Sunday, November 30, 2014

تدفین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا




تدفین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا


كان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: <استغفروا لأخيكم واسألوا له التثبيت فإن الآن يسأل> رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ.
ترجمہ :(عثمان ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ )نبیﷺ میت کے دفن سے فراغت کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے ، "اپنے بھائی کیلئے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا مانگو اس سے اب پوچھا جائے گا۔"
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
علامہ شوکانی لکھتے ہیں : اس میں دفن سے فراغت ہونے کے بعد میت کے لئے استغفار کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ۔
موسوعہ فقیہ میں لکھا ہواہے : استغفار قولی عبادت ہے اور یہ میت کے لئے صحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تدفین کے بعد مستحب یہ ہے کہ ایک جماعت رک جائے اور میت کے لئے استغفار کرے اس لئے کہ ابھی منکرنکیرکے سوال کا وقت ہے ،،،،،،، اس بات کی جمہورفقہاء نے صراحت کی ہے ۔ انتہی ("الموسوعة الفقهية" (4/41)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : "الدعاء للميت بعد الدفن بالثبات والمغفرة سنة" یعنی دفن کے بعد میت کے لئے ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کرنا سنت ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : دفن کے بعد قبر پہ ٹھہرنا اور دعا کرنا یہ سنت ہے ۔ اور شیخ نے دلیل میں ابوداؤد کی مذکورہ بالا دلیل پیش کی ہے  "] لقاء الباب المفتوح " لقاء رقم (118[ )
رہی دعا میں ہاتھ اٹھانے کی بات تو اس میں امر واسع ہے اگر کوئی چاہے تو ہاتھ اٹھائے اور کوئی چاہے تو ہاتھ نہ اٹھائے ۔ احادیث سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے ۔
 مسند ابی عوانہ میں عبد اللہ بن مسعود ؓ صحیح سند کے ساتھ مروی وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو قبر ذي النجادين  میں دیکھا ، اس حدیث میں ہے ؛ جب آپ دفن سے فارغ ہوئے توآپ نے قبلے کی طرف منہ کیا اور اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔
اسے امام ابن حجر ؒ نے فتح الباری (11/120) "باب الدعاء مستقبل القبلة" میں ذکر کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ دفن کے بعد میت کے لئے دعا کرنا اور ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ہاتھ اٹھاکر دعامانگنے کے قائلین میں سے شیخ ابن باز، علامہ نووی، شیخ ابن عثیمین اور شیخ عبدالمحسن عباد رحمہم اللہ ہیں ۔



مکمل تحریر >>

Friday, November 28, 2014

مسجدمیں دوسری جماعت سے متعلق ایک روایت اور اس کا درجہ

مسجدمیں دوسری جماعت سے متعلق ایک روایت اور اس کا درجہ


امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ، نَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ، نَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، نَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ بَعْضِ نَوَاحِيَ الْمَدِينَةِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا، فَذَهَبَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَجَمَعَ أَهْلَهُ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ إِلَّا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، وَلَا رَوَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ "
ترجمہ : ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ۖ مدینہ کے اطراف میں واقع کسی علاقہ سے آئے آپ نمازپڑھنے کاارادہ کررہے توآپ نے لوگوں کوپایاکہ وہ نمازپڑھ چکے ہیں ،پھر آپ ۖ اپنے گھر تشریف لے گئے اوران کوجمع کیا پھران کو نماز پڑھائی۔
اس حدیث کوخالد الحذاء سے صرف معاویہ بن یحیی نے روایت کیاہے،اورمعاویہ سے صرف ولید بن مسلم نے روایت کیاہے،اوراسے ولید بن مسلم سے روایت کرنے میں ھشام بن خالد منفردہیں ۔
(أخرجہ الطبرانی فی الأوسط:(٥٠٧ـ٥١رقم٦٨٢٠)و اخرجہ فیہ (٣٥٥رقم٥٦٠١) عن شیخہ عبدان بن أحمد بہ، وأخرجہ ابن عدی فی الکامل فی ضعفاء الرجال :(٤٠٢٦)فقال:ثنا محمد بن الفیض الغسانی ثنا ہشام بن مخلد بہ ، وأخرجہ أیضاابن حبان فی المجروحین(٤٣) فقال : أخبرناالحسن بن سفیان قال:حدثنا ہشام بن خالد الازرق بہ )۔
روایت کی تحقیق--------------------------------
ہمارے علم کی حدتک مذکورہ حدیث کوکسی بھی محدث نے صحیح نہیں کہاہے،بلکہ کئی محدثین وباحثین نے صراحةً یااشارةً اسے ضعیف قراردیاہے،چندکے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
(1):ـابوحاتم،محمد بن حبان التمیمی ،البستی،متوفی٣٥٤ھ۔
آپ کے نزدیک مذکورہ بالاروایت میں موجود راوی ''معاویہ بن یحیی الاطرابلسی '' ضعیف ہے،نیز آپ نے مذکورہ روایت کو،راوی مذکورکی ضعیف و منکر روایات میں شمارکیاہے،(المجروحین:٤٣)

