Saturday, January 31, 2015

نمازی کے پہلو سے گذرنا

نمازی کے دائیں یا بائیں پہلو سے گذرنا


کوئی آدمی نماز پڑھ رہاہو اور اس کے آگے ایک دوسرا آدمی بیٹھا ہوا ہے وہ اگرنمازی کے دائیں یا بائیں جانب سے گذرتا ہے تو یہ نمازی کے آگے سے گذرنا نہیں کہلائے گا۔

اس سلسلہ میں شیخ ابن عثیمین ؒ لکھتے ہیں :
" الواجب على من أراد المرور بين يدي المصلى في الحرم وغيره أن يقف حتى ينتهي من صلاته أو أن يمر من عند جنبه الأيمن أو الأيسر لا أن يقطعه عرضاً ، وهو إذا مر من عند جنبه الأيمن أو الأيسر أي من على يمينه أو يساره : لم يكن ماراً بين يديه ، فالمرور بين يدي المصلى هو أن يقطع الإنسان ما بين يدي المصلى عرضاً ".
انتهى من " فتاوى نور على الدرب" (8/ 2، بترقيم الشاملة آليا) .

ترجمہ : جو نمازی کے آگے سے حرم میں یا دوسری جگہ گذرنا چاہتا ہے اس کے اوپر واجب ہے کہ وہ انتظار کرے یہاں تک کہ نمازی اپنی نماز سے فارغ ہوجائے یا پھر نمازی کے دائیں یا بائیں جانب سے گذر جائے ، اور نمازی کے چوڑائی سے نہ گذرے۔ اگر کوئی نمازی کے دائیں یا بائیں جانب سے گذرتا ہے تو یہ نمازی کے آگے سے گذرنا نہیں کہلائے گا ۔ نمازی کے آگے سے گذرنا یہ ہے کہ انسان نمازی کے چوڑائی سے گذرے ۔


واللہ اعلم  
مکمل تحریر >>

Monday, January 26, 2015

میت کے لئے فاتحہ کرنا


میت کے لئے فاتحہ کرنا

نبی کریمﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ قبروں کی زیارت فرمایا کرتے تھے۔اور مُردوں کے لئے آپ دعایئں فرمایا کرتے تھے۔جو آپ نے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کو سکھایئں اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  نے آپ سے سیکھیں چنانچہ ان دعائوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔
السلام عليكم اهل الديار من المومنين والمسلمين وانا  ان شاء الله بكم للاحقون نسال الله لنا ولكم العافيه (صحيح مسلم كتاب الجنائزح:٩٧٥)
''اے (بستی) کے رہنے والے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلام! بے شک ہم بھی ان شاء اللہ تم سے عنقریب ملنے والے ہیں۔ہم اللہ  تعالیٰ ٰ سے اپنے اور  تمہارے لئے عافیت کی دعا ء کرتے ہیں۔''
آپ نے بار بار قبروں کی زیارت فرمائی لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی مردوں کے لئے سورہ فاتحہ یا قرآن کی دیگر آیات کو پڑھا ہو۔اگر یہ شرعی حکم ہوتا تو آپ ایسا کرتے۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کے سامنے اسے واضح فرماتے۔مگر آپ ﷺ کی سنت سے میت کے فاتحہ کرناثابت نہیں ہے۔
مگر بدعتی ، خرافاتی ٹولہ بریلوی خلیجی ممالک کے قبرستان کی کوئی تصویر لیکر جس میں دعا کرتے دیکھاگیا ہواسے اچھالتے ہیں اور فاتحہ کا ثبوت لیتے ہیں جو ان کی نری جہالت ہے ۔
پہلی بات تو یہ کہ یہ بہٹ ڈھیٹ ہوگئے ہیں کہیں کی کوئی تصویر لیکر اسے سعودی کی طرف منسوب کردیتے ہیں جبکہ تصویر سعودی کی نہیں ہوتی ، آپ دیکھتے ہیں ہندی فلموں میں سعودی کی نقالی کی جاتی ہے ، اور یہ ظاہر ہے کہ نقالی کرنے والے سعودی نہیں انڈین ہی ہوتے ہیں تو پھر بریلویوں کو تصویر اڈیٹ کرنے میں کیا دقت ہے ۔
دوسری بات سعودی اس لئے ان کا ٹارگٹ ہے کہ یہ خالص سلفی ملک ہے ، اور اس ملک سے دنیا بھر میں توحید کا پیغام پہنچتا ہے اور یہاں سےدنیا بھر کے سارے سلفی لوگوں کو مدد و تائید ملتی جبکہ بریلوی اور دیوبندی اس سے محروم ہے ۔ یہ چیز کافی کھلتی ہے ، ان کی مثال "کھسیانی بلی کھمبا نوچے"،،،،،،،،،،،،
کھسیانے پہ میں یہ الٹی پلٹی حرکت کرتے ہیں ، اور جھوٹی جھوٹی باتیں گھڑ کر سعودی اور اہل حدیث جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
ان پر قرآن میں دی گئی جادوگر کی مثال صادق آتی ہے ۔
وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى(طه:69)
ترجمہ: اور جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا"
اللہ تعالی ان ظالموں کو ہدایت نے جنہوں نے اسلام کا دعوی کیا مگر اسلام ہی کا چہرہ مسخ کررہے ہیں اور ڈھٹائی سے دوسروں کو بھی اس طرف بلارہے ہیں اور اس کام پر انہیں ذرہ برابر بھی شرم وحیا نہیں ۔ الحفظ والامان
اللہ تعالی سے پناہ کا طالب
مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

