Sunday, May 31, 2015

کیا مسواک والی نماز کی فضیلت ہے؟

کیا مسواک والی نماز کی فضیلت ہے؟
======================
ایک بھائی کا سوال ہے کہ کیا مسواک والی نماز غیرمسواک والی نماز سے بہتر ہے ؟
ایک حدیث بیان کی جاتی ہے ، "صلاة بسواك خير من سبعين بغير سواك"، رواه البيهقي 
کہ مسواک والی نماز غیرمسواک والی نماز سے ستر گنا بہتر ہے ۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ السلسلة الضعيفة - الألباني (1503)
اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ مسواک والی نماز غیر مسواک والی نماز سے افضل یا بہتر یا زیادہ ثواب کا باعث ہے ۔
یہ الگ بات ہے کہ مسواک کی فضیلت ثابت ہے.



واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

Friday, May 29, 2015

اکسڈنٹ میں قتل ہونے کا بیان

اکسڈنٹ میں قتل ہونے کا بیان
==============
مقبول احمد سلفی
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ گاڑی چلاتے ہوئے اکسڈنٹ ہوجاتا ہے ، اس میں بسااوقات لوگوں کی جان بھی چلی جاتی ہے ۔  اگر  یہ ثابت ہو جائے کہ ڈائیور سےقصدا قتل نہیں ہوا ہے تواسےقتل خطا کہتے ہیں اور قتل خطا میں  دیت ا ور کفارہ دونوںواجب ہو جاتے ہیں ‘۔ اگر مقتول کے وارث دیت معاف کر دیں تو دیت ساقط ہو جاتی ہیں مگر کفارہ باقی رہ جاتا ہے ۔کفارے کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے: ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيماً حَكِيماً )
ترجمہ: کسی مؤمن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی مؤمن کو قتل کرے الّا یہ کہ غلطی سے ایسا ہوجائے، اور اگر کوئی غلطی سے کسی مؤمن کو قتل کردے تو وہ ایک مؤمن غلام آزاد کرے اور اس کے وارثوں کو دیت بھی ادا کرے، الّا کہ وہ معاف کردیں ، اور اگر وہ مقتول مؤمن تو تھا مگر تمہاری دشمن قوم سے تھا تو (اس کا کفارہ) صرف ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اور اگر ایسی قوم سے ہو جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے تو پھر وارثوں کو دیت بھی دینی ہوگی اور مؤمن غلام بھی آزاد کرنا ہوگا، پھر اگر قاتل مؤمن غلام آزاد کرنے کا موقع نہ ملے تو متواتر دو ماہ کے روزے رکھے۔ (اس گناہ پر) اللہ سے توبہ کرنے کا یہی طریقہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ النساء /92
لہٰذا اس کیلئے متواتر دو مہینے کے روزے رکھنے واجب ہوتے ہیں ‘ کیونکہ آج کل غلام کو آزاد کرنا مشکل ہے ۔
اس میں ایک بات اور بھی واضح کردوں کہ بعض لوگ اپنا انشورنس کرائے ہوتے ہیں ، اس کے ساتھ حادثہ ہونے پر اس کے ورثاء  پالیسی کی رقم لے سکتے ہیں ۔ (یہاںمیں اس پالیسی کی بات کررہاہوں جو جبری ہوتی ہے)۔
 فضيلۃ الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ سے انشورنس كمپنى سے معاوضہ لينے كے متعلق حكم دريافت كيا گیا تو ان كا جواب تھا:
" يہ جائز ہے، كيونكہ ان كمپنيوں نے يہ كہہ ركھا ہے كہ جو بھى ان سے انشورنس كروائيگا وہ اس كى جانب سے حادثہ كے ذمہ دار ہونگے، اور جب وہ معاوضہ دينے كے پابند ہيں تو اس معاوضہ كو لينے ميں كوئى مانع نہيں، اور حادثہ ميں ـ كسى كى وفات ہونے كى حالت ميں ـ حادثہ كے مرتكب شخص كى غلطى كى بنا پر حادثہ ہونے كى حالت ميں اس پر قتل خطا كا كفارہ باقى رہتا ہے "
بعض جگہوں پہ دیت کی رقم کورٹ سے مقدمہ لڑنے کی بعد ملتی ہے ، تو دیت والی رقم کورٹ کے ذریعہ ملے یا دوسرے ذرائع سے یہ مقتول کے ورثاء کو لینا جائز ہے ۔



مکمل تحریر >>

Monday, May 25, 2015

ماہ شعبان کی حقیقت

ماہ شعبان کی حقیقت
ماہِ رواں ماہِ شعبان ہے ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، اِس مہینہ کی فضیلت کے بارے میں محدثین نے جو احادیث روایت کی ہیں اُن میں ہمیں ایک فضلیت تو یہ ملتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھے جائیں چنانچہاحادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
ما رأيت رسول اللهﷺ يصوم شهرين متتابعين، إلا أنه كان يصل شعبان برمضان ۔۔۔ (صحيح النسائي: 2174)
ترجمہ : "میں نے نبیﷺ کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا، لیکن آپﷺ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے"۔۔

دوسری احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریمﷺ شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے تھے۔ سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے:
سألت عائشة رضي الله عنها عن صيام رسول الله ﷺ فقالت: كان يصوم حتى نقول: قد صام، ويفطر حتى نقول: قد أفطر، ولم أره صائما من شهر قط أكثر من صيامه من شعبان. كان يصوم شعبان كله. كان يصوم شعبان إلا قليلا ۔۔۔ (صحيح مسلم: 1156)
ترجمہ : "میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے"۔

شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمت
سیدنا اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:
ذلك شهر يغفل الناس عنه ، بين رجب ورمضان ، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين ، فأحب أن يرفع عملي ، وأنا صائم ۔۔۔ (صحيح النسائي: 2356)
ترجمہ : یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اور رمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔

ان کے علاوہ کچھ اور صحیح روایات ملتی ہیں ۔
(1)معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یطَّلعُ اللَّہ ُ تبارکَ و تعالیٰ اِلیٰ خلقِہِ لیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ فَیَغفِرُ لِجمیع ِ خلقِہِ ، اِلاَّ لِمُشرِکٍ او مُشاحن۔(صحیح الجامع الصغیر:1819 ، سلسلہ احادیث صحیحہ :1144)
ترجمہ : اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی درمیانی رات میں اپنی مخلوق(کے اعمال )کی خبر لیتا ہے اور اپنی ساری مخلوق کی مغفرت کر دیتا ہے ، سوائے شرک کرنے والے اور بغض و عناد رکھنے والے کے(اِنکی مغفرت نہیں ہوتی)﴾۔

(2)اور اِس کی دوسری روایت اِن الفاظ میں ہے:
اِذا کَان لَیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ اَطلَعُ اللَّہ ُ اِلَی خَلقِہِ فَیَغفِرُ لِلمُؤمِنِینَ وَ یَملیَ لِلکَافِرِینَ وَ یَدعُ اَئہلِ الحِقدِ بِحِقدِہِم حَتَی یَدعُوہُ ۔(صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ:771)
ترجمہ: جب شعبان کی درمیانی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق (کے اعمال )کی اطلاع لیتا ہے اور اِیمان والوں کی مغفرت کر دیتا ہے اور کافروں کو مزید ڈِھیل دیتا ہے اورآپس میں بغض(غصہ )رکھنا والے (مسلمانوں )کو مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنا غُصہ چھوڑ دیں ﴾ ۔
یہ حدیث حسن ہے ۔


مذکورہ اِن دو روایات کو بنیاد بناکر شعبان کے تعلق سے ہزاروں بدعات گھڑی گئیں اور انہیں دین کا حصہ سمجھ کر عمل میں لایا جاتا ہے جبکہ  اِن احادیث میں کوئی ایسی خبر نہیں جِس کو بُنیاد بنا شب برات منائی جائے ، مردوں کی روحوں کی آمد کا عقیدہ رکھاجائے ، قبروں کی خصوصی زیارت کی جائے ، حلوہ خوری کا اہتمام کیا جائے ، آتش بازی کی جائے اور مخصوص نماز و مخصوص اذکار پڑھے جائیں ۔ حقیقتا اِن سب چیزوں کے لیے ہمارے پاس اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی طرف سے کوئی ثابت شدہ سچی قابلِ اعتماد خبر نہیں۔
مکمل تحریر >>

Sunday, May 24, 2015

کافر کے لئے دعا کرنا

کافر کے لئے دعا کرنا

کیا کافر کے لئے دعا کی جاسکتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور عوام پر یہ بات مخفی ہے ۔ اس لئے ہم اس کی مختصر وضاحت کردیتے ہیں۔
کافر کے لئے دعا کرنے کی چند صورتیں ہیں ۔
(1) پہلی صورت یہ ہے کہ اس کے لئے ہدایت کی دعا کی جائے ۔ یہ جائز ہے اور حدیث سے ثابت ہے ۔
دلیل : عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :" اللهم أعز الإسلام بأحب هذين الرجلين إليك بأبي جهل أو بعمر بن الخطاب"۔ ( رواه الترمذي وصححه الألباني)
ترجمہ : ابن عمررضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اے اللہ دو آدمیوں میں سے کسی ایک کو پسند فرماکر اسلام کو تقویت پہنچا، یعنی ابوجہل یا عمر بن خطاب۔
(2) دوسری صورت کافر کے لئے مغفرت کی دعا کرنا تو یہ بالاتفاق حرام ہے، اس پر اجماع ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر کا جنازہ پڑھنا اور اس کے لئے مغفرت کی دعا کرنا نص قرآنی اور اجماع سے حرام ہے ۔(المجموع 5/120)
(3) تیسری صورت کافرمریض کے لئے شفا کی غرض سے دعا کرنا جائز ہے جبکہ اس کے اسلام لانے اوراس کا دل مائل کرنے کا قصد کیا گیا ہو۔ اور اسی طرح مرض کی حالت میں اس کی عیادت کرنا بھی جائز ہے ۔ چونکہ حالت مرض میں آدمی کا دل نرم پڑجاتا ہے اور حق قبول کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اس مناسب سے کافر مریض کی عیادت کرنا بیحد مفید ہے ۔
ایک بار ایک یہودی غلام بیمار پڑگیا، تو نبی ﷺ نے اس کی عیادت کی اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر آپ نے اس سے کہا اسلام لے آؤ تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھاجو وہاں موجود تھا تو باپ نے کہا کہ ابوالقاسم ﷺ کی اطاعت قبول کرلو پس اس نے اسلام قبول کرلیا۔ آپ ﷺ وہاں سے نکلے اور کہہ رہے تھے کہ بڑائی ہے اس کی جس نے اس کو آگ سے نجات دی۔ (صحیح بخاری)
Top of Form


