Wednesday, May 18, 2016

منشیات شرعی وطبی نقطہ نظرسے

منشیات شرعی وطبی نقطہ نظرسے

مقبول احمد سلفی
دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف(مسرہ) سعودی عرب

مذاہب عالم میں فوقیت وبرتری کا حامل دین صرف اسلام ہے جس میں شعبہائے حیات کے تمام ترپہلوؤں کو واشگاف کیا گیا ہے اور انسان کے لئے مہلک ترین عناصر کی طرف واضح اشارات کردئے گئے ہیں جو ایک عام ذہن کے لئے بھی قابل قبول ہے۔
انسانی زندگی کو متاثر اور بدترین نتیجہ خیز دہانے تک پہنچانے والے عناصر میں منشیات کا غیرمعمولی دخل ہے ۔یہ بنی  نوع آدم کے لئے سراپا سوہان روح ہے ۔ اس کے تلخ تجربات ومشاہدات کا دنیا کو اچھی طرح سے اندازہ ہوچکا ہے ۔ اس نے کتنے انسانوں کی خوشگوار شام پر آہ وزاری کی برسات کردی ، کتنے آباد گھروں میں ویرانی کا سماں پیدا کردیا، کتنے مہکتے پھولوں کومرجھاکرگلستاں کی شادابی ودلکشی پر اپنی سیاہ نشانیاں چھوڑ دی ۔ مذہب اسلام کا حتمی فیصلہ ہے کہ جن باتوں سے بھی اسلام اور مسلمانوں پہ حرف آتا ہواسے ممانعت کے دائرے میں رکھاہے۔ چونکہ منشیات سے انسانی جسم وروح کے لئے بگاڑ وفساد کا سبب بنتا ہے بلکہ بسااوقات آدمی کی جان بھی چلی جاتی ہے اس بناپر منشیات کا استعمال شریعت کی رو سے حرام ہے ۔
منشیات کا دائرہ کار:
منشیات یہ نشہ سے مشتق ہے جس کے لئے عربی زبان میں "خمر" کا لفظ عام طور سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خمر کی وضاحت بایں الفاظ کی ہے :
والخمرُ ما خامر العقلَ .(صحيح البخاري: 5581و صحيح مسلم:3032)
 یعنی خمر کا اطلاق ہرنشہ آورچیز پر ہوتا ہے ۔ اس کی تائید مسلم شریف کی ایک اور روایت سے ہوتی ہے ۔
 كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ خَمرٍ حرامٌ(صحيح مسلم:2003)
 کہ ہرنشہ آور چیز خمر کہلاتی ہے اور ہرقسم کا خمر حرام کردیا گیا ہے ۔
یہاں یہ اعتراض پیدا کرنا بے جاہوگاکہ گرکم مقدار میں نشہ والی اشیاء استعمال کرنے سے نشہ نہ پیدا ہونے پر اتنی مقدار پیناجائز ٹھہرے گا۔اس اعتراض کی گنجائش بایں طور نہیں ہے کہ نشہ کے سلسلے میں اسلام کا دوسر ا اصول یہ ہے ۔
ما أسكرَ كثيرُهُ ، فقليلُهُ حرامٌ(صحيح الترمذي:1865)
 جس کا زیادہ حصہ نشہ آور اور مفترہواس کا کم مقدار میں بھی استعمال کرنا حرام ہے ۔
مذکورہ تعریف کو اصول بنانے سے منشیات کے زمرے میں شراب، تمباکو،بیڑی،سگریٹ،گل،گٹکھا،گانجہ،بھنگ،چرس،کوکین، حقہ،افیم ،ہیروئین،وہسکی،سیمپین،بئر،ایل ایس ڈی،حشیش  اورمخدارت کی تمام اشیاء شامل ہیں۔
منشیات شریعت کی رو سے :
قرآن کریم کا ایک بڑا معجزہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ کم ہوتے ہیں مگر اپنے اندر بہت سارے معانی پوشیدہ رکھتے ہیں۔منشیات کے تعلق سے قرآن کریم میں "خمر"کا استعمال حکمت عملی سے کم نہیں جس نے قیامت تک پیدا ہونے والی ساری نشہ آور چیزوں کو حرمت میں شامل کرلیااور کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہ چھوڑی کہ شراب کے لئے حرمت ثابت ہے مگر بیڑی سگریٹ گٹکھا وغیرہ کے لئے حرمت منصوص نہیں۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدة:90)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں۔اان سے بالکل الگ رہوتاکہ تم فلاح یاب ہو۔
یہ آیت کریمہ منشیات کی ساری قسموں کو حرام ٹھہرانے کے لئے کافی ہے اور اس آیت سے علماء وفقہاء کی ایک جماعت نےچودہ طریقوں سے منشیات کی حرمت ثابت کیاہے ۔مثلا
(1) منشیات کے لئےرجس کا لفظ استعمال کیاگیااور ہرقسم کے "رجس" (گندی) چیز کا استعمال اسلام میں حرام ہے۔
(2) منشیات کو شیطانی عمل قرار دیا گیااور ہرشیطانی عمل حرام ہے۔