Sunday, January 25, 2015

عورتوں کے لئے سرمنڈوانے کی حرمت

عورتوں کے لئے سرمونڈوانے کی حرمت




مسلمان عورتوں کے لئے سر کے بال لمبے رکھنا واجب ہے اور بلاعذر وضرورت مونڈوانا حرام ہے۔
سعودی عرب کے مفتی عام فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ فرماتے ہیں:
"
عورتوں کے لیے سر کے بال مونڈنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
(   نَهَی رَسُوْلُ اللهِ أنْ تَحْلِقَ الْمَرْأةُ رَأسَهَا) (سنن النسائي:۵۰۵۲(
"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو سر مونڈنے سے منع کیا ہے۔"
احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہی ثابت ہوچکی ہے اور نہی تحریم پر دلالت کرتی ہے، اگر اس کی کوئی روایت معارض نہ ہو۔
ملا علی قاری "المرقاة شرح مشکوٰة" میں فرماتے ہیں :
"
عورت کے لیے سر کے بال مونڈنا اس لئے حرام ہے کہ عورتوں کی مینڈھیاں ہیئت اور حسن و جمال میں مردوں کی داڑھی کی مانند ہیں۔" (مجموع فتاویٰ فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم :۲/۴۹(
اس طرح عورتوں کے لئے سرکے بال کٹوانا بھی جائز نہیں ہے چاہے شوہر ہی کا حکم کیوں نہ ہو،رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کے بال پورے ہوتے تھے اور چھوٹے بالوں والی عورتیں وصل سے کام لیتی تھیں تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ان پر لعنت بھیجی۔
نبی  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سر کے قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اور لگوانے والیوں پر اور گودنے والیوں پر اورگدوانے والیوں پر اللہ نے لعنت بھیجی ہے۔ ‘‘(بخاری، کتاب اللباس، باب وصل الشعر)
تو عورتوں کے لیے بال رکھنا اور نہ کٹانا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی تقریر سے ثابت ہے۔
لہذا عورتوں کا سرمنڈوانا، یا بال کٹوانا جائز نہیں ہے۔ حج و عمرہ میں عورت کا انگلی کے پور کے برابر بال کٹانے کا حکم ہے، اور اگر عورت کوکسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بال کٹانے کی ضرورت پڑجائے تو اس صورت میں جائز ہوگا۔ واللہ اعلم 
مکمل تحریر >>

تین قسم کے لوگوں کا اکرام اللہ تعالی کی تعظیم میں شامل

تین قسم کے لوگوں کا اکرام اللہ تعالی کی تعظیم میں شامل


عن أَبُي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ : إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ )
رواه أبو داود (4843) وحسنه النووي في "رياض الصالحين" (رقم/358) ، والذهبي في "ميزان الاعتدال" (4/565) ، وابن مفلح في "الآداب الشرعية" (1/434) ، والعراقي في "تخريج الإحياء" (2/245) وابن حجر في "تلخيص الحبير" (2/673) والشيخ الألباني في "صحيح أبي داود" .

ترجمہ : حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعا لی عنہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تین قسم کے لوگوں کا اکرام کرنا اللہ تعالی کی تعظیم کرنےمیں شامل ہے۔
(1)ایک بوڑھا مسلمان،،،

(2)دوسرا وہ حافظ قرآن جو اعتدال پر رہے،،،

(3)تیسرا انصاف کرنے والا حاکم،،،،

اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور مندرجہ ذیل محدثین نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔
٭امام نووی ؒ ریاض الصالحین: 358
٭امام ذھبیؒ میزان الاعتدال 4/565
٭ابن مفلح ؒ الآداب الشرعیہ 1/434
٭عراقیؒ تخریج الاحیاء 2/245
٭ابن حجرؒ تلخیص الحبیر2/673

