Tuesday, December 30, 2014

میلاد النبی میں انجام دئے جانے والے اعمال

میلاد النبی میں انجام دئے جانے والے اعمال
=========================


عید ِمیلاد کے تحت بے شمار بدعات ، خرافات ،بیسیوں محرمات اور منکرات انجام دئے جاتے ہیں۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں۔
 (1)روضہ رسول کی شبیہ بنانا
(2)شرکیہ نعتیں پڑھنا ،
(3)مجلس کے آخر میں قیام ا س عقیدت کے تحت کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں،(العیاذباللہ)، (4)شیرینی تقسیم کرنا ،
(5) دیگیں پکانا ،
(6) دروازے اور پہاڑیاں بنانا ،
(7)عمارتوں پر چراغاں کرنا ،
(8)جھنڈیاں لگانا ، ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین شریفیں کی تصویر بنانا ،
(9)مخصوص لباس پہننا،
(10) تصویریں اتارنا،
(11) رقص و وجد کا اہتمام کرنا،
(12)شب بیداری کرنا ،
(13)اجتماعی نوافل ،
(14)اجتماعی روزے ،
(15)اجتماعی قرآن خوانی ،
(16)عورتوں مردوں کا اختلاط ،
(17)نوجوان لڑ کوں کا جلوس میں شرکت کرنا اور عورتوں کا ان کو دیکھنا ،
(18)آتش بازی ،
(19)مشعل بردار جلوس ،جو کہ عیسائیوں کا وطیرہ ہے ،
(20)گانے بجانے،
(21)فحاشی وعریانی ،
(22) فسق و فجور ،
(23)دکھاوا اور ریاکاری ،
(24)من گھڑ ت قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان ،
(25)انبیاء ، ملائکہ ،صحابہ کرام کے بارے میں شرکیہ اور کفریہ عقیدے کا اظہار،
(26)قوالی ،
(27)لہوولعب،
(28)مال و دولت اور وقت کا ضیاع وغیرہ،
بلکہ اب تو ان پروگراموںمیں بد امنی ، لڑائی جھگڑا ، قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
عید میلاد النبی کے نام پر سجائی جانے والی محفلیں ، قوالیاں ، شرکیہ نعت خوانیاں، گلیوں اور شاہراہوں کے ڈیکور اور سجاوٹ میں بیجا روپۓ خرچ کرنا و‏غیرہ اگر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ ہوتیں تو سب سے پہلے صحابہ کرام  رضوان اللہ علیھم اجمعین اس جیسے اعمال کو ضرور انجام دیۓ ہوتے کیونکہ اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے  سچی محبت کا دم بھرنے والے وہی لوگ تھے ۔
اللہ تعالی تمام امت مسلمہ کو  سنت رسول کی اتباع وپیروی کی توفیق فرماتے ہوۓ انھیں ہر قسم کے شرک وبدعات سے محفوظ فرماۓ ۔ آ مين تقبل يارب العالمين .


مکمل تحریر >>

چھینک کے آداب

چھینک کے آداب

(1)إذاعطس أحدُكم فليقلْ : الحمدُ للهِ ، وليقلْ له أخوهُ أو صاحبُه : يرحمُك اللهُ ، فإذا قال له : يرحمُك اللهُ ، فليقلْ : يهديكم اللهُ ويصلحُ بالَكم(بخاری، کتاب الادب)
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاجب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ "الحمد للہ "کہے اور اس کا بھائی اسےیرحمک اللہکہے تو جب وہ اسےیرحمک اللہ"کہے تو وہ اسے یوں کہے"  یھدیکم اللہ ویصلح بالکم" اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے۔

(2) چھینک آنے پر الحمد للہ کہے،اگر اس کے ساتھ "علی کل حال" پڑھا جائے تو بہتر ہے۔ایک صحیح حدیث کے مطابق ابن عمر نے ایک آدمی کو بتایا کہ آپﷺ نے انھیں الحمد للہ علی کل حال کے الفاظ سکھائے تھے۔ حدیث اس طرح ہے۔أنَّ رجلًا عطَسَ إلى جنبِ ابنِ عمرَ فقال الحمدُ للهِ والسلامُ على رسولِ اللهِ قال ابنُ عمرَ وأنا أقولُ الحمدُ للهِ والسلامُ على رسولِ اللهِ وليسَ هكذا عَلَّمَنَا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ علَّمَنَا أن نقولَ الحمدُ للهِ على كلِّ حالٍ(إرواء الغليل 3/245)

