Tuesday, October 28, 2014

خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں حکم

خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں حکم

فتویٰ کمیٹی کو یہ سوال موصول ہوا ہے کہ کیا مسلمان کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ مختلف اسباب و وسائل کو اختیار کر کے خاندانی منصوبہ بندی کر سکے؟

کبار علماء کی کونسل نے اس مسئلہ پر پہلے بھی غور کیا تھا اور اس کے بارے میں درج ذیل قرارداد منظور کی تھی:
’’یہ دیکھتے ہوئے کہ اسلامی شریعت نے نسل انسانی کے پھیلانے وار
 بڑھانے کی ترغیب دی ہے‘ نسل کو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان عظیم اور نعمت کبریٰ قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ کتاب و سنت کے ان بے شمار نصوص سے یہ واضح ہے‘ جنہیں بحوث علمیہ و افتاء کی فتویٰ کمیٹی نے اپنے اس تحقیقی مقالہ میں ذکر کیا ہے جو کونسل کے سامنے پیش کیا گیا تھا‘‘۔
’’یہ دیکھتے ہوئے کہ خاندانی منصوبہ بندی یا منع حمل اس انسانی فطرت سے متصادم ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے نیز یہ اسلامی شریعت سے بھی متصادم ہے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے پسند فرمایا ہے‘‘۔
’’یہ دیکھتے ہوئے کہ خاندانی منصوبہ بندی یا منع حمل کی علمبردار ایک ایسی جماعت ہے جس کا مقصد اپنی اس دعوت سے مسلمانوں کے خلاف عموماً اور عرب مسلمانوں کیخلاف خصوصاً سازش ہے اور اس سازش کے ذریعے وہ مسلمانوں کی آبادی کو کم کر کے مسلمانوں اور ان کے ملکوں پر غاصبانہ تسلط جمانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں میں زمانہ جاہلیت کے اعمال کی جھلک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے ساتھ بدگمانی ہے اور اسلامی معاشرے کی عمارت کو جو کہ بہت سی انسانی اینٹوں سے مل کر وجود میں آئی ہے‘ تباہ کرنے کی سازش ہے لہٰذا کونسل کی رائے میں خاندانی منصوبہ بندی اور منع حمل قطعاً جائز نہیں ہے جبکہ یہ بھوک اور افلاس کے خدشہ کی وجہ سے ہو کیونکہ رازق تو اللہ تعالیٰ ہے جو کہ زور آور اور مضبوط ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَر‌ضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِ‌زقُها...٦﴾... سورة هود

’’اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے‘‘۔
ہاں البتہ اگر منع حمل کسی ناگزیر ضرورت کی وجہ سے ہو‘ مثلاً عورت حسب معمول بچے کو جنم نہ دے سکتی ہو بلکہ اس کیلئے وہ آپریشن کیلئے مجبور ہو یا میاں بیوی کسی مصلحت کی وجہ سے حمل میں تاخیر چاہتے ہوں تو پھر منع حمل یا حمل کو مؤکر کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے تاکہ احادیث صحیہہ اور حضرات صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے عزل کا جو جواز مروی ہے اس پر عمل ہو سکے اور فقہاء کے اس فتویٰ پر عمل ہو سکے  کہ چالیس دن سے پہلے پہلے نطفہ نکالنے کیلئے دواء استعمال کرنا جائز ہے۔ یاد رہے ناگزیر ضرورت و حاجت ثابت ہو جائے تو پھر منع حمل ضروری بھی ہو جاتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


مکمل تحریر >>

تعزیت اور اس کے آداب

تعزیت کا لغوی معنی تسلی دینا ہے۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبت زدہ یا میت کے اقارب سے اظہار افسوس کرنا، انہیں تسلی دینا، صبر کی تلقین کرنا اور ایسی باتیں کرنا جن سے ان کا غم ہلکا ہو۔ اس کے علاوہ میت کے لئے دعا کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ تعزیت کرنا مومن سے ہمدردی کا اظہار ہے اور مومن سے ہمدردی جز و ایمان ہے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت افزائی کا لباس پہنائیں گے۔ (ابن ماجہ، الجنائز: ۱۶۰۱)
محققین حدیث نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو احادیث صحیحہ میں نقل کیا ہے۔(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ: ۱۹۵)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے اسے قیامت کے دن مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ (ترمذی، الجنائز: ۱۰۳۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر سے بایں الفاظ تعزیت کی تھی: ’’اللہ ہی کیلئے تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دے رکھا ہے، اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے لہٰذا صبر کر کے اس کا اجر و ثواب لینا چاہیے۔ (بخاری، الجنائز: ۱۲۸۴)
مختلف احادیث کے پیش نظر تعزیت کے درج ذیل آداب ہیں:
٭ اہل میت سے ہمدردی کرتے ہوئے ان کیلئے دعا خیر کی جائے اور انہیں صبر کی تلقین کرنا چاہیے۔
٭ گھر والوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، ان کے لئے وقت اور مال کی قربانی دی جائے۔
٭ تعزیت کیلئے مناسب وقت کا انتخاب اور محدود مدت کیلئے ان کے ہاں ٹھہرا جائے۔
٭ کھانے پینے کے اوقات میں ان کے ہاں جانے سے پرہیز کیا جائے تا کہ وہ خواہ مخواہ تکلف میں نہ پڑیں۔
٭ وہاں بیٹھ کر لغو گفتگو نہ کی جائے اور سنت کے مطابق ان کے غم میں شریک ہو کر میت کیلئے دعا مغفرت کی جائے۔
٭ مروجہ طریقہ تعزیت سے گریز کریں جیسا کہ آنے والا ’’فاتحہ‘‘ کہہ کر اپنی حاضری لگواتا ہے۔
٭ وہاں فارغ نہ بیٹھیں بلکہ ذکر اور دعا و استغفار میں خود کو مصروف رکھیں۔

