Tuesday, March 31, 2015

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی شان ہے:
لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث:۷۱۴)
(سورۂ فاتحہ کے بغیر کسی شخص کی کوئی نماز نہیں)
اور یہ حکم امام ، مقتدی اور منفرد سب کو شامل ہے ۔ مندرجہ ذیل احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے ۔

(1)سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی۔ پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اپنی نماز میں پڑتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟۔‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا:’’بیشک ہم ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’پس ایسا نہ کرو، اور تم میں سے ہر شخص سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔‘‘
(جزء القرأۃ لامام بخاری رحمہ اللہ، حدیث: ۲۵۵، اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور متن بالکل محفوظ ہے۔
امام ابن حِبان[المتوفیٰ:۳۵۴؁ھ]نے صحیح ابن حبان(حدیث:۱۸۵۲) میں اور حافظ ہیثمی[المتوفیٰ:۸۰۷؁ھ]نے مجمع الزوائد (حدیث:۲۶۴۲)میں اس کی تصحیح کی ہے۔

(2)سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘
(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔
اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸؁ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵؁ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔

(3)سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’[اے صحابہ!] تم میرے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا،’’جی ہاں! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا :’’کچھ نہ پڑھوسوائے سورۂ فاتحہ کے۔‘‘ (جزء القرأۃ،حدیث:۶۳)
یہ حدیث ’’عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ‘‘ کی سند سے ہیں ، جو صحیح سند ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۷۲۸؁ھ] فرماتے ہیں:’’ائمہ اسلام اور جمہور علماء کے نزدیک اگر عمرو بن شعیب تک سند صحیح ہو تو ان کی عن ابیہ عن جدہ والی روایت حجت ہوتی ہے۔‘‘
(مجموع الفتاویٰ، الحدیث، سُئل شیخ الاسلام عن الحدیث: تعریفہ و اقسامہ ج۱۸ص۸)
عبدالرشید نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں:’’ اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو (جو عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ہو)حجت مانتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔‘‘(ابن ماجہ اور علم الحدیث،ص۱۴۱،مکتبہ الحق دیوبند)

(4)سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی آپ پر قراء ت بھاری ہوگئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ’’میں تمہیں دیکھتا ہوںکہ تم امام کے پیچھے( قرآن )پڑھتے ہو؟‘‘عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ہم لوگوں نے عرض کیا : ’’یا رسولَ اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کی قسم ہم پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا:’’لَا تَفْعَلُوْا اِلَّا بِاُمِ الْقُرْآنِ فَاِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِھَا (ایسا مت کرو مگر ہاں ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو اور کچھ نہ پڑھو، کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں ہوتی)

(حوالجات: مسنداحمد: حدیث۲۳۱۲۵واللفظ لہ۔سنن ابی داؤد: حدیث۸۲۳۔ ترمذی، حدیث: ۳۱۱۔جزء القرأۃ،حدیث: ۲۵۷۔ دارقطنی، حدیث: ۱۲۰۰۔ مستدرک الحاکم، حدیث: ۸۶۹۔ صحیح ابن خزیمہ)
مکمل تحریر >>

کھڑے ہوکر پیشاب کرنا

کھڑے ہوکر پیشاب کرنا

بوقت ضرورت کھڑے ہوکرپیشاب کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ باپردہ جگہ ہو،کوئی پیشاب کرنے والے کی شرم گاہ کو نہ دیکھے اورپیشاب کے چھینٹوں کا کوئی احتمال نہ ہو،کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ‘‘تحقیق نبی کریمﷺایک کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس تشریف لائے توآپؐ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ۔اس حدیث کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے لیکن افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر پیشاب کیا جائے کیونکہ نبی کریمﷺکا اکثر وبیشتر معمول یہی ہے ،اس میں پردہ بھی زیادہ ہے اورپیشاب کے چھینٹوں سے بھی زیادہ بچاسکتا ہے۔’’


مکمل تحریر >>

سورہ یسین کی فضیلت


سورہ یسین کی فضیلت

جو امیج میں نے لگایا ہے اس میں تیں سورہ یسین کی فضیلت سے متعلق تین روایات ہیں ۔ آئیے ان کی حقیقت دیکھتے ہیں ۔

(1)پہلی روایت : " لو  ددت  انها  في قلبه كل انسان  من امتي  يعني يس " (: البزار  کشف  الاستار  3/87ح 2305 من حدیث ابن عباس)
ترجمہ : میرا دل چاہتا ہے کہ سورہ یسین میرے ہر امتی کے دل میں ہو۔

یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کاراوی  ابراہیم بن الحکم  بن ابان ضعیف ہے ۔ دیکھیں:(التقریب  :166)

(2)دوسری روایت :" ان  لكل  شئي قلبا  قلب  القرآن  يس  ومن قرا يس  كتب الله له بقراتها قراءة القرآن  عشر مرات"
(جامع ترمذی ح2887 من حدیث قتادۃ عن انس رضی اللہ عنہ وتبلیغی  نصاب  ص 292 فضائل  قرآن  ص58)
ترجمہ : ہر چیز کےلیے  ایک دل  ہوا کرتا ہے۔ قرآن  شریف  کا دل  سورہ یس ہے ۔ جو  شخص سورہ یس  پڑھتا ہے  حق تعالی شانہ  اس کے لیے دس  قرآنوں  کا ثواب  لکھتا  ہے ۔(ترجمہ مولانا زکریاصاحب تبلیغی نصاب والے)

امام ترمذی  اس روایت  کے ایک راوی ہارون  ابو محمد کے بارے  میں فرماتے  ہیں" شیخ مجہول " لہذا یہ روایت  ہارون  مذکور کے مجہول  ہونے کی وجہ  سے  ضعیف  ہے۔  شیخ  البانی ؒ نے اسے  موضوع قراردیا ہے۔  (الضعیفۃ  ج 1ص202ح169)
امام ابو حاتم  الرازی  نے یہ دعوی  کیا ہے  کہ اس حدیث کا راوی: مقاتل  بن سلیمان (کذاب) ہے ( علل الحدیث ج2 ص 1652) جبکہ سنن ترمذی  وسنن  الدارمی (ج 2ص 456ح3419) تاریخ  بغداد (ج 4ص 167) میں مقاتل  بن حبان ( صدوق) ہے ۔

