Wednesday, April 29, 2015

بدھ کے دن دعا کا حکم

  بدھ کے دن دعا کا حکم
==========
اوپر ایک بھائی نے ایک حدیث کے متعلق پوچھی ہے جو بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان دعا کی قبولیت کے تعلق سے ہے :
مکمل حدیث اس طرح سے ہے ۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْن كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، قال : حَدَّثَنِي جَابِرٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فِي مَسْجِدِ الْفَتْحِ ثَلَاثًا : يَوْمَ الِاثْنَيْنِ ، وَيَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ، وَيَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ ، فَاسْتُجِيبَ لَهُ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ ، فَعُرِفَ الْبِشْرُ فِي وَجْهِهِ .
قَالَ جَابِرٌ : فَلَمْ يَنْزِلْ بِي أَمْرٌ مُهِمٌّ غَلِيظٌ إِلَّا تَوَخَّيْتُ تِلْكَ السَّاعَةَ ، فَأَدْعُو فِيهَا ، فَأَعْرِفُ الْإِجَابَةَ
 اس حدیث کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں کی ہے ۔ حدیث رقم :14153

یہ حدیث ضعیف ہے اس سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔
اس میں دو راویوں پہ کلام ہے ۔ ایک كثير بن زيد الأسلمي، اور دوسرے عبد الله بن عبد الرحمن بن كعب بن مالك۔

واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

قرآن پاک کی تعلیم پر معاوضہ لینا

قرآن پاک کی تعلیم پر معاوضہ لینا


قرآن مجید کی تعلیم ، خطبہ جمعہ ، امامت وغیرہ پر اُجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن و سنت کے اندر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔ جبکہ اس کے جواز کے دلائل موجود ہیں۔ان میں سے ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا بستی والوں نے مانگنے پر بھی ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اچانک ان کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا۔ ان کے افراد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور پوچھا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے اُجرت لے کر دَم کی حامی بھری۔ تو انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ کا وعدہ کر لیا۔ سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس پر دَم کیا اور متاثرہ جگہ پر اپنا لعاب لگایا تو وہ آدمی بالکل تندرست ہو گیا۔ وہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ بکریاں لے کر واپس آیا تو دوسرے ساتھیوں نے کہا تو نے تو کتاب اللہ پر اُجرت لی ہے۔ گویا اس چیز کو انہوں نے نا پسند کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اخذ علیٰ کتاب اللّٰہ اجرًا)تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے زیادہ جس چیز پر تم اُجرت لینے کا حق رکھتے ہو، وہ اللہ کی کتاب ہے۔'' (صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب الشروط فی الرقبہ).
بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (واضربو الی بسھمٍ)کہ میرے لئے بھی حصہ نکالو۔ بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے ثابت ہو گیا کہ قرآن پر اُجرت لی جا سکتی ہے۔ اس میں قرآن کی تعلیم ، امامت اور خطبہ جمعہ بھی داخل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں اور ان میں وہ شامل ہیں۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ کہتے کہ میرا بھی حصہ نکالو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ چیز ہی استعمال کرتے تھے۔
دوسری دلیل نکاح میں خاوند پر بیوی کے لئے حق مہر دینا ضروری ہے ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کی تعلیم کو حق مہر ٹھہرا کر کر دیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذھب فقد انکحتکھا بما معک من القرا
(بخاری کتاب النکاح باب التزویج علی القرآن)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اُجرت دلوائی ہے۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی قرآن کی تعلیم کو حق مہر مقرر نہ کرتے۔ امام مالک نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے:
''کہ اس سے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینا جائز ہو گیا۔'' (فتح الباری ج۹،ص۱۲۱)
اس کے علاوہ محمد بن سیرین کبار تابعین سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک تعلیم دینے والا تھا ، اس کے پاس بڑے بڑے لوگوں کے بیٹے پڑھتے تھے اور وہ اس معلم کا حق ادا کرتے تھے۔ (محلّی ابنِ حزم)
محمد بن سیرین نے ابی بن کعب اور ابو قتادہ جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا ہے اور ان سے روایات بھی لی ہیں۔ اگر قرآن کی تعلیم پر اُجرت جائز نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کرام ضرور ایسے شخص کو روک دیتے۔


علمائے احناف کے نزدیک قرآن کی تعلیم پر اجرت کا حکم

علمائے احناف کے نزدیک اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں جیساکہ ہدایہ میں ہے ۔
احناف کا فتوی ہے : ''کہ اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں۔'' (ہدایہ اخریہ ص
۳۰۳)
اور دلیل میں ان کے علماء ابوداؤد کی مندرجہ ذیل روایت پیش کرتے ہیں۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے ان کو ایک کمان تحفہ دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آگ کا طوق ہے ، اگر پہننے کی طاقت ہے تو قبول کر لو؟
یہ روایت ابودائود میں موجود ہے مگر یہ روایت صحیح نہیں۔ اس کی سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہے۔ اس لئے اس سے استدلال کرنا درست نہیں۔

