Monday, August 31, 2015

کیا چار دفعہ وقت رک گیا؟

کیا چار دفعہ وقت رک گیا؟

لوگوں میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ مندرجہ ذیل چار مقامات پہ سورج رک گیا تھا۔
1- جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم معراج پر گیئے تهے ۔
2 - جب حضرت فاطمہ کا دوپٹہ سر سے اتر گیا تها ان کے بال ننگے هو گئے تهے۔
3- جب حضرت بلال نے اذان نہیں دی تهی۔
4- جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز قضا ہوئی تهی۔

جبکہ ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ البتہ پانچ عظیم شخصیات کی خاطر سورج پلٹنے کی باتیں ملتی ہیں ، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) یوشع علیہ السلام۔
(2) موسی علیہ السلام۔
(3) داؤد علیہ السلام
(4)سلیمان بن داؤد علیہ السلام
(5) ہمارے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم (دو مرتبہ)

مگر ان میں پانچوں میں سے صرف یوشع علیہ السلام کے متعلق سورج پلٹنے کا ثبوت ملتا ہے ، بقیہ کے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 393)



مکمل تحریر >>

حج کی اقسام

حج کی اقسام

حج ادا کرنے کی تین اقسام ہیں۔

(1) حج تمتّع :۔ میقات سے صرف عمرہ کی نیت کریں اور یہ کہیں ’’لبیک عمرۃ‘‘ مکہ آنے کے بعد پہلے عمرہ کریں۔عمرہ مکمل کر لینے کے بعد احرام کھول دیں اور حلال ہو جائیں ۔پھر آٹھ ذو الحجہ کو دوبارہ حج کی نیت سے مکہ ہی(اپنی رہائش) سے احرام باندھیں اور حج کے اعمال انجام دیں۔یہ حج کی سب سے افضل قسم ہے کیونکہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو بھی حکم دیا اور خود بھی اس کی خواہش ظاہر کی ۔

(2)حج قران:۔ میقا ت سے حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کریں اور کہیں’’لبیک حجاً وعمرۃً‘‘مکہ پہنچ کر عمرہ کریں اور احرام میں ہی باقی رہیں اور  اسی احرام میں آٹھ ذو الحجہ کو حج کے اعمال شروع کر دیں گے۔ نبی ﷺ نے یہی حج ادا فرمایا تھا۔

(3) حج افراد :۔ میقات سے صرف حج کی ہی نیت کریں اور کہیں’’لبیک حجاً‘‘اب آپ مکہ جا کر پہلے طواف قدوم کریں گے ‘پھرسعی۔اگر آپ نے طواف قدوم کے ساتھ سعی کر لی تو طواف افاضہ کے بعد سعی کی ضرورت نہیں۔ دس ذو الحجہ تک اسی احرام میں رہیں گے ۔اور آٹھ ذو الحجہ کو حج کے اعمال اسی احرام میں شروع کر دیں گے۔

:::چند مسائل:::
٭حج تمتّع اور حج قران کرنے والے پر قربانی ضروری ہے جبکہ حج مفرد کرنے والے پر قربانی نہیں ہے۔
٭ گر میسر ہو تو حج تمتع کریں وگرنہ ان میں سے کوئی بھی حج کرسکتے ہیں ۔ ان تمام قسم کے حج مبرور کا بدلہ جنت ہے ۔
٭ مکہ والے اگر حج تمتع کرے تو حدود حرم سے باہر جاکر عمرہ کی نیت سے احرام باندھے ، عمرہ کرکے حلال ہوجائے اور آٹھ ذی الحجہ سے پھر اپنی رہائش سے احرام باندھکر حج کرے ۔
٭ اہل مکہ پر قربانی نہیں ہے ۔
٭ حج قران اور حج تمتع کرنے والوں پہ ایک ہی قربانی واجب ہے جو کہ مکہ میں دینا ہے ، اگر کوئی عیدقرباں کے تعلق سے اپنے ملکوں میں بھی دینا چاہے تو دے سکتا ہے مگر یہ واجب نہیں ہے ۔
٭ عورت اگر حج کے لئے سفر کرے تو ساتھ میں محرم ہونا ضروری ہے ورنہ گنہگار ہوگی ۔


مکمل تحریر >>

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا

مقبول احمد سلفی
لوگوں میں عام طور سے ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے حج فرض ہوجاتا ہے یا یہ کہ حج کے مہینوں میں بغیر حج کے عمرہ نہیں کرنا چاہئے ۔
حج کے مہینے شوال ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔
جیسے عمرہ کرنا دیگر مہینوں میں مسنون ہے ویسے ہی کسی کے لئے بغیر حج کی نیت کے عمرہ کرنا مسنون ہے یعنی اشہر حج میں عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوجاتا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
فَهُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتٰی عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ (مسلم)
ترجمہ : نبی کريم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے جس وقت آپ نے ان يہ سب مواقيت ان لوگوں كے لئے ہيں جو وہاں کے رہنے والے ہيں اور ان کے علاوہ لوگوں کے لئے بھی ہيں جو وہاں سے حج يا عمره ادا كرنے کے ارادہ سے گزريں۔
اس حدیث سے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی دلیل ملتی ہے ۔ نیز نبی ﷺ سے بھی حج کے مہینوں میں حج کے بغیر عمرہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ آپ ﷺ سے چار عمرہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے اور یہ سارے عمرے ذوالقعدہ میں آپ نے ادا فرمایا ، اور سبھی جانتے ہیں کہ ذوالقعدہ حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے ۔ بخاری و مسلم میں موجود ہے ۔

عن أنس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتمر أربع عُمر كلهن في ذي القعدة إلا التي مع حجته :عمرة من الحديبية أو زمن الحديبية في ذي القعدة ، وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة ، وعمرة من جِعْرانة حيث قسم غنائم حنين في ذي القعدة ، وعمرة مع حجته۔ (صحیح البخاري :4148 وصحیح مسلم :1253)
ترجمہ : امام بخاری اورمسلم رحمہما اللہ نے انس رضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چارعمرے کیے اوریہ سارے عمرے ذی القعدہ کے مہینہ میں تھے صرف وہ عمرہ جوآپ نے حج کےساتھ کیا وہ نہيں ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
انس اورابن عمررضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ دونوں کا چارعمروں میں اتفاق ہے اوران میں سے ایک چھ ہجری ذی القعدہ کے مہینہ میں حدیبیہ کےسال تھا اس میں انہیں روک دیا گيا تھا تووہ حلال ہوگئے اوران کے لیے یہ عمرہ شمار کرلیا گیا ۔
اوردوسرا عمرہ ذي القعدہ سات ھجری میں عمرہ قضاء تھا ، اورتیسرا عمرہ ذي القعدہ آٹھ ھجری میں جسے عام الفتح کہا جاتا ہے میں کیا ، اورچوتھا عمرہ آپ صلی اللہ وسلم نے اپنے حج کےساتھ کیا اوراس کا احرام ذی القعدہ میں تھا اور عمل ذی الحجہ میں کیا۔