(3)تیسری روایت : "من قرا يس  انتغاء  وجه الله  تعاليٰ غفرله  ماتقدم  من ذنبه  فاقرؤوها عند  موتاكم  " ( البيهقي  في شعب  الايمان  ح  ٢٤٥٨ من حديث  معقل  بن يسار رضٰي الله عنه )
ترجمہ : جس نے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے سورہ یسین پڑھا تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، تم اسے میت کے پاس پڑھو۔

اس کی سند  ایک مجہول  راوی: ابو عثمان  غیر  النہدی  اور اس  کے باپ  کی جہالت  کی وجہ سے  ضعیف  ہے ۔ یہ روایت  مختصرا مسند احمد  (5/ 26، 27) مستدرک الحاکم (1/ 565 ) صحیح  ابن  حبان  ( الاحسان  7/ 269 ح2991 ونسخہ  محققہ  ح: 3002) سنن ابی داود  (3121) اور سنن  ابن ماجہ  ( 1448) میں موجود  ہے ۔اس حدیث  کو امام  دارقطنی  نے ضعیف قراردیا ہے ۔ مسند احمد (4/ 105) میں  اس کاایک  ضعیف  شاہد بھی ہے۔

خلاصہ کلام :
=======

سورہ یسین کی فضیلت میں بے شمار روایات آئی ہیں ساری کی ساری ضعیف و موضوع ہیں ۔ 
مکمل تحریر >>

امام اعظم کون ؟

امام اعظم کون ؟

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ امام اعظم کا لفظ صرف امام ابوحنیفہ کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے دعوے دار دوسرے لوگ بھی ہیں۔ اب حنفیوں کو یہ فیصلہ کرکے بتانا پڑے گا کہ ان میں سے اصلی اور حقیقی امام اعظم کون ہے۔ اس کے لئے حنفیوں کو دلائل بھی دینے پڑینگے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب دلائل کی باری آئے گی تو چاروں اماموں میں ابوحنیفہ کا نمبر سب سے آخر میں آئے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ نمبر بھی نہ آئے بلکہ اماموں کی لسٹ سے ہی خروج ہو جائے۔

حنفیوں کی طرح شافعی حضرات بھی اپنے امام کو امام اعظم کہتے ہیں:

۱۔ تاج الدین عبدالوہاب بن تقی الدین السبکی نے کہا: محمد بن الشافعی: امامنا، الامام الاعظم المطلبی ابی عبداللہ محمد بن ادریس۔۔۔۔۔۔ (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ج۱ ص۲۲۵، دوسرا نسخہ ج۱ ص۳۰۳)

۲۔ احمد محمد بن سلامہ القلیوبی (متوفی ۱۰۶۹ھ) نے کہا: قولہ (الشافعی) : ھو الامام الاعظم
( حاشیۃ القلیوبی علیٰ شرح جلال الدین المحلی علیٰ منہاج الطالبین ج۱ ص۱۰، الشاملۃ)

۳۔ قسطلانی (شافعی) نے امام مالک کو الامام الاعظم کہا۔
(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ج۵ ص۳۰۷ ح ۳۳۰۰، ج۱۰ ص۱۰۷ ح ۶۹۶۲)

۴۔ قسطلانی نے امام احمد بن حنبل کے بارے میں کہا: الامام الاعظم
(ارشاد الساری ج۵ ص۳۵ ح ۵۱۰۵)

۵۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے مسلمانوں کے خلیفہ (امام) کو الامام الاعظم کہا۔
(فتح الباری ۳/۱۱۲ ح ۷۱۳۸)

اب دیکھتے ہیں کہ حنفی امام ابوحنیفہ کی طرف الامام الاعظم کی نسبت سے دستبرداری اختیار کرتے ہیں یا دلائل کا مشکل ترین راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھئے ہوتے ہے کیا۔

منقول 
مکمل تحریر >>

قبر میں موسی علیہ السلام کا نماز پڑھنا

قبر میں موسی علیہ السلام کا نماز پڑھنا

سوال : یہ حدیث کہاں تک صحیح ہے ،’’میں نے موسی علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،‘‘ اگر حدیث صحیح ہے تو اس کا مطلب کیا ہو گا ؟کیونکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد میت عبادت کرتا ہے ۔