لمحہ فکریہ

احناف اپنے ائمہ کی مذکورہ بالا بات پر قائم نہیں رہ سکے۔ اس وقت امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کو نظر انداز کر کے دارالعلوم دیو بند سمیت تمام مدارس میں اساتذہ تنخواہ وصول کرتے ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اس دور میں ہمارے بعض مشائخ نے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینے کو اچھا سمجھا ہے کیونکہ دینی امور پر عمل میں سستی ظاہر ہو چکی ہے۔ اُجرت کے جائز نہ رکھنے میں قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے اور اسی پر آج فتویٰ ہے (یعنی اُجرت لینا جائز ہے)۔
فاعتبروا یا اولی الالباب


مکمل تحریر >>

Tuesday, April 28, 2015

ہیلو کہنے کی حقیقت سعودی علماء کی طرف منسوب فتوی کے تناظر میں

ہیلو کہنے کی حقیقت سعودی علماء کی طرف منسوب فتوی کے تناظر میں
===================
مقبول احمد سلفی

لوگوں میں کافی دنوں سے یہ خبر عام ہے کہ :
"سعودی عرب کے 70 علما بشمول امام کعبة اللہ نے ٹیلیفون پر ”ہیلو“ کہنے کو حرام قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق انگریزی زبان میں ہیلو جہنم کو کہا جاتا ہے اور ہیلو کے معنی جہنمی بنتا ہے اس لئے کسی بھی شخص کو جہنمی کہنا حرام ہے الخ ،،،،،،،"

پہلی بار تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے علماء کی طرف سے ایسا کوئی فتوی کبھی بھی اور ہرگز نہیں صادر کیا گیا۔ اگر کوئی اس طرح کا دعوی کرتا ہے تو اسے اس فتوی کا حوالہ دینا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ

؎یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی

دوسری بات یہ ہے کہ انگریزی میں ہیلو تخاطب کے لئے استعمال ہوتا ہے ، فون پر ہیلو کہنے میں بظاہر کوئی حرج نہیں ۔ یہاں ایک اور مسئلہ بتادوں کہ جو فون رسیو کرتا ہے اسے پہلے سلام نہیں کرنا ہے بلکہ فون کرنے والے سے رابطہ بنانے کے لئے تخاطب کا کوئی کلمہ بولنا ہے مثلا ہیلو، جی ہاں، فرمائیے، اھلا و سھلا، مرحبا وغیرہ تاکہ فون کرنے والے کو یہ معلوم ہوجائے کہ آدمی آن لائن ہوگیا ہے ۔ اب فون کرنے والا سلام کرے۔

تیسری بات یہ ہے جو کہتے ہیں لفظ ہیلو انگزیزی کے لفظ "HELL"سے ماخوذ ہے ،جس کے معنی جہنم کے ہیں ، سراسر غلط ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ HELL کے معنی جہنم کے ہی ہیں مگر ہیلو HELL سے ہرگزماخوذنہیں ہے ۔اس کے لئے انگریزی کی کوئی بھی لغت دیکھی جاسکتی ہے۔ جب ہیلو میں کوئی خرابی نہیں تو اس کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ جنہیں اس وجہ سے نفرت ہے کہ یہ انگریزی لفظ ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اس وقت دنیا کی شاید کوئی زبان ہوگی جس میں انگریزی کے الفاظ مستعمل نہیں ۔ پھر ایک لفظ ہیلو سے ہی نفرت کیوں ؟


خلاصہ یہ کہ ہیلو کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں اور اس کی ممانعت کی کوئی حیثیت نہیں ۔
مکمل تحریر >>

رضاعی ماں کے حقوق

رضاعی ماں کے حقوق

رضاعی ماں کے حقوق وہ نہیں جو حقیقی ماں کے ہوتے ہیں۔ رضاعت کی وجہ سے نہ تو نفقہ واجب ہوتا ہے ، نہ ہی وراثت میں حصہ بنتا ہے اور نہ ہی ولایت نکاح کا حق حاصل ہوتا ہے جیساکہ نسب کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
رضاعی  ماں محرمات میں شمار کی جاتی ہے ، انہیں دیکھنا،ان سےمصافحہ کرنا، فتنے کا خوف نہ ہوتو اکیلے میں بات چیت کرناجائز ہے ۔اور اسی طرح ان کے ساتھ  رضاعی بیٹا سفر بھی کرسکتا ہے ۔
ان کے ساتھ احسان وسلوک کرناچاہئے۔