تعزیت کی تعریف اور آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہمارا کوئی دوست یا رشتہ دار بریلوی یا حنفی ہو اور وہ کھلم کھلا شرک نہ کرنے والا ہو تو ان کی تعزیت کرسکتے ہیں ، ان کے جنازہ میں بھی شریک ہوسکتے ہیں ، مگر جن کا شرک واضح ہو تو ان کے جنازہ میں شرکت کرنا، ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے :

﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝۱۱۳ (التوبۃ:113)
''نبی کیلئے اور دوسرے مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں''۔
ربیع بن سلیمانفرماتے ہیں:

القرآن کلام اللہ غیر مخلوق فمن قال غیر ھذا فان مرض فلا تعودوہ وان مات فلا تشھدوا جنازتہ وھو کافر باللہ العظیم (شرح أصول اعتقادأھل السنۃ :۱/۳۲۲)
''قرآن اللہ تعالیٰ کا کلا م ہے ،مخلوق نہیں ۔جس کسی نے اس کے سوا کچھ اور کہا اگر وہ مریض ہو اُس کی عیادت مت کرو اور اگر وہ مر جائے اس کے جنازے میں مت شریک ہو کیونکہ وہ کافر ہے ۔''
حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں بدعت مکفرہ اور شرک کے مرتکب کے لئے استغفار کرنااور ان کے جنازہ میں شریک ہونا جائز نہیں ہے چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔
لیکن اگر کسی بریلوی رشتہ دار یا حنفی یا کسے باشد شیعہ یا کافر کے یہاں کوئی مصیبت آجائے تو ان کی عیادت کرنا ، ان کو دلاسہ دینا اور بغرض مصحلت ان کی تعزیت کرنا(ماسوااستغفارکے) جائز ہے ، نبی اکرمﷺ سے کافر کی عیادت کے لیے جانا ثابت ہے ۔

واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ علی النبی وسلم



مکمل تحریر >>

Sunday, October 26, 2014

نماز سے متعلق جند مسائل

حالتِ نماز میں سلام کا جواب دینے کا طریقہ 

س: اگر مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور تمام نمازی با جماعت نماز ادا کر رہے ہوں اور باہرسے آنے والا بلند آواز سے السلام علیکم کہے تو نمازیوں کو اس کا جواب کس طرح دینا چاہئے ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج: صورت مسؤلہ میں باہر سے آنے والا شخص جب سلام کہے تو نمازی اس کا جواب الفاظ سے نہ دیں کیونکہ نماز کی حالت میں کلام کرنا منع ہے بلکہ نماز ہاتھ کے اشارے سے جواب دے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
'' میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ نبی کریم کو نماز کی حالت میں جب لوگ سلام کرتے ہیں تو آپ ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دیکھا ؟ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کہتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو پھیلاتا '' (بلوغ الامرام مع سبل السلام ۱/۱۴۰)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیتے تھے۔ زبان سے کلام نہیں فرماتے تھے ۔ امام محمد بن اسماعیل الصنعانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
'' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کوئی آدمی کسی کو حالتِ نماز میں سلام کہے تو اس کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے دے نہ کہ زبان سے بول کر '' ( سبل السلام ۱/۱۴۰)

ننگے سر نماز 

س: ننگے سر مرد کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ۔ میں نے مسعود بی ایس سی کا ایک پمفلٹ پڑھا، اس میں لکھا ہے کہ نبی کریم ؑنے نے کبھی ننگے سر نماز نہیں پڑھی اور جابر والی روایت ثابت ہی نہیں۔ برائے مہربانی قرآن اور حدیث کے مکمل دلائل سے وضاحت کریں۔

ج: نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور کندھوں پر بھی کسی چیز کا ہونا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ کپڑے شریعت میں ضروری طور پر ثابت نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی ہے جیسا کہ سیدنا جابر سے مروی ہے ۔ ایک دن ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ دوسرا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا، آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں جبکہ دوسرا کپڑا آپ کے پاس موجود ہے ۔ انہوں نے کہا ہاں میں چاہتا ہوں کہ تہمارے جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ (رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ھکذا )میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (بخاری شریف، کتاب الصلویٰۃ باب الصلوٰۃ بغیر رداء )

