ۔
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم ۔رمضان ہو یاغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
(صحیح بخاری فی التھجد باب قیام النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم ۔بالیل فی رمضان وغیرہِ و فی الصلاۃ تراویح باب فضل من قام رمضان۔ صحیح مسلم۔ترمذی۔نسائی۔)


بیس رکعت والی روایات کا ضعف ملاحظہ کرنے کے لئے نیچے والے رابطہ پہ کلک کریں ۔
http://magazine.mohaddis.com/shumara/124-nov1971/1736-rakat-taraveeh-sunnat-tamil-sahaba


مکمل تحریر >>

قیلولہ اور اس کے فوائد

قیلولہ اور اس کے فوائد
=============
مقبول احمد سلفی


قیلولہ کے بڑے فائدے ہیں ، دن میں بھی سکون ملتا ہے ، رات کی نیند بھی اچھی ہوتی ہے اور اگلے دن بھی آدمی کام کاج کے لئے نشیط ہوتا ہے ۔

پہلے دیکھتے ہیں کہ قیلولہ کسے کہتے ہیں ؟
فیومی نے کہا: نصف النہارکے وقت سونا (المصباح المنیر)
صنعانی نے ذکر کیا: نصف النہار کے وقت راحت حاصل کرنا، گرچہ نیند سے نہ سویا جائے ۔(سبل السلام)

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیلولہ کا وقت کیا ہے ؟
اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ کسی نے زوال سے پہلے اور کسی نے زوال کے بعد لکھا ہے مگر احادیث پہ غورو خوض سے پتہ چلتا ہے کہ قیلولہ ظہر کی نماز کے بعد ہے کیونکہ نصف النہار یعنی دن کے نصف ہونے کی ابتداء ظہر کی نماز سے ہوتی ہے تو قیلولہ ظہر کی نماز کے بعد ہی ہوگا۔ اور یہ یقینی ہے کہ ظہر سے پہلے دن کا نصف نہیں ہوتا گویا جب تک سورج نصف آسمان میں نہ آجائے قیلولہ کا وقت نہیں ہوتا۔

قیلولہ کا حکم :
قیلولہ کرنا سنت ہے اور متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ ظہر کی نماز کے بعد قیلولہ کرتے تھے اور صحابہ کرام بھی قیلولہ کیا کرتے تھے ۔


قیلولہ سے متعلق احادیث دیکھیں :
(1) عن حميد قال:‏‏‏‏ سمعت انسا يقول:‏‏‏‏"كنا نبكر إلى الجمعة ثم نقيل".(صحیح البخاری : 940)
ترجمہ : سیدنا انس رضی اللہ عنہ ، فرماتے تھے کہ ہم جمعہ سویرے پڑھتے، اس کے بعد دوپہر کی نیند لیتے، قیلولہ کرتے تھے۔

(2) عن سهل قال:‏‏‏‏"كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم الجمعة ثم تكون القائلة".(صحیح البخاری :941)
ترجمہ : سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے، قیلولہ کیا کرتے تھے۔

(3) حدثنا عبد الله بن مسلمة قال:‏‏‏‏ حدثنا ابن ابي حازم عن ابيه عن سهل بهذا وقال:‏‏‏‏"ما كنا نقيل ولا نتغدى إلا بعد الجمعة".(صحیح البخاری : 939)
ترجمہ : سہل بن سعد نے یہی بیان کیا اور فرمایا کہ دوپہر کا قیلولہ اور دوپہر کا کھانا جمعہ کی نماز کے بعد رکھتے تھے۔

(4) عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: ما كنا نقيل ولا نتغذى إلا بعد الجمعة في عهد النبي صلى الله عليه وسلم.(صحیح مسلم)
ترجمہ : سہل بن سعد نے بیان کیا اور فرمایا نبی ﷺ کے عہد میں ہم لوگ جمعہ کی نماز کے بعد ہی کھانا کھاتے تھے اور قیلولہ کرتے تھے ۔