(2):ـابواحمد،عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی،متوفی٣٦٥ھ۔
آپ نے مذکورہ روایت کو معاویہ بن یحیی کی منکر روایات میں گنایاہے، (الکامل فی ضعفاء الرجال :١٤٣٨رقم١٨٨٦)۔

(3):ـمحمدبن طاہرالمقدسی،متوفی٥٠٧ھ۔
آپ نے بھی ''معاویہ بن یحیی'' کوضعیف کہاہے ،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،(ذخیرة الحفاظ:٣٣٨١رقم٣٥٢)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمارکیاہے،(ذخیرةالحفاظ:٦٩٢٢رقم١٢٥٠)۔بلکہ اپنی کتاب''تذکرة الموضوعات'' میں بھی اسے نقل کیاہے،دیکھیں( تذکرة الموضوعات:باب الألف،ص٢٢،ط.مطبع السعادة،١٣٢٣)۔

(4):ـأبوعبداللہ ،شمس الدین محمدبن احمد الذہبی، متوفی٧٤٨ھ۔
آپ نے بھی معاویہ بن یحیی الاطرابلسی کوضعیف قراردیاہے ،(دیوان الضعفائ:ص٣٩٢رقم٤١٧٥، المغنی فی الضعفاء : رقم٦٣٢٦)،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،دیکھیں :(مستدرک ج٢ص١٩،دارالمعرفہ ،بیروت)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمار کیاہے، (میزان الاعتدال:ج٤ص١٣٩)۔

(5):ـحافظ ابوالفرج عبدالرحمن بن احمد بن رجب الدمشقی،متوفی٧٩٥۔
آپ نے واضح طورپراس روایت کوضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قراردیاہے(فتح الباری لابن رجب : ج٤ص٢٥)۔

(6):ـعلامہ انورشاہ الکاشمیری،صاحب الفیض الباری،متوفی١٣٥٢ھ۔
آپ نے حنفی ہونے کے باوجود بھی اس روایت کے راوی معاویہ کومجروح قراردے کراس روایت کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیاہے،(العرف الشذی:ج١ص٢٣٢)۔

(7):ـعلامہ عبدالرحمن المبارکفوری،صاحب تحفة الأحوذی،متوفی١٣٥٣ھ۔
آپ نے اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اوراس پرہرلحاظ سے بحث کرکے جماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قراردیاہے،(تحفة الاحوذی:ج١ص١٣)۔

(8):ـعلامہ عبیداللہ رحمانی المبارکفوری،صاحب المرعاة،متوفی١٤١٤ھ۔
آپ نے بھی اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قرار دیاہے،(مرعاة المفاتیح : ج٤ص١٠٥)۔

(9):ـالشیخ عبداللہ بن صالح الفوزان۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل اعتبار قرار دیاہے،(احکام حضورالمساجد:ص١٥٢ )

(10):ـالشیخ حمد بن عبد اللہ الحمد۔
آپ اس روایت کوضعیف قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما ما ذكروه من حديث أبي بكرة، ففيه الوليد بن مسلم وهو مدلس وقد عنعنه، وفيه علة أخرى وهو أنه من رواية معاوية بن يحيى وهو مختلف فيه توثيقاً وتضعيفاً، وله مناكير وقد ذكر ابن عدي والذهبي هذا الحديث من مناكيره.[شرح زاد المستقنع للحمد 7/ 86، بترقيم الشاملة آليا]

(11):ـڈاکٹرمحمدطاہرحکیم۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قرار دیاہے،(حکم تکرار الجماعة فی المسجد: ص ٨( الشاملہ))۔

(12):ـڈاکٹرابراہیم طہ القیسی،عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔

(13):ـ ڈاکٹرحمدی محمدمراد،نائب عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔

(14):ـ علی حسن علی الحلبی ۔
مؤخرالذکرتینوں حضرات نے مل کر ضعیف وموضوع احادیث وآثار کاایک ضخیم مجموعہ پندرہ(١٥) جلدوں میں تیارکیا ہے، اور مذکورہ روایت کو دوسری جلد میں نقل کیاہے،ملاحظہ ہو:(موسوعة الأحادیث والآثار الضعیفة والموضوعة :ج٢ص١١٥رقم٢٩٤٤)۔

