Sunday, April 27, 2014

نمازمیں بعض عام کوتاہیاں

اسلامی عبادات میں یہ پہلا رکن بلکہ رکن عظیم ہے جس کی ادائیگی امیر و غریب، بوڑھے و جوان، مرد و عورت اور بیمار و تندرست سب پر یکساں فرض ہے۔ ایسی عبادت کہ جس کا حکم کسی بھی حالت میں ساقط نہیں ہوتا۔ ایمان لانے کے بعد مسلمان سے اولین مطالبہ ہی یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے﴿إِنَّنى أَنَا اللَّهُ لا إِلـٰهَ إِلّا أَنا۠ فَاعبُدنى وَأَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ لِذِكر‌ى ١٤... سورة طه"بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔''
مختصر یہ کہ نمازدین کا ستون اوراسلام کا دوسرا رکن ہے ۔ لیکن بہت سے لوگ اس رکن کو ادا ہی نہیں کرتے اور خودکو مسلمان کہتے ہیں ، اور بہت سے لوگ اس رکن کی ادائیگی میں بے توجہی برتتے ہیں ، اور بہت سارے لوگ اسے اداتو کرتے ہیں مگر اس میں بہت ساری عام کوتاہیاں اور غلطیاں کرتے ہیں ۔ ہم مختصرا  ان غلطیوں کی طرف نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ان سے بچاجاسکے ۔
1۔ نماز کی طرف بھاگ کر آنا
2۔ صف بندی نہ کرنا
3۔ نیت کا زبان سے کرنا
4۔ نماز میں ٹخنے ڈھانپنا
5۔ مقتدی کا نماز شروع کرنا اور امام کی متابعت نہ کرنا
6۔ رکوع و سجود کی ادائیگی میں جلدی کرنا
7۔ امام سے قبل حرکت کرنا
8۔ رکوع و سجود میں امام کی موافقت نہ کرنا
9۔ آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا
10۔ سجدوں میں پائوں کا ملانا
11۔ سجدوں میں ہاتھوں کی انگلیوں کا کھلا ہوا ہونا
12۔ دورانِ نماز تمام اعضاکا قبلہ رخ نہ کرنا
13۔ نماز باجماعت کے ہوتے ہوئے نوافل و سنن کی ادائیگی
14۔ بغیر کسی عذر کے فرض نماز کی گھر میں ادائیگی
15۔ سورۃ فاتحہ کی دو دو ، تین تین آیات بغیر وقفہ کے تلاوت کرنا
16۔ سگریٹ نوشی کے بعد مسجدمیں آنا
17۔ عورت اور مرد کی نماز میں فرق کرنا
18۔ رکوع کی رکعت کو رکعت شمار کرنا
19۔ رکوع کے بعد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ نہ پڑھنا


نوٹ : اس میں بعض ایسے امور ہیں جن میں علماء کے مابین اختلاف ہے ۔
مکمل تحریر >>

Saturday, April 26, 2014

نماز سے متعلق اہم فتاوے


                              
نماز سے متعلق اہم فتاوے
سماحۃ الشیخ عبد العزیزبن عبد اللہ بن باز ؒ
سابق مفتی اعظم سعودی عرب
                    

سوال 1:
بعض مقامات پرلمبی مدت تک کبھی لگاتار دن اورکبھی لگاتار رات ہی رہتی ہے ,اورکہیں رات اوردن اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کے اوقات کے لئے کافی ہی نہیں ہوتے , ایسے ملکوں کے باشندے نماز کس طرح اداکریں؟
جواب :
وہ مقامات جہاں رات یادن کی یہ کیفیت ہو,نیزچوبیس گھنٹے میں وہاں زوال وغروب کا نظام نہ ہو,وہاں کے باشندوں کو اپنی پنجوقتہ نمازیں اندازہ سے اداکرنا ہوگا, چنانچہ صحیح مسلم میں نواس بن سمعان t سے روایت ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا :
"ظہوردجال کے وقت پہلادن ایک سال , دوسرادن ایک ماہ ,اورتیسرادن ایک ہفتہ کے برابرہوگا, اورجب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : "ایک ایک دن کا اندازہ کرلیا کرنا"
رہے وہ مقامات جہاں رات کا بڑایاچھوٹا ہونا چوبیس گھنٹے کے اندرہوتا ہے تووہاں نمازکی ادائیگی میں کوئی اشکال نہیں, عام دنوں کی طرح ان میں بھی نمازاداکی جائیگی, خواہ رات یادن انتہائی چھوٹے ہی کیوںنہ ہوں ,کیونکہ اس سلسلہ میں جو دلیلیں وارد ہیں وہ عام ہیں , واللہ ولی التوفیق-
سوال2:
بعض لوگ فرض نمازیں اورخصوصاً ایام حج میں بحالت احرام کندھے کھول کرپڑھتےہیں ,ایساکرنا کہاں تک درست ہے ؟
جواب :
اگرانسان عاجزومجبور ہے تو کوئی حرج نہیں , اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  } (16) سورة التغابن
اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے رہو-
اورنبی r نے جابربن عبد اللہ d سے فرمایا :
"اگرکپڑا کشادہ ہو تو اسے اوڑھ لو , اوراگرتنگ ہوتو اسکا ازاربنالو"(متفق علیہ)
لیکن اگروہ دونوں یاایک کندھے کو ڈھانکنے پرقادرہے, تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق ڈھانکنا ضروری ہے , اوراگرنہیں ڈھانکا تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی , نبی r کا ارشاد ہے :
"تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اسکا کندھا کھلاہوا ہو "(متفق علیہ) واللہ ولی التوفیق-
سوال 3
:
بعض لوگ نماز فجراتنی تاخیرسے پڑھتے ہیں کہ بالکل اجالا ہوجاتا ہے , اوردلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں " نمازفجر اجالا ہوجانے پر پڑھو ,یہ اجرعظیم کا باعث ہے" کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ نیز اس حدیث کے درمیان اوراس حدیث کے درمیان جس میں اول وقت میں نماز پڑھنے کا حکم ہے, تطبیق کی کیا صورت ہوگی ؟
جواب :
مذکورہ بالا حدیث صحیح ہے جومسند احمد اورسنن اربعہ میں بروایت رافع بن خدیج t سے مروی ہے ,یہ حدیث نہ تو ان احادیث صحیحہ کے معارض ہے جن میں نبی r کے غلس (اندھیرے ) میں نماز پڑھنے کا ذکرہے ,اورنہ ہی اس حدیث کے مخالف ہے جس میں اول وقت پرنماز پڑھنے کا حکم ہے –بلکہ جمہوراہل علم کے نزدیک اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ نماز فجرمیں اتنی تاخیرکی جائے کہ فجرواضح ہوجائے اورپھر غلس (اندھیرے) کے زائل ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لی جائے , جیساکہ آپ کا معمول تھا , البتہ مزدلفہ میں فجرطلوع ہوتے ہی پڑھنا افضل ہے , کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایسا ہی کیا تھا –
اسطرح نماز فجرکے وقت کے سلسلہ میں وارد تمام حدیثوں کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے , نیز یہ اختلاف محض افضلیت میں ہے, ورنہ نماز فجرکو آخروقت تک موخرکرنا بھی جائز ہے , نبی r کا ارشاد ہے :
"نمازفجرکا وقت طلوع فجرسے لیکر سورج طلوع ہونے تک ہے"(صحیح مسلم بروایت عبد اللہ بن عمروبن العاص d)
سوال 4:
دیکھا جاتاہے کہ بعض لوگ قمیص چھوٹی اورپاجامے لمبے رکھتے ہیں ,اس بارے میں آپ کاکیا خیال ہے ؟
جواب :
سنت یہ ہے کہ سارے لباس نصف پنڈلی سے دونوں ٹخنوں کے درمیان تک ہی رکھے جائیں , ٹخنوں سے نیچے ان کا لٹکنا جائزنہیں , نبی r کا ارشاد ہے :
"ازارکا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں ہوگا" (صحیح بخاری )
اوریہی حکم تمام لباسوں کا ہے خواہ ازارہویا پاجامہ ,قمیص ہویا جبہ , اورحدیث میں ازارکا ذکر بطورمثال ہے , اس سے تخصیص مقصود نہیں , مگرافضل یہ ہے کہ سارے لباس نصف پنڈلی تک ہی رکھے جائیں , جیسا کہ نبی r کاارشاد ہے :" مومن کا ازارنصف پنڈلی تک ہوتا ہے "
سوال 5:
اگرپتہ چل جائے کہ تلاش وجستجو کے بعد بھی نماز غیرقبلہ کی جانب پڑھی گئی ہے تو ایسی نمازکا کیا حکم ہے؟ نیزیہی مسئلہ اگر مسلم ملک میں یا کافر ملک میں یا صحراء میں پیش آجائے تو کیا ہرایک کا حکم جداجدا ہے؟
جواب :
اگرکوئی شخص سفرمیں ہے ,یا ایسے ملک میں ہے جہاں اسے قبلہ کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں , پھر اس نے قبلہ کی تلاش وجستجو کرکے نماز پڑھ لی اوربعد میں معلوم ہواکہ اس نے قبلہ سے ہٹ کرنمازپڑھی ہے تو اسکی نماز صحیح ہے, لیکن اگروہ مسلم ملک میں ہے جہاں وہ لوگوں سے پوچہ کریا مسجدوں کے رخ کو دیکھکرقبلہ معلوم کرسکتا ہے تووہاں اس کی نماز درست نہیں ہوگی –
سوال 6:
بہت سےلوگ نماز شروع کرتے وقت زبان سے نیت کرتے ہیں , اسکا کیا حکم ہے ؟ اورکیا شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے ؟
جواب :
زبان سے نیت کرنے کیلئے شریعت مطہرہ میں کوئی دلیل نہیں ,نبی r اورآپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نماز شروع کرتے وقت زبان سے نیت کرنا ثابت نہیں , درحقیقت نیت کی جگہ دل ہے ,نبی r کا ارشاد ہے :
" اعمال کا دارومدارنیتوں پرہے , اورہرشخص کےلئے وہی ہے جو اسنے نیت کی ہے "( متفق علیہ بروایت امیرالمومنین عمربن الخطاب d)
سوال 7:
ديكھا جاتا ہے کہ بعض لوگ حطیم میں نمازپڑھنے کے لئے کافی بھیڑ بھاڑ کرتے ہیں ,سوال یہ ہے کہ حطیم میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ اورکیا اس کی کوئی فضیلت ہے ؟
جواب:
حطیم خانہ کعبہ ہی کا حصہ ہے اوراس میں نماز پڑھنا مستحب ہے ,جیسا کہ نبی کریم r سے ثابت ہے:
"آپ فتح مکہ کے موقع پرخانہ کعبہ میں داخل ہوئے اوراس میں دورکعت نماز ادا فرمائی " ( متفق علیہ ,بروایت ابن عمروبلال رضی اللہ عنہم)
نیزجب عائشہ رضی اللہ عنہا نے خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی رغبت ظاہر کی تو آپ نے ان سے فرمایا :
"حطیم میں نماز پڑھ لو ,یہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے "
یہ حکم نفل نمازوں کا ہے , فرض نمازوں کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ انہیں خانہ کعبہ یا حطیم میں نہ اداکیا جائے , کیونکہ نبی r   سے یہ عمل ثابت نہیں , نیزبعض علماء کا یہ قول ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر , اورچونکہ حطیم خانہ کعبہ ہی کا حصہ ہے اسلئے حطیم میں بھی فرض نماز ادا کرنا درست نہیں , پس معلوم ہوا کہ علماء کے اختلاف سے بچ کر سنت کی اتباع کرتے ہوئے فرض نمازوں کا خانہ کعبہ اورحطیم کے باہر ہی اداکرنا مشروع ہے –واللہ ولی التوفیق-
سوال 8:
بعض عورتیں حیض اوراستحاضہ کے درمیان فرق نہیں کرتیں , چنانچہ بسا اوقات استحاضہ کی وجہ سے لگاتارخون جاری رہتا ہے اورجب تک خون بند نہیں ہوجاتا  وہ نماز نہیں پڑھتیں , اس سلسلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب :
حیض وہ خون ہے جو عموماً ہرماہ دستورالہی کے مطابق عورتوں کے رحم سے جاری ہوتا ہے ,جیساکہ رسول اللہ r کی صحیح حدیث میں مذکورہے (اوراستحاضہ وہ خون ہے جوعورت کے رحم کے اندرکسی رگ  میںفساد وخلل پیدا ہوجانے سے جاری ہوتا ہے ) اس سلسلہ میں مستحاضہ عورت کی تین حالتیں ہیں:
1-اگراسے پہلی باریہ خون آیا ہے یعنی پہلے سے اس کی کوئی اپنی عادت نہیں , تووہ ہرمہینہ میں پندرہ دن ,یا جمہورعلماءکے قول کے مطابق  اس سے کچہ کم ,جب تک پاک نہیں ہوجاتی نماز, روزہ اورشوہرکے ساتہ ہمبستری سے دوررہے گی ,اگرپندرہ دن کے بعد بھی خون آرہا ہے تووہ مستحاضہ ہے, اورایسی حالت میں اپنے خاندان کی ہم عمرعورتوں کے ایام حیض پرقیاس کرکے چہ یا سات دن خود کو حائضہ شمار کرے گی , مگریہ اس صورت میں ہے جب اسے حیض اوراستحاضہ کے درمیا ن تمییز نہ ہو-
2-اگروہ حیض اوراستحاضہ کے درمیان رنگ یا بو کے ذریعہ فرق کرلیتی ہے توجب تک حیض کے خون کی علامت پائی جائے وہ نماز ,روزہ اورشوہرکے ساتہ ہمبستری سےدوررہے اورپھرغسل کرکے نمازپڑھنا شروع کردے ,بشرطیکہ یہ مدت پندرہ دن سے زیادہ نہ ہو-
3-اگر پہلے سے اس کی کوئی اپنی معروف عادت ہے تو وہ اپنی عادت کے بقدرنماز,روزہ اورشوہرکے ساتہ ہمبستری سے دوررہنے کےبعد غسل کرلے اورجب خون جاری ہوتو وقت ہوجانے کے بعد ہرنماز کے لئے وضو کرے ,اورجب تک اگلے مہینہ کا حیض نہیں آجاتا وہ اپنے شوہرکے لئے حلال ہوگی-
یہ ہے مستحاضہ عورت کے سلسلہ میں وارد حدیثوں کا خلاصہ ,جسے حافظ ابن حجررحمہ اللہ –نے بلوغ المرام میں ارومجد بن تیمیہ –رحمہ اللہ – نے "المنتقى" میں ذکرکیا ہے –
سوال 9:
ایک شخص کی ظہرکی نمازفوت ہوگئی اوراسے اس وقت یاد آیا جب نمازعصرکے لئے اقامت ہوچکی ,کیا وہ عصرکی نیت سے جماعت میں شامل ہویا ظہرکی نیت سے ؟ یاپہلے تنہا ظہرپڑھے پھرعصرپڑھے ؟ نیزفقہائے کرام کے اس قول کا کیا مطلب ہے :"موجودہ نمازکے فوت ہونے کا اندیشہ ہوتوترتیب ساقط ہوجاتی ہے "اورکیا جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوتوترتیب ساقط ہوگی؟
جواب:
سوال میں مذکور شخص کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ ظہرکی نیت سے جماعت میں شامل ہوجائے , پھراسکے بعد عصرکی نماز پڑھے کیونکہ ترتیب واجب ہے ,اورجماعت کے فوت ہونے کے اندیشہ سے ترتیب ساقط نہیں ہوگی , رہا  فقہائے کرام کا مذکورہ بالاقول ,تواسکا مطلب یہ ہے کہ اگرکسی شخص کی کوئی نماز چھوٹی ہوئی ہے تو اسکے لئے ضروری ہے کہ وہ اسے موجود ہ نمازسے پہلے پڑھے , لیکن اگرموجودہ نمازکا وقت تنگ ہے توپہلے موجودہ نمازہی پڑھے ,مثلاً اس کی عشاء کی نماز چھوٹی ہوئی ہے اوراسے طلوع آفتاب  سے کچہ پہلے یاد آیا , جبکہ اس دن کی فجربھی اس نے نہیں پڑھی ہے ,تو ایسی صورت میں وقت فوت ہونے سے پہلے پہلے وہ نماز فجراداکرلے ,کیونکہ وقت اسی کا ہے , پھرعشاء پڑھے –
سوال 10:
بہت سی عورتیں لاپرواہی سے نماز میں اپنے دونوں بازویا انکا کچہ حصہ اورکبھی پاؤں اورپنڈلی کا کچہ حصہ کھلارکھتی ہیں , کیا ایسی حالت میں ان کی نماز درست ہے؟
جواب:
مکلف اورآزاد عورت کیلئے نماز میں دونوں ہتھیلیوں اورچہرہ کے علاوہ سارے بدن کا ڈھانکنا ضروری ہے ,کیونکہ عورت سراپا پردہ ہے ,اگروہ اپنے جسم کا کوئی حصہ مثلاً پنڈلی ,پاؤں اورسروغیرہ کھول کر نمازپڑھے تواسکی نماز صحیح نہیں ہوگی , نبی  rکا ارشاد ہے:
 "اللہ کسی بالغ عورت کی نماز دوپٹہ کے بغیرقبول نہیں فرماتا"(اس حدیث کو اما م احمد,ترمذی ,ابوداؤداورابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے )
اورآپکا ارشاد بھی ہے :
"عورت سراپا پردہ ہے "
نیزسنن ابی داؤد میں ہے کہ ایک موقع پرام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی  rسے دریافت کیا :کیا عورت بغیرازارکے قمیص اوردوپٹہ میں نماز پڑھ سکتی ہے ؟ توآپ نے فرمایا :"ہاں ,بشرطیکہ قمیص اتنی لمبی ہو کہ اس سے دونوں پاؤں ڈھکے ہوئے ہوں "
 حافظ ابن حجر-رحمہ اللہ – بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ ائمہ نے اس حدیث کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا پرموقوف ہونا صحیح قراردیا ہے –
اوراگرعورت کے قریب میں کوئی اجنبی مردہو تو چہرہ اور ہتھیلیوں کا   ڈھانکنا  بھی ضروری  ہے –
سوال 11:
عورت اگرعصریا عشاء کے وقت حیض سے پاک ہوتوکیا اسے عصر کے ساتہ ظہراورعشاء کے ساتہ مغرب کی نمازیں بھی پڑھنا ہوگا ,کیونکہ بحالت عذران نمازوں کے درمیان جمع کیا جاتا ہے ؟
جواب:
عورت اگرعصریاعشاء کے وقت حیض یانفاس سے پاک ہو تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اسے عصر کے ساتہ ظہراورعشاء کے ساتہ مغرب کی نمازبھی اداکرنا ضروری ہے ,کیونکہ  دیرسے پاکی حاصل ہونے کیوجہ سے یہ بھی مسافراورمریض کی طرح معذور ہے , اورمعذور کیلئے دونوں نمازوں کا وقت ایک ہے ,صحابۂ کرام کی ایک جماعت کا یہی فتوى' ہے-
سوال 12:
جس مسجد کے اندر,یا اس کے صحن میں ,یاقبلہ کی جانب کوئی قبرہواس میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب :
جس مسجد میں کوئی قبرہو اس میں نماز پڑھنا درست نہیں ,خواہ وہ قبرنمازیوں کے آگے ہویاپیچھے ,دائیں ہویابائیں, نبی r کا ارشاد ہے :
" یہودونصارى' پراللہ کی لعنت ہو ,انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گابنالیا "(متفق علیہ)
ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا :
" سنو! تم سے پہلے کے لوگ اپنے نبیوں اوربزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتے تھے ,خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا, میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں " (صحیح مسلم)
نیزقبرکے پاس نمازپڑھنا شرک اورمردوں کے حق میں غلو کا سبب ہے ,لہذا مذکورہ بالادونوں حدیثوں اوراس مفہوم کی دیگراحادیث پرعمل کرتے ہوئے اورشرک کے اسباب ووسائل کا سدباب کرنے کی خاطراس کی ممانعت ضروری ہے –
سوال 13:
بہت سے مزدورظہراورعصرکی نمازیں موخرکرکے رات میں پڑھتے ہیں ,اوریہ عذرپیش کرتے ہیں کہ وہ کام میں مشغول تھے انکے کپڑے ناپاک یا میلے تھے ,آپ انہیں اس سلسلہ میں کیا نصیحت فرماتے ہیں؟
جواب:
کسی مسلمان کے لئے خواہ مرد ہویا عورت ,فرض نماز کووقت سے موخرکرنا جائزنہیں ,پلکہ بقدراستطاعت وقت پراداکرنا واجب ہے ,کام کی مصروفیت یا کپڑوں کا ناپاک یا میلا ہونا نماز میں تاخیرکے لئے کوئی عذرنہیں , نیزنمازکے اوقات کو کام کے اوقات سے مستثنى رکھنا ضروری ہے , نمازکے اوقات میں کام کرنے والوں کو چاہئیے کہ کپڑوں کی نجاست دورکرکے , یاپاک کپڑے بدل کرنماز اداکرلیں , رہاکپڑوں کا میلا ہونا تویہ نماز سے مانع نہیں , بشرطیکہ یہ نجاست کے قبیل سے نہ ہو,یا اس میں کوئی ایسی بدبو نہ ہو جس سے نمازیوں کو تکلیف پہنچے ,لیکن اگرمیل کچیل سے یا اس کی بدبو سے نمازیوں کو تکلیف پہنچتی ہے تواسے دھل کریاصاف ستھرے کپڑے بدل کرجماعت کے ساتہ نمازاداکرنا واجب ہے , البتہ مسافراورمریض جوشرعی طورپرمعذور ہیں انکے لئے ظہروعصرکوایک ساتہ ,اورمغرب وعشاء کوایک ساتہ جمع کرکے پڑھنا جائزہے ,جیسا کہ نبی r کی سنت ہے , اورایسے ہی اگربارش اورکیچڑ لوگوں کے لیے مشقت کا باعث ہوں تب بھی جمع کرنا جائز ہے –
سوال14:
جوشخص نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اپنے کپڑوں میں نجاست پائے توکیا اسے نمازدھرانا ہوگی؟
جواب :
 اگرکسی شخص نے نادانستہ طورپرجسم یاپوشاک کی نجاست کے ساتہ نمازاداکرلی اوراسے اسکا علم نمازسے فارغ ہونے کے بعد ہوا ,توعلماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اس کی نمازصحیح ہے , اسی طرح اگراسے نمازسے قبل نجاست کا علم تھا مگرنمازکے وقت بھول گیا اورنمازکے بعد یاد آیا تب بھی اس کی نماز درست ہے ,اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا  [ (286) سورة البقرة
اےہمارے رب ! ہم اگربھول گئے یا غلطی کربیٹھے توہماری گرفت نہ فرما –
اورصحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالى نے جواب میں فرمایا :" میں نے قبول کرلیا"

نیز ایک باررسول r نے جوتوں میں نمازشروع کی ,اتفاق سے جوتے میں گندگی لگی تھی , جبرئیل علیہ السلام نے جب آپ کو آگاہ کیا توآپ نے جوتوں کو نکال کراپنی نمازجاری رکھی اورنئے سرے سے نمازکا اعادہ نہیں کیا ,یہ اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آسانی اوررحمت ہے , مگرجس نے بھول کربے وضو نمازاداکرلی اسے اہل علم کے اجماع کے مطابق نماز دہرانا ہوگی , نبی کریم r کا ارشاد ہے :
"بغیروضو نہ توکوئی نمازقبول ہوتی ہے اورنہ خیانت کے مال کا کوئی صدقہ"
(صحیح مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپ کا ارشاد ہے ;
"تم میں سے اگرکسی شخص کا وضوٹوٹ جائے تو جب تک وہ دوبارہ وضونہ کرلے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی "(متفق علیہ )
سوال15:
موجودہ دورمیں بہت سے لوگ نماز کی ادائیگی میں سستی برتتے ہیں ,اوربعض توایسے ہیں جوبالکل پڑھتے ہی نہیں ,ایسے لوگوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ نیزان لوگوں کے تعلق سے ایک مسلمان اورخصوصاً اسکے والدین ,اہل وعیال اوردیگرعزیزواقارب پرکیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
جواب :
 نماز میں سستی برتنا بہت بڑا گناہ نیزمنافقوں کی خصلت ہے,اللہ تعالى کا ارشاد ہے  :
] إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلاَةِ قَامُواْ كُسَالَى يُرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيلاً} (142) سورة النساء
بے شک منافق اللہ کےساتہ دھوکہ بازی کرتے ہیں ,حالانکہ اللہ نے ہی انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ,اورجب یہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توالکساتے ہوئے , لوگوں کو دکھاتے ہیں , اوریہ اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ,
نیزمنافقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
] وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلاَّ أَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلاَ يَأْتُونَ الصَّلاَةَ إِلاَّ وَهُمْ كُسَالَى وَلاَ يُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ كَارِهُونَ} (54) سورة التوبة
اوران کیطرف سے ان کی خیرات کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اللہ اوراسکے رسول کے ساتہ کفرکیا , اوریہ نماز کے لئے نہیں آتے مگرالکساتے ہوئے ,اوراللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں توبرے دل سے –
نیز نبی r نے ارشاد فرمایا:
" منافقوں پرسب  سے گراں عشاء اورفجرکی نماز ہے ,اوراگرانہیں ان کے اجروثواب کا علم ہوجائے تو کبھی پیچھے نہ رہیں گے , چاھے سرین کے بل گھسٹ کرہی کیوں نہ آنا پڑے" (متفق علیہ)
لہذا ہرمسلمان مردوعورت پرسکون واطمینان ,خشوع وخضوع اورحضورقلب کے ساتہ وقت پرپنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی واجب ہے , اللہ تعالى کا ارشاد ہے :   ] قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ} (1-2) سورة المؤمنون
فلا ح یاب ہوگئے وہ مومن جواپنی نمازمیں خشوع برتتے ہیں –
اورصحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جب ایک نابینا صحابی نے اپنی نماز غلط طریقے سے اداکی اوراس میں اطمینان وسکون ملحوظ نہیں رکھا توآپ نے انہیں نماز دھرانے کا حکم دیا-
مردوں کے لئے خاص طورپرمسجد میں مسلمانوں کے ساتہ باجماعت نمازاداکرنا ضروری ہے ,جیسا کہ نبی r کا ارشادہے:
"جوشخص اذان سن کربلاعذر مسجد نہ آئے اس کی نماز درست نہیں"(اسے ابن ماجہ ,دارقطنی ,ابن حبان اورحاکم نے بسند صحیح روایت کیا ہے )-
اورجب عبد اللہ بن عباس d سے دریافت کیا گیا کہ عذرکیا ہے؟ توفرمایا ":خوف یا بیماری"
اسی طرح صحیح مسلم میں ابوھریرہ t سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی نبی r کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے مسجد لے جانے والا کوئی نہیں ,توکیا میرے لئے اجازت ہے کہ اپنے گھرہی میں نمازپڑھ لیاکروں؟ آپ نے انہیں اجازت دیدی, مگرجب وہ واپس چلے تو پھرانہیں بلایا اورپوچھا :"کیا تم اذان سنتے ہو ؟جواب دیا :ہاں, آپ نے فرمایا :"پھرتومسجد میں آکرہی نمازپڑھو"-
نیزابوھریرہ t ہی سے ایک دوسری روایت ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا :
"میں نے ارادہ کیاکہ حکم دوں اورنماز قائم کی جائے اورکسی شخص کو مقررکردوں جولوگوں کو نمازپڑھائے ,پھرمیں کچہ لوگوں کو لےکرجن کے ساتہ لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان لوگوں کے پاس جاؤں جوجماعت میں حاضرنہیں ہوتے ,اورانکے ساتہ ان کے گھروں کوآگ لگادوں"(متفق علیہ)
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت مردوں کے حق میں واجب ہے, اورجماعت سے پیچھے رہنے والا عبرتناک سزاکامستحق ہے , دعا ہے کہ اللہ تعالى تمام مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اوراپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے (آمین)
رہا سرے سے نمازہی چھوڑدینا ,چاہے کبھی کبھارہی کیوں نہ ہو ,توعلماء کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ کفراکبرہے بھلے ہی وہ نماز کے وجوب کا منکرنہ ہو, اوراس حکم میں مردوعورت دونوں یکساں ہیں, نبی r کا ارشاد ہے :
"آدمی اورکفروشرک کے درمیان نمازچھوڑنے کا فرق ہے "(صحیح مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا :
" ہمارے اوران(کافروں) کے درمیان نماز کا فرق ہے ,توجس نے نماز چھوڑدی اس نے کفرکیا " (اس حدیث کو امام احمد اورائمہ سنن نے صحیح سند کے ساتہ روایت کیا ہے)
نیز اس مفہوم کی اوربھی بہت سی حدیثیں وارد ہیں –
مگرجوشخص نماز کے وجوب کا منکرہو بھلے ہی وہ نمازپڑھتا ہو, تو اہل علم کے اجماع کے مطابق وہ کافرہے – اللہ تعالی ہمیں اورتمام مسلمانوں کو اس بری خصلت سے محفوظ رکھے (آمین)
تمام مسلمانوں کیلئے باہم حق بات کی نصیحت کرنا نیزنیکی اورتقوى' کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ضروری ہے ,چنانچہ جوشخص نمازسے پیچھے رہتا ,یا نمازمیں سستی کرتا , بعض اوقات بالکل نمازپڑھتا ہی نہ ہو اسے اللہ کے غضب وعقاب سے ڈرناچاہئے ,خصوصاً اس کے ماں ,باپ, بھائی ,بہن, اورگھروالوں کو اسے برابرنصیحت کرتےرہنا چاہئے , یہاں تک کہ وہ راہ راست پرآجائے , ایسے ہی اگرعورتیں نماز میں سستی کریں یاچھوڑدیں ,تو انہیں بھی نصیحت کرتے ہوئے اللہ کی ناراضگی اوراسکے عقاب سے ڈرانا چاہئے ,بلکہ نصیحت نہ قبول کرنے کی صورت میں ان کا بائیکاٹ کرنا اوران کے ساتہ مناسب تادیبی کارروائی کرنا بھی ضروری ہے ,کیونکہ یہی باہمی تعاون اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکا تقاضا ہے جسے اللہ تعالى نے اپنے بندوں پرواجب قراردیا ہے , اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
)  وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ} (71) سورة التوبة
مسلمان مرد اورمسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگارہیں ,یہ بھلی بات کا حکم دیتے اوربری بات سے روکتے ہیں اورنمازقائم کرتے ہیں اورزکو'ۃ دیتے ہیں ,اوراللہ اوراسکے رسول کا کہا مانتے ہیں ,یہی وہ لوگ ہیں جن پراللہ رحم کرے گا , بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے –
اورنبی r نے ارشاد فرمایا :
" جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں توانہیں نمازپڑھنے کا حکم دو, اوردس سال کی عمرمیں نماز نہ پڑھیں توانہیں مارو اورانکے بسترعلیحدہ کردو"
مذکورہ حدیث میں جب سات سال کے بچوں اوربچیوں کونمازکاحکم ,اوردس برس کی عمرمیں نمازچھوڑنے پرمارنے کا حکم دیا جارہا ہے توبالغ شخص کونماز کا حکم دینا ,نیزسستی وکوتاہی پرنصیحت کرتے ہوئے اسکے ساتہ مناسب تادیبی کارروائی کرنا بدرجۂاولی واجب ہوگا-
آپس میں حق بات کی تلقین اورحق کی راہ میں پیش آمدہ مصائب پرصبروتحمل ضروری ہے ,کیونکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
) وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ [   (1-3) سورة العصر
قسم ہے عصرکے وقت کی ,بیشک سارے انسان گھاٹے میں ہیں ,مگروہ لوگ جو ایمان لائے , اچھے کام کئے اورایک دوسرے کوحق پرچلنے کی اورمصیبت میں صبرکرنے کی تلقین کرتے رہے –
اورجوشخص بالغ ہوجانے کے بعد نمازنہ پڑھے اورنہ ہی نصیحت قبول کرے ,تو اسکا معاملہ شرعی عدالت میں پیش کیا جائیگا , تاکہ اس سے توبہ کرائی جائے ,اگرتوبہ کرکے راہ راست پرآجاتا ہے تو ٹھیک ,ورنہ اسے قتل کردیا جائیگا ,
دعا ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں کے حالات درست فرمائے ,انہیں دین کی سمجہ دے , نیکی وتقوى' کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے ,بھلی بات کا حکم دینے ,بری بات سے روکنے ,حق بات کی تلقین اورراہ حق میں پیش آمدہ مصائب پرصبرکرنے کی توفیق عطافرمائے –
سوال 16:
بعض لوگ گاڑی وغیرہ کے حادثے سے دوچارہونے کے سبب چند دنوں کے لئے اپنا دماغی توازن کھوبیٹھتے ہیں ,یا ان پربیہوشی طاری رہتی ہے ,کیا ہوش وحواس درست ہوجانے کے بعد ایسے لوگوں پرفوت شدہ نمازوں کی قضا واجب ہے ؟
جواب:
اگریہ کیفیت تین دن یا اس سے کم مدت کیلئے ہو,تونماز کی قضا واجب ہے ,کیونکہ مذکورہ مدت کی بیہوشی نیند کے مشابہ ہے اورنیند قضاسے مانع نہیں ,جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ وہ تین دن سے کم مدت کے لئے بے ہوشی کے شکارہوئے اورفوت شدہ نمازوں کی قضا کی –
لیکن اگریہ کیفیت تین دن سے زیادہ مدت کے لئے ہوتو فوت شدہ نمازوں کی قضا نہیں ,نبی r کا ارشادہے :
"تین قسم کے لوگوں سے قلم کو روک لیا گیا ہے : سونے والایہاں تک کہ بیدارہوجائے ,بچہ یہاں تک کہ بالغ ہوجائے ,اورپاگل یہاں تک کہ اسکے ہوش وحواس درست ہوجائیں "
اورمذکورہ مدت کی بے ہوشی جنون (پاگل پن) کے مشابہ ہے ,کیونکہ دونوں صورتوں میں عقل زائل ہوتی ہے ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 17:
بہت سے مریض نماز کی ادائیگی میں سستی برتتے ہیں اورکہتے ہیں کہ شفایاب ہونے کے بعد قضا کرلیں گے ,اوربعض پاکی وطہارت پرقادرنہ ہونے کا بہانہ بناتے ہیں , ایسے لوگوں کو آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب:
جب تک ہوش وحواس درست ہوں تو محض اس دلیل سے کہ طہارت حاصل کرنے پرقدرت نہیں ,بیماری نمازکی ادائیگی سے مانع نہیں ہے , بلکہ مریض پراپنی طاقت کے مطابق نماز اداکرنا واجب ہے , پانی سے طہارت حاصل کرسکتا ہے توپانی سے طہارت حاصل کرے ,ورنہ تیمم کرکے نمازپڑھے ,نیز نماز کے وقت جسم اورلباس سے ناپاکی دھل لے ,یاپاک وصاف کپڑے بدل لے , اگرنجاست دھلنے یا پاک کپڑے بدلنے کی بھی طاقت نہیں تواپنی اسی حالت میں نماز پڑھ لے ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
] فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  } (16) سورة التغابن
اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے رہو –
اورنبی r  نے ارشاد فرمایا :
"جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تواسے اپنی طاقت کے مطابق بجالاؤ"(بخاری ومسلم)
ایسے ہی جب عمران بن حصین
t نے نبی r سے اپنی بیماری کا شکوہ کیا تو آپ نے انہیں حکم دیتے ہوئے فرمایا :

" نمارکھڑے ہوکرپڑھا کرو, اگرکھڑے نہیں ہوسکتے توبیٹہ کر,اوربیٹہ بھی نہیں سکتے توکروٹ کے بل"
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے ,اس حدیث کونسائی نے بھی صحیح سند کے ساتہ روایت کیا ہے جس میں اتنا اضافہ ہے :
"اگرکروٹ کے بل بھی طاقت نہیں توچت لیٹ کر"
سوال18:
ایک شخص نے جان بوجھکرایک یاایک سے زیادہ وقت کی نمازیں چھوڑدیں ,مگربعد میں اس نے اللہ تعالی کی توفیق سے سچی توبہ کرلی ,کیا وہ چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا کرے ؟
جواب:
علماءکے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجہ کرچھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا ضروری نہیں ,کیونکہ جان بوجہ کرنماز چھوڑنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوکرکافروں کے زمرہ میں آجاتاہے , اورکافرکواسلام لانے کے بعد حالت کفرکی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں کرنا ہے ,نبی r کا ارشاد ہے :
" آدمی کے اورکفروشرک کے درمیان نمازچھوڑنے کا فرق ہے "(صحیح مسلم) ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا :
" ہمارے اوران (کافروں) کے درمیان نمازکا فرق ہے ,توجس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفرکیا " (مسند احمد وسنن اربعہ, بروایت بریدہ بن حصیب t)
نیز نبی  rنے ان لوگوں کو جو کفرسے نکل کراسلام میں داخل ہوئے حالت کفرکی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا ,اورنہ ہی صحابۂ کرام نے مرتدین کو دوبارہ اسلام میں واپس ہونے کے بعد حالت ارتداد کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضاکا حکم دیا , لیکن جان بوجہ کرنمازچھوڑنے والا اگرنماز کے وجوب کا منکرنہیں تو قضا کرنے میں کوئی حرج نہیں , کیونکہ اسی میں احتیاط نیزاختلاف سے نجات ہے , جیساکہ اکثراہل علم اس شخص کو نماز چھوڑنے پرکافرنہیں گردانتے جونماز کے وجوب کا قائل ہو ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 19:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگراول وقت پراذان نہیں دی گئی توبعد میں اذان دینے کی کوئی ضرورت نہیں ,کیونکہ اذان دینے کا مقصد لوگوں کونمازکے وقت کی اطلاع دینا ہے , اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ اورکیا صحراء وبیابان میں تنہا شخص کے لئے اذان دینا مشروع ہے؟
جواب :
جہاں بہت سارے موذن موجود ہوں جنکی اذان سے مقصد حاصل ہوگیا ہو,وہاں اگرکسی موذن نے اول وقت پراذان نہیں دی توبعد میں اذان دینا اس کے لئے مشروع نہیں ,ہاں معمولی تاخیرکی صورت میں اذان دی جاسکتی ہے –
البتہ اگرشہرمیں اسکے علاوہ کوئی دوسراموذن نہیں ہے تو ایسی حالت میں کچہ دیرہی سے سہی , اذان دینا واجب ہے , کیونکہ اذان دینا فرض کفایہ ہے , اورجب اسکے علاوہ کوئی دوسرا اذان دینے والا نہیں تویہ ذمہ داری اسکے اوپرواجب ہے ,نیز اسلئے بھی کہ اس صورت میں اذان دینا ضروری ہے کہ عام طورپرلوگوں کواذان کا انتظاررہتا ہے –
رہا مسافرتو اسکے لئے اذان دینا مشروع ہے , چاھے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو ,جیساکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ابوسعید خدری t ایک شخص کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
"جب تو صحراوبیابان میں ہویااپنی بکریوں میں ہو توبلندآوازسے اذان دے لیاکر, کیونکہ موذن کی آوازجس جس مخلوق نے سنا خواہ انسان ہو یا جن یا کوئی اورمخلوق ,وہ سب کے سب قیامت کے دن اس کے لئے گواہی دیں گے"-
ابوسعید خدری t نے اس روایت کو مرفوع قراردیا ہے –
 نیزمسافرکے لئے اذان دینا اسلئے بھی مشروع ہے کہ اذان کی مشروعیت اوراس کی افادیت کے سلسلہ میں وارد تمام حدیثیں عام ہیں –
سوال 20:
کیا صرف عورتوں کے لئے خواہ سفرمیں ہوں یا حضرمیں , تنہا یا باجماعت نمازپڑہنے کے لئے اذان دینا اوراقامت مشروع ہے ؟
جواب :
عورتوں کے لئے اذان اوراقامت مشروع نہیں ,خواہ سفرمیں ہوں یا حضرمیں ,بلکہ اذان اوراقامت مردوں کے لئے خاص ہے ,جیساکہ نبی r کی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے –
سوال 21:
کسی تنہا شخص نے یا کسی جماعت نے بھول کربلا اقامت نمازپڑھ لی ,توکیا اس سے نماز متاثرہوگی ؟
جواب :
جونمازبھول کربلا اقامت پڑھ لی جائے وہ درست ہے ,خواہ کسی تنہا شخص نے پڑھی ہویا کسی جماعت نے ,اسی طرح اگربلا اذان کے نمازپڑھ لی جائے تب بھی نماز درست ہے ,مگرجن سے اذان اوراقامت چھوٹی ہے انہیں اللہ سے توبہ کرنی چاہئے ,کیونکہ اذان اوراقامت فرض کفایہ اوراصل نمازسے خارج ہیں , اورفرض کفایہ کا حکم یہ ہے کہ اگربعض نے اسے انجام دیدیا توباقی لوگوں سے یہ ذمہ داری ساقط ہوجائیگی ,اوراگرسب نے چھوڑدیا توسب کے سب گنہگارہوں گے , پس اذان اوراقامت کا بھی یہی حکم ہے ,اگرکسی نے انہیں انجام دیدیا توباقی لوگوں سے انکا وجوب اورگناہ ساقط ہوجائے گا, خواہ وہ سفرمیں ہوں یا حضر میں , شہرمیں ہوں یا گاؤں اوردیہات میں ,دعا ہے کہ اللہ تعالى تمام مسلمانوں کواپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے (آمین)
سوال 22:
فجركي اذان میں "الصلو'ۃ خیرمن النوم " کہنے کی کیا دلیل ہے؟ نیزبعض لوگ اذان میں "حیَّ علی خیرالعمل" کا اضافہ کرتے ہیں –کیا شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے ؟
جواب:
نبی r  سے ثابت ہے کہ آپ نے بلال اورابومحذورہ d کو فجرکی اذان میں "الصلو'ۃ خیرمن النوم" کہنے کا حکم دیا تھا, اورانس t سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
فجرکی اذان مین "الصلو'ۃ خیرمن النوم "  کہنا سنت ہے (صحیح ابن خزیمہ)
علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ کلمات اس اذان میں کہے جائیں گے جوصبح صادق کے طلوع ہونے کے وقت دی جاتی ہے , اوراقامت کے بہ نسبت یہی اذان اول اوراقامت اذان ثانی ہے , جیسا کہ نبی r کا ارشاد ہے :
" ہردواذانوں کے درمیان نمازہے "
صحیح بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث مروی ہے –
رہا اذان میں بعض شیعوں کا "حیَّ عَلَىْ خَیْرِ العَمَل " کا اضافہ کرنا ,تویہ سراسربدعت ہے , احادیث صحیحہ میں اسکی کوئی اصل نہیں ,دعا ہے کہ اللہ تعالى انہیں اورتمام مسلمانوں کو سنت نبوی کی اتباع کرنے اوراس پرمضبوطی کے ساتہ کاربند رہنے کی توفیق دے , یہی راہ نجات اورسعادت کے حصول کا ذریعہ ہے – واللہ ولی التوفیق-
سوال 23:
حدیث میں وارد ہے کہ نماز کسوف کے لئے "الصلاۃ جامعہ "کہ کرمنادی کی جائے ,کیا یہ کلمہ ایک بارکہا جائے یاباربارکہنا مشروع ہے؟
 اوراگرتکرارمشروع ہے تواسکی کیا حد ہے؟
جواب :
نبی r سے ثابت ہے کہ آپ نے نماز کسوف کے لئے " الصلاۃ جامعہ" کہ کرمنادی کرنے کا حکم دیا ہے , سنت یہ ہے کہ منادی کرنے والا اس کلمہ کو بارباردہرائے, یہاں تک کہ اسے یقین ہوجائے کہ لوگوں نے سن لیا ہے –ہمارے علم کے مطابق اس کی کوئی حد متعین نہیں ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 24:
بہت سے لوگ سترہ کے معاملہ میں شدت برتتے ہیں ,یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد اگرانہیں سترہ بنانے کے لئے کوئی ستون خالی نہ ملا تو انتظارمیں ٹہرے رہتے ہیں , اوربغیرسترہ کے نماز پڑھنے والے پرنکیرکرتے ہیں , جبکہ بعض لوگ ان کے برعکس سترہ کے معاملہ میں سستی برتتے ہیں , اس سلسلہ میں حق بات کیا ہے ؟ اوراگرسترہ رکھنے کے لئے کوئی چیز نہ ملے تو کیا لکیرسترہ کے قائم مقام ہوسکتی ہے ؟ اورکیا شریعت میں اس کی کوئی دلیل ہے؟
جواب:
سترہ رکھ کرنماز پڑھنا واجب نہیں بلکہ سنت موکدہ ہے ,اگرکوئی چیز گاڑنے کے لئے نہ ملے تولکیرکھینچ لینا کافی ہے , اوراسکی دلیل درج ذیل احادیث ہیں ,چنانچہ نبی r کا ارشاد ہے :
"جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے توسامنے سترہ رکہ لے اوراس سے قریب ہوکرنماز پڑھے "( سنن ابوداؤد بسند صحیح)
ایک دوسری حدیث میں آپ کا ارشاد ہے :
"نمازی کے سامنے اگرکجاوہ کی آخری لکڑی کے مانند کوئی چیز نہ ہوتواسکی نماز کو عورت ,گدھا اورکالاکتّا سامنے سے گزرکرکاٹ دیتے ہیں " (صحیح مسلم)
ایک تیسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے ,اگرکچہ نہ پائے تولاٹھی ہی گاڑلے , اوراگریہ بھی نہ ہوسکے توایک لکیرہی کھنچ دے , پھرسامنے سے کسی چیز کے گزرنےپراسے کوئی نقصان نہیں ہوگا" (مسند احمد اورابن ماجہ بسند حسن)
حافظ ابن حجر-رحمہ اللہ – بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ نبی r  سے ثابت ہے کہ آپ نے بعض اوقات بغیرسترہ کے نماز پڑھی ہے , جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ سترہ رکھنا واجب نہیں –
البتہ مسجد حرام کی نماز اس حکم سے مستثنی ہے ,مسجد حرام میں نمازپڑھنے والے کو سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں ,جیساکہ عبد اللہ بن زبیرd سے ثابت ہے کہ وہ مسجد حرام میں بلا سترہ کے نماز پڑھتے تھے اورطواف کرنے والے ان کے سامنے سے گزرتے رہتے تھے, اسی طرح نبی r سے بھی اس مفہوم کی ایک حدیث مروی ہے مگراس کی سند ضعیف ہے –
سترہ کی مشروعیت مسجد حرام میں اس لئے بھی ساقط ہے کہ مسجد حرام میں عموماً بھیڑبھاڑہوتی ہے اورنمازی کے آگے سے گزرنے سے بچنا نا ممکن ہوتا ہے ,نیز بھیڑبھاڑ کے اوقات میں مسجد نبوی اوردیگرمسجدوں کا بھی یہی حکم ہے ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
] فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  } (16) سورة التغابن
اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے رہو-
اورنی r   نے ارشاد فرمایا:
" جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تواسے اپنی طاقت کے مطابق بجالاؤ"(متفق علیہ)
سوال 25:
بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ نماز میں بحالت قیام اپنے ہاتوں کو ناف کے نیچے باندھتے ہیں ,اوربعض لوگ سینے کے اوپررکھتے ہیں اورناف کے نیچے باندھنے والوں پرسخت نکیرکرتے ہیں , اوربعض داڑھی کے نیچے باندھتے ہیں ,اوربعض سرے سے باندھتے ہی نہیں ,بلکہ لٹکائے رکھتے ہیں ,تواس سلسلہ میں مسئلہ صحیح کیا ہے؟
جواب :
افضل یہ ہے کہ نماز میں بحالت قیام رکوع کے پہلے اوررکوع کے بعد دائیں ہتھیلی کوبائیں ہتھیلی پررکہ کرسینہ پرباندھا جائے , جیساکہ وائل بن حجر,قبیصہ بن ہلب طائی ,اورسہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہم کی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے –
رہی بات ناف کے نیچے ہاتہ باندھنے کی, تواس سلسلہ میں علی t سے ایک ضعیف حدیث مروی ہے ,مگرداڑھی کے نیچے ہاتہ باندھنا ,یا لٹکائے رکھنا خلاف سنت ہے , واللہ ولی التوفیق –
سوال 26:
بہت سے لوگ جلسۂ استراحت کا اہتمام کرتے ہیں اوراگرکسی نے نہ کیا تو اس پراعتراض کرتے ہیں ,تو اسکا کیا حکم ہے ؟ اورکیا یہ منفرد کی طرح امام اورمقتدی کے لئے مشروع ہے ؟
جواب :
جلسۂ استراحت امام ,مقتدی اورمنفردسب کے لئے مستحب ہے , اوریہ دونوں سجدوں کے بعد ایک ہلکاسا جلسہ(بیٹھنا) ہے جس کی مقدار وہی ہے جودونوں سجدوں کے درمیان کے جلسہ کی ہے ,اسمیں کوئی ذکرودعا مشروع نہیں, اگرکسی نے نہیں بھی کیا توکوئی حرج نہیں ,جلسۂ استراحت کے سلسلہ میں نبی r سے متعدد احادیث وارد ہیں جومالک بن حویرث ,ابوحمید ساعدی اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے مروی ہیں ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 27:
هوائي جہازمیں نماز اداکرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اورکیا جہاز میں اول وقت پرنمازپڑھنا افضل ہے یا ہوائی اڈہ پرپہنچنے کا انتظارکرنا , اگرنماز کے آخری وقت میں جہازکے پہنچنے کی امید ہو؟
جواب :
ہوائی جہاز کے سفرمیں جب نماز کا وقت ہوجائے توحسب استطاعت نماز اداکرلینا واجب ہے ,اگرجہاز میں کوئی ایسی جگہ میسرہے جہاں قیام اوررکوع وسجود کے ساتہ نمازاداکی جاسکتی ہے توٹھیک ,ورنہ بیٹہ کراشاروں سے رکوع وسجود کرتے ہوئے نمازپڑھی جائے گی ,جیسا کہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے : ] فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  } (16) سورة التغابن
اپنی طاقت بھراللہ سے ڈرتے رہو –
اورنبی r نے عمران بن حصین t سے ان کی بیماری کی حالت میں فرمایا :
" کھڑے ہوکرنمازپڑھو ,کھڑے نہیں ہوسکتے توبیٹہ کر,اوربیٹہ بھی نہیں سکتے تو کروٹ کے بل" 
اس حدیث کو اما م بخاری نے اپنی صحیح میں اورامام نسائی نے صحیح سند کے ساتہ روایت کیا ہے اورنسائی نے اتنا اضافہ کیا ہے :
" اوراگرکروٹ کے بل نہ ہوسکے تو چت لیٹ کر"
افضل یہ ہے کہ ہوائی جہاز میں اول وقت پرنمازاداکرلی جائے ,لیکن اگرکسی نے ہوائی اڈے پرپہنچ کرآخری وقت میں نماز اداکی تب بھی کوئی حرج نہیں , کیونکہ اس سلسلہ میں دلائل عام ہیں – یہی حکم موٹر,ٹرین اورکشتی وغیرہ کا بھی ہے ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 28:
بہت سے لوگ نماز میں بکثرت لغو کام اورحرکتیں کرتے رہتے ہیں, توکیا نماز کے باطل ہونے کیلئے حرکت کی کوئی حد متعین ہے؟اوربعض لوگ لگاتارتین حرکتیں کرنے سے نماز باطل قراردیتے ہیں , توکیا اس تحدید کی کوئی اصل ہے ؟ اورجولوگ اپنی نمازوں میں بکثرت لغوکام کرتے ہیں انہیں آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب :
نماز مین اطمینان وسکون کا ملحوظ رکھنا ,نیزلغوکام سے اجتناب کرنا ہرمومن مردوعورت کیلئے ضروری ہے ,کیونکہ اطمینان وسکون نمازکا ایک رکن ہے ,جیساکہ صحیحین میں نبی r سے ثابت ہے کہ آپ نےایک  شخص کوجس نے اپنی نماز میں اطمینان ملحوظ نہیں رکھا نمازدھرانے کا حکم دیا , پس نماز میں خشوع وخضوع اورحضورقلب ہرمسلمان مرد وعورت کے لئے مشروع ہے ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
] قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ}   (1-2) سورة المؤمنون
کامیاب ہوگئے وہ مومن جواپنی نمازوں میں خشوع اختیارکرتے ہیں –
نماز میں لباس اورداڑھی وغیرہ سے کھیلنا مکروہ ہے ,اوراگریہ فعل لگاتاراورکثرت سے ہوتو حرام اورنماز کے باطل ہونے کا سبب ہے , جولوگ نماز کے باطل ہونے کے لئے تین حرکتوں کی تحدید کرتے ہیں انکا یہ قول ضعیف اوربے بنیاد ہے ,بلکہ یہ امرنمازی کے اعتقاد پرموقوف ہے , اگرنمازی کا اعتقاد یہ ہے کہ اس نے لگاتاراورکثرت سے حرکتیں کی ہیں تو اسے فرض نماز کی صورت میں نمازدھرانا ہوگا اوراللہ سے توبہ کرنی ہوگی –
ہرمسلمان مردوعورت کے لئے میری نصیحت ہے کہ وہ نمازمیں خشوع وخضوع کا اہتمام کریں , نیزمعمولی حرکت وعبث سے بھی اجتناب کریں, کیونکہ نماز کی بڑی اہمیت ہے ,یہ اسلام کا ستون اورشہادتین کے اقرار کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے نیزقیامت کے دن بندوں سے سب سے پہلے اسی کے متعلق پوچہ تاچہ ہوگی ,اللہ تمام مسلمانوں کواپنی مرضی کے مطابق نماز اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے –
سوال 29:
سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں ہاتوں کا زمین پررکھنا افضل ہے یا گھٹنوں کا؟ نیز اس مسئلہ میں وارد دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق کی کیا صورت ہے؟