بخاری شریف میں ہی ایک دوسری روایت میں ایک کپڑے میں نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہے ( قد عقدہ من قبل قفاہ ) کپڑے کو اپنی گدی پر باندھا ہوا تھا۔ ( یعنی سر پر کچھ نہ تھا )
دوسری دلیل ؛ عمر ابن سلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ( یصلی فی ثوب واحد مشتملا بہ بیت ام سلمۃ واضعا طریفہ علی عاتقیہ ) اورمسلم شریف کی روایت میں متوشعا کے الفاظ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے تھے اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر باندھے ہوئے تھے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر وہ کپڑا نہ تھا۔
ہاں ! عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
'' بالغ عورت کی نماز ڈوپٹہ ( اوڑھنی ) کے بغیر نہیں ہوتی "
یہ حدیث بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ مرد کی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے اس کیلئے ایسا کپڑا ضروری نہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دیتے مرد اور عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی ۔
اب دلائل سے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک کپڑے میں نماز اسو قت درست تھی جب مسلمانوں کے پاس کپڑے کم تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو سر ڈھانپنا واجب ہوگا۔ اس بات کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے ہم امیر المومنین ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھتے ہیں کیونکہ وہ یقیناً ہم سے بڑھ کر شریعت کو سمجنے والے تھے ایسے ہی حالات میں کسی شخص نے ان سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عمررضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سے زیادہ کپڑوں کو شمار کر لیا مگر ان میں سر ڈھانپنے والے کپڑے کا نام ہی نہیں ۔
امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کو تو فراحی وسعت کے وقت بھی یہی سمجھ آئی کہ سر ڈھانپنا واجب نہیں ۔ اب ان احادیث صحیحہ مر فوعہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے فہم کو ترک کرکے اپنی عقل کو سامنے رکھنا ہر گز انصاف نہیں ۔

قبروں والی مسجد میں نماز
س: وہ مساجد جن میں قربیں ہوں کیا ان مساجد میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کریں۔ ( اکرب علی ، رشیدہ پورہ لاہور )

ج: ایسی مساجد میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد بنانے والوں کو معلون قرار دیا ہے اور قبروں پر مساجد بنانے سے قبروں پر اور قبروں کی طرف نماز ُڑھنے سےر وک دیا ہے ۔ جندن بن عبداللہ بھی کہتے ہیں میں نے اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ان سے سنا۔ انہوں نے کچھ باتیں ذکر کیں:
'' کہ جو تم سے پہلے تھے ( یہود و نصاری ٰ ) وہ اپنے ابنیاء اور ینک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے خبر دار تم قبروں کو مسجد نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ''۔ ( رواہ مسلم (۵۳۲) ابو داؤد )

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا االلہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ۔ (بخاری (۳۹۰٠) مسلم (۵۲۹٩)

ان احادیث سے ثبات ہو اکہ قبروں پر مسجدیں بنانا حرام ہے کیونکہر سولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روک دیا ہے ۔ جب قربوں پر مسجدیں بنانے سے روک دیا گیا ہے تو ایسی مساجد میں نامز پڑھنی بالا ولی درست نہیں ہے کیونکہ یہ شریعت کا اول ہے کہ وسیلہ ( ذریعہ کی حرمت اس چیز کے حرام ہونے کاو ملتزم ہوتی ہے جو اس وسیلہ سے مقصود ہو مثلاً شریعت نے شراب کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے اور اس حرمت کے اندرا س کے پینی کی حرمت بھی موجود ہے ۔ یہاں شراب کی خرید و فروخت وسیلہ ہے اور اس کامقصود شراب نوشی رکان ہے۔ اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ قربوں پر مساجد بنانا کا حرما ہونا یہ صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ امز کی وجہ سے ہے۔ جس طرح گھروں اور محلوں میں مساجد بنانے کا حکم صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ نماز کیلئے ہے۔ مساجد بنانے کا حکم کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم مسجدیں بناتے جائیں اور ان میں کوئی بھی نماز پڑحنے کیلئے نہ آئے ۔ یہ بات آپ اس مثال سے سمجھیں کہ ایک شخص کسی غیر آباد جنگل میں مسجد بانتا ہے جہاں کوئی نہیں رہتا اور نہ کوئی نماز پڑھنے کیلئے آتا ہے تو ایسے شخص کو اس مسجد بنانے کا کوئی ثوا ب نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہے وہ گنہگار ہو کیونکہ اُس نے مال کو ایسی جگہ پر صرف کیا ہے جہاں سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچتا ۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح شریعت نے مساجد بنانے کا حکم دیا ہے تو ضمناً ان میں نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے ( کیونکہ مسجد بنانے کا مقصد نماز ادا کرنا ہی تو ہوتا ہے ) اسی رح جب شرعیت نے قربوں پر مسجدیں بنانے سے روکا ہے تو ضمناً ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے بھی روک اہے اور یہ بات کسی بھی عقلمند آدمی سے مخفی نہیں ۔ اس لئے امام احمد بن جنبل رحمۃ اللہ نے ایسی مساجد میں ادا کی گئی نماز کو باطل قرار دیا ہے لیکن مسجد نبوی اس حکم سے متشنی ٰہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نا لے کر اس کی فضیلت بیان کی ہے جو دوسری قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں راس مسجد میں نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں روضۃ من ریاض الجنۃ بھی ہے ۔ جس طرح بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اس کی فضیلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم تھی بعد میں مشرکین نے بت رکھ دئیے مگر رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہواں نماز پڑھتے تھے اگر مسجد نبوی میں نامز کو فاسد اور اندر ست قرار دے دیں تو مسجد نبوی کی فضیلت کو ختم کر کے دوسری مساجد کے برابر قرار دینے کے مترادف ہو گا جو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں پھر یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسجد اپنے اور مسلمانوں کیلئے بنائی تھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی جبکہ قربیں ولید بن عبدالمالک کے دور میں داخل کی گئی ہیں اس وقت مدینہ رالرسول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہرضی اللہ تعالی عنہ میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے ( واللہ تعالیٰ اعلم)