لہذا کوئی شخص بغیر حج کی نیت کے عمرہ ادا کرسکتا ہے ، چاہے تو متعدد بار بھی ادا کرسکتا ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور اہل علم کے مابین بھی اس سلسلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ۔


واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

Sunday, August 30, 2015

ہندوستان میں گائے کی قربانی کا حکم

ہندوستان میں گائے کی قربانی کا حکم

گائے کی قربانی قرآن و حدیث سے ثابت ہے ، کوئی بھی ملک ہو ہم گائے کی قربانی دے سکتے ہیں۔ ہندوستان میں کفار گائے کو معبود مانتے ہیں اس لئے بعض صوبوں میں اس کے ذبیحے پر پابندی ہے ۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ؟
جیساکہ ہمیں معلوم ہے سارے صوبوں میں اس کے ذبح پہ پابندی نہیں ہے ، جہاں پابندی نہیں ہے وہاں لوگ اس کی قربانی کرتے ہیں ۔ مگر جہاں پابندی ہے اور مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں اگر چھپ کر قربانی دے سکتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کا حق ہے ۔ ساتھ ہی ہمیں حکومت سے اس بات کو منظور کرانے کی بھی ضرورت ہے کہ ممنوعہ علاقے سے پابندی ختم کرے۔
اگر کسی علاقے میں مسلمان اقلیت میں ہوں ، اور شردوفساد کا ڈر ہو وہاں اختیاط کرنے میں بہتری ہے تاکہ وہاں کے مسلمان محفوظ رہیں۔


مکمل تحریر >>

Thursday, August 27, 2015

عبداللہ بن مبارک کا ایفائے عہد

عبداللہ بن مبارک  کا ایفائے عہد

نقل الإخباريون عن عبد الله بن المبارك أنه كان في غزوة فالتقى هو ومجوسي للقتال فدخل وقت الصلاة، فقال للمجوسي: دخل وقت الصلاة عبادتنا اصبر على حتى أصلي، وعاهدني على أن لا تقصدني بمكروه حتى أفرغ من الصلاة، فعاهده على ذلك، ثم توضأ عبد الله بن المبارك وصلى، والمجوسي ينظر ولا يتكلم حفظاً للعهد، فلما فرغ من صلاته التقيا للقتال فلم يقدر أحدهما على الآخر إلى أن جاء وقت غروب الشمس، وعبادة المجوسي هي السجود للشمس وقت طلوعها وغروبها، فقال المجوسي لعبد الله بن المبارك: دخل وقت عبادتنا عاهدني أنت أيضاً كما عاهدتك واصبر على حتى أفرغ من عبادتي ولا تغدر. فعاهده عبد الله بن المبارك على ذلك، فلما سجد للشمس وثب عليه عبد الله بن المبارك بسيفه ليقتله وهو ساجد، فهتف به هاتف: وأوفوا بعهد الله إذا عاهدتم، فرجع فلما فرغ المجوسي قال له: مالك هممت بي ثم رجعت؟ قال: سمعت هاتفاً يقول كذا، فقال المجوسي: نعم الرب ربك يعاتب وليه لأجل عدوه، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً رسول الله.

الكتاب: المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري
المؤلف: شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ)

ترجمہ: مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک بیان کرتے ہیں میرا ایک جہاد میں ایک مجوسی سے مقابلہ ہو رہا تھا کہ نماز کا وقت آ پہنچا، میں نے مجوسی سے عہد کیا کہ جب تک میں نماز سے فارغ نہیں ہو جاتا تُو مجھ پر حملہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس نے وعدے پر عمل کیا یہاں تک کہ میں نے نماز مکمل کی، جب سورج غروب ہونے لگا تو اس نے کہا اب تُو بھی مجھے میری عبادت کا موقع دے یہاں تک کہ میں سورج کو سجدہ کر لوں، آپ نے عہد کر لیا مگر جب وہ سورج کو سجدہ کرنے لگا تو آپ نے اسے شرک کرتے برداشت نہ کیا اور اس پر حملہ آور ہونے لگے ، ضمیر نے آواز دی'اوفو ا بالعقود' اپنے عہد کو پورا کرو، آپ یہ آواز سنتے ہی واپس پلٹے، مجوسی نے فراغت کے بعد آپ سے پوچھا! عبداللہ بن مبارک آپ تو مجھ پر حملہ کرنے والے تھے پھر کس چیز نے آپ کو واپس پلٹنے پر مجبور کر کیا آپ نے فرمایا جب تُو آفتاب کے سامنے سجدہ ریز ہوا تو میری غیرت نے گوارہ نہ کیا، می نے تجھے قتل کرنا چاہا مگر ضمیر پُکارا 'جب تم عہد کرو تو پورا کرو'۔ مجوسی یہ سن کر بولا کہ آپ کا رب کتنا اچھا ہے کہ اپنے دوست پر اپنے دشمن کے لئے تنبہہ فرماتا ہے، یہ کہا اور پُکار اٹھا اشھد ان لا اله الالله واشھد ان محمد رسول اللہ اور زمرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, August 26, 2015

موبائل یا کمپیوٹر سے امیج بنانے والوں کی خدمت میں

موبائل یا کمپیوٹر سے امیج بنانے والوں کی خدمت میں


تحریر: مقبول احمد سلفی

آج کل شوسل میڈیا پہ تحریر سے زیادہ امیج شیر کیا جارہا ہے ، اور چونکہ امیج کو خوب ڈیزائن سے بنایا گیا ہوتا ہے ، اس لئے لوگ اسے آنکھ بند کرکے شیر کرتے ہیں ۔مثلا پردے کی بات ہو تو خوبصورت لڑکی کی تصویر شامل کردی جاتی ہے۔پھر لوگ شوق سے لوگ اسے شیر کرتے  چلے جاتے ہیں۔
بہت سارے امیج صرف اس لئے شیر کئے جاتے ہیں کہ ان کا ڈیزائن دلکش ہوتا ہے ، شیر کرنے والوں کو اس میں دئے پیغام سے سروکار کم ہوتا ہے یا بسا اوقات پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس میں  کیا لکھا گیا ہے یا کیا پیغام دیا گیاہے؟
اس کی ایک مثال دیتا ہوں ۔ میں
ایک حنفی لڑکا تھا اس نے ایک امیج شیر کیا جس میں لکھا تھا قرآن میں پندرہ سجدے ہیں۔ اس نے شیر تو کردیا ، بعد میں اس کے ساتھیوں کی طرف سے رد عمل کا طوفان اٹھا اور بتلایا کہ حنفی کے یہاں صرف چودہ سجدے ہیں ، تو اس نے معافی مانگی اور شیرنگ ختم کیا۔
میں حقیقت میں الٹے پلٹے اور جھوٹ پھوس امیج سے ہی متاثر ہوکر شوسل میڈیا پہ حرکت میں آیا اور احساس پیدا ہوا کہ لوگوں میں ان امیج کے ذریعہ جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، ان کا رد پیش کرنا چاہئے ورنہ سیدھے سادے عوام میں گمراہی منتشر ہوگی ۔
اکثر امیج میں جھوٹی حدیث، اسرائیلی روایات، شیعی اقوال، من گھرنت قصے،صدیوں سے منتقل ہوتی آرہی بزرگانہ باتیں، غلط عقائدونظریات، اوہام و خیالات اور مغربی فلسفے وغیرہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حد تو اس وقت ہوجاتی ہے کہ کسی عام انسان کی بات کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کردیا جاتاہے ۔ اس پہ مستزاد اس میں حوالہ بھی دے دیا جاتا ہے ، اور وہ بھی بڑی اونچی کتابوں کا ۔۔۔۔ بخاری شریف ، مسلم شریف۔۔۔۔۔  الحفظ والاماں