٭اور شیخ البانیؒ ابوداؤد
مکمل تحریر >>

جنت کے درجات اور وہاں تک رسائی

جنت کے درجات اور وہاں تک رسائی
====================
بے شک جنت میں سو درجے ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ فردوس کا ہے ۔ چنانچہ ترمذی شریف میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : في الجنة مائة درجة، ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض، والفردوس أعلاها درجة، ومنها تفجر أنهار الجنة الأربعة، ومن فوقها يكون العرش، فإذا سألتم الله فاسألوه الفردوس۔
ترجمہ: جنت میں سو درجے ہیں ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ زمین وآسمان کے درمیان ہے اور فردوس اپنے درجات ( کی بلندی )کے اعتبار سے سب جنتوں سے اعلی وبرتر ہے اور اسی فردوس سے بہشت کی چاروں نہریں نکلتی ہیں اور فردوس ہی کے اوپر عرش الہٰی ہے پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو (جو سب سے اعلی وبرتر ہے)۔ 
اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
پہنچنے کے ذرائع: ==========
وہاں تک پہنچنے کے لئے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرنا، وہ اس طرح کہ اسکے اوامر کی بجاآوری کی جائے اور نواہی سے اجتناب کیا جائے ، اجروثواب کی امید کی جائے اور اس کے عقاب سے ڈرا جائے اور بکثرت دعا کی جائے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَمَن يُطِعِ اللّهَ
وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا {النساء:69}.
ترجمہ : اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔
نسأل الله تعالى أن يجعلنا وإياكم من أهل الفردوس الأعلى.
والله أعلم.


مکمل تحریر >>

مدینہ کو یثرب کہنا یا منورہ کا اضافہ کرنا

مدینہ کو یثرب کہنا یا منورہ کا اضافہ کرنا

مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت وارد ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے ۔
عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يَقُولُونَ يَثْرِبُ ! وَهِيَ الْمَدِينَةُ ) .
ترجمہ: ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ یثرب کہتے ہیں حالانہ یہ مدینہ ہے ۔
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں : نبی ﷺ کا قول : يَقُولُونَ يَثْرِب وَهِيَ الْمَدِينَة ، یعنی بعض منافقین اسے یثرب کہتے تھے۔اس کا مناسب نام مدینہ ہے ۔اس لئے بعض علماء نے اس حدیث سے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ مدینہ کو یثرب کہنا مکروہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں یثرب کا لفظ آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالی نے   منافقین کا قول نقل فرمایا ہے :واذاقالت طائفۃ مہنم یااھل یثرب لامقام لکم ۔( الاحزاب : 13)
جب ان میں سے ایک گروہ نے کہااے یثرب کے رہنے والو! تمہارے لئے کوئی جگہ اور ٹھکانا نہیں۔
چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں:
قال النووی رحمہ ا تعالٰی قد حکی عیسٰی بن دینار ان من سماھا یثرب کتب علیہ خطیئۃ واما تسمیتھا فی القراٰن بیثرب فہی حکایۃ قول المنافقین الذین فی قلوبہم مرض (المرقاۃ شرح المشکوٰۃ کتا ب المناسک حدیث ۲۷۳۸ ,۵ /۶۲۲)
ترجمہ: امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا عیسٰی بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے حکایت کی گئی ہے کہ جس کسی نے مدینہ طیبہ کا نام یثرب رکھا یعنی اس نام سے پکارا تو وہ گناہ گار ہوگا، جہاں تک ک قران مجید میں یثرب نام کے ذکر کا تعلق ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ منافقین کے قول کی حکایت ہے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے۔

لفظ یثرب کی کراہت کے اسباب
 (1)یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے ، منافقین اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے ۔ اسی لئے نبی ﷺ نے اس نام کو ناپسند کیا اور اس کا نام مدینہ رکھا.
(2) اس میں منافقین کی شباہت پائی جاتی ہے ، اس وجہ سے کسی لڑکی کا نام بھی یثرب رکھنا مکروہ ہے۔
یثرب سے متعلق ایک حدیث ضعیف ہےجس میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من سمی المدینۃ یثرب فلیستغفر ھی طابة ھی طابة( رواہ الامام احمد)
ترجمہ :جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔
 اس حدیث کو علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