جواب : ہاں حدیث صحیح ہے نکالا ہے اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح (2؍268) میں ،امام احمد نے اپنی مسند (3؍144)، (5؍59۔362۔365) میں اور امام نسائی نے اپنی سنن (1؍242) میں انس بن مالک سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں آیا:
اور اس روایت میں ہے :میں گزرا موسیٰ علیہ السلام پر اسراء کی رات سرخ ٹیلے کے پاس اور آپ اپنی قبر میں کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے اور امام نسائی نے ’’باب قیام اللیل‘‘ میں اسے نکالا ہے ’’ اللہ کے نبی موسیٰ کلیم اللہ کی نماز کا ذکر ‘‘
امام نووی  نے شرح مسلم(1؍94)’’ باب الاسراء برسول اللہ ‘‘ میں کہتے ہیں :
’’اگر کہا جائے کہ وہ کیسے حج کرتے اور تلبیہ کہتے ہیں حالانکہ وہ اموات ہیں اور دار آخرت میں ہیں جو دار عمل نہیں تو جاننا چاہیے کہ جو کچھ اس سے ہمیں ظاہر ہوتا ہے ۔ ہمارے مشائخ جواب دیتے ہیں ۔
پہلا جواب :وہ مانند شہداء کے ہیں بلکہ ان سے افضل ہیں اور شہداء اپنے رب کے پاس زندہ ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ نمازیں پڑھتے اور حج کرتے ہوں۔جیسے کہ دوسری حدیث میں وارد ہے ۔
اور اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہوں ،کیونکہ وہ اگرچہ فوت ہو چکے ہیں لیکن وہ اس دنیا میں ہیں جو دارالعمل ہے اور جب دنیا کے بعد آخرت آئے گی تو وہ دارالجذاء ہو گی اور عمل پھر منقطع ہو جائیگا ۔ یہ جواب ضعیف ہے ۔
دوسرا جواب:
آخرت کا عمل ذکر و دعا ہوگا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ،’’ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی ’’سبحان اللہ ‘‘ (یونس:آیت:10)
تیسرا جواب: یہ رؤیت خواب کی ہو  اسراء کی رات کے علاوہ یا اسراء کی رات کے علاوہ یا اسراء کی رات کے کسی حصے میں ابن عمر﷜ کی روایت میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ، میں سویا ہوا تھا تو میں نے اپنے آپ کو کعبے کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ۔الحدیث۔
چوتھا جواب:آپ ﷺ کو ان کی زندگی کے احوال کی جھلک دکھائی گئی اور آپ کو ان کی مثال دکھائی گئی کہ وہ کیسے حج کرتے تھے کیسے تلبیہ کہتے تھے جیسے آپ ﷺ نے فرمایا ،’’ گویاء کہ میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں ‘‘’’گویا کہ میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں ‘‘گویا کہ میں عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں ۔میں کہتا ہوں یہ صحیح ہے ۔
پانچواں جواب:
ان کے بارے میں  اور ان کے افعال کے بارے میں بذریعہ وحی دی گئی ہو ۔ اگرچہ آنکھوں سے رؤیت نہ ہوئی ہو ۔میں کہتا ہوں صالحین کا ان پر قیاس کرنا جائز نہیں کہ مشرک ان سے مدد مانگتے   پھریں اور کہیں وہ عبادت کرتے ہیں اور نماز کی طرح دعا بھی عبادت ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ، صحیح مسلم میں ابوھریرہ سے مرفوعا روایت آئی ہے :
’’انسان جب مر جاتا ہے تو سوائے تین کے باقی سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں ۔ ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا علم جس سے فائدہ اٹھایا جئے اور تیسرا صالح اولاد اس کے لیے دعا کرتی ہے ‘‘۔
مشکوۃ (1؍25) تو مشرکوں کا ’’یا شیخ عبد القادر جیلانی شیٔا للہ کہنا غلط اور فساد فی الدین ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص ج1ص189
مکمل تحریر >>

یامحمد کہنے کی حقیقت

یامحمد کہنے کی حقیقت

امام طبرانی پھر امام منذری فرماتے ہیں “ والحدیث صحیح “ امام بخاری “ کتاب الادب المفرد “ میں اور امام ابن السنی و امام بن بشکوال روایت کرتے ہیں: ان ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما خدرت رجہ فقیل لہ اذکر احب الناس الیک فصاح یا محمد اہ فانتشرت ( الادب المفرد ص250)

یہ روایت کتاب الأذکار للنووی میں یوں ذکر ہے : (بابُ ما يقولُه إذا خَدِرَتْ رِجْلُه)
916 -روينا في كتاب ابن السني عن الهيثم بن حنش قال: " كنَّا عندَ عبد الله بن عمر رضي الله عنهما فخدِرَتْ رجلُه، فقال له رجل: اذكر أحبَّ الناس إليك، فقال: يا محمّدُ (صلى الله عليه وسلم) ، فكأنما نُشِطَ من عِقَال "

917 - وروينا فيه عن مُجاهد قال: " خَدِرَتْ رِجلُ رجلٍ عند ابن عباس، فقال ابنُ عباس رضي الله عنهما: اذكر أحبَّ الناس إليك، فقال: محمّدٌ (صلى الله عليه وسلم) فذهبَ خَدَرُه

یعنی امام نووی نے یہ روایت بغیر سند ذکر کی ہے اور ابن السنی کا حوالہ دیا ہے ۔ سادہ سے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اس روایت کا اصل حوالہ امام نووی کی کتاب الأذکار نہیں بلکہ ابن السنی کی کتاب عمل الیوم واللیلۃ ہے ۔

اب ملاحظہ فرمائیں عمل اليوم والليلة سلوك النبي مع ربه عز وجل ومعاشرته مع العباد میں
أحمد بن محمد بن إسحاق بن إبراهيم بن أسباط بن عبد الله بن إبراهيم بن بُدَيْح، الدِّيْنَوَريُّ، المعروف بـ «ابن السُّنِّي» (المتوفى: 364هـ) نے اس روایت کو کس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے : فرماتے ہیں :

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عِيسَى أَبُو أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوْحٍ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا غِيَاثُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خَيْثَمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَذَهَبَ خَدَرَهُ " ۱/۱۴۱(۱۶۹)

اور دوسری روایت یوں نقل کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ ۱/۱۴۱(۱۷۰)

اسی طرح کی ایک اور روایت بھی ابن السنی نے ان دونوں روایات سے قبل ذکر کی ہے :
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى» ۱/۱۴۱ (۱۶۸)

ان مرویات میں سے پہلی اور تیسری روایت میں ابو اسحاق السبیعی الہمدانی مدلس ہے اور وہ " عن " کا لفظ بول کر روایت کر رہے ہیں اور مدلس کا عنعنہ مردود ہوتا ہے لہذا یہ دونوں روایات ابو اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔ اور دوسری روایت میں غیاث بن ابراہیم کذاب روای ہے ۔ لہذا یہ روایت موضوع یعنی من گھڑت اور جھوٹی ہے ۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ان روایات سے استدلال کرنا قطعا حرام ہے ! ثانیا : یہ روایات موقوف یا مقطوع ہیں اور موقوفات ومقطوعات دین میں حجت نہیں ہیں ۔ لہذا ان سے استدلال کرنا نا جائز ہے ۔