دیگر مسائل کے لئے نیچے دئے گئے رابطہ  پر کلک کریں۔

http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A2%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%D9%84.5731/page-8
مکمل تحریر >>

قرآنی آیات کے بوسیدہ اوراق کا حکم !


قرآنی آیات والے بوسیدہ اوراق کو ضائع کرنے کا بلاشبہ جواز ہے۔(1)
پانی میں بہا دئے جائیں(2)
پاکیزہ زمین میں دفن کر دئے جائیں(3)
اسی طرح اوراق کو جلانے کا عمل بھی درست ہے۔(4)
صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے
وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف أن يحرق
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے صحف سے منقول قرآن کے علاوہ ہر صحیفے یا مصحف میں جو قرآن ہے ، ان کو جلانے کا حکم صادر فرمایا۔
صحيح البخاري , كتاب فضائل القرآن , باب جمع القرآن , 5038
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر شارح بخاری امام ابوالحسن ابن بطال فرماتے ہیں :
في هذا الحديث جواز تحريق الكتب التي فيها اسم الله بالنار وأن ذلك إكرام لها وصون عن وطئها بالأقدام وقد أخرج عبد الرزاق من طريق طاوس أنه كان يحرق الرسائل اليت فيها البسملة إذا اجتمعت وكذا فعل عروة 
اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلا کہ ان کتابوں کو جلانا جائز ہے جن میں اللہ عز وجل کا اسم گرامی ہو، اسی میں ان کی عزت واکرام ہے ، بجائے اس کے کہ قدموں کے نیچے روندے جائیں ، اس میں ان کی بےادبی ہے۔ طاؤس کے پاس جب اللہ کے نام والے کتب ورسائل جمع ہو جاتے تو ان کو جلا ڈالتے ، عروہ کا فعل بھی اسی طرح مروی ہے۔
فتح الباری , ج:9 , ص:28


مکمل تحریر >>

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زمین میں زندہ اور حاضر ہیں ۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سب سے اکمل اورافضل اور اللہ تعالی کے ہاں ان میں سب سے زیادہ محبوب عزت واکرام والے ہیں ، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ ان سے بشر اورانسانوں والے خصائص کوسلب کر لیا جاۓ اور رب کے کچھ خصائص انہیں دے دۓ جائیں ۔
تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسانوں کی طرح بیماری اورحقیقی موت سے دوچار ہوۓ ہیں ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
{ بے شک آپ بھی مرنے والے ہیں اورانہیں بھی موت آۓ گی }
اور اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :
{ اورہم نے آپ سے پہلے کسی بھی بشر کے لۓ ہمیشہ رہنا مقرر نہیں کیا ، توکیا آپ کوموت آۓ گی اوریہ ہمیشہ رہیں گے ؟ }
تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے اوراپنی قبرمیں دفن ہیں ، اوراسی لۓ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا کہ: جوشخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا توبے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے ہیں ، اورجواللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالی زندہ ہے اسے موت نہیں آ‎ۓگی ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم شاہد(گواہ) اور نذیر وبشیر ہیں اوران کا روزقیامت گواہ ہونے کا یہ معنی نہیں کہ وہ سب امتوں میں حاضر ہیں اور نہ ہی یہ معنی ہے کہ انکی زندگی قیامت تک اور ہمیشہ کے لۓ ہے ، اور نہ ہی اس کا یہ معنی ہے کہ وہ قبر سے مشاہدہ فرما رہے ہیں ۔
اورپھر یہ گواہی مشاہدے پر منحصر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ امتوں کی گواہی اس بنا پر دیں گے جوکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں خبر دی ہے ، اور اگر یہ نہ ہوتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوغیب کا علم نہیں ہے ۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں بہت سی بھلایاں اکٹھی کر لیتا }۔
اورنبی علیہ السلام اس پر قادر نہیں ہیں کہ وہ کئ ایک جگہوں پر موجود ہوں بلکہ وہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک جگہ اپنی قبرمیں ہی ہیں اور اس پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ .
الشیخ عبد الکریم الخضیر
مکمل تحریر >>