(١5):ـ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ۔
زیربحث روایت کی سندمیں موجود''ولیدبن مسلم ''تدلیس کی سب سے بدترین قسم تدلیس تسویة کے وصف سے متصف ہے،اورسند کے تمام طبقات میں سماع یاتحدیث کی صراحت موجودنہیں ہے نیزاس روایت کاکوئی دوسراطریق سرے سے موجودہی نہیں ہے جیساکہ خود اس کے راوی امام طبرانی نے صراحت کردی ہے اس لئے شاہد اورمتابع کاسوال ہی نہیں پیداہوتا،لہٰذایہ روایت اس علت قادحہ کے سبب ضعیف ومردود ہے۔

خلاصہ کلام:------------------------
دوسری جماعت سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جانے والی مذکورہ روایت میں دوعلتیں موجودہیں جوا س کی تصحیح یاتحسین سے مانع ہیں،یہی وجہ ہے کہ متقدمین نے بالاتفاق اس روایت کوضعیف قراردیاہے،اورمتأخرین میں سے بھی جمہوراہل علم اس کی تضعیف ہی کے قائل ہیں ،جیساکہ مضمون میں پندرہ(15)محدثین وباحثین سے اس کی تضعیف نقل کی گئی ہے ۔


کفایت اللہ سنابلی کے مضمون سے مستفاد

مکمل تحریر >>

Thursday, November 27, 2014

حکم کے ساتھ روایت بیان کرنا

حکم کے ساتھ روایت بیان کرنا

سوال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بتائیں کہ صحیحین کی احادیث تو صحیح ہیں، جب بھی صحیح بخاری یا صحیح مسلم کا حوالہ آتا ہے تو فورا ذہن میں حدیث کی سند کے بارے میں تسلی ہو جاتی ہے۔
لیکن سنن اربعہ اور دیگر احادیث کی کتابوں کے جب حوالہ جات آتے ہیں تو فورا ذہن میں خیال آتا ہے کہ پتہ نہیں اس حدیث کی سند کیا ہو گی؟ کیونکہ ان کتابوں میں ضعیف روایات بھی ہیں جن کا ضعف بیان کر دیا گیا ہے۔
میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان کتب حدیث کے حوالہ جات کے ساتھ ایک عامی کے لیے سند لکھنی ضروری ہے یا نہیں؟ مطلب کتاب کے حوالے کے ساتھ (صحیح) یا (حسن)

جواب :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامی کے سامنے حدیث بیان کرنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ تاکہ اس کو بتایا جائےکہ یہ حدیث ’’ صحیح ‘‘ ہے اس پر عمل کرلو اور یہ ’’ ضعیف ‘‘ ہے اس پر عمل نہیں کرنا ۔
ظاہر ہے ایسی صورت میں ’’ صحت یا ضعف کاحکم ‘‘ بتائے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے آج کل جتنی کتب حدیث اصل یا ترجمہ کے ساتھ شائع ہورہی ہیں سب ’’ احکام ‘‘ کے ساتھ شائع ہورہی ہیں ۔ ( الا ماشاء اللہ )
ہاں بعض علماء کا یہ انداز بھی ہے کہ وہ ہر ہر حدیث پر حکم لگانے کی بجائے اپنی تحاریر و تقاریر میں صرف صحیح احادیث کا ہی اہتمام کرتے ہیں اگر کہیں ضعیف کا ذکر آجائے تو ضعف کی وضاحت کردیتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن کو انہوں نے ضعیف نہیں کہا وہ سب ان کے نزدیک صحیح ہیں ۔
مکمل تحریر >>

شب برات کی ضعیف اور موضوع روایات

شب برات کی ضعیف اور موضوع روایات

شب براء ت میں گناہوں کی بخشش اور رزق کی فراخی
(
ان اللہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السماء الدنیا فیغفر لا کثر من عدد شعر غنم کلب)
''
ترجمه : بلا شبہ اللہ تعالیٰ پندرہ(15)شعبان کی رات کو پہلے آسمان کی جانب اترتے ہیں اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ افراد کی بخشش دیتے ہیں۔''
]
ضعیف:ضعیف ترمذی'ترمذی(739)ضعیف ابن ماجہ'ابن ماجہ(1389)[