مکمل تحریر >>

Monday, April 27, 2015

مصیبت اور بے چینی کے وقت کی چند دعائیں

مصیبت اور بے چینی کے وقت کی چند دعائیں

(1) اللّهُـمَّ إِنِّـي أسْـأَلُـكَ العَـفْوَ وَالعـافِـيةَ في الدُّنْـيا وَالآخِـرَة ، اللّهُـمَّ إِنِّـي أسْـأَلُـكَ العَـفْوَ وَالعـافِـيةَ في ديني وَدُنْـيايَ وَأهْـلي وَمالـي ، اللّهُـمَّ اسْتُـرْ عـوْراتي وَآمِـنْ رَوْعاتـي ، اللّهُـمَّ احْفَظْـني مِن بَـينِ يَدَيَّ وَمِن خَلْفـي وَعَن يَمـيني وَعَن شِمـالي ، وَمِن فَوْقـي ، وَأَعـوذُ بِعَظَمَـتِكَ أَن أُغْـتالَ مِن تَحْتـي . [صحيح ابن ماجه 2/332]
ترجمہ : اے اللہ! میں تجھ سے دنیاو آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا، اپنے اہل اور اپنے مال میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میرے پوشیدہ امور پر پردہ ڈال اور میری گھبراہٹوں میں مجھے امن دے، اے اللہ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے، میرے اوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کے ذریعے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اچانک ہلاک کردیا جاؤں.

(2)حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مصیبت کے عالم میں یہ کلمات دہراتے تھے:
لَا إلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظ۔يمُ الْحَلِيمْ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهْ رَبُّ السَّمَوّاتِ ورّبُّ الأَرْضِ ورَبُّ العَرْشِ الكَريم
(صحیح بخاری کتاب الدعوات حدیث 6347 صحیح مسلم حدیث نمبر 2730 )
ترجمہ:اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں عظمت والا، بردبار ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں عرش عظیم کا رب ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ آسمانوں کا رب ہے اور زمین کا رب ہے، عرش کریم کا رب ہے۔


(3)حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مصیبت میں مبتلاہو وہ یہ دعا پڑھے :
اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ۔(صحيح الجامع للالباني 3388 )
ترجمہ:اے اللہ میں تیری ہی رحمت کی امید کرتا ہوں، مجھے لحظہ بھر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر، میری مکمل حالت درست فرمادے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔

(4)لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
(صحيح الترغيب للالباني 1826)
ترجمہ:تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔

(5)اللهُ اللهُ رَبِّ لا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً.(صحيح ابن ماجہ 3146)
ترجمہ: اللہ اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہیں کرتا۔


(6)رسول کریم محمد ﷺ نے فرمایا: اگر کسی بندے کو کوئی تکلیف یا صدمہ پہنچے اور وہ یہ الفاظ کہے تو اللہ تعالی اسے ضرور اس کا نعم البدل عطا کردیتا ہے :
" إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا"(صحیح مسلم 2166)
ترجمہ : یقینا ہم اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، اے اللہ مجھے میرے اس صدمے یا تکلیف کا اجر دے اور بدلے میں مجھے اس سے زیادہ بہتر دے ۔

(7)حسبنا اللہ ونعم الوکیل (بخاری ، کتاب التفسیر)

ترجمہ: اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور بہت اچھا کارساز ہے ۔
مکمل تحریر >>

Sunday, April 26, 2015

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی؟

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی؟


شیعہ کے افسانوی قصوں اور جھوٹے اختراعات میں سے ایک اختراع حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یقینی طور پر مولود کعبہ بتانا ہےاور اس سلسلہ میں بعض باطل روایات پیش کی جاتی ہیں ۔
شیعی عالم بریربن خضیر همدانی شرقی نے لکھا ہے کہ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ (القضایا و الاحکام از بریربن خضیر همدانی شرقی)
جب مستند روایات اور تاریخی حقائق پر نظر ڈالی جاتی ہے تو اس دعوے کی کوئی حیثیت معلوم نہیں ہوتی  اور یہ ہی ایسی کوئی صحیح روایت موجود ہے، یہ محض باطل اختراع ہے البتہ یہ ضرور حق ہے کہ  صحابی رسول حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جائے پیدائش کا سوال ہے تو اس میں جو سب سے قوی موقف نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش سے قریب ایک گھاٹی میں ہوئی جس کا نام شعب ابی طالب ہے ۔
اس لئے ہمیں وہی بات  کہنی چاہئے جو تاریخی حقائق سے معلوم ہوتی ہے اور جھوٹی بات گھڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے ، آپ کی ذات گرامی اس جھوٹ سے بری ہے ، آپ کے بے شمار فضائل ہیں ، آپ کے مقام ومرتبہ کو بیان کرنے کے لئے یہ فضائل کافی ہیں ۔

مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

نماز میں ایک ایک آیت کی تلاوت مسنون

نماز میں ایک ایک آیت کی تلاوت مسنون

مقبول احمد سلفی
نماز میں نبی ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ تعوذ(اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) اور بسملہ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) کے بعد سورۃ الفاتحۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔ اورسورہ فاتحہ کی قراءت کرتے وقت ہر آیت پر ٹھہرتے تھے ۔مثال کے طور پر سورۃ الفاتحۃ پڑھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھ کر وقف کرتے، پھر الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ پڑھ کر ٹھہر جاتے۔ پھر الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔ پھرمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے اور اس پر وقف فرماتے تھے اور اسی طرح ایک ایک آیت پر رک کر سورت پوری کرتے تھے۔یہ معمول صرف سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے لیے ہی نہ تھا بلکہ دوسری سورتوں کی تلاوت کرتے وقت بھی یہی طریقہ ہوتا تھا کہ آیت کے اختتام پر وقف کرتے اور اسے اگلی آیت سے نہیں ملاتے تھے۔
عن عبد الله بن أبى مليكة رضی اللہ عنها " أنها سئلت عن قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: كان يقطع قراءته آية آية: بسم الله الرحمن الرحمن الرحيم. الحمد لله رب العالمين , الرحمن الرحيم. مالك يوم الدين "۔
(أخرجه أبو داود :4001وعنه البيهقى2/44 والترمذى2/152 وفى " الشمائل " 2/131والدارقطنى :118والحاكم 2/231 ـ 232وأحمد 6/302وأبو عمرو الدانى فى " القراآت " ق 6/1 , 8/2) 

ترجمہ : عبداللہ بن ملیکہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی قرات کے کے متعلق پوچھی گئیں تو انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک ایک آیت کی تلاوت کرتے تھے ، بسم اللہ الرحمن (پڑھتے) (پھر) الحمد للہ رب العالمین (پڑھتے) (پھر) الرحمن الرحیم (پڑھتے) (پھر) مالک یوم الدین (پڑھتے تھے)۔ 
٭دار قطنی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور کہا اس کے رجال ثقات ہیں۔ 
٭امام حاکم نے کہا "صحیح علی شرط الشیخین"۔
٭ امام ذھبی نے امام حاکم کی موافقت کی ہے ۔
٭ابن خزیمہ نے اس کی تصحیح کرکے اس کی اپنی صحیح میں تخریج کی ہے ۔
٭ امام نووی نے بھی " المجموع " (3/333) میں اس کی تصحیح کی ہے ۔
آج کل اکثر قراء میں اس سنت کا اہتمام نہیں پایا جاتا اور سامعین بھی ایک سانس میں متعدد آیات پڑھنے والے قاری کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور امام مسجد کے آیت پہ وقف نہ کرنے کی وجہ سے مقتدی کو سکتات میسر نہیں آتے جس میں بآسانی سورہ فاتحہ کی قرات کرسکے۔


مکمل تحریر >>

زلزلہ کے وقت نماز کا حکم

زلزلہ کے وقت نماز کا حکم

ترجمہ : مقبول احمد سلفی
جب بھی اللہ کی طرف سے کسی نشائی(آزمائش) کا ظہور ہو تو نماز پڑھنی چاہئے ، جیسے زلزلہ، سورج گرہن، چاند گرہن، طوفان اور سیلاب وغیرہ۔
 بیہقی وغیرہ میں صحیح سند سے یہ روایت ثابت ہے۔
 عن ابن عباس رضي الله عنهما : أنه صلى في زلزلة بالبصرة كصلاة الكسوف ، ثم قال : هكذا صلاة الآيات .
رواه ابن أبي شيبة (2/472) وعبد الرزاق (3/101)، والبيهقي في "السنن الكبرى" (3/343)
ترجمہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بصرہ میں زلزلہ (نہ ہونے یا رُکنے ) کی نماز سورج گرہن کی نماز کی طرح پڑھی۔پھر انہوں نے کہا کہ یہ نشانیوں کی نماز ہے ۔
٭اس روایت کو بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت مانا ہے ۔
٭حافظ ابن حجر نے اس کی تصحیح کی ہے ۔(فتح الباری 2/521)

اقوال سلف:
٭کاسانی رحمہ اللہ نے کہا : ہر گھبراہٹ کے وقت نماز پڑھنا مستحب ہے جیساکہ تیز آندھی، زلزلہ، ظلمت،مسلسل بارش ، اس لئے کہ یہ گھبراہٹ کے قبیل سے ہیں۔(بدائع الصنائع 1/282)
٭حنابلہ کے نزدیک بھی زلزلہ کی نماز مستحب ہے ۔ (کشاف القناع 2/66)
٭امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نشانیوں کے ظہور کے وقت نماز ہے مگر انفرادی طور پر۔ (المجموع للنووی 5/61)
٭ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہر نشانی کے وقت نماز پڑھنا مشروع ہے ، مزید لکھتے ہیں کہ سورج گرہن کی نماز ہر نشانی کے وقت پڑھی جائے گی جیساکہ زلزلہ وغیرہ۔ یہی امام ابوحنیفہ ؒ کا قول ہے ، ایک روایت امام احمد ؒ سے بھی ہے،اور ہمارے دیگر اصحاب کا بھی یہی قول ہے ۔ (الفتاوی الکبری 5/358)
٭ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی شیخ الاسلام کا موقف اختیار کرتے ہوئے اسے راحج قرار دیا ہے ۔ (الشرح الممتع 5/93)


  
مکمل تحریر >>

Saturday, April 25, 2015

پیٹ کے بل سونا

پیٹ کے بل سونا
مقبول احمد سلفی

پیٹ کے بل سونا ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے، اس کی کراہت کی وجوہات میں جہنمیوں کے سونے کی مشابہت اور جسمانی نقصان وغیرہ ہیں ۔