جواب :
علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق سجدہ میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنوں کو زمین پررکھنا ہی سنت ہے , بشرطیکہ اس کی استطاعت ہو, اوریہی جمہورکا قول ہے , جیساکہ وائل بن حجرt کی حدیث سے ,  اوراس مفہوم کی دیگرحدیثوں سے ثابت ہوتا ہے-
رہی ابوھریرہ t کی حدیث ,تویہ درحقیقت وائل بن حجرt کی حدیث کے مخالف نہیں ,بلکہ موافق ہے ,کیونکہ نبی r نے اس میں نمازی کو اونٹ کی طرح بیٹھنے سے منع فرمایا ہے , اوریہ معلوم ہے کہ ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پررکھنے ھی میں اونٹ کی مشابہت ہے, رہا حدیث کے آخرمیں آپ کا یہ ارشاد کہ " ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھے " توقرین قیاس یہ ہے کہ بعض راویوں سے حدیث میں الٹ پھیر ہوگئی ہے , اوردرست عبارت یوں ہے " گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھے " –
اس طرح ابوھریرہ t کی حدیث کا آخری حصہ پہلے حصہ کے موافق ہوجاتا ہے , اورحدیثوں کے درمیان سے تعارض دورہوجاتا ہے , علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "زاد المعاد" میں یہی توجیہ کی ہے –
البتہ اگرکوئی شخص بیماری یابڑھاپا کی وجہ سے زمین پرپہلے گھٹنوں کورکھنے سے قاصرہے تو اس کے لئے ہاتھوں کوپہلے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے :  ) فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  } (16) سورة التغابن
اپنی طاقت بھراللہ سے ڈرتے رہو –
اورنبی r نے ارشاد فرمایا :
"جس چیز سے میں تمہیں روک دوں اس سے بازرہو ,اورجس چیز کا حکم دوں اس سے اپنی طاقت کے مطابق بجالاؤ"(متفق علیہ) واللہ ولی التوفیق-
سوال 30:
نماز ميں کھکھارنے ,پھونکنے اوررونے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ اورکیا ان چیزوں سے نماز باطل ہوجائے گی یا نہیں ؟
جواب :
کھکھارنے ,پھونکنے اوررونے سے نمازباطل نہیں ہوتی , ضرورت پرایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ,البتہ بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے , جیساکہ نبی r سے ثابت ہے کہ جب علی t آپ سے نمازکی حالت میں اجازت طلب کرتے توآپ انکے لئے کھکھارتے تھے-
رہا رونا ,تواگریہ خشوع وخشیت الہی کے سبب سے ہے تو نماز ہویا غیرنماز ,یہ ہروقت کے لئے مشروع ہے ,جیسا کہ نبی r سے , ابوبکروعمرفاروق سے نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت ,اورتابعین عظام سے نماز میں رونا ثابت ہے –
سوال 31:
نمازي کے آگے سے گزرنے کا کیا حکم ہے ؟ اورکیا اس سلسلہ میں حرم شریف کا حکم دوسری مسجدوں سے مختلف ہے؟ اورقطع صلاۃ کا کیا مطلب ہے؟ نیز نمازی کے آگے سے اگرکالا کتا ,یاعورت ,یاگدھا گزرجائے توکیا اسے نما زلوٹانی ہوگی ؟
جواب :
نمازی کے آگے سے یا اسکے اورسترہ کے درمیان سے گزرنا حرام ہے ,نبی r کا ارشاد ہے :
" نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو اگرمعلوم ہوجائے کہ یہ کتنا بڑاگناہ ہے توچالیس سال تک اسکا انتظارمیں ٹہرارہنا نمازی کے آگے گزرنے سے بہترہوگا"(متفق علیہ)
نیزنمازی کے آگے سے بالغ عورت ,یاگدھا, یاکالاکتا کے گزرنے سے نماز باطل ہوجائےگی ,البتہ انکے علاوہ کسی اورچیزکے گزرنے سےنمازباطل نہیں ہوگی , مگرثواب کم ہوجائیگا ,جیساکہ نبی r کا ارشاد ہے :
"جب کوئی شخص نماز پڑھے اوراپنے سامنے کجاوہ کی آخری لکڑی کی مانند کوئی چیز نہ رکھے ,تواسکی نماز کو عورت ,گدھا اورکالاکتا گزرکرکاٹ دیتے ہیں "(صحیح مسلم بروایت ابوذرt)
صحیح مسلم ہی میں اس مفہوم کی ایک دوسری حدیث ابوہریرہ t سے بھی مروی ہے ,مگراس میں مطلق کتا کا ذکرہے , کالے کتے کی قید نہیں ,اوراہل علم کے یہاں یہ قاعدہ ہے کہ مطلق کو مقید پرمحمول کیا جائیگا –
رہی بات مسجد حرام کی , تو اسمیں نمازی کے آگے سے گزرنا نہ تو حرام ہے اورنہ ہی کسی چیزکے گزرنے سے نمازباطل ہوگی , خواہ وہ حدیث میں مذکور تین چیزیں ہوں یا انکے علاوہ کوئی اورچیز ہو , کیونکہ مسجد حرام بھیڑبھاڑکی جگہ ہے, وہاں نمازی کے آگے سے گزرنے سے بچنا ناممکن ہے , جیساکہ اس سلسلہ میں ایک صریح حدیث بھی وارد ہے, جوگرچہ ضعیف ہے مگرعبد اللہ بن زبیرt وغیرہ کے آثارسے اسکا ضعف دورہوجاتا ہے –
نیز بھیڑبھاڑ کے موقع پریہی حکم مسجد نبوی اوردیگرمسجدوں کا بھی ہے ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
) فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  } (16) سورة التغابن
اپنی طاقت بھراللہ سے ڈرتے رہو –
اورفرمایا :
) لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا  } (286) سورة البقرة
الله كسي نفس پراسکی طاقت سے زیادہ بوجہ نہیں ڈالتا –
اورنبی r نے ارشاد فرمایا :
"جس چیز سے میں تمہیں روک دوں اس سے باز آجاؤ اورجس بات کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق بجالاؤ" (متفق علیہ)
سوال 32:
فرض نمازکے بعد اٹھا کردعا مانگنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اورکیا اس سلسلہ میں فرض نمازکے درمیان اورنفل نماز کے درمیان کوئی فرق ہے ؟
جواب :
دعا کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا سنت اورقبولیت کا سبب ہے , نبی r کا ارشاد ہے :
"تمہارارب باحیا اورکرم نواز ہے ,جب اسکا بندہ اسکے سامنے اپنے ہاتوں کواٹھاتا ہے ,تواسے خالی واپس کرتے ہوئے اسے شرم محسوس ہوتی ھے "
اس حدیث کو امام ابوداؤد ,ترمذی ,ابن ماجہ اورحاکم نے سلمان فارسی t کے طریق سے روایت کیا ہے اورحاکم نے اسے صحیح قراردیا ہے –
ایک دوسری حدیث میں آپ r نے ارشاد فرمایا :
"بیشک اللہ پاک ہے اورپاک چیزہی قبول فرماتا ہے ,اوراللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جورسولوں کو دیا تھا,جیساکہ اللہ تعالى کا ارشاد ھے:
) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ} (172) سورة البقرة
مومنو!تم ہماری دی ہوئی پاک روزی کھاؤ اوراللہ کا شکرادا کرو اگرتم خالص اللہ کی بندگی کرتے ہو-
اورفرمایا :
)  يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} (51) سورة المؤمنون
پیغمبرو!پاک چیز کھاؤ اوراچھے عمل کرتے رہو, بیشک میں جو کچہ تم کرتے ہو اس سے باخبرہوں –
پھرآپ نے فرمایا :
"ایک شخص دوردراز کا سفرکرتا ہے,بال پراگندہ اورجسم غبارآلود ہوتاہے , اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کراے رب,اے رب , کہ کر دعا کرتا ہے ,
مگراس کی دعا کہاں سے قبول ہو جب اسکا کھانا حرام ,اسکا پینا حرام ,اسکا لباس حرام , اورحرام سے اسکی پرورش ہوئی ہے "(صحیح مسلم)
لیکن جن مقامات پرآپ r  نے دعا کے لئے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا وہاں اٹھانا درست نہیں ہے, جیسے پنج وقتہ فرض نمازوں کے بعد ,دونوں سجدوں کے درمیان, سلام پھیرنے سے پہلے ,اورجمعہ وعیدین کا خطبہ دیتے وقت ,ان جگہوں پرآپ سے ہاتہ کا اٹھانا ثابت نہیں , اورہمیں کسی کام کے کرنے اورنہ کرنے میں آپ ہی کی اقتداء کرنی ہوگی , البتہ جمعہ وعیدین کے خطبہ میں اگراستسقاء کے لئے دعا کرنا ہو تو ہاتھوں کا اٹھانا مشروع ہے ,کیونکہ نبی r سے ثابت ہے –
رہی بات نفل نمازوں کی, تو میرے علم میں ان کے بعد دعاکے لئے ہاتہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ,کیونکہ اس سلسلہ میں وارد دلیلیں عام ہیں, مگرافضل یہ ہے کہ اس پرمداومت نہ کی جائے , کیونکہ آپ r سے یہ چیز ثابت نہیں اگرآپ نے ایسا کیا ہوتا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ یہ بات ضرور منقول ہوتی , کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے سفروحضر کے تمام اقوال وافعال اوراحوال واوصاف کی نقل وروایت میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے –
رہی یہ حدیث جولوگوں کے درمیان مشہورہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا:
"نماز,خشوع وتضرع اورہاتہ اٹھاکراے رب,اے رب کہ کردعا مانگنے کا نام ہے "
تویہ حدیث ضعیف ہے ,جیساکہ حافظ ابن رجب وغیرہ نے اسکو وضاحت کے ساتہ بیان کیا ہے ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 33:
ہم نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نماز کے بعد پیشانی پرلگی ہوئی مٹی کا جھاڑنا مکروہ ہے ,کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے ؟
جواب :
ہمارے علم کے مطابق اسکی کوئی دلیل نہیں ,البتہ سلام پھیرنے سے پہلے ایساکرنا مکروہ ہے, جیسا کہ نبی r سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ بارش کی رات میں جب آپ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھاکہ آپ کے چہرے پرپانی اورمٹی کے آثارہیں , یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پیشانی سے مٹی وغیرہ کا نہ جھاڑنا افضل ہے –
سوال 34:
فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد مصافحہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟ کیا اس سلسلہ میں فرض نماز کے اورنفل نماز کے درمیان کوئی فرق ہے ؟
جواب:
دراصل مصافحه مسلمانوں کے لئے ملاقات کے وقت مشروع ہے , نبی r  جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملتے ,نیزصحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے تومصافحہ کرتے تھے , انس tاوراما م شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام جپ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے تو مصافحہ کرتے , اورجب سفرسے واپس ہوتے تو معانقہ کرتے تھے -
نیز صحیحین کی روایت ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ t جو عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں جب اللہ تعالى نے کعب بن مالک t کی توبہ قبول فرمائی توی ہ مسجد نبوی میں نبی  rکے حلقہ سے اٹھے اورکعب بن مالک کی طرف بڑھے ,اورانہیں توبہ کی قبولیت پرمبارکباد دیتے ہوئے ان سے مصافحہ کیا –
مصافحہ کی سنت عہد نبوی اوراسکے بعد مسلمانوں کے درمیان مشہورومعروف رہی ہے –
اورنبی r نے ارشاد فرمایا :
"جب دو مسلمان ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گنا ہ ان کے جسم سے اس طرح جھڑجاتے ہیں جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں "
مسجد میں یا صف میں ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا مستحب ہے, اگرنماز سے پہلے مصافحہ نہیں کیا ہے توبعد میں مصافحہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں , کیونکہ یہ ایک عظیم سنت ہے اوراس پرعمل کرنا باہم الفت ومحبت کے حصول اوربغض وعداوت کے خاتمہ کا سبب ہے –
البتہ فرض نماز سے پہلے اگرمصافحہ نہیں کیا ہے تو اذکارمسنونہ سے فارغ ہونے کے بعد مصافحہ کرنا درست ہے –
جولوگ فرض نماز سے دوسرا سلام پھیرتے ہی مصافحہ کرنا شروع کردیتے ہیں ان کے اس فعل کی میرے علم کے مطابق کوئی دلیل نہیں ,بلکہ اسکا مکروہ ہونا ہی زیادہ قرین قیاس ہے , اوراسلئے بھی کہ نمازی کو اس وقت ان اذکارمسنونہ کا اہتمام کرنا چاہئے جونبی  rسے ثابت ہیں –
البتہ نفل نماز کے بعد فوراً مصافحہ کرنا درست ہے بشرطیکہ نمازسے پہلے مصافحہ نہ کیا ہو-
سوال 35:
فرض نماز کے بعد سنت پڑھنے کے لئے جگہ بدلنے کا کیا حکم ہے ؟ کیا اس کے مستحب ہونے کی کوئی دلیل ہے؟
جواب :
میرے علم کے مطابق اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں , البتہ عبد اللہ بن عمرd اوربہت سے سلف ایسا کرتے تھے ,الحمد للہ مسئلہ میں وسعت ہے ,نیز سنن ابی داؤد میں اس سے متعلق ایک ضعیف حدیث وارد ہے جسے عبد اللہ بن عمرd اوردیگرسلف صالحین کے فعل سے تقویت مل جاتی ہے ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 36:
فجراورمغرب کی فرض نمازوں کے بعد " لا إله إلا الله وحده لاشريك له ,له الملك وله الحمد يحيى ويميت وهو على كل شيئٍ قدير" اسکو دس دس بارپڑھنے کی ترغیب آئی ہے ,کیا اس سلسلہ میں وارد حدیثیں صحیح ہیں؟
جواب :
فجراورمغرب کی فرض نمازوں کے بعد مذکورہ بالا دعا کودس دس بارپڑھنے کی مشروعیت نبی r کی متعدد صحیح حدیثوں سے ثابت ہے ,ہرمسلمان مرد وعورت کو مذکورہ دونوں نمازوں کے بعد یہ دعا دیگراذکارمسنونہ سے فارغ ہوکرپابندی سے پڑھنا چاہئے ,وہ اذکارمسنونہ جوپانچوں نمازوں کے بعد پڑھے جاتے ہیں درج ذیل ہیں :
"استغفرالله استغفرالله استغفرالله , اللهم أنت السلام ومنك السلا م ,تباركتَ ياذالجلال والإكرام , لآ إله إلا الله ,وحده لاشريك له ,له الملك وله الحمد ,وهوعلى كل شيئ قدير, لا حول ولا قوة إلا بالله , لآ إله إلا الله ,ولا نعبد إلا إياه ,له النعمة وله الفضل وله الثناء الحسن ,لآإله إلا الله ,مخلصين له الدين, ولوكره الكافرون, اللهم لامانع لما أعطيتَ, ولامعطي لما منعْـتَ ,ولا ينفنع ذاالجدّ منك الجدّ"
ميں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں ,میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں , میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں,اے اللہ ! توسلامتی والا ہے اورتجھی سے سلامتی حاصل ہوتی ہے , تیری ذات بابرکت ہے اے عظمت وجلا ل والے ! اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ,وہ اکیلا ہے , اسکا کوئی شریک نہیں ,اسی کی بادشاہت ہے اوراسی کی تعریف ,اوروہی ہرچیز پرقدرت رکھنے والا ہے , کوئی طاقت وقوت اللہ کی توفیق کے بغیرکارگرنہیں ,اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں , ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں , نعمت وفضل اسی کا ہے اوراسی کے لئے عمدہ تعریف ہے ,اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں , ہماری عبادت اسی کے لئے خالص ہے اگرچہ کافروں کو ناگوارلگے, اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں , اورجو تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں , اورکسی مالدارکو اسکا مال تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتا –
امام ہونے کی صورت میں تین بار"استغفراللہ " اوراللہم أنت السلام ,ومنک السلام ,تبارکتَ یاذالجلال والإکرام " پڑھنے کے بعد اسے مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوجاناچاہئے ,یہ نبی r   کی سنت ہے ,مقتدیوں کی طرف رخ کرتے وقت امام کا دائیں یا بائیں دونوں جانب سے مڑنا درست ہے ,آپ سے دونوں صورتیں ثابت ہیں-
اسی طرح ہرفرض نماز کے بعد مندرجہ بالا اذکارکوپڑھنے کے بعد 33 بار" سبحان اللہ "33بار"الحمد للہ " 33بار"الله اكبر" اورآخرمیں ایک بار"لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ,لہ الملک ولہ الحمد وھو على کل شیئ قدیر" پڑھنا بھی مستحب ہے , آپ r نے اسکی ترغیب دلاتے ہوئے اسے بخشش ومغفرت کا سبب بتایا ہے –