٭اس روایت کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ۖ کو (بسترسے)غائب پایا(میں نے تلاش کیا تو)آپ ۖ بقیع الغرقد(مدینہ منورہ کے معرو ف قبرستان)میں تھے۔آپ ۖ نے فرمایا'کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول ۖ تم پر ظلم کریں گے؟میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ۖ!میرا گمان یہ تھا کہ آ پ کسی (دوسری )بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں۔آپ ۖ نے فرمایا'بلاشبہ اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات کو آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں۔۔۔۔(باقی حدیث اوپر مذکور ہے۔)
15
شعبان کی رات کی فضیلت میں چند دیگر ضعیف اور مشہور روایات حسب ذیل ہیں:
(
١)حضرت عائشہ سے مروی ہے وہ نبی کریم ۖ سے بیان کرتی ہیں :
(ھل تدرین ما ھذہ اللیلۃ ؟یعنی لیلۃ النصف من شعبان'قالت:مافیھا یا رسول اللہ؟فقال:فیھا ان یکتب کل مولود من بنی ادم فی ھذہ السنۃ'و فیھا ان یکتب کل ھالک بنی ادم فی ھذہ السنۃ'و فیھا ترفع اعمالھم'و فیھا تنزل ارزاقھم)
ترجمه : ''کیا تم جانتی ہویہ (یعنی نصف (١٥) شعبان کی رات)کون سی رات ہے؟عائشہ نے عرض کیا'اے اللہ کے رسول ۖ!اس میں کیا ہوتا ہے؟آپ ۖ نے فرمایا'اس رات میں بنی آدم کے اس سال کے پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے'اس میں بنی آدم کے اس سال ہر فوت ہونے والے انسان کے متعلق لکھا جاتا ہے'اس میں ان کے اعمال(اللہ کی طرف)اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں ان کا رزق نازل کیا جاتا ہے۔''
]
ضعیف:اس روایت کے متعلق شیخ البانی فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی سند کا علم نہیں ہو سکا'البتہ اس کے متعلق گمان غالب یہی ہے کہ یہ ضعیف ہے۔]ھدایہ الرواۃ(1257)مشکاۃ للالبانی(409/1)[

حضرت ابو موسی اشعری سے مروی روایت میں ہے کہ (ان اللہ لیطلع فی لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الا لمشرک او مشاحن)
ترجمه : ''بلاشبہ اللہ (١٥)شعبان کی رات (اہل ارض) کی طرف نظر رحمت فرماتے ہیں اور مشرک یا (بلاوجہ)دشمنی رکھنے والے کے سوا تمام امخلوق کو بخش دیتے ہیں۔''
]
ضعیف:ابن ماجہ(1390)اس روایت کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ راوی ضعیف ہے اور مزید یہ کہ اس میں انقطاع بھی ہے۔مزید دیکھئے[
الحرح والتعدیل(682/5)المجروحین(475/2)میزان الاعتدال()تقریب(444/1)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی روایت میں ہے کہ (اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقولو الیلھا و صومو ا نھارھا'فان اللہ ینزل فیھا لغروب المشس الی السماء الدنیا فیقول الا من مستغفر لی فا غفرلہ'الا مسترزق فا رزقہ'الا مبتلی فا عافیہ'الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر)
ترجمه : ''جب پندرہ شعبان کی رات ہو تو اس رات کا قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو۔بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس رات غروب آفتاب کے بعد آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں'خبردار!کون مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے؟میں اس بخش دوں'کون رزق طلب کرنے والا ہے؟میں اسے رزق دے دوں'کون آزمائش و مصیبت مبتلا ہے؟میں اسے عافیت دے دوں'خبردار!فلاں فلاں کون ہے'حتی کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔''
]
موضوع:ضعیف ابن ماجہ'ابن ماجہ(1388)ضعیف الجامع الصغیر(653)[

حضرت ابو امامہ سے مروی روایت میں ہے کہ(خمس لیال لا ترد فیھن الدعوۃ:اول لیلۃ من رجب'و لیلۃ النصف من شعبان'و لیلۃ الجمعۃ'و لیلۃ الفطر'و لیلۃ النحر)
ترجمه : ''پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی(١)ماہ رجب کی پہلی رات(٢)نصف یعنی پندرہ شعبان کی رات(٣)جمعہ کی رات(٤)عید الفطر کی رات(٥)عید الاضحی کی رات۔''
]
موضوع:ضعیف الجامع الصغیر للالبانی(٢٨٥٢)