مکمل تحریر >>

Saturday, May 16, 2015

نیپال میں مسجد کے مینار کی کرشمائی تعمیرکی حقیقت

نیپال میں مسجد کے مینار کی کرشمائی تعمیرکی حقیقت
=========================
مقبول احمد سلفی

یہ واقعہ تو دوسال پہلے کا ہے کہ "نیپال میں ایک مسجد کا مینار بننا تھا اس کی انچائی پر پتھر اٹھاکر رکھنے کے لئے جب کرین طلب کیا گیا تو غیرمسلم سربراہ نے کہا کہ تم اپنے رب اور اپنے نبی سے مدد مانگو جن سے تم مدد کا دعوی کرتے ہو وہ تمہاری مدد کریں ، اس مسجد کے امام نے بارگاہ رب اور بارگاہ مصطفی ﷺ میں دعا مانگی اور اپنی عرض پیش کی تو اسی رات انہیں خواب میں سرکار کی زیارت ہوئی تو سرکار نے ارشاد فرمایا کہ گنبد پر سفید رنگ کا کپڑا ڈال دو اور دیکھو کہ کپڑا گنبد کی شکل اختیار کرکے ہوا میں اڑتا ہوامینار پہ لگ جائے گا۔جب لوگوں نے یہ معجزہ دیکھا تو وہاں کی فضا کلمہ طیبہ ، اللہ اکبر اور یارسول اللہ کی فضاؤں سے گونج اٹھی"۔
طالب دعا : محمد عابدعلی عطاری قادری چشتی
یہ واقعہ فراڈ ، جھوٹ اور جعلی ہے ۔ دراصل یہ ایک پاکستانی بریلوی جس کا نام اوپر مذکور ہے اسی کی کارستانی ہے ، اس نے کمپیوٹر سے ویڈیو بناکر یوٹیوب پہ اپ لوڈ کردیا ہے ۔ نیپال میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں کسی مسجد کا مینار اس طرح تعمیر کیا گیاہواور کسی بھی نیپالی کو یہ بات معلوم نہیں سوائے چند کے جنہوں نے خیلیجی ممالک میں دوسروں سے سنا ہے ، تاہم نیپال کے کسی کونے میں بھی اس کی کوئی آواز نہیں سنائی دیتی ۔اس جھوٹ کو اتنا پھیلایا گیا کہ سیدھے سادھے لوگوں کو اس کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
جس زمانے میں یہ ویڈیو اپ لوڈ کیا گیا تھااسی وقت لوگوں کے بکثرت استفسار پر پہلے میں نے سارے ویڈیو کلپ دیکھے جو سات آٹھ کی تعداد میں تھے ۔ ان ویڈیو میں ، شروع میں واقعہ بیان کیا گیا، کسی میں اردو میں کسی میں رومن انگلش میںاور کسی میں ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے کا ایمیل تو کسی میں اس کا موبائل نمبر۔ 
پہلی بات تو ویڈیو سے ہی ظاہر ہے کہ یہ فیک ہے دوسری بات یہ کہ کسی ویڈیو میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نیپال میں کس جگہ یہ واقعہ ہوا دراصل یہ بھی ایک قسم کی چالاکی ہے۔
میں نے اس آدمی سے اس کے موبائل نمبر پہ کال کیا جوکہ پاکستانی نمبر تھا، اس سے میں نے سوال کیا کہ آپ کو یہ ویڈیو کہاں سے ملا ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے نٹ سے ہی لیا۔ میں نے پھر پوچھا نٹ میں کہاں سے؟ تو اس نے جواب نہیں دیا ۔ پھر سوال کیا کہ آپ نے اپنے نام سے شروع میں جو واقعہ کی تفصیل لکھی ہے وہ تفصیل کہاں سے ملی؟ آپ تو پاکستانی ہیں اور واقعہ نیپال کا ہے ؟ تو اس نے میرا کال ڈسکنکٹ کر دیا۔ 
بعد میں اس بندے نے ویڈیو کلپ سے اپنی بعض تفصیل حذف کردی ۔
اللہ تعالی ایسے لوگوں کو ہدایت دے ۔
ایک بندے نے اس فیک ویڈیو پہ ایک کلپ تیار کرکے اس کا جواب بھی دیا ہے ، نیچے والے رابطے پہ کلک کریں۔
https://www.youtube.com/watch?v=KJCZuCklMYk


مکمل تحریر >>

اشیاء پر بنی تصویر کا حکم

اشیاء پر بنی تصویر کا حکم
===========
یہ حقیقت ہے کہ آج بہت ساری چیزوں کے پیکٹ پہ اشتہار کے طور پر جاندار کی تصویر بنی ہوتی ہے ، افسوس اس بات کی ہے کہ تصویر بھی اکثروبیشتر نیم عریاں لڑکیوں کی ہوتی ہے۔
ہمیں اس طرح کے سامان سے جس قدر بچنا ممکن ہو بچنا چاہئے کیونکہ ایسی تصویر دیکھنا، گھر لانا اور گھر میں رکھے رہنا باعث گناہ ہے ۔ مگر وہ سامان جنہں تصویر کے بغیر خریدنا ممکن ہی نہ ہوتو آدمی اس حالت میں معذور ہے ۔ تاہم سامان پیکٹ سے نکال کر تصویر کو ضائع کر دیا جائے ۔  
یہ ایک یہودی شازش ہے کہ مسلمانوں کو حرام کردہ اشیاء کے استعمال پہ مجبور کردیا جائے۔
فتنے کے اس دور میں آدمی پر اپنی طاقت کے بقدر احتیاط برتنا ضروری ہے ۔
اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو اور اس کا دشمن ذلیل و خوار ہو۔ آمین