کراہت کے مختلف دلائل:

(1)اللہ تعالی کا فرمان ہے :{يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ} ( سورة القمر : 48)  
ترجمہ: جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا)دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو ۔

(2) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"إِنَّ ھٰذِہِ ضِجْعَۃٌ یُبْغِضُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی یَعْنِی الْاَضْطِجَاعُ عَلَی الْبَطَنِ"۔(صحیح الجامع الصغیر:2271)
ترجمہ : ’’ یقینا اس طرح لیٹنے کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے یعنی پیٹ کے بل (اوندھا)لیٹنا۔‘‘
الاضطجاع علی البطن: … یعنی ایسے سونا کہ پیٹ زمین کی طرف اور پشت اوپر کی طرف ہو،

(3) "إِنَّ ھٰذِہِ ضَجْعَۃٌ لَا یُحِبُّھَا اللّٰہَ"۔(صحیح سنن الترمذي:2221)
ترجمہ: ’’ بے شک یہ ایسا لیٹنا ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ ‘‘

(4) عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا مُضْطَجِعٌ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: " يَا جُنَيْدِبُ إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ "۔(ابوداؤد:3724)
ترجمہ: "ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا،تو آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیر سے ہلا کر فرمایا:'' جُنیدب ! ( یہ ابوذر کا نام ہے ) سونے کا یہ انداز توجہنمیوں کا ہے''
٭محمد بن نعیم کی وجہ سے اس کی سند پر کلام ہے مگر اس کے شواہد موجود ہیں۔

پیٹ کے بل سونا طبی اعتبار سے:
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پیٹ کے بل لیٹنا سونے کا سب سے بدترین انداز ہے،اس لئے پیٹ کے بل سونا صحت کے لئے ضرر رساں ہے ۔

٭سانس کے وقت صدری پنجرہ آگے کی طرف پھیلاتا ہے اور پیٹ کے بل لیٹنے کی حالت میں پنجرے کی یہ حرکت بند ہوجاتی پے اور پھیپھڑوں کا مکمل پھیلنا اورہوا سے بھرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

٭پیٹ کے بل سونے والے مرگی کے شکار افراد میں حادثاتی موت کا خطرہ زیادہ ہے۔

٭اس حالت میں ریڑھ کی ہڈی غیر فطری رخ اختیار کر لیتی ہے۔اس کے عضلات اور مہروں پہ غیرضروری دبائو پڑتا ہے۔اگر انسان کئی دن پیٹ کے بل سوتا رہے،تو اس کی کمر اور گردن میں تکلیف ہو سکتی ہے۔

٭اس ہیئت میں سونے سے عموماً سانس لینے میں بھی رکاوٹ جنم لیتی ہے۔

٭اور بسا اوقات ایسا لیٹنا حرکت قلب اور معدے کے عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔


اگر سونے کی یہ ہیئت ہماری ہے تو اسے بدل کر سنت طریقہ اپنائیں یعنی دائیں پہلو پہ سوئیں جس سے ثواب بھی ملے گا اور خطرات سے بھی محفوظ رہیں گے ۔
مکمل تحریر >>

رکارڈ شدہ تلاوت سے شیطان بھگانا

رکارڈ شدہ تلاوت سے شیطان بھگانا


اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی تلاوت میں تاثیر ہے چاہے ریڈیو پہ نشر کیا جائے یا ٹیپ سے یا ٹی وی کے ذریعہ بجایا جائے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ سورہ بقرہ کی تلاوت سے گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔ اگر کسی کے یہاں حافظ قرآن یا کم از کم دیکھ کر قرآن پڑھنے والا ہو تو اولی و افضل ہے کہ شخصی طور پر گھر میں قرآن پڑھے ۔ لیکن اگر کوئی قرآن پڑھنے والا نہ ہو تو رکارڈ شدہ تلاوت بھی استعمال کرسکتا ہے ، اللہ کے حکم سے گھروں کی حفاطت یا مسحور کے لئے، اللہ کے حکم سے یہ بھی نافع و دافع ہوگا۔ ان شاء اللہ
مکمل تحریر >>

ماں کا دودھ بخشوانے کی حقیقت

ماں کا دودھ بخشوانے کی حقیقت
مقبول احمد سلفی

قرآن و حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی لیکن سماج میں یہ بات مشہور ہے کہ ماں سےدُودھ بخشوا لو۔یا بعض مائیں بولتی ہیں کہ میں  نےاپنا دودھ بخش دیا۔
یہ دراصل توہمات میں سے ہے ۔ اسلام میں اصل چیز ہےاللہ تعالی کے حقوق کے بعد بندوں کے حقوق۔
بندے کو اللہ کے حقوق ادا کرنا چاہئے اور اسی طرح بندے کے اوپر بندوں کے جو حقوق ہیں اسے ادا کرنا چاہئے ۔
اللہ تعالی نے ماں باپ کے حقوق واضح کردئے ہیں۔