مکمل تحریر >>

خاتم النبیین کاحکم امت کے نام

خاتمالنبیین کاحکم امت کے نام

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’لاتجعلوا قبری عیداً‘‘(أبوداؤد،کتاب المناسک،:باب زیارۃ القبور،۲۰۴۲ احمد۲؍۳۶۷
میری امت خبردار!میری قبرکو میلہ گاہ نہ بنانا یعنی میری قبرپر عرس نہ کرنا، میلہ نہ لگانا، میلا د نہ کرنا، سالگرہ نہ منانا، دورحاضرکے پیروں، فقیروں ،گدّی نشینوں اور پیٹ بھرو مولویوں سے ہم با ادب پوچھتے ہیں کہ وہ داورِ محشر شافع کوثرکے حضورجواب دہی کے وقت کو سامنے رکھ کر بتائیں کہ جب سیدالکونین والثقلین کی قبرپاک پرعرس، میلہ، نذر، نیاز، سجدہ، طواف، چلہ کشی اور دعاء والتجا منع درمنع ہے، حرام اورشرک ہے توآپ لوگوں کا اپنے آباء واجداد اوربزرگوں کی قبروں پرمیلے عرس کرنے، نذروں، نیازیں اورچڑھا وؤں کے ہزاروں روپے کھانے، سادہ دل مسلمانوں کو قبروں کے طواف وسجود کرانا، اورانھیں صاحبِ قبرسے استمداد کے لئے حکم دینا، کیونکر رَوا ہوگیا؟
یادرکھیں! کہ قرآن اورسنت کی سچی بات سنانے والے پر پھبتی کس کرجان چھڑانے سے قیامت کے دن جان نہیں بچے گی آہ ؂      بجھ گیا وہ شعلہ جومقصود مہر پروانہ تھا
قارئین کرام! یہ سن کرحیران وششدر ہوں گے کہ جیسے کاروباری کمپنیاں دفترکھولتی ہیں، کلرک اورایجنٹ رکھتی ہیں اوربزنس کارس یانڈنس (کاروباری خط وکتابت) کرتی ہیں بالکل اسی طرح اجمیر میں خواجہ معین الدین چُستی رحمۃ اللہ علیہ کی قبرکے سجادہ نشینوں نے بزنس لائن پردفاتر کھول رکھے ہیں، ٹائپ شدہ خطوط اورمطبوعہ اشتہاروں کے ذریعہ خواجہ معین الدین چُستی علیہ الرحمۃ کی قبرکی تجارت کا ایڈورٹائزمنٹ کیاجارہا ہے ،اجمیرکا ایک مطبوعہ خط پیش خدمت ہے ،خط کی ایک طرف اردوعبارت ہے اوردوسری طرف انگریزی زبان میں شائع کرنے والے پیر سید معشوق علی ازدرگاہ اجمیر ہیں۔
اردومیں مسلمانوں کودعوت دی گئی ہے کہ وہ رجب کے مہینے میں اجمیرآئیں کہ اس ماہ میں فریادرس بیکساں، شہنشاہ ہندوستاں خواجہ معین الدین چُستی کاعرس منعقد ہوتا ہے،اے عقیدت مندانِ خواجہ آؤ اورسرکارِ غریب نواز میں حاضر ہوکراپنی جھولیاں گوہرمقصود سے بھرلو ؂
ہردرد کی ملی ہے دواان کے نام سے دیتا ہے ہرمراد خدا ان کے نام سے
خط کی دوسری طرف انگریزی میں مسلمانوں کوبُلانے کے لئے جنتی دروازے سے گزرنے کی خوشخبری دی گئی ہے ملاحظہ ہو:
DURINGURS SHARIF THE JANNATI DARWAZA OF ROUZA
MUBARAK REMAIN SOPENES CONTINUESLY FOR SIX DAYS
عُرس شریف کے دوران میں روضۂ مبارک کا جنتی دروازہ چھ دنوں تک کھلا رہتا ہے۔
کس قدرجسارت ہے کہ ایک فرضی جنتی دروازہ بناکر لوگوں کو اس دروازے سے گزارکرجنت کا سرٹیفکٹ دیا جاتا ہے اوراس سرٹیفکٹ کی سینکڑوں روپئے فیس وصول کی جاتی ہے، شاباش سپوتو