آپ کا بھائی
مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

Friday, May 15, 2015

کیا نہار منہ پانی پینا صحت کے لئے مضر ہے؟

کیا نہار منہ پانی پینا صحت کے لئے مضر ہے؟

مقبول احمد سلفی

بعض لوگوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ نہار منہ پانی پینا صحت کے لئے مضر ہے ۔ دراصل اس بات کی بنیاد چند ضعیف روایت ہیں ۔

(1) پہلی روایت : ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا:مَن شرِب الماءَ علیَ الرِیقِ اَنتقصَت قُوتہُ (المعجم الأوسط للطبرانی :4646)
ترجمہ : جس نے نہار مُنہ پانی پیا اس کی طاقت کم ہو گئی۔

روایت کا حکم :
٭اس روایت کی سند میں محمد بن مخلد الرعيني ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
٭امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
٭علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے (السلسلۃ الضعیفہ : 6032)

(2) دوسری روایت : ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی روایت میں بھی یہ ہی الفاظ ہیں :من شرب الماء على الريق انتقضت (المعجم الأوسط للطبرانی:6557)
ترجمہ :جس نے نہار مُنہ پانی پیا اس کی طاقت کم ہو گئی ۔

روایت کا حکم :
٭اس روایت کی سند میں عبدالاول المعلم نامی راوی کے بارے میں امام طبرانی نے اس روایت کے بعد لکھا کہ "یہ روایت صرف عبدالاول المعلم نے ہی بیان کی ہے "۔
٭امام ہیثمی نے کہا کہ اس میں ایک جماعت ہے جنہیں میں نہیں جانتا ہوں۔(مجمع الزوائد10/305)

(3)ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرب الماء على الريق يفقد الشحم (الکامل فی ضعفاء الرجال)
ترجمہ : نہار مُنہ پانی پینے سے چربی ختم ہوتی ہے۔

روایت کا حکم :
٭یہ روایت ضعیف ہونے کی وجہ سے ہی الکافل فی ضعفاء الرجال میں درج کی گئی ۔ اس روایت کی سند میں ایک راوی عاصم بن سلیمان الکوزی ہے جس کو أئمہ حدیث نے جھوٹا،روایات گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔
٭ ابن الجوزی وغیرہ محدثین نے یفقد کی جگہ یعقد کا لفظ ذکر کیا ہے اور اس روایت کو موضوع میں شمار کیا ہے ۔ (موضوعات ابن الجوزی 3/204)

مذکورہ روایات کا حال جان لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہار منہ پانی پینے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے ۔

نہار منہ پانی پینا طب کی نظر میں
===================
اسلام نے نہار منہ پانی پینے سے منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی نہار منہ پانی پینے میں اسلامی اعتبار سے صحت کو نقصان پہنچنے کا کوئی ثبوت موجود ہے ۔
جب ہم طب کی روشنی میں نہار منہ پانی پینے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے بے شمار فوائد نظرآتے ہیں۔ مثلا

دردِ سر و جسم، بواسیر،بلڈ پریشر،لقوہ، دمہ،کھانسی، جگر کے امراض، بلڈ کولیسٹرول، بلغم، آرتھرائٹس، مینن جائنٹس، استخاضہ، ٹی بی، بے ہوشی، مروڑ،  تیزابیت، قبض،  ذیابیطس، گیس ٹربل ،بچہ دانی کا کینسر، امراض چشم،امراض ناک ، امراض کان ، امراض گلہ،قلب کے نظام میں پایا جانے والا نقص،موٹاپے کے سبب جنم لینے والی بیماریاں، گردن توڑ، گردے کی خرابی، معدے کی بیماریاں اور متعدد زنانہ امراض سے بچنے کے لئے نہار منہ اور خالی پیٹ پانی پینا مفید ثابت ہوتا ہے۔
مکمل تحریر >>