(3) ایک روایت میں چھینک آنے پر "الحمدللہ رب العالمین" کہنا آیا ہےمگر اس روایت کو علامہ البانی ؒ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ روایت اس طرح ہے :  إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ : يَرْحَمُكَ اللَّهُ ، وَلْيَقُلْ : يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ ( ضعفه الألباني في ضعيف أبي داود )

(4) ایک روایت میں رفاعه بن رافع فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ،مجھے چھینک آئی تو میں نے کہا"الحمدُ للهِ حمدًا كثيرًا طيِّبًا مبارَكًا فيه , مبارَكًا عليه كما يُحِبُّ ربُّنا ويرضَى (الاحکام الصغری:261)
البتہ نماز کے دوران کسی دوسرے کو جواب دینا جائز نہیں۔

(5) جو شخص چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہے تو اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے،آپﷺ نے فرمایا: عطَس رجلان عند النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم, فشمَّت أحدَهما ولم يُشمِّتِالآخرَ ، فقيل : يا رسولَ اللهِ ! شمَّتَّ هذا ولم تُشمِّتِ الآخرَ ؟ ! قال : إنَّ هذا حمِد اللهَ فشمَّتُّه ، وإنَّ هذا لم يحمَدِ اللهَ فلم أُشمِّتْه(حلیۃ الاولیاء 3/39)

(6) غیر مسلم اگر چھینک آنے پرالحمد للہ "کہے تو اسےیرحمک اللہنہیں کہنا چاہیے۔۔۔۔۔ ابو موسی سے روایت ہے کہ یہودی آپﷺ کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپﷺ انھیںالحمد للہکہیں گے مگر آپﷺ انھیں یہی کہتےیھدیکم اللہ ویصلح بالکم"(صحیح ابو داؤد و صحیح ترمذی)

(7) حدیث کے مطابق تین دفعہ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا چاہیے۔۔۔۔اگر اس سے زیادہ آجائیں تو اسے زکام کا مرض لاحق ہے۔ حدیث اس طرح ہے : يُشَمَّتُ العاطِسُ ثلاثًا ، فما زاد فهو مَزْكومٌ (صحیح الجامع للالبانی)

(8) ابو ہریرۃ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کو چھینک آتی تو اپنے منہ اپنا ہاتھ یا کپڑا وغیرہ رکھ لیتے اورچھینکتے ہوئے اپنی آواز کو پست کر لیتے (ابو داؤدو ترمذی)

