نابالغ بچے کی امامت
بچوں کی امامت
کی شرائط میں کوئی ایسی شرط نہیں ہے کہ بچہ امامت کے اہل نہیں تاہم بچہ طہارت
ونجاست کی تمیز کرسکتا ہو.
اگر بچہ سمجھدار ہے اور سن رشد
میں پہنچ کر اپنی پاکی پلیدی کا خیال رکھتا ہے تو اس کی امامت بلا کراہت جائز
ہے۔حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ہماراگھر
مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک ایسی جگہ پر واقع تھا جہاں مسلمان بکثرت گزرتے
تھے۔میں نے ان سے مسلمان ہونے سے پہلے قرآن کریم کا کافی حصہ یاد کرلیا تھا۔
جب فتح مکہ ہوا تو میرے والد محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ
میں حاضر ہوئے اور اپنا اسلام پیش کیا۔آپ نے نماز روزہ کے متعلق ہدایات دینے کے
ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے
اور جسے قراءت زیادہ یاد ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔ مجھے چونکہ قرآن کا
کافی حصہ یاد تھا۔ا س لئے جماعت کے لئے مجھے منتخب کرلیا گیا اس وقت میری عمر
بمشکل چھ یا سات سال تھی۔دوران جماعت مجھ پر صرف ایک چادر ہوتی جو بعض اوقات بحالت
سجدہ پیچھے سے ایک طرف ہٹ جاتی ایک دن کسی عورت نے کہا کہ اپنے امام کی مکمل طور
پر ستر پوشی تو کرو ۔اہل قبیلہ نے مجھے ایک قیمص بنوادی جس سے مجھے بہت خوشی
ہوئی۔(صحیح بخاری :کتاب المغازی 4302)
اس
حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ بچہ جسے طہارت ونجاست کی تمیز
ہے وہ فرائض کی امامت بھی کراسکتا ہے .
2 comments:
یہ مسئلہ غلط ہے
یہ مسئلہ غلط ہے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