Saturday, October 25, 2014

یومِ عاشوراء کا روزہ احادیث کی روشنی میں

1- حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وصيام يوم عاشوراء احتسب علی الله أن يکفر السنة التي قبله"
" مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔" (مسلم : کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة ایام؛
۱۱۶۲)
2- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ"قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔" (بخاری: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشورا ؛۲۰۰۳/ مسلم: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء ؛۱۱۲۵)
3- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں لوگ یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بھی اس دن روزہ رکھتے۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إن عاشورأ يوم من أيام الله فمن شاء صامه ومن شاء ترکه""عاشورا اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک (معزز) دن ہے لہٰذا جو اس دن روزہ رکھنا چاہے، وہ روزہ رکھے اور جونہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے۔" (مسلم:ایضاً؛ ۱۱۲۶)
4- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ"جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔" (بخاری: ایضاً ؛ ۲۰۰۴/مسلم؛۱۱۳۰)
5- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ"میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنوں میں سے دسویں محرم (یوم عاشوراء) کے اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں کے سوا کسی اور روزے کو افضل سمجھ کر اس کا اہتمام کرتے ہوں۔" (بخاری، ایضاً؛۲۰۰۶/ مسلم ایضاً؛۱۱۳۲)
6- حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "عاشورا کے روز یہودی عید مناتے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھا کرو۔" (بخاری ؛۲۰۰۵/ مسلم ؛۱۱۳۱)
7- ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ "اہل خیبر عاشوراء کے روز، روزہ رکھتے اور ا س دن عید مناتے اور اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو۔" (مسلم؛۲۶۶۱)
8- حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنواسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکر یہ اعلان کرے کہ
"جس نے کچھ پی لیا ہے، وہ اب باقی دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے کچھ نہیں کھایا، وہ روزہ رکھے کیونکہ آج عاشوراء کا دن ہے۔" (بخاری؛
۲۰۰۷/ مسلم؛۱۱۳۵)
9- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ"اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "فاذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع" آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسول انتقال فرما گئے۔" (مسلم؛۱۱۳۴)
10- مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ "لئن بقيت إلی قابل لأصومن التاسع"
"اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔" (مسلم: ایضاً)
روزہ نو محرم کو یا دس کو؟
احتیاط کا تقاضا
----------------
اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ عاشوراء کا روزہ کب رکھاجائے، مگر اختلاف سے بچتے ہوئے احتیاط کا پہلو مدنظر رکھتے ہیں تو پھر یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ اگر شریعت کی منشا نو اور دس دونوں کا روزہ رکھنے میں ہوئی تو اس پر عمل ہوجائے گا اور اگر نو کا روزہ رکھنے میں ہوئی تو تب بھی نو کا روزہ رکھا جائے گا اور دس کا روزہ اضافی نیکی قرار پائے گا۔ علاوہ ازیں اس طرح یوم عاشوراء کی فضیلت اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت دونوں ہی پر عمل بھی ہوجائے گا جیسا کہ حافظ ابن حجررحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ
"وقال بعض أهل العلم: قوله فی صحيح مسلم لئن عشت إلی قابل لأصومن التاسع، يحتمل أمرين أحدهما أنه أراد نقل العاشر إلی التاسع والثاني أراد أن يضيفه إليه فی الصوم فلما توفي ا قبل بيان ذلک کان الاحتياط صوم اليومين" (فتح الباری: ايضاً)
"بعض اہل علم کے بقول صحیح مسلم میں مروی اس حدیث نبوی کہ "اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو کا ضرور روزہ رکھوں گا۔" کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ یوم عاشوراء کے روزہ کے لئے دس کی بجائے نو کا روزہ مقرر کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ آپ دس کے ساتھ نو کا روزہ بھی مقرر فرمانا چاہتے تھے۔ (اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد اگلے محرم تک زندہ رہتے تو آپ کے عمل سے مذکورہ دونوں صورتوں میں سے ایک صورت ضرور متعین ہوجاتی) مگر آپ کسی صورت کو متعین کرنے سے پہلے وفات پاگئے تھے، اس لئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے۔"
Top of Form