منقول محدث فورم
مکمل تحریر >>

نبی ﷺ کی ولادت کا وقت

نبی ﷺ کی ولادت کا وقت


جب نبی ﷺ کی ولادت کی تاریخ میں ہی اختلاف ہے تو کوئی وقت کی تعیین کیسے کرسکتا ہے ۔
آپ ﷺ کی ولادت کے متعلق راحج قول 9/ربیع الاول ہے ، اورسوموار کے دن پیدائش کی صحیح حدیث آئی ہے ۔ مگر پیدائش کا وقت کیا ہے اس سلسلہ میں کوئی نص نہیں ہے ۔ البتہ بعض ماہرین فلکیات نے پیدائش کا وقت نکالا ہے ۔ مگر اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

واللہ اعلم 
مکمل تحریر >>

کپڑا پاک کرنے کا طریقہ

کپڑا پاک کرنے کا طریقہ
مقبول احمد سلفی

اسلام میں نظافت کی بڑی اہمیت ہے ، اس لئے بدن ، کپڑا اور جگہ صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ کپڑا اصلا پاک ہوتا ہے ، اکثر و بیشتر آدمی کپڑا میلا ہونے کی وجہ سے دھلتا ہے نہ کہ ناپاک ہونے کی وجہ سے ۔
اگر کوئی محض میل کچیل کی وجہ سے دھو رہا ہے تو صابن وغیرہ سے اسے صاف کرکے اور پانی سے  صابن کے اثرات زائل کرلے ۔ کافی ہے ۔
اوراگر کپڑا ناپاک ہونے کی وجہ سے دھل رہا ہے تو جس جگہ گندگی لگی ہے اسے پہلے صاف کرلے ، اور یہ گندگی والی جگہ جتنے پانی سے صاف ہو صاف کرے تاآنکہ بدبو اور اثرات زائل ہوجائیں۔ اس میں ایک بار دو بار کی کوئی تعیین نہیں ہے ، یہ صفائی پہ منحصر ہے ۔ پھر بقیہ کپڑا دھلے ۔  
واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

کیا نماز اشراق ہی نماز چاشت ہے؟

کیا نماز اشراق ہی نماز چاشت ہے؟

شیخ ابن باز کے نزدیک نماز اشراق ہی نماز چاشت ہے ،اس کو اگر اس کے اصلی ٹائم یعنی ایک نیزے کے برابر سورج نکلنے پر پڑھا جائے تو اشراق کہلائی گی اور اگر اسے سورج بلند ہوجانے کے وقت جب اونٹ کے بچوں کت پاؤں جلنے لگیں ،پڑھا جائے تو چاشت کہلائی گی۔اس نماز کی کم از کم رکعات کی تعداد دو اور زیادہ سے زیادہ کی تعداد آٹھ ہے۔
(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 11 / 401۔)


مکمل تحریر >>

مغرب کے وقت عصر کی نماز کی قضا

مغرب کے وقت عصر کی نماز کی قضا

سوال : عصر کی نماز چھوٹ جائے اور مغرب کی نماز کے وقت مسجد پہنچے تو کیا کرے ؟
جواب : اس سلسلہ میں علماء کے راحج قول کے مطابق عصر کی نیت سے جماعت سے شریک ہوجائے ، امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی کھڑا ہوکر ایک رکعت پڑھ لے پھر سلام پھیرے ۔ اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھے کیونکہ فوت شدہ نمازوں کی قضا کرتے ہوئے  ترتیب قائم رکھنا واجب ہے ۔
اس کی دلیل :
غزوہ خندق کے موقعہ پر رسول اللہﷺ کی نمازیں رہ گئی تھیں تو آپ نے انہیں ترتیب وار پڑھا تھا ’’حضرت ابو سعید خدری﷜ سے مروی ہے کہ ہم (غزوئہ خندق میں) رسول اللہﷺکے ساتھ تھے ہمیں کافروں نے ظہر عصر مغرب اور عشاء نمازیں پڑھنے کی مہلت نہ دی (اور ان نمازوں کا وقت گزر گیا) جب فرصت ملی تو رسول اللہﷺنے بلال ﷜ کو حکم دیا انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے عصر کی نماز پڑھائی پھر انہوں نے اقامت کہی تو نبیﷺنے مغرب کی نماز پڑھائی انہوں نے پھر اقامت کہی آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی‘‘(مسند احمد ۔ نسائی۔ ترمذی۔ابواب الصلاۃ۔باب ما جاء فی الرجل تفوتہ الصلوات بأیتھن یبدأ)

مکمل تحریر >>

حلال ذبیحہ

حلال ذبیحہ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘ فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ’’ جس پر (ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا جائے تو اس میں سے کھاؤ۔ (الانعام : ۱۱۸)
اس آیتِ کریمہ اور دیگر دلائل کی رُو سے اس پر اتفاق ہے کہ صحیح العقیدہ مسلمان کا ذبح شدہ حلال جانور حلال ہے بشرطیکہ وہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لے اور کوئی شرعی مانع (رکاوٹ) نہ ہو۔ دیکھئے موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی(۲؍۴۴۸)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ !یہاں ایسے لوگ ہیں جو شرک سے تازہ تازہ مسلمان ہوئے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘ سمو اللہ علیہ وکلوا’’ اس پر اللہ کا نام لے لو اور کھاؤ۔ (صحیح بخاری: ۲۰۵۷، ۷۳۹۸)
اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ اسلام کے ذبیحے کو حسنِ ظن کی بنیاد پر کھایا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہر قصاب سے پوچھتا پھرے کہ آپ نے اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں ؟اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو یہ ذبیحہ حرام ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ‘‘وَلَا تَاْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہ لَفِسْقٌ’’اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ اور بے شک یہ فسق ہے۔ (الانعام: ۱۲۱)
اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) اگر حلال جانور پر اللہ (خدا) کا نام لے کر ذبح کریں تو یہ جانور حلال ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ’’ اور اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لئے حلال ہے۔ (المآئدۃ : ۵)
اس آیت کی تشریح میں اہلِ سنت کے مشہور امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ کے ذبیحے تمھارے لئے حلال ہیں۔ (تفسیر طبری۶؍۶۴)
امام ابن شہاب الزہری نے عرب کے نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ذبیحے کھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اہلِ کتاب میں سے ہیں اور اللہ کا نام لیتے ہیں۔تفسیر طبری (۶؍۶۵و سندہ صحیح) نیز دیکھئے صحیح بخاری(قبل ح ۵۵۰۸)
اس پر اجماع ہے کہ ہر یہودی اور ہر نصرانی کا ذبیحہ حلال ہے۔ (بشرطیکہ وہ اللہ کا نام لے) دیکھئے تفسیر ابن جریر طبری(۶؍۶۶)
اس پر اجماع ہے کہ اہلِ اسلام، یہود  اور نصاریٰ کے علاوہ تمام ادیان مثلاً ہندو، بدھ مذہب اور سکھ وغیرہ کفار و مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ مرتد اور زندیق کا ذبیحہ حرام ہے لہٰذا مرزائی ، بہائی، نُصیری اور درُوز وغیرہ مرتدین کے ذبائح حرام ہیں۔ 