ایسے ہی ہرفرض نماز کے بعد اذکارمسنونہ سے فارغ ہوکر"آیت الکرسی" "قل ھواللہ أحد" "قل أعوذبرب الفلق" اور" قل أعوذبرب الناس" کاپڑھنا بھی مشروع ہے , مگرفجراورمغرب کی نمازکے بعد نیزسونے کے وقت ان سورتوں کا تین تین بارپڑھنا مستحب ہے ,جیساکہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے –
سوال 37:
موجودہ دورمیں بہت سے مسلمان ,یہاں تک کہ بعض اہل علم بھی جماعت کے ساتہ نمازاداکرنے میں سستی برتتے ہیں , اوردلیل میں یہ کہتے ہیں کہ بعض علماءجماعت کے وجوب کے قائل نہیں ,سوال یہ ہے کہ نمازباجماعت کا حکم کیا ہے ؟ اورایسے لوگوں کے لئے آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب :اهل علم كے صحیح ترین قول کے مطابق مسجد میں مسلمانوں کے ساتہ باجماعت نمازاداکرنا ہراس مرد پرواجب ہے جو اذان سنتا اورجماعت میں حاضرہونے کی قدرت رکھتا ہو ,نبی r کا ارشاد ہے :
"جوشخص اذان سن کربلا کسی عذرکے مسجد نہ آئے تو اسکی نمازنہیں "
اس حدیث کو امام ابن ماجہ ,دارقطنی ,ابن حبان اورحاکم نے صحیح سند کے ساتہ روایت کیا ہے –
عبد اللہ بن عباس d سے اس حدیث میں مذکور"عذر " کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے ؟ توانہوںنے فرمایا :خوف یا مرض –
صحیح مسلم میں ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ نبی r کی خدمت میں ایک نابینا صحابی حاضرہوئے اورعرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے مسجد لےجانے والا کوئی نہیں , تو کیا میرےلئے اجازت ہے کہ میں اپنے گھرمیں نماز پڑھ لیا کروں ؟ آپ نے پوچھا : کیا تم اذان سنتے ہو ؟ کہا :هاں ,آپ نے فرمایا :پھرتومسجد میں آکرنمازپڑھو –
اورصحیحین میں ابوھریرہ t ہی سے ایک دوسری روایت ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا :
" میں نے ارادہ کیا کہ حکم دوں اورنماز قائم کی جائے اورکسی شخص کو مقررکردوں جولوگوں کو نماز پڑھائے ,پھرمیں کچہ لوگوں کولے کرجن کے ساتہ لکڑیوں کے گھٹے ہوں , ان لوگوں کے پاس جاؤں جوجماعت میں حاضرنہیں ہوتے اورانکے ساتہ ہی ان کے گھروں کو آگ لگادوں"
یہ ساری حدیثیں نیز اس مفہوم کی دیگراحادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نمازباجماعت مردوں کے حق میں واجب ہے اورجماعت سے پیچھے رہنے والا عبرتناک سزاکا مستحق ہے ,اگرمسجد میں جماعت کے ساتہ نمازاداکرنا واجب نہ ہوتا توجماعت سے پیچھے رہنے والاسزاکا مستحق نہ ہوتا –
نیزمسجد میں جماعت کے ساتہ نماز اداکرنا اس لئے واجب ہے کہ یہ دین اسلام کا ایک عظیم ظاہری شعارہے اورمسلمانوں کے لئے باہمی تعارف , الفت ومحبت کے حصول اوربغض وعداوت کے خاتمہ کا سبب ہے – اوراسلئے بھی کہ جماعت سے پیچھے رہنا منافقوں کی مشابہت ہے, پس ہرشخص پرجماعت کی پابندی واجب ہے, اوراس سلسلہ میں کسی کے اختلاف کا کوئی اعتبارنہیں , کیونکہ جوقول شرعی دلائل کے خلاف ہو وہ متروک اورناقابل اعماد ہے ,اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً} (59) سورة النساء
اے ایمان والو اللہ ورسول اورولی امرکی اطاعت کرو ,پس اگرتم کسی معاملہ میں باہم اختلا ف کربیٹھو تو اسے اللہ اوررسول کے حوال کردو, اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتے ہو, یہی بہتراورانجام کے لحاظ سے اچھا ہے – اورفرمایا :
)  وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ  } (10) سورة الشورى
اورجس بات ميں تمہارا اختلاف ہوجائے تو اسکا فیصلہ اللہ کے حوالے ہے –
نیز صحیح مسلم میں عبد اللہ بن مسعود t سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد ہے کہ منافق یا بیمارکے علاوہ ہم میںسے کوئی شخص باجماعت نمازسے پیچھے نہیں رہتا تھا , یہاں تک کہ معذورشخص بھی دو آدمیوں کے کندھوں کے سہارے لایا جاتااورصف میں کھڑا کردیا جاتا تھا-
یہ تھا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جماعت کی نماز کے لئے شوق واہتمام کہ ان میںسے بیماراورمعذورشخص بھی جماعت سے پیچھے رہنا گوارانہیں کرتا تھا, بلکہ دوآدمیوں کے کندھوں کے سہارے لایا جاتا اورصف میں کھڑا کردیا جاتا , واللہ ولی التوفیق-
سوال 38:
امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں علماء کی رائیں مختلف ہیں , اس سلسلہ میں صحیح کیا ہے ؟ اورکیا مقتدی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے ؟ اوراگرامام اپنی قرأت کے دوران سکتوں کا اہتمام نہ کرے توپھرمقتدی سورہ فاتحہ کب پڑھے گا؟ اورکیا امام کے لئے سورہ فاتحہ سے فارغ ہونے کےبعد سکتہ کرنا مشروع ہے تاکہ مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لیں؟
جواب:
درست بات یہ ہے کہ مقتدی کے لئے تما م نمازوں میں خواہ سری ہوں یا جہری سور ۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے ,کیونکہ نبی r کی یہ حدیث عام ہے :
"جوشخص سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نمازنہیں "(متفق علیہ)
اوروہ حدیث بھی جسمیں آپ r نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا :
"شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا :
ہاں , آپ نے فرمایا :سورۂ فاتحہ کے علاوہ اورکچہ نہ پڑھا کرو , کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں " (مسند احمد بسند صحیح)
مشروع یہ ہے کہ مقتدی سورہ فاتحہ کو امام کی قرأت کے دوران سکتوںمیں پڑھے اگرامام کی قرأت میں سکتوں کا اہتمام نہ ہوتو امام کی قرأت کے دوران ہی پڑھ لے ,پھرخاموش ہوجائے –
رہیں وہ دلیلیں جن سے امام کی قرأت کے وقت خاموش رہنے کا وجوب ثابت ہوتا ھے توان کے عموم سے سورۂ فاتحہ کا حکم مستثنی ' ہے , لیکن اگرکوئی مقتدی بھول کر,یا لاعلمی سے ,یا غیرواجب سمجہ کراسے چھوڑدے توجمہوراہل علم کے نزدیک اسکے لئے امام کی قرأت کافی ہوگی , اورنماز صحیح ہوجائیگی , اسی طرح اگرکوئی شخص بحالت رکوع جماعت میں شامل ہوتو اسکی یہ رکعت پوری ہوجائیگی اورسورۂفاتحہ کی قرأت کاوجوب اس سے ساقط ہوجائے گا ,کیونکہ اس نے قرأت کاوقت نہیں پایا ,جیسا کہ ابوبکرہ ثقفی t کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بارنبی r رکوع میں تھے ,اتنے میں یہ آئے اورصف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کرلیا ,پھرصف میں شامل ہوئے , آپ نے سلام پھیرنے کے بعد انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
"اللہ تمہارے شوق کو زیادہ کرے مگرآئندہ ایسانہیں کرنا "(صحیح بخاری )
اس واقعہ میں آپ نے انہیں صف میںپہنچنے سے پہلے رکوع میں جانے پرتنبیہ فرمائی ,مگراس رکعت کی قضا کا حکم نہیں دیا –
مذکورہ بالا روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اورامام رکوع کی حالت میں ہوتو اسےصف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع نہیں کرنا چاھئے ,بلکہ اسے صبرواطمینان کے ساتہ صف میں شامل ہونا چاہئے ,اگرچہ رکوع فوت ہوجائے , کیونکہ نبی r کا ارشا د ہے ;
"جب نماز کے لئے آؤ تو سکون ووقارکے ساتہ چل کرآؤ ,جوملے اسے پڑہ لے ,اورجو چھوٹ جائے اسے پوری کرلو"(مسلم)
رہی یہ حدیث کہ "جس کے لئے امام ہوتو امام کی قرأت ,اسکی قرأت ھے" تویہ اہل علم کے نزدیک ضعیف اروناقابل حجت ہے , اوراگرصحیح بھی مان لیں تو سورۂفاتحہ کی قرأت سے مستثنی' ہوگی تاکہ حدیثوں کے درمیان تطبیق ہوجائے-
رہا امام کا سورہ فاتحہ پڑھ لینے کے بعد مقتدیوں کے لئے سکتہ کرنا , تومیرے علم کے مطابق اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں , ان شاء اللہ مسئلہ میں وسعت ہے ,سکتہ کرے یانہ کرے ,دونوں صورتوں میں کوئی مضایقہ نہیں ہے , البتہ آپ سے دوسکتے ثابت ہیں ,ایک تکبیرتحریمہ کے بعد جس میں دعاء ثنا پڑ ھی جاتی ہے اوردوسرا قرأت سے فارغ ہونے کے بعد اوررکوع جانے سے پہلے ,اوریہ ہلکا سا سکتہ ہے جوقرأت اورتکبیرکے درمیان فصل کرنے کے لئے ہوتا ہے , واللہ ولی التوفیق-
سوال 39:
صحیح حدیث میں پیاز ,یا لہسن ,یاگندنہ کھا کرمسجد آنے سے روکا گیا ہے ,کیا اس حکم میں عام حرام وبدبودارچیزیں مثلاً بیڑی سگریٹ وغیرہ بھی داخل ہیں ؟ اورکیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جس نے ان میں سے کوئی چیز استعما ل کرلی وہ جماعت سے پیچھے رہنے میں معذورہے اوراس پرکوئی گناہ نہیں؟
جواب :
رسول الله r سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :
" جوشخص پیازیالہسن کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب ہرگزنہ آئے ,بلکہ وہ اپنے گھرمیں نمازپڑھ لے"
اورفرمایا :
"بیشک فرشتوں کو ان چیزوں سے تکلیف ہوتی ہے جن سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے "
اورہربدبودارچیز خواہ وہ بیڑی سگریٹ ہو,یابغل کا پسینہ ,یا اسکے علاوہ کوئی اورچیز جس سے بغل والے آدمی کو تکلیف پہنچتی ہو اسکا حکم وہی ہے جوپیاز ولہسن کا ہے , ایسی حالت میں اسکا جماعت کے ساتہ نماز پڑھنامکروہ وممنوع ہے ,یہاں تک کہ کوئی چیز استعمال کرکے اس بدبوکودورکردے ,بلکہ استطاعت رکھنے کی صورت میں اس بدبو کا دورکرنا واجب ہے ,تاکہ وہ جماعت کے ساتھ نمازاداکرسکے –
رہا بیڑی سگریٹ کا استعمال تویہ مطلق حرام ہے اورتمام اوقات میں اس سے پرہیز ضروری ہے ,اس میں دینی ,جسمانی اورمالی ہرطرح کے نقصانات موجود ہیں ,اللہ تعالى تمام مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے اورانہیں بھلائی کی توفیق دے –
سوال 40:
صف کی ابتدادائیں جانب سے کی جائے یا امام کے پیچھے سے ؟اورکیا دائیں اوربائیں دونوں جانب سے صف کا اسطرح برابرہونا ضروری ہے کہ اسکے لئے یہ کہا جائے کہ صفیں برابرکرلو , جیساکہ بہت سے ائمہ کرتے ہیں ؟
جواب:
صف کی ابتدا امام کے قریب بیچ سے کی جائے گی, اورصف کا دایا ں جانب اس کے بائیں جانب سے افضل ہے , اگر صف کے دائیں جانب کے لوگ زیادہ ہیں توکوئی حرج نہیں , دونوں جانب میں توازن قائم کرنا خلاف سنت ہے , البتہ صف بناتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ جب پہلی صف مکمل ہوجائے تب دوسری صف , اورجب دوسری صف مکمل ہوجائے تب تیسری صف بنائی جائے , کیونکہ اگلی صف کے مکمل ہونے سے پہلے دوسری صف کا بنانا درست نہیں ہے, رسول r کا یہی حکم ہے –
سوال 41:
متنفّل (نفل پڑھنے والے) کے پیچھے مفترض (فرض پڑھنے والے ) کی نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
متنفل كے پیچھے مفترض کی نماز درست ہے ,اس میں کوئی حرج نہیں ,نبی r سے ثابت ہے کہ آپ نے صلاۃ خوف کی بعض صورتوں میں ایک گروہ کو دو رکعت نماز پڑھاکرسلام پھیرا, پھردوسرےگروہ کو دورکعت نمازپڑھائی اورسلام پھیرا ,پہلی دورکعت آپ کے لئے فرض اوردوسری دورکعت نفل تھی , اوردونوں صورتوں میں آپ کے پیچھے مقتدی مفترض تھے-
اسی طرح صحیحین میں معاذ بن جبل t سے روایت ہے کہ وہ عشاء کی نماز نبی r کے ساتہ پڑھتے , پھراپنی قوم کے پاس جاکردوبارہ انہیں یہی نمازپڑھاتے تھے ,یہ نماز ان کے لئے نفل اورلوگوں کے لئے فرض ہوتی تھی 
اسی طرح اگرکوئی شخص رمضان میں اس وقت مسجد میں آئے جب تراویح کے نماز شروع ہوچکی ہو اوراس نے عشاء کی نماز نہ پڑھی ہو, تو وہ عشاء کی نیت سے جماعت میں شامل ہوجائے اورامام کے سلا م پھیرنے کے بعد باقی رکعتیں پوری کرلے ,تاکہ اس طرح اسے جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے –
سوال 42:
صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہوکرنماز پڑھنے کا کیا حکم ہے .؟اوراگرکوئی شخص مسجد میں داخل ہو اورصف میں جگہ نہ پائے توکیا کرے؟ اورکیا نابالغ بچے کے ساتہ وہ صف بناسکتا ہے ؟
جواب :
صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہوکرنمازپڑھنا باطل ہے , نبی r  کا ارشاد ہے :
"صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونے والے کی نماز نہیں"
آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بارایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا کھڑے ہوکرنمازپڑھی, جب آپ کو معلوم ہواتو اسے نماز دھرانے کا حکم دیا اوریہ نہیں پوچھا کہ صف میں جگہ ملی یا نہیں ملی –
یہ واقعہ اس با ت کی دلیل ہے کہ صف کے پیچھے تنہا کھڑے ہونے والا صف میں جگہ پائے یا نہ پائے دونوں صورتوں میں اسکا حکم یکساں ہے , تاکہ اس سلسلہ میں سستی وکاہلی کا سد باب ہوجائے –
البتہ اگرکوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع میں ہے ,چنانچہ صف سے پہلے اس نے رکوع کرلیا , پھرسجدہ سے پہلے پہلے صف میں شامل ہوگیا تو یہ اسکے لئے کافی ہوگا , جیساکہ صحیح بخاری میں ابوبکرہ ثقفی t سے مروی ہے کہ وہ ایک بارنمازکے لئے اس وقت پہنچے جب آپ r رکوع میں تھے, چنانچہ صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا, پھرصف میں شامل ہوئے ,آپ نے سلام پھیرنے کے بعد انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
" اللہ تمہارے شوق کو زیادہ کرے مگرآئندہ ایسا نہ کرنا"
اس واقعہ سے آپ r نے انہیں اس رکعت کو لوٹانے کا حکم نہیں دیا –
لکن اگرکوئی شخص اس وقت پہنچے جب امام نماز کی حالت میں ہواورصف میں اسے کہیں کوئی جگہ نہ ملے تووہ انتظارکرے , یہاں تک کہ کوئی دوسرا شخص آجائے , چاہے وہ سات سال یا اس سے زیادہ عمرکا بچہ ہی کیوں نہ ہو, پھراسکے ساتہ صف بنالے , ورنہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہوجائے –
یہی اس باب میں وارد تمام حدیثوں کا خلاصہ ہے , دعاہے کہ اللہ تعالى تمام مسلمانوں کو دین کی سمجہ بوجہ عطاکرے ,نیزاس پرثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے, بے شک وہ سننے والا اورقریب ہے –
سوال 43:
کیا امام کے لئے امامت کی نیت کرنا شرط ہے؟ اوراگرکوئی شخص مسجد میں داخل ہو اورکسی شخص کونماز پڑہتا ہواپائے توکیاوہ اس کے ساتہ شامل ہوجائے ؟اورکیا مسبوق کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے؟
جواب :
امامت کے لئے نیت شرط ھے , کیونکہ نبی r کا ارشادہے:
" اعمال کا دارومدارنیتوں پرہے ,اورہرشخص کے لئے وہی ہے جواسنے نیت کی ہے "
اگرکوئی شخص مسجد میں داخل ہواوراسکی جماعت چھوٹ گئی ہو اورکسی دوسرے شخص کو تنہانمازپڑھٹتے ہوئے پائے , تو اسکے ساتہ مقتدی بن کرنمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں , بلکہ یہی افضل ہے , جیساکہ ایک بار نبی r نے نمازختم ہوجانے کے بعد ایک شخص کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :
"کیا کوئی شخص ہے جواس پرصدقہ کرے اوراسکے ساتہ نمازپڑھے"
ایسا کرنے سے دونوں کوجماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی, لیکن جونماز پڑھ چکاہے اسکے لئے یہ نماز نفل ہوگی-