Bottom of Form
مکمل تحریر >>

Friday, October 24, 2014

وسیلہ سے متعلق بعض ضعیف احادیث

(1) عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا جب آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انھوں نے الله سے عرض کیا اے مالک میں تجھ سے محمد صلی الله علیھ وسلم کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں میری مغفرت فرما الله نے فرمایا تو نے محمد صلی الله علیھ وسلم کو کیسے پہچان لیا میں نے ابھی ان کو پیدا بھی نہیں کیا ہے آدم علیھ السلام نے عرض کی اے مالک جب تو نے مجھ بنایا اور جب میرے اندر روح ڈالی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر لکھا دیکھا تو میں نے سمجھ لیا کہ کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تجھے سب سے زیادھ محبوب ہے اے آدم علیھ السلام تو نے سچ کہا مجھے سب سے زیادہ وہی محبوب ہے اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے دعا کر لی ہے تو میں نے تجھے معاف کیا اگر محمد صلی الله علیھ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا.
(مستدرک حاکم رقم ٤٢٢٨ دلائل النبوی للبیہقی ٥/٤٨٩ ، طبرانی الکبیر رقم ٩٩٢ اوسط ٦٥٠٢ )
تحقیق : اس روایت کی تمام اسناد میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے اور جس کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
امام حاکم فرماتے ہیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے (المدخل الی مرفہ الصحیح و السقم جلد ١ ص ١٧٠)
امام بخاری فرماتے ہیں : وہ بہت زیادہ ضعیف ہے ، ابن جوزی فرماتے ہیں : محدثین کا اجماع ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے (تہذیب التہذیب جلد ٥ ص ٩٠ ترجمہ ٣٩٧٤ )
بعض حضرات عوام کو گمراہ کرنے کے لئے امام حاکم کے حوالے سے یہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب مستدرک میں صحیح کہا ہے مگر یہ ان کا اس دور کا قول ہے جب ان کے حفظ میں تغیر ہو گیا تھا اور انہوں نے بہت سی احادیث کو صحیح کہا تھا جبکہ وہ ضعیف تھی اور ان میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " امام حاکم نے آخری عمر میں مستدرک تصنیف کی تھی اور اس وجہ سے وہ غفلت کا شکار ہو گئے تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اپنی "الضعفا " میں جن راویوں سے روایت لینا ترک کر دیا اور ان سے احتجاج اخذ نہیں کیا پھر ان میں سے بعض سے اپنی مستدرک میں روایات لی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے اور ان میں سے ایک عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے جس کے بارے میں انھوں نے اپنی "الضعفا" میں لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے. (لسان المیزان جلد ٦ ترجمہ ٧٦٦٦ )
حافظ ابن حجر کی وضاحت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امام حاکم نے جو مستدرک میں اس حدیث کو صحیح کہا یہ وہ ان کا تغیر کے زمانے کا قول ہے جبکہ ان کے اصل اور راجع قول وہی ہے جو ہم نے اوپر نقل کیا ہے تو امام حاکم کے نزدیک بھی یہ حدیث من گھڑت ہے .
(2) ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں " الله نے عیسیٰ علیھ السلام کو وحی کی کہ ایمان لاؤ محمد صلی الله علیھ وسلم پر اور اپنی امت کو حکم دو جو ان کا زمانہ پاے وہ ان پر ایمان لائیں اور محمد صلی الله علیھ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیھ السلام کو نہ پیدا کرتا نہ جنت جہنم بناتا اور جب میں نے پانی پر عرش قائم کیا تو اس میں لرزش ہوئی تو میں نے اس پر لا الہ الا الله محمد رسول الله لکھا تو وہ ٹھہر گیا .
(مستدرک حاکم رقم ٤٢٢٧ )
تحقیق : اس روایت میں سید بن ابی عروبہ موجود ہے اور اس کو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا اس بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : وہ کثرت سے تدلیس کرتا تھا اور اور اس کا حافظہ بگڑ گیا تھا (تقریب التہذیب جلد ١ ترجمہ ٣٤٣٩ )چنانچہ اس کے اختلاط کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں " امام نسائی فرماتے ہیں جس نے اس سے اختلاط کے بعد سنا اس کی کوئی حثیت نہیں ہے اور اسی طرح ابن معین نے فرمایا ہے ( تہذیب التہذیب جلد ٣ترجمہ ٣٤٣٩ )
عمرو بن اوس : یہ راوی مجہول ہے اور دوسرا اس نے سعید بن ابی عروبہ اس کے زمانے اختلاط میں روایت کی ہے (تحریر تقریب التہذیب جلد ١ ص ٣٨ )
اور اس عمرو بن اوس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں " یہ مجہول الحال راوی ہے یہ ایک منکر خبر لایا ہے جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے وہ روایت من گھڑت ہے جو جندال بن والق کی سند سے نقل ہوئی ہے .(میزان الاعتدال جلد ٣ ترجمہ ٦٣٣٠ )
ان دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں (١) اس میں سعید بن ابی عروبہ نے تدلیس کی ہے.(٢) عمرو بن اوس مجہول ہے اور اس نے سعید بن ابی عروبہ سے اختلاط کے زمانے میں روایت کی ہے اور اس دور میں اس کی روایت قبول نہیں ہے (٣) اس روایت کو امام ذہبی نے من گھڑت کہا ہے .