مکمل تحریر >>

Monday, March 30, 2015

کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ زندہ ہیں ؟

کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ زندہ ہیں ؟

وأخرج الخطيب في رواة مالك عن عائشة قالت لما مرض أبي أوصى أن يؤتى به إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ويستأذن له ويقال هذا أبو بكر يدفن عندك يا رسول الله افإن أذن لكن فادفنوني وإن لم يؤذن لكم فاذهبوا بي إلى البقيع فآتي به إلى الباب فقيل هذا أبو بكر قد اشتهى أن يدفن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أوصانا فإن آذن لنا دخلنا وإن لم يؤذن لنا انصرفنا فنودينا أن أدخلوا وكرامة وسمعنا كلاما ولم نر أحدا .
قال الخطيب غريب جدا
ترجمه :عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میرے والد مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی قبر اقدس کے پاس لے جانا اور کہنا کہ یہ ابوبر آپ کے پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتےہیں۔اگر اجازت مل جائے تو داخل کرنا اور اگر اجازت نہ ملے تو بقیع کی طرف لے جاکر دفن کرنا،چنانچہ(بعد الموت) ابوبکر کو لے جایا گیا اور کہا گیا یہ ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں،انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ اجازت طلب کرنا مل جائے تو داخل کرنا اور اگر نہ ملے تو لوٹا لینا،پھر ہمیں آواز دی گئی کہ اسے داخل کرو اور عزت پاؤ ہم نے آواز کو سنا لیکن دیکھا کسی کوئی نہیں۔
خطابی کہتے ہیں : اس کی سند غریب جدا ہے.

ابن عساکر نے دوسرا واقعہ بھی ذکر کیا ہے ذرا اس پر بھی نظر دوڑا لیں۔
وأخرج ابن عساكر عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد فتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من بادر إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر يستأذن فرأيت الباب قد فتح فسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق
وقال ابن عساكر هذا حديث منكر وفي إسناده أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي كذاب عن عبد الجليل المري وهو مجهول
ترجمه : ابن عساکر علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ علی نے فرمایا: جب ابو بکر رضی اللہ عنہ قریب الوفات تھے تو انہوں نے مجھے اپنے سر کے پاس بٹھایا اور کہا اے علی جب میں مر جاؤں تو تم مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ ﷺ کو غسل دیا تھا،اور مجھے کافور لگانااور مجھے اس گھر کی طرف لے جانا جس میں رسول اللہ (دفن ﷺہیں) (روضہ رسولﷺ) پھر اجازت طلب کرنا اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھل گیا ہے تو مجھے داخل کرنا اور اگر دیکھو کہ نہیں کھلا تو عام مسلمانوں کے قبرستان کی طرف لے جانا۔یہاں تک کہ اللہ جب اللہ نے لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا(یعنی فوت ہوگئے) تو علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان کو غسل دیا اور کفن دیا اور میں پہلا شخص تھا جس نے دروازے کی طرف جلدی کی(رضہ رسول کی طرف) میں نے کہا کہ یہ ابوبکر اجازت طلب کرتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا ہے اور میں نے سنا کہ کسی کہنے والےنے کہا دوست کو دوست کے پاس داخل کرو بیشک دوست دوست کا مشاق ہے۔(ملاقات کی چاہت رکھنے والا)
ابن عساکر بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اس کی سند میں ابو طاہر موسی بن محمد بن عطاء المقدسی کذاب ہے اور عن عبدالجلیل المری مجہول راوی ہے۔
مکمل تحریر >>

کیا دوران اذان انگوٹھوں کے ساتھ آنکھیں چومنا صحیح ہے ؟


کیا دوران اذان انگوٹھوں کے ساتھ آنکھیں چومنا صحیح ہے ؟


جس روایت میں موجود ہے کہ جس شخص نے موزن کے یہ کلمات اشھد ان محمد رسول اللہ سن کر کہا مرحبا بحبیبی و قرہ محمد بن عبداللہ ،پھر اپنے انگوٹھوں کا بو سہ لے کر انہیں اپنی آنکھوں پر لگایا ، وہ شخص کبھی آنکھ کی تکلیف میں مبتلا نہیں ہو گا۔
یہ روایت ضعیف ہے دیکھیں :(سلسلہ الضعیفہ # ٧٣)

معلوم ہوا ایسا کوئی عمل شریعت سے ثابت نہیں ہے اس لئے یہ بدعت ہے اور اسے اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
مکمل تحریر >>

کیا موذن کو اذان کی اجرت دی جا سکتی ہے ؟


کیا موذن کو اذان کی اجرت دی جا سکتی ہے ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ایسے شخص کو موذن بناؤ جو اجرت نہ لے ۔ (صحیح ابو داؤد #٤٩٧) (1)