ایسے ماحول میں ان تمام لوگوں کو میری نصیحت ہے جو اپنے موبائل سے یا کمپیوٹر وغیرہ سے امیج بناتے ہیں۔ امیج بناتے وقت چند باتوں کو دھیان میں رکھیں۔

(1) امیج پتھر کی لکیر تو نہیں مٹ نہیں سکتا مگر طاقت میں پتھر ہی کا کام کرتا ہے ، ایک بار امیج بن گیا تو ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے اور وہ کرنسی کی طرح شوسل میڈیا میں گردش میں رہتا ہے۔

(2) امیج اگر قرآنی آیت کا بنانا ہو تو پہلے قرآن میں چیک کرلیں اور صرف ترجمہ نہ لکھیں بلکہ آیت بھی لکھیں اور سورہ مع آیت نمبر حوالہ درج کریں۔

(3) حدیث کا امیج بناتے وقت حدیث کو اصل کتاب سے ملالیں، اورترجمہ کے ساتھ عربی متن بھی ضرور لکھیں، ساتھ میں حدیث کی کتاب کا حوالہ مع حدیث نمبر درج کریں۔

(4) حدیث کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتاب کی حدیث ہے تو حدیث کا حکم بیان کریں۔

(5) شیخ البانی رحمہ اللہ نے حدیث کے متعلق جانچ پرکھ کا کام آسان بنادیا ہے ، "الدرر السنیۃ" نامی ویب سائٹ پہ جاکر حدیث سرچ کے خانہ میں حدیث لکھیں اور وہاں شیخ البانی صاحب کا حکم تلاش کریں ، اور وہ حوالہ امیج میں ڈالیں۔

(6) جو حدیث صحیح ہو اسی کا امیج بنائیں ، اگر ضعیف حدیث سے متعلق لوگوں کو خبر دار کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام کرنا جائز ہے۔

(7) قرآن و حدیث سے متعلق امیج میں لایعنی تصویر (خصوصابلاحجاب لڑکی)یا الٹی پلٹی علامات کا استعمال ہرگز نہ کریں۔

(8) اگر عبارات یا ائمہ کے اقوال ہوں تو کم از کم کتاب اور صفحہ کا حوالہ دیں اور اگر کسی عبارت ، یا واقعہ ، یا قول کا حوالہ معلوم نہ ہو تو بغیر حوالے کے ایسی چیزوں کا قطعی امیج نہ بنائیں۔

(9) لوگ امیج بناتے وقت اقوال رجال اور قصے کہانیوں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بہتر یہی ہے کہ قرآن و حدیث کے نصوص کا ہی زیادہ تر امیج بنایا جائے تاکہ کتاب و سنت کی نشر و اشاعت ہو،ویسے ضرورتا  ہر صحیح چیز کا امیج بناسکتے ہیں۔

(10) تھوڑی دیر کے لئے یہ مان لیں کہ آپ نے ایک ایسا امیج بنایا جس میں کوئی بات رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہے ، مگر واقعتا ایسی کوئی بات نبی ﷺ نے بیان  نہیں فرمائی  تھی، یا ضعیف یا موضوع وغیرہ تھی، اور آپ نے اسے شوسل میڈیا پہ اپ لوڈ کردیا ، بعد میں اس امیج کی حقیقت کا علم ہوا مگر اب تو کچھ نہیں کرسکتے وہ تو جنگل میں آگ لگنے کی طرح پھیل گیا، اب جتنے لوگ اسے شیر کریں گے سب کا گناہ آپ کے سر جائے گا۔

(11) اس وقت امیج میں حوالے کی اس لئے اشد ضرورت پڑ گئی کہ جھوٹے اور بدعتی لوگوں نے اپنے جھوٹ کو پھیلانے کے لئے اچھے اچھے ، دلکش امیج کا سہارا لیا ۔ عام آدمی کو سچائی کا علم نہیں ہورہا ہے ۔ کچھ لوگ حقیقت جاننا چاہتے ہیں ۔  جب کوئی بات مکمل حوالے کے ساتھ ہوگی تو جہاں تحقیق کرنے والوں کا فائدہ ہوگا وہیں عام آدمی کو بھی اطمینان قلب ہوجائے گا ۔

امید کہ ہمارے امیج ڈیزائنراور فوٹو انجینئر حضرات اس طرف توجہ مبذول فرمائیں گے ۔



مکمل تحریر >>

آیہ الکرسی کے متعلق چند وضاحت


آیہ الکرسی کے متعلق چند وضاحت

مقبول احمد سلفی

ہندی کے ایک امیج میں آیہ الکرسی کے متعلق چند فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان کی حقیقت بیان کر دیتا ہوں ۔

(1) "گھر سے نکلتے وقت آیۃ الکرسی پڑھوگے تو ستر ہزار فرشتے ہرطرف سے آپ کی حفاظت کریں گے" ۔
مذکورہ بالا قول کو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آپ ﷺ سے گھر سے نکلتے وقت آیۃ الکرسی پڑھنا ثابت نہیں ہے ، اس لئے یہ فضیلت بیان کرنا صحیح نہیں ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ سے اللہ گھر سے نکلتے وقت آیہ الکرسی اور سورہ بقرہ کی آخری دو آیت پڑھنے کی فضیلت کے متعلق سوال کیا گیا تو شیخ نے جواب دیا کہ یہ سنت ہی نہیں ہے تو پھر کیسے ہم کہیں کہ گھر سے نکلتے وقت آیہ الکرسی اور بقرہ کی آخری دوآیت پڑھنے کے کیا فوائد ہیں ؟ (فتاوى نور على الدرب -العثيمين، الجزء : 5 ، الصفحة : 2 )


(2) "گھر میں داخل ہوتے وقت پڑھوگے تو آپ کے گھر سے محتاجگی دور ہوجائے گی" ۔
آیہ الکرسی کے متعلق یہ بات بھی کسی نص سے ثابت نہیں ہے ۔