(5) قال رسول الله صلي الله عليه وسلم :قيلوا،فإن الشياطين لا تقيل ( السلسلة الصحيحة للألباني:1647)
ترجمہ : قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔

(6)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ، وَبِالْقَيْلُولَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ(ابن ماجہ )
ترجمہ : دوپہر کو تھوڑی دیر آرام کر کے قیام اللیل میں سہولت حاصل کرو ،اور سحری کھا کر دن میں روزے کے لیے حاصل کرو۔
روایت کا حکم : یہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہے۔ دیکھیے ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی۔

مذکورہ بالا روایت کافی ہیں اس بات کو جاننے کے لئے کہ قیلولہ کرنا سنت ہے ۔ اب قیلولہ کے طبی فوائد دیکھتے ہیں ۔
(1) قیلولہ کرنے والے افراد میں دل کی بیماریوں سے ہلاک ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

(2) قیلولہ کرنے سے لوگ نشیط ہو جاتے ہیں اور ان کے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

(3) قیلولے کے نتیجے میں بلڈ پریشر میں کمی ، خون کے نظام میں بہتری کے ساتھ فالج اور ہارٹ اٹیک کے خطرے میں بھی کمی واقع ہونے پہ تجربہ کیا گیا ہے ۔

(4) ذہنی دباؤ کے مریضوں میں دوپہر کے وقت سونے سے ذہنی دباؤ میں کمی دیکھی گئی۔

(5) رات کو بہترین نیند نصیب ہوتی ہے ، صبح سویرے جاگنے اور اگلے دن کام چستی سے کام کرنے پہ کافی مدد ملتی ہے ۔

(6) بچوں کے لئے قیلولہ مزید فائدہ مند ہے ، مثلا ان کی ذہنی قوت کا بڑھاؤ، پڑھائی میں لگن، تعلیم و یاد داشت میں استحکام وغیرہ

اس لئے کہا جاتا ہے کہ
"دن کو کھانے کے بعد سونا چاہئے اگر کانٹوں پر ہی کیوں نہ سونا پڑے اور رات کے کھانے کے بعد لازماً چہل قدمی کرنی چاہئے خواہ دہکتے کوئلوں پر ہی کیوں نہ چلنا پڑے"۔






مکمل تحریر >>

Tuesday, October 20, 2015

سبیل کا شربت

سبیل کا شربت
==========

سوال …ہر سال محرم کے مہینے میں ”سبیل حسین“ کے نام سے سبیل لگائی جاتی ہے،اس طرح سبیل لگانا اور اس سے پانی پینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب … لوگوں کو پانی پلانا کارخیراور ثواب کا کام ہے، لیکن محرم کے مہینے میں پہلی تاریخ سے لے کر دسویں محرم تک شربت تقسیم کرنا اور سبیل لگانا بہ چند وجوہ ناجائز ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ سبیل لگانے اور شربت پلانے والوں کا خیال ہے کہ اس سے کربلا کے شہیدوں کی پیاس بجھ جاتی ہے، حال آنکہ یہ عقیدہ بالکل باطل اور فاسد ہے۔ اس لیے کہ شہدا جنت کی نعمتوں میں ہوتے ہیں، ان کو اس شربت وغیرہ کی کیا ضرورت؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ سبیل لگانے اور شربت پلانے کا مقصد ایصال ثواب ہے اور ایصال ثواب کے لیے عشرہٴ محرم کی تخصیص اور باقی دنوں میں اس عمل کو ترک کرنا ترجیح بلا مرجح ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ سبیل لگانے میں روافض کے ساتھ تشبہ بھی ہے۔
لہٰذا سنی حضرات پر لازم ہے کہ سبیل لگانے اور روافض کی لگائی ہوئی سبیل کا پانی پینے سے اجتناب کریں۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی


مکمل تحریر >>