یہ تمام وجوہات اس روایت پر عدم حجت قائم کرتی ہیں .
(3) ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں خبیر کے یہودی غطفان قبیلے سے جنگ کرتے تو ان کو شکست ہو جاتی پھر یہودی یہ دعا کرتے " اے الله ہم تجھ سے نبی صلی الله علیھ السلام وسیلہ سے سوال کرتے ہیں جن کو تو نے آخری زمانے میں بھیجھنے کا وعدہ کیا ہے کہ ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما راوی کہتے ہیں جب بھی وہ غطفان کے سامنے یہ دعا پڑھ کر آتے تو وہ ان کو شکست دیتے .
(مستدرک حاکم رقم ٣٠٤٢ )
تحقیق : اس روایت میں عبدالملک بن ہارون بن عنترہ موجود ہے جس نے اپنے والد سے روایت کیا ہے راوی بلاتفاق محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں عبدالمالک متروک ہے اور انھوں نے محدثین کے اقوال نقل کیے ہیں " امام احمد : عبدالمالک ضعیف ہے ، امام ابن معین : کذاب ہے ،امام حاتم : متروک ہے ،امام ابن حبان : وہ حدیث گھڑتا تھا .(میزان الاعتدال ترجمہ ٥٦٨٥ )
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " اس پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے . صالح بن محمد : اس کی روایت جھوٹی ہوتی ہیں ، امام حاکم : اس کی روایات اس کے والد سے من گھڑت ہیں ،امام ابو نعیم : اس کے والد سے اس کی روایات منکر ہیں (لسان المیزان ترجمہ ٥٣٥٩ )
یہ راوی من گھڑت روایات بیان کرتا تھا اور یہ روایت بھی من گھڑت ہے اس لئے اس سے وسیلے باطلہ کے باب میں کچھ ثابت نہیں ہوتا .
(4) ابوھریرہ رضی الله عنھ سے (ایک طویل روایت ہے ) جنگ یمامہ کے موقعہ پر خالد بن ولید رضی الله عنھ نے بلند آواز سے فرمایا میں ولید کا بیٹا ہوں پھر انھوں نے مسلمانوں کا جنگی نعرہ بلند کیا ان دنوں مسلمانوں کا جنگی نعرہ یا محمداہ صلی الله علیھ وسلم (اے محمد صلی الله علیھ وسلم مددکریں ) تھا .
تحقیق : اس روایت میں سیف بن عمر التمیمی محدثین کے نزدیک بلاتفاق ضعیف ہے ابن معین : ضعیف الحدیث ہے اس سے کوئی خیر (صحیح روایت ) نہیں ہے اور امام حاتم نے متروک الحدیث اور امام نسائی اور دارقطنی نے ضعیف کہا ہے اور ابن حبان نے اس کو ثقه راویوں سے من گھڑت روایات بیان کرنے والا کہا ہے (تہذیب التہذیب جلد ٣ ترجمہ ٢٨٠٠ )
یہ روایات اس راوی کے سبب ضعیف ہے اور نا قابل حجت ہے .
(5) عبدالرحمن بن سعد بیان کرتے ہیں ہم عبدالله بن عمر رضی الله عنھ کے ساتھ تھے تو ان کا پیر سن ہو گیا تو میں نے عرض کیا اے ابو عبدالرحمن اپ کے پیر کو کیا ہوا انھوں نے کہا میرے پٹھے کھچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا تمام ہستیوں میں جو اپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کو یاد کریں انھوں نے یا محمد صلی الله علیھ وسلم کا نعرہ لگایا اسی وقت ان کا پیر ٹھیک ہو گیا .
تحقیق : اس روایت کو امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن السنی نے عمل الیوم و اللیل میں مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ابن عمر رضی الله عنھ سے مروی روایت میں اسحاق السیعبی موجود ہے اور وہ مدلس ہے اور اس میں اس نے "عن " سے روایت کی ہے اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے امام نووی فرماتے ہیں " جب مدلس "عن " سے روایت کرے تو وہ قابل قبول نہیں ہے ہاں اگر وہ دوسری صحیح سند سے نہ ثابت ہو (مقدمہ مسلم جلد ١ ص ١١٠ باب نہی عن الحدیث بکل ما سمع ) اور ابن حجر اس کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ یہ مدلس راوی ہے " تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور تابی ثقہ ہے (تہذیب التہذیب جلد ٦ ترجمہ ٥٢٣٢ ، طبقات المدلسین ترجمہ ٢٥ )
اور اس کی دیگر اسناد میں غیاث بن ابراہیم اور ابو بکر الھزلی ہیں (١) غیاث بن ابراہیم کے بارے میں ابن معین فرماتے ہیں خبیث کذاب تھا (معرفہ الرجال ترجمہ ٤٤ ) (٢) ابو بکر الھزلی کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں : ابن معین وہ ثقہ نہیں ہے ابو زرعہ فرماتے ہیں ضعیف ہے امام نسائی فرماتے ہے کہ اس سے حدیث نہیں لی گئی ہے (تہذیب الکمال جلد ٣٣ ترجمہ ٧٢٦٨ )
یہ تمام روایات اس قابل نہیں ہیں کہ وسیلہ کے باب میں ان سے حجت لی جائے .
(6) نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا اگر تم الله سے کچھ مانگو تو میرے وسیلے سے مانگو .
تحقیق : اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے یعنی یہ کتب حدیث کی کسی متعبر کتاب میں نقل نہیں ہوئی ہے اس کو صرف امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب القاعدہ الجلیله میں نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس کے کوئی اصل نہیں ہے (مجموعہ الفتاوی ابن تیمیہ ١/ ٣١٩ سلسلہ الضعیفہ رقم ٢٢ )
اس روایت سے بھی وسیلہ باطلہ کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے .
اللہ تعالی ہمیں ضعیف اور موضوع روایات پر عمل کرنے سے بچائے ۔ آمین
Top of Form