(3) "وضو کے بعد پڑھوگے تو آپ کے ستر درجے بلند ہوں گے "۔
وضو کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے کے متعلق حدیث آئی ہے وہ حدیث یہ ہے ۔
عن نافع عن ابن عمر رفعه :من قرأ آية الكرسي على أثر وضوئه أعطاه الله عز وجل ثواب أربعين عالما ، ورفع له أربعين درجة ، وزوجه أربعين حوراء .
(مسند الفردوس و کنز العمال)
ترجمہ : جس نے وضو کے بعد آیہ الکرسی پڑھا اسے اللہ تعالی چالیس سال کا ثواب دیتا ہے ، اس کے چالیس درجات بلند کرتا ہے اور اسے چالیس بیویاں حوروں میں سے عطا کرتا ہے ۔
یہ روایت باطل اور موضوع ہے، اس کی سند میں مقاتل بن سلیمان بہت مشہور کذاب راوی ہے ۔

گویا وضو کے بعد آیہ الکرسی پڑھنے کی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔

(4)  "رات کو سوتے وقت تین بار پڑھوگے تو ساری رات اللہ کی حفاظت میں رہوگے" ۔
رات میں آیہ الکرسی پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔
"إذا أويتَ إلى فراشِكَ فاقرأ آيةَ الكرسي ، فإنه لن يزالَ معكَ من اللّه تعالى حافظ ، ولا يقربَك شيطانٌ حتى تُصْبِحَ"(بخاری)
ترجمہ: بخاری شریف میں ہے کہ جب تو بستر پہ آئے اور آیہ الکرسی پڑھے تو اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ مقرر کر دیا جاتا ہے اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہیں آسکتا ۔
اس حدیث سے رات میں سونے سے پہلے آیہ الکرسی پڑھنے کی فضیلت معلوم ہوئی ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ تین بار پڑھنے کی قید نہیں ہے کیونکہ اس کا ذکر حدیث رسول میں نہیں ۔

(5) "اگر فرض نماز کے بعد پڑھوگے تو مرنے کے بعد آپ کا ایک پیر زمین پر اور دوسرا جنت میں ہوگا"۔
مذکورہ بالا قول بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ، اسے نبی ﷺ کی طرف منسوب  کرنے والا گنہگار ہوگا۔
البتہ فرض نمازوں کے بعد آیہ الکرسی پڑھنے کے متعلق یہ روایت آئی ہے ۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ قَرَأَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلَّا أَنْ يَمُوتَ.
(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی:100)
ترجمہ : سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جوشخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اسے جنت میں داخلے سےسوائے موت کے کوئی چیز نہیں روکتی۔
اس حدیث کو بعض اہل علم نے ضعیف اور بعض نے صحیح قرار دیا ہے ۔ اسی معنی کی یہ روایت شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں درج کیا ہے اور اسے مجموعی طرق کے اعتبار سے صحیح قرار دیا ہے ۔ روایت دیکھیں:
"من قرأ آيةَ الكُرسيِّ في دُبُرِ كلِّ صلاةٍ لم يحُلْ بينه وبين دخولِ الجنَّةِ إلَّا الموتُ"۔

٭ایک بات ذہن نشیں رہے کہ آیہ الکرسی جہاں قرآن کی آیت ہے وہیں صحیح احادیث سے بھی اس کی بڑی فضیلت ثابت ہے ، اس لئے کوئی جتنی بار اور جب چاہے پڑھ سکتا ہے مگر پڑھنے کے اوقات اور عدد کو اپنی طرف سے خاص کرنا جو حدیث رسول ﷺ سے ثابت نہیں قطعا جائز نہیں۔ 

اللہ تعالی ہمیں سنت کی پیروی کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین













مکمل تحریر >>

Tuesday, August 25, 2015

ایک جانور کی قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہے

ایک جانور کی قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہے
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف(مسرہ)
قربانی سنت مؤکدہ ہے اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے ، جسے قربانی کی وسعت ہو اسے قربانی کرنا چاہئے ۔ بہت سے لوگ قربانی کے مسائل نہیں جانتے اس وجہ سے پریشانی بھی ہوتی ہے اور قربانی میں غفلت وسستی بھی ۔ یہاں میں بتلانے جارہاہوں کہ ایک بکرا یا بکری گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہے ۔ ہمارے یہاں رواج یہ ہے کہ ایک جانور ایک آدمی کے طرف سے ہی دیا جاتا ہے اور گھروں میں ایک سال باپ کی طرف سے ، دوسرے سال ماں کی طرف سے ، تیسرے سال بیٹے کی طرف سے ، چوتھے سال بیٹی کی طرف سے ۔ اس طرح قربانی کا رواج چلتا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایک بکرے کی قربانی میں گھر کا سرپرست یعنی باپ کے ساتھ ،اس کی بیوی اور بچے سب  شامل ہوسکتے ہیں ۔ یہ عمل  رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین سے ثابت ہے ۔ گویایہ بات متحقق ہے کہ ایک قربانی پورے ایک فیملی ممبرس کے لئے کافی ہے ، اس کے لئے  سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک گھرانہ کسے کہتے ہیں ؟ ۔
اس بارے میں علمائے کرام کے چار اقوال ہیں جسے شیخ محمد صالح منجد نے ذکر کیا ہے:
(1)جن میں تین شرائط پائی جائیں: (الف)قربانی کرنے والا شخص انکے خرچہ کا ذمہ دار ہو (ب) وہ تمام افراد اسکے رشتہ دار بھی ہو (ج) قربانی کرنے والا شخص انکے ساتھ رہائش پذیر ہو، یہ موقف مالکی فقہائے کرام کا ہے۔
(2)جن پر ایک ہی شخص خرچ کرتا ہو، یہی موقف کچھ متأخر شافعی فقہاء کا ہے۔
(3)قربانی کرنے والے کے تمام عزیز و اقارب، چاہے ان پر یہ خرچ بھی نہ کرتا ہو۔
(4)قربانی کرنے والے کیساتھ رہنے والے تمام افراد چاہے اسکے رشتہ دار نہ ہوں، اس موقف کے قائلین میں خطیب شربینی، شہاب رملی، اور متأخر شافعی فقہاء میں سے طبلاوی رحمہم اللہ جمیعا شامل ہیں، لیکن ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ نے اسے بعید قرار دیا ہے۔
ان باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ تین اساب کی بنیاد پہ فیملی /گھرانہ قرار پائے گا وہ ہیں : قرابت ، سکونت اور انقاق یعنی ایک چولہے پہ جمع ایک آدمی کی سرپرستی میں اس کے سارے رشتہ دارجن پہ وہ خرچ کررہاہےایک گھرانہ ہے ۔ اس میں آدمی کی بیوی ، اس کے لڑکے ، اس کی لڑکیا ں اور وہ قریبی رشتہ دارشامل ہیں  جو ساتھ میں رہتے ہوں مثلا بہو۔ان سب لوگوں کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے ۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں جیساکہ عطاء بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا کہ:
كيفَ كانتِ الضَّحايا علَى عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ كانَ الرَّجلُ يُضحِّي بالشَّاةِ عنهُ وعن أهلِ بيتِه فيأكلونَ ويَطعمونَ حتَّى تَباهى النَّاسُ فصارت كما تَرى(صحيح الترمذي:1505)
ترجمہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كا كيا حساب تھا ؟تو انہوں نے جواب ديا:آدمى اپنى اور اپنے گھروالوں كى جانب سے ايك بكرى قربانى كرتا تو وہ بھى كھاتے اور دوسروں كو بھى كھلاتے۔
اس حدیث کے تحت صاحب تحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں :
وهو نص صريح في أن الشاة الواحدة تجزئ عن الرجل وعن أهل بيته وإن كانوا كثيرين وهو الحق .
ترجمہ:يہ حديث اس  بات كى صريح دليل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھروالوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد زيادہ ہى کیوں نہ ہو، اور حق بھى يہى ہے۔
ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔

عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ اَبَا اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیَّ کَیْفَ کَانَتِ الضَّحَایَا فِیْکُمْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِیْ عَھْدِ النَّبِیِّ یُضَحِّیْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ فَیَاْکُلُوْنَ وَ یُطْعِمُوْنَ حَتّٰی تَبَاھَی النَّاسُ فَصَارَکَمَا تَرَی .(صحيح ابن ماجه:2563)
ترجمہ:حضرت عطاء نے ابوایوب سے پوچھا کہ نبی ﷺ کے عہد میں قربانیوں کا کیا حال تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ عہد نبوی میں ایک آدمی ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی دیتا تھا۔۔۔ کبھی کھاتے اور کبھی اوروں کو کھلاتے۔ یہاں تک کہ فخرو مباہات شروع ہو گیاجیسے تم دیکھ رہے ہو۔
اوپر والی حدیث میں عہد رسول کا ذکر ہے کہ ایک بکری ایک گھروالوں کی طرف سے قربانی دی جاتی تھی ، اب ایک حدیث بیان کررہاہوں جس میں نبی ﷺ خود ہی ایک مینڈا  اپنی طرف سے اوراپنےپورے گھر والے کی طرف سے قربانی کرتے بلکہ ایک مینڈا میں پوری امت کو شامل کرتے تھے ۔
حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
كانَ إذا أرادَ أن يضحِّيَ، اشتَرى كبشينِ عظيمينِ، سَمينينِ، أقرَنَيْنِ، أملَحينِ موجوءَينِ، فذبحَ أحدَهُما عن أمَّتِهِ، لمن شَهِدَ للَّهِ، بالتَّوحيدِ، وشَهِدَ لَهُ بالبلاغِ، وذبحَ الآخرَ عن محمَّدٍ، وعن آلِ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ (صحيح ابن ماجه: 2548)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے بڑے ،موٹے تازے ،سینگوں والے چتکبرے او رخصی مینڈھے خریدتے ۔ ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے ،یعنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ کی گواہی دیتا ہو اور نبی ﷺ کے پیغام پہچانے (اور رسول ہونے ) کی گواہی دیتا ہو ۔اور دوسرا محمد ﷺ کی طرف سے ، اور محمد ﷺ کی آل کی طرف سے ذبح کرتے ۔
ایک اور حدیث میں ایک مینڈھے کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی جانب سے اور اپنی امت کی جانب سے قربان کیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
شَهِدْتُ معَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ الأَضحى بالمصلَّى، فلمَّا قَضى خطبتَهُ نزلَ من منبرِهِ، وأُتِيَ بِكَبشٍ فذبحَهُ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ بيدِهِ، وقالَ: بسمِ اللَّهِ واللَّهُ أَكْبرُ، هذا عنِّي، وعمَّن لَم يضحِّ من أمَّتي(صحيح أبي داود:2810)
ترجمہ: میں ایک عید الاضحی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ میں حاضر تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ مکمل کر لیا اور منبر سے اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مینڈھا پیش کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور یہ دعا پڑھی «بسم الله والله أكبر هذا عني وعمن لم يضح من أمتي»اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہیں کر سکے ۔
ابوداؤد کی اس حدیث کے تحت حافظ شمس الحق عظیم آبادی عون المعبود میں لکھتے ہیں :
قلت : المذهب الحق هو أن الشاة تجزئ عن أهل البيت ؛ لأن الصحابة كانوا يفعلون ذلك في عهد رسول الله .
ترجمہ: میں نے کہا کہ حق یہی ہے کہ ایک بکری پوری گھر والے کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے اس لئے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسا ہی کرتے تھے ۔
اس کے بعد انہوں نےدلیل کے طور پراوپر گزری ساری احادیث کا ذکر کیا ہے اور بعض صحابہ کا عمل بھی بیان کیاہے  ۔ تفصیل کے لئے دیکھیئے عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ، کتاب الضحایا، باب فی الشاۃ یضحی بھا عن جماعۃ ۔ اس باب سے بھی حدیث کا مفہوم عیاں ہے کہ ایک بکری ایک جماعت یعنی ایک گھر کی طرف سے کافی ہے ۔ اسی طرح امام ابوداؤد کے علاوہ امام ترمذی نے بھی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ والی روایت پہ باب باندھا ہے "باب ماجاء ان الشاۃ الواحد تجزی عن اھل البیت " یعنی باب ہے اس بارے میں کہ ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کفایت کرجائے گی۔ ساتھ ہی امام ترمذی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس پہ بعض اہل علم کا عمل بھی ہے ۔
احادیث رسول کے علاوہ سلف وخلف سے بہت آثار واقوال ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف بھی رسول اللہ ﷺ کی اس سنت پہ عمل کرتے آرہے ہیں ۔
(1)صحابہ کے عمل کے متعلق اوپر ترمذی اور ابن ماجہ کی صحیح حدیث گزرگئی ہے جس میں ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا قول ہےکہ " ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا "یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ تمام صحابہ کا یہی موقف اور عمل تھا،اس کا ذکر اور بھی متعدد احادیث میں ہے۔
(2) بخاری شریف میں سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کا پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرنا مذکور ہے جبکہ ساتھ میں ان کی ماں بھی رہا کرتی تھیں ۔
وَكَانَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ(صحیح البخاری: 7210)
ترجمہ: اوروہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی کیا کرتے تھے ۔
(3) حضرت ابو سریحہ حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا:
حملني أَهلي على الجفاءِ بعدَ ما علِمتُ منَ السُّنَّةِ كانَ أَهلُ البيتِ يضحُّونَ بالشَّاةِ والشَّاتينِ والآنَ يبخِّلُنا جيرانُنا(صحيح ابن ماجه:2564)
ترجمہ: میرے گھر والوں نے مجھے غلط کام پر مجبور کردیا جبکہ مجھے سنت طریقہ معلوم ہے ایک گھر والے ایک بکر ی یا دو بکریاں ذبح کیا کرتے تھے ۔ اب تو (اگر ہم ایک کی قربانی دیں تو )ہمارے ہمسائے ہمیں بخیل کہنے لگتے ہیں ۔
(4) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی آیا ہے کہ وہ ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے قربانی کرتے تھے ۔ (ابن ابی الدنیا)
(5)حافظ ابن قيم رحمہ اللہ " زاد المعاد " ميں كہتے ہيں: "وكان من هديه صلى الله عليه وسلم أن الشاة تجزئ عن الرجل وعن أهل بيته ولو كثر عددهم".
ترجمہ: اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت ميں يہ بھى شامل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو.(بحوالہ تحفۃ الاحوذی)
(6)امام شوكانى " السیل الجرار " ميں لكھتے ہيں:
والحق أنها تجزئ عن أهل البيت وإن كانوا مائة نفس۔
ترجمہ: حق بات یہ ہے کہ ایک بکری پورے گھر والے کی طرف سے کفایت کرے گی اگرچہ ان کی تعداد سو کی کیوں نہ ہو۔ (بحوالہ عون المعبود)