Thursday, May 14, 2015

ماں کے دودھ کے فوائد

ماں کے دودھ کے فوائد 

آج کی ماڈرن خواتین مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کو طبعی دودھ نہ پلا کر مارکیٹ کا مصنوعی دودھ پلاتی ہیں.
اس کی وجہ مجهے صرف ایک ہی نظر آتی ہے اور وہ ہے فیگر کا خراب ہونے کا خطرہ.
اے خواتین کی جماعت!
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین ڈهانچے میں بنایا اور بہترین ڈهانچے والی مخلوق انسان کو اسی بات کا مکلف کیا جو اس کے حق میں مفید ہے.
لہذا اللہ تعالی کے حمکت بهرے فیصلے پر راضی ہو جا اور تو وہی کر جو تیرے خالق کا حکم ہے.
جہاں اسلام نے ماں کو دودھ پلانے کا حکم دیا وہیں اسلام کی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے آج کا ترقی یافتہ طب بهی بچے کو ماں ہی کا دودھ پلانے کا قائل ہے.
ماں کے دودھ کے چند طبی فوائد دیکهیں.
(1)ماں کا دودھ غذائیت سے بھرپور اورتیار ہوتا ہے جس میں کوئی کسی قسم کا جراثیم نہیں ہوتا ۔
(2)ماں کے دودھ سے کوئی اوردودھ مماثلت نہیں رکھتا نہ توگاۓ اورنہ ہی بکری یاپھر اونٹنی وغیرہ کا دودھ ، اس لیے کہ ماں کا دودھ قدرتی طورپر اس کی ولادت سے لیکر دودھ پینے کی مدت ختم ہونے کے ایام تک ہر دن بچے کی ضروریات کے مطابق بنتا اورتیار ہوتا رہتا ہے ۔
(3)
ماں کے دودھ میں پروٹین اورشوگر کا تناسب بچے کی ضرورت کے مطابق پایا جاتا ہے ، لیکن گاۓ ، بھینس ، اوربکری وغیرہ کے دودھ میں پروٹین اتنی مقدار ميں ہوتی ہے کہ بچے کا معدہ اسے ہضم کرنے کی طاقت نہيں رکھتا اس لیے یہ دودھ توان حیوانات کی اولاد کی مناسبت سے تیار کیا گیا ہے ۔
(4)ماں کا دودھ پینے والے بچے میں نمو زیادہ ہوتا ہے اوروہ جلدی بڑا ہوتا لیکن فیڈر سے دودھ پینے والے بچے اتنی جلدی نہیں بڑھتے ۔
(5)
ماں اوربچے کےدرمیان نفسیاتی اورعاطفی ارتباط زیادہ پایا جاتا ہے ۔
(6)ماں کا دودھ ان مختلف عناصر پر مشتمل ہوتا ہے جو بچے کی غذائی ضروریات اس کے جسم کی کیفیت اورکمیت کے مطابق پوری کرتا ہے ، اوراس کے نظام ہضم کے مطابق ہوتا ہے ، اورپھر غذائیت کے یہ عناصر ایک جیسے نہیں رہتے بلکہ بچے کی ضرورت کے مطابق دن بدن بدلتے رہتے ہیں ۔
(7)ماں کا دودھ ایک معقول درجہ حرارت رکھتا ہے جوبچے کی ضرورت پوری کرتا ہے اورکسی بھی وقت حاصل ہوسکتا ہے ۔
(8)ماں کا دودھ پلانا منع حمل میں ایک طبعی عوامل کی حیثیت رکھتا ہے ، اورماں ان سب مشکلات سے سلیم رہتی ہے جومنع حمل کے لیے گولیاں یا پھرانجیکشن وغیرہ استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہیں ۔
دیکھیں : کتاب " توضیع الاحکام ( 5 / 107 ) ۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, May 12, 2015

جسے اولاد نہ ہورہی ہو وہ کیا کرے ؟

جسے اولاد نہ ہورہی ہو وہ کیا کرے ؟

جب کسی کو اولاد ہونے میں تاخیر ہو جائے یا اسے اولاد نہیں ہورہی ہو،توآدمی بے چین ہوجاتا ہے ، اور اولاد کے لئے جائزوناجائز کی تفریق مٹاکر کچھ بھی کرنے کو راضی ہوجاتا ہے اور انجام بھی دیتا ہے ۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے متعلق بڑی عجیب و غریب داستانیں ملتی ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سچے مومن کا ایسے عالم میں کیا موقف ہونا چاہئے ؟

(1)سب سے پہلے تو یہ عقیدہ ذہن میں راسخ کرے کہ بچوں کی پیدائش کا تعلق  اللہ تعالی کی مشیئت سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ:
 {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ ، أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ }
ترجمہ: آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلئے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جس چاہتا ہے  بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے  یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا  کرتا ہے، اور جسے  چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔[الشورى : 49 - 50]

(2)جب یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔
تو میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ  اللہ عزوجل  کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ زاری  کیساتھ  ذکر و دعا میں مشغول رہیں۔
ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: {وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
ترجمہ : اور وہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں  ہماری بیویوں اور اولاد  سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ [الفرقان : 74]

(3)اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے  اس محرومی کا سامنا ہے تو  جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جا سکتا ہے، جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے، صرف بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس  کا علاج نہیں ہے۔"
٭اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نےصحیح قرار دیا ہے۔

دوسری حدیث ہے:"اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی  جس کیلئے شفا نازل نہ کی ہو۔"(ابن ماجہ: 3482)
٭شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

(4) ہوسکتا ہے اللہ تعالی نے اس کے لئے اولاد کا ایک وقت متعین کیا ہو اور ہم جلد بازی سے کام لے رہے ہوں ۔ یا اللہ تعالی ہمیں اولاد کی نعمت سے محروم کرکے دنیا و آخرت کی بیش بہا نعمتوں سے نوازنا چاہتاہو۔
بہر کیف !کچھ بھی ہو ، ہر حال میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ کریں اور اس کے حکمت بھرے فیصلوں پر مکمل صبر  کریں اور یہ یقین کریں کہ قادر مطلق نے اس کیلئے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب  اجر عظیم  رکھا ہوا ہے۔
(5) اسی طرح لوگوں کے حالات زندگی اور مسائل میں  غور و فکر کرنا چاہیے، کہ  کچھ لوگوں کو بد اولاد  کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، جن کی وجہ سے انکی زندگی اجیرن ہوگئی، اور کچھ لوگوں کو معذور اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، اور اب وہ  انتہائی تنگی کی زندگی  میں ہے، بالکل اسی طرح ایسے والدین کو بھی دیکھیں جو  اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے مؤمن کیلئے وہی  پسند کرتا ہے جو اس کیلئے بہتر ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہےکہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے، اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو  صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث  ہے۔" (مسلم: 2999)



اللہ تعالی ہمیں اپنے فیصلے پر راضی رکھے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