مکمل تحریر >>

وسيلہ كا مفہوم



وسيلہ كا مفہوم

   الله تعالى  نے قرأن  كريم كى دو آيتوں ميں وسيلہ كے لفظ  كو استعمال كيا ہے – آئيے ديكهتے ہيں كہ مفسرين نے اس كى كيا تفسير كى ہے –خاص طور سے ابن عباس  رضى الله عنہ جن كو اس امت  كے  مفسر قرآن ہونے كا  كا لقب ملا   اور ان كے علاوہ تابعين اور تبع تابعين  ميں سے مفسرين قرآن نے اس كا كيا مفہوم بيان كيا ہے؟     
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}  سورة المائدة (35)
( اے ايمان والو  الله سے ڈرو اور اس تك وسيلہ تلاش كرو اور اس كى راہ ميں جہاد كرو تاكہ تمہيں كاميابى حاصل ہو )
{قُلِ ادْعُواْ الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلاَ يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلاَ تَحْوِيلاً أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا}  سورة الإسراء (56- 57 )
 ( آپ كہہ ديجئے كہ تم ان كو پكارو جنہيں الله كے سوا تم نے اپنا معبود سمجھ ركها ہے وہ نہ تمہارى تكليف دور كرنے كى قدرت ركھتے ہيں اور نہ ہى اسے بدل ڈالنے كى – جن كو يہ لوگ پكارتے ہيں وہ تو خود ہى اپنے رب كى طرف وسيلہ تلاش كرتے ہىں كہ كون اس كے زيادہ قريب  ہو جائے اور اس كى رحمت كى اميد كرتے ہيں اور اس كے عذاب سے ڈرتے ہيں بے شك آپ كے رب كا عذاب ايسا  ہے جس سے ڈرا جاتا ہے  )
  ان دونوں آيتوں ميں وسيلہ سے مراد قربت ہے يعنى اے أہل ايمان الله سے قربت كى كوشش ميں لگے رہو – ابن عباس ، مجاہد  ،عطاء ، اور سفيان ثورى وغيرهم نے يہى تفسير بيان كى ہے – قتادہ نے اس كى مزيد توضيح كرتے ہوئے آيت كى تفسير اس طرح كى ہے الله كى بندگى اور اس كى رضا كے كاموں كے ذريعہ اس سے قربت حاصل كرو
   اسى طرح وسيلہ جنت ميں اعلى مقام كا نام بهى ہے جو رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم كا مقام اور جنت ميں ان كا گهر ہوگا- يہ مقام رب العالمين كے عرش سے سب سے قريب ہے :
     امام مسلم نے عبد الله بن عمرو بن العاص  رضى الله عنهما سے روايت كى ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا : جب مؤذن كو اذان ديتے سنو تو جيسٍے وہ كہتا ہے ويسے ہى كہو ،پهر مجھ پر درود بهيجو ، كيونكہ جو مجھ پر ايك بار درود بهيجے گا الله اس پر دس بار درود بهيجے گا –پهر ميرے لئے الله سے وسيلہ مانگو جو جنت ميں ايك ايسا مقام ہے جس كا حق دار الله كا صرف ايك بندہ ہوگا اور ميں اميد كرتا ہوں كہ وہ ميں ہوں گا، تو جو شخص ميرے لئے الله سے وسيلہ كا سوال كرے گا ، اس كے لئے ميرى شفاعت حلال ہو جائے گى " –
           ليكن  نہايت ہى افسوس  كا مقام ہے كہ اہل بدعت و خرافات  اپنے  مذموم مقاصد كى تكميل كىلئے قرآن كى ان دونوں آيتوں كى  واضح تفسير ہونے كے باوجود   اس  كى من گهڑت تاويليں كرتے ہيں -         


خود بدلتے نہيں قرآں كو بدل ديتے ہيں                     
مکمل تحریر >>

مصافحہ سے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مطلب

مصافحہ سے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مطلب


بعض حضرات ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دوہاتھ سے مصافحہ کرنا مسنون ہے ۔ حدیث اس طرح سے ہے ۔

''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔'' (بخاری2/926)

(1) اس حدیث کا ملاقات کے وقت مصافحہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد سکھا رہے تھے اور تعلیم کے وقت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔

(2) اگر اس سے دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا مراد لیں تو اس کی صورت یہ بنے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا یعنی تین ہاتھ کا مصافحہ ۔
اور اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں یعنی تین ہاتھ سے مصافحہ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

(3) حنفی مذہب کے جید علماءیہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی ہتھیلی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں میں پکڑنا مزید اہتمام اور تعلیم کی تاکید کے لئے تھا۔

گواہی ملاحظہ فرمائیں:--
٭حنفی مذہب کی فقہ کی مشہور داخل نصاب کتاب ہدایہ1/93 کتاب الصلوة کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اس لئے تھاما تھا تا کہ ان کا دماغ حاضر رہے اور کوئی چیز ان سے فوت نہ ہو جائے۔

٭علامہ زیلعی حنفی ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کی ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر ترجیح ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر راجح ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا اور میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھی اور یہ بات ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے تشہد میں نہیں۔ اس نے مزید توجہ اور اہتمام پر دلالت کی۔''
(نصب الرایہ1/421، کتاب الصلوة)

٭یہی بات ابنِ ہمام حنفی نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھی ہے۔

٭مولوی عبدالحی لکھوی حنفی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ابنِ مسعود والی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مصافحہ جو ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے، مراد نہیں ہے بلکہ یہ ہاتھ میں ہاتھ لینا ہے ۔
(الفتاوی اردو 1/134، کتاب العلم والعلماء)