(3) منشیات سے اجتناب کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اجتناب اسی چیز سے کیاجاتا ہے جو شریعت کی نظرمیں حرام ہو۔
(4) فلاح کا انحصارترک منشیات پر ہےگویا منشیات کا استعمال حرام ہےورنہ فلاح کو ترک منشیات پہ موقوف نہ کیا جاتا۔ وغیرہ
نشہ کی حالت اسلام کی نظر میں اتنا مبغوض ہے کہ راس العباد(نماز) سے نشہ باز کوروک دیاگیاچنانچہ قرآن حکیم میں وارد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ(النساء :43)
ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہونماز کے قریب بھی نہ جاؤجب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔
اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ضرررساں اشیاء کو حرام ٹھہرانے میں غیرواضح الفاظ کا استعمال نہیں کرتاتاکہ مکلفین اعمال اس کے استعمال اورترک کے متعلق تردد میں رہے گرچہ ان ضرررساں اشیاء میں کچھ فائدہ کیوں نہ پوشیدہ ہو۔گویا اسلام نے خالص مفید اور بارآوراشیاء کو حلال ٹھہرایاہے اسی نکتہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ(البقرة:219)
ترجمہ: لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے ۔
حدیث کے شہ پاروں میں بھی منشیات کی حرمت کے بےشمار دلائل ہیں۔مثلا منشیات کو "مسکر" کہکراس کی حرمت کا اعلان کیا۔
 كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ مُسكِرٍ حَرامٌ(صحيح مسلم:2003)
ترجمہ: ہرنشہ آورچیز خمرہےاور ہرنشہ والی چیز حرام ہے ۔
اسی طرح مسلم کی دوسر ی روایت میں ہے ۔
ولا تشرَبوا مُسْكِرًا( صحيح مسلم:977)
ترجمہ:اور نشہ آورچیز کا استعمال مت کرو۔
آدمی جب بیماری سے دوچارہوتا ہے تو اپنے آپ کو موت کی دہلیز پرمحسوس کرتا ہے یعنی ہرآن اسے موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے ۔مریض اوراس کے رشتے دار کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو شفا مل جائے اور جب اضطراری حالت درپیش ہو اور خنزیر کی حاجت پڑجائے تو اسلام نے اس کی اجازت دی ہے پرموت وحیات کی کشمکش میں منشیات سے جان بچانے کی قطعی اجازت نہیں۔ایک صحابی طارق بن سوید الجعفی رضی اللہ عنہ نے شراب کو بطوردوا استعمال کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی تو آپ نے ان سے فرمایا:
إنه ليس بدواءٍ . ولكنه داءٌ (صحيح مسلم:1984)
کہ شراب دوا تو نہیں ہے مگر بیماری ضرور ہے یعنی یہ بیماری کا سبب بنتی ہے ۔ نشہ باز کے لئے بڑی سخت وعید یں ہیں ۔نشہ باز کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ یُقْبَلِ لَہُ صَلَاۃُ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَإِنْ عَادَ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلَاۃَ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَإِنْ عَادَ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلَاۃَ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَإِنْ عَادَ الرَّابِعَۃَ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلَاۃَ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ لَمْ یَتُبِ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَقَاہُ مِنْ نَھْرِ الْخَبَالِ۔ قِیْلَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمَا نَھْرُ الْخَبَالِ؟ قَالَ: نَھْرٌ مِنْ صَدِیْدِ أَھْلِ النَّارِ۔(صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۵۱۷)