Monday, May 11, 2015

اپنے نام کے ساتھ محمد لگانا

اپنے نام کے ساتھ محمد لگانا

ویسے نام کے لئے ایک کلمہ ہی کافی ہوتا ہے جیساکہ نبی ﷺ کا نام محمد اور دوسرا نام احمد ہے ۔ ہمارے یہاں ایک طریقہ یہ بھی رائج ہے کہ اپنے نام دوکلموں پر مشتمل رکتھے ہیں۔
اب یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نام کس طرح رکھا جائے ، اس سلسلہ میں نام رکھنے کے اسلامی اصول وضوابط دیکھے جاسکتے ہیں۔
ان میں سے یہ بھی ہے کہ نام رکھنے میں اللہ کی صفات کی طرف عبدیت کا انتساب ، یا انبیاء اور صحابہ وغیرہ کے ناموں پر نام رکھنا بہتر ہے ۔
نبی ﷺ کا ایک نام محمد ہے ، کوئی اپنا نام محمد رکھے کافی ہے ۔ اور اگر کوئی دوسرا نام رکھے ساتھ میں آگے محمد لگا لے یا پیچھے احمد کا اضافہ کرلے جو کہ نبی ﷺ کا دوسرا نام ہے ۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ نبی ﷺ سے محبت کا اظہار ہے ۔
ساتھ ہی ایک کوشش یہ بھی ہو کہ ایسے پاکیزہ نام رکھنے کے بعد معصیت کے کاموں سے بچتا رہے۔ نام محمد ہو اور برائی کرے تو یہ زیب نہیں دیتا ۔ ویسے انسان سے خطا کا امکان ہے مگر خطا پہ اصرار یہ بڑا گناہ ہے ۔
اللہ تعالی ہی نیکی کی توفیق بخشنے والا ہے ۔


مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

سودی بنکوں کے ذریعہ نقدی بھیجنے کا حکم

سودی بنکوں کے ذریعہ نقدی بھیجنے کا حکم

جب سودی بنکوں ہی کی وساطت سے رقوم بھیجنے کی مجبوری ہو تو اس میں ان شاء اللہ کچھ حرج نہیں ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں :
{وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ} (الانعام: ۱۱۹)
’’اور جو کچھ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے، اسے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ الا یہ کہ تم کسی بات پر مجبور ہو جاؤ۔‘‘
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں بنکوں کے ذریعہ رقوم بھیجنا عوام کی مجبوری ہے۔ اسی طرح حفاظت کی خاطر بھی رقم بنک میں جمع کرانا ایک مجبوری ہے جبکہ اس میں فائدہ (سود) کی شرط نہ رکھی جائے۔ اور اگر بنک والے بغیر شرط یا معاہدہ کے صاحب مال کو سود ادا کریں تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں تا کہ وہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جا سکے۔ جیسے فقراء اور قرض میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی امداد وغیرہ وغیرہ۔ صاحب مال ایسی رقم کو نہ اپنی ملکیت بنائے اور نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھائے۔ بلکہ وہ ایسے مال کے حکم میں ہے جس کے چھوڑنے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے باوجودیکہ یہ ناجائز ذریعہ آمدنی ہے۔ لہٰذا اسے ایسے کاموں میں خرچ کرنا جن سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے، کافروں کے ہاں چھوڑنے سے بہتر ہے، جو اس رقم سے ایسے کاموں پر اعانت کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ ہاں اگر اسلامی بنکوں یا کسی مباح ذریعہ سے رقم ارسال کرنا ممکن ہو تو پھر سودی بنکوں کے ذریعہ رقوم بھیجنا جائز نہ رہے گا۔ اسی طرح اگر اسلامی بنک یا اسلامی منڈی میسر آجائے تو مجبوری زائل ہونے کی بنا پر سودی بنکوں میں رقوم جمع کرانا جائز نہ رہے گا… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
  
جلداول -صفحہ 150


مکمل تحریر >>

Sunday, May 10, 2015

بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنا

بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنا
==================
مقبول احمد سلفی

یہ ایک حرام کام اور گناہ کبیرہ ہے ، اس کا ارتکاب کرنے والے پر اللہ کی طرف انابت اور سچی توبہ کرنا لازم ہے ۔چند احادیث دیکھیں ۔
(1)مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا۔(رواه أبو داود :2162 و صححه الشيخ الألباني في " صحيح الترغيب ": 2432 ) .
ترجمہ : جو شخص اپنی بیوی کی دبر میں آتاہے،وہ ملعون ہے۔

(2)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا:"جس نے حائضہ سے جماع کیا یا بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کیا یا کسی کاہن کے پاس آیا تو اس محمد پر نازل شدہ -قرآن- سے کفر کیا۔"
ترمذی نے اسے (1/243) روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحيح الجامع 5918 میں بھی موجود ہے۔

(3)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لايَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى رَجُلٍ جَامَعَ امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا۔(ابن ماجہ:1923)
ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی عورت سے اس کے دبر (پچھلی شرمگاہ ) میں جماع کرے ''

(4)روي أبو داود الطيالسي في مسنده عن قتادة ، عن عمرو بن شعيب عن أبيه ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (تلك اللوطية الصغرى) ، يعني إتيان المرأة في دبرها .
ترجمہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا: '' عورت سے دبر میں جماع کرنا لواطت صغری ہے ''۔

دبر میں جماع کی حرمت کی حکمت
===============
٭یہ گندی جگہ ہے، اس کی لت پڑنے سے حرام کاری کے دیگر دروازے کھلنے کا اندیشہ ہے۔

٭دبر میں جماع کرنا عورت کی حق تلفی ہے، اسکی تسکین کے لئے جائز طریقہ اپنانا ضروری ہے۔