٭علامہ جلال الدین خوارزمی حنفی ہدایہ کہ شریہ کفایہ میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ والی اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث تاکید تعلیم پر محمول ہے۔ اس لئے کہ محمد بن حسن شیبانی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور ابو یوسف نے کہا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور امام ابو حنیفہ نے کہا حماد بن ابی سلیمان رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ امام حماد کہتے ہیں علقمہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ علقمہ کہتے ہیں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے تشہد سکھایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔'' (الکفایہ شرح ہدایہ۲۷۳/۱)

(4) احادیث سے ہاتھ میں ہاتھ پکڑ کر تعلیم دینا ثابت ہے۔ ایک حدیث لکھی جاتی ہے:
''معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، اے معاذ اللہ کی قسم میں تمہیں دوست رکھتا ہوں میں نے کہا ، اللہ کی قسم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑنا ۔''(ابو دائود (۱۵۲۲)۸۶/۲، نسائی۵۳/۳، عمل الیوم والیلہ (۱۰۹)، الادب المفرد (۶۱۹)، مسند احمد۲۴۴/۵،۲۴۷، ابنِ خزیمہ (۷۵۱)، ابنِ حبان (۲۴۵)، حاکم۲۷۳/۱،۲۷۲/۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مُتَعَلِّمْ کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھایا جائے تا کہ اس کا دھیان اور توجہ مسئلہ مذکورہ کی طرف ہو۔



مذکورہ بالا تحقیق سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا دو ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے سے تعلق نہیں بلکہ یہ طریقۂ تعلیم پر محمول ہے جو کہ طالب علم کو مزید تاکید سے اہتمام و توجہ دلانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ لہذا صحیح احادیث کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل تھا۔
مکمل تحریر >>

کیا عرب کے مشائخ مقلد ہیں؟

کیا عرب کے مشائخ مقلد ہیں؟

آج کل فیس بوک پر متصب قسم کے مقلدین عام لوگوں کو یہ باور کرانے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے علمائے کرام بھی ہماری طرح مقلد ہیں۔ اورثبوت میں یہاں کے علماء کے بعض فتاوے کاپی کرتے ہیں ، جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ یہ حضرات ہرگز جامد تقلید نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو کسی امام کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور ان کے علمی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر جو کتاب وسنت کے خلاف ہو اسے لازما ترک کرتے ہیں اور بس کتاب وسنت ہی کی پیروی کرتے ہیں ۔
مثال کے طور پر دو ثبوت پیش کرتاہوں :    
 (1) عبدالعزیز بن محمد بن سعود رحمہ اللہ (سعودی عرب کے بادشاہ) سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی مذاہب مشھورہ کی تقلید نہیں کرتا، کیا یہ شخص نجات پا جائے گا؟ سلطان عبد العزیز نے کہا: "جو شخص ایک اللہ کی عبادت کرے، استغاثہ صرف اسی سے کرے، دعا صرف ایک اللہ سے ہی مانگے، ذبح بھی ایک اللہ کے لئے ہی کرے، نذر بھی صرف اسی کی ہی مانے، صرف اسی پر توکل کرے، اللہ کے دین کا دفاع کرے اور اس میں سے جو معلوم ہو حسب استطاعت اس پر عمل کرے تو یہ شخص بغیر کسی شک کے نجات پانے والا ہے اگرچہ اسے ان مذاہب مشھورہ کا پتہ ہی نہ ہو (الدارالسنیة 1/170)

(2) سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا:
"
میں بحمدللہ متعصب نہیں ہوں لیکن میں کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ میرے فتووں کی بنیاد قال اللہ اور قال الرسول پر ہے حنابلہ یا دوسروں کی تقلید پر نہیں" (المجلة رقم806 تاریخ 25 صفر 1416ھ)