محدث فورم ترمیم کے ساتھ

مکمل تحریر >>

Monday, December 29, 2014

سجدہ میں گھٹنے پہلے رکھیں یا ہاتھ


سوال: کیا نماز ادا کرتے ہوئے جب سجدہ کو جائیں تو پہلے ہاتھ رکھیں یا گھٹنے ؟ صحیح حیدث کی رُو سے وضاحت فرمائیں۔
جواب: نماز میں سجدہ کو جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھنا ہی صحیح ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمای ا:
    '' جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے ''۔
    اس حدیث کی سند جید ہے ۔ امام نووی  رحمہ اللہ  ، امام زرقانی  رحمہ اللہ ، امام عبدالحق اشبیلی  رحمہ اللہ ، علامہ مبارک پوری  رحمہ اللہ  نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا یہ حدیث سید ناوائل بن حجر والی حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔ ملا حظہ ہو مجموعہ
۳ ٣/۴۲۱ ٤٢١ تحفۃ الا حوذی ۱١/۲۲۹ ٢٢٩بلوغ المرام مع سبل السلام ۱١/ ۳۱۶٣١٦) اس حدیث کی شاہد حدیث سیدنا ابن عمر  رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی ہے ۔ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ یہ حدیث ابن خزیم (۶۲۷) دارقطنی۱/۳۴۴، بیہقی۲/۱۰۰ حاکم۱/۲۲۶ میں ہے۔ اس حیدث کو امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہنی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ جو لوگ سجدہ جاتے ہوئے پہلے گھنٹے رکھنے کے قائل ہیں ۔ وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔
    '' وائل بن حجر  رحمہ اللہ  سے رویات ہے کہ میں نےر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سجدہ کرتے تو دونوں گھنٹے ہاتھوں سے پہلےز مین پر رکھتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ''۔ ( ابو داؤد (
۸۳۸) ، نسائی۲/۲۰۶، ترمذی (۲۷۸) ، ابن ماجہ (۸۸۲) ، دارمی ۱/۳۰۳، ابن خزیمہ (۶۲۶)، طحاوی۱/۲۵۵، ابن حبان (۴۸۷) ، دارقطنی ، ۱/۳۴۵، بیہقی ۲/۹۸، شرح السنہ (۶۴۲)
    لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف راوی ہیں ۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحدیث الضعیفۃ
۲/۳۲۹)۔
    مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ راحج اور قومی مذہب کی یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی گھٹنوں کے بجاے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھے۔ امام اوزاعی، امام مالک، امام ابنِ خمر  رحمہ اللہ  اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن جنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔
    حدیث وائل بن حجرکو اگر صحیح یتسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ترجیح اسی موقف کو ہے۔ اسلئے کہ سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ کی حدیث قولی ہے اور وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ کی حدیث فعلی ہے اور تعارض کی صورت میں قولی حدیث کو فعلی حدٰث پر ترجیح دی جاتی ہے اور سیدنا ابو ہریرہ  رحمہ اللہ  کی حدیث کی شاہد ابن عمر رضی اللہ عنہ والی صحیح حدیث بھی ہے۔ علاوہ ازیں سیدنا ابو ہریرہ  رحمہ اللہ  کی حدیث میں ہاتھوں سے قبل گھنٹے رکھنے کی مامنعت ہے اور تعارض کی صورت میں ممانعت والی رویات کو لیا جات اے ۔ تفصیل کیلئے دیکھیں ۔(محلی ابن حزم
۴/۱۲۹، ۱۳۰) ماخوذ از اسلامک میسیج آرگنائزیشن


مکمل تحریر >>

Sunday, December 28, 2014

مختلف حالات میں سلام کا جواب دینا

مختلف حالات میں سلام کا جواب دینا


لوگوں کے درمیان بعض حالات میں سلام کا جواب دینا معلوم نہیں ہے اس لئے آئے دن اس قسم کے سوالات دہرائے جاتے رہتے ہیں ۔ موقع کی نزاکت کے تئیں ان کا جواب قارئین کی نظر کیا جا رہاہے۔

(1)حالتِ نماز میں سلام کا جواب دینا:

======================
اگر مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور تمام نمازی با جماعت نماز ادا کر رہے ہوں اور  باہر سے آنے والا شخص جب سلام کہے تو نمازی اس کا جواب الفاظ سے نہ دیں کیونکہ نماز کی حالت میں کلام کرنا منع ہے بلکہ نمازی ہاتھ کے اشارے سے جواب دے ۔
دلیل : سیدنا عبداللہ بن عمرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
    '' میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ نبی کریم کو نماز کی حالت میں جب لوگ سلام کرتے ہیں تو آپ ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے رسول ا للہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو کیسے دیکھا ؟ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   ایسے کہتے  تھے اور اپنی ہتھیلی کو پھیلایا '' (بلوغ الامرام مع سبل السلام ۱/۱۴۰)
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیتے تھے۔ زبان سے کلام نہیں فرماتے تھے ۔ امام محمد بن اسماعیل الصنعانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
    '' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کوئی آدمی کسی کو حالتِ نماز میں سلام کہے تو اس کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے دے نہ کہ زبان سے بول کر '' ( سبل السلام ۱/۱۴۰)

(2)کھاتے وقت سلام کا جواب دینا:

====================
کھانا کھاتے وقت سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا جائز ہے کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ بعض لوگوں کی زبانوں پر یہ جومشہور ہے کہ لا سلام ولا کلام علی الطعام کہ” کھاتے وقت سلام یا کلام نہیں ہونا چاہیے“ تو یہ کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ مقولہ ہے جو لوگوں میں رائج ہوگیا ہے ۔
اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم سے کھانے کے بیچ بات کرناثابت ہے ۔ ایک مرتبہ آپ صلى الله عليه وسلم  کے پاس گوشت پیش کیا گیا آپ نوچ نوچ کرتناول فرمانے لگے ، اسی اثناء فرمایا : ”میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا “ پھر آپ نے شفاعت کی طویل حدیث بیان کی ۔ (بخای ومسلم)
جب حدیث سے کھاتے وقت بات کرنے کا ثبوت ملتا ہے تو اس حالت میں سلام کا جواب دینا بدرجہ اولی درست ہے۔