والدین کے حقوق  میں
٭ والدین کے ساتھ بھلائی کا حکم
٭ ماں باپ کی خدمت کرنا
٭بڑھاپے میں سہارا بننا
٭والدین کے ساتھ نرمی و تواضع، خاکساری و انکساری سے پیش آنا
٭والدین کے لئے دعا کرنا
٭ والدین کی ناراضگی سے بچنا اور ان کا حکم بجالاناوغیرہ

یہ سب ماں باپ کے حقوق ہیں ، جو ان حقوق کو بجالائے گا وہ اللہ کے یہاں ماں کا دودھ بخشوانے کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔

واللہ اعلم


مکمل تحریر >>

زلزلہ کے وقت کیا جائے؟

زلزلہ کے وقت کیا جائے؟


زلزلہ جہاں قیامت کی نشانی ہے وہیں اس بات کی بھی علامت ہے کہ زلزلہ زدہ علاقے میں برائیاں عام ہیں۔
اس لئے زلزلہ کو اللہ کی طرف سے عذاب سمجھ کر اس سے عبرت حاصل کرنا چاہئے اور اس وقت تضرع ،خشوع و خضوع کے ساتھ کثرت سے توبہ واستغفار دعا اور صدقہ کر نا چاہئے اور قرآن وسنت سے ثابت دعائیں پڑھنی چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلاؤں و آفات سے حفاظت کے لئے صبح وشام یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
اللّهُـمَّ إِنِّـي أسْـأَلُـكَ العَـفْوَ وَالعـافِـيةَ في الدُّنْـيا وَالآخِـرَة ، اللّهُـمَّ إِنِّـي أسْـأَلُـكَ العَـفْوَ وَالعـافِـيةَ في ديني وَدُنْـيايَ وَأهْـلي وَمالـي ، اللّهُـمَّ اسْتُـرْ عـوْراتي وَآمِـنْ رَوْعاتـي ، اللّهُـمَّ احْفَظْـني مِن بَـينِ يَدَيَّ وَمِن خَلْفـي وَعَن يَمـيني وَعَن شِمـالي ، وَمِن فَوْقـي ، وَأَعـوذُ بِعَظَمَـتِكَ أَن أُغْـتالَ مِن تَحْتـي . [صحيح ابن ماجه 2/332]
ترجمہ : اے اللہ! میں تجھ سے دنیاو آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا، اپنے اہل اور اپنے مال میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میرے پوشیدہ امور پر پردہ ڈال اور میری گھبراہٹوں میں مجھے امن دے، اے اللہ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے، میرے اوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کے ذریعے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اچانک ہلاک کردیا جاؤں.


مکمل تحریر >>

Thursday, April 23, 2015

کیا شیخ عبد الرحمن سدیس ناف کے نیچے ہاتھ باندهتے ہیں؟

کیا شیخ  عبد الرحمن سدیس ناف کے نیچے ہاتھ باندهتے ہیں؟

مقبول احمد سلفی

حقیقت میں شیخ عبدالرحمن سدیس ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے تمام علماء و مشائخ اہل حدیث ہیں ، اس لئے دنیا میں جہاں جہاں اہل حدیث ہیں سعودی عرب کے علماء ان کی تائید اور مدد کرتے ہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
اہل حدیث سینے پر ہاتھ باندهنے کے قائل ہیں،لہذا شیخ سدیس کی طرف ناف کے نیچے ہاتھ باندهنے والی بات مبنی بر جهوٹ ہے. اس کی دلیل یہ ہے کہ شیخ سدیس سینے پر ہاتھ باندهنے کے قائل ہیں ، اس کے لئے شیخ کا رسالہ دیکهیں جو نماز کی غلطیوں سے متعلق ہے، جس میں شیخ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندهنا غلط قرار دیا اور سنت سینے پر ہاتھ باندهنا کہا ہے۔
گویا یہ کہنا کہ شیخ سدیس ناف کے نیچے ہاتھ باندهتے ہیں ، یہ جهوٹ ہے اور شیخ صاحب پہ بہتان ہے، ایسے لوگوں کو اللہ کا خوف کهانا چاہئے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

بعض تصویر یا ویڈیو میں شیخ کا ہاتھ بالکل سینے پر نظر نہیں آتا اس کی کیا حقیقت ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حرم شریف میں ہر طرف کیمرے لگے ہیں جو ہر لحظے کی تصویر لیتے ہیں۔
جس تصویر میں ہاتھ کچھ نیچے دکهائی دیتا ہے وہ ہوسکتا ہے کبهی نیچے کهسک گیا ہو اور یہ کسی کے ساتھ بهی ہوسکتا ہے۔
یا پهر رکوع جاتے وقت ہاتھ نیچے چهوڑتے ہوئے کی تصویر ہو۔
یا رکوع سے اٹهنے کے بعد ہاتھ باندهکر پهر سجدہ جاتے ہوئے ہاتھ چهوڑنے کی تصویر۔
اور پهر اس میں سینے سے تهوڑا سا نیچے دکهائی دیتا ہے، ناف کے نیچے بندها ہوا نہیں نظر آتا ہے۔
اس لئے دیگر تصاویر اور ویڈیوز میں ہم دیکهتے ہیں کہ آپ کا ہاتھ سینے پرہی ہوتا ہے۔
جو شیخ سدیس کو ناف کے نیچے ہاتھ باندهنے والا کہہ کرانہیں حنفی قرار دیتا ہے