لفظ مدینہ کے ساتھ منورہ کا اضافہ
شیخ ابن عثیمین ؒ سے سوال کیا گیا کہ مدینہ منورہ کہنے کا کیا حکم ہے اور اس کی کیا علت ہے ؟
تو انہوں نے جواب دیا : مدینہ منورہ یہ نیا نام ہے جو سلف کے نزدیک معروف نہیں ہے ، لیکن جنہوں نے اس کا نام رکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ مدینہ دین اسلام سے منور ہوگیا اس لئے  کہ دین اسلام مقامات کو روشن کردیتا ہے ۔مجھے نہیں معلوم مگر یہ بھی اعتقاد ہوسکتا ہے کہ نبی ﷺ کے وجود سے یہ شہر روشن ہوگیا۔لیکن بہتر ہے کہ ہم مدینہ منورہ کے بجائے مدینہ نبویہ کہیں ۔ اور یہ بھی کہنا کوئی ضروری نہیں ہے صرف مدینہ کہنا ہی کافی ہے۔اس لئے ہم سلف کے اس طرح کی عبارتیں پاتے ہیں۔ مثلا
ذهب إلى المدينة (وہ مدینہ گیا)
رجع من المدينة (وہ مدینہ سے لوٹا)
سكن المدينة (وہ مدینہ میں سکونت اختیار کیا)
اور نبی ﷺ کا بھی فرمان ہے :  ( المدينة خيرٌ لهم ) یعنی مدینہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ آپ نے نہ تو مدینہ منورہ کہا اور نہ ہی مدینہ نبویہ۔
لیکن اگر وصف لگانا ہی چاہتے ہیں تو مدینہ نبویہ کہنا مدینہ منورہ سے افضل ہے ۔اس لئے کہ نبوت سے مدینہ کو متصف کرنا نور سے متصف کرنے سے زیادہ خاص ہے۔ جب ہم مدینہ منورہ کہتے ہیں تو اس سے تمام اسلامی ملک مراد لیا جائے گا کیونکہ اسلام نے ساری جگہوں کو روشن کردیا ، اس لئے ایک خاص وصف نبویہ سے مدینہ کومتصف کرنا ضروری ہے ۔ (شیخ کے کلام کا مفہوم) ]لقاء الباب المفتوح - (189 / 24 [.
اعداد : مقبول احمد سلفیؔ
اسلامی سنٹر شمال طائف، سعودی عرب



مکمل تحریر >>

نبی ﷺ سے روح قبض کرتے وقت فرشتے کا اجازت طلب کرنا

نبی ﷺ سے روح قبض کرتے وقت فرشتے کا اجازت طلب کرنا

اس سلسلہ میں لوگ ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں ، وہ واقعہ اس طرح ہے:
حضور اکرم ﷺ کی وفات کے روز جبرائیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور مزاج پرسی کی ۔آپ نے فرمایا کہ میں بے چین اور مغموم ہوں ۔اتنے میں ملک الموت نے حاضری کی اجازت چاہی ۔جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ ملک الموت حاضری کی اجازت چاہتے ہیں آپ ﷺ سے پہلے کسی سے اجازت نہ چاہی اور آپ ﷺ نے اجازت مرحمت کی ۔وہ حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور عرض کی ”اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ ﷺ کی اطاعت کرو ں تو اگر آپ ﷺ چاہیں تو آپ کی روح قبض کر لوں اور اگر نہ چاہیں تو قبض نہ کروں۔۔؟“آپ نے فرمایا کہ اے ملک الموت کیا آپ واقعی اس پر مامور ہیں؟انہوں نے کہا ہاں جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی ملاقات کا مشتاق ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا اے ملک الموت !تم حکم الہٰی بجالا ۔چنانچہ انہوں نے روح قبض کر لی ۔
اس قسم کا واقعہ طبرانی نے المعجم الکبیر میں ذکر کیا ہے مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ اور فرشتے کا نبی ﷺ سے روح نکالتے وقت اجازت طلب کرنے سے متعلق کوئی واقعہ درست نہیں ہے ۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ آپ ﷺ کو موت و حیات کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپ نے موت (رب کی ملاقات) کو اختیار کیا ۔
واللہ اعلم
مقبول احمد سسلفی
مکمل تحریر >>

Saturday, January 24, 2015

خصی جانور کی قربانی

خصی جانور کی قربانی

کسی جانور کو خصی کرنے کے مثبت اورمنفی دو پہلو ہیں۔
مثبت پہلو یہ ہے کہ خصی جانور کا گوشت عمدہ اور بہتر ہوتا ہے جبکہ  اس کے علاوہ غیر خصی جانور کے گوشت میں ایک ناگوار قسم کی بو پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کے تناول میں تکدر پیدا ہوتا ہے ۔
منفی پہلو یہ ہے کہ اس کے خصی کرنےسے اس کی قبولیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ افزائش نسل کےلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
قربانی کا تعلق مثبت پہلو سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود قربانی کے لئے بعض اوقات خصی جانور کا انتخاب کیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دو ایسے مینڈھوں کی قربانی دیتے جو خصی اور گوشت سے بھرپور ہوتے۔ (مسند امام احمد:۱۹۶/۵)
قربانی کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اس لئے قربانی کا جانور واقعی بے عیب اور تندرست ہونا چاہیے۔ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے چند ایک ایسے عیوب کی نشاندہی فرمائی ہے جو قربانی کےلئے رکاوٹ کا باعث ہیں۔ تاہم قربانی کےلئے  جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہﷺ ایسے جانور کوقربانی کےلئے  قطعی طورپر منتخب نہ فرماتے ۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:‘‘قربانی کے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہونے سے اس کے گوشت کی عمدگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔’’ (فتح الباری:۱۰/۷)

خلاصہ کلام یہ کہ جانور خصی ہو یا غیر خصی دونوں کی قربانی دینی نبی ﷺ سے ثابت ہے اس لئے ہم دونوں کی قربانی دے سکتے ہیں ، جو لوگ خصی جانور کی قربانی سے منع کرتے ہیں ان کے پاس اقوال کے علاوہ کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔

واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

شیخ عبدالقادر جیلانی ایک نظر میں

شیخ عبدالقادر جیلانی ایک نظر میں


(1) شیخ عبدالقادر جیلانی انتہائی متقی، دیندار، عالم باعمل اور اللہ کے ولی تھے۔
(2) شیخ 471ھ (یا 470ھ )کو بغداد کی قریب(جیلان ، کیلان) میں پیدا ہوئے اور وہیں عمر بھر دینی واصلاحی خدمات انجام دینے کے بعد 561ھ کو فوت ہو کر دفن ہوئے۔
(3) غنیۃ الطالبین، فتوح الغیباور الفتح الرباني آپ کی تصانیف ہیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر کتابیں جنہیں آپ کی تصانیف میں شامل کیا جاتاہے، انکی کوئی دلیل نہیں۔
(4) شیخ عقائد و نظریات کے حوالہ سے صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔
(5) شیخ نے اپنے متبعین کو طریقت و باطنیت کی بجائے قرآن و سنت پر مبنی شریعت کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔
(6) شیخ فقہی مسائل میں حنبلی المسلک تھے مگر قرآن و سنت کے خلاف امام کی رائے پر ڈٹے رہنے کے قائل نہ تھے۔
(7) جن لوگوں نے شیخ کو 'حنفی' قرار دینے کی کوشش کی ہے، انہوں نے محض کذب بیانی سے کام لیا ہے۔
(8) شیخ جیلانی ان معنوں میں صوفی تھے کہ آپ زاہد تھے، ورنہ صوفیامتاخر کی طرح وحدت الوجود اور حلول وغیرہ جیسے گمراہانہ عقائد آپ میں نہیں پائے جاتے بلکہ آپ ایسے نظریات کی تردید کرنے والے تھے۔
(9) بشر ہونے کے ناطے شیخ بھی بعض تفردات کا شکار ہوئے جن میں زہد و تقویٰ میں غلو ومبالغہ سرفہرست ہے۔
(10) شیخ کی بہت سی کرامتیں زبان زدِ عام ہیں لیکن ان میں سے ننانوے فیصد غیر مستند اور جھوٹ کا پلندہ ہیں جنہیں عقیدت مندوں نے وضع کررکھا ہے۔
(11) آپ کی طرف منسوب سلسلہ قادریہ اور دیگر سلاسل جو اگرچہ تعلیم و تعلّم اور تزکیۂ نفس کی خاطر شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ غلط عقائد کی آمیزش سے دین و شریعت کے متوازی آگئے، سراسر محل نظر ہیں بلکہ اب تو ان میں شمولیت سے بہرصورت اجتناب کرنا چاہئے۔
(12) شیخ جیلانی کو 'غوثِ اعظم' کہنا نہ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی (معاذ اللہ) اہانت ہے بلکہ خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے۔
(13) صلاۃ ِغوثیہ اور یا عبد القادر شیئا ﷲ کہنا نہ صرف یہ کہ شیخ جیلانی کی تعلیمات سے بھی ثابت نہیں بلکہ یہ صریح کفر وشرک ہے!!
(14) شیخ جیلانی کے نام کی گیارہویں اگر بطورِ نذرو نیاز ہو تو صریح شرک ہے اور اگر محض ایصالِ ثواب کے لئے ہو تو واضح بدعت ہے۔
(15) اولیاء ومشائخ کی صرف انہی تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے جو قرآن وسنت (شریعت) کے موافق ہوں جب کہ ان کی ایسی باتیں جو انہوں نے فی الواقع کہی ہوں یا محض ان کی طرف بعد والوں نے منسوب کر دی ہوں، انہیں لائق اعتماد نہیں سمجھنا چاہیے جو قرآن وسنت کے صریح منافی ہوں او رخود اولیاء وائمہ کرام کا بھی یہی نکتہ نظر تھا کہ اگر ہمارا کوئی قول وفعل قرآن وسنت کے منافی ہو تو اسے در خور اعتنانہ سمجھا جائے! 
ماخوذاز محدث میگزین


مکمل تحریر >>

عدت کے مسائل

عدت کے مسائل :

عدت کئی طرح کی ہوتی ہے:
(1) حاملہ کی عدت: اس کی عدت طلاق وعدت وفات وضع حمل ہے۔
(2) عدت وفات : جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اور وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کی عدت چار مہینے اور دس دن ہے۔
(3) جس عورت کو حیض آ تا ہو اس کی عدت : اس کی عدت تین حیض ہے ۔ تیسرے حیض سے جب پاک ہو جائے گی تو اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔ 
(4) جس عورت کو حیض نہ آ تا ہو اس کی عدت تین مہینے ہے۔
٭طلاق رجعی کی عدت گزارنے والی عورت پر اپنے شوہر کے یہاں سکونت اختیار کرنا واجب ہے اور شوہر کے لیے بھی اس کے جسم کے ہر حصے کو دیکھنا جائز ہے اور عدت پوری ہونے تک خلوت بھی جائز ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں میں اتفاق پیدا کر دے ۔ رجوع شوہر کے ” میں نے رجوع کیا“ کہنے سے یا ہم بستر ہونے سے ثابت ہو گا ۔ رجوع کے بارے میں بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔


مکمل تحریر >>

میت کی طرف سے صدقہ کرنا

میت کی طرف سے صدقہ کرنا

فوت شدہ کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔
(1) نبی ﷺکا فرمان ہے:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ(صحیح مسلم:1631)
’’انسان جب فوت ہوجاتاہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتاہے ہاں البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتاہے (1)صدقہ جاریہ(2)وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہو(3)وہ نیک اولاد جواس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘

(2)عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب موت الفجاءۃ البغتۃ ح ۱۳۸۸)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : ” ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ”میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ، اور وہ وصیت نہیں کرسکی ، اور مجھی یقین ہے کہ اگر اسے بات کرنے کا موقعہ ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتی، اگر میں اس کی جانب سے صدقہ کروں تو کیا اسے اور مجھے ثواب ملے گا ؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ! “ پھرانہوں نے اپنی ماں کی جانب سے صدقہ کیا “۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں : "اہل سنت والجماعت کے قول کے مطابق میت کی طرف سے صدقہ صحیح ہے"۔(فتاویٰ اسلامیہ/٤٢٠)



نوٹ : جس صدقہ کا میت کو ثواب پہنچتا ہے وہ مخصوص صدقہ ہے یعنی مالی صدقہ اور وہ بھی نفل، نیز دعا سب سے افضل ہے۔
مکمل تحریر >>

Friday, January 23, 2015

جمعہ کے دن فجر کی نماز نہ پڑھنا

جمعہ کے دن فجر کی نماز نہ پڑھنا

لوگوں میں یہ خبر عام ہے کہ اگر کسی نے جمعہ کے دن فجر کی نماز نہیں پڑھی تو اس کی جمعہ کی نماز ادا نہیں ہوئی ۔ یہ بات دراصل مقلدوں کے درمیان مشہور ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ صاحب ترتیب (جس کے ذمہ پانچ سے زیادہ قضا نمازیں نہ ہوں) فجر کی نماز قضا ہوگئی ہو تو جب تک فجر کی نماز نہ پڑھ لے جمعہ کی نماز نہیں پڑھ سکتا، اگر فجر کی نماز نہیں پڑھی اور جمعہ پڑھ لیا، بعد میں فجر کی نماز قضا کی تو جمعہ باطل ہوجائے گا۔
 نمازی کو صاحب ترتیب اور غیرصاحب ترتیب میں تقسیم کرنا اور ایک کے لئے جمعہ کو باطل قرار دینا اور دوسرے کے لئے جمعہ صحیح قرار دینایہ کھلی جہالت ہے اور دین سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔ نماز ہرایک کے لئے یکساں حکم رہتی ہے سوائے معذورومجبور کے۔
ہمیں ساری نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ نماز کسی بھی حال میں معاف نہیں ، اگر جمعہ کے دن کسی وجہ سے فجر کی نماز چھوٹ جائے تو جب بھی یاد آئے نماز پڑھ لے، سورج نکلنےیا زوال کا وقت ہونے کی پرواہ نہ کرے کیونکہ حدیث سے یہی پتہ چلتا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ» (سنن أبي داؤد)
ترجمہ:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ جو شخص کوئی نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور اس پر سوائے ادائیگی کے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
ایک دوسری حدیث میں جمعہ کے دن فجر کی نماز کی بڑی اہمیت ملتی ہے ۔
قال الرسول صلى الله عليه وسلم : أفضل الصلوات عند الله صلاة الصبح يوم الجمعة في جماعة (بیہقی،طبرانی ، بزاز)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے افضل نماز‘ جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے۔
 علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے دیکھئے:سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (4/ 91) رقم1566