(3)قرآن کی تلاوت کرتے وقت سلام کا جواب دینا :

============================
قرآن کی تلاوت کرتے وقت سلام کا جواب دینا جائز ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں، پوچھا گیا وہ کیا ہے؟ یارسول اللہﷺ! آپﷺنے فرمایا: جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہیے، جب وہ دعوت دے تو قبول کیجیے، جب وہ نصیحت طلب کرے تو اسےنصیحت کیجئے، جب وہ چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اسےچھینک کا جواب دیجیے، جب وہ بیمار ہو تواس کی عیادت کیجیے اور جب وہ فوت ہو تو اس کے جنازے کے پیچھے چلیے۔‘‘ (صحیح مسلم:2162)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملاقات کےوقت ہرمسلمان کو سلام کرنا مستحب عمل ہے جب کہ سلام کاجواب دینا فرض ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے :
’’ وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ‘‘اورجب تمہیں سلام کیا جائے تواس سے اچھاسلام کا جواب دو یا اسی کے مثل لوٹادو، بےشک اللہ ہرچیز کا خوب حساب رکھنے والا ہے۔(النساء:86)
خلاصہ کلام یہ کہ تلاوت قرآن میں منہمک شخص کو سلام کرنا مستحب عمل ہے اورتلاوت کرنے والے شخص پر سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔

(4)دوران خطبہ سلام کا جواب دینا:

====================
بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ’’جب جمعہ کے دن دوران خطبہ تم اپنے ساتھی سے یہ کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو بھی تم نے لغو کام کیا۔‘‘
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ دوران خطبہ بات کرنا ممنوع ہے لیکن اگر کسی مصلی نے سلام کیا تو دل میں اس کا جواب دے دے، اس لیے کہ دل میں سلام کا جواب دینے سے خطبے کے سماع میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ البتہ بالجہر جواب دینا سماع میں خلل کا باعث ہے، اس لیے بالجہر سلام کا جواب نہ دے۔


(5)اذان دیتے وقت سلام کا جواب دینا:

======================
آذان ہوتے ہوئے سلام کہنا اور اس کا جواب دینا کسی حدیث سے منع نہیں ہے۔ 
اس لئے آذان ہوتے ہوئے سلام کا جواب دینا درست ہے ۔ سلام کا جواب دینے سے اذان کے سماع میں کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ مؤذن کلمات کھینچ کر کہتا ہے۔ 


نوٹ : سلام کرنے اور جواب دینے کے لئے یہ قاعدہ ذہن میں رہے کہ جہاں سلام کرنے کی ممانعت نص سے وارد ہے وہاں سلام کرنا اور جواب دینا ممنوع ہوگا، مثلا قضائے حاجت کے وقت سلام کرنا اور جواب دینا منع ہے ، بقیہ دیگر مواقع پر سلام کرنا یا جواب دینا جہاں ممانعت کی دلیل نہیں مشروع اور جائز ہوگا۔

ترتیب و پیشکش:

مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

عقیقہ سے متعلق جانور کے مسائل

عقیقہ سے متعلق جانور کے مسائل
=====================


(1)ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور اُم کرز کعبیہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریۃ شاۃ'' '(رواہ أحمد و ترمذي عن عائشة سنن أبي داود، کتاب الأضاحي باب في العقیقة، و سنن نسائي کتاب العقیقة عن أم کرز الکعبیة بالأسانید الصحیحة)
ترجمہ : "لڑکے پرایک جیسی دو بکریاں اورلڑکی پر ایک بکری''

(2)سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے ایک اور حدیث میں مروی ہے:
''ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امرھم عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریۃ شاۃ''(سنن نسائي، کتاب العقیقة و ترمذي، کتاب الأضاحي باب في العقیقة و إسنادہ، جید)
ترجمہ: ''رسول اللہ ﷺنے انہیں حکم فرمایا کہ لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں او رلڑکی کی طرف سے ایک بکری۔''