ایسے آدمی سے مندرجہ ذیل چند سوالات
 
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح نماز کی نیت صرف دل میں کرتا ہے.
کیا وہ شیخ سدیس ہی کی طرح مکمل نماز ادا کرتا ہے؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح آمین بالجہر کا قائل ہے؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح رکوع میں جاتے ہوئے اور اٹهتے ہوئے رفع یدین کرتا ہے؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح تیسری رکعت پہ رفع یدین کرنے کا قائل و فاعل ہے؟
کیاوہ شیخ سدیس کی طرح تراویح کی دس رکعت ادا کرتا ہے ؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح نماز وتر مغرب کی مشابہت سے بچتے ہوئے سنت کے مطابق ادا کرتا ہے؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح مسجد میں عورتوں کی نماز کے جواز کا قائل و فاعل ہے؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح جنازے میں سورہ فاتحہ پڑهنے کا قائل ہے ؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح جنازہ کی نماز میں ایک سلام کا قائل ہے ؟
کیا وہ شیخ سدیس کی طرح نماز ختم ہونے پر اجتماعی دعا کا منکر ہے؟
ایسے بے شمار سوالات ہیں مگر اس سے بس انہی چند سوالوں کے جوابات مطلوب ہیں۔


مکمل تحریر >>

Wednesday, April 22, 2015

حالت حیض میں جماع کا حکم

حالت حیض میں جماع کا حکم
===============

حالتِ حیض جماع کرنا حرام ہے، اور جس کسی نے اس طرح کرلیا ہے، تو اس پر کفارہ دینا ، توبہ اور استغفار کرنا چاہئے۔
توبہ کرنا تو ضروری ہے البتہ کفارہ کے متعلق اختلاف ہے ، مگر احوط یہی ہے کہ کفارہ بھی نکالے ۔
کفارہ ایک دینار یا نصف دینار ہے ۔
ایک دینار سواچار گرام سونا ہوتا ہے ۔

واللہ اعلم
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

کیا آپ ﷺ پیدائشی نبی تھے ؟

کیا آپ ﷺ پیدائشی نبی تھے ؟
==================
مقبول احمد سلفی

آپ ﷺ پیدائشی نبی نہیں تھے بلکہ چالیس سال کی عمر میں نبی بنائے گئے ،نبی بنائے جانے کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں رہے پھر ہجرت کرکے مدینہ طیبہ گئے جہاں دس سال زندگی گذاری، اس طرح آپ ﷺ کی عمر مبارک کل 63 سال کی تھی۔ 
اس کے بے شمار دلائل ہیں۔ ایک دلیل ملاحظہ کریں۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : " بُعِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعِينَ سَنَةً ، فَمَكُثَ بِمَكَّةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً يُوحَى إِلَيْهِ ، ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَهَاجَرَ عَشْرَ سِنِينَ ، وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ (بخاری و مسلم)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال میں مبعوث کئے گئے ، پس مکہ میں تیرہ سال تک وحی آتی رہی ، پھر ہجرت کا حکم دیا گیا، پس دس سال ہجرت کا وقت تھا۔ جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ 63 سال کے تھے ۔

جو لوگ آپ ﷺ کو پیدائشی نبی کہتے ہیں اس کی بنیاد ایک روایت ہے وہ اس طرح سے ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم آپکی قسمت میں نبوت کب لکھی گئی ؟
تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسوقت جبکہ ابھی آدم علیہ السلام روح و جسد کے درمیان( یعنی تخلیق کے مراحل ) میں تھے۔

٭اس روایت کو علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیں: (السلسلة الصحيحة " 4 / 471)


اس حدیث سے عام لوگوں میں غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔ حقیقت میں اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا نبی ہونا تقدیر میں تکمیل تخلیق آدم سے پہلے لکھ دیا گیا تھا جس پر مذکورہ حدیث کے معنی بھی دلالت کرتے ہیں۔  
مکمل تحریر >>