معاذ بن جبل t نبی r کے ساتہ عشاء کی نماز پڑھتے ,پھراپنی قوم کے پاس واپس جاکرانہیں دوبارہ یہی نمازپڑھاتے تھے , یہ نماز ان کے لئے نفل اورلوگوں کیلئے فرض ہوتی تھی , اورنبی r کو جب معلوم ہوا توآپ نے اسے برقراررکھا- اسی طرح جس کی جماعت چھوٹ گئی ہو وہ جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے مسبوق کی اقتدا میں نمازپڑھ سکتا ہے , اسمیں کوئی حرج نہیں , اورمسبوق کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی باقی نماز پوری کرلے , کیونکہ اس سلسلہ میں وارد حدیثیں عام ہیں – اوریہ حکم تمام نمازوں کو عام ہے , کیونکہ نبی r نے جب ابوذرt سے یہ ذکرکیا کہ آخری زمانہ میں ایسے امراء وحکام ہوں گے جونمازیں بے وقت پڑھیں گے توانہیں حکم دیتے ہوئے فرمایا :
" تم نمازوقت پرپڑھ لیا کرنا , پھراگران کے ساتہ نمازمل جائے توان کے ساتہ بھی پڑھ لینا , یہ تمہارے لئے نفل ہوجائے گی, مگریہ نہ کہنا کہ میں نے تو نمازپڑھ لی ہے لہذا اب میں نہیں پڑھتا " واللہ ولی التوفیق-
سوال 44:
مسبوق نے جورکعتیں امام کے ساتہ پائی ہیں , کیا یہ اسکی پہلی شمارکی جائیں گی یا آخری؟مثال کے طورپراگرچاررکعت والی نماز میں سے دورکعتیں فوت ہوگئی ہوں توکیا وہ فوت شدہ دونوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ کوئی اورسورت پڑھے گا؟
جواب :
صحیح بات یہ ہے کہ امام کے ساتہ مسبوق کو جتنی رکعتیں ملی ہیں وہ اسکی پہلی ,اورجنہیں وہ بعد میں قضا کریگا وہ اسکی آخری شمارکی جائیں گی, اوریہی حکم تمام نمازوں کا ہے – نبی r کا ارشاد ہے :
"جب نمازکھڑی ہوجائے تو سکون ووقارکے ساتہ چلو, جوملے اسے پڑھ لو , اورجوچھوٹ جائے اسے پوری کرلو" (متفق علیہ)
بنابریں چاررکعت والی نماز کی تیسری اورچوتھی رکعت میں , اورمغرب کی تیسری رکعت میں صرف سورۂفاتحہ پراکتفاء کرنا مستحب ہے , جیسا کہ صحیحین میں ابوقتادہ t سے مروی ہے کہ نبی r ظہروعصرکی پہلی دورکعتوں میں سورۂفاتحہ کے ساتہ کوئی سورت بھی پڑھتے تھے اورپہلی رکعت کی قرأت دوسری کی بہ نسبت لمبی ہوتی تھی , اورآخری دورکعتوں میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے –
لیکن اگرکبھی کبھارظہرکی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتہ کوئی سورت پڑھ لی جائے توبھی درست ہے, صحیح مسلم میں ابوسعید خدری t سے روایت ہے ,وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی r ظہر کی پہلی دورکعتوں میں الم تنزیل السجدہ کے بقدر,اورآخری دورکعتوں میں اسکی آدھی مقدار, نیز عصرکی پہلی دورکعتوں میں ظہرکی آخری دورکعتوں کے بقدر, اورعصرکی آخری دورکعتوں میں اسکی آدھی مقدارتلاوت کرتے تھے-
لیکن یہ حدیث اس بات پرمحمول کی جائے گی کہ آپ ایسا کبھی کبھارکرتے تھے, تاکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ہوجائے , واللہ ولی التوفیق-
سوال 45:
جمعہ کے دن بعض مسجدوں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ بعض امام کی اقتدا میں راستوں اورسڑکوں پرنمازپڑھتے ہیں , اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ نیز کبھی تونمازیوں کے اورمسجد کے درمیان کوئی سڑک وغیرہ حائل ہوتی ہے ,اورکبھی کوئی فاصلہ نہیں ہوتا , کیا مذکورہ دونوں صورتوں میں حکم یکساں ہے یا کوئی فرق ہے ؟
جواب :
اگرصفیں متصل ہوں اورانکے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہوتوکوئی حرج نہیں ,اسی طرح اگرمسجد کے باہروالے مقتدی اپنے آگے کی صفوں کو دیکہ رہے ہوں, یا تکبیرکی آوازسن رہے ہوں ,تب بھی کوئی حرج نہیں , بھلے ہی ان کے درمیان کوئی سڑک وغیرہ حائل ہو, کیونکہ جب وہ دیکہ کریا سن کربآسانی امام کی اقتدا کرسکتے ہیں توجماعت کے ساتہ نماز پڑھنا واجب ہے – البتہ امام سے آگے کھڑے ہوکرنماز پڑھنا درست نہیں , کیونکہ یہ مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے, واللہ ولی التوفیق-
سوال 46:
اگرکوئی شخص امام کو رکوع کی حالت میں پائے تو اس وقت اسکے لئے کیا مشروع ہے ؟ کیا رکعت پانے کے لئے امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے اس کے لئے " سبحان ربی العظیم " کہنا شرظ ہے ؟
جواب :
مقتدی نے امام کو رکوع کی حالت میں پالیا تو اسکی یہ رکعت پوری ہوجائیگی , بھلے ہی وہ امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے "سبحان ربی العظیم" نہ کہ سکے ,کیونکہ نبی r کی یہ حدیث عام ہے :
" جس نے نمازکی ایک رکعت پالی تو اسنے نماز پالی ط (صحیح مسلم )
اوریہ معلوم ہے کہ رکوع پالینے سے رکعت پوری ہوجاتی ہے ,جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت ہےکہ ایک دن ابوبکرہ ثقفی tاس وقت مسجد پہنچے جب آپ r رکوع میں تھے ,چنانچہ صف میں پہنچنے سے پہلے انہوں نے رکوع کرلیا, پھرصف میں شامل ہوئے – آپ نے سلام پھیرنے کے بعد انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
"الله تمہارے شوق کو زیادہ کرے ,مگرآئندہ ایسا نہیں کرنا"
آپ نے انہیں صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع میں جانے سے منع فرمایا ,مگراس رکعت کی قضا کا حکم نہیں دیا –
پس جو شخص امام کورکوع کی حالت میں پائے وہ جب تک صف میں نہ پہنچ جائے رکوع نہ کرے ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 47:
بعض ائمہ مسجد میں داخل ہونے والے کے رکعت پالینے کا انتظارکرتے ہیں ,جبکہ بعض یہ کہتے ہیں کہ انتظارمشروع نہیں ,اس مسئلہ میں صحیح کیا ھے؟
جواب:
نبي r کی اقتدا کرتے ہوئے تھوڑا سا انتظارکرلینا ہی درست ہے , تاکہ بعد میں آنے والا صف میں شامل ہوجائے –
سوال 48:
جب کوئی شخص دویا دو سے زیادہ بچوں کی امامت کرے تو کیا انہیں اپنے پیجھے کھڑا کرے یا اپنے دائیں ؟ اورکیا بچوں کی صف بندی کے لئے بلوغت شرط ہے ؟
جواب:
اگران بچوں کی عمرسات سال یا اس سے زیادہ ہے تو وہ انہیں بڑوں کی طرح اپنے پیچھے کھڑا کرے, اسی طرح اگرایک بچہ اورایک بالغ شخص ہو, تب بھی وہ انہیں اپنے پیچھے ہی کھڑا کرے ,کیونکہ نبی r نے انس t کی نانی کی زیارت کے موقعہ پرجب انس اورایک دوسرے یتیم بچے کو نماز پڑھائی توان دونوں کو اپنے پیچھے کھڑاکیا تھا, اسی طرح انصارکے دو بچے جابراورجبارنے جب آپکے ساتہ نمازاداکی توانہیں بھی آپ نے اپنے پیچھے ہی کھڑا کیا تھا-
البتہ اگرایک ہی شخص ہوتو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا خواہ وہ بالغ ہویا بچہ , کیونکہ جب عبد اللہ بن عبارس  dرات کی نماز میں آپ کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تو آپ نے انہیں گھماکراپنے دائیں جانب کھڑاکرلیا تھا - اسی طرح انس t نے آپ کے ساتہ بعض نفل نماز پڑھی تو آپ نے انہیں بھی اپنے دائیں جانب ہی کھڑاکیا تھا-
لیکن اگرعورت ہے تواسے بہرحا ل مردوں کے پیچھے ہی کھڑا ہونا ہے, خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ , کیونکہ عورت کے لئے امام کے ساتہ یادیگرمردوں کے ساتہ صف بناناجائزنہیں, کیونکہ جب نبی r نے انس t اورایک یتیم بچہ کو نمازپڑہائی تو انس کی ماں ام سلیم کو ان دونوں کے پیچھے کھڑا کیا تھا-
سوال 49:
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلی جماعت ختم ہوجانے کے بعد مسجد میں دوسری جماعت قائم کرنا جائز نہیں ,کیا اس قول کی کوئی اصل ہے ؟ اوراس مسئلہ میں درست کیا ہے؟
جواب :
میرے علم کے مطابق یہ قول نہ درست ہے اورنہ شریعت مطہرہ میں اسکی کوئی اصل ہے,بلکہ صحیح حدیث اسکے برخلاف دلالت کرتی ہے ,جیساکہ نبی r کا ارشاد ہے:
"جماعت کی نماز پڑھ لینے کے بعد جب آپ نے ایک شخص کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا توفرمایا :
"کیا کوئی شخص ہے جو اس پرصدقہ کرے اوراسکے ساتہ نماز پڑھے"
لیکن کسی مسلمان کے لئے جماعت کی نماز سے پیچھے رہنا جائز نہیں , بلکہ اسکے اوپرواجب ہے کہ اذان سنتے ہی اسکی طرف سبقت کرے-
سوال 50:
نمازکے دوران امام کا وضو ٹوٹ جائے تووہ کیا کرے ؟کیا وہ کسی کو اپنا قائم مقام بنادے جولوگوں کی نماز مکمل کرائے ؟ یا سب کی نماز باطل ہوجائے گی اوروہ ازسرنوکسی کو نمازپڑھانے کا حکم دیا دے؟
جواب :
ایسی صورت میں امام کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ کسی کو اپنا قائم مقام بنادے جولوگوں کی نماز مکمل کرائے ,جیساکہ عمربن خطاب t نے کیا , جب نماز کی حالت میں انہیں نیزہ مارا گیا توانہوں نے عبدالرحمن بن عوف t کواپنا قائم مقام بنادیا اورانہوں نے لوگوں کی نماز مکمل کرائی , اگرامام کسی کو آگے نہ بڑھاسکے تولوگوں میں سے کسی کو خود آگے بڑھکرباقی نماز پڑھا دینی چاہئے ,اوراگرلوگوں نے نئے سرے سے نماز پڑھ لی تب بھی کوئی حرج نہیں ,کیونکہ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف  ہے ,لیکن راجح یہی ہے کہ امام کسی کو آگے بڑھادے ,جیسا کہ ابھی ہم نے عمربن خطاب t کا فعل ذکرکیا ہے , واللہ ولی التوفیق-
سوال 51:
کیا امام کے ساتہ صرف سلا م پالینے سے جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائیگی یا اسکے لئے کم ازکم ایک رکعت کا پانا ضروری ہے ؟اوراگرچند لوگ مسجد میں اس وقت پہنچیں جب امام آخری تشہد میں ہو ,تو کیا ان کے لئے امام کے ساتہ جماعت میں شامل ہوجانا افضل ہے یا امام کے سلام کا انتظارکرکے الگ جماعت کے ساتہ نمازپڑھنا؟
جواب;
جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے ایک رکعت کا پانا ضروری ہے ,کیونکہ نبی r کا ارشاد ہے ;
"جس نے نمازکی ایک رکعت پالی تو اسنے نمازپالی "(صحیح مسلم)
لیکن اگرکسی شخص کے پاس کوئی شرعی عذرہے تو اسے امام کے ساتہ نمازپڑھے بغیربھی جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی, چنانچہ نبی r کاارشاد ہے:
" جب بندہ بیمارہوتا ہے یاسفرکی حالت میں ہوتا ہے تو اللہ اسکے لئے وہی عمل لکھتا ہے جسے وہ اپنی صحت اورقیام کی حالت میں کیا کرتا تھا" (صحیح بخاری)
اورغزوہ تبوک کے موقع پرآپ نے ارشاد فرمایا :
" بیشک مدینہ مین کچہ ایسے لوگ ہیں جنہیں عذرنے روک رکھا ہے , تم نے جب بھی کوئی مسافت یا وادی طے کی ہے تو وہ تمہارے ساتہ رہے ہیں "
ایک دوسری روایت میں ہے:
" وہ تمہارے ساتہ اجرمیں شریک رہے ہیں "(متفق علیہ )
جب لوگ امام کو آخری تشہد میں پائیں تو انکے لئے امام کے ساتہ جماعت میں شامل ہوجانا افضل ہے ,کیونکہ نبی r کی یہ حدیث عام ہے :
جب تم نماز کے لئے آؤ توسکون ووقارکے ساتہ آؤ ,جوملے اسے پڑھ لو , اورجوچھوٹ جائے اسے پوری کرلو"(متفق علیہ )
لیکن اگرانہوں نے الگ جماعت کے ساتہ نمازپڑھ لی تب بھی –انشاءاللہ – کوئی حرج نہیں –
سوال 52:
دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ نمازفجرکی اقامت ہوجانے کے بعد مسجد آتے ہیں ,توپہلے فجرکی دورکعت سنت پڑہتے ہیں پھرجماعت میں شامل ہوتے ہیں , تو اسکا کیا حکم ہے ؟ اورکیا فجرکی چھوٹی ہوئی سنت نماز فجرکے فوراً بعد پڑھنا افضل ہے یا طلوع آفتاپ کا انتظارکرلینے کے بعد ؟
جواب :
 جوشخص اقامت ہوجانے کے بعد مسجد میں آئے اسکے لئے کوئی سنت یا تحیۃ المسجد وغیرہ پڑھنا جائزنہیں, بلکہ اسپرواجب ہے کہ وہ امام کے ساتہ نماز میں شامل ہوجائے ,نبی r کا ارشاد ہے :
"جب نماز کی اقامت ہوجائے تو اب اس فرض نماز کے علاوہ کوئی دوسری نماز نہیں " (صحیح مسلم)
اوریہ حدیث نمازفجرہی نہیں بلکہ تمام نمازوں کو شامل ہے – فجرکی چھوٹی ہوئی سنت فرض نمازکے فوراً بعد ,یاطلوع آفتاب کے بعد دونوں طرح پڑھی جاسکتی ہے ,مگربہتریہ ہےکہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھی جائے ,نبی r  سے دونوں صورتیں ثابت ہیں, واللہ ولی التوفیق-
سوال 53:
ایک شخص نے ہماری امامت کی اورصرف دائیں جانب سلام پھیرا ,کیا ایک ہی سلام پراکتفا کرنا جائزہے ؟ اورکیا حدیث میں اس سلسلہ میں کوئی چیزوارد ہے؟
جواب :
جمہوراہل علم کے نزدیک ایک سلام کافی ہے ,کیونکہ بعض حدیثوں میں یہ چیز وارد ہے ,لیکن علماء کی ایک جماعت کے نزدیک دوسلام ضروری ہے کیونکہ نبی r سے اس سلسلہ میں بہت ساری حدیثیں وارد ہیں ,اورآپ کا ارشاد ہے :
"تم اسی طرح نمازپڑھو جیسا مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے "(صحیح بخاری )
اوریہی دوسراقول ہی درست ہے – رہا ایک سلام کے کافی ہونے کا قول تویہ کمزورہے ,کیونکہ  اس سلسلہ میں وارد تمام حدیثیں ضعیف ہیں , نیزان کی دلالت مبہم اورغیرواضح ہے , اوراگرانہیں صحیح مان بھی لیاجائے تویہ شاذ ہیں, کیونکہ یہ ان حدیثوں کی مخالف ہیں جوان سے زیادہ صحیح ,ثابت اورصریح ہیں , لیکن اگرکسی نے لاعلمی وجہالت کی وجہ سے ,یا اس سلسلہ میں وارد حدیثوں کوصحیح سمجہ کرایساکرلیا تواسکی نمازصحیح ہوجائے گی,واللہ ولی التوفیق-
سوال 54:
ايك شخص امام كے ساتہ جماعت میںشامل ہوا اوراسے دورکعتیں ملیں, مگربعد میں پتہ چلا کہ امام نے بھول کرپانچ رکعتیں پڑھادی ہیں , توکیا وہ امام کے ساتہ پڑھی ہوئی اس زائد رکعت کو شمارکرکے بعد میں صرف دورکعت پوری کرے ,یا اسے لغوسمجہ کرتین رکعت پڑھے ؟
جواب:
درست یہ ہے کہ وہ اسکا شمارنہ کرے ,کیونکہ یہ رکعت شرعی اعتبارسے غیرمعتبرہے ,اورجسے معلوم ہوجائے کہ یہ رکعت زائد ہے وہ اس میں امام کی متابعت نہ کرے ,اورمسبوق بھی اس رکعت کا شمارنہ کرے –
بنابریں ایسے شخص پرتین رکعت کی قضاکرنا واجب ہے ,کیونکہ درحقیقت اسے امام کے ساتہ ایک ہی رکعت ملی ہے , واللہ ولی التوفیق –
سوال 55:
کسی امام نے لوگوں کوبھول کربے وضو نماز پڑھادی ,اوراسے نمازکے دوران یا سلام پھیرنے کے بعد ,لوگوں کے منتشرہونے سے پہلے ,یا لوگوں کے منتشرہوجانے کے بعد یاد آیا تو ان مذکورہ حالات میں اس نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب:
 اگراسے سلام پھیرنے کے بعد یاد آیا خواہ لوگ موجود ہوں یا منتشرہوگئے ہوں تو لوگوں کی نماز صحیح ہوجائے گی لیکن امام کو اپنی نماز دہرانا ہوگی –
اوراگراسے نماز کے دوران ہی یاد آگیا توایسی حالت میں علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق وہ کسی کو آگے بڑھادے جوانہیں باقی نماز پڑھا ئے ,جیساکہ عمربن خطاب t کو جب نیزہ ماراگیا تو انہوں نے عبد الرحمن بن عوف t کو آگے بڑھا دیا ,چنانچہ انہوں نے لوگوں کونماز پڑھائی ,اورنمازکا اعادہ نہیں کیا –
سوال 56:
جوشخص بیڑی سگریٹ پیتا یاداڑھی مونڈتا یا ازارکو ٹخنوں سے نیچے لٹکا کے رکھتا ہو یا اسی قسم کی اورکسی معصیت کا ارتکاب کرتا ہو اسکی امامت کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
اگروہ اللہ کے مشروع کردہ طریقہ پرنماز اداکرتا ہے تواہل علم کے اجماع کے مطابق اسکی نماز درست ہے , نیز اگروہ لوگوں کا امام ہے تو اسکی اقتدا میں پڑھنے والوں کی نمازبھی علماءکے صحیح ترین قول کے مطابق درست ہے –
رہا کافرشخص نہ تو خود اسکی نمازدرست ہوگی اورنہ اسکی اقتدا میں پڑھنے والوں کی , کیونکہ نماز کی صحت کے لئے اسلام بنیادی شرط ہے , واللہ ولی التوفیق-
سوال 57:
يہ معلوم ہے کہ مقتدی اگراکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا , تو کیا اسکے لئے امام سے کچہ پیچھے ہٹ کرکھڑا ہونا مشروع ہے , جیسا کہ بعض لوگ کیا کرتے ہیں ؟
جواب :
مقتدي اگراکیلا ہوتواسکے لئے مشروع ہے کہ وہ امام کے دائیں جانب اس کے برابرمیں کھڑاہو ,امام سے کچہ پیچھے ہٹ کرکھڑے ہونے کی کوئی دلیل نہیں ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 58:
کسی کونماز میں یہ شک ہوجائے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار,تو ایسی صورت میں وہ کیا کرے؟
جواب:
شک کی حالت میں اسے یقین پربنا کرنا چاہئے اوروہ کمترعدد ہے ,یعنی مذکورہ صورت میں تین رکعت مانکرایک رکعت اورپڑھے ,پھرسجدہ سہوکرکے سلام پھیرے ,نبی r کا ارشاد ہے :
"جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے اوریاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہے یاچار,تووہ شک کوچھوڑکریقین پربنا کرے اورسلام پھیرنے سے پہلے وہ سجدۂ سہوکرے ,اگراسنے پانچ پڑھ لی ہیں تویہ دوسجدے مل کرچہ رکعتیں ہوجائیں گی, اوراگرچارہی پڑھی ہیں تویہ دونوں سجدے شیطان کی رسوائی کا سبب ہوں گے "(صحیح مسلم ,بروایت ابوسعید خدری t )
لیکن اگراسے مذکورہ دونوں پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو کا غالب گمان ہے تووہ اپنے گمان غالب پراعتماد کرے اور سلام پھیرنے کے بعد دوسجدہ سہو کرے ,نبی r کا ارشاد ہے :
" جب تم میں سے کسی کونمازمیں شک ہوجائے تو وہ صحیح پہلو کی جستجو کرکے اپنی نمازپوری کرلے , پھرسلام پھیرنے کے بعد سہو کے دوسجدے کرلے " (صحیح بخاری بروایت عبد اللہ بن مسعودt)
سوال 59:
بعض ائمہ سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہوکرتے ہیں , اوربعض سلام پھیرنے سے پہلے , اوربعض کبھی سلام سے پہلے کرتے ہیں اورکبھی سلام کے بعد – سوال یہ ہے کہ سجدہ سہو کب سلام سے پہلے مشروع ہے اورکب سلام کے بعد؟ نیز سلام سے پہلے یا سلام کے بعد سجدہ سہو کی مشروعیت بطوروجوب ہے یا بطوراستحباب؟
جواب:
مسئلہ میں گنجائش ہے ,سلام سے پہلے کی اورسلام کے بعد کی دونوں صورتیں صحیح ہیں,کیونکہ نبی r سے دونوں طرح کی حدیثیں وارد ہیں, لیکن دوصورتوں کوچھوڑکرباقی تمام صورتوں میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا افضل ہے ,اوروہ دونوںصورتیں درج ذیل ہیں :
جب نمازی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتیں بھول کرسلام پھیردے ,توایسی صورت میں اسے نبی r کی اقتدا کرتے ہوئے نماز کی کمی پوری کرکے سلام پھیرنے کے بعد سجدۂ سہوکرنا افضل ہے , کیونکہ نبی r نے ابو ھریرہ t کی حدیث کے مطابق دورکعتیں بھول کر, اورعمران بن حصین کی حدیث کے مطابق ایک رکعت بھول کرجب سلام پھیردیا تونماز کی کمی پوری کرکے سلا م پھیرنے کے بعد سجدۂ سہو کیا تھا-
جب نمازی کو شک ہوجائے اوریہ یاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار, اگرنمازچاررکعت والی ہے , یادو پڑھی ہیں یا تین اگرنمازمغرب کی ہے ,یا ایک پڑھی ہے یا دو اگرنماز فجرکی ہے ,لیکن اسے مذکورہ دونوں پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو کا غالب گمان ہے ,توایسی صورت میں وہ اپنے گمان غالب پراعتماد کرکے سلام پھیرنے کے بعد سجدۂ سہو کرے , جیساکہ عبد اللہ بن مسعودt کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے جوجواب نمبر58 کے تحت گزرچکی ہے –
سلام سے پہلے یا سلام کے بعد سجدہ سہو کی یہ مشروعیت واجب نہیں , بلکہ فضیلت واستحباب کے طورپرہے –
سوال 60:
مسبوق سے اگرنمازمیں بھول چوک ہوجائے توکیا وہ سجدہ سہوکرے , اورکب کرے ؟ نیز مقتدی سے اگربھول چوک ہوجائے تو کیا اسے سجدۂ سہو کرنا ہے ؟
 جواب:
مقتدی سے اگرنماز میں بھول چوک ہوجائے اورشروع سے وہ امام کے ساتہ جماعت میں شامل ہے تو اسے سجدۂ سہو نہیں کرنا ہے ,بلکہ اسکے اوپرامام کی اقتدا واجب ہے ,لیکن جومسبوق بعد میں جماعت میں شامل ہوا ہو وہ اپنی نماز کا فوت شدہ حصہ پورا کرنے کے بعد سجدۂ سہوکرے ,جیساکہ سوال نمبر58 اور59 کے جواب میں گزرچکا ہے , خواہ اسکی یہ بھول چوک امام کے ساتہ ہوئی ہو ,یابعد میں فوت شدہ نمازکی قضا کرنے کی حالت میں ,واللہ ولی التوفیق –
سوال 61:
اگرکسی نے چاررکعت والی نماز کی آخری دورکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتہ کوئی سورت پڑھ دی ,یاسجدہ میں قرأت کردی ,یادونوں سجدوں کے درمیان "سبحان ربی العظیم " پڑھ دیا ,یا سری نمازمیں بلند آواز یا جہری نماز میں آہستہ قرأت کردی , توکیا ان حالات میں اسکے لئے سجدۂ سہو کرنا مشروع ہے ؟
جواب :
اگرکسی نے چاررکعت والی نماز کی آخری دونوں رکعتوں میں یا ایک ہی رکعت میں بھول کرایک یا چند آیتیں یاکوئی سورت پڑھ دی تو اسکے لئے سجدۂ سہو مشروع نہیں , کیونکہ نبی r  سے ثابت ہے کہ آپ ظہرکی تیسری اورچوتھی رکعت میں بسا اوقات سورۂ فاتحہ کے ساتہ کوئی سورت بھی پڑھ لیا کرتے تھے ,نیز آپ نے اس امیرکی تعریف فرمائی جواپنی نماز کی تمام رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد " قل ھو اللہ أحد" پڑھا کرتے تھے , لیکن معمول کے مطابق آپ تیسری اورچوتھی رکعت میں صرف سورۂ فاتحہ ہی پڑھتے تھے ,جیسا کہ صحیحین میں ابوقتادہ t کی حدیث سے ثابت ہے –
اورابوبکرصدیق t سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک بارمغرب کی تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد اس آیت کی قرأت کی :
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ} (8) سورة آل عمران
ان ساری دلیلوں سے یہ ثابت ہواکہ مسئلہ میں گنجائش ہے –
اگرکسی نے رکوع یا سجود میں بھول کرقرآن کی قرأت کردی تواسے سجدۂ سہو کرناہے کیونکہ رکوع اورسجود میں عمدا قرآن کی قرأت جائزنہیں ,نبی r نے اس سے منع فرمایا ہے –لہذا اگربھول سے کسی نے ایسا کردیا تو اس پرسجدۂ سہو واجب ہے –
اسی طرح اگررکوع میں "سبحان ری العظیم "کے بجائے "سبحان ربی الأعلی" یا سجدہ میں "سبحان ربی الأعلی" کے بحائے "سبحان ربی العظیم " کہ دی تب بھی سجدہ سہوواجب ہے ,کیونکہ یہ تسبیحات واجب ہیں , اورواجب کے چھوٹنے پرسجدۂ سہو ضروری ہوتا ہے – لیکن اگرکسی نے رکوع اورسجود میں "سبحان ربی العظیم" اور"سبحان ربی الأعلی " دونوں کہدیا تو سجدۂ سہو ضروری نہیں , اگرکرلیا تو کوئی حرج بھی نہیں , کیونکہ اس سلسلہ میں وارد دلائل عام ہیں , یہ حکم امام ,منفرد اورمسبوق کا ہے ,لیکن جومقتدی شروع ہی سے امام کے ساتہ جماعت میں شامل ہواسے ان حالات میں سجدہ سہونہیں کرنا ہے ,بلکہ اسکے اوپرامام کی اقتدا واجب ہے –
اسی طرح اگرکسی نے سری نماز میں بلند آواز سے یا جہری نماز میں آہستہ سے قرأت کردی تب بھی سجدہ سہو ضروری نہیں , کیونکہ نبی r کبھی کبھی سری نمازوں میں جہرفرماتے تھے , یہاں تک کہ لوگوں کو بعض آیتیں سنائی دیتی تھیں , واللہ ولی التوفیق-
سوال 62:
بعض لوگ جمع اورقصرکولازم وملزوم سمجھتے ہیں , یعنی یہ کہ بغیرقصرکے جمع نہیں اوربغیرجمع کے قصرنہیں, اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ اورکیا مسافرکی لئے قصرکرنا افضل ہے یا جمع اورقصردونوں؟
جواب :
اللہ نے قصرصرف مسافرکے لئے مشروع کیا ہے , اوراسکے لئے جمع کرنا بھی جائزہے مگردونوں میں کوئی تلازم نہیں , وہ بغیرجمع کے بھی قصرکرسکتا ہے , بلکہ اگروہ کسی جگہ  ٹہراہواہے توایسی حالت میں جمع نہ کرنا ہی افضل ہے , جیسا کہ نبی r نے حجۃ الوداع کے موقع پرمنی' میں بغیرجمع کے قصرکیا , اورغزوۂ تبوک کے موقعہ پرقصروجمع دونوں کیا , پس معلوم ہواکہ مسئلہ میں وسعت ہے ,نیزآپ r جب سفرمیں کہیں قیام پذیرنہیں ہوتے بلکہ چل رہے ہوتے تو جمع اورقصردونوں کرتے تھے –
رہا دونمازوں کے مابین جمع کرنا, تو اس میں قصرکے بہ نسبت زیادہ گنجائش ہے , یہ جس طرح مسافرکے لئے جائزہے اسی طرح مریض کے لئے , نیزبارش کے موقع پرمغرب وعشاء کے درمیان اورظہروعصرکے درمیان مسجدوں میں عام مسلمانوں کے لئے بھی جائز ہے , مگرقصرصرف مسافرکے لئے خاص ہے , واللہ ولی التوفیق-
سوال 63:
ایک شخص ابھی شہرہی میں ہے کہ نماز کا وقت ہوگیا ,پھروہ نماز اداکئے بغیرسفرکے لئے نکل پڑا ,توکیا اسکے لئے قصراورجمع کرنا درست ہے یا نہیں ؟ ایسے ہی ایک شخص نے ظہروعصرکی نمازیں سفرمیں قصراورجمع کے ساتہ پڑھ لیں پھروہ عصرکے وقت ہی میں شہرپہنچ گیا , توکیا اسکا یہ فعل درست ہے , جبکہ قصراورجمع کرتے وقت اسے یہ معلوم تھاکہ وہ دوسری نماز کے وقت میں شہرپہنچ جائے گا ؟
جواب:
اگرکوئی شخص ابھی شہرہی میں ہے کہ نماز کا وقت ہوگیا اورنما زپڑھے بغیرکوچ کردیا تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق شہرکی آبادی سے الگ ہونے کے بعد اسکے لئےقصرکرنا مشروع ہے , اوریہی جمہورکا قول ہے
اسی طرح جس نے سفرمیں دونمازیں قصراورجمع کے ساتہ پڑھ لیں ,پھروہ دوسری نمازکا وقت ہونے سے پہلے ,یا اس کے وقت ہی میں شہرپہنچ گیا تواب اسے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری نہیں , کیونکہ وہ شرعی طریقہ پرنماز ادا کرچکا ہے , اوراگرلوگوں کے ساتہ دوبارہ نمازپڑھ لی تویہ اسکے لئے نفل ہوجائے گی , واللہ ولی التوفیق-
سوال 64:
جس سفرمیں قصرکرنا جائزہے اسکے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ کیا اسکی مسافت کی کوئی مقدارمتعین ہے ؟ اوراگرکوئی شخص اپنے سفرمیں چاردن سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہو توکیا وہ قصرکی رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟
جواب :
جس سفرمیں قصرکرنا جائز ہے اسکی مقدارجمہوراہل علم کے نزدیک اونٹ اورپیدل کی رفتارسے ایک دن اورایک رات ہے , جوتقریباًاسّی(80)کلومیٹرہوتا
ہے, کیونکہ عرف عام میں کم ازکم اتنی ہی مسافت پرسفرکا اطلاق ہوتاہے –
جمہوراہل علم کے نزدیک اگرکوئی شخص سفرمیں چاردن سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہوتو اس پرپوری نماز پڑھنا, اوراگررمضان کا مہینہ ہے توروزہ رکھنا واجب ہے ,اس کے برعکس اگرقیام کی مدت اس سے کم ہے توقصر,جمع اورافطارسب اس کے لئے جائز ہیں , کیونکہ مقیم کے حق میں اصل اتمام (پوری نمازپڑھنا ) ہی ہے , قصرتودرحقیقت اسکے لئے مشروع ہے جب وہ سفرشروع کردے , نیزنبی r سے ثابت ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پرمکہ میں چاردن قیام کیا اوراس دوران قصرکے ساتہ نمازپڑھتے رہے ,پھرمنى' اورعرفات کی طرف روانہ ہوئے , آپ کا یہ فعل واضح دلیل ہے کہ جس شخص کا ارادہ چاردن یا اس سے کم قیام کا ہو اسکے لئے قصرکرنا جائزہے –
رہا فتح مکہ کے سال آپ کا انیس دن, اورغزوہ تبوک کے موقع پربیس دن کا قیام اوراس دوران نماز قصرکرنا , تو جمہوراہل علم کے نزدیک دین کے لئے احتیاط اوراصل حکم (یعنی مقیم کے لئے ظہر,عصراورعشاء کی چارچاررکعت کی فرضیت) پرعمل کے پیش نظراسے اس بات پرمحمول کیا جائے گا کہ آپ کاارادہ پہلےسے اتنی مدت کے لئے قیام کا نہیں تھا, بلکہ ایک ایسے سبب کی بنا پرآپ نے قیام کیا جسکی مدت نامعلوم تھی –
لیکن اگرکسی کا قیام کا ارادہ نہیں ہے اوراسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ وہاں سے کب کوچ کرے گا, تو جب تک وہ اپنے وطن واپس نہ آجائے اس کے لئے قصر ,جمع اورافطارسب جائز ہے , بھلے ہی اسکے قیام کی مدت چاردن سے زیادہ ہوجائے , واللہ ولی التوفیق-
سوال 65:
آج كل شہروں میں بارش کے موقع پرمغرب وعشاء کے درمیان جمع کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ھے ,جب کہ سڑکیں اورراستے روشن اورہموارہیں ,اورمسجد جانے میں نہ تو کوئی دشواری ہے نہ کیچڑ؟
جواب:
علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق بارش کے موقع پرمغرب وعشاء کے درمیان اورظہروعصرکے درمیان جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں ,بشرطیکہ بارش ایسی ہو جس میں مسجد جانے میں دشواری ہو ,اسی طرح اس وقت بھی جمع کرنا جائز ہے جب راستے میں کیچڑاورسیلاب ہو , کیونکہ یہ مشقت کا سبب ہیں ,اوراسکی دلیل صحیحین کی وہ حدیث ہے جو ابن عباس d   سے مروی ہے کہ نبی r نے ایک بارمدینہ میں ظہروعصرکے درمیان اورمغرب وعشاء کے درمیان جمع کیا , اورصحیح مسلم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : "بغیرکسی خوف ,یابارش ,یاسفرکے "
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ بات معروف تھی کہ بارش اورخوف بھی سفرکی طرح دونمازوں کے درمیان جمع کرنے کے لئے عذرہیں , البتہ حالت قیام میں صرف جمع کرنا جائزہے قصرنہیں ,کیونکہ قصرمسافرکے لئے خاص ہے , واللہ ولی التوفیق-
سوال66:
کیا دو نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے لئے نیت شرط ہے ؟ کیونکہ بہت سے لوگ جمع کی نیت کے بغیرمغرب کی نمازاداکرلیتے ہیں , پھرباہم مشورہ کرکے بطورجمع عشاء کی نمازپڑھتے ہیں ؟
جواب:
اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے ,لیکن راجح یہ ہے کہ پہلی نماز شروع کرتے وقت نیت شرط نہیں ہے , لہذا پہلی نماز سے فارغ ہونے کے بعد جمع کرنا جائز ہے بشرطیکہ خوف , بیماری ,یابارش میں سے کوئی سبب موجود ہو ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 67:
کیا دونمازوں کے درمیا ن جمع کرتے وقت تسلسل ضروری ہے ؟ کیونکہ بعض لوگ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے لئے تھوڑا سا انتظارکرتے ہیں پھرجمع کرتے ہیں , اسکا کیا حکم ہے ؟
جواب :
جمع تقدیم کی صورت میں دونوں نمازوں کے درمیان تسلسل ضروری ہے, اگرتھوڑا سا فاصلہ بھی ہوجائے توکوئی حرج نہیں , کیونکہ نبی r سے یہ چیز ثابت ہے , اورآپ r کا ارشاد ہے :
تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے "
اورصحیح بات یہ ہے کہ جمع کے لئے نیت شرط نہیں – جیساکہ جواب نمبر66میں اسکا بیان گزرچکا ہے –
رہا جمع تاخیر, تواسمیں گنجائش ہے کیونکہ اس صورت میں دوسری نماز اپنے وقت پرپڑھی جاتی ہے , لیکن نبی r کی اقتدا میں تسلسل سے پڑھنا افضل ہے ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 68:
اگرہم سفرمیں ہوں اورظہرکے وقت ہمارا گزرکسی مسجد سے ہو , توکیا ہم ظہرکی نماز اس مسجد کی جماعت کے ساتہ پڑھیں اورپھرعصرکی نماز الگ قصرکے ساتہ پڑھیں , یا ہم اپنی دونوں نمازیں الگ پڑھیں, ہمارے لئے مستحب کیا ہے ؟ اوراگرہم نے ظہرکی نمازجماعت کے ساتہ پڑھ لی توکیا تسلسل قائم رکھنے کے لئے سلا م پھیرنے کے بعد فوراً عصرکی نماز کے لئے کھڑے ہوں گے ,یا ذکراورتسبیح وتہلیل سے فارغ ہونے کے بعد پڑھیں گے ؟
جواب :