(3)ایک اور حدیث میں ''شاتان مکافئتان'' کی جگہ ''شاتان مثلان'' کے ہم معنی الفاظ بھی ملتے ہیں:
''عن الغلام شاتان مثلان و عن الجاریۃ شاۃ''(سنن أبي داود، کتاب الأضاحي باب في العقیقة و إسنادہ جید)
ترجمہ: "لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری''

(4)ایک اورمقام پر سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں:
''ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاتان مکافئتان''(الطحاوی ج1 ص457 باسناد صحیح)
ترجمہ:''جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ) وہ یہ ہے کہ( دو ایک جیسی بکریاں''

٭بہر حال عقیقہ کے لیے بکرا بکری یا اسے سے مشابہ جانور مثلاً بھیڑ یا مینڈھا اور دنبہ ہی ذبح کرنا چاہیے جیسا کہ اوپر بیان کی ہوئی تمام احادیث سے ثابت ہے۔

٭البتہ جانوروں کے انتخاب میں ایک جیسے ہونے، جانوروں کی عمر ایک سال مکمل ہونے اور غالب جسمانی عیوب سے پاک ہونے کے علاوہ کوئی اورمعیار نہیں ہے۔
مثلاً رنگ اور وزن وغیرہ ۔
٭جانوروں کا قد، عمر او رجنس میں یکسانیت جانوروں کے ایک جیسا ہونے کے لیے کافی ہے۔

٭جنس سے مرا دیہ ہے کہ اگر بکری سے عقیقہ کرنا ہے تو دونوں جانور بکریاں ہی ہوں، ایک بکری اور ایک بھیڑ نہ ہو۔ ذبیحہ کے جانوروں میں نر و مادہ کی تمیز بھی نہیں کی جائے گی جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہے۔
ام کرز کعبیہؓ بیان کرتی ہین کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان و عن الانثیٰ واحدۃ ولا یضرکم ذکرانا او اناثا''(مسنداحمد و سنن الترمذی مع التحفہ صفحہ 2؍362)
ترجمہ:''لڑکے پر دو بکریاں ہیں او رلڑکی پرایک، اور تم پر کوئی حرج نہیں خواہ جانور نر ہوں یا مادہ''

٭بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ لڑکے کے لیے نر جانورذبح کرنا چاہیے اور لڑکی کے لیے مادہ جانور،،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ بات محض لا علمی اور جہالت پر مبنی ہے۔
سنن ابی داؤد، سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کا بیان ہے :
"
عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ بِکَبْشَیْنِ بِکَبْشَیْنِ"
"رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسینؓ کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"
( سنن نسائی: ۴۲۲۴... علامہ البانیؒ نے ارواء الغلیل: ۴؍۳۷۹ میں اس روایت کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔)
٭احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنسوں: بھیڑ اور بکری ہی کا عقیقہ مسنون و مشروع ہے۔
٭عقیقہ میں گائے اور اونٹ کفایت نہیں کرتے، نیز قولِ سيده عائشہؓ بھی اس مفہوم کی تائید کرتا ہے۔
جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہؓ صدیقہ سے کہا گیا :
اے امّ المومنین!
"
عَقِّی عَنْهُ جَزُوْرًا، فَقَالَتْ : مَعاَذَ اللهِ! وَلٰکِنْ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ"
ترجمہ: "اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ !
بلکہ ہم وہ ذبح کریں گےجو رسول ﷺ نے فرمایا ہے:"لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں۔"( سنن بیہقی: ۹؍۳۰۱ إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔)

٭عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا ثابت نہیں اور جس روایت میں عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنے کی مشروعیت ہے وہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔
اور وہ یہ کہ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ فَلْیَعُقَّ مِنْ الإِْبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ"
ترجمہ:"جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ عقیقہ میں اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔"( طبرانی صغیر : ۲۲۹... یہ روایت مسلسل بالضعفاء ہے۔ (موضوع)
۔اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں۔
۔عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے۔
-مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے۔
-حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے۔