(7) امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے دلیل لی جاتی ہے کہ آدمی کی قربانی ،اس کی جانب سے اور اس کے گھروالوں کی جانب سے جائز ہے اور یہ گھروالے اس آدمی کے ساتھ ثواب میں شریک ہوں گے ، یہی موقف ہمارا اور جمہور کا ہے اور ثوریؒ ، امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب نے ناپسند کیا ہے ۔ (بحوالہ غنیۃ الالمعی از حافظ شمس الحق عظیم آبادی)
(8) حافظ خطابی نے معالم میں ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ کا قول "من محمد وآل محمد ومن امۃ محمد" اس بات کی دلیل ہے کہ ایک بکری آدمی اور اس کے گھروالوں کی طرف سے کافی ہے اگر چہ ان کی تعداد بہت ہو۔ ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ ایسا ہی کرتے تھے اور اسے مالک ؒ، اوزاعیؒ، شافعیؒ، احمد بن حنبلؒ اور اسحاق بن راہویہ ؒ نے جائز کہا ہے اور ابوحنیفہ ؒ اور ثوری ؒ نے اسے ناپسند کیا ہے ۔ (بحوالہ عون المعبود)
(9) حافظ ابن حجر ؒ نے کہا کہ جمہور اس سے دلیل پکڑتے ہیں کہ آدمی کی قربانی اس کی طرف سے اور اس کے گھروالوں کی طرف سے کفایت کرجائے گی اورحنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے اور طحاوی نے مخصوص اور منسوخ ہونے کا دعوی کیا ہے مگر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ (بحوالہ عون المعبود)
(10) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ دوسگے بھائی ،اپنی اولاد کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ،ان کا کھانا پینا ایک ساتھ ہوتا ہے تو کیا ان سب کی طرف سے ایک قربانی جائز ہے ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ ہاں  جائز ہے کہ ایک اہل خانہ ایک قربانی پہ اکتفا کرے ،اگر چہ اہل خانہ میں دوفیملی کیوں نہ ہواور اس سے قربانی کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ (فتاوی نور علی الدرب) الشرح الممتع میں شیخ نےکہا کہ ثواب میں شرکت کی کوئی قید نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ساری امت کی جانب سے قربانی کی ہے اور ایک شخص ایک آدمی کی جانب سے ایک قربانی کرتا ہے خواہ ان کی تعدادسو ہی کیوں  نہ ہو۔
شیخ محترم کا ایک فتوی یہ بھی ہے کہ ایک گھر میں والے لوگوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کفایت کرجائے گی خواہ تعداد زیادہ کیوں نہ ہو، اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ سب بھائی ایک جگہ ہیں اور سبھی کا کھانا اکٹھے تیار ہوتا ہے اور وہ سب ایک ہی مکان میں رہتے ہیں اور ان کی بیویاں بھی ہوں ، اسی کے مثل والد کا اپنے بیٹوں کے ساتھ حکم ہے ،خواہ اس کے کچھ بیٹے شادی شدہ ہوں تو ان کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہوگی۔(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين)
(11) شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ میں شادی شدہ ہوں اور پنے بچوں کے ساتھ گھروالوں سے الگ دوسرے شہر میں رہتا ہوں ، عید الاضحی کی مناسبت سے چند روز قبل گھروالوں کے پاس بچوں کے ساتھ آتا ہوں اور قدرت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتااس کا حکم بتائیں تو شیخ نے جواب دیا کہ ایک قربانی آدمی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قربانی اپنی جانب سے اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ہرسال کی ہے لیکن اے سائل آپ مستقل گھر میں رہتے ہیں اس لئے آپ کےلئے مشروع ہے کہ آپ اپنی جانب سے اور اپنے اہل کی جانب سے الگ قربانی کریں ،آپ کے والد کی قربانی آپ کے لئے کفایت نہیں کرے گی کیونکہ آپ ان کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ الگ طور پر مستقل گھر میں ہیں ۔ (باختصارمجموع فتاو ی شیخ ابن باز 18/37)
(12) دائمی فتوی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ اگر میرے والدین کے ساتھ میری اہلیہ بھی اسی گھر میں رہتی ہوتو کیا میرے اور میرے والدین کی طرف سے ایک قربانی کفایت کرے گی ؟ تو کمیٹی نے جواب دیا کہ اگر صورت ایسی ہی ہے کہ والد اور اس کے بیٹے ایک ہی گھر میں رہتے ہوں تو ایک ہی قربانی آپ کی ، آپ کے والدکی،آپ کی  والدہ کی اور آپ کی بیوی کی کافی ہے ۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: 11/404)
ایک بکری کی قربانی سے متعلق چند امور
٭ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ صحیح  احادیث ، آثار ، اقوال اور فتاوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک جانور کی قربانی پورے ایک گھر کے افراد کے لئے کافی ہے چاہے ان کی تعداد جتنی ہو۔
٭  اگر گھر کے افراد کی طرف سے الگ الگ جانور دینے کی وسعت ہو اور ان کی طرف سے الگ الگ قربانی دینے کی خواہش ہوتو دی جاسکتی ہے ،اس کی ممانعت نہیں ہے۔
٭ ایک بکرے میں چند متعدد گھرانے کے افراد کی شرکت جائز نہیں بلکہ ایک ہی  گھر کے افراد کی طرف سے یہ کفایت کرے گا۔
٭ ایک گھر کے وہ سارے رشتہ دار جو ایک سرپرست پہ جمع ہوں ، گوکہ کمانے والے متعدد افراد ہوں مگر ان سب کی طرف سے ایک جانور کی قربانی  کافی ہے ۔
٭ نبی ﷺ کی متعدد بیویاں تھیں اور قربانی کی اس قدر تاکید کے باوجود آپ نے ان سب کو الگ الگ قربانی کرنے کا کبھی حکم نہیں دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ گھر کے سرپرست کی قربانی میں گھروالے شامل ہوتے ہیں یعنی ذمہ دار کی قربانی گھر کے سارے افراد کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے ۔
٭  گھر والوں میں شادی شدہ بیٹا ہو تو وہ بھی باپ کی طرف سے ایک قربانی میں شامل ہوگاحتی کہ  اس کی بیوی بھی۔
٭ شادی کے بعد اگر بیٹا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ الگ رہائش پذیر ہوجائے تو انہیں اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے ایک الگ بکری قربانی کرنی ہوگی ،انہیں باپ کی قربانی کفایت نہیں کرے گی ۔
٭ جن لوگوں نے کہا کہ اسلام میں جوائنٹ فیملی کا تصور نہیں ہے ، شادی کے بعد بیٹا آزاد ہے وہ اپنی قربانی خود کرے گا خواہ باپ کے ساتھ ہی کیوں نہ رہتا ہو۔ یہ ساتھ رہنا ہی بتلاتا ہے کہ فیملی جوائنٹ ہے ، ہاں یہ بات درست ہے کہ شادی کے بعد بیٹا خود کفیل ہوجاتا ہے مگر برصغیر میں پائی جانے والی غربت اور ماحول  کی وجہ سے اکثر فیملی جوائنٹ ہی رہتی ہیں ، عام طور سےمسئلہ معاش کا ہوتا ہے ، اگرآداب وقوانین کے ساتھ فیملی جوائنٹ رہنا چاہے تو ناجائز نہیں ہے ۔ایک صحابی کے والد وفات پاگئے جنہوں نے نو بیٹیاں چھوڑی تھیں تو اس صحابی نے اپنی بہنوں کو ساتھ میں رکھا ۔ یہ حدیث بخاری میں5367 نمبر کی ہے ۔