مکمل تحریر >>

نماز میں آمین کہنا

نماز میں آمین کہنا

سورۃ الفاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین کہنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب سورۃ الفاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے تھے اور مقتدیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا:
إِذَا قَالَ الإِمَامُ (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَفَقُولُوا آمِينَ ، فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَقُولُ آمِينَ وَإِنَّ الإِمَامَ يَقُولُ آمِينَ ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(سنن الدارمی کتاب الصلاۃ باب فی فضل التامین، صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 1071۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب جھر الماموم بالتامین)
"
جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ (اس وقتفرشتے آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے، تو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
یعنی مقتدی امام سے پہلے یا بعد میں آمین نہ کہے بلکہ اس کے ساتھ ہی کہے۔ اکثر نمازی اس میں تقدیم یا تاخیر کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔
اسی مضمون کی دوسری حدیث ہے :
إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ آمِينَ وَالْمَلَائِكَةُ فِي السَّمَاءِ آمِينَ فَوَافَقَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع والتحمد و التامین، صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل التامین)
"
جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہتا ہے اور (اس وقتفرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں۔ پھر (اگران دونوں کی آمین میں موافقت ہو جائے تو اس (آمین کہنے والےکے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ
(
صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التشھد فی الصلاۃ)
"(
جب امام سورۃ فاتحہ ختم کرے توتم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا"
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو آمین کے جو فضائل اور برکتیں عطا فرمائی ہیں یہود اس کی وجہ سے جلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ
(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب الجھر بآمین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 691)
"
یہودی جس قدر سلام اور آمین کی وجہ سے تم پر حسد کرتے ہیں اتنا کسی دوسری چیز پر نہیں کرتے"
آمین بالجہر کی اوربھی احادیث ہیں۔ سید ناوائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
    '' میں نے ر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا کہ آپ نے غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھا اور آمین کے ساتھ اپنی آواز کو دراز کیا''۔ (ابو داؤد ۹۳۲) ترمذی (۲۴۸)،دارمی١۱:٢۲۸۴٨٤،دارقطنی١۱:٣۳۳۳٣٣، ٣۳۳۴٣٤،بیہقی١۱:٥۵۷٧،ابن ابی شبیہ۲٢:٤۴۲۵٢٥)
    بعض روایتوں میں مدبھا صوتہ، کی جگہ رفع بھا صوتہ آتا ہے۔ یعنی اپنی آواز کو بلند کیا ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ:
    '' عبداللہ بن زبری اورا ن کے مقتدیوں نے اس قدر بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد لرز گئی ''۔(بخاری٢۲:٢۲۶۲٢،مسندشافعی۱۵،١۲۱۲،بیہقی٢۲:۵۹٩)
 
   اسی طرح حضرت عطاء تابعی  رحمہ اللہ  سے مروی ہے جو امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ  کے استاذ ہیں کہتے ہیں کہ :
 '' میں نے مسجد حرام میں دو سو (٢۲۰۰٠) صحابہ کرام کو پایا جب امام ولا الضالین کہتا تو سب صحابہ بلند آواز سے آمین کہتے تھے''۔  بیہقی ۲٢:٥۵۹٩، ابن حبان (۱۹۹۷،١۱۹۹۶)



مکمل تحریر >>

ایک ہاتھ سے مصافحہ سنت نبوی

ایک ہاتھ سے مصافحہ سنت نبوی



دلائل ملاحظہ فرمائیں:
(1) ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ملاقات کی اور میں جنبی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا (ایک نسخہ میں ہے کہ میرا دایاں ہاتھ پکڑا) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے پس میں کھسک گیا۔''
( بخاری1/42)
(2) امام طحاوی نے شرح معانی الاثار1/16 پر یہ الفاظ ذکر کئے ہیں:
''میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حالتِ جنابت میں ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں جنبی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ) مسلم نجس نہیں ہوتا۔''
یہ حدیث ایک ہاتھ کے مصافحہ پر نص قطعی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کے وقت مصافحہ کے لئے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور صحابی رسول سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ایک ہاتھ جو مصافحہ کے لئے بڑھانا تھا پیچھے کھینچا اور عذر پیش کیا کہ میں جنبی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ مسلم نجس نہیں ہوتا۔
(3) ''عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو میں نے اس ہتھیلی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔''مسند احمد4/89، موارد الظلمآن (940)
(4) ''انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرے ۔ کیا س کے لئے جھکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! نہیں۔ اس نے کہا ، کیا اس سے چمٹ جائے؟ اور اس کو بوسہ دے؟ فرمایا نہیں پھر اُس نے کہا، کیا اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے؟ فرمایا! ہاں۔ امام ترمذی نے فرمایا، یہ حدیث حسن ہے۔'' (ترمذی ۷۰/۵(۲۷۲۸)، ابن ماجہ۱۲۲۰/۲(۳۷۰۲)
علامہ البانی نے متعدد طرق کی بنا پر اس حدیث کو سلسلة الادیث الصحیحہ ٨٨١ پر درج کیا ہے۔
(5) ''انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ان کی دعائوں میں موجود رہے اور ان کے ہاتھ علیحدہ ہونے سے پہلے ان کو ۔۔۔بخش دے۔'' (مسند احمد۱۴۲/۳، کشف الاستارص۴۱۹)
مذکورہ بالا پانچ احادیث سے معلوم ہوا کہ مصافحہ ایک ہاتھ کے ساتھ کرنا سنت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی تعلیم دیتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی سنت پر عامل تھے۔


مکمل تحریر >>