محدث میگزین


مکمل تحریر >>

کن کن سے پردہ کرناضروری نہیں ہے؟

کن کن سے پردہ کرناضروری نہیں ہے؟

عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی اور عورت کا محرم وہ ہوتا ہے جس سے ہمیشہ کیلئے نکاح حرام ہو، حرمت نکاح کے تین اسباب ہیں :
1۔ قرابت داری
2۔ دودھ کا رشتہ
3۔ سسرالی تعلق
نسبی محارم :
قرابت داری کی وجہ سے محارم کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1۔ آباءو اجداد : عورتوں کے باپ، ان کے اجداد اوپر تک، ان میں دادا اور نانا سب شامل ہیں۔
2۔بیٹے : عورتوں کے بیٹے، ان میں بیٹے، پوتے، نواسے وغیرہ۔
3۔ عورتوں کے بھائی : ان میں حقیقی بھائی، باپ کی طرف سے اور ماں کی طرف تمام بھائی شامل ہیں۔
4۔ بھانجے اور بھتیجے : ان میں بھائی کے بیٹے اور بہن کے بیٹے اور ان کی تمام نسلیں شامل ہیں۔
5۔ چچا اور ماموں : یہ دونوں بھی نسبی محارم میں شامل ہیں، انہیں والدین کا قائم مقام ہی سمجھا جاتا ہے، بعض دفعہ چچا کو بھی والد کہہ دیا جاتا ہے۔
رضاعی محارم :
اس سے وہ مراد ہیں جو رضاعت یعنی دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں، حدیث میں سے کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے ( مسند امام احمد ص 131 ج 1 ) جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کو پردہ نہ کرنا جائز ہے اس طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کیلئے پردہ نہ کرنا مباح ہے یعنی عورت کے رضاعی بھائی، رضاعی والد اور رضاعی چچا سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا، افلح، آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت نہ دی بلکہ ان سے پردہ کر لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے پردہ نہ کرو اس لئے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ ( صحیح مسلم، الرضاع : 1445)
اس حدیث کے مطابق عورت کے رضاعی محارم بھی نسبی محارم کی طرح ہیں لہٰذا رضاعی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سسرالی محارم :
عورت کے سسرالی محارم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے شادی کی وجہ سے ابدی طور پر نکاح حرام ہو جاتا ہے جیسا کہ سسر اور اس کا بیٹا یا داماد وغیرہ۔ والد کی بیوی کیلئے محرم مصاھرت وہ بیٹا ہو گا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، سورۃ النور کی آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے سسر اور خاوند کے بیٹوں کو شادی کی وجہ سے محرم قرار دیا ہے اور انہیں باپوں اور بیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انہیں پردہ نہ ہونے کے حکم میں برابر قرار دیا ہے۔
مذکورہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ جتنے بھی رشتہ دار ہیں ان سے عورت کو پردہ کرنا چاہیے خواہ وہ چچا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح خاوند کے چچا اور ماموں سے بھی بیوی کو پردہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے خاوند کے چچا یا ماموں ہیں اس کے نہیں ہیں۔ 
( واللہ اعلم )
منقول
أعلى النموذج


مکمل تحریر >>

عید میلاد مختلف بریلوی علماء کی نظر میں

عید میلاد مختلف بریلوی علماء کی نظر میں



٭مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اصل نہیں ہے اس کی ابتداء چاتھی صدی عیسوی میں ھوئی سب سے پہلے مصر میں نام نہاد شیعوں نے یہ جشن منایا-(الخطط اللمقریزی 490/1)
نبی کے یوم پیدائیش کو یوم میلاد قرار دینا عیسایئوں کا وطیرہ ہے مروجہ عید میلادالنبی، عید میلاد عیسی کے مشابہ ھے اور بدعت سیہ ہے، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے، صحابہ کرام کے زمانے بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا ثبوت نہیں ملتا یہ بعد کی ایجاد ہے۔

٭احمد یار خان نعیمی صاحب فرماتے ھیں کہ "میلاد شریف تینوں زمانوں نہ کسی نے کیا بعد کی ایجاد ھے" (جاءالحق 236/1)

٭جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف حقیقت کرتے ھیں کہ "سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے میلاد کی محافل منعقد نہیں کیں" (شرح صحیح مسلم 179/3)