٭جماع کے لئے دبر کو نہیں بنایا گیا، دبر میں جماع کرنا حدوداللہ سے تجاوز کرنا ہے۔

٭طب کے اعتبار سےفرج میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت ہے، اسی سے مرد کو سکون ملتا ہے، جبکہ دبر میں مکمل پانی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

٭ یہ کام فطرت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اس قسم کے جماع میں بے ہودہ حرکتیں کرنی پڑتی ہیں۔

٭ مرد کے علاوہ اس میں عورت کو بھی نقصان لاحق ہوتا ہے۔

٭یہ کام کرنے والے اور کروانے والے کے مزاج میں ایسی تبدیلی آتی ہے جسکی اصلاح ممکن نہیں، اگر توبہ کرلے تو شاید اللہ اسکی اصلاح فرمادے۔

٭ یہ لعنتی کام ہے، اسی سبب اللہ کی رحمت سے دور اور اس کے عذاب سے قریب تر ہوجاتا ہے۔

٭ اس بے حیائی سے انسان میں ہزاروں بے حیائیاں جنم لیتی ہیں اور وہ مکمل بے حیا بن جاتا ہے۔

دبر میں جماع کی وجوہات
==============
میری نظر میں دبر میں جماع کرنے کے چند اسباب ہیں۔
(1) جماع میں لذت کی نیت
(2) حیض و نفاس کے وقت مجبوری سمجھ کر
(3) جنسی فلمیں دیکھنے کے سبب

جب ہم مذکورہ بالا اسباب پہ نظر ڈالتے ہیں تو تینوں اسباب ہماری ناقص فہم اور اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں۔
٭اللہ تعالی نے اگلی شرمگاہ میں ہی لذت رکھی ہے ، یہ بات پوری طرح وہی محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اسلام کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔
٭حیض و نفاس میں بھی بیوی کے دبر کے علاوہ سارے اعضائے بدن سے لذت اندوز ہونا جائز قرار دیا ہے۔
٭اسی طرح جنسی فلمیں دیکھنا حرام کام ہے ، جب حرام کام کا ارتکاب ہوگا تو خود بخود اس سے دیگر حرام کاری کا دروازہ کھلے گا۔

ایک شبہ کا ازالہ
==========
بعض لوگوں میں کسی سبب سے یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنے سے نکاح باطل ہوجاتا ہے ۔
اس سلسلہ میں یہ کہنا ہے کہ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ دبر میں جماع کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، اس لئے اس باطل خیال کا ازالہ کرنا چاہئے ۔


اسلام کی رو ہم جائز طریقے سے ہی بیوی سے استفادہ کریں اور حرام طریقوں سے خود بچیں اور جلتے سماج کو بچائیں۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, May 5, 2015

دو آدمی کے نماز پڑھتے وقت تیسرا کیا کرے؟

دو آدمی کے نماز پڑھتے وقت تیسرا کیا کرے؟

«قَالَ رَسُوْلُ اﷲ ﷺ اَتِمُّوْا الصَّفَّ الْمُقَدَّمَ ، ثُمَّ الَّذِیْ یَلِیْہِ ، فَمَا کَانَ مِنْ نَقْصٍ فَلْیَکُنْ فِی الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ» (سنن ابی داود )
’’پہلی صف کو مکمل کرو پھر جو اس کے ساتھ ملتی ہے اور جو کوئی نقص ہو پس وہ آخری صف میں ہو‘‘

یہ اور دوسری احادیث کی روشنی میں مقتدی کو پیچھے کھیچنا صحیح نہیں ۔ مذکورہ بالا صورت میں امام کو آگے جانے کے لئے پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کردے۔

رہی اگلی صف سے آدمی کھینچنے والی روایت تو وہ رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں اور امام کی دائیں جانب کھڑے ایک مقتدی کو ایک اور مقتدی آ جانے پر پیچھے کرنے سے اگلی صف سے آدمی کھینچنے پر استدلال درست نہیں۔


مکمل تحریر >>

انٹرنیٹ کے ذریعہ غیرمحرم لڑکی سے بات کرنا

انٹرنیٹ کے ذریعہ غیرمحرم لڑکی سے بات کرنا

سوال : انٹرنیٹ کے ذریعے کسی غیرمحرم لڑکی سے بات کرنا کیسا ہے؟اس میں چیٹنگ، ای میل، یا کسی فورم میں بات ہو۔ اگر بات دین کی بات کہنے کے لئے ہو تو کیا صحیح ہے؟ نامحرم لڑکی سے دوستی کرنا انٹرنیٹ کے ذریعے چاہے وہ دین کے کام کے لئے ہو یا پھر ٹائم پاس کے لئے؟