------------------------------------------
مکمل تحریر >>

Monday, January 19, 2015

اسلام میں شعر و شاعری کا حکم

اسلام میں شعر و شاعری کا حکم

شاعری بمثل کلام کے ہے،اچھی شاعری اچھا کلام ہوتی ہے اور بری شاعری برا کلام ہوتی ہے۔بذات خود شاعری مذموم یا ممدوح نہیں ہے،اس کا حکم اس کے معانی اور موضوع کے مطابق ہوگا۔جس طرح بری کلام ممنوع اور حرام ہے اسی طرح بری شاعری ممنوع اور حرام ہے۔
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:
"وليس في إباحة الشعر خلاف، وقد قاله الصحابة والعلماء، والحاجة تدعو إليه لمعرفة اللغة العربية والاستشهاد به في التفسير، وتعرف معاني كلام تعالى وكلام رسوله صلى الله عليه وسلم، ويستدل به أيضاً على النسب والتاريخ وأيام العرب" ا.هـ
شعر کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف میں سے بھی مکرم لوگ شعر کہا کرتے تھے،نیز لغت عرب کی معرفت اور تفسیر میں استشہاد کے لئے شعر عربی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ شعر سے کلام الہی اور کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی کی معرفت ہوتی ہے اور اس سے نسب ،تاریخ اور ایام عرب پر استدلال کیا جاتا ہے۔ 
متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو آپ نے خود حکم دے کر شعر کہنے کو کہا۔
قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی ہے ان سے مراد ایسے شعر ہیں جو خلاف شرع ہوں ،شرک و بدعت اورجھوٹ پر مبنی ہوں اور ان میں پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائی گئی ہو یا عشق و محبت سے مزین ہوں۔
لیکن جن شعروں میں تفقہ فی الدین ،اسلام کی سربلندی ،شان صحابہ اور عظمت اسلام کے موضوعات بیان کئے گئے ہوں ایسے اشعار مستحسن اور جائز ہیں۔
محدث فتوی

مکمل تحریر >>

بچپن میں والدہ ناراض ہوکر فوت ہوجائے

والدہ کا ناراض فوت ہونا

سوال:
میں بچپن میں اپنی والدہ سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھی، جب وہ فوت ہوئی تو مجھ سے ناراض تھی، مجھے اس بات کا بہت افسوس رہتا ہے، اب مجھے اس گناہ کی تلافی کیلئے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:
بچپن میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے کہ بچے اپنے والدین سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، کیونکہ اس عمرمیں بچوں کو شعور نہیں ہوتا، وہ کم عمری کی وجہ سے کم عقلی اور جہالت کا شکار رہتے ہیں۔ امید ہے کہ اس عمر میں ایسی کوتاہی قابل مؤاخذہ نہیں ہوگی۔ ہاں صاحب شعور ہونے کے بعد والدین کو ناراض کرنا بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ مائوں کے متعلق خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ماں کی نافرمانی سے اجتناب کیا جائے۔ اگر والدہ ناراض فوت ہوئی ہے تو اس کیلئے دو کام کرنے سے اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے:

1۔ اللہ تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی طلب کی جائے اور اس کے حضور توبہ واستغفار کا نذرانہ پیش کیا جائے، توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ بڑے بڑے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ امید ہے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ یہ گناہ بھی معاف کر دے گا۔

2۔ والدہ کی طرف سے صدقہ و خیرات کیا جائے اور اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے، یہ ایسے کام ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے گناہوں کی تلافی کر دیتا ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ گناہ بھی معاف کر دے گا۔

انسان کو والدین کے سلسلہ میں بہت حساس رہنا چاہئے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو حرز جاں بنانا چاہئے اور ان کی نافرمانی سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے۔ والدین اگر کافر بھی ہوں تو بھی ان کا حق الخدمت ساقط نہیں ہوتا۔ قرآن میں اس کی صراحت ہے۔ (واللہ اعلم)
بشکریہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان

مکمل تحریر >>

Sunday, January 18, 2015

دارالحرب میں سود کی حرمت

دارالحرب میں سود کی حرمت
مقبول احمد سلفی

سود لینا دینا سنگین جرم ہے ، اور اسلام میں ہرقسم کا سود حرام ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
((الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبَا لاَ یَقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِأَنَّھُمْ قَالُوْا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ وَأَمْرُہٗ اِلیٰ اللّٰہِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلٓئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ٭یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْمٍ)) [البقرۃ:274،275]
’’سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے،یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام ،جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے،اور جس نے پھر بھی کیا،وہ جہنمی ہے،ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
سود کی حرمت کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے ، حالانکہ اس سے متعلق کتی آیات اور کتنی احادیث موجود ہیں ۔
قرآن و احادیث کے نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ ہرقسم کا سود حرام ہے جس میں سود کا شائبہ ہو وہ بھی حرام ہے۔ غیرمسلموں سے سودی تجارت کرنا، یا غیرمسلم بنکوں سے لین دین کرنا یا پھر دارالحرب میں سود لینا دینا یہ سب حرام قبیل سے ہیں۔ ان میں سے کوئی صورت جائز نہیں ۔
 یہی مسلک ہے  امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ  اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور  امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ  اور جمہور علما ء کا کیو نکہ قرآن وحدیث اور اجما ع صحا بہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے سود کی حر مت علی الاطلاق ثا بت ہے ۔ 
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمدرحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ دارالحرب میں کا فر حر بی سے سود لینا درست ہے ، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے ۔
اس فتوی کی بنیاد ایک حدیث پر ہے ، وہ حدیث اس طرح سے ہے ۔
"لا ربا بين المسلم و الحربی فی دار الحرب."
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : مسلمان اور حربی کافر کے درمیان دار الحرب میں سُود نہیں‘‘۔
یہ روایت مرسل ہے ۔ اس روایت سے متعلق المغنی میں لکھا ہوا ہے :
هٰذا خبر مجهول لم يُرو فی صحيح و لا مسند و لا کتاب موثوق به.
’’یہ خبر مجہول ہے، کسی صحیح مسند یا کسی قابل اعتماد کتاب میں اسے روایت نہیں کیا گیا‘‘۔
بالفرض یہ روایت مجہول صحیح بھی ہو تو معنی یہ ہو گا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے ذمیوں اور مستامنوں سے سُودی لین دین جائز نہیں حربیوں سے بھی ربیٰ (سُود) جائز نہیں نیز یہ روایت ثابت ہو بھی جائے تو خبر واحد قرآن کے مطلقات کو اس سے مقید نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا’’سُود نہ کھاؤ‘‘۔ مطلق ہے نہ اس پر خبر واحد سے اضافہ جائز ہے نہ اس مطلق کو مقید کرنا۔(امام ابن الهمام، فتح القدير 6 : 177)