ترجمہ : '' جس نے شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں کرتا اور اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اگر دوبارہ لوٹا (شراب پی) تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں فرماتا اور اگر توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور اگر (تیسری مرتبہ) پھر لوٹا تو اللہ تعالیٰ پھر اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں فرماتا اور اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرلیتا ہے اور اگر چوتھی مرتبہ لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں فرماتا اور اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول نہیں فرماتا اور اسے نہر الخبال سے پلائے گا۔ کہا گیا: اے ابو عبدالرحمن! (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) نہر خبال کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جہنمیوں کی پیپ کی نہر ہے۔ ''
ایک دوسری روایت میں ہے '' جس نے شراب پی ،اللہ تعالیٰ اس سے چالیس راتیں راضی نہیں ہوتا ۔اگر وہ (اسی حالت میں) مرگیا تو کفر کی موت مرا اور اگر توبہ کرلی تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اگر دوبارہ یہ حرکت کی (شراب پی) تو اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اسے طینۃ الخبال سے پلائے۔ سیّدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! طینۃ الخبال کیا چیز ہے؟ فرمایا: جہنمیوں کی پیپ ہے۔ ''
( مسند احمد ح 27475) اس کی سند جید ہے ۔
 شراب نوشی سی ایمان نکل جاتا ہے ۔
لا يزني الزَّاني حينَ يزني وهوَ مؤمِنٌ ولا يسرقُ السَّارقُ حينَ يسرقُ وهوَ مؤمنٌ ولا يشرَبُ الخمرَ حين يشربُها وهوَ مؤمنٌ (صحيح مسلم:57)
ترجمہ: زانی جب زنا کررہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اورچوری کے وقت چورمومن نہیں رہتا اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ بھی اس وقت مومن نہیں ہوتا ۔
نشہ کی حرمت پہ تمام مکاتب فکر کے علماء کا اتفا ق ہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب میں بھی اس کی تباہ کاری کا تذکرہ ملتا ہے ۔ سائنسداں سے لیکر سبھی اطباء اس کو جسم کے لئے نقصان دہ بتلاتے ہیں۔ نشہ والی چیزوں کے پیکٹ پہ اس کی ہلاکت خیزی کا انتباہ ضرور ہوتا ہے جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ نشہ باتفاق مذاہب عالم ضرررساں ہے اس لئے اس کے حرام ہونے میں کوئی تردد نہیں ۔
ایک شبہ کا ازالہ :
مجھے اس بات پہ حیرت ہے کہ تمام اطباء منشیات کی ساری قسموں کو جسم کے لئے نقصان دہ بتلاتے ہیں جبکہ کچھ نشہ خور مولوی گل منجن،سورتی ،زردہ اور بیڑی سگریٹ وغیرہ کو جائز بتلاکر اپنے لئے نشہ خوری کی حلت کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔اس حال میں کہ قرآن وحدیث کے نصوص سے اس کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔علمائے اسلام نے نام لے لے کرمزید اس کو واضح کیا۔اس کے باجود بعض منشیات کی حرمت کا انکار کرنے والے کم علمی کے شکار یا نشہ خوری کو شہ دینے کی خاطر یہ حربہ اپنائے ہوئے ہیں۔ منشیات کو جہاں شیطانی کام قرار دیا گیا وہیں اسےرجس یعنی خبیث چیز بھی کہاگیا اور قرآن کی ایک دوسری آیت سے ہرخبیث چیز کو حرام کردیا گیا ہے ۔
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ(الاعراف : 157)
ترجمہ: اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں۔
اسی طرح یہ فضول خرچی کا بھی باعث ہے اور فضول خرچی پہ کوئی کلام ہی نہیں۔
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا (الاسراء :29)
ترجمہ: اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ ار نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے ۔
منشیات کی حرمت کے مصالح :