جواب : اگر گفتگو کا مقصد دینی مسائل کی راہنمائی حاصل کرنا ہو تو وقار ،متانت ، سنجیدگی اور شرعی تعلیمات کو ملحوظ خاطر رکھ کر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ صحابہ کرام متعدد مسائل میں سیدہ عائشہ سے راہنمائی لیا کرتے تھے۔
اور اگر بات چیت کا مقصد وقت گزاری اور دوستیاں لگانا ہو توغیر محرم لڑکوں اور لڑکیوں سے گفتگو کرنا ناجائز،حرام اور ممنوع ہے۔ کسی خاص ضرورت کے بغیر یہ فضول کام ہے، اور بالآخر حرام کے ارتکاب کا سبب بنے گا۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں :
’’دواعی الی الحرام ،حرام‘‘
یعنی وہ امور جو حرام کی طرف لے جائیں، وہ بھی ناجائز ہیں۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بغیر شوہر کی اجازت کے غیر مردوں کے ساتھ کلام کرنے سے سخت تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اور دوسری ایک روایت میں ہے عورتوں کو غیر مردوں کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرنے کی بھی سخت غضب و غصے کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے کہ مرد اس کی طرف کچھ ریجھنے لگیں۔ یعنی اگر عورت کسی غیر مرد سے نرم و نازک باتیں کرے گی تو مرد کے دل میں طمع پیدا ہوگا اور دل کا چور جاگ اٹھے گا جو دونوں کیلئے نقصان دہ اور موجب عذاب ہے۔
عورت کی مرد کے ساتھ گفتگو اس وقت ہو سکتی ہے جب فتنہ سے محفوظ رہنے کی گارنٹی دی گئی ہو اور اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ:-
واذا سالتموهن متاعا فاسئلوهن من وراء حجاب
اور جب تم کسی ضرورت اور حاجت کی وجہ سے عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔
پھر عورت کا غیر محرم مرد سے گفتگو کرنا صرف ضرورت کی حد تک جائز ہوگا اور اس میں بھی اس بات کا لحاظ رکھا جائے گا کہ شریعت نے کہاں کون سی حد لگائی ہے مرد و زن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں نرم لہجہ (شیرنی اور لوچ دار آواز کا انداز) نہ ہو کیونکہ جب آپ کسی سے لوچ دار آواز سے بات کریں تو ظاہر ہے کہ سننے والا یہی سمجھے گا کہ آپ اس کو لفٹ کرا رہی ہیں اور وہ مزے سے آپ کے قصے دوسروں کو سناتا رہے گا کیونکہ ان کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم نے اتنی لڑکیوں سے دوستی کر رکھی ہے یا اتنی لڑکیاں ہم پر جان دیتی ہیں تو خدارا ان لفنگوں سے اپنے آپ کو بچائیں اور دین کی سیدھی راہ کو اپنائیں کہ کہیں نا سمجھی میں اٹھایا ہوا قدم کل کو دوزخ کی آگ میں کھینچ کر لے جائے۔
عورت کی غیر محرم کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے مرد کو عورت سے ضرورت کے تحت بات کی اجازت ہے لیکن اس میں بھی بہت لحاظ رکھنا پڑتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کی خلوت ممنوع ہے جس میں مرد و عورت کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے اور اس سے بچنے کی اہمیت پر زور دینا چاہئیے۔ کیونکہ اس طرح کی گفتگو کرنا بعض اوقات حرام کاری اور بدکاری تک لے جاتی ہے جس طرح آج کل ایک وبا پھیلی ہوئی ہے کہ ریڈیو پر مرد عورت یا عورت مرد ٹیلی فون کے ذریعے اپنی پسند کے گانے سنتے ہیں اور بیہودہ ہنسی مذاق میں مشغول رہتے ہیں یہ نہایت ہی لغو حرکت ہے جس سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ ایسی ہی لڑکیاں ایسے لڑکوں کو دل دے بیٹھتی ہیں اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد کر ڈالتی ہیں۔
اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے کہ تمہاری نیت کیا ہے بہتر یہ ہے کہ ایسی وبا سے دور ہی رہنا چاہئیے جو تباہی کے دروازے پر لے جائے عورت کا ٹیلی فون پر گفتگو کرنا جائز ہے مگر اس کے ساتھ نرم لہجہ میں بات نہ کرے اور نہ ہی بات کرنے میں لوچ آئے صرف ضروری بات کرے جتنی شرعاً ضرورت ہے بس اسی قدر بات کرے زیادہ نہیں۔
اور جو یہ ٹیلی فون پر بے حیائی کی گفتگو ہوتی رہتی ہے یہ سراسر حرام ہے ایسی گفتگو سے بچنا چاہئیے کیونکہ جب ایسی لڑکیوں کو روکا جاتا ہے تو وہ کہتی ہیں کہ جب بازار جاؤ یا کسی دکان والے سے خرید و فروخت کرو جب بھی تو مرد سے بات کرتے ہیں کیا وہ گناہ نہیں ہے۔
تو اے اللہ کی بندیو ! جب تم خرید و فروخت کرنے یا رکشہ ٹیکسی میں جاتی ہو تو لازمی تمہارے لہجے میں سختی ہوتی ہے مگر جب یہ لہجہ کسی ایسے کے روبرو ہو جاتا ہے کہ جس سے اسلام نے دور رہنے کا حکم دیا ہوتا ہے تو یہی لہجہ سختی سے نرمی اور لوچ پر اتر آتا ہے۔ جو کہ سراسر گناہ ہے اور جب مرد و عورت کو ایسی گفتگو کا موقع مل جائے جو ان کو حرام کاری تک لے جائے ایسی گفتگو کو چھوڑ ہی دینا چاہئیے۔ یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں پر نظر رکھیں کہ وہ کس سے کب کہاں اور کس لہجے میں گفتگو کر رہی ہیں نہ کہ اس حرام کھیل میں ان کا ساتھ دیں کیونکہ جب ٹیلی فون پر اپنے کے گانے سننے کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں ان میں یہ ہوتا ہے کہ اب میری والدہ سے بات کریں اب میری چھوٹی بہن سے بات کریں خود تو گناہ میں ملوث ہیں ہی دوسروں کو بھی گناہوں میں دھنسا رہی ہیں۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

مکمل تحریر >>