اس کے علاوہ یہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ہندوستان دارالحرب ہے ؟

چنانچہ ہم یہاں دکھتے ہیں امام ابوحنیفہ ؒ نے دارالحرب کی کیا تعریف کی ہے؟ امام کا ماننا ہے کہ جب اسلام کے کل شعائر موقوف ہوجائیں تو اس صورت میں دارالاسلام دارالحر ب ہو جاتا ہے ۔ اور جب تک ایک سبب بھی شعائر اسلام کا موجود ہوگا تو دارالحرب متحقق نہ ہوگا۔ جیسا کہ فصول عمادی وطحاوی وغیرہ میں مذکور ہے۔
اب ہمارا یہ کہنا ہے کہ جب امام صاحب کے قول کی روشنی میں ہندوستان دارلحرب نہ ٹھرا تو امام صاحب کے نزدیک  بھی ہندوستان میں سود لینا دیناحرام وممنوع ہوگا۔

یہاں یہ بات بالکل واضح رہے کہ سود لینا اور سود دینا کہیں بھی جائز نہیں ہے،خواہ وہ دار الحرب ہو یا دار الاسلام ہو۔ حدیث نبویﷺ ہے:
’’ لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه ‘‘ (صحيح البخاري)
"رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے ،سود کھلانے والے،سود لکھنے والے اور سودی معاملے کی گواہی دینے والے تمام افراد پر لعنت فرمائی"۔
یہ حدیث عام ہے جو ہر حال میں سود کی حرمت پر دلالت کر رہی ہےاور اکثر اہل علم اسی کے مطابق فتویٰ دیتےہیں۔




مکمل تحریر >>

مردوں کے لئے بال صفا پاؤڈر کا استعمال

مردوں کے لئے بال صفا پاؤڈر کا استعمال


بال صفا پاؤڈر کو عربی میں النورۃ کہتے ہیں، یہ كيلسيم اور ہڑتال كا مركب ہے جو بال صاف كرنے كے ليے استعمال كيا جاتا تھا، يہ پاؤڈر بالوں والى جگہ پر ليپ كر كے كچھ دير تك رہنے ديا جاتا اور پھر دھونے سے بال صاف ہوجاتے ہيں۔
ديكھيں: القاموس الفقھى  1 / 363 اور  زاد المعاد  4 / 364) )

بعض احاديث ميں آيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ كا اس كا استعمال كرتے تھے، ليكن اس كے متعلق جتنى بھى احاديث آتى ہيں وہ سب ضعيف ہيں، اور كوئى بھى حديث صحيح نہيں۔
ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم النورہ ( بال صفا پاؤڈر ) كا ليپ كرتے تھے۔
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3751 ) البوصيرى رحمہ اللہ نے مصباح الزجاجۃ ميں، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف سنن ابن ماجہ ميں اور شعيب ارناؤوط نے تحقيق زاد المعاد ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے۔
اور ابن عساكر نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ماہ نورہ ( بال صفا پاؤڈر ) استعمال كرتے، اور ہر پندرہ يوم ميں اپنے ناخن تراشتے تھے "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے الجامع الصغير حديث نمبر ( 4536 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے۔

حاصل يہ ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس پاؤڈر كے استعمال كرنے ميں كوئى بھى حديث صحيح نہيں ملتى، ليكن اس كے استعمال كرنے ميں كوئى حرج نہيں، يا بال اتارنے كے ليے اس كے علاوہ كوئى اور چيز استمعال كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس كے استعمال ميں كوئى ضرر اور نقصان نہ پہنچے، ليكن زيرناف بال مونڈنے بہتر اور افضل ہيں، كيونكہ سنت سے اسى كا ثبوت ملتا ہے، اور جمہور فقھاء كرام بال مونڈنے كى افضليت كے قائل ہيں.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ  14 / 83) )
واللہ اعلم
الاسلام سوال و جواب


مکمل تحریر >>