٭ جن لوگوں نے نبی ﷺ کے عمل کو مخصوص یا منسوخ کہا ہے ان کے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ، حق یہی ہے کہ نبی ﷺ کا عمل عام ہے اسی وجہ سے صحابہ کرام نے آپ کی سنت پر عمل کیالہذا حنفیہ کااس سلسلے میں انکار سنت کی خلاف ورزی ہے جیساکہ اوپر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول گزرا ہے۔ 
مکمل تحریر >>

Sunday, August 23, 2015

مسبوق کی اقتدا میں نماز

مسبوق کی اقتدا میں نماز

سوال :کیا امام کے لئے امامت کی نیت کرنا شرط ہے؟ اوراگرکوئی شخص مسجد میں داخل ہو اورکسی شخص کونماز پڑہتا ہواپائے توکیاوہ اس کے ساتہ شامل ہوجائے ؟اورکیا مسبوق کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے؟

جواب :امامت کے لئے نیت شرط ھے , کیونکہ نبی ﷺ کا ارشادہے:
" اعمال کا دارومدارنیتوں پرہے ,اورہرشخص کے لئے وہی ہے جواسنے نیت کی ہے "
اگرکوئی شخص مسجد میں داخل ہواوراسکی جماعت چھوٹ گئی ہو اورکسی دوسرے شخص کو تنہانمازپڑھٹتے ہوئے پائے , تو اسکے ساتہ مقتدی بن کرنمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں , بلکہ یہی افضل ہے , جیساکہ ایک بار نبی r نے نمازختم ہوجانے کے بعد ایک شخص کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :
"کیا کوئی شخص ہے جواس پرصدقہ کرے اوراسکے ساتہ نمازپڑھے"
ایسا کرنے سے دونوں کوجماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی, لیکن جونماز پڑھ چکاہے اسکے لئے یہ نماز نفل ہوگی-
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتہ عشاء کی نماز پڑھتے ,پھراپنی قوم کے پاس واپس جاکرانہیں دوبارہ یہی نمازپڑھاتے تھے , یہ نماز ان کے لئے نفل اورلوگوں کیلئے فرض ہوتی تھی , اورنبی ﷺ کو جب معلوم ہوا توآپ نے اسے برقراررکھا-

اسی طرح جس کی جماعت چھوٹ گئی ہو وہ جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے مسبوق کی اقتدا میں نمازپڑھ سکتا ہے , اسمیں کوئی حرج نہیں , اورمسبوق کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی باقی نماز پوری کرلے , کیونکہ اس سلسلہ میں وارد حدیثیں عام ہیں – اوریہ حکم تمام نمازوں کو عام ہے , کیونکہ نبی r نے جب ابوذرt سے یہ ذکرکیا کہ آخری زمانہ میں ایسے امراء وحکام ہوں گے جونمازیں بے وقت پڑھیں گے توانہیں حکم دیتے ہوئے فرمایا :
" تم نمازوقت پرپڑھ لیا کرنا , پھراگران کے ساتہ نمازمل جائے توان کے ساتہ بھی پڑھ لینا , یہ تمہارے لئے نفل ہوجائے گی, مگریہ نہ کہنا کہ میں نے تو نمازپڑھ لی ہے لہذا اب میں نہیں پڑھتا " واللہ ولی التوفیق-


شیخ ابن باز رحمہ اللہ
مکمل تحریر >>

ریاض الجنہ (جنت کی کیاری)

ریاض الجنہ (جنت کی کیاری)


مقبول احمد سلفی

ریاض الجنہ یہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے منبر شریف  کے درمیان میں ہے, اس کا نام ریاض الجنۃ ہے (جنت کا باغیچہ)۔
یہ نام اس لئے پڑا کہ حدیث شریف میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة''(رواه البخاري :1196ومسلم :1391)
''میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے''۔
مسند بزار اور بعض دیکر کتب حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
''مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّة''
"میری قبر اور میرے ممبر کے درمیان جنت کی ایک کیاری ہے ۔
محدثین کی رائے یہ ہے کہ" قبری" کا لفظ بعض رواۃ کی طرف سے خطا ہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا:
" والثابت عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال : (ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة ) " هذا هو الثابت في الصحيح ، ولكن بعضهم رواه بالمعنى فقال : قبري .
وهو صلى الله عليه وسلم حين قال هذا القول لم يكن قد قبر بعد صلوات اللّه وسلامه عليه ، ولهذا لم يحتج بهذا أحد من الصحابة لما تنازعوا فى موضع دفنه ، ولو كان هذا عندهم لكان نصاً فى محل النزاع " انتهى.(مجموع الفتاوى 1/236)
ترجمہ: نبی ﷺ سے جو ثابت ہے وہ یہ ہے :"ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة" (میرے گھر اور میرے ممبر کے درمیان جنت کی ایک کیاری ہے ) ،حقیقت میں یہی ثابت ہے ۔ لیکن بعض راویوں نے روایت بالمعنی کیا ہے اور انہوں نے کہا: "قبری" ۔ جب نبی ﷺ نے یہ بات کہی اس وقت آپ کی قبر تھی ہی نہیں، اسی لئے صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے دلیل نہیں پکڑی جب دفن کی جگہ کے سلسلے میں تنازع کررہے تھے ، اور اگر یہ ان کے پاس ہوتا تو ان کے لئے نزاع کی جگہ میں دلیل بن جاتی۔ 

اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاض الجنۃ سے مراد واقعی جنت کی کیاری ہے ؟
اس سلسلے میں اہل علم کے کئی اقوال ملتے ہیں۔
(1) اس جگہ پہ بیٹھنے کی سعادت و اطمنان جنت کی کیاریوں کے مشابہ ہے ۔
(2)اس جگہ پہ عبادت کرنا جنت میں دخول کا سبب ہے ۔
(3) یہ جگہ آخرت میں واقعی جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
بعض علماء نے پہلے قول کو ، بعض نے دوسرے قول کو اور بعض نے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔

میں ان اقوال میں سے کسی ایک کو بلا ترجیح دئے بس یہ کہوں گا کہ اصل تو اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو زمان و مکان کو فضیلت و خصوصیت بخشتا ہے ،ساتھ ساتھ  یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقام کی بڑی فضیلت ہے ، اگر مسجد نبوی ﷺ آنے کا موقع ملے تو یہاں عبادت ، ذکر، اللہ سے دعا، اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے ۔ اس جگہ پہ نبی ﷺ سے بھی خاص طور سے عبادت کرنا ثابت ہے ۔

یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی کے ساتھ آتا اوروہ مصحف والے ستون کے پاس یعنی روضہ شریف میں آ کرنماز ادا کرتے ، تومیں نے انہيں کہا اے ابومسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس ستون کے پاس ضرورنماز ادا کرتے ہیں ! تووہ فرمانے لگے :
میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے ۔ (بخاری :502 ومسلم:509 ) ۔
اور اس مقام پہ بیٹھنا یا عبادت کرنا آپ سے تقاضہ کرتا ہے کہ اپنے اندر تقوی پیدا کریں ، اگر آپ کو ریاض الجنہ آنے کی سعادت ملی مگر اعمال میں سنت کی پیروی نہیں بلکہ بدعت اور نیت میں اخلاص نہیں بلکہ ریا کاری ہے تو پھر آپ کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔
ایک اہم بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ جو لوگ اس جگہ پہ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور دوسروں کو یہاں آنے کا موقع فراہم نہیں کرتے وہ بھی غلط کرتے ہیں اور ان کی بھی غلطی ہے جو بھیڑ دیکھ کر بھی ضعیفوں اور کمزوروں کو تکلیف پہنچاکر اندر داخل ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی ہمارے حال کی اصلاح فرمائے اور ہم سب کو اس مقدس جگہ ریاض الجنہ میں عبادت کرنے اور کچھ دیر سعات حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین




مکمل تحریر >>

تعویذ لکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا

تعویذ لکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا

اسلام میں تعویذ استعمال کرنا ناجائز ہے ۔ لہذا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں وہ تعویذ لٹکائے ، اسی طرح کسی کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ دوسروں کے لئے تعویذ لکھ کر دے ۔
اگر کوئی امام تعویذ لکھتا ہے اور اس کا تعویذ شرکیات پر مبنی ہوتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ، لیکن وہ امام اگر قرآن و حدیث سے تعویذ لکھتا ہے تو اس کے پیچھے نماز ادا کرسکتے ہیں ، ساتھ اسے نصیحت بھی کرتے رہنا ہے تاکہ وہ تعویذ سے باز آجائے کیونکہ تعویذ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔

واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی  
مکمل تحریر >>

واٹس اپ اور قرآنی آیات و احادیث

واٹس اپ اور قرآنی آیات و احادیث

لوگوں میں ایک امیج کے ذریعہ یہ خبر عام ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ اسلام سے خارج کر رہا ہے.
ساتھ ہی یہ کہاگیا ہے کہ سعودی عرب سے یہ فتوی شائع کیا گیا ہے.
یہ باتیں بے بنیاد ہیں ، ان پر دهیان نہ دیا جائے .

البتہ واٹس ایپ کے متعلق دو باتیں جو کافی چرچہ میں ہیں اور پھیلائے جانے والے ہندی امیج میں بهی خطرناک بتلایا گیا ہے. اس کا میں نیچے حل پیش کرتا ہوں. 

(1) پہلا مسئلہ واٹس ایپ کے ذریعہ آیت یا حدیث سینڈ کرنے کا ہے.
اس کا جواب یہ ہے کہ 👇

آپ آیت یا حدیث کا ترجمہ تو لکھ کر فاورڈ کر سکتے ہیں لیکن کسی آیت یا حدیث کا متن رومن اردو میں لکھ کر فارورڈ نہ کریں۔ قرآن مجید تو اس لیے کہ اس کو بغیر رسم عثمانی کے لکھنا ممنوع ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے جبکہ حدیث کو عربی رسم کے بغیر لکھنے میں اس میں تحریف کے امکانات نکلتے ہیں۔

(2) دوسرا مسئلہ واٹس ایپ سے یا موبائل میموری سے آیات و احادیث ڈیلیٹ کرنے کا ہے.

اس کا جواب یہ ہے کہ 👇

ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک مجبوری ہے ، ورنہ میموری فل ہوجانے پر کوئی نیا میسج نہیں آئے گا ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ موبائل بند کردیں، یا آپ گھر کے کمپیوٹر سے کوئی تلاوت وغیرہ ڈیلیٹ کر دیں یا کمپیوٹر بند کر دیں۔ لیکن یاد رہے کہ ڈیلیٹ کرنے میں نفرت یا بغض شامل نہیں ہونا چاہئے، بلکہ احترام کے پیش نظر یہ امر انجام دینا چاہئے۔
آپ کا بهائی

مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

Saturday, August 22, 2015

فیس بک یا واٹس ایپ پوسٹ ملنے پہ ہم کیا کریں؟




فیس بک یا واٹس ایپ  پوسٹ ملنے پہ ہم کیا کریں؟

چند تجاویز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقبول احمد سلفی


اگر کوئی پوسٹ بیحد پسند آئے تو" سبحان اللہ" کہہ سکتے ہیں.
کسی نے محنت سے تیار کرکے کوئی چیز آپ کو بهیجی ہے ، اس پہ "جزاک اللہ خیرا" کہنا چاہئے.
کسی پوسٹ کا آخری جملہ دعائیہ ہو تو اس پہ "آمین " کہنا چاہئے.
کوئی غمناک خبر ملے تو " انا للہ وانا الیہ راجعون" کہنا چاہئے.
کوئی سوال ہو اور جواب معلوم نہ ہو تو "لاادری" کہنا چاہئے.
اگر کوئی خلاف شریعت بات ہو تو اس پہ تنبیہ کرنا چاہئے.
اگر پوسٹ سمجه میں نہ آئے تو وضاحت طلب کرنا چاہئے اگر بلا دلیل پوسٹ ہو تو دلیل طلب کرنا چاہئے.
اگر قرآن و حدیث کی بات ہو تو اس سے استفادہ کرکے آگے بهیجنا چاہئے ، بصورت دیگر فارورڈ نہیں کرنا چاہئے.


مکمل تحریر >>