Tuesday, April 21, 2015

نماز میں وسوسہ کا آنا

نماز میں وسوسہ کا آنا

نماز میں خیالات بھی آسکتے ہیں اور وسوسے بھی۔
خیال آنے کی دلیل :
عبقہ بن الحارث سے مروی ہے انہوں نے کہا :   
    '' میں نے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز ادا کی ۔ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گر دنیں پھلانگتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی اس جلدگی سے گھبرا گئے۔ جب آپ   صلی اللہ علیہ وسلم   واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم آپ کی جلدی پر متعجب ہیں۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا مجھے یا دآگیا کہ ہمارے گھر میں ایک سونے کی ایک ڈلی ہے۔ میں نے نا پسند کیا کہ وہ مجھ روک کر رکھے۔ میں نے اس کی تقسیم کا حکم دیا ہے۔
 اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں ''۔ (بخاری ۱/۱۴۰)
    '' مجھے نماز کی حالت میں یہ بات یاد آئی ''
وسوسے جو شیطان کی جانب سے ہوتے ہیں اس کی دلیل :
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
    '' سیدنا عثمان ابن ابی العاص نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم، شیطان میرے اور میری نماز کے درمیان  حائل ہو جاتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا اس شیطان کا نام خنزب ہے جب اس کا اکسانا محسوس کرو تو ( دوران نماز ) اعوذباللہ پڑھو اور دائیوں طرف تین مرتبہ تھوکو۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مجھ سے دور کر دیا ''
                                (مشکوۃ باب الوسوۃ١۱/۲۹، بتحقیق شیخ البانی رحمۃ اللہ)
نماز میں خیال یا وسوسہ آنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ، نماز درست ہے ۔

جب کسی شخص کو نماز میں کوئی خیال آئے یا وسوسہ پیدا ہو تو وہ اعوذباللہ پڑھ کر بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے۔ اللہ تعالیٰ اس سے یہ وسوسہ دور کر دے گا۔ نیزانسان کو حالت نماز میں ان خیالات کو دور کر کے اپنی پوری توجہ نماز کی طرف مبذول کر دینی چاہئے تاکہ پورےا نہماک اور دھیان سے نماز ادا کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے صحیح طور پر مناجات ہو ۔یہ بھی یاد رہے جتنا دھیان نماز میں کم ہوتا ہے، اتنا ثوب کم ہو جاتا ہے جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی اور ابن حبان میں عمار بن یاسررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
مکمل تحریر >>

Monday, April 20, 2015

رجب کی بدعات و خرافات سے دور رہیں

رجب کی بدعات و خرافات سے دور رہیں




رجب کے مہینے میں طرح طرح کے بدعات و خرافات انجام دئے جاتے ہیں ، آپ حضرات سے گذراش ہے کہ خود بھی ان بدعات سے دور رہیں اور اپنے سماج کو بھی ان خرافات سے نجات دینے کی حتی السعی کوشش کریں۔
رجب کی چند معروف و مشہور بدعات:
(1)بدعت: رجب کے مہینہ میں کثرت سے عمرہ کرنا:
حقیقت :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رجب میں کبھی عمر نہیں کیا ہے (صحیح بخاری باب:٣ حدیث: ١٧٧٦)۔
(2) بدعت :ماہ رجب میں بالخصوص روزے رکھنا:
حقیقت:اس مہینہ کے روزوں سے متعلق تمام روایات ضعیف وموضوع ہیں۔
(3) بدعت : ستائسویں رات کو قیام کرنا،نماز شب معراج پڑھنا، محفلیں منعقد کرنااور واقعہ معراج پڑھنا کہ یہ اسراء ومعراج کی رات ہے:
حقیقت : تاریخ معراج سے متعلق مؤرخین کے چھ اقوال ہیں.(الرحیق المختوم:197)
اس لئے واقعہ معراج کیلئے ستائسویں رجب ہی کومعین کرنا بہر صورت درست نہیں،بفرض محال اگر مان بھی لیا جائے تو اس رات قیام اور دوسرے اعمال کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں۔
(4) بدعت : پہلے رجب کو ہزاری نماز پڑھنا:
حقیقت : اس عمل کے لئے شریعت میں کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔
(5)بدعت :پندرہویں رجب کو ام داؤد کی نماز پڑھنا:
حقیقت : اس عمل کے لئے شریعت میں کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔
(6)بدعت : رجب کے جمعہ کی پہلی رات بارہویں نماز پڑھنا:
حقیقت : اس عمل کے لئے شریعت میں کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔
(7)صلاۃ الرغائب پڑھنا:
حقیقت :اس نماز سے متعلق ساری روایتیں موضوع ہیں۔
(8)بدعت : معاجن رجب،، یعنی بعض لوگوں کا ماہ رجب کی 22تاریخ کو امام جعفر صادق کی نیاز کے طور پر کھیر پکانا:
حقیقت : اس عمل کے لئے شریعت میں کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔
(9) بدعت : 22رجب کو کونڈے بھرنا:
حقیقت : یہ بدعت1906ء میں ریاست رامپور میں امیر مینائی لکھنوی کے خاندان میں پیدا ہوئی ہے ۔
(10) بدعت : مردوں کی روحوں کی طرف سے صدقات وخیرات کرنا:
حقیقت : اس عمل کے لئے شریعت میں کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔
(11) بدعت : بالخصوص اس ماہ قبروں کی زیارت کرنا،خاص کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کرنا:
حقیقت : اس عمل کے لئے شریعت میں کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔
(12)بدعت :مخصوص دعائیں پڑھنا:
حقیقت : اس عمل کے لئے شریعت میں کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں بدعات وخرافات سے کوسوں دور رکھے اور سنت صحیحہ کے مطابق عمل کی توفیق بخشے ۔ آمین


مکمل تحریر >>