کسی بھی چیز کے استعمال یا ترک کے کچھ مصالح ہوا کرتے ہیں اور منشیات کی حرمت کے لئے جو مصلحتیں ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) نشہ ایک طرح کا اندھا پن ہے ،اس حالت میں آدمی قتل کا ارتکاب کرسکتا ہے اس لئےانسانی جان کے تحفظ کی خاطرقتل تک پہنچانے والے ذریعہ کا سد باب کیا گیا۔
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ(المائدہ: 32)
ترجمہ: جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہویا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیااور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا۔
 (2) عزت وآبرو اور مال ودولت کا تحفظ اسلام کی اساسی تعلیمات میں سے ہے اور نشہ کی حالت میں کوئی بعید نہیں کہ اسلام کی اساسی تعلیم پر آنچ آجائے ۔ اس بناپر نشہ کو حرام قراردیا گیا۔
كلُّ المسلمِ علَى المسلمِ حرامٌ ، دمُهُ ، ومالُهُ ، وَعِرْضُهُ( صحيح مسلم:2564)
ترجمہ: ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
 (3) نشہ کے عالم میں آدمی خودکشی جیساسنگین جرم کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے جوشریعت کی نظر میں حرام ہے ۔
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ (البقرۃ:195)
ترجمہ : اپنا ہاتھ ہلاکت میں مت ڈالو۔
 (4) اس حالت میں نشہ باز کے اندر دوسرے آدمی کے لئے عداوت ودشمنی کی آگ بھڑک سکتی ہے جو آپس میں ایک دوسرے لئے خون خرابے کا باعث ہے ۔
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ (المائدۃ:91)
ترجمہ: شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرادے اور اللہ تعالی کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔
منشیات طب کی روشنی میں :
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اور اس کے اندر حرف حرف  سچائی ہے ۔ اسلام نے جس چیز کو حرام کہہ دیا وہ انسانیت کے لئے بلاشک  نقصان دہ  ہوگا اور ایک مسلمان کے لئے اسلام کی حرمت کے بعد کسی دوسرے مذہب یا طبقہ سے حرمت کی تائید کرنے کی کوئی ضرروت نہیں ۔ہمارے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حلال کردہ حلال اور حرام کردہ حرام کافی شافی ہے ۔ پھر بھی برسبیل تذکرہ ہم یہ بتادیتے ہیں کہ طب کی روشنی میں بھی منشیات کے بے شمار نقصانات سامنے آئے ہیں جو شمار سے باہر ہیں ۔
منشیات سے پیدا ہونے والے امراض :
منشیات کی حقیقت کا اندازہ اس امر سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے سیکڑوں امراض پیدا ہوتے ہیں جو انسانیت کے لئے سم قاتل ہے ۔ شراب، تمباکو،بیڑی، سگریٹ،گٹکھا،گانجہ،چرس وغیرہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں حلق کی خرابی،جگرکی خرابی،امراض قلب،اسقاط حمل، قلت عمر،زخم معدہ،خون فاسد،تنفس کی خرابی،ہچکی،کھانسی،پھپھڑوں کی سوجن،کینسر،سردرد، بے خوابی،دیوانگی، ضعف اعصاب،فالج،مراق،ہارٹ اٹیک،ضعف بصارت،دمہ، ٹی وی،سل، خفقان،ضعف باہ،بواسیر،دائمی قبض،گردے کی خرابی،ذیابطیش وغیرہ اہم بیماریاں ہیں ۔ ان میں بعض ایسی بیماریاں ہیں جن ک انجام سرعت موت ہے ۔ اطباء کے قول کی روشنی میں تمباکو میں تین خطرناک قسم کے زہریلے اجزاء کی ملاوٹ ہوتی ہے ۔ ان اجزاء میں ایک روغنی اجزاء سے بناہوا نیکوٹین ہے ۔اگر اس روغن کو نکال کراس کا صرف ایک قطرہ کتے ،بلی یا کسی بھی جانور کو کھلایا جائے تو فورا وہ موت کے منہ میں چلا جائے گا۔
مذکورہ بیانات کی روشنی میں بالبداہت منشیات کی حرمت کا اندازہ ہوجاتا ہے لہذا اس حقیقت کا انکار کرنا ویسے ہی ہے جیسے سورج چاند ستارے کا انکار کرنا۔  


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