(2)حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی تو میں نے اذان کہی پھر جب میں نے اذان مکمل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں چاندی کی کوئی چیز تھی ۔ (صحیح نسائی # ٦١٣)

ان دونوں احادیث میں تطبیق یوں دی گئی
"بلا شبہ اجرت حرام اس وقت ہے کہ جب مشروط ہو اور اگر بغیر مانگنے کے کچھ دیا جائے" (تو جائز ہے ) (نیل الاوطار #٥٢٥)

راحج بات

ایسا موذن مقرر کیا جائے جو اذان کہنے پر اجرت نہ لیتا ہو جیسا کہ حدیث میں ہے لیکن اگر ایسا کوئی میسر نہ ہو تو پھر اجرت پر بھی موذن رکھ لینا جائز ہے کیونکہ اوقات نماز سے آگاہی کے لئے موذن کی تقرری نہایت ضروری ہے اور اگر موذن کا سوائے اذان کے کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے تو اس کے لئے اجرت لینا اور اسے اجرت دینا محض جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے البتہ موذن کے لئے اجرت لینے میں کراہت کا پہلی بہر حال موجود ہے جیسا کہ امام خطابیؒ اور اکثر علماء کا یہی موقف ہے۔
مکمل تحریر >>

کیا اذان کہنے والا ہی اقامت کہے گا ؟

 کیا اذان کہنے والا ہی اقامت کہے گا ؟

 (1)رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جو اذان دے وہی اقامت کہے ۔
یہ حدیث ضعیف ہے۔ (دیکھیں سلسلہ الضعیفہ # ٣٥)

(2)حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اذان کو میں نے خواب میں دیکھا تھا لہٰذا میری تمنا تھی کہ مجھے موذن مقرر کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اقامت کہو۔
یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔ دیکھیں: (ضعیف ابو داؤد #١٠٢)

پہلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان دینے والا ہی اقامت کہے لیکن وہ ضعیف ہے اور دوسری حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موذن کے علاوہ دوسرا شخص بھی اقامت کہ سکتا ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے ، لہٰذا چونکہ اصل اباحت ہے اس لئے موذن کے علاوہ کسی اور کا اقامت کہنا جائز ہے۔

راحج بات
چونکہ دونوں احادیث ضعیف ہیں اس لئے دونوں طرح ہی بہتر ہے البتہ اس مصلحت کے پیش نظر کہ جو اذان دیتا ہے اگر وہی اقامت کہےگا تو اس سے نظم و ضبط رہتا ہے ، یہ عمل بہتر ہے ۔


واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

مسبوق (جس سے باجماعت نماز مکمل یا اس کا کچھ حصہ نکل چکا ہو) کی امامت کا حکم

مسبوق (جس سے باجماعت نماز مکمل یا اس کا کچھ حصہ نکل چکا ہو) کی امامت کا حکم

جب مسبوق مسجد میں داخل ہو اور لوگ نماز پڑھ چکے ہوں۔اوردوسرا مسبوق اپنی باقی نماز ادا کررہا ہو تو ا س کے لئے جائز ہے۔کہ مسبوق کے دایئں جانب کھڑا ہو کر جماعت کی نیت سے ثواب حاصل کرنے کی نیت سے نماز ادا کرے۔مسبوق کوامامت کی نیت کرلینی چاہیے علماء کے صحیح قول کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ۔اسی طرح اگر کوئی شخص تن تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو یہ اس کے ساتھ شامل ہوکر نماز ادا کرسکتا ہے۔اس کے دایئں جانب کھڑا ہوجائے۔اور جب مسبوق سلام پھیر دے یا و ہ شخص جو تنہا نماز پڑھ رہا تھا۔سلام پھیر دے تو یہ کھڑا ہوکر اپنی باقی نماز کو پورا کرلے۔ان دلائل کے عموم سے اس کا جوازثابت ہوتا ہے۔جو نماز باجماعت ادا کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتے ہیں۔اور جیسا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہے۔ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کودیکھا جو نماز ختم ہونے کے بعد مسجد میں داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے(یعنی اسے جماعت سے نماز پڑھا دے(''

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ ج1ص353


مکمل تحریر >>

نماز میں چھینک آجائے تو ؟

نماز میں چھینک آجائے تو ؟
ترجمہ : مقبول احمد سلفی
سوال : اگر نماز میں چھینک آجائے تو الحمد للہ کہنا کیسا ہے ؟
جوااب : اگر کسی کو نماز میں چھینک آجائے تو مستحب ہے کہ وہ الحمد للہ کہے چاہے فرض نماز ہو یا نفل نماز۔ اس بات کے قائل صحابہ و تابعین میں سے جمہور علماءہیں ۔
 کیا الحمد للہ آہستہ کہے گا یا بلند آواز سے ؟
علماء کے قول کی روشنی میں صحیح بات یہ ہے  کہ بلند آواز سے الحمد للہ کہے گالیکن بس اپنے سننے کی حد تک تاکہ دوسرے نمازی کو خلل نہ ہو ۔

. (فتوى اللجنة الدائمة برئاسة الشيخ ابن باز رقم 20455)



مکمل تحریر >>

اسلام میں احسان جتلانے کی سزا

اسلام میں احسان جتلانے کی سزا
اعداد و ترتیب : مقبول احمد سلفی

احسان کرنا بڑی نیکی ہے مگر احسان کرکے کسی پر احسان جتلانا گندی صفت ہے ۔ ایسے لوگوں کو عربی میں منان اور اردو میں احسان جتلانے والا کہتے ہیں ۔
منَّان : سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کو کچھ دینے کے بعد احسان جتلاتا ہے۔ امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے احسان جتلانے کی تعریف یوں کی ہے:
ذکر النعمة علی معنی التعدید لها والتقریع بها، مثل ان یقول: قد احسنت إلیك(تفسیر قرطبی:3؍308)
''کسی کو جتلانے اور دھمکانے کے لیے اس پر کیے ہوئے احسان کا تذکرہ کرنا۔مثلاً یہ کہنا کہ میں نے (تیرے ساتھ فلاں نیکی کی ہے) تجھ پر فلاں احسان کیا ہے ،وغیرہ۔''