Bottom of Form


مکمل تحریر >>

نئے ہجری سال کی آمد اور محاسبۂ نفس

مسلمانوں کا اپنی زندگی کے اس نئے سال کا استقبال کرنا ہی ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو اس حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ یہ شب و روز مراحل اور سواریاں ہیں جو کہ ہمیں اس دنیا سے دور لئے جا رہے ہیں اور ہمیں آخرت کے قریب کئے جا رہے ہیں ۔ قوم فرعون سے ایمان لانے والے شخص نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر جو بات کہی تھی اس کی حکایت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اس نے کہا:
"اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی ( چند روز کے لئے ) فائدہ اٹھانے کی چیز ہے" (سورة المومن : 39)
کیا ہمارا یہ ایک سال کو الوداع کہنا اور دوسرے سال کا استقبال کرنا ہماری ہمتوں کو عالی اور ہمارے عزائم کو بیدار کرے گا ؟ صاحب توفیق وہ ہے جو اپنے حال کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور اپنی بقیہ زندگی کے دنوں میں کچھ کر گزرنے کی ٹھان لے تاکہ اس کا کل آج سے بہتر ہو اور اس کا آج گزشتہ کل سے افضل و اعلی ہو اور اس کا نیا سال اس کے گزشتہ سال سے اچھا ہو ۔ عقلمند وہی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے ، اپنے حسابات کی جانچ پڑتال کرے ، اعمال صالحہ کا توشہ جمع کر لے اور اپنے سابقہ گناہوں اور گزشتہ خطاؤں سے اپنے رب کی طرف توبہ نصوح کرے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
"جس نے ایک ذرہ برابر بھی خیر و بھلائی کی ہو گی ( قیامت کے دن ) وہ اسے دیکھ لے گا ۔اور جس نے ذرہ بھر بھی برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔ ( الزلزلہ : 7 ، 8 )
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
"اے میرے بندو ! میں تمہارے ان تمام اعمال کو گن گن کر تمہارے لئے محفوظ کروائے جا رہا ہوں اور پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دیا جائیگا ۔ جسے بھلائی ملی وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے اور جسے اس کے برعکس کچھ بھگتنا پڑا تو وہ اپنے آپ کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے ۔( صحیح مسلم )
----------------------------------
فضیلۃ الشیخ حسین بن عبد العزیز آل الشیخ -حفظہ اللہ کے خطبہ جمعہ کا ایک اقتباس
Top of Form


مکمل تحریر >>

نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم

نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر" یا "فی کل عام وانت بخیر"(یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک" کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
(نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042)
مکمل تحریر >>

غیر مسلم کے احسان کا بدلہ

اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے. اس لئے بے ضرر ( غیر دشمن / محارب ) کفار سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے . اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
"جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملہ میں کوئی جنگ نہیں کی نہ ہی تمہیں گھروں سے نکالا ہے ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے تمہیں اللہ تعالی منع نہیں فرماتا ۔ اس لئے کہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے" ۔
( الممتحنہ :8)
اس مضمون سے متعلق بہت سارے نصوص ہیں .
اس لئے ہمیں کفار کے ساته بهی احسان و سلوک کا معاملہ کرناچاہئے. اور جو غیرمسلم کسی مسلمان کے ساته احسان کرے تو اس کے احسان کا اچها بدلہ دینا چاہئے . رہبر انسانیت کی زندگی سے اس کی مثال ملتی ہے. چنانچہ
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میری والدہ اس زمانے میں مدینہ آئی جب رسول اکرم ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان ( معاہدہ)صلح ہو چکی تھی اس کا والد ( یعنی اسماء رضی اللہ عنہما کا نانا) بھی اس کے ساتھ تھا میں نے رسول اللہ سے پوچھا میری ماں آئی ہے اور اسے اسلام سے سخت نفرت ہے اس سے کیسا سلوک کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے اچھا سلوک کر ۔ تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کر نا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا : کہ اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کردیتا ۔
( بخاری ۔ عن جبیر بن مطعم )
حدیث کی وضاحت :
مطعم بن عدی مشرک تھا لیکن اس نے رسول اللہ ﷺکی اس وقت مددکی تھی جب آپ طائف سے زخمی حالت میں واپس تشریف لائے ۔اس نے آپ ﷺکواپنی پناہ میں لیکر مکہ میں داخل کیا ۔آپ ﷺنے اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کےلئے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے ۔
مکمل تحریر >>

جنگ یمامہ میں یا محمد کا نعرہ

جنگِ یمامہ میں مسلیمہ کذاب کے ساتھ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی، جبکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ مقابلہ بہت شدید تھا۔ ایک وقت نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار تھے۔ انہوں نے یہ حالت دیکھی تو:
و نادی بشعارھم یومئذ، و کان شعارھم یومئذ: یا محمداہ !
"انہوں نے مسلمانوں کا نعرہ بلند کیا۔ اس دن مسلمانوں کا نعرہ یَامحمداہ تھا۔"
(تاریخ الطبری: 181/2 ، البدایۃ النھایۃ لابن کثیر: 324/6)
موضوع(من گھڑت): یہ روایت موضوع ہے، کیونکہ:
٭ اس میں سیف بن عمر کوفی راوی بالاتفاق "ضعیف و متروک" موجود ہے۔
٭ شعیب بن ابراہیم کوفی "مجہول" ہے۔
٭ ضحاک بن یربوع کی توثیق نہیں ملی۔
٭اس کا باپ یربوع کیسا ہے؟ معلوم نہیں ہوسکا۔
٭ رجل من سحیم کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
L
مکمل تحریر >>