افضل یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی نمازیں الگ قصرکے ساتہ پڑھیں , کیونکہ مسافرکے لئے چاررکعت والی نمازمیں قصرکرنا ہی سنت ہے , اوراگرآپ مقیم لوگوں کی جماعت کے ساتہ نمازپڑھ رہے ہوں توپوری نماز پڑھنا ضروری ہے , جیساکہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے , اوراگرآپ کا ارادہ جمع کرنے کا ہے توسنت پرعمل کرتے ہوئے تین بار"استغفراللہ "اور"اللہم أنت السلام ومنک السلام ,تبارکت یاذالجلال والإکرام "پڑھنے کے بعد فوراً اسکے لئے کھڑاہوجانا مشروع ہے ,جیساکہ جواب نمبر67میں اسکا بیان گزرچکاہے-
لیکن اگرکوئی شخص سفرمیں اکیلاہو تواس پرواجب ہے کہ وہ لوگوں کی جماعت کے ساتہ پوری نماز پڑھے, کیونکہ جماعت کے ساتہ نمازاداکرنا واجب ہے اورنمازکا قصرمستحب ہے اورواجب کو مستحب پرمقدم کرنا ضروری ہے ,وباللہ التوفیق-
سوال69:
مسافرکے پیچھے مقیم کی نماز اورمقیم کے پیچھے مسافرکی نمازکاکیا حکم ہے ؟ اورکیا مسافرکے لئے ایسی حالت میں قصرکرنا درست ہے خواہ وہ امام ہویا مقتدی ؟
جواب:
مقیم کے پیچھے مسافرکی نمازہو,یامسافرکے پیچھے مقیم کی نماز ,دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں , لیکن اگرمسافرمقتدی ,اورمقیم امام ہو تو مسافرکو امام کی اقتدا میں پوری نماز پڑھنا ضروری ہے ,جیساکہ مسند امام احمد اورصحیح مسلم میں عبد اللہ بن عباس d سے مروی ہے کہ ان سے مقیم کے پیچھے مسافرکی چاررکعت نماز کے بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہی سنت ہے-
اگرمقیم مقتدی ,اورمسافرامام ہوتوایسی صورت میں مسافرچاررکعت والی نمازیں قصرکرے گا اورمقیم سلام پھیرنے کے بعد اپنی باقی نمازپوری کرے گا-
سوال 70:
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بارش کے موقع پرمغرب وعشاء کے درمیان جمع کرتے وقت بعض لوگ کچہ دیرسے اس وقت آتے ہیں جب امام عشاءکی نمازمیں ہوتا ہے ,پھرمغرب کی نماز سمجہ کروہ جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں , اب انہیں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
انہیں چاہئے کہ تیسری رکعت کے بعد بیٹہ جائیں ,اورتشہد اوردوسری دعائیں پڑھیں, اورجب امام سلام پھیرے تو اسکے ساتہ سلام پھیریں ,پھراسکے بعد عشاءکی نماز پڑھیں , تاکہ نمازوں کی ترتیب جوواجب ہے باقی رہے اورجماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے –
اوراگران کی ایک رکعت چھوٹ گئی ہوتووہ امام کے ساتہ باقی نمازمغرب کی نیت سے پڑھ لیں ,یہی ان کے لئے مغرب کے قائم مقام ہوجائے گی , اگرایک سے زیادہ رکعتیں چھوٹی ہوئی ہیں توامام کے ساتہ جتنی ملے وہ پڑھ لیں , اورجو چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا کرلیں-اسطرح اگرانہیں یہ معلوم بھی ہو کہ امام عشاء کی نماز میں ہے تب بھی وہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق امام کے ساتہ مغرب کی نیت سے شامل ہو جائیں اوربعد میں عشاءکی نمازپڑھ لیں –
سوال71:
سفرمیں قصرکرتے وقت سنن موکدہ پڑھی جائیں یا نہ پڑھی جائیں ,اس سلسلہ میں لوگوں کی رائیں مختلف ہیں , بعض کا کہنا ہے کہ انکا پڑھنا مستحب ہے ,جب کہ بعض کی رائے ہے کہ جب فرض نماز کم کردی گئی تواب انہیں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں , اس سلسلہ میں اوراسی طرح مطلق نفل نمازجیسے تہجد کے سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب :
مسافرکے لئے سنت یہ ہے کہ وہ ظہر,مغرب اورعشاء کی سنتیں چھوڑدے ,لیکن نبی r کی اقتدا میں فجرکی سنت پڑھے –
اسی طرح سفرمیں تہجد اوروتربھی اسکے لئے مشروع ہے, کیونکہ نبی  rایسا کیا کرتے تھے – اوریہی حکم تمام مطلق اورسبب والی نفل نمازوں کا بھی ہے –
جیسے چاشت کی نماز, تحیۃ الوضو ,اورنمازکسوف وغیرہ – اسی طرح سجدہ تلاوت اورجب مسجد میں نماز یا کسی اورغرض سے داخل ہوتو تحیۃ المسجد بھی مشروع ہیں –
سوال 72 :
کیا سجدۂتلاوت کے لئے طہارت شرط ہے؟ اورنماز کی حالت میں ہویا نماز سے باہرکیا سجدہ میں جاتے وقت , اوراٹھتے وقت اللہ اکبرکہنا مشروع ہے؟ اوراس سجدہ میں کیا پڑھا جائے گا ؟ نیزوہ دعا جواس سلسلہ میں وارد ہے کیا صحیح ہے ؟ اوراگریہ سجدہ نمازسے باہرہوتوکیا سجدہ سے اٹھنے کے بعد سلام پھیرنا مشروع ہے؟
جواب: علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق سجدہ تلاوت کے لئے طہارت شرط نہیں ,اورنہ اس میں سلا م پھیرنا ہے اورنہ ہی سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیرکہنا ہے , البتہ سجدہ جاتے وقت تکبیرکہنا مشروع ہے , جیساکہ عبد اللہ بن عمرd  کی حدیث سے ثابت ہے –
لیکن اگرسجدہ تلاوت نمازمیں ہو تو سجدہ جاتے وقت اورسجدہ سے اٹھتے وقت اللہ اکبرکہنا واجب ہے ,نبی r نماز میں جب جھکتے اوراٹھتے تواللہ اکبرکہتے تھے ,اورآپ کا ارشادہے :
"تم نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے"(صحیح بخاری)
سجدۂ تلاوت میں وہی دعائیں پڑھی جائیں گی جونمازکے سجدوں کے لئے مشروع ہیں ,کیونکہ اس سلسلہ میں وارد حدیثیں عام ہیں , انہی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی ہے :
اللهم لك سجدتُ ,وبِك آمنتُ ,ولك أسلمتُ, سجد وجهي للذي خلقه وصوَّره وشقَّ سمعَه وبصرَه بحوله وقُّوّته ,فتبارك الله ُ أحسنُ الخالقينَ"
"الہی تیرے ہی لئے میں نے سجدہ کیا ,تجھی پرایمان لایا اورتیری ہی میں نے تابعداری کی , میرے چہرے نے اس ہستی کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا , اسے اچھی صورت عطا کی ,اوراپنی طاقت وقدرت سے اسمیں کان اورآنکھیں بنائیں, اللہ کی ذات بابرکت ہے جوبہترین تخلیق کرنے والا ہے "
صحیح مسلم میں علی t سے روایت ہےکہ نبی r یہ دعا نمازکے سجدہ میں پڑھتے تھے ,اورابھی یہ بات گزرچکی ہے کہ سجدۂ تلاوت میں وہی دعائیں مشروع ہیں جو نماز کے سجدے میںمشروع ہیں –
نیز نبی r سے مروی ہے کہ آپ سجدۂ تلاوت میں یہ دعا پڑھتے تھے :
"اللهم اكْتٌب لي بها عندك اجْراً ,وامْحُ عني بها وزرًا, واجْعلها لي عندك ذُخراً, وتقبَّلها مني كما تقبَّلتَها من عبد ك داؤدَ عليه السلام "
"الہی تو اس سجدہ کے بدلے میرے نامۂ اعمال میں نیکی لکہ دے ,میرے گناہ کو مٹادے , اسے میرے لئے اپنے پاس ذخیرہ کردے , اورتو مجہ سے اسے اسی طرح قبول کرلے جس طرح تونے اپنے بندہ داؤد علیہ السلام سے قبول کیا ہے "
سجدۂ تلاوت میں نماز کے سجدوں کی طرح " سبحان ربی الأعلی " کہنا واجب ہے ,اوراسکے علاوہ دوسری دعاؤں کاپڑھنا مستحب ہے – سجدۂ تلاوت نمازمیں ہو یا نمازسے باہرسنت ہے واجب نہیں, جیساکہ زید بن ثابت اورعمربن خطاب رضی اللہ عنہم کی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے, واللہ ولی التوفیق-
سوال 73:
بسا اوقات نماز عصرکے بعد سورج میں گرہن لگ جاتاہے, توکیا ممنوع اوقات میں نماز کسوف اوراسی طرح تحیۃ المسجد وغیرہ پڑھنا درست ہے ؟
جواب :
مذکورہ دونوں مسئلوں میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے , مگرراجح اوردرست قول یہ ہے کہ پڑھنا جائزہے , کیونکہ نماز کسوف اورتحیۃ المسجد سبب والی نمازوں میں سے ہے جودیگراوقات کی طرح نمازعصراورنماز فجرکے بعد ممنوع اوقات میں بھی مشروع ہیں , کیونکہ آپ r کا قول عام ہے ,نبی r  کا ارشاد ہے:
" بے شک سورج اورچاند اللہ کی نشانیوں میںسے دونشانیاں ہیں, کسی کے موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا ہے , توجب تم ایسا دیکھو تو نمازپڑھو اوردعا کرو, یہاں تک کہ تمہارے اوپرسے یہ کیفیت دورہوجائے "(متفق علیہ)
اورفرمایا:
" جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو جب تک دو رکعت نماز نہ پڑھ لے نہ بیٹھے " (متفق علیہ )
یہی حکم طواف کی دورکعتوں کا بھی ہے جب کوئی شخص نمازفجراورنماز عصرکے بعد خانۂ کعبہ کا طواف کرے, جیسا کہ نبی r کا ارشاد ہے :
" اے عبد مناف کے بیٹو! رات ہو یا دن جس وقت بھی کوئی شخص اس گھرکا طواف کرنا اورنمازاداکرنا چاہے اسے مت روکو" (اس حدیث کو امام احمد اوراصحاب سنن اربعہ نے صحیح سند کے ساتہ جبیربن مطعم t  سے روایت کیا ہے )
سوال 74:
جن احادیث میں نماز کے آخرمیں ذکرودعا کی ترغیب آئی ہے وہاں "دبر"کا لفظ استعمال ہواہے ,سوال یہ ہے کہ "دبر" سے کیا مراد ہے ,کیا سلام پھیرنے سے پہلے نمازکا آخری حصہ یا سلام پھیرنے کے بعد؟
جواب:
دبرکا اطلاق کبھی سلام کے پہلے نمازکے آخری حصہ پر, اورکبھی سلام پھیرنے کے فوراً بعد پرہوتا ہے , جیسا کہ صحیح حدیثوں میں وارد ھے ,مگراکثرحدیثییں جودعا کے تعلق سے وارد ہیں ان میں دبرسے مراد سلا م کے پہلے نماز کا آ خری حصہ ہے , مثلاً عبد اللہ بن مسعود t کی حدیث جس میں نبی r نے انہیں دعائے تشہد سکھلاتے ہوئے فرمایا :
"پھروہ  اپنی پسند کی کوئی دعا اختیارکرے اورمانگے " 
اورایک حدیث میں یوں ہے :
" پھروہ جومانگنا چاہے مانگے "( متفق علیہ)
اسی طرح معاذبن جبل t کی حدیث بھی , جس میں نبی r   نے ان سے فرمایا :
'اے معاذ! تم ہرنماز کے آخرمیں یہ دعا پڑھنا نہ بھولو" اللہم أعنی علی ذکرک وشکرک حسن عبادتک "
اے اللہ ! تو اپنے ذکر,شکراوراپنی اچھی عبادت کی مجھے توفیق عطا فرما " (ابوداؤد ,ترمذی نسائی بسند صحیح )
اسی طرح سعد بن ابی وقاص t  کی حدیث جس میں بیان کرتے ہیں کہ نبی r ہرنماز کے آخرمیںیہ دعا پڑھتے تھے:
اللهم ‘إني أعوذبك من البخل , وأعوذبك من الجبن ,وأعوذبك من أن أردَّ إلي أرذل العمر, وأعوذبك من فتنة الدنيا ومن عذاب القبر"
"الہی میں بخل سے , بزدلی سے , گھٹیا عمرسے , دنیا کی آزمائش سے , اورقبرکے عذاب سے تیری پناہ جاہتاہوں " (صحیح بخاری)
رہے اس موقع پروارد اذکار,توصحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ یہ سلا م پھیرنے کے بعد پڑھے جائیں گے , اوریہ اذکاردرج ذیل ہیں :
" استغفرالله ,استغفرالله ,استغفرالله, اللهم أنت السلام ,ومنك السلام ,تباركتَ يا ذالجلال والإكرام "
"میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں , میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں , میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں , اے اللہ ! توسلامتی والا ہے , اورتجھی سے سلامتی ہے , تو برکت والا ہے اے عظمت وجلا ل والے !
یہ ذکرامام , مقتدی اورمنفرد سب پڑھیں گے , مگرامام یہ دعا پڑھنےکے بعد اپنا چہرہ مقتدیوں کی طرف کرلے گا , اوراسکے بعد درج ذیل اذکارپڑھے جائیں :
" لا إله إلا الله وحده لاشريك له , له الملك وله الحمد , وهوعلى كل شيئ قدير,لاحول ولا قوة إلا بالله , لآ إله إلا الله , ولا نعبد إلا إياه ,له النعمة,وله الفضل, وله الثناء الحسن , لآ إله إلا الله مخلصين له الدين ولو كره الكافرون , اللهم لا مانع لما أعطيتَ ,ولا معطي لما منعتَ, ولا ينفع ذاالجَدِّ منك الجدُّ"
"الله كے سوا کوئی معبود برحق نہیں ,وہ اکیلا ہے, اسکا کوئی شریک نہیں , اسی کی بادشاہت ہے اوراسی کی تعریف , اوروہ ہرچیز پرقدرت رکھنے والا ہے, اللہ کی توفیق کے بغیرکوئی طاقت اورقوت کارگرنہیں ,اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ,ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں ,نعمت وفضل اسی کا ہے ,اوراسی کے لئے عمدہ تعریف, اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں, ہماری عبادت اسی کے لئے خالص ہے , اگرچہ کافروں کو نا گوارلگے ,الہی ! جوتودے اسے کوئی روکنے والا نہیں , اورجو تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں , اورکسی مالدارکو اسکا مال تیرے عذاب سے بچانہیںسکتا "
مذکورہ بالا اذکارکو ہرفرض نماز کے بعد پڑھنا ہرمسلمان مرد وعورت کے لئے مستحب ہے , پھراسکے بعد 33 بار"سبحان اللہ " 33بار"الحمد للہ " 33بار" اللہ اکبر" اورآخرمیں ایک بارلا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ,لہ الملک, ولہ الحمد ,وھو على کل شیئ قدیر"کہے , یہ سارے اذکارصحیح حدیثوں سے ثابت ہیں –
اسکے بعد ہرفرض نماز کے بعد ایک ایک بار"آیت الکرسی" "قل ھواللہ أحد"
"قل أعوذ برب الفلق " "قل أعوذ برب الناس" آہستہ آوازسے پڑھنا مستحب ہے , مگرفجراورمغرب کی نمازوں میں مذکورہ بالا تینوں سورتوں کا تین تین بارپڑھنا مستحب ہے , اسی طرح مغرب اورفجرکی نمازوں کے بعد " لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ, لہ الملک, ولہ الحمد, یحی ویمیت, وھوعلى کل شیئ قدیر" کا آیت الکرسی اورتینوں سورتوں کے پہلے دس دس بارپڑھنا مستحب ہے , جیساکہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے , واللہ ولی التوفیق-
سوال 75:
فرض نمازوں کے بعد ایک مخصوص طریقہ پراجتماعی ذکرکا کیا حکم ہے ,جیساکہ بعض لوگ کرتے ہیں؟ اورکیا بلند آوازسے ذکرکرنا مسنون ہے یا آہستہ سے ؟
جواب :
پنجوقتہ نمازوں اورنماز جمعہ سے سلام پھیرنے کے بعد بلند آوازسے ذکرکرنا مسنون ہے ,جیساکہ صحیحین میں عبد اللہ بن عباس d سے مروی ہے کہ عہد نبوی میں لوگ فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد بلند آوازسے ذکرکرتے تھے , ابن عباس d کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے ذکرکی آواز سن کریہ جان لیتا تھا کہ نما ز ختم ہوچکی ہے – رہا اجتماعی طورپراس طریقہ سے ذکرکرنا کہ شروع سے آخرتک ہرشخص اپنی آوازدوسرے کی آوازسے ملا کررٹ لگائے تواس کی کوئی اصل نہیں , بلکہ یہ کام بدعت ہے مشروع یہ ہے کہ سب لوگ اللہ کا ذکرکریں مگرشروع میں یا آخرمیں آواز کو ملا نے کا قصد نہ ہو, واللہ ولی التوفیق-
سوال76:
كوئي شخص بھول کرنماز میں بات کرلے توکیا اسکی نمازباطل ہوجائے گی ؟
جواب :
اگرکوئی شخص بھول کریا جہالت ولاعلمی کی بنا پرنماز میں بات کرلے تو اس سے اسکی نماز باطل نہیں ہوگی , خواہ فرض نماز ہو یا نفل ,اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا  } (286) سورة البقرة
اے ہمارے رب! ہم اگربھول گئے ,یاغلط کربیٹھے تو اس پرہماری گرفت نہ فرما-
اورصحیح حدیث میں نبی  rسے ثابت ہے کہ اللہ تعالى نے اسکے جواب میں فرمایا :
" میں نے تمہاری بات قبول کرلی "
نیزصحیح مسلم میں معاویہ بن حکم سلمی t سے روایت ہے کہ ایک بارانہوں نے لاعلمی کی بنا پرنمازکی حالت میں کسی چھینکنے والے کے جواب میں " یرحمک اللہ " کہ دیا تو ان کے آس پاس کے لوگوں نے اشاروں سے ان کے اس فعل کی تردید کی , جب انہوں نے اس سلسلہ میں نبی r سے دریافت کیا تو آپ نے انہیں نمازدہرانے کا حکم نہیں دیا , اوربھولنے والا نہ جاننے والے ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کرہے , اوراسلئے بھی کہ خود نبی r نے بھول کرنمازمیں بات کی اورنماز کو نہیں دھرایا , بلکہ اسی نماز کو مکمل فرمالیا جیساکہ صحیحین میں ابوہریرہ t سے ذوالیدین صحابی کے واقعہ میں موجود ہے , نیز صحیح مسلم میں عمران بن حصین اورابن مسعود رضی اللہ عنہم کی حدیثوں سے ثابت ہے –
رہا نماز کے دوران اشارہ کرنا , تواگرضرورت پرایسا کرلے توکوئی حرج نہیں , واللہ ولی التوفیق-

مکمل تحریر >>