٭جناب عبدالسمیع رامپوری بریلوی صاحب لکھتے ھیں کہ "یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی ایک مخصوص مہنے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وھی بارھوں دن معین کرنا بعد میں ھوا ھے یعنی چھٹی صدی کے آخر میں"
(انوار ساطعہ 159)

٭خود طاھر القادری صاحب اپنی کتاب "میلاد النبی" میں لکھتے ھیں کہ صحابہ 12 ربیع الاول کو میلاد نہیں مناتے تھے بلکہ غمگین رھتے تھے کیونکہ جب ان کی زندگی میں 12 ربیع الاول کا دن آتا تو وصال کے غم میں پیدایئش کی خوشی دب جاتی۔ منقول

مکمل تحریر >>

Saturday, December 27, 2014

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت اور جشن عید میلاد

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت  اور جشن عید میلاد
=========================



صحیح حدیث میں مذکور ہےکہ رسول الله صلى الله عليه و سلم کی ولادت مبارکہ کا دن سوموار ہے ، اور تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے ، کیونکہ یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔

اب ره گئی یہ بات کہ مہینہ کون سا ہے ؟
 جہاں تک مہینہ کا تعلق ہے تو اس بارے میں علماء ومؤرخين کا اجماع ہے کہ آپ کی ولادت ربيع الأول کے مہینہ میں ہوئی ہے ۔

ولادت کی تاریخ کون سی ہے ؟
تو یاد رہے کہ آپ کی ولادت مبارکہ کی تاریخ میں اہل علم کا اختلاف ہے ، اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ، جن کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔

(1) علامہ ابن عبد البر اور علامہ أبی معشر کی رائے ہے کہ : آپ کی ولادت مبارکہ کی تاریخ دو ( 2 ) ربيع الأول ہے۔

(2)امام مالك اور امام زہری اور امام ابن حزم اورحافظ محمد بن موسى الخوارزمي ، کی رائے ہے کہ : ولادت کی تاریخ آٹھ ( 8 ) ربيع الأول ہے ، اور حافظ أبو الخطاب بن دحيه نے اپنی کتاب (التنوير في مولد البشير النذير) میں اسی قول کو راجح کہا ہے۔

(3) امام ابن عساكر ،امام شعبی اورابوالفداءکی رائے ہے کہ : آپ کی ولادت کی تاریخ دس ( 10 ) ربيع الأول ہے ۔

(4) امام ابن اسحاق ،طبری اور ابن خلدون وغیرہ کی رائے ہے کہ : ولادت کی تاریخ باره ( 12) ربيع الأول ہے ۔

(5) بعض نے ستره ( 17 ) ربيع الأول اور بعض نے اٹهاره ( 18) ربيع الأول  اور بعض نے بیس (22) ربیع الاول بهی کہا ہے .
جیساکہ حافظ ابن کثیرؒ  لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ ﷺاس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔

(6) سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ولادتِ شریفہ دوشنبے کے دن ہوئی اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ کے دن ۹/ربیع الاوّل کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ۹/ربیع الاول ہی میں ولادت مبارکہ ہوئی۔ چنانچہ فلکیات کے مشہور مصری عالم اور محقق محمود پاشا کی تحقیق بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ شریفہ دوشنبہ کے دن، ۹/ربیع الاوّل کو واقعہٴ فیل کے پہلے سال ہوئی، اسی طرح ”تاریخ دول العرب والاسلام“ میں محمد طلعت عربی نے ۹/تاریخ ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔ (رحمة للعالمین)


اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر میلاد کا دن عبادت ہوتا تو ضرور معلوم ومشہور ہوتا ، اس میں علماء اہل سنت کا اختلاف نہ ہوتا ، اور پهر رسول الله صلى الله عليه و سلم کی ولادت کی تاریخ ایک قول کے مطابق بعینہ وفات کی تاریخ بهی ہے ، تو اس دن میں جشن منانے کا کیا معنی ہے ؟
باره 12 ربیع الاول کو جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی ، تو اس دن صحابہ کرام کی کیا حالت تھی ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو شدت غم سے ہوش کھو بیٹھے تھے ، پھرہم اس دن جشن یا عید کس طرح منا سکتے ہیں ؟

 جب کہ اس دن رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی ، اور آپ کی وفات کے دن تو مدینہ منوره میں قیامت کا سا منظر تھا۔ 
مکمل تحریر >>