بعض لوگوں نے 'احسان'کی تعریف یوں بھی کی ہے:
التحدث بما اعطٰی حتی یبلغ ذلك المُعطٰی فیؤذیه
''کسی کو دی گئی چیز کا تذکرہ اسطرح کرنا کہ اس کو جب یہ بات پہنچے تو اس کیلئے تکلیف دہ ہو۔''

اور احسان جتلانا گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے ۔

گناہ کبیرہ کی تعریف : ہر وہ گناہ جس کو قرآن و حدیث یا اجماعِ امت نے کبیرہ گناہ قرار دیا ہو، جس گناہ کو عظیم قرار دیتے ہوئے اس پر سخت سزا کا حکم سنایا گیا ہویا اس پر کوئی حد مقرر کی گئی ہو یا گناہ کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہو یا جنت کے حرام ہونے کا حکم لگایا گیا ہو۔
کبیرہ گناہ بغیر توبہ معاف نہیں ہوتے: فرمانِ الٰہی ہے:


إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا (النساء:31)

ترجمہ:اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو (ویسے ہی) معاف کردیں گے اور تم کو باعزت مقام(جنت) میں داخل کریں گے۔
مزید فرمایا:


وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى۞ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ  (النجم:31)

ترجمہ:اچھے کام کرنے والوں کو اچھی جزا دی جائے گی۔ وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے دور رہتے اور فحاشی سے اجتناب کرتے ہیں، سوائے (فطری) لغزشوں کے، بے شک آپ کا رب بڑی مغفرت والا ہے۔ 
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:۔


الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ.(مسلم: ح 344)

ترجمہ: پانچ نمازیں، ایک جمعہ ، دوسرے جمعہ اور رمضان دوسرے رمضان تک(یہ تمام اعمال) صغیرہ گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیاجائے۔

محمد رسول اللہ ﷺنے فرمایا:۔ 

إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ وَهُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ ‏:‏ ‏(‏ كلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ‏)‏(ترمذی: ح 2334)

ترجمہ: بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، مگر جب وہ اس گناہ کو چھوڑدے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل صاف کردیاجاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے، حتیٰ کہ اس کا دل مکمل سیاہ ہوجاتا ہے۔


بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ احسان کرنے کے بعد احسان جتلاتے ہیں ، بعض سماجی ادارے جو خیراتی کام کرتے ہیں وہ غریبوں کو طعنہ دیتے ہیں ، اسی طرح بعض اہل ثروت فقراء و مساکین پر احسان کرکے جابجا انہیں بے عزت کرتے ہیں اور احسان کا بدلہ تلاش کرتے ہیں اور احسان جتلاکر گھڑی گھڑی
بےعزت کرتے ہیں ۔  جو آدمی اس رویے کو اختیار کیے رکھے گا،وہ صدقات اورخیرات کی تمام نیکیو ں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی احسان کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن احسان جتانے پر سخت وعید فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالأذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِين -- (البقرة:264)
 "اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔(ترجمہ مولانا جوناگڑھی)

مقصود یہ کہ جو کام تم اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے کر رہے ہو اس پر احسان جتانا کیسا ؟

احسان جتلانے والے کے بارے میں حدیث مصطفی ﷺ میں بھیانک سزا سنائی گئی ہے ۔
عن ابی ذر رضی اللّٰه عنه، عن النبی صلی اللّٰه عليه وسلم، قال: ثلاثة، لا يکلمهم اللّٰه يوم القيامة، ولاينظر اليهم، ولايزکيهم، ولهم عذاب عظيم. المنان لايعطی شيأا الا منه، [والمنفق سلعته بعد العصر بالحلف الفاجر١ ] والمسبل ازاره [لا يريد الاالخيلاء٢ ].(مسلم،کتاب الايمان)
ابو ذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین لوگ ایسے ہیں،جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے،نہ ان پر نظرکرم فرمائیں گے، اور نہ ان کو پاک کریں گے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ایک، احسان جتانے والا کہ جب بھی کسی کو کچھ دے، احسان جتائے۔ دوسرا، عصر کے وقت جب بازار ختم ہو رہا ہو،جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا۔ اور تیسرا، اپنے تہمد کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، جس سے اس کا مقصد سوائے تکبر و نخوت کے کچھ نہ ہو۔

لہذا جو لوگ احسان کرتے ہیں انہیں کسی طرح اپنے احسان کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ، اور اگر کسی سے احسان جتلادیا ہے تو اپنے گناہ سے توبہ کرے اور اس بندے سے معافی طلب کرے ورنہ اللہ کے یہاں نیکی کرنے کے باوجود ذلیل و رسوا ہوگا ۔

اللہ تعالی ہمیں احسان و سلوک کرنے کی توفیق دے اور احسان جتلانے سے بہر طور بچائے ۔ آمین



مکمل تحریر >>

کیا رفع یدین کی وجہ بغل میں مورتی؟

کیا رفع یدین کی وجہ بغل میں مورتی؟

یہ جھوٹ و فریب اور سراسر بہتان ہے جس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
لوگوں میں یہ جهوٹ پهیلایا گیا کہ پہلے لوگ بغل میں بُت دبا کر نماز ادا کرتے تھے اسی لئے محمد ﷺ رکوع کے رفع یدین کرتے تھے تاکہ بُت گر جائیں ، جب لوگوں نے بغل میں بُت دبا کر نماز ادا کرنا چھوڑ دی تو محمد ﷺ نے رکوع کے رفع یدین بھی ترک کر دیئے۔
یہ بات کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہوتی یہاں تک کہ ضعیف روایت سے بهی نہیں.
ویسے بھی جس کو نماز ادا کرنی ہوگی اس کو تو پہلے بُت چھوڑنا ہوں گے بُت بغل میں دبا کر کوئی نماز نہیں پڑھ سکتا۔
یہ جھوٹی کہانی دراصل سنت کے قاتلوں نے گھڑی ہے تاکہ لوگ سنت کو اختیار نہ کریں۔
خالص جھوٹ گھڑنے کے علاوہ سنت کے دشمن کچھ احادیث میں جھوٹ کو ملاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نماز کے دوران رفع یدین کرنا ایسا ہے کہ جیسے جنگلی گھوڑے کا اپنی دم کو حرکت دینا اور اس سے نماز کا سکون متاثر ہوتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ لوگ ایسی دلیل دیتے وقت اپنی عید کی نماز کو بھول جاتے ہیں جس میں یہ خود نماز کے دوران چھ دفعہ رفع یدین کرتے ہیں۔
کیا عید کی نماز میں جنگلی گھوڑے جیسی حرکت کی جاسکتی ہے ؟
کیا عید کی نماز میں سکون نہیں ہوتا ؟
اور کیا ہر نماز کا آغاز جنگلی گھوڑے کے جیسی حرکت سے ہوتا ہے ؟
حق بات دراصل یہ ہے کہ ایک صحابی نے نماز میں سلام پھیرتے وقت اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر دائیں بائیں اشارے سے سلام بھیجا۔ جب نماز مکمل ہوئی تو اللہ کے رسول نے (خفگی) سے فرمایا ”تم میں سے ایک کو کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو ایسے چلا رہا ہے کہ جیسے وہ جنگلی گھوڑوں کی دُمیں ہوں“۔ (مسند احمد)
ان صحابی نے سلام پھیرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور دائیں بائیں اشارہ کرکے دوسرے صحابہ کو سلام پیش کیا۔
عبد اللہ ابن عبّاس فرماتے ہیں کہ اس عمل سے نماز کا سکون متاثر ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن عباس)
اسی وجہ سے محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ نماز میں سکون اختیار کرو یعنی سلام پھیرتے وقت ہاتھوں کو رانوں پر رکھے رہو ، اِدھر اُدھر مت چلاو جنگلی گھوڑے کی دُم کی طرح۔ مسلمان روایات میں تو رکوع کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے ، یہ روایات تو سلام سے متعلق ہیں۔

اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیئے ان لوگوں کو جو روایات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ان کا من گھڑت مطلب نکالتے ہیں اور محمد ﷺ کی مبارک سنّت کو جانوروں جیسی حرکت قرار دیتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

کیا اللہ کے فوت شدہ بندے کسی کی مدد کرتے ہیں ؟

کیا اللہ کے فوت شدہ بندے کسی کی مدد کرتے ہیں ؟

اللہ کا فوت شدہ کوئی بندہ کسی زندہ کی مدد نہیں کرتا ہے مگر بریلوی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ایک حدیث پیش کرتا ہے ۔
جامع الاحادیث میں بحوالہ طبرانی یہ حدیث موجود ہے:
’’إذا ضل أحدُکم شیئا أو أراد أحدُکم غوثا وہو بأرضِ لیس بہا أنیسٌ فلیقلْ یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہ أغیثونی فإنِّ للہِ عبادا لا تراہم‘‘
ترجمہ : جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے یا کوئی شخص ایسی جگہ پر ہے کہ جہاں کوئی نہ ہو او ر وہ مدد لینا چاہے تو تین مرتبہ یہ کہے ’’یا عبادَ اللہِ أغیثونی‘‘یعنی: اے اﷲ کے بندوں میری مدد کرو ۔ بے شک اﷲ کے ایسے بندے ہیں جو تمہیں دیکھائی نہیں دیتے۔
جامع الاحادیث حدیث نمبر ۲۳۰۰المکتبۃالشاملۃ

٭یہ روایت اپنی مختلف سندوں کے ساتھ مسند ابی یعلیٰ، المعجم الکبیر للطبرانی اور مسند البزار وغیرہ میں موجو دہے۔اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی (۱۰۸/۲۔۱۱۲ ح ۶۵۵،۶۵۶)
*مسند بزار والی سند شیخ البانی کے نزدیک شاذ ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
*حافظ بذاتِ خود متکلم فیہ ہیں۔
*حافظ دارقطنیؒ نے ان کے بارے میں فرمایا:“ثقۃ یخطئ کثیراً ویتکل علی حفظہ“ (سؤالات حمزۃ بن یوسف الھمي للدارقطنی:۱۱۶)
اور فرمایا: “یخطئ فی الاسناد و المتن، حدث بالمسند بمصر حفظاً، ینظر فی کتب الناس و یحدث من حفظہ، ولم تکن معہ کتب فأخطأ فی أحادیث کثیرۃ، یتکلمون فیہ، جرحہ أبوعبدالرحمٰن النسائي“ (سوالات الحاکم للدارقطنی: ۲۳)
*ابو احمد الحاکم سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:”یخطیٔ فی الإسناد و المتن” (دیکھئے لسان المیزان ۲۳۷/۱)بزار کو خطیب بغدادی، ابوعوانہ صاحب المسند ، وغیرہما نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے ۔
*بزار کی معلول روایت کے مقابلے میں بیہقی نے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:”إن للہ عزوجل ملائکۃ فی الأرض سوی الحفظۃ یکتبون ما یسقط من ورق الشجر فإذا أصاب أحدکم عرجۃ فی الأرض لا یقدر فیھا علی الأعوان فلیصح فلیقل: عباد اللہ أغیثونا أو أعینونا رحمکم اللہ، فإنہ سیعان " (شعب الایمان ۱۲۸/۶ ح ۷۶۹۷ و سندہ حسن موقوف، ۱۸۳/۱ ح ۱۶۷)
صحابی کے اس قول میں زندہ فرشتوں کو پکارنے کا جواز ہے لہذا یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوا۔ اس قول میں مردہ روحوں کو پکارنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ لہذا اسے مافوق الاسباب پکارنے کی دلیل بنا لینا غلط ہے ۔




مکمل تحریر >>